• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
شاید یہ آپ کا کہنا ہے میرے محترم بھائی کہ آپ فقہ حنفی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن ایسا تو اس مسئلہ میں بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ہاں اگر آپ نے الفاظ کتب پڑھ رکھے ہوں تو الگ بات ہے۔
اشماریہ صاحب! ابھی تک اس تھریڈ میں فقہ حنفیہ کے حوالہ سے جو بات میں نے پیش کی ہے، بالکل درست پیش کی ہے، اور آپ کہ جو ما شاء اللہ تخصص فی الفقہ الحنفیہ کے طالب علم ہیں، آپ کو تو مذکورہ مسئلہ کا بھی نہیں معلوم، میں پیش کرتا ہوں:
جب ہم نے اپ کو فقہ حنفیہ کا یہ مسئلہ بیان کیا:
معاملہ کچھ یوں ہے کہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان

اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...

لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!
تو آپ کی اپنی ہی فقہ حنفیہ سے لا علمی کا یہ حال نکلا کہ آپ فرماتے ہیں:
ویسے عرض یہ ہے کہ آپ یا تو اس مسئلہ کو غلط سمجھ رہے ہیں یا پھر غلط بیان کر رہے ہیں۔ تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔ بہرحال میں کہہ چکا ہوں کہ یہ اس بحث کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے چلتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ پھر ہم نے آپ کے اس غلط بیانی کا ہم نے کواب دینا تھا، لہٰذا ہم نے آپ کو درج ذیل جواب دیا!
میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی

اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛

سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے یہ جو فرمایا کہ
تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!
مگر آپ نے اب تک یہ نہیں بتلایا، کہ ''ہمارے یہاں'' کون ہیں، کیونکہ حنفی کا مطلب تو وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے!
آپ سے جب اس کو جواب نہ بن پڑا تو آپ نے اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے عرض کیا کہ یہ مسئلہ محمد بن الحسن اشیبانی ؒ کی المبسوط میں نہیں، اور دوسرا مدعا یہ اٹھایا کہ میں اس تمت صلاته کا مطلب یہ غلط سمجھا ہوں، یا غلط بیان کر رہا ہوں؛
لیکن آپ پھر آپ اپنی فنکاری سے باز نہیں آئے اور آپ نے اپنی روش پر قائم رہتے ہوئے پھر بیجا سوالات وارد کر دیئے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
انتہائی معذرت چاہتا ہوں۔ میں نے امام محمدؒ کے موقف کا ذکر کیا ہے اور یہ مسئلہ میری معلومات کی حد تک المبسوط میں موجود نہیں ہے جس کی میں نے بات کی ہے۔
رہ گئی بات یہ کہ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور المبسوط ہی ہیں تو یہ میں نے یقینا کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ہدایہ مکمل انہی پر مشتمل ہے۔ وہاں مثال ہدایہ کی اس لیے دی تھی کہ اگر آپ نے المبسوط نہیں دیکھی تو ہدایہ کا مطالعہ کیا ہوگا وہاں کیا تمام مسائل تحری والے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
اس لیے چوں کہ پیش کردہ مسئلہ میری بات یعنی امام محمدؒ کے موقف کو قبول کرنے سے متعلق ہی نہیں ہے اس لیے میں اس پر بحث بھی نہیں کرتا۔
ویسے عرض یہ ہے کہ آپ یا تو اس مسئلہ کو غلط سمجھ رہے ہیں یا پھر غلط بیان کر رہے ہیں۔ تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔ بہرحال میں کہہ چکا ہوں کہ یہ اس بحث کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے چلتے ہیں۔
آپ کو یہاں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ محمد بن حسن الشیبانی ؒ کا اخذ کردہ ہو یا نہ ہو، ہے بہر حال فقہ حنفیہ کا مسئلہ، اور آپ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ بتلا دیں کہ یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے؟ مگر آپ نے اس کا جواب بھی نہیں دیا:
اشماریہ بھائی! موضوع امام محمدؒ نہیں، امام محمدؒ تو ایک مثال ہیں، ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں یہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے۔ بہر حال یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے اور احناف میں ہے بھی متفقہ! یعنی قبول تو سب نے ہی کیا ہے!!
آپ مسئلہ پر گفتگو کرنے سے گریز فرمارہیں ہیں ، جبکہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھا کہ:
اور آپ کے ہماری فہم پر کئے گئے اعتراض کا بحوالہ جواب دیا گیا کہ ہمارا بیان کیا گیا مطلب بالکل درست ہے، اور احناف اور دیوبندیوں نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے! اب آپ نے جو کہا تھا کہ ''ہمارےیہاں'' یہ مطلب نہیں، تو آپ کو اس کو جواب نہ بن پڑا، تو اب مسئلہ سے جان چھڑانا چاہئے ہو! اسی لئے آپ کو کہا تھا کہ کج فہمی آپ کی ہوتی ہے، اور آپ الزام دوسروں کو دیتے ہو!

میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی

اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛
سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔

اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے جو فرمایا تھا۔
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!

