• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں پھر حافظ کا ذکر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت حفظ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذہبی نے اس کا کہاں انکار کیا ہے؟؟
بھائی جان! ہم نے کب کہا کہ امام الذہبیؒ نے قوت حفظ سے انکار کیا ہے! ہم یہی تو آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ حافظ کہنے سے امام الذہبی کی جانب نے توثیق لازم نہیں آتی! آپ یہاں سے توثیق اخذ کرنے کے مدعی ہو!

ذہبی نے کہا ہے: قُلْتُ: هَذَا مُعَثَّر مَخْذُول، كَانَ علمه وَبَالاً، وَسعيه ضلاَلاً نَعُوذ بِاللهِ مِنَ الشَّقَاء. (سیر)
ان کے علم کو تسلیم کر کے کہا ہے کہ علم تو تھا (حافظہ کی قوت نے علم محفوظ رکھا تھا) لیکن وبال تھا (جو تھا وہ درست نہیں تھا۔ غلط باتیں محفوظ کی ہوئی تھیں)
اشماریہ صاحب! اب کہئے! کیااس حافظ کہنے سے کیا ابن خراش کی توثیق لازم آتی ہے؟
اشماریہ صاحب! یہی ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ حافظ کہنے سے توثیق لازم نہیں آتی!
اور جناب نے جو جرح پیش کی ان کے رافضی ہونے کی تو اس جرح کا تعلق عدالت سے ہے یا حفظ سے؟؟؟
رفض بدعت کی ایک قسم ہے اور اس کا تعلق عدالت سے ہے۔ یعنی ایک شخص کا حافظہ تو قوی تھا لیکن اس میں بدعت تھی۔ اس میں کوئی منافاۃ نہیں۔
اور اگر آپ کے اصول کے مطابق یوں کہیں " ایک شخص حافظ تو ہے لیکن ضعیف ہونے کی وجہ سے اس کا حافظہ قوی نہیں ہے" تو کیا اسے کوئی عاقل (آپ کو شامل نہیں کریں تو) تسلیم کرے گا۔
ایک بار پھر عرض ہے:
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ نے جو باتیں دہرائی ہیں ان کا جواب ابھی ابھی اوپر گزرا ہے، لہذا اسے دوبارہ پیش نہیں کرتا، ہاں آپ نے مجھے جو عاقل کی صف سے خارج قرار دینے کی بات کی ہے، کوئی بات نہیں! میں آپ کی حالت سمجھ سکتا ہوں! اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کٹتی مرغی کو پھڑپھڑانے بھی نہ دیا جائے! آپ کی یہ پھڑپھڑاہٹ بے سبب نہیں ہے! اس کے کئی اسباب میں نے آپ کے لئے پیدا کئے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! آپ نے اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر حافظ کے لفظ سے توثیق کشید کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، مگر ایسا ہو نہیں سکتا! کیونکہ توثیق کے مفہوم، عدالت اور حفظ دونوں شامل ہوتے ہیں، لہٰذا جب تک عدالت ثابت نہ ہو، حافظ یا ضابط کے لفظ سے توثیق اخذ نہیں کی جا سکتی!
اشماریہ صاحب! آپ نے جوش میں آکر علم الحدیث میں دعوی یہ کیا تھا:
اشماریہ, post: 234249, member: 3713"] الحمد للہ جو حدیث کے اصول پڑھے ہیں انہیں گہرائی میں جا کر پڑھا ہے۔ [/QUOTE]
اشماریہ صاحب غالباً ''قواعد في علوم الحدیث از ظفر احمد عثمانی '' کو علم الحدیث کی گہرائی سمجھ بیٹھے ہیں!
یہاں مراسلہ نمبر 08 پر اس کتاب کاکچھ تعارف بیان کیا ہے۔
اشماریہ بھائی! اب آپ اپنے اٹکل کے گھوڑوں کو خود واپس بلا لیں! کیونکہ اب ہم آپ کو مقدمہ ابن صلاح اور اس کی تشرح ، شرح فتح المغیث سے حوالہ پیش کرنے جارہے ہیں! جو آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو ذبح کرتے ہوئے، ہمارے مؤقف پر تصدیق کرے گی:
(الْأُولَى): قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: " إِذَا قِيلَ لِلْوَاحِدِ إِنَّهُ " ثِقَةٌ أَوْ مُتْقِنٌ " فَهُوَ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ ".
قُلْتُ: وَكَذَا إِذَا قِيلَ " ثَبْتٌ أَوْ حُجَّةٌ "، وَكَذَا إِذَا قِيلَ فِي الْعَدْلِ إِنَّهُ " حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ "، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 122 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الفكر، دمشق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 242 - 243 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 307 - 308 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار المعارف، القاهرة

كَأَنْ يُقَالَ فِيهِ: حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ ; إِذْ مُجَرَّدُ الْوَصْفِ بِكُلٍّ مِنْهُمَا غَيْرُ كَافٍ فِي التَّوْثِيقِ، بَلْ بَيْنَ [الْعَدْلِ وَبَيْنَهُمَا عُمُومٌ وَخُصُوصٌ مِنْ وَجْهٍ ; لِأَنَّهُ يُوجَدُ بِدُونِهِمَا، وَيُوجَدَانِ بِدُونِهِ، وَتُوجَدُ الثَّلَاثَةُ] .
وَيَدُلُّ لِذَلِكَ أَنَّ ابْنَ أَبِي حَاتِمٍ سَأَلَ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ رَجُلٍ، فَقَالَ: " حَافِظٌ، فَقَالَ لَهُ: أَهُوَ صَدُوقٌ؟ " وَكَانَ أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ مِنَ الْحُفَّاظِ الْكِبَارِ، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يُتَّهَمُ بِشُرْبِ النَّبِيذِ وَبِالْوَضْعِ، حَتَّى قَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ أَضْعَفُ عِنْدِي مِنْ كُلِّ ضَعِيفٍ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 280 – جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي - مكتبة دار المنهاج، الرياض

اشماریہ صاحب! اب کہئے! کیا کیا فرمائیے گا؟
اشماریہ صاحب یہاں تو صریح الفاظ میں اصول بتلا دیا گیا کہ ''حافظ'' اور ''ضابط '' کے کسی عادل کے متعلق کہے گئے یہ الفاظ توثیق پر دلالت کرتے ہیں، اور اگر یہ الفاظ ایسے راوی کے متعلق ہو جو عادل نہیں تو یہ الفاظ یعنی'' حافظ'' اور ''ضابط'' توثیق کا فائدہ نہیں دیتے!
اور جب ہم آپ کو یہی بات امام الذہبیؒ اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ کے کلام سے سمجھا رہے تھے تو اشماریہ صاحب اٹکل پچّو کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر فرماتے تھے کہ ہماری بات کا بطلان واضح ہے!
اشماریہ صاحب! اب معلوم ہوا کہ کس کے مؤقف کا بطلان واضح ہے؟
نہ جانے اس کی وجہ تعصب ہے، قلۃ فہمی، اپنی بات منوانے کی کوشش۔ میں نہیں جانتا۔
علامہ ذہبی نے نعمان کو امام قرار دیا ہے اپنی رائے میں اور آگے دیگر لوگوں کی آراء پیش فرمائی ہیں اپنی نہیں۔ کیا آپ کو "قال ابن عدی، قال النسائی، اور قال ابن معین" نظر نہیں آ رہا؟
پھر بھی کہتے ہیں:
بھائی جان! امام الذہبی نے متقدمین کی جرح نقل کی ہے اور اسے قبول کیا ہے، اس کی نکیر نہیں کی اس اسی بنا پر ''نعمان'' کو ضعفاء والمتروکین میں شمار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آخر کیا خاص بات ہے کہ آپ نے ان ''النعمان'' کی کنیت نہیں لکھی!
! آپ یہ عوام سے اس بات کو اوجھل رکھنا چاہتے ہو کہ یہ ''النعان'' کون ہیں! ویسے اس سے قبل کتنی بار آپ نے ان ''النعمان'' کا ذکر بغیر کنیت کے کیا ہے! (ابتسامہ، ابتسامہ یہاں بنتا ہے کہ آپ کو تو اب ان ''النعمان'' کی کنیت بیان کرتے بھی جھجک ہو رہی ہے)
استغفر اللہ۔
کاش کہ آپ نے مقدمہ المعلق میں یہ ہی پڑھ لیا ہوتا کہ ذہبی نے اس میں پانچ قسم کے لوگوں کو ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ ثقات ہے۔
اشماریہ صاحب! ہم نے اس کا مقدمہ بھی پڑھا ہے اور سمجھا ہے! میں وہ الفاظ بیان کردیتا ہوں:
بسم الله الرحمن الرحيم
رب يسر وأعن يا معين:
الحمد لله، والشكر لله، ولا حول ولا قوة إلا بالله، والصلاة على رسول الله.
أما بعد -فهذا "ديوان أسماء الضعفاء والمتروكين" وخلق من المجهولين، وأناس ثقات فيهم لين، على ترتيب حروف المعجم، بأخصر عبارة وألخص إشارة، فمن كان في كتاب من الكتب الستة: البخاري، ومسلم، وأبي داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه له رواية،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 01 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

اشماریہ بھائی! اس ''النعمان'' پر ''لین'' کی جراح نہیں کہ اسے اس قسم میں شامل کیا جا سکتا کہ جو ''ثقہ'' ہیں اور ان میں ''لین'' ہے! اشماریہ صاحب ان ''النعمان'' پر اس سے بڑھ کر جراح ہے ! دوبارہ پیش کرتا ہوں:
جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة
جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام''کہا ''رحمه اللہ''کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان''وہ'' النعمان''نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔

اشماریہ صاب! قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة، یہ کیا ''لین'' کی جراح ہے؟
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، یہ کیا ''لین'' کی جراح ہے؟
وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.یہ کیا'' لین'' کی جراح ہے؟
اشماریہ صاحب! آپ کے یہ ''النعمان'' صاحب کو''وأناس ثقات فيهم لين،'' میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان کا شمار ضعفاء والمتروکین میں ہی ہوگا!

دوسری بات یہ ہے کہ المغنی اور دیوان ان دونوں میں علامہ ذہبی نے علماء کے اقوال جمع کیے ہیں۔ اپنی رائے بہت کم ذکر کی ہے۔ کیا ذہبی کا کسی کو اس میں ذکر کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ ذہبی اس کو ضعیف سمجھتے ہیں
نہیں ! نہیں! اس دیوان الضعفاء والمتروکین میں امام الذہبیؒ نے جن راویوں کو ذکر کیا ہے، انہیں ثقہ ، ثبت ، الحجہ قرار دیا ہے! اور یہاں متقدمین کی جراح بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام جرح کو مردود قرار دیتے ہیں! کیا خیال ہے؟ ایسا کہنا درست ہے؟ آپ کی نظر میں!
اشماریہ بھائی! کچھ عقل کو ہاتھ مارو! امام الذہبی کا متقدمین کی جراح کو بلا نکیر نقل کرنا ، ان کی جراح کو قبول کرنا اور اس کے ساتھ علق کرنا ہے!
اشماریہ صاحب! آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ :
مجھے تو مشورہ دیا تھا جناب نے ہوش و حواس کا، خود کیا ہوش و حواس کھو دیے تھے؟
میرے بھائی! آپ کے ان افعال پر ہو سکتا ہے کہ آپ کے ہم مذہب و مشرب بغلیں بجائیں کہ ابن داود اتنی زبردست جرح ذکر رہا ہے لیکن یہاں ان کا چلنا مشکل ہے۔ مجھے علم الحدیث کا میدان بتانے والے خود اٹکل پچو کیا بھان متی کا کنبہ جوڑ رہے ہیں۔ بات ایک کی لے کر دوسرے پر فٹ کر رہے ہیں۔
اشماریہ بھائی!
جملے بتا رہے ہیں کہ حالت خراب ہے!
اشماریہ بھائی! پنجابی کا ایک محاورہ یاد آیا ہے، شاید آپ کو پنجابی اردو سے بہتر آتی ہو!
۔۔۔۔ بندہ ڈھیٹ ہونا چاہئدا اے
آپ کی علم الحدیث میں کی گئی ہر وہ بات ، جس میں آپ نے ہم سے اختلاف کیا ہے بلکل باطل ثابت ہورہی ہے اور پھر بھی دوسروں پر الزام دھرنا!!
ابن داود بھائی! ایک بھی چیز کا سیدھا جواب نہیں ملا!
سہ بارہ عرض کرتا ہوں:
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ لغوی معنی کا معاملہ اور یہ پوری بات اوپر بحوالہ گزری ہے! مقدمہ ابن صلاح اور فتح المغیث کے حوالہ سے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب تک یہ سوالات ایسے ہیں جن کا جناب والا نے جواب نہیں دیا۔ یا حکمت چین حجت بنگال کا نعرہ لگایا ہے، یا مثالیں دینے کی کوشش کی ہے اور یا ادھر ادھر کی باتیں کی ہیں۔
محترم ابن داود بھائی! اس بحث کو حل کرنے کے لیے ان سوالات کے جوابات مجھے اور قارئین کو مطلوب ہیں۔ اور گھماؤ پھراؤ نہیں۔۔۔۔۔ سیدھے اور واضح جوابات۔ جن میں ابہام نہ ہو۔
اگر جناب یہ جوابات عنایت نہیں فرماتے تو پھر مجھے بامر مجبوری انتظامیہ کو بلانا پڑے گا (جس کے آپ خود ایک رکن ہیں۔۔۔۔۔ ابتسامہ) کیوں کہ فضول بحث برائے بحث کا وقت آپ کے پاس تو ہوگا ہمارے پاس نہیں ہے۔
اس بات کا جواب میں آپ کو آپ کے سوال نامہ کے جواب کے بعد عرض کرتا ہوں، پہلے آپ کے سوال نامہ کے جوابات جو پہلے ہی دیئے جا چکے ہیں، انہیں پورے سیاق کے ساتھ دوبارہ و سہ بارہ پیش کردوں!
1:قاضی کو تو حکومت وقت مقرر کرتی ہے۔ وہ خود بخود یا لوگوں کے بنانے سے سے قاضی نہیں بن جاتا نہ ہی علم حاصل کرنے سے۔ یہاں محدث کو قاضی کی سی حیثیت کس نے دی؟
جناب نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے دی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس حدیث یا آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کی حیثیت قاضی جیسی ہے؟؟؟
2:دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
اس کے جواب میں جناب نے کہا کہ الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ اور دلیل میں آگے جا کر رجم والی حدیث پیش کر دی۔ لیکن اس سے استدلال پر سوالات (جو آگے مذکور ہیں) ابھی تک حل نہیں کیے۔
3: امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
ان باتوں کا کواب گذر چکا ہے جو ایک بار پھر پیش کیا جارہا ہے:
قاضی کو تو حکومت وقت مقرر کرتی ہے۔ وہ خود بخود یا لوگوں کے بنانے سے سے قاضی نہیں بن جاتا نہ ہی علم حاصل کرنے سے۔ یہاں محدث کو قاضی کی سی حیثیت کس نے دی؟
حکومت مقرر کرے یا گاؤں کی پنچائیت کمیٹی، کسی کے پاس کسی بھی قسم کا فیصلہ کروانے لایا جائے! شریعت کی شہادت کا قانون ایک ہی رہتا ہے!!
کبھی باپ بھی اولاد کے معاملات میں فیصلہ کرتا ہے، کبھی شوہر و بیوی کے رشتہ دار میں بھی کوئی حکم ٹھہرایا جاتا ہے۔ محدث کو قاضی کی حیثیت اللہ اور اس کے رسول نے دی، اور ان کی اس حیثیت کو اللہ اور رسول کا فرمان ماننے والوں نے قبول کیا، جو اس سے اس معاملے میں اس کا حکم دریافت کرتے ہیں!
دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
معلوم ہوتا ہے آپ علم الحدیث سے بالکل نابلد ہیں، اگرآپ ذرا بھی علم الحدیث کی بنیاد سے واقف ہوتے تو یہ اشکال آپ کے ذہن میں جنم نہیں لیتا۔ بلکل کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
تیسرا سوال یہ کہ دلائل و قرائن کی روشنی میں محدث ایک حدیث کے بارے میں فیصلہ کرے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر عمل کرو تو وہ قاضی جیسا۔ اور اس کی بات ماننا درست۔ اور اگر قرائن و دلائل ہی کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرے کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو تو وہ ایسا کیوں نہیں؟؟؟
قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!
***
شریعت کی شہادت کا قانون معلوم بھی ہے؟ گواہ گواہی دیتا ہے یا گواہ کا گواہ۔ اور اگر کتابت قاضی ہو تو ختم قاضی بمع گواہ ہوتے ہیں۔
عجیب بات ہے!! آپ شریعت کے قانون شہادت میں سوائے گواہ کی بنفس خود اور بذات خود، بحضور قاضی کے کسی اور قرائین کی شہادت کو شمار ہی نہیں کرتے! آپ کی اس بات کا رد آگے حدیث میں بھی آئے گا!!
اب کیا آپ نے اسے موضوع بنا کر اٹکل چلانے ہیں؟
میں محدث ہوں اگر اور یحیی بن معین کے قول کے مطابق حدیث پر فیصلہ کروں تو یہ سب چیزیں کہاں ہیں؟؟
یہ بتلائیے کہ کیا آپ واقعی محدث ہیں؟ یا مثال کے طور پر کہا ہے۔؟
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
باپ اور رشتہ داروں کا فیصلہ بطور ثالث ہوتا ہے بطور قاضی نہیں۔ اس لیے نفاذ بھی اس طرح نہیں ہوتا۔
جی جناب! اس کا نفاذ اس طرح نہیں ہوتا کہ قاضی کا حکم نہ ماننے پر اس دنیا میں ہی سزا کا حقدار ٹھہرے!! لیکن اسے بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اٹکل پچو کی بنیاد پر فیصلہ کرے، ہر صورت اسے انہیں قاعدے و ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے، شریعت کا قانون شہادت، صرف حکومتی قاضی کے لئے خاص نہيں!! اگر آپ سے خاص سمجھتے ہو تو یہ دلیل کا محتاج ہے!
کس حدیث میں ہے کہ جب کوئی محدث کسی حدیث کو صحیح کہے تو اس پر عمل کرو؟ یا آیت کونسی ہے؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور اگر یہ حدیث یا آیت میں موجود نہیں ہے تو آپ نے یہ استدلال کہاں سے کیا ہے؟
اگر مگر کر کے بے بنیاد باتیں نہ کیا کریں!!
اور کیا وجہ ہے کہ جہاں سے آپ نے محدث کی اس شاندار حیثیت پر استدلال کیا ہے وہاں سے مجتہد پر نہیں ہو سکتا؟؟
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!
وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!
تابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں اسے ثابت کیجیے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟ " قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ

***

ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!

***

بھائی جان آپ نے فرمایا تھا کہ محدث کی حیثیت قاضی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اس پر عرض کیا کہ قاضی کے سامنے گواہ یا گواہ کے گواہ یا کتابت قاضی بمع ختم ہوتے ہیں۔ محدث کے سامنے کیا ہوتا ہے؟؟ اگر میں ایک محدث ہوں اور یحیی بن معین کے قول پر عمل کرتے ہوئے ایک حدیث کو ضعیف قرار دیتا ہوں تو یہ سب چیزیں کہاں ہیں؟
اس کا تو جواب ملا نہیں۔
مزید یہ ارشاد ہوا کہ "جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں"
تو جناب عالی آخر یہ چیزیں کہاں ہوتی ہیں؟ نظر کیوں نہیں آتیں؟
بھائی جان یہ چیزیں کتابوں میں درج ہوتی ہیں، ان کتابوں کو دیکھو گے تو نظر آئیں گی!! لیکن ابھی تو آپ کتابوں کو ناقابل اعتبار ٹھہرانے پر مصر ہو!
یہ ایک حدیث ہے جسے میں سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ سے نقل کر رہا ہوں:
زينوا موائدكم بالبقل فإنه مطردة للشيطان مع التسمية
اس پر جرح اس مقام پر لکھی ہے۔ آپ مجھے گواہ دکھائیے جو البانی رح کے پاس آئے ہوں اور انہوں نے گواہی دی ہو؟ نیز وہ حکومت دکھائیے جس نے البانی کو یہ عہدہ دیا ہو۔
نیز وہ گواہ بھی دکھائیے جو آپ کے پاس آئے ہوں۔ البانی رح کی مہر شدہ کتاب بھی پیش فرمائیے جسے کھولا نہ گیا ہو۔
اسی کو کہتے ہیں حکمت چین اور حجت بنگال!!
بھائی جان ! صاحب کتاب کی گواہی ہے، صاحب کتاب بھی ثقہ ہے اس کی گواہی مقبول ہوتی ہے!
اور شیخ البانی نے وہاں ثقہ شیوخ کی کتب کے حوالے درج کئے ہیں۔ آپ کو کسی کتاب یا کسی صاحب کتاب ، پر اعتراض ہےکہ اس کی گواہی مقبول نہیں تو اعتراض پیش کریں!!
ہاں، اگر صاحب کتاب ضعیف ہو ، تو اس کی گواہی قبول نہ ہوگی: ایک مثال پیش کئے دیتا ہوں اگر طبیعت پر ناگوار نہ گذرے تو !!
فقہ احناف کے بہت بڑے امام محمد بن حسن الشیبانی، ان کی متعدد کتب معروف ہیں، جس میں موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني، الحجة على أهل المدينة، الأصل المعروف بالمبسوط شامل ہیں، لیکن ان کتب میں امام محمد بن حسن الشیبانی اپنا مؤقف بیان کریں ، وہ تو ان کا مؤقف ہوا، مگر وہ کوئی روایت بیان کریں، یا کسی کا قول روایت کریں، تو وہ پایہ ثبوت کو نہیں پہنچے گا، کیونکہ محمد بن حسن شیبانی ایک ضعیف راوی ہیں، اور ان کی گواہی قبول نہیں، خیر سے محمد بن حسن شیبانی کی گواہی تو قاضی شریک بھی اس لئے قبول نہیں کرتے تھے کہ محمد بن حسن الشیبانی نماز کو ایمان نہیں سمجھتے تھے!!
البانی رح کی مہر شدہ کتاب بھی پیش فرمائیے جسے کھولا نہ گیا ہو۔
یہ مطالبہ بھی کر دیجئے کہ پھر اللہ تعالی آسمان سے فرشتے نازل کرے، جو آپ کو نظر بھی آئیں، اور وہ گواہی دیں کہ واقعی یہ شیخ البانی کی کتاب ہے!
کتاب اور حکومت کے سلسلے میں جو جوابات آپ نے تحریر فرمائیے ان کے بارے میں آگے آتا ہے۔ اس لیے انہی کو نہ دہرائیے گا۔
آپ جب جب جو اشکال پیش کریں گے، ہم تب تب اس کا ازالہ کریں گے! آپ اشکال نہین دہرائیں گے، ہمیں اس کا جواب دہرانے کی حاجت بھی نہیں ہو گی!!
اگر اس کا نفاذ اس طرح نہیں ہوتا تو پھر اس کی قاضی جیسی حیثیت کس چیز میں ہے؟
اس کی قاضی جیسی حیثیت فیصلہ صادر کرنے میں ہے!
صرف گواہی سننے اور فیصلہ کرنے میں؟ وہ حیثیت تو ثالث کی بھی ہوتی ہے۔ پھر یوں کہیے نا کہ محدث کی حیثیت ثالث جیسی ہے۔
بھائی جان! ثالث کا کام صلح کروانا ہوتا ہے، ثالث کا کام دو فریق کو درمیانی راہ پر قائل کرنا ہوتا ہے، اگر اسے فیصل نہ مانا جائے!! اور جب ثالث کو فیصل مانا جائے گا تو وہ قاضی کی حیثیت میں ہی ہو گا!!
نیز شریعت کا قانون شہادت صرف قاضی کے لیے خاص تو نہیں ہے لیکن کی شریعت کا قانون قضا اتنا عام ہے کہ آپ کسی کو بھی قاضی مقرر کر سکتے ہیں؟
بلکل جناب متفق! اسی لئے ہم کسی مقلد کو یہ حثیت نہیں دیتے کہ وہ حدیث و علم حدیث میں کوئی فیصلہ صادر کرے، ہم تو مقلدین کے فیصلوں سے بالکل برأت کا اعلان کرتے ہیں، اور ان مقلدین کے فیصلہ کو ہم قابل اعتماد نہیں سمجھتے۔ ایک بات ذہن میں رہے، کہ جب ہم آپ کو مقلدین احناف کے حوالہ پیش کرتے ہیں، تو یہ دلائل خصم کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں!!
یعنی آپ کا مطلب یہ ہوا کہ جیسے اس آیت سے محدث کی "تقلید" ثابت ہے۔۔۔۔۔۔ اوہ سوری۔ میں غلط کہہ گیا۔
دیکھیں بھائی جان! اس طرح کی دجل کاری کہ پہلے اسے تقلید باور کروانا اور پھر ''سوری'' لکھ کر ڈرامہ بازی کرنا، تو یاد رکھیں ، میرے قلم سے جو الفاط نکلیں گے، اس کی تاب لانا آپ کو مشکل ہو جائے گا، اور میں تو ''سوری'' بھی نہیں کروں گا، کیونکہ میں بلکل اپنا مؤقف با دلیل بیان کروں گا!! لہٰذا یہ ڈرامہ بازی آیندہ نہ کرنا وہ کہتے ہیں کہ:
بد نہ بولے زیر گردوں گر کوئی میری سنے
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسی سنے

جیسے اس آیت سے محدث کے حدیث پر صحیح ہونے کے حکم کو بلا دلیل ماننا ثابت ہے اسی طرح مجتہد کے کسی مسئلے میں حکم کو بلا دلیل ماننا بھی ثابت ہے؟
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!! وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!
اس لیے میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ:
امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
آپ نے سوال دہرایا ہے تو مجھے پھر سے جواب بھی دہرانا پڑ رہا ہے:
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!

***
دوم کہ محدث کی بات بلا دلیل نہی مانی جاتی بلکہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے، اور گواہی کو ماننا تقلید نہیں، جیسا کہ اس تعریف میں صراحتاً موجود ہے!!
لہٰذا آپ کا یہ ''بلا دلیل'' کہنا بھی باطل ٹھہرا!! لہٰذا اس دھوکہ بازی اور فریب سے کام نہ لیں، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ محدث کی بات بلا دلیل مانی جاتی ہے، ہم نے یہ کہا ہے کہ ثقہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے!!
لہٰذا محدث کی گواہی اور اس کا فیصلہ ماننے کو مجتہد کی بلا دلیل بات ماننے پر قیاس نہ کریں!!
یا یوں کہہ لیں کہ امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے
بلکل جناب ! امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے، یہ بات آپ بلکل صحیح سمجھے!

***

نہیں مجھے یہ اعتراض نہیں۔ بلکہ یہ اعتراض ہے کہ جب محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے۔ اور قاضی کی عدالت میں گواہ کو خود پیش ہوکر گواہی دینی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ گواہ چند سو سال پہلے گزر چکا ہو اور اس کی کتاب پڑھ کر گواہی قبول کی جائے۔ تو یہاں گواہ آپ محدث کی عدالت میں خود کہاں ہے؟؟
اور اگر یہ درست ہے کہ گواہ کی صرف کتاب پڑھ کر گواہی قبول کی جائے تو اس کی دلیل دیجیے۔
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟ باقی بات اس روایت پر آگے۔
دلیل آپ کو دے دی ہے، مگر اس دلیل کو قبول کرنے کے بجائے آپ حجت بازی سے کام لے رہے ہیں، کبھی ہمارے استدلال کے بجائے اپنے اٹکل کا قیاس کی قیاس آرائی فرما کر خود اس قیاس کا رد کر کے سمجھتے ہو کہ آپ نے ہماری دلیل کو رد کر دیا! اور آگے اس دلیل پر آپ کیا بیان کرتے ہو اس کا جواب اسی مقام پر دے دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!

***

نہیں جناب۔ جب ایک قاضی اپنا خط دوسرے قاضی کو بھیجتا ہے تو اصول یہ ہے کہ وہ اس پر مہر لگا کر اسے بند کرتا ہے اور گواہوں کے ساتھ بھیجتا ہے کہ اسی قاضی کا خط ہے۔ اگر البانی کی حیثیت بھی قاضی کی سی ہے اور آپ کی بھی تو پھر البانی کی کتاب پر مہر بھی ہونی چاہیے۔
جناب من! میں نے آپ کو کہا تھا کہ یہ تو آپ کو چھوٹا سا مطالبہ ہے ، ذرا بڑا مطالبہ کیجئے !!
یہ مطالبہ بھی کر دیجئے کہ پھر اللہ تعالی آسمان سے فرشتے نازل کرے، جو آپ کو نظر بھی آئیں، اور وہ گواہی دیں کہ واقعی یہ شیخ البانی کی کتاب ہے!
یعنی بس فیصلہ کرنے میں اس کی حیثیت قاضی جیسی ہے ؟ نہ نافذ ہونے میں قاضی جیسی ہے نہ گواہوں کی مجلس قاضی میں حاضری میں۔ تو ذرا یہ اسپیشل حیثیت کسی دلیل سے ثابت تو کیجیے جس میں یہ استثناءات بھی موجود ہوں۔
جناب من! اس کی دلیل آپ کو پیش کی ہے وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے، یہ الگ بات ہے کہ آپ اپنی اٹکل کی بناء پر اسے رد کر رہے ہو!!
یعنی اب جھگڑا ثالث کی حیثیت پر ہوگا؟ (ابتسامہ)۔ قاضی کی حیثیت تو یہ ہوتی ہے کہ اس کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے (یعنی قانونی حیثیت رکھتا ہے اور عمل نہ ہونے پر حکومت عمل کرواتی ہے۔) ثالث کی ایسی حیثیت ثابت کیجیے۔
بھائی جان! آپ کو اس کا جواب دیا جا چکا ہے، وہ کہتے ہیں کہ حکمت چین و حجت بنگال!!
آپ محدث کو حکومتی امور کا قاضی باور کروانا چاہتے ہو، جبکہ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا! ویسے بھی جب آپ کو حکومت کے نامزد قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ نہ آئے تو کیا کہا جا سکتا ہے!!

***

یار ایک بات کر لیں۔ محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔ میری عقل عاجز ہے۔
بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!! آپ کے اس مسئلہ کا حل ابو زید الدبوسی الحنفی نے بتلایا ہے، آگے بیان کیا جائے گا!!

***

اور جب تحقیق لکھنا لازم نہیں تو ظاہر ہے جو میرے جیسا پڑھے گا اسے تحقیق نظر بھی نہیں آئے گی تو پھر وہ محدث کے فیصلہ (جی ہاں میں نے فیصلہ کا لفظ استعمال کیا ہے کیوں کہ اگر میں گواہی کا لفظ استعمال کروں تو اس کا مطلب ہوا کہ وہ گواہی میرے حضور دی جا رہی ہے اور میں محدث قاضی کی سی حیثیت والا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے۔) کو ہی قبول کرے گا "من غیر حجۃ"۔ یہی الفاظ ہیں نا تعریف کے؟ اگر اب آپ کہیں کہ محدث کا قول ہی میرے لیے گواہی یا حجت ہے تو یہ تو فواتح الرحموت میں بھی لکھا ہے کہ مجتہد کا قول اس (مقلد) کے لیے دلیل و حجت ہوتا ہے۔ پھر فرق تو کوئی نہیں ہوا۔ (اب امید ہے کہ جناب کسی بات کو گھما کر فرق لانے کی کوشش فرمائیں گے جیسا کہ ابھی تک ہوتا آرہا ہے۔)
پھر عجیب کہی!! آپ کو بتلایا بھی تھا کہ جس کو نص واجب کرے وہ تقیلد نہیں ہوتی!! دوبارہ مطالعہ کریں!!

***

میرے محترم میں نے اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کیا تھا:
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
ور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
میں نے آپ کو عرض کیا تھا کہ:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
آپ کو اس پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں!
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔
بھائی جان، ہم نے آپ کو حدیث پیش کی ہے اور اس حدیث سے استدلال، آپ کی نظر میں اس استدلال کا کوئی نقص ہے تو وہ پیش کریں!! ہم نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ ہم نے کہا ہے تو مان لو!!
عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
بھائی جان! آپ اعتراض پیش کریں ہم آپ کے اعتراض کا ان شاء اللہ، اللہ کی توفیق سے ضرور جواب دیں گے! لیکن ٹرک کی بتی کے پیچھے میں بھاگنے والا نہیں!!
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔
اب آپ نے اعتراض پیش کیا نا، اس کا جواب ہم ان شاء اللہ آپ کو دیں گے!!
اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔
ان میں سے کوئی بھی بات ہمارے استدلال کی بنیاد نہیں!!
اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
  1. دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  2. آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  3. آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  4. کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  5. آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
آپ نے بات دہرائی ہے، ہم جواب دہرا دیتے ہیں:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
اشماریہ بھائی! میری بات تو شاید آپ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن جائیں، لیکن اب میں جو بات پیش کرنے لگا ہوں ، اس کے بارے میں مجھے حد درجہ یقین ہے کہ آپ کو فوراً سمجھ آجائے گی، کیونکہ قرآن حدیث سے مستنبط بات کا سمجھنا مقلد کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے علماء کی باتیں نہ صرف سمجھ آجاتیں ہیں، بلکہ وہ اسے دوسروں کو سمجھانے کی بھی کاوش کرتا ہے۔ تو لیجئے جناب! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دیوبند کتابوں کے گواہ ہونے سے متعلق:
(۱) اہل سنت والجماعت کے طریق سے منحرف ہیں جیسا کہ خود مودودی صاحب اور جماعت کے اونچے ذمہ داران کی کتب اس پر شاہد ہیں

ملاحظہ فرمائیں: فتوی: 156/ ھ= 109/ ھ مورخہMar 01,2008، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
(۱)پاکستان میں جوغیرمقلدین آپ کو پریشان کرتے ہیں، ان کا حال سعودی عرب کے حضرات کے بالکل خلاف ہے، سعودی عرب میں چوٹی کے علمائے کرام تقلید کو نہ حرام قرار دیتے ہیں نہ شرک کہتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ان علمائے کرام کی تقلید کو اختیارکیے ہوئے ہے، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے عامةً وہاں کے اہل علم مقلد ہیں جیسا کہ خود ان کی کتب اس پر شاہدِ عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 1644/ ھ= 302/ تھ مورخہNov 10,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اکرام سے مراد خاطر مدارات نیز مہمان کی دلجوئی اور اس کے ظاہری مناسب حال رواداری اور رکھ رکھاوٴ ہے اور یہ ناجائز نہیں۔ حضرت نبی اکرم صل یاللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بعض مرتبہ کفار کے وفود آتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو مسجد نبوی میں خیمہ لگاکر ٹھیراتے اور ان کی مہمان داری کا پورا خیال رکھتے تھے، نیز یہودی پڑوسیوں وغیرہ سے خاطر مدارات کے معاملات اور مخالفین اسلام کی دلجوئی اوران کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بکثرت منقول ہے، جیسا کہ کتب سیر وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 650=460/ھ مورخہMar 29,2009، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

مفتی شفیع احمدعثمانی (المتوفی ۱۹۸۶/)علماء دیوبند کے ممتاز علماء اور مقتدا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی عربی ادبیت بھی کسی دوسرے ہمعصر سے کم نظر نہیں آتی ۔آپ نثر ونظم دونوں میدانوں کے ماہر فن معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کی تالیف ''نفحات''اس کی شاہد عدل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عربی زبان وادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کاتنقیدی جائزہ - ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء

اشماریہ بھائی! اب آپ کتاب کو گواہ ماننے کو تیار ہو!! کہیں اب آپ یہ تو نہیں کہو گے کہ یہاں شاہد کہا گیا ہے، اور ہماری بحث گواہی کی ہو رہی ہے؟ اور پھر یہ مطالبہ کرنے کا ارادہ تو نہیں کہ اصول و قاعدہ دکھلاؤ کہ شاہد اور گواہ مترادف الفاظ ہیں؟

یہی نہیں آپ نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب سے ابن تیمیہ کا موقف پیش کیا، وہ کیا آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے خود ہی بتلایا تھا؟ آپ نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب سے پیش کیا، اور اسے آپ نے بھی تقلید نہ ہونے کی صراحت کردی، جیسا کہ آپ نے فرمایا:
مجھے حیرت ہے کہ میں تو ابن تیمیہؒ کا مقلد ہوں نہیں۔ اور جناب والا خود کو ویسے ہی تقلید سے دور بتاتے ہیں۔ تو پھر ابن تیمیہؒ کا یہ فتوی کہ یہ اقوال و افعال کی بدعت ہے کس کے لیے ذکر کیا ہے؟؟؟
***

میرے محترم یہ میں نے یہاں سے اخذ کر لیا!
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
یہ ساری باتیں آپ کی یاد دہانی کے لئے دوبارہ پیش کر کے آپ سے عرض کیا تھا کہ:
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟
آپ فرماتے ہو کہ یہاں سے:
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ کو راویوں کی تحقیق کو ذکر اور سند کا فرق معلوم ہے؟ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں سند ذکر کی ہے، اس میں موجود رایوں کی تحقیق وہاں رقم نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سند کی ہی کوئی حاجت نہیں! ہم نے یہاں سند سے متصل رایوں کی تحقق کے ذکر کے درج کے لزول کی نفی کی ہے، سند کی نہیں! اور اگر کسی نے مکمل سند بیان نہیں کی، تعلیقاً روایت کیا ہے، تو اس کی مکمل سند کے سامنے آجانے تک معلق احادیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی!! یا وہ کسی کتاب کا حوالہ ذکر کردے، کہ اس کی سند فلاں نے ذکر کی ہے!
اشماریہ بھائی! کراچی کے ہو مگر آپ نے ناک کٹوا دی! ہم نے کہا رایوں کی تحقیق لکھنا لازم نہیں ، آپ نے اس سے سند سے ہی جان خلاصی کر لی!!
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!

***

آپ نے اس پر ایک بار پھر ایک ایسی بات کر دی جس کی تک نہیں ہے؟ جب ایک اصول ہے جو قضاۃ کے درمیان جاری رہا ہے تو اس پر چلیے۔ جب ایک ہیڈماسٹر جو صرف آپ کے کاغذات اٹیسٹ کرتا ہے اس کی تصدیق بھی بغیر مہر کے قبول نہیں ہوتی تو ایک قاضی کی گواہی کیسے قبول ہو جاتی ہے؟ تاریخ میں کتنی کتابیں ہیں جن کی نسبت غلط مصنفین کی طرف کی گئی ہے! حتی کہ امام شافعیؒکیجانبپوراسفرنامہکردیاگیاہے۔اگرآپکےخیالمیں البانی کی کتاب کی حیثیت "قاضی" کی کتاب کی ہے تو اسے اتنی اہمیت تو دیجیے۔
معذرت چاہتا ہوں! آپ صرف حدیث مبارکہ پیش کرکے بضد ہیں کہ دلیل پیش ہو گئی۔ ایسے نہیں ہوتا۔ میں نے عرض کیا ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!

***

آپ کو واضح جواب دینے میں کوئی مسئلہ ہے؟ قارئین بھی دیکھتے ہوں گے کہ یہ بندہ ہر سوال کا جواب گھما کر کیوں دیتا ہے!
اس کا واضح اور سیدھا سا جواب دے دیجیے:
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!
اشماریہ بھائی! بلکل یہ بات اپ نے بہت اچھی کہی کہ قارئین بھی دیکھتے ہون گے، لہٰذا میں قارئین کو اپنے طرز کی دلیل بھی بیان کردیتا ہوں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ ، وَلَا هَامَةَ " ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا ، فَقَالَ : فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَسِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحو ست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ کہ یا رسول اللہ ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہوگیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہر نوں کی طرح ( صاف اور خوب چکنے ) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آجاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی ؟
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب لَا صَفَرَ وَهُوَ دَاءٌ يَأْخُذُ الْبَطْنَ
میں نے دلیل تو بیان کردی، مگر اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اشماریہ بھائی مجھ پر یہ الزام نہ لگا بیٹھیں کہ یہ عمل تو آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، آپ یہ کیسے کر رہے ہیں! اور پھر اشماریہ بھائی نے مجھ سے اس حدیث کی دلالت پر سوال اٹھانے شروع کردیئے کہ وہ تو اونٹ کے متعلق سوال تھا، حدیث پر عمل کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اونٹ پالو! وغیرہ وغیرہ!
لیکن الحمدللہ! میری بچت یوں ہو گئی کہ میں نے یہ دلیل قارئین کے لئے بیان کی ہے! وگرنہ اشماریہ بھائی نے تو مجھے ۔۔۔۔ باقی قارئین سمجھدار ہیں!


***

آپ نے جواب ہی نہیں دیا اور کہتے ہیں کہ استدلال پیش کیا ہے۔ یہ تو حال ہے ترک تقلید کے بعد۔ میں نے عرض کیا ہے کہ استدلال صرف یہ نہیں ہوتا کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے تم مان لو۔ استدلال کو استدلال کے طریقے سے ثابت بھی کریں نا۔
اس طرح تو کل کو آپ دعوی نبوت کر کے کوئی حدیث پیش کریں اور کہہ دیں کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے آپ اعتراض کرو تو کیا ہم مان لیں گے؟ جی نہیں جناب جب آپ سے کہا جائے کہ اس استدلال کو ثابت کرو تب ثابت بھی کر کے دکھائیں کہ میرا استدلال عبارۃ النص سے ہے اور اس میں فلاں لفظ عام ہے اور فلاں کا فلاں معنی ہے وغیرہ تب استدلال "پیش" ہوگا۔
میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
  • دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  • آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  • آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  • کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  • آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
اور جناب والا! اب حجت چین و حکمت بنگال والا نعرہ لگا کر خود کو بری نہیں سمجھ لیجیے گا۔ ہم اردو ادب کی نہیں مسئلہ تقلید کی بحث کر رہے ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ لگانے سے آپ کی بات پوری ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معذرت چاہتا ہوں ایسا نہیں ہوتا۔
بھائی جان! کتابوں کا گواہ ہونا ہم نے دارلعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی پیش کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے، اب اس پر پھر بھی آپ کی یہ حجت بازی، حکمت چین و حجت بنگال ہی ٹھہرے گی! دار العلوم دیوبند کے فتاوی نے آپ کی اس حجت بازی کو حکمت چین و حجت بنگال ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے!
چچ چچ چچ۔ یار دعوی ہے آپ کا ترک تقلید کا اور فہم اتنی بھی نہیں کہ چلنے والی بحث میں اور اپنی دی ہوئی مثال میں فرق ہی سمجھ پائیں؟ تو پھر ترک تقلید کر کے آخر آپ کیا کرتے ہیں؟؟؟
اشماریہ بھائی! اب تک تو اپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کی باتیں آپ کے لئے ہی مضر ثابت ہوتی ہیں! لیکن آپ بھی باز نہیں آتے، تو خیر کوئی بات نہیں! ہم بھی ہر بار آپ کو اپ کا فہم سے عاجز ہونا یاد کرواتے جائیں گے!
اشماریہ بھائی! آپ کے علم میں ہوگا کہ آپ کے علماء تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے اپنا کم علم اور کج فہم ہونا بطور دلیل پیش کرتے رہیں کہ اس وجہ سے وہ تقلید کرتے ہیں! اور اب یہ مقلد لاچار و کج فہم، کسی دوسرے کے فہم پر سوال اٹھائے، یہ مقلد کو تو زیب نہیں دیتا! مقلد بااعتراف خود کج فہم ہوتا ہے! اور آپ کے اس جملہ میں بھی یہ مفہوم شامل ہے! بھائی جان! کچھ سوچ سمجھ کر تحریر کیا کریں!
او میرے بھائی بات یہ چل رہی ہے کہ گواہ کی کتاب کی گواہی قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور وہ بھی کہاں! قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے سامنے (جس کی اپنی گھڑی ہوئی اسپیشل حیثیت بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکے)۔ اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ بھی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آؤ گے! میاں جی! مصنف کی کتاب اس کے مؤقف پر شاہد ہے، اس کے فیصلہ پر شاہد ہے، اور اس نے کسی اور کے مؤقف کو درج کیا ہے ، تو مصنف کے ثقہ ہونے کی صورت میں، یا دوسری کتاب سے بیان ہونے، با سند صحیح بیان ہونے کی بنیاد پر، دوسرے کے مؤقف پر بھی گواہی ہے، یہ بات آپ کو متعدد بار اقتباس پیش کر کر کے بتلائی گئی ہے! مگر آپ ہو کہ بس، مرغے کی ایک ٹانگ!
مگر ہم بھی اس کا تریاق رکھتے ہیں؛ آپ کو مفتی محمد راشد ڈسکوی،استاذِ جامعہ فاروقیہ کراچی کا کلام ماہنامہ دار العلوم دیوبند سے پیش کرتے ہیں:
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے، ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“ اور ”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللّٰہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی  نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی  نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی  ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی  اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے ”لا یصح“ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة، ملتان)
(النخبة البہیّة في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)

ملاحظہ فرمائیں: تقبیل الابہامین سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء


رفع یدین کے سلسلے میں تقریباً ۳۵۰ صحیح احادیث آپ کے دوست کی نئی یافت ہے۔ آپ اگر باحوالہ اپنے دوست سے ان احادیث کو لکھوا کر بھیجیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ شوافع اور حنابلہ جو قائلین رفع میں سے ہیں، صحیح احادیث کے اس مخفی خزانے کا آج تک سراغ نہ لگاسکے۔ امام بیہقی نے رفع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ احادیث نقل کرنے کی کوشش کی تو کل ۳۰ /احادیث نقل کرسکے۔ جن میں سے نصف احادیث کے سلسلے میں امام بیہقی ہی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ قابل استدلال نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: فتوى: 354/ل = 354/ل، مورخہJul 28,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟
اشماریہ بھائی! دلیل تو ہم نے پیش کی ، مگر وہ آپ کے فہم پر پر حائل تقلیدی فلٹر کے سبب آپ کی فہم سے بالا تر رہی، اور آپ نے اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے، مگر آپ کو شاید یہ اندازہ نہیں تھاکہ ہم ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں، اور آپ کے دارالعلوم دیوبند سے کتب کے گواہ ہونے کا ثبوت پیش کیا، اور اب محدثین کا فیصلہ کرنے والے ہونے، کا ثبوت بھی پیش کر دیا! اب ممکن ہے کہ آپ یہاں یہ کہہ دو کہ یہاں تو ''فیصلہ'' کا لفظ ہے ''قاضی جیسی حثیت'' کا لفظ دکھلاؤ!
اور آپ کی کتب سے حجت قائم کرنے کا معاملہ اس لئے پیش آیا کہ آپ ایک متفق علیہ مسئلہ میں مستقل اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہو! آپ کو بتلایا بھی کہ بھائی! حکومتی قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق ہی سمجھ لیں! آپ اس پر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ فرق بھی آپ کو میں بتلاؤں! تو میاں جی! میں نے آپ کو عرض کردیا تھا کہ اس واسطے آپ کو اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لینا ہوگا! میں آپ کو یہاں اردو تو پڑھانے سے رہا!
بہر حال ، علمائے دیوبند نے کتب کو گواہ بھی قرار دیا ہے، اور محدثین کو قاضی بھی! جس کے ثبوت آپ کو پیش کر دیئے گئے۔
اشماریہ بھائی! ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ کسی بھی مسئلہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے قبل اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ گھوڑے کہیں اپنے ہی گھر کو نہ روند ڈالیں! ایک بار پھر عرض کرتا ہوں:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

***

یار ہم کتاب سے جو موقف لیا جاتا ہے اسے مانتے ہیں، مصنف کی بات سمجھتے ہیں لیکن آپ کی طرح خود کو قاضی جیسی حیثیت (وہ اسپیشل والی حیثیت) والا محدث مان کر مصنف کی بات کو اپنی مجلس میں گواہی نہیں مانتے۔ اسے فیصلہ وغیرہ آپ کے لحاظ سے کہا تھا۔ اول تو آپ کو سامنے والے کی بات ہی سمجھ نہیں آتی۔ چلو نہیں آتی تو کوئی بات نہیں، خیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پر آپ اپنی سوچ کے مطابق عمارت بھی تعمیر کر ڈالتے ہیں۔
اشماریہ بھائی! اس کی پوری تفصیل ایک بار پھر اوپر بیان ہوئی ہے۔ میرے بھائی! ہم تو آپ کی تحریر کا مطلب بالکل درست سمجھ رہے ہیں، یہ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں کوئی اور بات ہو اور اسے آپ دم تحریر میں لانے قاصر ہوں ! اگر آپ کا یہ مدعا ہے کہ ہم نے آپ کی بات کو غلط سمجھا ہے تو آپ وہ اقتباس یہاں پیش کریں ، اپنی بات کا بھی اور پھر میری تحریر کا بھی کہ میں نے اپ کی فلاں بات غلط سمجھی، اور آپ کی عبارت کے معنی و مفہوم کے برخلاف یہ بیان کیا! اس طرح ہوائی بات کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں!
اشماریہ بھائی! میں اپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں کہ معاملہ کچھ یوں ہوا ہے کہ اپ جو عمارت تعمیر کرنا چاہ رہے تھے، دار العلوم دیوبند نے اس عمارت کو تعمیر کرنے پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے!

***

ایک بار پھر سوال عرض ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اب اگر آپ دلیل بھی نہیں دے سکتے اور فرق بھی نہیں بیان کر سکتے اور لغت سے کوئی حوالہ بھی نہیں دے سکتے تو پھر یہاں آپ (معذرت کے ساتھ) کیا بحث برائے بحث کے لیے تشریف لائے ہیں؟
اشماریہ بھائی! آپ کو کہا گیا ہے کہ:
اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!
آپ کو یہ بات ہم کئی بار بتلا چکے ہیں کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو نہیں پڑھا سکتے! اس واسطے آپ کو اسکول میں داخلہ لینا ہو گا!
مزید کہ دارالعلوم دیوبند کا حوالہ بھی پیش کر دیا گیا ہے!!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس بحث میں قارئین دیکھ سکتے ہیں کہ ہم نے کبھی یہ بات نہیں کی جس میں ہم نے محدث کی حیثیت پہلے کچھ بیان کی ہو اور پھر بعد میں اسے تبدیل کیا ہو، جبکہ اشماریہ صاحب متعدد بار ہم پر یہ بات منسوب کر چکے ہیں! محدث کی قاضی کی سی حیثیت کے بارے میں ان کے پہلے اعتراض کے جواب میں ہی بتلایا گیا تھا کہ ، ہم محدث کو حکومتی قاضی قرار نہیں دے رہے، بلکہ قاضی جیسی حیثیت قرار دے رہے ہیں، اور گھریلو معاملات میں ، میاں بیوی کے معاملات میں بھی ''حکم '' بنانے کے حوالہ سے انہیں بتلایا گیا!
محدث کے قاضی ہونے اور کتب کے گواہ ہونے کے متعلق دا رالعلوم دیوبند کے حوالاجات سے بھی بتلا دیا گیا ، اور ثابت کر دیا گیا کہ یہ تو مفق علیہ مسئلہ ہے، مگر اشماریہ صاحب نے سوائے اس کے کہ'' مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے'' کہہ کر فرق ہے فرق ہے کا نعرہ ہی لگایا، فرق نہیں بتلایا! یعنی یہ نہیں بتلایا کہ مطابق نہیں تو کیوں مطابق نہیں!
مگر ہمارے اشماریہ بھائی! سمجھنے کے بجائے سمجھ سے دشمنی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے، ایسے ایسے اٹکل کے گھوڑے میدان میں لائے کہ بس، کہ کس حکومت نے متعین کیا، کتاب بھی لفافے میں بند ہو، اس پر مہر بھی لگی ہوئی ہو، اور وہ کسی نے پہلے کھولا بھی نہ ہو! مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں اشماریہ صاحب یا ان کی طرح کا کو منچلا مقلد، اللہ تعالیٰ کی قرآن میں پیش کردہ مثال:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَۖ خَلَقَهُ مِن تُرَ‌ابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿سورة آل عمران 59﴾
بے شک عیسیٰ کی مثال الله کے نزدیک آدم کی سی ہے اسے مٹی سے بنایا پھر اسے کہا کہ ہو جا پھر ہو گیا ۔(ترجمہ احمد علی لاہوری دیوبندی)
پر اپنے اٹکل پچّو کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے یہ نہ کہہ دے کہ آدم علیہ السلام کو تو مٹی سے بنایا، عیسیٰ علیہ السلام کو تو مٹی سے نہیں بنایا، اور پھر آدم علیہ السلام کی تو کوئی والدہ بھی نہ نہیں، عیسی ٰ علیہ السلام کی تو والدہ بھی ہیں! اور (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ کی پیش کردہ مثال کو بھی غلط و باطل قرار دے دے اور پھر یہ نعرہ لگانے بیٹھ جائے کہ فرق واضح ہے، فرق واضح ہے! معاذ اللہ!

اور ڈر لگتا ہے کہ کہیں اشماریہ صاحب یہ ان کی طرح کا کوئی منچلا اللہ تعالیٰ سے یہ اعتراض نہ کر بیٹھے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جو فرمایا ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِ‌يدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَاۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرً‌ا ﴿سورة النساء 35﴾
اور اگر تمہیں کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا خطرہ ہو تو ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو الله ان دونو ں میں موافقت کر دے گا بے شک الله سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔(ترجمہ احمد علی لاہوری دیوبندی)
(معاذ اللہ ) یہاں اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی کو اپنے خاندان سے حکم مقرر کرنے کا اختیار کیوں دے دیا، حکم یعنی قاضی تو حکومت مقرر کرتی ہے۔ اور پھر یہ ''حکم'' اپنے فیصلہ کو نافذ بھی نہیں کرسکتے، اگر میاں بیوی مان لیں تو بہتر ہے، نہ مانہیں تو پابند بھی نہیں کیا سکتا، اور نہ ماننے کی سزا بھی نہیں دے سکتے۔ پھر اشماریہ صاحب یا ان کی طرح کا کوئی مقلد منچلا یہ نعرہ لگانے بیٹھ جائے کہ (معاذ اللہ ) اللہ کا یہاں ''حكم'' کہنا غلط ہے۔

اور اشماریہ صاحب یا ان کی طرح کا کوئی منچلا مقلد اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُ‌مٌۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَ‌ةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِ‌هِۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴿سورة المائدة 95﴾
اے ایمان والو! جس وقت تم احرام میں ہو تو شکار کونہ قتل کرو اور جو کوئی تم میں سے اسےجان بوجھ کر مارے تو اس مارے ہوئے کے برابر مویشی میں سے اس پر بدلہ لازم ہے جو تم میں سے دو معتبر آدمی تجویز کریں بشرطیکہ قربانی کعبہ تک پہنچنے والی ہو یا کفارہ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہو یا اس کے برابر روزے تاکہ اپنے کام کا وبال چکھے الله نے اس چیز کو معاف کیا جو گزر چکی اور جو کوئی پھر کرے گا الله اس سے بدلہ لے گا اور الله غالب بدلہ لینے والا ہے۔(ترجمہ احمد علی لاہوری دیوبندی)
پر بھی (معاذ اللہ) یہ اعتراض نہ کر بیٹھے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار تو حکومتی قاضی کا ہوتا ہے، وہ تو حکومت قاضی مقرر کرتی ہے، اللہ تعالیٰ نے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر تمام مسلمانوں کو یہ اختیار کیوں دے دیا!

ہم تو ہمارے اشماریہ بھائی، اور ان کی طرح کے تمام منچلے مقلدین کو یہی نصحیت کریں گے کہ، علم الکلام میں جھک مارنا چھوڑیں! اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھنے کے لئے کلام کو سمجھنے کا علم حاصل کریں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور جب امام مالکؒ كا یہی طرز المدونۃ الکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
(یہ مثال کی تبدیلی کے ساتھ سوال عرض ہے۔)
اب یہ جو سوال اشماریہ بھائی! اشماریہ بھائی، بلا وجہ دہرائے جا رہیں ہیں، جب کہ انہیں شروع میں ہی بتلا دیا تھا کہ بھائی! مجتہد بھی اسی حکم میں داخل ہے، مگر پھر بھی اشماریہ بھائی!'' آخر ما بہ الفرق کیا ہے'' کا ترانہ گائے جا رہے ہیں! محمد بن الحسن الشیبانی کے حوالہ سے فرق تھا، جو بیان کر دیا گیا! ملاحظہ فرمائیں کہ اس بات پر کیا گفتگو ہوئی تھی!

تیسرا سوال یہ کہ دلائل و قرائن کی روشنی میں محدث ایک حدیث کے بارے میں فیصلہ کرے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر عمل کرو تو وہ قاضی جیسا۔ اور اس کی بات ماننا درست۔ اور اگر قرائن و دلائل ہی کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرے کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو تو وہ ایسا کیوں نہیں؟؟؟
قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!

***

اور کیا وجہ ہے کہ جہاں سے آپ نے محدث کی اس شاندار حیثیت پر استدلال کیا ہے وہاں سے مجتہد پر نہیں ہو سکتا؟؟
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!
وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!

***

اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اس بات کو سمجھئے کہ کسی مجتہد کا کسی مسئلہ میں کو ذکر کرنا اس کی گواہی کو قبول کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے استدلال و اسنباط و قیاس شرعی کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ اور اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری کہ آپ نے امام محمد اور ان کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے جو سوال کیا ہے اس کا معاملہ بھی بتلادیتے ہیں!
وہ اس لئے کہ اول تو امام محمد اپنے استدلال میں بھی قابل اعتماد نہیں، کیونکہ ان میں ارجاء بھی پا جاتا تھا اور خیر سے جہمیہ کی بدعت بھی تھی!
اس پر طرہ یہ کہ اپنے استدلال میں خبر واحد کے منکر تھے، اور سونے پر سہاگہ یہ کہ جن احادیث و آثار سے وہ استدلال کر رہیں ہیں ، اس پر بھی وہ بھی قابل اعتماد نہیں کہ وہ خود ضعیف راوی ہیں، اور بوجہ حافظہ کی کمزوری کے نہیں بلکہ ان کی عدالت مجروح ہے!

***

لو جی! تو اب امام محمد ایک مثال ہیں صرف؟ تو پھر اتنی بحث کیوں کی تھی ان پر۔ صرف اتنا کہہ دیتے کہ مثال میں تھوڑی کمزوری معلوم ہوتی ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ کمزوری مثال کی نہ ہو۔۔۔۔) اس لیے مثال تبدیل کر دیں۔ میں امام شافعیؒکاذکر کر دیتا یا امام مالک کا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے محمد بن الحسن شیبانی کا نام لے کر پوچھا تھا کہ :
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
ہم نے آپ کو پہلے تو یہ فرق بتلایاتھا کہ:
وہ کیا کہتے ہیں کہ :
کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی!!
بھائی جان اسلئے کہ محمد بن حسن الشیبانی بذات خود قال اعتماد نہیں، حتی کہ انہیں جمہی کذاب تک قرار دیا گیا ہے۔ فتدبر!
یہ بات آپ کو تسلیم نہ تھی، اس پر دلائل بیان کئے گئے، اور اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
جہاں تک بات رہی کہ آپ امام الشافعی ؒ یا امام مالک ؒ کے حوالے سے یہ سوال کر لیتے، تو آپ کو اس بات کو جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن آپ ہمارے مدعا کو یا یاد نہیں رکھ پاتے، یا سمجھ نہیں پاتے، یا پھر جان کر کج بحثی کی صورت اختیار کرتے ہو!

***

اور جب امام مالکؒكایہیطرزالمدونۃالکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
(یہ مثال کی تبدیلی کے ساتھ سوال عرض ہے۔)
لو جی! تو اب امام محمد ایک مثال ہیں صرف؟ تو پھر اتنی بحث کیوں کی تھی ان پر۔ صرف اتنا کہہ دیتے کہ مثال میں تھوڑی کمزوری معلوم ہوتی ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ کمزوری مثال کی نہ ہو۔۔۔۔) اس لیے مثال تبدیل کر دیں۔ میں امام شافعیؒکاذکرکردیتایااماممالک کا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے محمد بن الحسن شیبانی کا نام لے کر پوچھا تھا کہ :
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
ہم نے آپ کو پہلے تو یہ فرق بتلایاتھا کہ:
وہ کیا کہتے ہیں کہ :
کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی!!
بھائی جان اسلئے کہ محمد بن حسن الشیبانی بذات خود قال اعتماد نہیں، حتی کہ انہیں جمہی کذاب تک قرار دیا گیا ہے۔ فتدبر!
یہ بات آپ کو تسلیم نہ تھی، اس پر دلائل بیان کئے گئے، اور اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
جہاں تک بات رہی کہ آپ امام الشافعی ؒ یا امام مالک ؒ کے حوالے سے یہ سوال کر لیتے، تو آپ کو اس بات کو جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن آپ ہمارے مدعا کو یا یاد نہیں رکھ پاتے، یا سمجھ نہیں پاتے، یا پھر جان کر کج بحثی کی صورت اختیار کرتے ہو!

***

ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
میں اسے تبدیل کر کے کہتا ہوں:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام مالکؒ كا یہی طرز المدونۃ الکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اس کا جواب کئی بار دیا جا چکا ہے، ایک بار پھر پیش کر دیتے ہیں:
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن یہاں آپ کی ایک بات درست نہیں، کہ امام مالکؒ کا یہی طرز ''المدونة الكبری'' میں ہوتا ہے، کیونکہ ''المدونة الكبری'' امام مالک کی کتاب ہی نہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
4: جیسے اس آیت سے محدث کے حدیث پر صحیح ہونے کے حکم کو بلا دلیل ماننا ثابت ہے اسی طرح مجتہد کے کسی مسئلے میں حکم کو بلا دلیل ماننا بھی ثابت ہے؟
ایک محاورہ ہے کہ چور چوری سے جائے، ہیرا بھیری سے نہ جائے!
اب مقلد مکاری ترک کر بھی دے ، تو فنکاری کیسے چھوڑے!
حالانکہ انہیں خود معلوم ہے کہ اس پر گرفت ہو گی تو خود آگے فرماتے ہیں:
یا یوں کہہ لیں کہ امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے اسی طرح امام مالک کا مسئلہ کو ذکر کرنا اسی آیت سے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے؟
(سوال مثال کی تبدیلی کے ساتھ)
لہٰذا پہلے تو ہم اشماریہ صاحب کی فنکاری کا جواب دیں کہ یہ جو انہوں نے محدث کی گواہی اور فیصلہ کو بلا دلیل ماننے کا کہہ کر کی ہے، اس کا جواب بھی پہلے اسی تھریڈ میں دیا گیا ہے، ملاحظہ فرمائیں:

***

ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!

***

جیسے اس آیت سے محدث کے حدیث پر صحیح ہونے کے حکم کو بلا دلیل ماننا ثابت ہے اسی طرح مجتہد کے کسی مسئلے میں حکم کو بلا دلیل ماننا بھی ثابت ہے؟
دوم کہ محدث کی بات بلا دلیل نہی مانی جاتی بلکہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے، اور گواہی کو ماننا تقلید نہیں، جیسا کہ اس تعریف میں صراحتاً موجود ہے!!
لہٰذا آپ کا یہ ''بلا دلیل'' کہنا بھی باطل ٹھہرا!! لہٰذا اس دھوکہ بازی اور فریب سے کام نہ لیں، ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ محدث کی بات بلا دلیل مانی جاتی ہے، ہم نے یہ کہا ہے کہ ثقہ محدث کی گواہی مانی جاتی ہے!!
لہٰذا محدث کی گواہی اور اس کا فیصلہ ماننے کو مجتہد کی بلا دلیل بات ماننے پر قیاس نہ کریں!!

***

اول: تو جس جس کے کہنے پر تسلیم کیا جاتا ہے وہ کب ایک ایک راوی کی تحقیق شہادت و قضا کے اصولوں کے مطابق ہر حدیث کے تحت لکھتا ہے؟ وہ تو صرف اپنا فیصلہ بتاتا ہے بلا دلیل۔
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
دوم: امام بخاری محدث ہیں اور محدث کی گواہی نہیں یہ اس کا فیصلہ ہے جو آپ کے بقول اس نے قاضی کی سی حیثیت سے کیا ہے۔ اس فیصلہ کے دلائل کہاں ہیں؟؟ اور بغیر دلیل کے ماننا کیا ہے؟؟؟
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!

***

اس لیے میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ:
امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
آپ نے سوال دہرایا ہے تو مجھے پھر سے جواب بھی دہرانا پڑ رہا ہے:
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!

***

اور ہاں سند نہیں مانگیے گا۔ کیوں کہ جس طرح آپ نے بلا سند اقوال اٹھا کر پیش کیے تھے اسی طرح میں نے بھی کر دیے ہیں۔ نیز میں نے علامہ ذہبی کی گواہی پر اعتماد کیا ہے آپ کے اصول کے مطابق۔
یہ بھی عجیب کہی!! جناب من! آپ کو یہ کس نے کہا کہ گواہی کو ماننا سند سے مستغنی کر دیتا ہے؟ بھائی جان یہی سند تو گواہی ہوتی ہے!! اور اس سند پر حکم فیصلہ!! کیا کریں کہ
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجا ست
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟

***

اس سند کے رواۃ کی تحقیق و بحث کی تو اب غالبا ضرورت نہیں رہی کیوں کہ ابن تیمیہ کی گواہی موجود ہے اس کے امام محمد کے قول ہونے پر۔
اشماریہ بھائی! آپ کو پچھلے مراسلہ میں بھی اس سے قبل کے کی تحریر کے اقتباس پیش کر کرے یاد دلایا تھا کہ آپ سند سے مستغنی نہیں ہو سکتے!!
یہ بھی عجیب کہی!! جناب من! آپ کو یہ کس نے کہا کہ گواہی کو ماننا سند سے مستغنی کر دیتا ہے؟ بھائی جان یہی سند تو گواہی ہوتی ہے!! اور اس سند پر حکم فیصلہ!! کیا کریں کہ
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجا ست
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
میرے بھائی جان! آپ کویہ کس نے کہہ دیا کہ اب سند کے رواة کی تحقیق کی ضرورت نہیں رہی، آپ کو ابھی اوپر بیان کیا گیا، کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ فیصلہ کیونکر غلط ہے۔

***

میرے محترم یہ میں نے یہاں سے اخذ کر لیا!
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
یہ ساری باتیں آپ کی یاد دہانی کے لئے دوبارہ پیش کر کے آپ سے عرض کیا تھا کہ:
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟
آپ فرماتے ہو کہ یہاں سے:
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ کو راویوں کی تحقیق کو ذکر اور سند کا فرق معلوم ہے؟ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں سند ذکر کی ہے، اس میں موجود رایوں کی تحقیق وہاں رقم نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سند کی ہی کوئی حاجت نہیں! ہم نے یہاں سند سے متصل رایوں کی تحقق کے ذکر کے درج کے لزول کی نفی کی ہے، سند کی نہیں! اور اگر کسی نے مکمل سند بیان نہیں کی، تعلیقاً روایت کیا ہے، تو اس کی مکمل سند کے سامنے آجانے تک معلق احادیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی!! یا وہ کسی کتاب کا حوالہ ذکر کردے، کہ اس کی سند فلاں نے ذکر کی ہے!
اشماریہ بھائی! کراچی کے ہو مگر آپ نے ناک کٹوا دی! ہم نے کہا رایوں کی تحقیق لکھنا لازم نہیں ، آپ نے اس سے سند سے ہی جان خلاصی کر لی!!
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!

***

اب آتے ہیں اشماریہ صاحب! کے سوال اس سوال پر!
یا یوں کہہ لیں کہ امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے اسی طرح امام مالک کا مسئلہ کو ذکر کرنا اسی آیت سے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے؟
(سوال مثال کی تبدیلی کے ساتھ)
اشماریہ صاحب نے یہی سوال پہلے بھی کیا ہے، بس ذرا الفاظ کی ترتیب الگ ہے، اشماریہ صاحب نے سوال دہرایا ہے، جب جواب دہرا دیتے ہیں:
اب یہ جو سوال اشماریہ بھائی! اشماریہ بھائی، بلا وجہ دہرائے جا رہیں ہیں، جب کہ انہیں شروع میں ہی بتلا دیا تھا کہ بھائی! مجتہد بھی اسی حکم میں داخل ہے، مگر پھر بھی اشماریہ بھائی!'' آخر ما بہ الفرق کیا ہے'' کا ترانہ گائے جا رہے ہیں! محمد بن الحسن الشیبانی کے حوالہ سے فرق تھا، جو بیان کر دیا گیا! ملاحظہ فرمائیں کہ اس بات پر کیا گفتگو ہوئی تھی!
تیسرا سوال یہ کہ دلائل و قرائن کی روشنی میں محدث ایک حدیث کے بارے میں فیصلہ کرے کہ یہ حدیث صحیح ہے اس پر عمل کرو تو وہ قاضی جیسا۔ اور اس کی بات ماننا درست۔ اور اگر قرائن و دلائل ہی کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرے کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو تو وہ ایسا کیوں نہیں؟؟؟
قرائن و دلائل کی روشنی میں مجتہد فیصلہ کرنا کہ یہ مسئلہ اس طرح ثابت ہوا ہے اس پر عمل کرو، اورعامی کا اس پر عمل کرنا تقلید نہیں!!

***

اور کیا وجہ ہے کہ جہاں سے آپ نے محدث کی اس شاندار حیثیت پر استدلال کیا ہے وہاں سے مجتہد پر نہیں ہو سکتا؟؟
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!!
وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!

***

اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اس بات کو سمجھئے کہ کسی مجتہد کا کسی مسئلہ میں کو ذکر کرنا اس کی گواہی کو قبول کرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے استدلال و اسنباط و قیاس شرعی کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ اور اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔ لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔ یہ تو رہی ایک بات۔ دوسری کہ آپ نے امام محمد اور ان کی کتاب مبسوط کے حوالہ سے جو سوال کیا ہے اس کا معاملہ بھی بتلادیتے ہیں!
وہ اس لئے کہ اول تو امام محمد اپنے استدلال میں بھی قابل اعتماد نہیں، کیونکہ ان میں ارجاء بھی پا جاتا تھا اور خیر سے جہمیہ کی بدعت بھی تھی!
اس پر طرہ یہ کہ اپنے استدلال میں خبر واحد کے منکر تھے، اور سونے پر سہاگہ یہ کہ جن احادیث و آثار سے وہ استدلال کر رہیں ہیں ، اس پر بھی وہ بھی قابل اعتماد نہیں کہ وہ خود ضعیف راوی ہیں، اور بوجہ حافظہ کی کمزوری کے نہیں بلکہ ان کی عدالت مجروح ہے!

***

لو جی! تو اب امام محمد ایک مثال ہیں صرف؟ تو پھر اتنی بحث کیوں کی تھی ان پر۔ صرف اتنا کہہ دیتے کہ مثال میں تھوڑی کمزوری معلوم ہوتی ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ کمزوری مثال کی نہ ہو۔۔۔۔) اس لیے مثال تبدیل کر دیں۔ میں امام شافعیؒکاذکر کر دیتا یا امام مالک کا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے محمد بن الحسن شیبانی کا نام لے کر پوچھا تھا کہ :
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
ہم نے آپ کو پہلے تو یہ فرق بتلایاتھا کہ:
وہ کیا کہتے ہیں کہ :
کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی!!
بھائی جان اسلئے کہ محمد بن حسن الشیبانی بذات خود قال اعتماد نہیں، حتی کہ انہیں جمہی کذاب تک قرار دیا گیا ہے۔ فتدبر!
یہ بات آپ کو تسلیم نہ تھی، اس پر دلائل بیان کئے گئے، اور اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
جہاں تک بات رہی کہ آپ امام الشافعی ؒ یا امام مالک ؒ کے حوالے سے یہ سوال کر لیتے، تو آپ کو اس بات کو جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن آپ ہمارے مدعا کو یا یاد نہیں رکھ پاتے، یا سمجھ نہیں پاتے، یا پھر جان کر کج بحثی کی صورت اختیار کرتے ہو!

***

اور جب امام مالکؒكایہیطرزالمدونۃالکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
(یہ مثال کی تبدیلی کے ساتھ سوال عرض ہے۔)
لو جی! تو اب امام محمد ایک مثال ہیں صرف؟ تو پھر اتنی بحث کیوں کی تھی ان پر۔ صرف اتنا کہہ دیتے کہ مثال میں تھوڑی کمزوری معلوم ہوتی ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ کمزوری مثال کی نہ ہو۔۔۔۔) اس لیے مثال تبدیل کر دیں۔ میں امام شافعیؒکاذکرکردیتایااماممالک کا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے محمد بن الحسن شیبانی کا نام لے کر پوچھا تھا کہ :
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
ہم نے آپ کو پہلے تو یہ فرق بتلایاتھا کہ:
وہ کیا کہتے ہیں کہ :
کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی!!
بھائی جان اسلئے کہ محمد بن حسن الشیبانی بذات خود قال اعتماد نہیں، حتی کہ انہیں جمہی کذاب تک قرار دیا گیا ہے۔ فتدبر!
یہ بات آپ کو تسلیم نہ تھی، اس پر دلائل بیان کئے گئے، اور اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
جہاں تک بات رہی کہ آپ امام الشافعی ؒ یا امام مالک ؒ کے حوالے سے یہ سوال کر لیتے، تو آپ کو اس بات کو جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن آپ ہمارے مدعا کو یا یاد نہیں رکھ پاتے، یا سمجھ نہیں پاتے، یا پھر جان کر کج بحثی کی صورت اختیار کرتے ہو!

***

ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟

میں اسے تبدیل کر کے کہتا ہوں:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام مالکؒ كا یہی طرز المدونۃ الکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اس کا جواب کئی بار دیا جا چکا ہے، ایک بار پھر پیش کر دیتے ہیں:
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن یہاں آپ کی ایک بات درست نہیں، کہ امام مالکؒ کا یہی طرز ''المدونة الكبری'' میں ہوتا ہے، کیونکہ ''المدونة الكبری'' امام مالک کی کتاب ہی نہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
5: آپ کے ایک جملہ پر جسے ہائیلائٹ کر رہا ہوں دو سوال عرض کیے تھا:
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
اول: تو جس جس کے کہنے پر تسلیم کیا جاتا ہے وہ کب ایک ایک راوی کی تحقیق شہادت و قضا کے اصولوں کے مطابق ہر حدیث کے تحت لکھتا ہے؟ وہ تو صرف اپنا فیصلہ بتاتا ہے بلا دلیل۔
دوم: امام بخاری محدث ہیں اور محدث کی گواہی نہیں یہ اس کا فیصلہ ہے جو آپ کے بقول اس نے قاضی کی سی حیثیت سے کیا ہے۔ اس فیصلہ کے دلائل کہاں ہیں؟؟ اور بغیر دلیل کے ماننا کیا ہے؟؟؟
یہ وہی باتیں پھر دہرائیں ہیں جن کا جواب پچھلے دو مراسلوں میں دہرایا گیا ہے!
اشماریہ صاحب! ذرا بغور مطالعہ فرمائیں!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
: جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺہیں لیکن وہ گواہ کون ہےجسکی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
تورات میں رجم مذکور تھا یا نہیں! اس کی تصدیق تورات کے نسخہ سے کی گئی! یہ ہے ہمارے استدلال کی بنیاد، اور اب اس پر مزید اٹکل دوڑانے آپ کے لئے مفید نہیں، آپ کو یہ بات دار العلوم دیوبند سے بھی دکھلا دی گئی ہے کہ کتب ''شاہد'' ہیں!! ہاں مصنف ثقہ ہونا چاہئے! تفصیل اوپر گذر چکی ہے!
7:فیصلہ کرنے میں محدث کی حیثیت قاضی جیسی ہے ؟ نہ نافذ ہونے میں قاضی جیسی ہے نہ گواہوں کی مجلس قاضی میں حاضری میں۔ یہ اسپیشل حیثیت کسی دلیل سے ثابت کیجیے جس میں یہ استثناءات بھی موجود ہوں۔
اوپر بڑی تفصیل سے اس کا بیان گذرا!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
8: محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
اس سوال کا جواب بھی اشماریہ صاحب کو دیا گیا ہے، ہم ایک بار پھر دہرا دیتے ہیں:
یار ایک بات کر لیں۔ محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔ میری عقل عاجز ہے۔
بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!!
اشماریہ بھائی ! کیسی باتیں کرتے ہو!! آپ کے اس مسئلہ کا حل ابو زید الدبوسی الحنفی نے بتلایا ہے،

***

آپ کو واضح جواب دینے میں کوئی مسئلہ ہے؟ قارئین بھی دیکھتے ہوں گے کہ یہ بندہ ہر سوال کا جواب گھما کر کیوں دیتا ہے!
اس کا واضح اور سیدھا سا جواب دے دیجیے:
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!
اشماریہ بھائی! بلکل یہ بات آپ نے بہت اچھی کہی کہ قارئین بھی دیکھتے ہون گے، لہٰذا میں قارئین کو اپنے طرز کی دلیل بھی بیان کردیتا ہوں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ ، وَلَا هَامَةَ " ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا ، فَقَالَ : فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَسِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحو ست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ کہ یا رسول اللہ ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہوگیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہر نوں کی طرح ( صاف اور خوب چکنے ) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آجاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی ؟
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب لَا صَفَرَ وَهُوَ دَاءٌ يَأْخُذُ الْبَطْنَ
میں نے دلیل تو بیان کردی، مگر اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اشماریہ بھائی مجھ پر یہ الزام نہ لگا بیٹھیں کہ یہ عمل تو آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، آپ یہ کیسے کر رہے ہیں! اور پھر اشماریہ بھائی نے مجھ سے اس حدیث کی دلالت پر سوال اٹھانے شروع کردیئے کہ وہ تو اونٹ کے متعلق سوال تھا، حدیث پر عمل کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اونٹ پالو! وغیرہ وغیرہ!
لیکن الحمدللہ! میری بچت یوں ہو گئی کہ میں نے یہ دلیل قارئین کے لئے بیان کی ہے! وگرنہ اشماریہ بھائی نے تو مجھے ۔۔۔۔ باقی قارئین سمجھدار ہیں!


***

ایک بار پھر سوال گندم اور جواب چنا۔
دوبارہ سوال عرض ہے اس درخواست کے ساتھ کہ سیدھا سادہ جواب دیجیے بغیر گھمائے پھرائے۔
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
بھائی جان! آپ کہیں مراقبہ کی حالت میں میرے مراسلہ کو نہیں پڑھتے؟
بھائی جان! یہ دلیل ہم نے اپنے جواب کی دی تھی، کہ اس طرح جواب دینا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور آپ کے اس سوال پر جواب یہ دیا گیا تھا:
بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!!
بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!
حالانکہ یہ بات انہیں بتلائی بھی تھی اور متعد بار اس بات کو دہرایا بھی گیا ہے، مگر کیا کریں ہمارے اشماریہ بھائی! سخن شناس نہیں ہیں!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
9: ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
10: اور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
11: نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
12: اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
اشماریہ صاحب اب بھی اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے بعض نہیں آرہے! اور عجیب و غریب قسم کے تخیلات پر مبنی باتیں کئے جا رہے ہیں کہ بس! کبھی خود ایک مردود قیاس کرتے ہیں کہ ہم نے یہ قیاس کیا ہو گا پھر کود اس رد کرتے ہیں، پھر استدلال کے حوالے سے عجیب قسم کی ہفوات ذکر کرتے ہیں!
میرے الفاظ آپ کو سخت معلوم ہوتے ہیں تو ایسی کیا بات ہے، ہم اشماریہ صاحب کی بدہواسی ان کی اپنی زبانی نقل کر دیتے ہیں: اور اس حوالے سے انہیں کیا کہا جا چکا ہے وہ بھی:
کتابوں میں موجود الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں اسے ثابت کیجیے۔
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟" قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ

***

یہاں تو ذکر ہے تورات کا اور فیصلہ کرنے والے ہیں محمد رسول اللہ ﷺ۔جنکافیصلہ بذات خودایک حکم ہےچاہےوہ کسی کتاب اور گواہ کے بغیر ہی کر دیں۔ یہ ان کی خصوصیت ہے۔
ہماری بات چل رہی ہے محدث جیسے البانی، مسلم، بخاری، ترمذی وغیرہ کے "فیصلے" کے بارے میں جو وہ سابقہ محدثین کے اقوال ان کی یا کسی اور کی کتب میں دیکھ کر ان کے مطابق کریں۔
اس قیاس کے ارکان یہ ہوئے:
اصل: رسول اللہ ﷺ، تورات میں حکم رجم
فرع: یہ محدثین، کتب محدثین
علت: کتابت ہونا
حکم: کتابت پر گواہی کو قبول کرنا۔
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
بالکل جناب یہ انتہائی عجیب قیاس ہے، اس قیاس پر صد ہزار بار لا حول پڑھنا چاہئے!
مگر میرے بھائی جان! یہ ہمارا قیاس نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کا قیاس ہے کہ ہم نے یہ قیاس کیا ہوگا!!
اب آپ کو قیاس کا اتنا شوق ہے کہ اپنے ہی گمان میں دوسروں کے قیاس کو قیاس کر کرکے اپنا شوق پورا کر لیتے ہو!
بھائی جان! اس قیاسی خول سے خود کو آزاد کروا کر دیکھو تو، پھر آپ کو معلوم ہو گا کہ دلیل کسے کہتے ہیں ، استدلال کیا ہوتا ہے، ااستنباط کیا ہوتا ہے اور قیاس شرعی کیا ہوتا ہے،۔ مگر آپ کو قیاس آرائیوں سے فرصت ملے تو یہ سمجھنے کی توفیق ہو!!
پہلے آپ ہمارا استدلال سمجھئے:
یاد رہے کہ میں نے آپ کو کوئی دلیل میں کوئی قیاس پیش نہیں کیا تھا، بلکہ میرا استدلال صحیح بخاری کی ایک حدیث سے تھا۔ یاد رہے استدلال تھا قیاس نہیں!!
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا : أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ قَدْ زَنَيَا ، فَقَالَ لَهُمْ : " كَيْفَ تَفْعَلُونَ بِمَنْ زَنَى مِنْكُمْ ؟ " قَالُوا : نُحَمِّمُهُمَا وَنَضْرِبُهُمَا ، فَقَالَ : " لَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ الرَّجْمَ ؟ " فَقَالُوا : لَا نَجِدُ فِيهَا شَيْئًا ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ : كَذَبْتُمْ ، فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ سورة آل عمران آية 93 ، فَوَضَعَ مِدْرَاسُهَا الَّذِي يُدَرِّسُهَا مِنْهُمْ كَفَّهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ ، فَطَفِقَ يَقْرَأُ مَا دُونَ يَدِهِ وَمَا وَرَاءَهَا ، وَلَا يَقْرَأُ آيَةَ الرَّجْمِ ، فَنَزَعَ يَدَهُ عَنْ آيَةِ الرَّجْمِ ، فَقَالَ : مَا هَذِهِ ، فَلَمَّا رَأَوْا ذَلِكَ ، قَالُوا : هِيَ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَأَمَرَ بِهِمَا ، فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ حَيْثُ مَوْضِعُ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ ، فَرَأَيْتُ صَاحِبَهَا يَحْنِي عَلَيْهَا يَقِيهَا الْحِجَارَةَ .
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہودی اپنی قوم کے ایک آدمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے اور ایک عورت کو بھی جنہوں نے زنا کیا تھا آپ نے فرمایا تمہارے یہاں زنا کی کیا سزا ہے؟ کہنے لگے دونوں کا منہ کالا کر کے اچھی طرح مارتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم کو تورات میں زانی کے سنگسار کرنے کا حکم نہیں ملا ہے؟ کہنے لگے کہ نہیں، عبداللہ بن سلام نے اس موقعہ پر کہا کہ تم غلط کہتے ہو تورات لا کر پڑھو اگر تم سچے ہو تو، وہ تورات لے کر آئے تو جب ان کے عالم نے پڑھا تو رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ لیا اور ادھر ادھر سے پڑھنا شروع کردیا عبداللہ بن سلام نے ان کے ہاتھ کو ہٹا کر کہا دیکھو! یہ کیا ہے انہوں نے اسے دیکھا تو وہ آیت رجم تھی۔ کہنے لگے کہ یہ آیت رجم ہے آنحضرت نے اس کے بعد ان کو سنگسار کرنے کا حکم دیا چنانچہ مسجد میں ایک علیحدہ جگہ بنی تھی وہ سنگسار کئے گئے راوی کا بیان ہے کہ میں دیکھ رہا تھا کہ زانیہ کا ساتھی زانیہ پر جھک جاتا تھا تاکہ پتھروں سے اسے بچا لے۔
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ آلِ عِمْرَانَ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے سوال کیا کہ تمہاری تورات میں رجم کا حکم ہے، یہودی نے انکار کیا، جبکہ عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے، اب اس کی تصدیق کے لئے کہ کس کی بات صحیح ہے، عبد اللہ بن سلام کی یا یہودی کی، تورات لائی گئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس تورات میں رجم کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے کتاب کی شہادت کو تسلیم کیا! کہ تورات میں آیت رجم ہے! اور عبد اللہ بن سلام کی بات درست ہے۔
لہٰذا کتاب کی شہادت تسلیم کرنا نبی صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
یہ ہے ہمارا استدلال ، یہ کوئی قیاس نہیں!!
اب آتے ہیں آپ کے بیان کردہ قیاس کی طرف!
میں لاحول نہ پڑھوں تو کیا کروں؟ کیا آپ محدثین کو حضور ﷺ پر قیاس کر رہے ہیں اور کتب محدثین کو آسمانی کتاب کے اس حکم پر جس کی تائید خود قرآن کریم نے کی ہوئی ہے؟ اور علت اس کی صرف کتابت ہونا ہے؟
کیسا عجیب قیاس ہے!!!
نہیں جناب ہم محدثین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس نہیں کر رہے، بلکہ جیسا ہم نے بتلایا ہم نے تو کوئی قیاس کیا ہی نہیں۔ لیکن اب آپ یہ بتلائیے، کہ کیا امتی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہئے کہ نہیں!! کل کوآپ یہ نہ کہہ دینا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اعمال کیوں کریں؟ نبی صلی اللہ علیہ کی طرح نماز کیوں پڑھیں ، ہم بھی وہی اعمال کریں گے تو نبی پر خود کو قیاس کرنا ٹھہرے گا!!
کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ نبي صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے اپنے اعمال امتی کے اعمال کو بنا لیا ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروری کر کے کہیں خود کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا لازم نہ آجائے؟
ایک عجیب بات آپ نے اور کردی کہ جو تورات لائی گئی تھی اس کی تائید قرآن کریم نے کی ہے۔ قرآن کریم نے تو اسے محرف قرار دیا ہے!

