السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
9: ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
10: اور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
11: نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
12: اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
اشماریہ صاحب اب بھی اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے بعض نہیں آرہے! اور عجیب و غریب قسم کے تخیلات پر مبنی باتیں کئے جا رہے ہیں کہ بس! کبھی خود ایک مردود قیاس کرتے ہیں کہ ہم نے یہ قیاس کیا ہو گا پھر کود اس رد کرتے ہیں، پھر استدلال کے حوالے سے عجیب قسم کی ہفوات ذکر کرتے ہیں!
میرے الفاظ آپ کو سخت معلوم ہوتے ہیں تو ایسی کیا بات ہے، ہم اشماریہ صاحب کی بدہواسی ان کی اپنی زبانی نقل کر دیتے ہیں: اور اس حوالے سے انہیں کیا کہا جا چکا ہے وہ بھی:
کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں اسے ثابت کیجیے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟" قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں،
عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ
***
یہاں تو ذکر ہے تورات کا اور فیصلہ کرنے والے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ۔جنکافیصلہ بذات خودایک حکم ہےچاہےوہ کسی کتاب اور گواہ کے بغیر ہی کر دیں۔ یہ ان کی خصوصیت ہے۔
ہماری بات چل رہی ہے محدث جیسے البانی، مسلم، بخاری، ترمذی وغیرہ کے "فیصلے" کے بارے میں جو وہ سابقہ محدثین کے اقوال ان کی یا کسی اور کی کتب میں دیکھ کر ان کے مطابق کریں۔
اس قیاس کے ارکان یہ ہوئے:
اصل: رسول اللہ ﷺ، تورات میں حکم رجم
فرع: یہ محدثین، کتب محدثین
علت: کتابت ہونا
حکم: کتابت پر گواہی کو قبول کرنا۔
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
بالکل جناب یہ انتہائی عجیب قیاس ہے، اس قیاس پر صد ہزار بار لا حول پڑھنا چاہئے!
مگر میرے بھائی جان! یہ ہمارا قیاس نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کا قیاس ہے کہ ہم نے یہ قیاس کیا ہوگا!!
اب آپ کو قیاس کا اتنا شوق ہے کہ اپنے ہی گمان میں دوسروں کے قیاس کو قیاس کر کرکے اپنا شوق پورا کر لیتے ہو!
بھائی جان! اس قیاسی خول سے خود کو آزاد کروا کر دیکھو تو، پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ دلیل کسے کہتے ہیں ، استدلال کیا ہوتا ہے، ااستنباط کیا ہوتا ہے اور قیاس شرعی کیا ہوتا ہے،۔ مگر آپ کو قیاس آرائیوں سے فرصت ملے تو یہ سمجھنے کی توفیق ہو!!
پہلے آپ ہمارا استدلال سمجھئے:
یاد رہے کہ میں نے آپ کو کوئی دلیل میں کوئی قیاس پیش نہیں کیا تھا، بلکہ میرا استدلال صحیح بخاری کی ایک حدیث سے تھا۔ یاد رہے استدلال تھا قیاس نہیں!!
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟ " قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے سوال کیا کہ تمہاری تورات میں رجم کا حکم ہے، یہودی نے انکار کیا، جبکہ عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے، اب اس کی تصدیق کے لئے کہ کس کی بات صحیح ہے، عبد اللہ بن سلام کی یا یہودی کی، تورات لائی گئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس تورات میں رجم کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے کتاب کی شہادت کو تسلیم کیا! کہ تورات میں آیت رجم ہے! اور عبد اللہ بن سلام کی بات درست ہے۔
لہٰذا کتاب کی شہادت تسلیم کرنا نبی صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
یہ ہے ہمارا استدلال ، یہ کوئی قیاس نہیں!!
اب آتے ہیں آپ کے بیان کردہ قیاس کی طرف!
