لیجئے جناب!
صحيح بخاری کتاب الآذان باب وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ لِلإِمَامِ وَالْمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا
ابو ہریرۃ رضى الله تعالیٰ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ ایک شخص مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھنے کے بعد آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص گیا اور اس نے نماز پڑھی اور آکر سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی اس طرح تین دفعہ ہؤا۔ اس کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ مجھے سکھلائیے میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہہ پھر پڑھ قرآن سے جو تمہیں یاد ہو پھر رکوع کر اطمینان کے ساتھ پھر رکوع سے کھڑا ہو اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ کر اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ سے سر اٹھا اور اطمینان سے بیٹھ جا پھر پوری نماز میں ایسا کر۔
مقلد چونکہ عقل و بصیرت سے عاری ہوتا ہے ،اسلئے کوئی علمی بات اس کے آئے بھی تو اس رھنمائی لینے کی بجائے
اس کا الٹا مطلب اخذ کرتا ہے،
اسی پوسٹ کو دیکھ لیجئے جس میں صحیح بخاری کی ایک حدیث شریف نقل کی ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے عجلت کے ساتھ نماز ادا کرنے والے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو " اطمینان " سے اورسنوار کر نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے ،اور تمام ارکان نماز کو تعدیل سے ادا کرنے کو ضروری قرار دیا حالانکہ حنفی فقہ نماز کے ارکان کی تعدیل کے سخت خلاف ہے، چند افراد کر چھوڑ کر تمام حنفی صدیوں سے
"تیز گام اٹھ بیٹھک " کو نماز کہتے ہیں ،دو تین منٹ میں چار رکعت گزار کر
"ہاتھ سر پر رکھ لیتے ہیں "پوری سورہ فاتحہ ایک سانس میں پڑھتے ہیں ،
بلکہ ان کے امام محمد کے بقول چار رکعتی فرض کی آخری دو رکعتوں میں اگر کچھ نہ پڑھے تو بھی نماز ہوجائے گی ،
بس منہ بند کرکے کھڑا رہے ،
قال محمد: السنة أن تقرأ في الفريضة في الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، وفي الأخريين بفاتحة الكتاب، وإن لم تقرأ فيهما أجزأك، وإن سبحت فيهما أجزأك، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله (مؤطا محمد )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس حدیث میں تعدیل ارکان کی فرضیت و وجوب ظاہر ہے ، لیکن امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہنا ہے کہ :
تعدیل ارکان بالکل ضروری نہیں ،
صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ طمانینت بھی ضروری نہیں ،
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور اس حدیث میں نماز میں قراءت کا حکم بھی دیا ہے ،جس سے امام الفقہاء امام بخاری ؒ نے نماز میں وجوب قراءت پر دلیل اخذ کی ہے
فرماتے ہیں :
باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها، في الحضر والسفر، وما يجهر فيها وما يخافت
تمام نمازوں میں امام ،مقتدی ، کیلئے قراءت کا واجب ہونا ،سفر و حضر ،اور جہری و مخفی قراءۃ والی ہر نماز میں ۔۔
اب مقلد صاحب نے تقلید کے نشے میں امام بخاری کے ترجمہ باب کا ترجمہ ہی نہیں کیا،
ع ــــــــــــــــــــــــ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا