حدیث میں مذکور ہے ” اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ“نماز میں سکون اختیار کرو اور یہ جملہ حکمیہ ہے۔
نماز میں رفع الیدین کی کتنی کیفیات پائی جاتی ہیں؟ بہرحال وہ جتنی بھی ہوں اور جیسی بھی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع فرما دیا لہٰذا؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی سے بچیں
نماز کے اندر جتنی بھی جیسی رفع الیدین کے دو حوالے ہدایہ سے اوپر گزر چکے ، مزید صریح حوالہ ملاحظہ کریں :
صاحب کنز الدقائق لکھتے ہیں :
لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي فقعس صمعج
اس کی شرح میں ابن نجیم لکھتے ہیں :
أَفَادَ بِهَذِهِ الْحُرُوفِ سُنِّيَّةَ رَفْعِ الْيَدَيْنِ فِي ثَمَانِيَةِ مَوَاضِعَ: ثَلَاثَةٌ فِي الصَّلَاةِ فَالْفَاءُ لِتَكْبِيرَةِ الِافْتِتَاحِ وَالْقَافُ لِلْقُنُوتِ وَالْعَيْنُ لِلْعِيدَيْنِ، وَخَمْسَةٌ فِي الْحَجِّ: فَالسِّينُ عِنْدَ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ وَالصَّادُ عِنْدَ الصُّعُودِ عَلَى الصَّفَا وَالْمِيمُ لِلْمَرْوَةِ وَالْعَيْنُ لِعَرَفَاتٍ وَالْجِيمُ لِلْجَمَرَاتِ
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (1/ 341)
اس عبارت میں ابن نجیم نے صراحتا اقرار کیا ہے کہ احناف کے نزدیک
نماز کے اندر تین جگہوں پر رفع الیدین ہے ۔ تکبیر تحریمہ کے وقت ، قنوت وتر میں ، نماز عیدین میں ۔
بلکہ ایک اور جگہ نقل کرتے ہیں :
لَوْ صَلَّى خَلْفَ إمَامٍ لَا يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ عِنْدَ تَكْبِيرَاتِ الزَّوَائِدِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، وَلَا يُوَافِقُ الْإِمَامَ فِي التَّرْكِ ۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 174)
اگر کسی ایسے امام کے پیچھے نماز عید پڑھے جو تکبیرات عیدین میں رفع الیدین نہیں کرتا تو مقتدی کرے ، اور امام کی ترک رفع الیدین میں موافقت نہ کرے ۔
جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا اس کو کرنے والے کے لئے سخت سے سخت الفاظ ہی ہونے چاہیئیں
جی ان کو بھی شامل کریں جو تین جگہوں پر مخالفت کرتے ہیں ، اور بقول آپ کے شریر گھوڑے بن کر دکھاتے ہیں ۔
محترم! سوچ سمجھ کر لکھیں اتنی جلدی کاہے کو۔ بات نماز میں کی جانے والی ان رفع الیدین کی ہے جن کے لئے کوئی مسنون ذکر نہیں نہ کہ نماز سے باہر والی متفق علیہ کی۔
جناب آپ نماز کے اندر تین جگہوں پر رفع الیدین کرتے ہیں ، اور نماز سے باہر آٹھ جگہوں پر ۔ کسی کو شریر گھوڑا کہنے کے شوق میں اپنے مذہب سے ہی جہالت یا تجاہل کا دکھا رہے ہیں ۔
موطأ مالك - (ج 1 / ص 222)
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ ۔۔۔۔۔ الحدیث
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ۔۔۔۔ الحدیث۔
تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین بھی حنفی بزرگوں کے ہاں نماز اندر والا ہی ہے ۔ اور حدیث میں بھی اس کی مخالفت نہیں ، نماز شروع کرتے ہوئے ہاٹھ اٹھانے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نماز سے باہر کی کوئی چیز ہے ۔
اس رفع الیدین کے متعلق مزید کچھ حوالے جس میں اسے نماز کے اندر کا قرار دیا گیا ہے :
بَاب رفع الْيَدَيْنِ فِي صَلَاة الْجِنَازَة وَقَالَ ابو حنيفَة رَحمَه الله لَا يرفع يَدَيْهِ الا فِي التَّكْبِيرَة الاولى
الحجة على أهل المدينة (1/ 362)
وَأما مَا يَقع فِي الصَّلَاة سوى الْفَرِيضَة فمسنون وفضيلة وأدب ومنهى ومكروهفَأَما الْمسنون فَهُوَ أحد عشر خصْلَة :احدها رفع الْيَدَيْنِ عِنْد التَّكْبِيرَة الاولى
النتف في الفتاوى للسغدي (1/ 63)
لو كان جميع مافعل النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة ركنا لكان ينبغي أن يكون رفع اليدين في تكبيرة الافتتاح وفي كل خفض ورفع عنده والثناء في الافتتاح والتحميد والتسميع وتسبيحات الركوع والسجود وسائر ما فعله من الآداب أيضا من الأركان ۔
الغرة المنيفة في تحقيق بعض مسائل الإمام أبي حنيفة (ص: 37)
ان تمام حوالوں میں تکبیر تحریمہ والے رفع الیدین کو نماز کے اندر کی چیز قرار دیا گیا ہے ۔
خیر قنوت وتر اور تکبیرات عیدین میں آپ کا کیا عذر ہے ؟
کیا ان تینوں رفع الیدین کو نماز کے اندر کا کہنے میں حنفی بزرگوں سے غلطی ہوئی ہے ؟