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
نہیں جناب ہم محدثین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کر رہے، بلکہ جیسا ہم نے بتلایا ہم نے تو کوئی قیاس کیا ہی نہیں۔ لیکن اب آپ یہ بتلائیے، کہ کیا امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہئے کہ نہیں!! کل کوآپ یہ نہ کہہ دینا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعمال کیوں کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ کی طرح نماز کیوں پڑھیں ، ہم بھی وہی اعمال کریں گے تو نبی پر خود کو قیاس کرنا ٹھہرے گا!!
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ نبي صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اپنے اعمال امتی کے اعمال کو بنا لیا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کر کے کہیں خود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا لازم نہ آجائے؟
ایک عجیب بات آپ نے اور کردی کہ جو تورات لائی گئی تھی اس کی تائید قرآن کریم نے کی ہے۔ قرآن کریم نے تو اسے محرف قرار دیا ہے!
***
ہمم۔ تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ آپ نے قیاس نہیں فرمایا بلکہ ڈائریکٹ حدیث سے استدلال فرمایا ہے۔
ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب حدیث میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو۔ آپ کی حدیث میں آخری نبی (اللہم صل علیہ و آلہ) آسمانی کتاب سے حکم دیکھ رہا ہے۔
یہ آپ نے ایک نیا قاعدہ وضع کیا ہے کہ ''ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب اس میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو!! آپ کو استدلال واستنباط کا معنی بھی معلوم ہے؟
ڈائریکٹ استدلال میں یہی ہوگا نا کہ جو بھی آخری نبی ہو وہ آسمانی کتاب سے حکم دیکھ سکتا ہے؟؟؟ یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
اشماریہ بھائی! اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی سنت پر صرف وہی عمل کرے جو اللہ کا آخری نبی ہو؟؟ آپ کو اندازہ بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہو؟
اشماریہ بھائی! آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، اس تقلید کے دفاع میں اس کفر و الحاد سے گریز کرو!!
یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
بھائی جان! ہمارے نزدیک تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سنت ہیں! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم قرآن نے بھی دیا ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی!
قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿سورة الأحزاب ٢١﴾
البتہ تمہارے لیے رسول الله میں اچھا نمونہ ہے جو الله اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا ، فَقَالُوا : وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا ، فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : " أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي " .
صحيح البخاري » كِتَاب النِّكَاحِ » بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔
میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
دوسرے لفظوں میں ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
اور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں نے تو توراۃ کے "اس حکم" کا ذکر کیا ہے۔ اس حکم کی تائید قرآن پاک نے کی ہوئی ہے اور یہ قرآن کی منسوخ التلاوۃ آیت سے ثابت ہے۔ وہاں حکم رجم کا ذکر ہے۔
بھائی جان! ہم نے اس آیت سے استدلال پیش نہیں کیا ہے۔ ہمارا استدلال ہم نے آپ کو پچھلی تحریر میں پھر پیان کر دیا تھا:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے سوال کیا کہ تمہاری تورات میں رجم کا حکم ہے، یہودی نے انکار کیا، جبکہ عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے، اب اس کی تصدیق کے لئے کہ کس کی بات صحیح ہے، عبد اللہ بن سلام کی یا یہودی کی، تورات لائی گئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس تورات میں رجم کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے کتاب کی شہادت کو تسلیم کیا! کہ تورات میں آیت رجم ہے! اور عبد اللہ بن سلام کی بات درست ہے۔
لہٰذا کتاب کی شہادت تسلیم کرنا نبی صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
***
میرے محترم میں نے اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کیا تھا:
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
ور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
میں نے آپ کو عرض کیا تھا کہ:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
آپ کو اس پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں!
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔
بھائی جان، ہم نے آپ کو حدیث پیش کی ہے اور اس حدیث سے استدلال، آپ کی نظر میں اس استدلال کا کوئی نقص ہے تو وہ پیش کریں!! ہم نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ ہم نے کہا ہے تو مان لو!!
عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
بھائی جان! آپ اعتراض پیش کریں ہم آپ کے اعتراض کا ان شاء اللہ، اللہ کی توفیق سے ضرور جواب دیں گے! لیکن ٹرک کی بتی کے پیچھے میں بھاگنے والا نہیں!!