***

ہمم۔ تو آپ یہ فرما رہے ہیں کہ آپ نے قیاس نہیں فرمایا بلکہ ڈائریکٹ حدیث سے استدلال فرمایا ہے۔
ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب حدیث میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو۔ آپ کی حدیث میں آخری نبی (اللہم صل علیہ و آلہ) آسمانی کتاب سے حکم دیکھ رہا ہے۔
یہ آپ نے ایک نیا قاعدہ وضع کیا ہے کہ ''ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب اس میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو!! آپ کو استدلال واستنباط کا معنی بھی معلوم ہے؟
ڈائریکٹ استدلال میں یہی ہوگا نا کہ جو بھی آخری نبی ہو وہ آسمانی کتاب سے حکم دیکھ سکتا ہے؟؟؟ یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
اشماریہ بھائی! اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی سنت پر صرف وہی عمل کرے جو اللہ کا آخری نبی ہو؟؟ آپ کو اندازہ بھی ہے آپ کیا کہہ رہے ہو؟
اشماریہ بھائی! آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، اس تقلید کے دفاع میں اس کفر و الحاد سے گریز کرو!!
یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
بھائی جان! ہمارے نزدیک تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال سنت ہیں! ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کرنے کا حکم قرآن نے بھی دیا ہے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی!
قرآن میں اللہ فرماتا ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿سورة الأحزاب ٢١﴾
البتہ تمہارے لیے رسول الله میں اچھا نمونہ ہے جو الله اور قیامت کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔ (ترجمہ احمد علی لاہوری)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا ، فَقَالُوا : وَأَيْنَ نَحْنُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ ؟ قَالَ أَحَدُهُمْ : أَمَّا أَنَا ، فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ ، وَقَالَ آخَرُ : أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقَالَ : " أَنْتُمُ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا ، أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي " .
صحيح البخاري » كِتَاب النِّكَاحِ » بَاب التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوں گا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوں گا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروں گا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
دوسرے لفظوں میں ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
اور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں نے تو توراۃ کے "اس حکم" کا ذکر کیا ہے۔ اس حکم کی تائید قرآن پاک نے کی ہوئی ہے اور یہ قرآن کی منسوخ التلاوۃ آیت سے ثابت ہے۔ وہاں حکم رجم کا ذکر ہے۔
بھائی جان! ہم نے اس آیت سے استدلال پیش نہیں کیا ہے۔ ہمارا استدلال ہم نے آپ کو پچھلی تحریر میں پھر پیان کر دیا تھا:
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے سوال کیا کہ تمہاری تورات میں رجم کا حکم ہے، یہودی نے انکار کیا، جبکہ عبد اللہ بن سلام نے کہا کہ یہ یہودی جھوٹ بول رہا ہے، اب اس کی تصدیق کے لئے کہ کس کی بات صحیح ہے، عبد اللہ بن سلام کی یا یہودی کی، تورات لائی گئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا کہ اس تورات میں رجم کا حکم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ نے کتاب کی شہادت کو تسلیم کیا! کہ تورات میں آیت رجم ہے! اور عبد اللہ بن سلام کی بات درست ہے۔
لہٰذا کتاب کی شہادت تسلیم کرنا نبی صلی اللہ علیہ سے ثابت ہے۔
***

میرے محترم میں نے اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کیا تھا:
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
ور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
میں نے آپ کو عرض کیا تھا کہ:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
آپ کو اس پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں!
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔
بھائی جان، ہم نے آپ کو حدیث پیش کی ہے اور اس حدیث سے استدلال، آپ کی نظر میں اس استدلال کا کوئی نقص ہے تو وہ پیش کریں!! ہم نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ ہم نے کہا ہے تو مان لو!!
عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
بھائی جان! آپ اعتراض پیش کریں ہم آپ کے اعتراض کا ان شاء اللہ، اللہ کی توفیق سے ضرور جواب دیں گے! لیکن ٹرک کی بتی کے پیچھے میں بھاگنے والا نہیں!!
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔
اب آپ نے اعتراض پیش کیا نا، اس کا جواب ہم ان شاء اللہ آپ کو دیں گے!!
اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔
ان میں سے کوئی بھی بات ہمارے استدلال کی بنیاد نہیں!!
اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
  1. دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  2. آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  3. آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  4. کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  5. آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
آپ نے بات دہرائی ہے، ہم جواب دہرا دیتے ہیں:
اسے کہتے ہیں حجت چین و حکمت بنگال!
مجھے کیا ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہو؟ آپ کو ہمارے استدلال پر اعتراض ہے پیش کریں!! جو پیش کئے اس کے جواب دے دیئے!!
اشماریہ بھائی! میری بات تو شاید آپ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن جائیں، لیکن اب میں جو بات پیش کرنے لگا ہوں ، اس کے بارے میں مجھے حد درجہ یقین ہے کہ آپ کو فوراً سمجھ آجائے گی، کیونکہ قرآن حدیث سے مستنبط بات کا سمجھنا مقلد کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے علماء کی باتیں نہ صرف سمجھ آجاتیں ہیں، بلکہ وہ اسے دوسروں کو سمجھانے کی بھی کاوش کرتا ہے۔ تو لیجئے جناب! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دیوبند کتابوں کے گواہ ہونے سے متعلق:
(۱) اہل سنت والجماعت کے طریق سے منحرف ہیں جیسا کہ خود مودودی صاحب اور جماعت کے اونچے ذمہ داران کی کتب اس پر شاہد ہیں
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: 156/ ھ= 109/ ھ مورخہMar 01,2008، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
(۱)پاکستان میں جوغیرمقلدین آپ کو پریشان کرتے ہیں، ان کا حال سعودی عرب کے حضرات کے بالکل خلاف ہے، سعودی عرب میں چوٹی کے علمائے کرام تقلید کو نہ حرام قرار دیتے ہیں نہ شرک کہتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ان علمائے کرام کی تقلید کو اختیارکیے ہوئے ہے، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے عامةً وہاں کے اہل علم مقلد ہیں جیسا کہ خود ان کی کتب اس پر شاہدِ عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 1644/ ھ= 302/ تھ مورخہNov 10,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اکرام سے مراد خاطر مدارات نیز مہمان کی دلجوئی اور اس کے ظاہری مناسب حال رواداری اور رکھ رکھاوٴ ہے اور یہ ناجائز نہیں۔ حضرت نبی اکرم صل یاللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بعض مرتبہ کفار کے وفود آتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو مسجد نبوی میں خیمہ لگاکر ٹھیراتے اور ان کی مہمان داری کا پورا خیال رکھتے تھے، نیز یہودی پڑوسیوں وغیرہ سے خاطر مدارات کے معاملات اور مخالفین اسلام کی دلجوئی اوران کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بکثرت منقول ہے، جیسا کہ کتب سیر وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 650=460/ھ مورخہMar 29,2009، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

مفتی شفیع احمدعثمانی (المتوفی ۱۹۸۶/)علماء دیوبند کے ممتاز علماء اور مقتدا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی عربی ادبیت بھی کسی دوسرے ہمعصر سے کم نظر نہیں آتی ۔آپ نثر ونظم دونوں میدانوں کے ماہر فن معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کی تالیف ''نفحات''اس کی شاہد عدل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عربی زبان وادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کاتنقیدی جائزہ - ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء

اشماریہ بھائی! اب آپ کتاب کو گواہ ماننے کو تیار ہو!! کہیں اب آپ یہ تو نہیں کہو گے کہ یہاں شاہد کہا گیا ہے، اور ہماری بحث گواہی کی ہو رہی ہے؟ اور پھر یہ مطالبہ کرنے کا ارادہ تو نہیں کہ اصول و قاعدہ دکھلاؤ کہ شاہد اور گواہ مترادف الفاظ ہیں؟

***

میرے محترم اتباع سنت کا تو آپ کو ماشاء اللہ بہت شوق ہے۔ لیکن عمل پوری حدیث پر کیجیے نا پھر۔ پہلے کسی یہودی کو بن دیکھیں بتائیں کہ تورات میں فلاں حکم ہے پھر اس کے انکار پر تورات منگوا کر اس سے دیکھیے۔
یہ اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
باقی استدلال پر بات گزر گئی ہے۔
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .
قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.
وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔

حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور

میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''
مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
نہیں۔۔۔۔۔ ٹرک کی بتی کے آگے لگانا چاہتا ہوں۔ پیچھے لگ کر کیا کریں گے!!
استدلال کو ثابت کرنے کا مطالبہ کیا تو ہے۔ اعتراض پیش کیا ہے کہ ثابت نہیں ہو رہا۔ جو ثابت کرنے کا طریقہ ہے اس سے ثابت کریں ورنہ کسی اور سے دکھائیں۔ اور کیا اعتراض پیش کرنے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟؟
اشماریہ بھائی! آپ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لے ہی لیں! تا کہ آپ کو استفسار اور اعتراض کا فرق سمجھ آجائے!
بھائی جان تو میں نے کب کہا تھا کہ آپ نے آیت سے استدلال پیش کیا ہے؟؟؟
یہ آپ نے کیا فرمایا تھا؟
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں نے تو توراۃ کے "اس حکم" کا ذکر کیا ہے۔ اس حکم کی تائید قرآن پاک نے کی ہوئی ہے اور یہ قرآن کی منسوخ التلاوۃ آیت سے ثابت ہے۔ وہاں حکم رجم کا ذکر ہے۔
اشماریہ بھائی! ایک تو آپ اپنا کلام بھی بھول جاتے ہو!
ہک ہا!!! اسی لیے تو آپ سے عرض کرتا ہوں کہ بجائے مثالیں دینے کے سیدھا سادہ جواب دیا کیجیے۔ مثالیں دے کر گھمایا پھرایا نہ کیجیے۔ بات مبہم ہو جاتی ہے۔ کوئی چار پانچ صفحوں بعد جا کر پتا چلتا ہے کہ مثال کس لیے دی گئی تھی۔ سیدھا جواب دیا کریں تو ہم جیسے کم علموں کے لیے بھی آسانی ہو جائے۔
اشماریہ بھائی! اب اگر آپ نہیں سمجھ پاتے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے بھائ!
ضیا کو تیرگی اور تیرگی کو ضیا سمجھے
پڑیں
پتھر سمجھ ایسی پہ وہ سمجھے تو کیا سمجھے

***

آپ نے جواب ہی نہیں دیا اور کہتے ہیں کہ استدلال پیش کیا ہے۔ یہ تو حال ہے ترک تقلید کے بعد۔ میں نے عرض کیا ہے کہ استدلال صرف یہ نہیں ہوتا کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے تم مان لو۔ استدلال کو استدلال کے طریقے سے ثابت بھی کریں نا۔
اس طرح تو کل کو آپ دعوی نبوت کر کے کوئی حدیث پیش کریں اور کہہ دیں کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے آپ اعتراض کرو تو کیا ہم مان لیں گے؟ جی نہیں جناب جب آپ سے کہا جائے کہ اس استدلال کو ثابت کرو تب ثابت بھی کر کے دکھائیں کہ میرا استدلال عبارۃ النص سے ہے اور اس میں فلاں لفظ عام ہے اور فلاں کا فلاں معنی ہے وغیرہ تب استدلال "پیش" ہوگا۔
میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
  • دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  • آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  • آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  • کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  • آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
اور جناب والا! اب حجت چین و حکمت بنگال والا نعرہ لگا کر خود کو بری نہیں سمجھ لیجیے گا۔ ہم اردو ادب کی نہیں مسئلہ تقلید کی بحث کر رہے ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ لگانے سے آپ کی بات پوری ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معذرت چاہتا ہوں ایسا نہیں ہوتا۔
بھائی جان! کتابوں کا گواہ ہونا ہم نے دارلعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی پیش کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے، اب اس پر پھر بھی آپ کی یہ حجت بازی، حکمت چین و حجت بنگال ہی ٹھہرے گی! دار العلوم دیوبند کے فتاوی نے آپ کی اس حجت بازی کو حکمت چین و حجت بنگال ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے!
چچ چچ چچ۔ یار دعوی ہے آپ کا ترک تقلید کا اور فہم اتنی بھی نہیں کہ چلنے والی بحث میں اور اپنی دی ہوئی مثال میں فرق ہی سمجھ پائیں؟ تو پھر ترک تقلید کر کے آخر آپ کیا کرتے ہیں؟؟؟
اشماریہ بھائی! اب تک تو اپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کی باتیں آپ کے لئے ہی مضر ثابت ہوتی ہیں! لیکن آپ بھی باز نہیں آتے، تو خیر کوئی بات نہیں! ہم بھی ہر بار آپ کو اپ کا فہم سے عاجز ہونا یاد کرواتے جائیں گے!
اشماریہ بھائی! آپ کے علم میں ہوگا کہ آپ کے علماء تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے اپنا کم علم اور کج فہم ہونا بطور دلیل پیش کرتے رہیں کہ اس وجہ سے وہ تقلید کرتے ہیں! اور اب یہ مقلد لاچار و کج فہم، کسی دوسرے کے فہم پر سوال اٹھائے، یہ مقلد کو تو زیب نہیں دیتا! مقلد بااعتراف خود کج فہم ہوتا ہے! اور آپ کے اس جملہ میں بھی یہ مفہوم شامل ہے! بھائی جان! کچھ سوچ سمجھ کر تحریر کیا کریں!
او میرے بھائی بات یہ چل رہی ہے کہ گواہ کی کتاب کی گواہی قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور وہ بھی کہاں! قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے سامنے (جس کی اپنی گھڑی ہوئی اسپیشل حیثیت بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکے)۔ اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ بھی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آؤ گے! میاں جی! مصنف کی کتاب اس کے مؤقف پر شاہد ہے، اس کے فیصلہ پر شاہد ہے، اور اس نے کسی اور کے مؤقف کو درج کیا ہے ، تو مصنف کے ثقہ ہونے کی صورت میں، یا دوسری کتاب سے بیان ہونے، با سند صحیح بیان ہونے کی بنیاد پر، دوسرے کے مؤقف پر بھی گواہی ہے، یہ بات آپ کو متعدد بار اقتباس پیش کر کر کے بتلائی گئی ہے! مگر آپ ہو کہ بس، مرغے کی ایک ٹانگ!
مگر ہم بھی اس کا تریاق رکھتے ہیں؛ آپ کو مفتی محمد راشد ڈسکوی،استاذِ جامعہ فاروقیہ کراچی کا کلام ماہنامہ دار العلوم دیوبند سے پیش کرتے ہیں:
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے، ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“ اور ”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللّٰہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی  نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی  نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی  ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی  اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے ”لا یصح“ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة، ملتان)
(النخبة البہیّة في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)

ملاحظہ فرمائیں: تقبیل الابہامین سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء


رفع یدین کے سلسلے میں تقریباً ۳۵۰ صحیح احادیث آپ کے دوست کی نئی یافت ہے۔ آپ اگر باحوالہ اپنے دوست سے ان احادیث کو لکھوا کر بھیجیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ شوافع اور حنابلہ جو قائلین رفع میں سے ہیں، صحیح احادیث کے اس مخفی خزانے کا آج تک سراغ نہ لگاسکے۔ امام بیہقی نے رفع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ احادیث نقل کرنے کی کوشش کی تو کل ۳۰ /احادیث نقل کرسکے۔ جن میں سے نصف احادیث کے سلسلے میں امام بیہقی ہی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ قابل استدلال نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: فتوى: 354/ل = 354/ل، مورخہJul 28,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟
اشماریہ بھائی! دلیل تو ہم نے پیش کی ، مگر وہ آپ کے فہم پر پر حائل تقلیدی فلٹر کے سبب آپ کی فہم سے بالا تر رہی، اور آپ نے اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے، مگر آپ کو شاید یہ اندازہ نہیں تھاکہ ہم ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں، اور آپ کے دارالعلوم دیوبند سے کتب کے گواہ ہونے کا ثبوت پیش کیا، اور اب محدثین کا فیصلہ کرنے والے ہونے، کا ثبوت بھی پیش کر دیا! اب ممکن ہے کہ آپ یہاں یہ کہہ دو کہ یہاں تو ''فیصلہ'' کا لفظ ہے ''قاضی جیسی حثیت'' کا لفظ دکھلاؤ!