یہ مسئلہ فقہ حنفیہ کا متفقہ ہے، اب اگر آپ اس پر مصر ہیں کہ یہ کسی مجتہد کا اخذ کردہ نہیں ہے، تو میرے بھائی، یہ تاویل بھی آپ کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوگی! پھر تو یہ فقہ جہلا کی کارستانی ثابت ہوگی۔ اشماریہ بھائی یہ سوال تو ہم نے آپ سے کیا ہے کہ بتایئے کہ کس مجتہد نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے؟
اشماریہ صاحب! مزید آپ کو اپنی ہی فقہ کے اس مسئلہ کا متفقہ ہونے کا علم بھی نہیں، یہ بات بھی ہم ہی آپ کو بتلا رہے ہیں:
ایک چیز کی معذرت چاہتا ہوں۔ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور جامع صغیر ہیں مبسوط نہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔
''ہدایہ'' کی بنیاد قدوری اور جامع صغیر بھی نہ ہو، تب بھی ہدایہ بہر حال فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب ہے!
اب ذرا دلیل سے اپنی اس بات کو مزین فرمائیں نا کہ "یہ مسئلہ احناف میں متفقہ ہے۔" دلیل کے بغیر تو صرف آپ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ پھر مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں! اشماریہ بھائی ! آپ کو ہدایہ کے چار اردو تراجم و شروحات کا ذکر کرے بتلایا تھا، اور وہ بھی علمائے دیوبند کی، کسی نے بھی اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کا اختلاف نقل کیا! ان تراجم و شروحات کے نام ایک بار پھر نقل کرتا ہوں:
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی


اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ
شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين ابن الهمام الحنفي
العناية شرح الهداية - محمد بن محمد بن محمود البابرتي الحنفى
البناية شرح الهداية - بدر الدين العينى الحنفى

ان شروحات ہدایہ میں بھی کسی نے اس کی نکیر نہیں کی! یہ مسئلہ صرف ہدایہ میں نہیں، کنز الدقائق میں بھی موجود ہے! اور شرح وقایہ میں موجود ہے!
لہٰذا اب اگر آپ اب بھی اس بات کے قائل ہو، تو اختلافی قول پیش کریں! دوم علمائے دیوبند نے تو بہر حال اسی مسئلہ کو قبول کیا ہے!!
اور ایک بات بتائیں۔ یہ مسئلہ تو علامہ مرغینانی نے ذکر کیا ہے۔ یہ آپ نے علامہ مرغینانی کو مجتہد کب سے ماننا شروع کر دیا؟؟؟ اس مسئلہ کے بارے میں تو ان چیزوں کا جواب تب مجھ پر آئے گا جب آپ علامہ مرغینانی کو مجتہد ثابت کریں گے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔
اشماریہ بھائی! اب آپ کی اس بات پر کیا کہوں! میان جی! جب میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو قابل اعتبار نہیں مانتا، تو آپ کے علامہ مرغنیانی کس کھیت کی مولی ہیں! بھائی جان میں تو مرغنیانی کو عالم بھی صرف مقلدین حنفیہ کا مانتا ہوں!
بھائی جان! آپ کے مرغنیانی کا بیان کردہ مسئلہ آپ کی فقہ حنفیہ کا مسئلہ ہے!! اور وہ بھی مقبول !! بلکہ متفقہ!!
یہ نہیں کہہ دیجیے گا کہ چوں کہ ہم مجتہد مانتے ہیں اس لیے ذکر کیا ہے۔ ایک تو ہم انہیں مجتہد کے اس درجے پر نہیں مانتے (شرح عقود رسم المفتی دیکھیے) اور دوسری بات میں نے ان کا ذکر کیا ہے جنہیں سب مجتہد مانتے ہیں۔
ارے بھائی! جان آپ بہت خوش فہمی کا شکار ہو، کہ ہم ''صاحب ہدایہ المرغنیانی'' کا تذکرہ میں نے ان الفاظ میں کیا تھا:
بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
اس کے باوجود آپ کو یہ خوش فہمی کہ میں ''مرغنیانی '' کو مجتہد قرار دے دوں گا!
اشماریہ بھائی! یہ مرغنیانی صاحب ، جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں!
اور میں نے تو لکھا تھا کہ مجتہد کا مسئلہ اور "دلیل" تحریر کریں تو یہ چیزیں بتا دوں گا۔ اب یہاں دلیل آپ کیوں کھا گئے۔
بھائی جان! یہ مسئلہ آپ کی فقہ کا ہے، اسی کو دیوبندی مسلک نے بھی اختیار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آپ بھی حد کرتے تو ! میں تو اسے اٹکل پچّو قرار دیتا ہوں! اٹکل پچّو کی بھی کوئی دلیل ہوتی ہے؟ میاں جی ! آپ اپنے گلے کی گھنٹی میرے گلے کیوں باندھنا چاہتے ہو!! مسئلہ آپ کا، کتاب آپ کی، قبول آپ کریں! اور دلیل کا مطالبہ مجھ سے! بھائی جان! دلیل اب آپ تلاش کریں، اور میرے مؤقف کو غلط ثابت کرکے بتلائیں، کہ یہ اٹکل پچّو نہیں ہے!

اشماریہ بھائی! آپ کو متعدد بار کہا ہے کہ ایسے بھرم نہیں دکھایا کریں بھائی!
اشماریہ بھائی! کاپی پیسٹ سے پریشان نہیں ہونا کیونکہ بھائی! ایک بات جو پہلے سے ہو چکی ہے، اس کو لکاپی پیسٹ کرنا ہی مناسب ہے، یہ بہت اچھی سہولت ہے، آپ بھی اس کا استعمال کیا کیجئے، اور جب ہم آپ سے مطالبہ کریں کہ جناب! آپ جو ہم سے ایک بات منسوب کر رہے ہو، بتلایئے تو سہی ہم نے کہاں لکھی ہے ، تو آپ بھی کاپی پیسٹ کر کے اقتباس لے کر ہمیں دکھلا دیا کریں!
آپ نے کئی بار یہ بات کہی ہے کہ ہم نے آپ کی بات کو غلط سمجھ یا یا غلط بیان کیا ہے، مگر آپ کبھی بھی اس کا ثبوت نہ دے سکے! کہ یہاں آپ کی بات ہم نے غلط سمجھی یا غلط بیان کی! کیوں کہ ی اتو آپ ہی غلط سمجھے ہیں یا آپ نے ہی یہ غلط بیانی کی ہے!

اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو بغور پڑھئے گا، کیونکہ آپ بغور پڑھے ہی جواب لکھ مارتے ہیں: آپ خود فرماتے ہیں:
تو یہ دو گڑبڑیں نہ جانے کیوں ہو گئیں۔ بغور پڑھا جائے تو شاید اور بھی ہوں۔
اشماریہ بھائی! جواب ذرا بغور پڑھ کر لکھا کریں!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دیکھیں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔ اور یہ میں نے اپنے کلام کے مطابق عرض کیا تھا کہ میں نے انہیں بطور مثال کے بیان کیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ بھی قسمیں بنائی گئی ہیں۔ کون سی راجح ہیں، کونسی مرجوح اس کی بحث نہیں۔ اب میں نے صرف چار قسمیں تحریر کی ہیں لیکن علامہ ابن عابدینؒ نے سات قسمیں بیان کی ہیں۔ پھر کیا ان میں لفظا مطابقت ہے؟؟؟
اب اگر آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ میرے کلام کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں تو پھر ظاہر ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
اشماریہ بھائی! آپ کے ذہن میں جو بات ہے، اسے تو آپ بہتر سمجھ سکتے ہوں گے، لیکن آپ جو کلام تحریر میں لاتے ہیں وہ ضرور میں بہتر سمجھا ہوں، کیونکہ آپ کو اپنے ہی کلام کا تضاد سمجھ نہیں آتا: دیکھیں ابھی آپ کے اس کلام میں پھر تضاد موجود ہے، مگر آپ کو اپنے ہی کلام کا تجاد سمجھ نہیں آرہا !
دیکھیں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔
اب میں نے صرف چار قسمیں تحریر کی ہیں لیکن علامہ ابن عابدینؒ نے سات قسمیں بیان کی ہیں۔
اور یہ میں نے اپنے کلام کے مطابق عرض کیا تھا کہ میں نے انہیں بطور مثال کے بیان کیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ بھی قسمیں بنائی گئی ہیں۔
بھائی جان آپ خود کہتے ہو کہ آپ نے چار قسمیں بیان کی ہیں، اور یہ بھی کہتے ہو کہ یہ تقسیمات نہیں!
اور تیسری بات آپ کی درست ہے کہ آپ نے یہ قسموں کی ہی مثالیں بیان کی ہیں!
اور یہی بات ہم نے آپ کو کہی تھی:
اشماریہ بھائی! آپ کی یہ بات غلط ہے، یہ آپ نے تقلید کی اقسام ہی بیان کی ہیں، اور ان کے علاوہ اور بھی ہو سکتی ہیں، اور یہ تقلید کی اقسام کی مثالیں ہیں۔ یہ درجات تقلید کی بنا پر تقلید کی قسمیں ہی ہیں۔ اور آپ کی کتب میں یہ تقسیم بالکل پائی جاتی ہیں! اب آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہوں کہ نہیں نہیں یہ تقلید کی تقسیم نہیں ہیں، تو ذرا بتائیے گا کہ یہ مثالیں کس کی ہیں؟
میں آپ کی کتب میں موجود اس تقسیم تقلید سے واقف ہوں، اب تک کی میری تحریر سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفیہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں!
(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس ساری بات کے جواب میں میں ایک سوال کرتا ہوں۔ اگر آپ اس کا جواب دے دیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی۔
کیا امام بخاری، سفیان ثوری اور شعبہ نے خود کہا تھا کہ ہم امیر المومنین فی الحدیث ہیں؟؟ یا کیا یحیی بن معین، یحیی بن سعید قطان اور اور نسائی نے خود کہا تھا کہ ہم ائمہ جرح و تعدیل ہیں؟؟
کیا رواۃ صحیح اور رواۃ حسن کی تفصیل خود ان رواۃ سے اپنے بارے میں منقول ہے کہ ہم راوی حسن یا صحیح ہیں؟؟؟
اگر نہیں تو ان باتوں کی تعیین کس نے کی؟ مجھے اس سوال پر تبصرہ نہیں مختصرا جواب چاہیے۔
اشماریہ بھائی! کیا شام میں غامدی صاحب سے ٹیوشن تو نہیں لیتے؟
امام بخاریؒ، سفیان ثوریؒ اور شعبہؒ نے تو خود کو امیر المومنین فی الحدیث نہیں کہا، نہ انہیں امیر المومنین فی الحدیث کہنے کے لئے، اس بات کی کوئی حاجت ہے، کہ وہ خود کو امیر المومنین فی الحدیث کہیں، کیوں کہ امیر المومنین فی الحدیث علم الحدیث میں ایک لقب ہے! اور لقب کوئی شخص کبھی خود کو نہیں دیتا بلکہ دوسرے ہی کسی شخص کے بارے میں تجویز کرتے ہیں!
اشماریہ بھائی! کیوں ہر بار علم الکلام کے گھوڑے دوڑا کر اٹکل پچّو لڑانے لگ جاتے ہو!
اسی طرح يحیی بن معینؒ، یحیی بن سعید القطانؒ، اور نسائیؒ نے رواۃِ حدیث پر جرح و تعدیل کر کے خود کو جارح قرار دیا ہے، اور ان کا ائمہ جرح و تعدیل ہونا ایک لقب ہے! فتدبر!
جی جناب! ان محدثین نے اپنی روایت کردہ حدیث سے کو صحیح قرار دے کر اور اس احتجاج کر کے اس کی سند کے تمام راوی بشمول خود کے اپنی توثیق کی ہے! فتدبر!
یہ تو ہوئے جواب!
آگے جو آپ نے فرمایا ہے کہ اس سوال پر تبصرہ نہیں مختصر جواب چاہئے، تو یاد رہے، کہ جواب ہم سمجھے گے کہ مختصر دیں تو مختصر جواب دیں گے، اور جہاں سمجھیں گے کہ سوال مين موجود فساد کو بھی بیان کریں، تو ہم اس سوال پر تبصرہ بھی کریں گے! اور آپ کے اس سوال کے فساد کا بیان بہت ضروری ہے!
اشماریہ صاحب کے اس سوال کو دیکھیں، کہ امام طحاوی کو مقلد ثابت کرنے کے لئے، اشماریہ صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ذخیرہ کو ہی مشکوک قرار دینے کی سعی کر دی! کہ اگر امام طحاوی کا مقلد ہونا ثابت نہیں ہوگا تو اشماریہ بھائی، مسلمہ محدثین کو ثقاہت پر بھی سوال اٹھا دیں گے!
اشماریہ صاحب! آپ کا اپنا قول پیش کرتا ہوں:
اس لیے آپ بھی مہربانی فرما کر اس طرح نہیں کیا کریں۔ لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں ایسے اٹکل پچو قیاسات سے۔
اشماریہ صاحب! ایسے اٹکل کو گھوڑے نہیں دوڑانا چاہئے، اس طرح لوگ انکار حدیث کے گڑھے میں گر سکتے ہیں۔ اب دیکھیں ظفر احمد عثمانی صاحب نے اعلا السنن کے مقدمہ میں جو گل کھلائیں ہیں کہ ان کے بیٹے منکر حدیث ہو گئے! علم الحدیث میں اس طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے آپ بھی گریز کریں بھائی!
اشماریہ بھائی! کسی کو مقلد قرار دینے کو محدثین کو ائمہ اور امیر المومنین فی الحدیث کہنے پر قیاس کرنا بالکل غلط ہے! اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ ان شاء اللہ!