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔
اب آپ نے اعتراض پیش کیا نا، اس کا جواب ہم ان شاء اللہ آپ کو دیں گے!!
اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔
ان میں سے کوئی بھی بات ہمارے استدلال کی بنیاد نہیں!!
اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
- دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
- آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
- آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
- کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
- آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
آپ نے بات دہرائی ہے، ہم جواب دہرا دیتے ہیں:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
اشماریہ بھائی! میری بات تو شاید آپ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن جائیں، لیکن اب میں جو بات پیش کرنے لگا ہوں ، اس کے بارے میں مجھے حد درجہ یقین ہے کہ آپ کو فوراً سمجھ آجائے گی، کیونکہ قرآن حدیث سے مستنبط بات کا سمجھنا مقلد کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے علماء کی باتیں نہ صرف سمجھ آجاتیں ہیں، بلکہ وہ اسے دوسروں کو سمجھانے کی بھی کاوش کرتا ہے۔ تو لیجئے جناب! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دیوبند کتابوں کے گواہ ہونے سے متعلق:
(۱) اہل سنت والجماعت کے طریق سے منحرف ہیں جیسا کہ خود مودودی صاحب اور جماعت کے اونچے ذمہ داران کی
کتب اس پر شاہد ہیں
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: 156/ ھ= 109/ ھ مورخہMar 01,2008، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
(۱)پاکستان میں جوغیرمقلدین آپ کو پریشان کرتے ہیں، ان کا حال سعودی عرب کے حضرات کے بالکل خلاف ہے، سعودی عرب میں چوٹی کے علمائے کرام تقلید کو نہ حرام قرار دیتے ہیں نہ شرک کہتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ان علمائے کرام کی تقلید کو اختیارکیے ہوئے ہے، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے عامةً وہاں کے اہل علم مقلد ہیں جیسا کہ خود ان کی
کتب اس پر شاہدِ عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 1644/ ھ= 302/ تھ مورخہNov 10,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
اکرام سے مراد خاطر مدارات نیز مہمان کی دلجوئی اور اس کے ظاہری مناسب حال رواداری اور رکھ رکھاوٴ ہے اور یہ ناجائز نہیں۔ حضرت نبی اکرم صل یاللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بعض مرتبہ کفار کے وفود آتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو مسجد نبوی میں خیمہ لگاکر ٹھیراتے اور ان کی مہمان داری کا پورا خیال رکھتے تھے، نیز یہودی پڑوسیوں وغیرہ سے خاطر مدارات کے معاملات اور مخالفین اسلام کی دلجوئی اوران کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بکثرت منقول ہے، جیسا کہ
کتب سیر وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 650=460/ھ مورخہMar 29,2009، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
مفتی شفیع احمدعثمانی (المتوفی ۱۹۸۶/)علماء دیوبند کے ممتاز علماء اور مقتدا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی عربی ادبیت بھی کسی دوسرے ہمعصر سے کم نظر نہیں آتی ۔آپ نثر ونظم دونوں میدانوں کے ماہر فن معلوم ہوتے ہیں۔
آپ کی تالیف ''نفحات''اس کی شاہد عدل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عربی زبان وادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کاتنقیدی جائزہ - ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ3، جلد: 99 ، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء
اشماریہ بھائی! اب آپ کتاب کو گواہ ماننے کو تیار ہو!! کہیں اب آپ یہ تو نہیں کہو گے کہ یہاں شاہد کہا گیا ہے، اور ہماری بحث گواہی کی ہو رہی ہے؟ اور پھر یہ مطالبہ کرنے کا ارادہ تو نہیں کہ اصول و قاعدہ دکھلاؤ کہ شاہد اور گواہ مترادف الفاظ ہیں؟
***
میرے محترم اتباع سنت کا تو آپ کو ماشاء اللہ بہت شوق ہے۔ لیکن عمل پوری حدیث پر کیجیے نا پھر۔ پہلے کسی یہودی کو بن دیکھیں بتائیں کہ تورات میں فلاں حکم ہے پھر اس کے انکار پر تورات منگوا کر اس سے دیکھیے۔
یہ اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
باقی استدلال پر بات گزر گئی ہے۔
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .
قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.
وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور
میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''
مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
نہیں۔۔۔۔۔ ٹرک کی بتی کے آگے لگانا چاہتا ہوں۔ پیچھے لگ کر کیا کریں گے!!
استدلال کو ثابت کرنے کا مطالبہ کیا تو ہے۔ اعتراض پیش کیا ہے کہ ثابت نہیں ہو رہا۔ جو ثابت کرنے کا طریقہ ہے اس سے ثابت کریں ورنہ کسی اور سے دکھائیں۔ اور کیا اعتراض پیش کرنے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟؟
اشماریہ بھائی! آپ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لے ہی لیں! تا کہ آپ کو استفسار اور اعتراض کا فرق سمجھ آجائے!
بھائی جان تو میں نے کب کہا تھا کہ آپ نے آیت سے استدلال پیش کیا ہے؟؟؟
یہ آپ نے کیا فرمایا تھا؟
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں نے تو توراۃ کے "اس حکم" کا ذکر کیا ہے۔ اس حکم کی تائید قرآن پاک نے کی ہوئی ہے اور یہ قرآن کی منسوخ التلاوۃ آیت سے ثابت ہے۔ وہاں حکم رجم کا ذکر ہے۔
اشماریہ بھائی! ایک تو آپ اپنا کلام بھی بھول جاتے ہو!
ہک ہا!!! اسی لیے تو آپ سے عرض کرتا ہوں کہ بجائے مثالیں دینے کے سیدھا سادہ جواب دیا کیجیے۔ مثالیں دے کر گھمایا پھرایا نہ کیجیے۔ بات مبہم ہو جاتی ہے۔ کوئی چار پانچ صفحوں بعد جا کر پتا چلتا ہے کہ مثال کس لیے دی گئی تھی۔ سیدھا جواب دیا کریں تو ہم جیسے کم علموں کے لیے بھی آسانی ہو جائے۔
اشماریہ بھائی! اب اگر آپ نہیں سمجھ پاتے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے بھائ!
ضیا کو تیرگی اور تیرگی کو ضیا سمجھے
پڑیں پتھر
سمجھ ایسی پہ
وہ سمجھے تو کیا
سمجھے
***
آپ نے جواب ہی نہیں دیا اور کہتے ہیں کہ استدلال پیش کیا ہے۔ یہ تو حال ہے ترک تقلید کے بعد۔ میں نے عرض کیا ہے کہ استدلال صرف یہ نہیں ہوتا کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے تم مان لو۔ استدلال کو استدلال کے طریقے سے ثابت بھی کریں نا۔
اس طرح تو کل کو آپ دعوی نبوت کر کے کوئی حدیث پیش کریں اور کہہ دیں کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے آپ اعتراض کرو تو کیا ہم مان لیں گے؟ جی نہیں جناب جب آپ سے کہا جائے کہ اس استدلال کو ثابت کرو تب ثابت بھی کر کے دکھائیں کہ میرا استدلال عبارۃ النص سے ہے اور اس میں فلاں لفظ عام ہے اور فلاں کا فلاں معنی ہے وغیرہ تب استدلال "پیش" ہوگا۔
میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
- دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
- آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
- آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
- کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
- آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
اور جناب والا! اب حجت چین و حکمت بنگال والا نعرہ لگا کر خود کو بری نہیں سمجھ لیجیے گا۔ ہم اردو ادب کی نہیں مسئلہ تقلید کی بحث کر رہے ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ لگانے سے آپ کی بات پوری ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معذرت چاہتا ہوں ایسا نہیں ہوتا۔
بھائی جان! کتابوں کا گواہ ہونا ہم نے دارلعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی پیش کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے، اب اس پر پھر بھی آپ کی یہ حجت بازی، حکمت چین و حجت بنگال ہی ٹھہرے گی! دار العلوم دیوبند کے فتاوی نے آپ کی اس حجت بازی کو حکمت چین و حجت بنگال ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے!