اور آپ کی کتب سے حجت قائم کرنے کا معاملہ اس لئے پیش آیا کہ آپ ایک متفق علیہ مسئلہ میں مستقل اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہو! آپ کو بتلایا بھی کہ بھائی! حکومتی قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق ہی سمجھ لیں! آپ اس پر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ فرق بھی آپ کو میں بتلاؤں! تو میاں جی! میں نے آپ کو عرض کردیا تھا کہ اس واسطے آپ کو اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لینا ہوگا! میں آپ کو یہاں اردو تو پڑھانے سے رہا!
بہر حال ، علمائے دیوبند نے کتب کو گواہ بھی قرار دیا ہے، اور محدثین کو قاضی بھی! جس کے ثبوت آپ کو پیش کر دیئے گئے۔
اشماریہ بھائی! ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ کسی بھی مسئلہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے قبل اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ گھوڑے کہیں اپنے ہی گھر کو نہ روند ڈالیں! ایک بار پھر عرض کرتا ہوں:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

***

ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ دونوں ضمیروں کا مرجع بتا کر ذرا واضح ترجمہ فرما دیجیے!
تیسری بھی متصل بعد ہے لیکن دو ہی کافی ہیں۔ (امام ابو یوسفؒ کا آپ کا ذکر کردہ جملہ یاد آگیا۔۔۔۔ ابتسامہ)
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا
ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:
چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!
اشماریہ صاحب اوپر سے فرماتے ہیں، کہ واضح ترجمہ کرو! جیسے یہ جو ترجمہ کیا گیاہے واضح نہ ہو! اب کسی کی اردو اس قدر کمزور ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور!!
اردو آپ کی ماشاء اللہ سے اتنی زبردست ہے کہ نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہے، یہ قاضی اور قاضی جیسی حيثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، اور حد تو یہ ہوئی کہ مذکورہ ترجمہ میں ضمیر کا مرجع بھی سمجھ نہیں آیا، اور نہ ترجمہ سمجھ آیا کہ واضح ترجمہ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اب جب میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کو چاہئے کہ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
اشماریہ بھائی! یہ بات آپ کو متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہے، ہاں ایک کام کر سکتا ہوں کہ آپ کو کچھ لغت کی کتابوں کا لنک دیئے دیتا ہوں، ان کتب سے استفادہ حاصل کریں۔
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ اول
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ دوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ سوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ چہارم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ اردو سائنس بورڈ ، لاہور

اگر فرہنگ آصفیہ آپ کے لئے مشکل ہو تو بتلایئے گا، آپ کو پھر فیروز اللغات کا لنک دیں گے!
اسی ترجمہ میں موجود ہے کہ ان ضمیروں کا مرجع کیا ہے! اور یاد رہے کہ ترجمہ بالکل واضح ہے! میں پھر بھی ان کو مارک کر دیتا!
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور

میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''

لیجئے جناب اب اعتراض کیجئے! بتایئے اب کہ ہم نے غلط مرجع بتلایا ہے! مگر بھائی جان ! یاد رہے کہ مجھ کہ یہ ترجمہ بھی آپ کے حنفی بھائی کا ہے!
مگر میں آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو پہلے ہی باند ھ دیتا ہوں لیجئے جناب! اپنے دیوبندی علماء کا ترجمہ ، جس پر آپ کے عبد الرشید نعمانی صاحب کا مقدمہ بھی ہے:
مالک ۔ نافع ۔ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ رجم کے متعلق تم توریت میں کیا پاتے ہو تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ ان دونوں کو رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو ان سے عبد اللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹے ہو، تورات میں سنگسار کر دینے کا حکم ہے۔ تم توریت لاؤ جب ان لوگوں نے لایا اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی آیتیں پڑھیں عبد اللہ بن سلام نے فرمایا اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب ہاتھ اٹھایا تو وہیں پر رجم کر دینے کی آیت تھی۔ عبد اللہ بن سلام نے کہا آپ نے سچ کہا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اس میں رجم کی آیت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کر دینے کا حکم صادر فرمایا اور انہیں سنگسار کیا۔ حضرت ابن رعمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے اس مرد کو دیکھا کہ اس عورت کو پتھر سے بچانے کیلئے اس عورت پر جھک جاتا تھا۔
امام محمد نے کہا کہ ہم ان سب پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان آزاد مرد کسی عورت سے زنا کرے اور وہ اس سے پہلے کسی عورت سے نکاح کرچکا ہو اور اس کے ساتھ جماع بھی کرچکا ہو تو اس صورت میں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ اور یہی شخص محصن ہے اور اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو بلکہ صرف نکاح کیا ہو اور جماع نہ کیا ہو یا اس کے پاس یہودی یا نصرانی لونڈی ہے تو اس کے سبب سے محصن نہ ہوگا اور سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور اکثر فقہائے احناف کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 316 – 317 موطا امام محمد مع ترجمہ اردو ۔ خواجہ عبد الوحید – محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی

اشماریہ بھائی ! یہاں ایک ایسا نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں، جس کا ہمارے اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، یہ نکتہ تو ہم نے اٹھایا ہی نہیں؛ کہ کسی آزاد مسلمان کو جس نے نکاح کیا اور جماع نہ کیا ہو، یا جس کے پاس یہودی یا عیسائی لونڈی ہو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا! کیونکہ وہ محصن شمار نہ ہوگا!
یہاں سے اشماریہ صاحب ! کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ یہاں تو مسلمان کو محصن نہ ہونے کی صورت میں رجم نہ کرنے کی بات ہے!
جبکہ ہمارا اعتراض یہ نہیں ہے، ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہاں صرف مسلمان کے رجم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہودی کو رجم نہ کیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اب آپ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں؟ کہ امام ابو حنیفہ ؒ، محمد بن الحسن الشیبانی کے نزدیک اور فقہ حنفیہ میں يہودیوں کے لئے رجم نہیں ہے؟
آپ کی آسانی کے لئے ایک دو عبارات آپ کے فقہاء کی پیش کر ہی دیتا ہوں:
بَاب الْإِحْصَان

مُحَمَّد عَن يَعْقُوب عَن أبي حنيفَة (رَضِي الله عَنْهُم) قَالَ لَا يكون الْإِحْصَان إِلَّا بَين الحرين الْمُسلمين العاقلين الْبَالِغين قد جَامعهَا بعد بلوغهما وهما على هَذِه الصّفة قَالَ أَرْبَعَة شهدُوا على رجل بِالزِّنَا فَأنْكر الْإِحْصَان وَله امْرَأَة قد ولدت مِنْهُ فَإِنَّهُ يرْجم فَإِن لم تكن ولدت مِنْهُ وَشهد عَلَيْهِ بالإحصان رجل وَامْرَأَتَانِ رجم وَإِن رَجَعَ شُهُود الاحصان فَلَا شَيْء عَلَيْهِم وَالله اعْلَم

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 279 جلد 01 الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير - محمد بن الحسن الشيباني - محمد عبد الحي اللكنوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

اشماریہ بھائی! اب کرو خود اس کا ترجمہ، اور بتاو کہ یہاں مسلمان ہونا رجم کی شروط میں شامل ہے یا نہیں؟ یعنی کسی غیر مسلم کو رجم نہیں کیا جائے گا!
اشماریہ صاحب ! یہ فنکاری آپ اپنے مقلدین کو دکھایا کیجئے!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست

اشماریہ بھائی! یہ تو وہ مسئلہ ہے کہ ابن ابی شیبہ رحہمہ اللہ نے آپ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے رد میں جو کتاب، ''كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ'' اپنی مصنف میں لکھی ہے اس کا سب سے پہلا مسئلہ یہی بیان کیا ہے، اور ابن ابی شیبہ کس دور کے عالم و محدث تھے، یہ بتانی کی ضرورت تو نہیں!
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے پہلے چار احادیث درج کیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کا رجم کیا، اور پھر امام شعبی ؒ کا قول آپ کے امام صاحب کے مؤقف پر پیش کیا:

كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ
یہ کتاب ابو حنیفہ کی تردید میں ہے
هَذَا مَا خَالَفَ بِهِ أَبُو حَنِيفَةَ الْأَثَرَ الَّذِي جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ وہ مسائل ہیں جن میں ابو حنیفہ نے ان آثار کی مخالفت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔
مَسْأَلَةُ رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
یہودی مرد اور یہودیہ عورت کو رجم کرنے کا مسئلہ
حَدَّثَنَاأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً»
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کاحکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا "
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کو سنگسار (کرنے کا حکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً "
جابر بن عبداللہ رضی اللل عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا
حَدَّثَنَاابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيَّيْنِ أَنَا فِيمَنْ رَجَمَهُمَا»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا اور میں نے ان یہودیوں پر سنگ باری کی۔
حَدَّثَنَاجَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً " وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِمَا رَجْمٌ
شعبیؒ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نئ ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا۔ اور ابو حنیفہ کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ یہودی مرد و عورت پر سنگساری کا حکم نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 277 جلد 07 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 351 - 352 جلد 12 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر ، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 80 - 81 جلد 13 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 53 - 54 جلد 20 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن، الرياض

اشماریہ بھائی! اب میں اسے آپ کا تجاہل عارفانہ کہوں؟ یا ڈرامہ مقلدانہ؟
اشماریہ بھائی! اللہ کو جان دینی ہے، کچھ اللہ کا خوف کرو! اختلاف الگ چیز ہے، فہم و استدلال میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس طرح کی ڈرامے بازی تو نہ کرو!
آپ تو ماشاء اللہ! تخصص فی الفقہ کے طالب علم ہو! اب ایسے تو آپ نہیں ہو جیسے ایک عام تبلیغی ہوتا ہے! جنید جمشید اگر اسی بے سرو پا کی مار بھی دے تو وہ تو خیر معذور ہے، اسے کیا معلوم فقہ حنفی کیا ہے، محصن کسے کہتے ہیں؟ لیکن آپ ایسی باتیں کرو تو پھر اندازہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دانستہ دھکہ دے رہے ہو! یا پھر ایک اتنہائی نکمے طالب العلم ہو، اور درس نظامی بس رٹہ لگا کر یا نقل کر کے پاس کیا ہے؟ کیونکہ فقہ حنفیہ کا درس نظامی کا فارغ، یہ تو عین ممکن ہے کہ وہ علم الحدیث میں کورا ہو، بلکل یوں وسمجھو کہ متقاضی ہی اس بات کا ہے، الا ماشاء اللہ! لیکن فقہ حنفی جو سات سال تک رگڑ رگڑ کر پڑھتے ہو، اور پھر آخر ی سال دور حدیث میں فقہ حنفی کو احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دینے کے لئے اٹکلی اسباب تلاش کرتے پھرتے ہو، تو فقہ حنفی سے تو اچھی طرح پڑھتے ہیں!
سجن سے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے


اشماریہ بھائی! اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کو ہمارے استدلال پر کوئی اعتراض ہے تو اعتراض پیش کریں!
امید ہے اب آپ کو اعتراض اور استفسار کا فرق معلوم ہو گیا ہوگا!

ویسے اب یہ تو ممکن ہے کہ ہمارے استدلال پر آپ اعتراض کر سکو، لیکن کتاب کے گواہ ہونے پر نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ تو دار العلوم دیوبند سے بھی ثابت کیا جا چکا!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
13: پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اشماریہ صاحب! اس دروغ گوئی سے کام نہ لیں، ہمارے موقف میں کوئی فرق نہیں آیا ہے، اگر ہے، تو اقتباس پیش کریں!
آپ نے اس پر ایک بار پھر ایک ایسی بات کر دی جس کی تک نہیں ہے؟ جب ایک اصول ہے جو قضاۃ کے درمیان جاری رہا ہے تو اس پر چلیے۔ جب ایک ہیڈماسٹر جو صرف آپ کے کاغذات اٹیسٹ کرتا ہے اس کی تصدیق بھی بغیر مہر کے قبول نہیں ہوتی تو ایک قاضی کی گواہی کیسے قبول ہو جاتی ہے؟ تاریخ میں کتنی کتابیں ہیں جن کی نسبت غلط مصنفین کی طرف کی گئی ہے! حتی کہ امام شافعیؒکیجانبپوراسفرنامہکردیاگیاہے۔اگرآپکےخیالمیں البانی کی کتاب کی حیثیت "قاضی" کی کتاب کی ہے تو اسے اتنی اہمیت تو دیجیے۔
معذرت چاہتا ہوں! آپ صرف حدیث مبارکہ پیش کرکے بضد ہیں کہ دلیل پیش ہو گئی۔ ایسے نہیں ہوتا۔ میں نے عرض کیا ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!
ایک بار پھر سوال عرض ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اب اگر آپ دلیل بھی نہیں دے سکتے اور فرق بھی نہیں بیان کر سکتے اور لغت سے کوئی حوالہ بھی نہیں دے سکتے تو پھر یہاں آپ (معذرت کے ساتھ) کیا بحث برائے بحث کے لیے تشریف لائے ہیں؟
اشماریہ بھائی! آپ کو کہا گیا ہے کہ:
اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!
آپ یہ بات ہم کئی بار بتلا چکے ہیں کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو نہیں پڑھا سکتے! اس واسطے آپ کو اسکول میں داخلہ لینا ہو گا!
مزید کہ دارالعلوم دیوبند کا حوالہ بھی پیش کر دیا گیا ہے!!
مزید اس قاضی کی سی حیثیت پر اوپر تفصل گزر چکی ہے، اسے دیکھیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:
Top