آگے بھی اشماریہ صاحب نے اس پر اٹکل کو گھوڑے دوڑائے ہیں، وہاں اس پر مزید تفصیل آئے گی!

(جاری ہے)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب ابن داود صاحب! میں نے مدرسہ اہل الرائے کے طرز کا ذکر کیا تھا نہ کہ ان کی وجہ تسمیہ کا۔
میں نے کچھ مقامات ہائیلائٹ کیے ہیں۔
پہلا جو حوالہ آپ نے دیا اس میں وجہ تسمیہ کا ذکر ہے۔ ہماری اس سے بحث نہیں۔
اشماریہ صاحب! میں یہ بات بالکل درست کہتا ہوں کہ علم الکلام میں جھک مار نے والوں کی کلام کوسمجھنے کی مت ماری جاتی ہے۔
اشماریہ بھائی جان ، وجہ تسمیہ کسے کہتے ہیں؟ آپ کو اگر یہ لفظ وجہ تسمیہ ہی سمجھ آجاتا تو ایسی بے تکی بات نہ کرتے کہ آپ نے اہل الرائے کے طرز کا ذکر کیا ہے، وجہ تسمیہ کا نہیں، اس لئے یہ بحث نہیں!
جناب من! جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے، وہ آپ کے بیان کردہ طرز کے بالکل خلاف ہے، بلکہ آپ کے بیان کردہ طرز کے بالکل برعکس!
اور آپ کے بیان کردہ طرز کے برعکس ہونے کی بنا پر ہی انہیں اہل الرائے کہا جاتا ہے! اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ بحث نہیں!
آیئے آپ کو پھر بتلاتے ہیں؛
آپ نے یہ طرز ذکر کیا تھا:
مدرسہ اہل الرائے کا ایک طرز معروف تھا کہ یہ تمام روایات کو جمع کرکے ان سے ایک مسئلہ اخذ کرتے تھے نہ کہ اصح ما فی الباب سے فقط۔ اس کے علاوہ صحابہ و سلف کے عمل کو بھی بغور دیکھتے تھے۔ امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار میں مختلف مقامات پریہی طرزنظرآتاہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر امام اعظمؒ کے اصولوں کی واضح جھلک ملتی ہے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ امام طحاوی ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔
مدرسہ اہل الرائے کا طرز ہم آپ کو بتلاتے ہیں، اور وہ بھی بحوالہ ؛
علامہ شہرستانی ؒ، وہی جن کا حوالہ آپ نے ارجاء کے حوالے سے پیش کیا تھا، اور اسی کتاب'' الملل والنحل ''، جس سے آپ نے حوالہ پیش کیا تھا، اصحاب الرأي کا تعارف اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
أصحاب الرأي:
وهم أهل العراق هم: أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت. ومن أصحابه: محمد بن الحسن، وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي، وزفر بن الهذيل، والحسن بن زياد اللؤلؤي، وابن سماعة، وعافية القاضي، وأبو مطيع البلخي، وبشر المريسي.
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.

اصحاب الرائے : یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب محمدؒ ، قاضی ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، حسن بن زیادؒ ، ابن سماعہؒ، عافیہ القاضیؒ، ابو مطیع بلخیؒ اور بشر المریسی وغیرہ ہیں۔
انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے مستنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 جلد 02 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 - 221 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية

اشماریہ صاحب! یہاں آپ نے اس وجہ کو کیوں نظر انداز کردیا جہاں اہل الرائے کےحوالہ سے بیان کردہ طرز کا واضح رد موجود ہے؛
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.
انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے مستنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔


اسے آپ بالکل نظر اندار کرکے فرماتے ہیں کہ وجہ تسمیہ بحث نہیں!
اشماریہ صاحب! تسمیہ بحث ہو نہ ہو، لیکن یہ جو وجہ بیان کی گئی ہے یہ بالکل زیر بحث ہے، اور یہ اہل الرائے کے حوالہ سے بیان کردہ آپ کے طرز کی صریح نفی و تردید ہے! اور اس کے برعکس ہونے کا ثبوت ہے!