چچ چچ چچ۔ یار دعوی ہے آپ کا ترک تقلید کا اور فہم اتنی بھی نہیں کہ چلنے والی بحث میں اور اپنی دی ہوئی مثال میں فرق ہی سمجھ پائیں؟ تو پھر ترک تقلید کر کے آخر آپ کیا کرتے ہیں؟؟؟
اشماریہ بھائی! اب تک تو اپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کی باتیں آپ کے لئے ہی مضر ثابت ہوتی ہیں! لیکن آپ بھی باز نہیں آتے، تو خیر کوئی بات نہیں! ہم بھی ہر بار آپ کو اپ کا فہم سے عاجز ہونا یاد کرواتے جائیں گے!
اشماریہ بھائی! آپ کے علم میں ہوگا کہ آپ کے علماء تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے اپنا کم علم اور کج فہم ہونا بطور دلیل پیش کرتے رہیں کہ اس وجہ سے وہ تقلید کرتے ہیں! اور اب یہ مقلد لاچار و کج فہم، کسی دوسرے کے فہم پر سوال اٹھائے، یہ مقلد کو تو زیب نہیں دیتا! مقلد بااعتراف خود کج فہم ہوتا ہے! اور آپ کے اس جملہ میں بھی یہ مفہوم شامل ہے! بھائی جان! کچھ سوچ سمجھ کر تحریر کیا کریں!
او میرے بھائی بات یہ چل رہی ہے کہ گواہ کی کتاب کی گواہی قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور وہ بھی کہاں! قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے سامنے (جس کی اپنی گھڑی ہوئی اسپیشل حیثیت بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکے)۔ اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ بھی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آؤ گے! میاں جی! مصنف کی کتاب اس کے مؤقف پر شاہد ہے، اس کے فیصلہ پر شاہد ہے، اور اس نے کسی اور کے مؤقف کو درج کیا ہے ، تو مصنف کے ثقہ ہونے کی صورت میں، یا دوسری کتاب سے بیان ہونے، با سند صحیح بیان ہونے کی بنیاد پر، دوسرے کے مؤقف پر بھی گواہی ہے، یہ بات آپ کو متعدد بار اقتباس پیش کر کر کے بتلائی گئی ہے! مگر آپ ہو کہ بس، مرغے کی ایک ٹانگ!
مگر ہم بھی اس کا تریاق رکھتے ہیں؛ آپ کو مفتی محمد راشد ڈسکوی،استاذِ جامعہ فاروقیہ کراچی کا کلام ماہنامہ دار العلوم دیوبند سے پیش کرتے ہیں:
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے،
”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“ اور
”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت
”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللّٰہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے ”لا یصح“ کہتے ہوئے
موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة، ملتان)
(النخبة البہیّة في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)
ملاحظہ فرمائیں: تقبیل الابہامین سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 4، جلد: 98 ، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء
رفع یدین کے سلسلے میں تقریباً ۳۵۰ صحیح احادیث آپ کے دوست کی نئی یافت ہے۔ آپ اگر باحوالہ اپنے دوست سے ان احادیث کو لکھوا کر بھیجیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ شوافع اور حنابلہ جو قائلین رفع میں سے ہیں، صحیح احادیث کے اس مخفی خزانے کا آج تک سراغ نہ لگاسکے۔ امام بیہقی نے رفع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ احادیث نقل کرنے کی کوشش کی تو کل ۳۰ /احادیث نقل کرسکے۔ جن میں سے نصف احادیث کے سلسلے میں
امام بیہقی ہی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ قابل استدلال نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: فتوى: 354/ل = 354/ل، مورخہJul 28,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟
اشماریہ بھائی! دلیل تو ہم نے پیش کی ، مگر وہ آپ کے فہم پر پر حائل تقلیدی فلٹر کے سبب آپ کی فہم سے بالا تر رہی، اور آپ نے اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے، مگر آپ کو شاید یہ اندازہ نہیں تھاکہ ہم ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں، اور آپ کے دارالعلوم دیوبند سے کتب کے گواہ ہونے کا ثبوت پیش کیا، اور اب محدثین کا فیصلہ کرنے والے ہونے، کا ثبوت بھی پیش کر دیا! اب ممکن ہے کہ آپ یہاں یہ کہہ دو کہ یہاں تو ''فیصلہ'' کا لفظ ہے ''قاضی جیسی حثیت'' کا لفظ دکھلاؤ!
