دعوی تھا آپ کا نسخ کا لیکن یہ الگ بات ھیکہ آپ رفع الیدین کے منسوخ ھونے پر کوئ دلیل نہ دے سکے.
محترم! صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث پر ہی بحث ہورہی ہے جس سے انکار کے لئے اہلحدیث کہلانے والےجتن کر رہے ہیں۔ اس سے نسخ نہیں ثابت ہو تا تو کیا ترغیب ثابت ہوتی ہے؟
آپکے دعوے اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں‘ آپ نے دعویٰ تو یہ کیا ہے کہ قبل الرکوع اور بعد الرکوع والی رفع الیدین منسوخ ھے حالانکہ صحیح مسلم والی حدیث میں نہ رکوع کا ذکر ہے اور نہ رکوع والی رفع الیدین کا.
محترم! میرا مذکورہ دعویٰ ثابت کریں۔ میں نے صحیح مسلم کی حدیث پیش کی اور کہا ہے کہ نماز میں کی جانے والی ہر رفع الیدین جو ذکر کے بغیر تھی وہ منسوخ ہوگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد۔
اس حدیث سے قبل الرکوع اور بعد الرکوع والے رفع الیدین کے نسخ پر کس محدث نے استدلال کیا ھے؟
محترم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بعد کسی محدث کے استدلال کا کیا مطلب؟ دعویٰ آپ کا ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول“ کا ہے اور یہاں ”تقلید “ کی اتھاہ گہرائیوں میں بصد شوق نہ صرف جانا چاہتے ہو بلکہ دوسروں کو بھی دعوت دے رہے ہو۔ فوا اسفا
حضرت جابر بن سمرہؓ جو اس حدیث کے راوی ہیں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ یہ تشبیہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام والی رفع یدین کے لیے دی تھی۔
مھترم! یہ ان کا بیان بمع سند تحریر فرمادیں۔ یاد رکھیں کہ دھوکہ دہی فری اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔
کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع والی رفع الیدین سے صراحتاً منع فرمایا ہو۔
محترم! اگر کنایۃ ثابت ہو تو پھر نہین مانو گے؟؟؟
اس حدیث کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الاستدلال به على النهى عن الرفع عند الركوع وعندالرفع منه جهل قبيح.
محترم! کیا امام نووی رحمۃ اللہ کیا فقیہ تھے اور آپ ان کے مقلد ہیں؟
حدیث منسوخ ھوگئ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبر تک نہ ھوئ اور وہ رفع الیدین کرتے رھے؟؟؟
محترم! ثبوت؟ کسی صحابی سے ثابت کر دیں کہ اس نے فرمایا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں رفع الیدین کرتے رہے ”حتیٰ لقی اللہ“ اور وہ حدیث صحیح مرفوع اور غیر معارض ہو۔ یہ آپ کا اپنا معیار ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اپنے مسلم بھائی کے لئے وہی پسد کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔
یہ تو منافقین کا شیوہ ھے کہ وہ اپنی مطلب کی بات سنتے ھیں تو دوڑے چلے آتے ھیں:
وَإِذَا دُعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ
وَإِن يَكُن لَّهُمُ ٱلْحَقُّ يَأْتُوٓا۟ إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
ترجمہ: جب یہ اس بات کی طرف بلائے جاتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے جھگڑے چکا دے تو بھی ان کی ایک جماعت منھ موڑنے والی بن جاتی ہے
اسکے برعکس مومنین کا شیوہ کیا ھے وہ بھی سن لیں:
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا۟ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب انہیں اس لئے بلایا جاتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان میں فیصلہ کردے تو وه کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مان لیا۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.
محترم! اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ خود کو ان میں سے کس طبقہ میں شامل کرتے ہیں۔