(جاری ہے)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ابن داود بھائی میں نے جوابات کو ختم نہیں کیا موقوف کیا ہے ان دو حضرات کے یہاں تشریف لانے تک اس لیے آپ براہ کرم ابھی اپنے جوابات تحریر نہ فرمائیے۔
جو جواب آپ نے ابھی لکھے ہیں ان کے بارے میں میں تحریر کرتا ہوں:
اشماریہ صاحب! ابھی تک اس تھریڈ میں فقہ حنفیہ کے حوالہ سے جو بات میں نے پیش کی ہے، بالکل درست پیش کی ہے، اور آپ کہ جو ما شاء اللہ تخصص فی الفقہ الحنفیہ کے طالب علم ہیں، آپ کو تو مذکورہ مسئلہ کا بھی نہیں معلوم، میں پیش کرتا ہوں:
جب ہم نے اپ کو فقہ حنفیہ کا یہ مسئلہ بیان کیا:
معاملہ کچھ یوں ہے کہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان

اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ
حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...
لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!
میں نے آپ سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میں نے یہ کہا ہے کہ کسی مجتہد کا مسئلہ بمع دلیل پیش کریں میں اس کے طرز استدلال کی وضاحت کروں گا۔ آپ نے ایسے عالم کا مسئلہ پیش کیا جو آپ کے نزدیک مجتہد ہی نہیں ہے اور اس کی دلیل بھی پیش نہیں کی۔ تو میں طرز استدلال کی وضاحت کہاں سے کروں؟
بات کچھ چل رہی ہوتی ہے اور آپ کچھ کرنے لگ جاتے ہیں۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ مانتے بھی نہیں ہیں۔
البتہ اگر آپ کو اعتراض اس مسئلہ پر ہے تو پھر آپ الگ تھریڈ میں اس کو لکھ سکتے ہیں۔

باقی الگ تھریڈ میں لکھتے وقت اسی مسئلہ کو البحر الرائق سے پڑھ لیجیے گا۔ اور دل چاہے تو حاشیۃ ابن عابدین سے بھی دیکھ لیجیے گا۔

ظاہر ہے کہ پھر ہم نے آپ کے اس غلط بیانی کا ہم نے کواب دینا تھا، لہٰذا ہم نے آپ کو درج ذیل جواب دیا!
میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛
سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے یہ جو فرمایا کہ
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!
مگر آپ نے اب تک یہ نہیں بتلایا، کہ ''ہمارے یہاں'' کون ہیں، کیونکہ حنفی کا مطلب تو وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے!
آپ سے جب اس کو جواب نہ بن پڑا تو آپ نے اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے عرض کیا کہ یہ مسئلہ محمد بن الحسن اشیبانی ؒ کی المبسوط میں نہیں، اور دوسرا مدعا یہ اٹھایا کہ میں اس تمت صلاته کا مطلب یہ غلط سمجھا ہوں، یا غلط بیان کر رہا ہوں؛
لیکن آپ پھر آپ اپنی فنکاری سے باز نہیں آئے اور آپ نے اپنی روش پر قائم رہتے ہوئے پھر بیجا سوالات وارد کر دیئے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
آپ کو یہاں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ محمد بن حسن الشیبانی ؒ کا اخذ کردہ ہو یا نہ ہو، ہے بہر حال فقہ حنفیہ کا مسئلہ، اور آپ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ بتلا دیں کہ یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے؟ مگر آپ نے اس کا جواب بھی نہیں دیا:

یہاں فقہ حنفیہ کے مسائل پر بحث ہو رہی ہے یا تقلید کے موضوع پر؟؟؟

اشماریہ بھائی! آپ پھر مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں! اشماریہ بھائی ! آپ کو ہدایہ کے چار اردو تراجم و شروحات کا ذکر کرے بتلایا تھا، اور وہ بھی علمائے دیوبند کی، کسی نے بھی اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کا اختلاف نقل کیا! ان تراجم و شروحات کے نام ایک بار پھر نقل کرتا ہوں:
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی

اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ
شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين ابن الهمام الحنفي
العناية شرح الهداية - محمد بن محمد بن محمود البابرتي الحنفى
البناية شرح الهداية - بدر الدين العينى الحنفى
ان شروحات ہدایہ میں بھی کسی نے اس کی نکیر نہیں کی! یہ مسئلہ صرف ہدایہ میں نہیں، کنز الدقائق میں بھی موجود ہے! اور شرح وقایہ میں موجود ہے!
لہٰذا اب اگر آپ اب بھی اس بات کے قائل ہو، تو اختلافی قول پیش کریں! دوم علمائے دیوبند نے تو بہر حال اسی مسئلہ کو قبول کیا ہے!!

آپ کو اس کا خوبصورت جواب مل جائے گا ان شاء اللہ لیکن اس جگہ پر جہاں اس موضوع پر بحث ہو رہی ہوگی۔ چوں کہ یہاں تو آپ اپنی پیش کی ہوئی دلیل سے اپنے استدلال کا طرز نہیں بیان کر سکتے، اسے اصولوں کے مطابق منطبق نہیں کر سکتے تو آپ بات کو ادھر ادھر گھمانا چاہتے ہیں؟ اسی موضوع پر رہیے جس پر بات چل رہی ہے یعنی تقلید کے موضوع پر۔ ہاں اس سے متعلق جو اشکال آپ کریں گے میں اسے حل کرنے کا پابند ہوں۔ لیکن اس سے پہلے آپ میرے اعتراضات اور سوالات کو حل کیجیے۔