اور آپ کی کتب سے حجت قائم کرنے کا معاملہ اس لئے پیش آیا کہ آپ ایک متفق علیہ مسئلہ میں مستقل اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہو! آپ کو بتلایا بھی کہ بھائی! حکومتی قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق ہی سمجھ لیں! آپ اس پر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ فرق بھی آپ کو میں بتلاؤں! تو میاں جی! میں نے آپ کو عرض کردیا تھا کہ اس واسطے آپ کو اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لینا ہوگا! میں آپ کو یہاں اردو تو پڑھانے سے رہا!
بہر حال ، علمائے دیوبند نے کتب کو گواہ بھی قرار دیا ہے، اور محدثین کو قاضی بھی! جس کے ثبوت آپ کو پیش کر دیئے گئے۔
اشماریہ بھائی! ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ کسی بھی مسئلہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے قبل اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ گھوڑے کہیں اپنے ہی گھر کو نہ روند ڈالیں! ایک بار پھر عرض کرتا ہوں:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے
***
ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ دونوں ضمیروں کا مرجع بتا کر ذرا واضح ترجمہ فرما دیجیے!
تیسری بھی متصل بعد ہے لیکن دو ہی کافی ہیں۔ (امام ابو یوسفؒ کا آپ کا ذکر کردہ جملہ یاد آگیا۔۔۔۔ ابتسامہ)
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا
ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:
چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!
اشماریہ صاحب اوپر سے فرماتے ہیں، کہ واضح ترجمہ کرو! جیسے یہ جو ترجمہ کیا گیاہے واضح نہ ہو! اب کسی کی اردو اس قدر کمزور ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور!!
اردو آپ کی ماشاء اللہ سے اتنی زبردست ہے کہ نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہے، یہ قاضی اور قاضی جیسی حيثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، اور حد تو یہ ہوئی کہ مذکورہ ترجمہ میں ضمیر کا مرجع بھی سمجھ نہیں آیا، اور نہ ترجمہ سمجھ آیا کہ واضح ترجمہ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اب جب میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کو چاہئے کہ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
اشماریہ بھائی! یہ بات آپ کو متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہے، ہاں ایک کام کر سکتا ہوں کہ آپ کو کچھ لغت کی کتابوں کا لنک دیئے دیتا ہوں، ان کتب سے استفادہ حاصل کریں۔
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ اول
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ دوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ سوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ چہارم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ اردو سائنس بورڈ ، لاہور
اگر فرہنگ آصفیہ آپ کے لئے مشکل ہو تو بتلایئے گا، آپ کو پھر فیروز اللغات کا لنک دیں گے!
اسی ترجمہ میں موجود ہے کہ ان ضمیروں کا مرجع کیا ہے! اور یاد رہے کہ ترجمہ بالکل واضح ہے! میں پھر بھی ان کو مارک کر دیتا!
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر
کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور
میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
لیجئے جناب اب اعتراض کیجئے! بتایئے اب کہ ہم نے غلط مرجع بتلایا ہے! مگر بھائی جان ! یاد رہے کہ مجھ کہ یہ ترجمہ بھی آپ کے حنفی بھائی کا ہے!
