محترم! انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دن رات ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول“ کی رٹ لگانے والےان دونوں کے ساتھ کیسا استہزا کر رہے ہیں!!!!!
حاشا و کلا ۔ اس شخص پر آسمان ٹوٹ پڑے ، زمین پاؤں تلے سے سرک جائے ، جو بد بخت قرآن وسنت کے کسی چھوٹے سےچھوٹے حکم کے ساتھ بھی استہزاء کرے ۔
قرآن وسنت کی تعلیمات تو اپنی جگہ روشن اور واضح ہیں ، یہاں بات آپ کے فضول اور مضطرب دعوی کی ہورہی ہے ، کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والوں کو ’’ شریر گھوڑے ‘‘ کہہ رہے ہیں ، کہنے کو حدیث پیش کر رہے ہیں، لیکن نہ تو حدیث میں آپ کا دعوی ذکر ہے ، اور نہ ہی جو آپ حکم لگارہےہیں ۔ میں نے آپ سے پہلے بھی گزارش کی کہ حضور نے فعل کو فعل سے تشبیہ دی ہے ، آپ فاعل کو فاعل سے تشبیہ دے رہے ہیں ، اب اگر ہم آپ کی عقل پر ماتم کریں تو اس کا رخ حدیث رسول کی طرف کیوں موڑتے ہیں ؟
رہا آپ کا دعوی اور حدیث سے اس کا ثبوت تو میں پہلے واضح کر چکا ہوں :
ایک غلط دعوی کیا ہے ، اور اس پر مزید مکھی پر مکھی مار رہے ہیں ، اور اوپر سے اپنے دعوی پر حدیث کو صریح بھی کہہ رہے ہیں ، کیا خوب لیاقت ذہن اور رجاحت عقل ہے جناب کی !
دعوی آپ کا یہ ہے کہ :
’ جو رکوع جاتے ، رکوع سےسر اٹھاتے ، تیسری رکعت سے اٹھتے ہوئے رفع الیدین کرکے گا ، وہ ( حدیث جاننے کے بعد ) شریر گھوڑا ہے ،
ہاں البتہ اگر یہی رفع الیدین تکبیر تحریمہ کے وقت ہو ، نماز وتر میں عند القنوت ہو ، یا تکبیرات عیدین کے ساتھ ہو ( یا پھر ذکر کے ساتھ ہو ) تو پھر کرنے والا شریر گھوڑا نہیں ۔
جبکہ اس مضطرب اور فضول دعوی( جس میں یہ تفصیل اب آنا شروع ہوئی ورنہ پہلے تو مطلقا ہی تھا ) پر جس حدیث کو صریح کہہ رہے ہیں ، اس میں صرف ’’ رفع الیدین ‘‘ اور ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں ، جو آپ کے دعوی کے اعتبار سے بالکل مجمل ہیں ۔
پت نہیں یا تو آپ کو دعوی کی تعریف نہیں آتی ، یا پھر ’’ صریح ‘‘ کیا ہوتا ہے ، اس کا علم نہیں ، یا پھر جان بوجھ کر کھسیانی بلی کھمبا نوچے والا حساب ہورہا ہے ۔
اہلِ حدیث کہلانے والے اس صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم عدولی کے لئے کیا کیا جتن کر رہے ہیں۔
محترم یہ بات میں نے نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی۔ ان سے جا کر پوچھو کہ انہوں نے نماز میں رفع الیدین کرنے والوں کو کیوں ”شریر گھوڑوں“ سے تشبیہ دی ؟
خدا کا شکر ہے ، حدیث بھی جانتے ہیں اور اس کا معنی بھی جانتے ہیں ، لہذا کوئی لفظ حدیث میں ہیرا پھیری کرے یا معنی حدیث میں ، اہل حدیث ہیں دھوکہ نہیں چلنے دیں گے ۔
حدیث کا غلط معنی کرکے سنت رسول پر عمل کرنے والوں کو ’’ شریر گھوڑے ‘‘ کہنے کی جسارت کی ، اللہ کی توفیق سے جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مصداق اس طرح کے حوالے آپ کے ہاں سے برآمد ہوگئے ۔ اب یا تو اہل حدیث کے ساتھ اس کی گئی شرارات سے باز آئیں یا پھر اپنے بزرگوں کو بھی یہ لقب عطا کریں ۔
جبکہ ہمارے نزدیک حدیث کا جو صحیح مصداق ہے ، وہ فعل نہ اہل حدیث کرتے ہیں نہ دیگر اہل سنت مسالک و مذاہب ۔
اب آئیے ”زبان“ ہلانے والی بات کی طرف۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے؛
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي (طٰہٰ)
ذکر ”زبان“ ہلا کر ہی ہوتا ہے خواہ سری ہو یا جہری۔
اہلحدیث کہلانے والے خود دیکھ لیں کہ کون ”شریر“ ہے اور کون ”شریف“۔
جس طرح آپ نے ’’ رفع الیدین ‘‘ اور ’’ اسکنوا فی الصلاۃ ‘‘ کا لفظ لے کر شریر گھوڑوں والی جسارت کی تھی ، اب لفظ ’’ ذکر ‘‘ اور ’’ صلاۃ ‘‘ لے کر ایک نیا کھاتہ کھول رہے ہیں ، ذرا پہلے کو سنبھال لیں ۔ صرف اتنی گزارش ہے کہ ہم نماز بھی قائم کرتے ہیں ، ذکر بھی کرتے ہیں ، اور نماز میں بھی ذکر کرتے ہیں ۔ حدیث کے بعد اب آیت کے ساتھ من مانی نہ کریں ۔
ورنہ اگر آپ اسے رفع الیدین کے ساتھ نتھی کرنے پر مصر ہوئے تو یہ فاتحہ والے مسئلہ پر بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ امام صاحب تو اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں ، لیکن آپ بغیر کسی ذکر کے خاموشی اختیار کرکے اس کی مخالفت کر رہے ہیں ہوتے ہیں ۔
صحاح ستہ پر اعتماد ختم کروا دینے کے بعد اب باری ہے صحیحین کی۔ ان کی احادیث بھی ”مضرب“ اور ”فضول“ ہونے لگیں۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
بعض جہلا کی سب سے بڑی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے جیسا ہی سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ دعوی اور دلیل کا فرق آپ کے نزدیک واضح نہیں ہوگا ، لیکن کم از کم ہم یا دیگر قارئین اس سے بخوبی واقف ہوں گے ۔ ہم نے جو بھی کہا آپ کے دعوی کو کہا ہے ، جب کہ آپ اس سب کو دلیل پر منطبق کر رہے ہیں ۔