اس کے باوجود آپ کو یہ خوش فہمی کہ میں ''مرغنیانی '' کو مجتہد قرار دے دوں گا!
اشماریہ بھائی! یہ مرغنیانی صاحب ، جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں!
بھائی جان! یہ مسئلہ آپ کی فقہ کا ہے، اسی کو دیوبندی مسلک نے بھی اختیار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آپ بھی حد کرتے تو ! میں تو اسے اٹکل پچّو قرار دیتا ہوں! اٹکل پچّو کی بھی کوئی دلیل ہوتی ہے؟ میاں جی ! آپ اپنے گلے کی گھنٹی میرے گلے کیوں باندھنا چاہتے ہو!! مسئلہ آپ کا، کتاب آپ کی، قبول آپ کریں! اور دلیل کا مطالبہ مجھ سے! بھائی جان! دلیل اب آپ تلاش کریں، اور میرے مؤقف کو غلط ثابت کرکے بتلائیں، کہ یہ اٹکل پچّو نہیں ہے!
جب آپ مرغینانی کو مجتہد نہیں سمجھتے اور میں نے مجتہد کے مسئلے اور دلیل کا کہا تھا تو پھر آپ نے یہ یہاں کیوں لکھ دیا ہے؟؟؟ بات کو گھمانے کے لیے؟؟
@ابوالحسن علوی بھائی
@خضر حیات بھائی

شماریہ بھائی! جواب ذرا بغور پڑھ کر لکھا کریں!
جب میں عربی سمجھ سکتا ہوں تو مجھے آپ کا کیا ہوا ترجمہ بغور پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

دیکھیں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔ اور یہ میں نے اپنے کلام کے مطابق عرض کیا تھا کہ میں نے انہیں بطور مثال کے بیان کیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ بھی قسمیں بنائی گئی ہیں۔ کون سی راجح ہیں، کونسی مرجوح اس کی بحث نہیں۔ اب میں نے صرف چار قسمیں تحریر کی ہیں لیکن علامہ ابن عابدینؒ نے سات قسمیں بیان کی ہیں۔ پھر کیا ان میں لفظا مطابقت ہے؟؟؟
اب اگر آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ میرے کلام کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں تو پھر ظاہر ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
اشماریہ بھائی! آپ کے ذہن میں جو بات ہے، اسے تو آپ بہتر سمجھ سکتے ہوں گے، لیکن آپ جو کلام تحریر میں لاتے ہیں وہ ضرور میں بہتر سمجھا ہوں، کیونکہ آپ کو اپنے ہی کلام کا تضاد سمجھ نہیں آتا: دیکھیں ابھی آپ کے اس کلام میں پھر تضاد موجود ہے، مگر آپ کو اپنے ہی کلام کا تجاد سمجھ نہیں آرہا !


دیکھیں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔

اب میں نے صرف چار قسمیں تحریر کی ہیں لیکن علامہ ابن عابدینؒ نے سات قسمیں بیان کی ہیں۔

اور یہ میں نے اپنے کلام کے مطابق عرض کیا تھا کہ میں نے انہیں بطور مثال کے بیان کیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ بھی قسمیں بنائی گئی ہیں۔
بھائی جان آپ خود کہتے ہو کہ آپ نے چار قسمیں بیان کی ہیں، اور یہ بھی کہتے ہو کہ یہ تقسیمات نہیں!
اور تیسری بات آپ کی درست ہے کہ آپ نے یہ قسموں کی ہی مثالیں بیان کی ہیں!

یہ میں نے قسموں کی مثالیں یا قسموں کی ہی مثالیں کا لفظ کہاں لکھا ہے تیسری بات میں؟
میں نے کہا ہے "بطور مثال" یعنی ان چار قسموں کو میں بطور مثال بیان کر رہا ہوں۔ آپ نے میری عبارت سے اپنے الفاظ کیونکر نکال لیے؟؟؟


اشماریہ بھائی! کیا شام میں غامدی صاحب سے ٹیوشن تو نہیں لیتے؟
امام بخاریؒ، سفیان ثوریؒ اور شعبہؒ نے تو خود کو امیر المومنین فی الحدیث نہیں کہا، نہ انہیں امیر المومنین فی الحدیث کہنے کے لئے، اس بات کی کوئی حاجت ہے، کہ وہ خود کو امیر المومنین فی الحدیث کہیں، کیوں کہ امیر المومنین فی الحدیث علم الحدیث میں ایک لقب ہے! اور لقب کوئی شخص کبھی خود کو نہیں دیتا بلکہ دوسرے ہی کسی شخص کے بارے میں تجویز کرتے ہیں!
اشماریہ بھائی! کیوں ہر بار علم الکلام کے گھوڑے دوڑا کر اٹکل پچّو لڑانے لگ جاتے ہو!
اسی طرح يحیی بن معینؒ، یحیی بن سعید القطانؒ، اور نسائیؒ نے رواۃِ حدیث پر جرح و تعدیل کر کے خود کو جارح قرار دیا ہے، اور ان کا ائمہ جرح و تعدیل ہونا ایک لقب ہے! فتدبر!
جی جناب! ان محدثین نے اپنی روایت کردہ حدیث سے کو صحیح قرار دے کر اور اس احتجاج کر کے اس کی سند کے تمام راوی بشمول خود کے اپنی توثیق کی ہے! فتدبر!
یہ تو ہوئے جواب!
آگے جو آپ نے فرمایا ہے کہ اس سوال پر تبصرہ نہیں مختصر جواب چاہئے، تو یاد رہے، کہ جواب ہم سمجھے گے کہ مختصر دیں تو مختصر جواب دیں گے، اور جہاں سمجھیں گے کہ سوال مين موجود فساد کو بھی بیان کریں، تو ہم اس سوال پر تبصرہ بھی کریں گے! اور آپ کے اس سوال کے فساد کا بیان بہت ضروری ہے!
اشماریہ صاحب کے اس سوال کو دیکھیں، کہ امام طحاوی کو مقلد ثابت کرنے کے لئے، اشماریہ صاحب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ذخیرہ کو ہی مشکوک قرار دینے کی سعی کر دی! کہ اگر امام طحاوی کا مقلد ہونا ثابت نہیں ہوگا تو اشماریہ بھائی، مسلمہ محدثین کو ثقاہت پر بھی سوال اٹھا دیں گے!
شاواشے! یعنی امیر المومنین فی الحدیث اور امام جرح و تعدیل لقب ہے اس لیے دوسروں نے دیا ہے؟ تو مجتہد فی المذہب یا مجتہد فی المسائل کیا "علم" ہے؟ یہ بھی تو لقب ہے۔ تو پھر دوسرے کا دیا ہوا قبول کیوں نہیں؟؟؟