مگر میں آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو پہلے ہی باند ھ دیتا ہوں لیجئے جناب! اپنے دیوبندی علماء کا ترجمہ ، جس پر آپ کے عبد الرشید نعمانی صاحب کا مقدمہ بھی ہے:
مالک ۔ نافع ۔ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ رجم کے متعلق تم توریت میں کیا پاتے ہو تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ ان دونوں کو رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو ان سے عبد اللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹے ہو، تورات میں سنگسار کر دینے کا حکم ہے۔ تم توریت لاؤ جب ان لوگوں نے لایا اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی آیتیں پڑھیں عبد اللہ بن سلام نے فرمایا اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب ہاتھ اٹھایا تو وہیں پر رجم کر دینے کی آیت تھی۔ عبد اللہ بن سلام نے کہا آپ نے سچ کہا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اس میں رجم کی آیت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کر دینے کا حکم صادر فرمایا اور انہیں سنگسار کیا۔ حضرت ابن رعمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے اس مرد کو دیکھا کہ اس عورت کو پتھر سے بچانے کیلئے اس عورت پر جھک جاتا تھا۔
امام محمد نے کہا کہ ہم ان سب پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان آزاد مرد کسی عورت سے زنا کرے اور وہ اس سے پہلے کسی عورت سے نکاح کرچکا ہو اور اس کے ساتھ جماع بھی کرچکا ہو تو اس صورت میں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ اور یہی شخص محصن ہے اور اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو بلکہ صرف نکاح کیا ہو اور جماع نہ کیا ہو یا اس کے پاس یہودی یا نصرانی لونڈی ہے تو اس کے سبب سے محصن نہ ہوگا اور سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور اکثر فقہائے احناف کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 316 – 317 موطا امام محمد مع ترجمہ اردو ۔ خواجہ عبد الوحید – محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی
اشماریہ بھائی ! یہاں ایک ایسا نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں، جس کا ہمارے اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، یہ نکتہ تو ہم نے اٹھایا ہی نہیں؛ کہ کسی آزاد مسلمان کو جس نے نکاح کیا اور جماع نہ کیا ہو، یا جس کے پاس یہودی یا عیسائی لونڈی ہو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا! کیونکہ وہ محصن شمار نہ ہوگا!
یہاں سے اشماریہ صاحب ! کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ یہاں تو مسلمان کو محصن نہ ہونے کی صورت میں رجم نہ کرنے کی بات ہے!
جبکہ ہمارا اعتراض یہ نہیں ہے، ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہاں صرف مسلمان کے رجم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہودی کو رجم نہ کیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اب آپ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں؟ کہ امام ابو حنیفہ ؒ، محمد بن الحسن الشیبانی کے نزدیک اور فقہ حنفیہ میں يہودیوں کے لئے رجم نہیں ہے؟
آپ کی آسانی کے لئے ایک دو عبارات آپ کے فقہاء کی پیش کر ہی دیتا ہوں:
بَاب الْإِحْصَان
مُحَمَّد عَن يَعْقُوب عَن أبي حنيفَة (رَضِي الله عَنْهُم) قَالَ لَا يكون الْإِحْصَان إِلَّا بَين الحرين الْمُسلمين العاقلين الْبَالِغين قد جَامعهَا بعد بلوغهما وهما على هَذِه الصّفة قَالَ أَرْبَعَة شهدُوا على رجل بِالزِّنَا فَأنْكر الْإِحْصَان وَله امْرَأَة قد ولدت مِنْهُ فَإِنَّهُ يرْجم فَإِن لم تكن ولدت مِنْهُ وَشهد عَلَيْهِ بالإحصان رجل وَامْرَأَتَانِ رجم وَإِن رَجَعَ شُهُود الاحصان فَلَا شَيْء عَلَيْهِم وَالله اعْلَم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 279 جلد 01 الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير - محمد بن الحسن الشيباني - محمد عبد الحي اللكنوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي
اشماریہ بھائی! اب کرو خود اس کا ترجمہ، اور بتاو کہ یہاں مسلمان ہونا رجم کی شروط میں شامل ہے یا نہیں؟ یعنی کسی غیر مسلم کو رجم نہیں کیا جائے گا!