اشماریہ صاحب! میں یہ بات بالکل درست کہتا ہوں کہ علم الکلام میں جھک مار نے والوں کی کلام کوسمجھنے کی مت ماری جاتی ہے۔
میں نے کہا تھا کہ پتا بھی ہے کہ علم الکلام کیا ہوتا ہے؟؟ یا آپ اسے کلام و مکالمہ کا علم سمجھتے ہیں ابھی تک؟؟؟

اشماریہ بھائی جان ، وجہ تسمیہ کسے کہتے ہیں؟ آپ کو اگر یہ لفظ وجہ تسمیہ ہی سمجھ آجاتا تو ایسی بے تکی بات نہ کرتے کہ آپ نے اہل الرائے کے طرز کا ذکر کیا ہے، وجہ تسمیہ کا نہیں، اس لئے یہ بحث نہیں!
جناب من! جو وجہ تسمیہ بیان کی گئی ہے، وہ آپ کے بیان کردہ طرز کے بالکل خلاف ہے، بلکہ آپ کے بیان کردہ طرز کے بالکل برعکس!
اور آپ کے بیان کردہ طرز کے برعکس ہونے کی بنا پر ہی انہیں اہل الرائے کہا جاتا ہے! اور آپ فرماتے ہیں کہ یہ بحث نہیں!
آیئے آپ کو پھر بتلاتے ہیں؛
آپ نے یہ طرز ذکر کیا تھا:
مدرسہ اہل الرائے کا طرز ہم آپ کو بتلاتے ہیں، اور وہ بھی بحوالہ ؛
علامہ شہرستانی ؒ، وہی جن کا حوالہ آپ نے ارجاء کے حوالے سے پیش کیا تھا، اور اسی کتاب'' الملل والنحل ''، جس سے آپ نے حوالہ پیش کیا تھا، اصحاب الرأي کا تعارف اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
أصحاب الرأي:
وهم أهل العراق هم: أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت. ومن أصحابه: محمد بن الحسن، وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي، وزفر بن الهذيل، والحسن بن زياد اللؤلؤي، وابن سماعة، وعافية القاضي، وأبو مطيع البلخي، وبشر المريسي.
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.
اصحاب الرائے : یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب محمدؒ ، قاضی ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، حسن بن زیادؒ ، ابن سماعہؒ، عافیہ القاضیؒ، ابو مطیع بلخیؒ اور بشر المریسی وغیرہ ہیں۔
انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے مستنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 جلد 02 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 - 221 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية

اشماریہ صاحب! یہاں آپ نے اس وجہ کو کیوں نظر انداز کردیا جہاں اہل الرائے کےحوالہ سے بیان کردہ طرز کا واضح رد موجود ہے؛
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.
انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے مستنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔

اسے آپ بالکل نظر اندار کرکے فرماتے ہیں کہ وجہ تسمیہ بحث نہیں!
اشماریہ صاحب! تسمیہ بحث ہو نہ ہو، لیکن یہ جو وجہ بیان کی گئی ہے یہ بالکل زیر بحث ہے، اور یہ اہل الرائے کے حوالہ سے بیان کردہ آپ کے طرز کی صریح نفی و تردید ہے! اور اس کے برعکس ہونے کا ثبوت ہے!

کیوں جناب؟ یہ کونسی دنیا کا اصول ہے کہ مسمی بہ وجہ تسمیہ کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکتا؟؟؟؟
میں نے طرز بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جو کام کرتے تھے ان میں سے کسی کے مطابق نام رکھ دیا۔ تو اس سے میرے بتائے ہوئے طرز کی نفی کہاں سے لازم آ گئی؟ جو طرز میں نے بتایا ہے، اگر آنکھیں کھول کر دیکھیں تو شرح معانی الآثار میں بھی آپ کو یہ طرز نظر آئے گا۔


اور اب ذرا پچھلا مسئلہ انتظامیہ کی جانب سے حل ہونے تک صبر فرمائیے۔ تا کہ آپ کی جانب سے سیدھے اور واضح جوابات ملیں تو ہم آگے چلیں۔
شکریہ
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم اشماریہ بھائی نے بار بار مجھے ٹیگ کیا ہے ، میری گزارش یہ ہے کہ آپ دونوں ہی صاحب علم ہیں ، کچھ ایسا لکھیں جس سے دیگر لوگوں کو بھی فائدہ ہو ، تقلید کے موضوع پر پہلی دفعہ بات نہیں ہوئی ، مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے موضوعات میں ہم ’’ محل نزاع ‘‘ سے نکل جاتے ہیں ، اور وہ علمی پہلو زیر بحث لے آتے ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ۔
حالیہ لڑی میں شروع کردہ موضوع کو میں نے شروع سے ایک دفعہ پھر پڑھنا شروع کیا تھا ، تاکہ اپنی رائے کا اظہار کر سکوں لیکن ابتداء ہی میں بات موضوع سے ہٹ گئی اس لیے چھ سات صفحات تک بڑی مشکل مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد پڑھنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوئی ۔
محترم ابن داود صاحب سے بھی میری بصد احترام گزارش ہے کہ رویے کی سختی پر کنٹرول کریں ۔ اشماریہ صاحب کےساتھ میرا تجربہ یہ ہے کہ صاحب علم ہیں ، علمی انداز میں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی!
اول: میں بھی اتنا ہی باتوں کا جواب لکھتا کہ جو اب تک آپ نے تحریر فرمایا ہے!
دوم: آپ نے اپنا مدعا ابو الحسن علوی بھائی اور خضر حیات بھائی کے سامنے پیش کیا ہے ، تو مجھے بھی حق ہے کہ میں بھی تو اپنا مدعا پیش کروں! یہ یک طرفہ شنوائی کیوں؟آپ بھی عجیب بات کرتے ہو!
سوم کہ میں اپنا مدعا آپ کی اب تک کی تحریر کے جواب کے بعد ہی لکھوں گا!
لہٰذا آپ بتلائیے کہ آپ نے پہلے اپنا جواب مکمل کرنا ہے، یا میں آپ کی اب تک کی بات کا جواب لکھوں! اور اپنا مدعا بھی پیش کروں! مطلع فرمائیے!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی نے بار بار مجھے ٹیگ کیا ہے ، میری گزارش یہ ہے کہ آپ دونوں ہی صاحب علم ہیں ، کچھ ایسا لکھیں جس سے دیگر لوگوں کو بھی فائدہ ہو ، تقلید کے موضوع پر پہلی دفعہ بات نہیں ہوئی ، مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کے موضوعات میں ہم ’’ محل نزاع ‘‘ سے نکل جاتے ہیں ، اور وہ علمی پہلو زیر بحث لے آتے ہیں جن کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ۔
حالیہ لڑی میں شروع کردہ موضوع کو میں نے شروع سے ایک دفعہ پھر پڑھنا شروع کیا تھا ، تاکہ اپنی رائے کا اظہار کر سکوں لیکن ابتداء ہی میں بات موضوع سے ہٹ گئی اس لیے چھ سات صفحات تک بڑی مشکل مطالعہ کیا ہے ، اس کے بعد پڑھنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوئی ۔
محترم ابن داود صاحب سے بھی میری بصد احترام گزارش ہے کہ رویے کی سختی پر کنٹرول کریں ۔ اشماریہ صاحب کےساتھ میرا تجربہ یہ ہے کہ صاحب علم ہیں ، علمی انداز میں گفتگو کرنا پسند کرتے ہیں ۔
محترم خضر حیات بھائی۔
مسئلہ یہ ہے کہ محترم ابن داود بھائی نہ تو میرے کسی سوال کا واضح جواب دے رہے ہیں، نہ کسی بات پر پیدا ہونے والے کسی اعتراض کو حل کر رہے ہیں اور نہ اپنی دلیل کو واضح کر رہے ہیں۔ اب ایسی صورت میں میں بھلا کیا بات کر سکتا ہوں؟ ایسی صورت میں میں ظاہر ہے بے بس ہوں۔ اگر اسے ابن داود بھائی اپنے موقف کی جیت سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔
اور اگر مزید بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر پہلے ان باتوں کا درست طور سے جواب دیں تاکہ اس سے واقعی کوئی فائدہ ہو جائے کسی کو۔
ویسے خضر بھائی آپ کی بات درست ہے کہ کچھ ایسا لکھنا چاہیے جس سے کسی کو فائدہ ہو۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی!
اول: میں بھی اتنا ہی باتوں کا جواب لکھتا کہ جو اب تک آپ نے تحریر فرمایا ہے!
دوم: آپ نے اپنا مدعا ابو الحسن علوی بھائی اور خضر حیات بھائی کے سامنے پیش کیا ہے ، تو مجھے بھی حق ہے کہ میں بھی تو اپنا مدعا پیش کروں! یہ یک طرفہ شنوائی کیوں؟آپ بھی عجیب بات کرتے ہو!
سوم کہ میں اپنا مدعا آپ کی اب تک کی تحریر کے جواب کے بعد ہی لکھوں گا!
لہٰذا آپ بتلائیے کہ آپ نے پہلے اپنا جواب مکمل کرنا ہے، یا میں آپ کی اب تک کی بات کا جواب لکھوں! اور اپنا مدعا بھی پیش کروں! مطلع فرمائیے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم خضر حیات بھائی۔
مسئلہ یہ ہے کہ محترم ابن داود بھائی نہ تو میرے کسی سوال کا واضح جواب دے رہے ہیں، نہ کسی بات پر پیدا ہونے والے کسی اعتراض کو حل کر رہے ہیں اور نہ اپنی دلیل کو واضح کر رہے ہیں۔ اب ایسی صورت میں میں بھلا کیا بات کر سکتا ہوں؟ ایسی صورت میں میں ظاہر ہے بے بس ہوں۔ اگر اسے ابن داود بھائی اپنے موقف کی جیت سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں۔
اور اگر مزید بات کرنا چاہتے ہیں تو پھر پہلے ان باتوں کا درست طور سے جواب دیں تاکہ اس سے واقعی کوئی فائدہ ہو جائے کسی کو۔
ویسے خضر بھائی آپ کی بات درست ہے کہ کچھ ایسا لکھنا چاہیے جس سے کسی کو فائدہ ہو۔
اس لڑی کی پہلی پوسٹ دیکھیں اور پھر بعد میں ہونے والے سوال جواب دیکھیں ، آپس میں کتنی مطابقت ہے ؟
 
Top