اشماریہ صاحب ! یہ فنکاری آپ اپنے مقلدین کو دکھایا کیجئے!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست
اشماریہ بھائی! یہ تو وہ مسئلہ ہے کہ ابن ابی شیبہ رحہمہ اللہ نے آپ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے رد میں جو کتاب،
''كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ'' اپنی مصنف میں لکھی ہے اس کا سب سے پہلا مسئلہ یہی بیان کیا ہے، اور ابن ابی شیبہ کس دور کے عالم و محدث تھے، یہ بتانی کی ضرورت تو نہیں!
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے پہلے چار احادیث درج کیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کا رجم کیا، اور پھر امام شعبی ؒ کا قول آپ کے امام صاحب کے مؤقف پر پیش کیا:
كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ
یہ کتاب ابو حنیفہ کی تردید میں ہے
هَذَا مَا خَالَفَ بِهِ أَبُو حَنِيفَةَ الْأَثَرَ الَّذِي جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ وہ مسائل ہیں جن میں ابو حنیفہ نے ان آثار کی مخالفت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔
مَسْأَلَةُ رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
یہودی مرد اور یہودیہ عورت کو رجم کرنے کا مسئلہ
حَدَّثَنَاأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً»
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کاحکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا "
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کو سنگسار (کرنے کا حکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً "
جابر بن عبداللہ رضی اللل عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا
حَدَّثَنَاابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيَّيْنِ أَنَا فِيمَنْ رَجَمَهُمَا»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا اور میں نے ان یہودیوں پر سنگ باری کی۔
حَدَّثَنَاجَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً " وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِمَا رَجْمٌ
شعبیؒ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نئ ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا۔ اور ابو حنیفہ کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ یہودی مرد و عورت پر سنگساری کا حکم نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 277 جلد 07 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 351 - 352 جلد 12 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر ، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 80 - 81 جلد 13 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 53 - 54 جلد 20 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن، الرياض
اشماریہ بھائی! اب میں اسے آپ کا تجاہل عارفانہ کہوں؟ یا ڈرامہ مقلدانہ؟
اشماریہ بھائی! اللہ کو جان دینی ہے، کچھ اللہ کا خوف کرو! اختلاف الگ چیز ہے، فہم و استدلال میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس طرح کی ڈرامے بازی تو نہ کرو!
آپ تو ماشاء اللہ! تخصص فی الفقہ کے طالب علم ہو! اب ایسے تو آپ نہیں ہو جیسے ایک عام تبلیغی ہوتا ہے! جنید جمشید اگر اسی بے سرو پا کی مار بھی دے تو وہ تو خیر معذور ہے، اسے کیا معلوم فقہ حنفی کیا ہے، محصن کسے کہتے ہیں؟ لیکن آپ ایسی باتیں کرو تو پھر اندازہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دانستہ دھکہ دے رہے ہو! یا پھر ایک اتنہائی نکمے طالب العلم ہو، اور درس نظامی بس رٹہ لگا کر یا نقل کر کے پاس کیا ہے؟ کیونکہ فقہ حنفیہ کا درس نظامی کا فارغ، یہ تو عین ممکن ہے کہ وہ علم الحدیث میں کورا ہو، بلکل یوں وسمجھو کہ متقاضی ہی اس بات کا ہے، الا ماشاء اللہ! لیکن فقہ حنفی جو سات سال تک رگڑ رگڑ کر پڑھتے ہو، اور پھر آخر ی سال دور حدیث میں فقہ حنفی کو احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دینے کے لئے اٹکلی اسباب تلاش کرتے پھرتے ہو، تو فقہ حنفی سے تو اچھی طرح پڑھتے ہیں!
سجن سے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس
جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے
اشماریہ بھائی! اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کو ہمارے استدلال پر کوئی اعتراض ہے تو اعتراض پیش کریں!
امید ہے اب آپ کو اعتراض اور استفسار کا فرق معلوم ہو گیا ہوگا!
ویسے اب یہ تو ممکن ہے کہ ہمارے استدلال پر آپ اعتراض کر سکو، لیکن کتاب کے گواہ ہونے پر نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ تو دار العلوم دیوبند سے بھی ثابت کیا جا چکا!
(جاری ہے)