- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب تک کی گفگتو ملاحظہ فرمائیں:
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!! وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!نہ جانے کیوں آپ تقلید کی تعریف سے کنّی کترا رہے ہیں۔ خیر میں اب ایک بار پھر تقلید کی تعریف پیش کرتا ہوں:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
ملاحظہ فرمائیں : مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ملون الفاظ پر غور فرمائیں کہ عامی کا مفتی کے فتوی پر اور قاضی کا گواہوں کی گواہی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے، اور ان کے تقلید نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے نص نے واجب کیا ہے، یعنی جسے نص واجب کرے وہ تقلید نہیں ہوتی!!
یہاں ایک جملہ کا ترجمہ رہ گیا تھا آگے تصحیح آئے گی
***
لیکن بھائی جان آپ مدعا پھر بھی غلط ہے اور اور ہمارا مدعا پھر بھی درست ہے!
آپ کو عبارت سمجھاتے ہیں:
فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً(لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) اخذ کریں اس پر عمل تقلید ہے۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔
ان سے اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہو گا تو تقلید ٹھہرے گا کیونکہ آگے صریح الفاظ ہیں کہ فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، جیسا کہ شرح التلويح علی التوضيح میں ہے:
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 01 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العمية
***
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
ذرا تحمل سے مطالعہ فرمائیں! وہاں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ تلویح کے حوالہ سے کس بات کا اثبات کیا گیا ہے!
***
جیسا کہ ہم نے آپ کے بیان پر پیش کیا تھا کہ آپ نے ضمیر غلط لوٹائی ہے! اور آپ کو بتلایا بھی تھا کہ کیسے!! اب تک تو آپ عبارت کی غلط ترکیب کر کے عامی کو مفتی کا مقلد باور کروانے پر مصر تھے، آپ کی ترکیب درست کر دی گئی، مگر پھر بھی بضد ہیں اور ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! ہمارے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں، یہ بات آپ کو پہلے ہی بتلا دی گئی ہے! اور آپ نے خود اعتراف کیا تھا کہ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ شرح التلويح علی التوضيح کی عبارت پیش کیوں کی!
اور یہ وجہ ہم نے شرح التلويح علی التوضیح سے بھی بیان کر دی تھی، جبکہ ایک قرینہ تو اسی عبارت میں مو جود ہے کہ آگے کہا گیا ہے کہ (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)۔
اب اگر عامی کا مفتی کے فتوی پر عمل تقلید ہی ہوتا تو اسے عرف قرار دینا اور اصطلاح سے خارج قرار دینا، چہ معنی دارد!!
اشماریہ بھائی جان! اب ذرا کلام کو سمجھ کر مزید تحریر کیجئے گا! کیونکہ علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے سے آپ کو پھر ندامت کا سامنہ ہو گا! اسی لئے کہتا ہوں کہ:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتےصاحب! اگر رکھتے خبر پہلے
***
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
اضافہ:
اشماریہ صاحب! شرح التلویح علی التوضیح کی عبارت آپ کو اچار ڈالنے کے لئے دی ہے؟ اور آگے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) سے یہ جو بتلایا گیا ہے کہ عرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ عامی مقلدہےمجتہد کا، پھر اسے عرف میں تقلید بتلانا چہ معنی دارد، یہی اکیلا قرینہ بھی کافی ہوتا!
اور پھر یہ کلمات آپ کیوں بھول جاتے ہو!فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط
ہم نے تو آپ کو شرح التلویح علی التوضيح سے بھی دلیل پیش کر دی!
اشماریہ صاحب! اشماریہ صاحب! ایک دلیل اور لے لیں:
(مَسْأَلَةُ التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ) الْأَرْبَعِ الشَّرْعِيَّةِ (بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ) أَيْ مِنْ التَّقْلِيدِ عَلَى هَذَا؛ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا حُجَّةٌ شَرْعِيَّةٌ مِنْ الْحُجَجِ الْأَرْبَعِ، وَكَذَا لَيْسَ مِنْهُ عَلَى هَذَا عَمَلُ الْعَامِّيِّ بِقَوْلِ الْمُفْتِي وَعَمَلُ الْقَاضِي بِقَوْلِ الْعُدُولِ؛
ملاحظہ فرمائیں :مجلد 03 صفحه 433 - التقرير والتحبير -ابن أمير حاج،يقال له ابن الموقت الحنفي - دار الكتب العلمية
(جاری ہے)
اشماریہ صاحب! آپ ضمیر اور ''ما'' سے استدلال کر کے ہماری بات کو غلط ثابت کرتے!! مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشماریہ صاحب اب یہ ہمت نہیں کر رہے!! کیونکہ ایک دو بار صاحب نے اس کام کی جرأت کی تو تھی، مگر اپنا ہی قصور نکل آیا! لہٰذا بس سوال پر سوال قائم کر کے، خواہ مخواہ بات کوالجھائے جا رہے ہیں!14: فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
15: پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی
16: نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟
اب تک کی گفگتو ملاحظہ فرمائیں:
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!! وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!نہ جانے کیوں آپ تقلید کی تعریف سے کنّی کترا رہے ہیں۔ خیر میں اب ایک بار پھر تقلید کی تعریف پیش کرتا ہوں:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
ملاحظہ فرمائیں : مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ملون الفاظ پر غور فرمائیں کہ عامی کا مفتی کے فتوی پر اور قاضی کا گواہوں کی گواہی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے، اور ان کے تقلید نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے نص نے واجب کیا ہے، یعنی جسے نص واجب کرے وہ تقلید نہیں ہوتی!!
یہاں ایک جملہ کا ترجمہ رہ گیا تھا آگے تصحیح آئے گی
***
جی جناب میں اپنی ایک غلطی ضرور تسلیم کرتا ہوں، کہ اردو ترجمہ میں ایک فقرہ کا ترجمہ رہ گیا! یہ غلطی ویسے تو میں نے کئی سال قبل ہی اپنی فائل میں درست کر لی تھی مگر شاید وہ محفوظ نہیں ہوئی! میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ آپ اسے ''ڈنڈی'' کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ ''ڈنڈی'' ماری نہیں تھی لگ گئی تھی!! خیر اس کی نشاندہی پر میں آپ کا شکر گذار ہوں!! میں اس کی تصحیح بھی کر دیتا ہوں! جزاک الله خیراًیہ تعریف پیش کرنے پر شکریہ۔
یہ جو آپ نے تعریف پیش فرمائی ہے اور اس میں حوالہ دیا ہے فواتح الرحموت کا تو میرے محترم بھائی میں نے یہاں جہاں ترجمہ میں ڈنڈی ماری گئی ہے اسے ہائیلائٹ کر دیا ہے۔
یہاں تو یہ لکھا ہے کہ: "یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) حاصل کریں اس پر عمل تقلید ہے۔"
اب اگر آپ اسی تعریف کو مان لیں تو بقول آپ کے قاضی کی سی حیثیت والے محدث کے قول کی جانب رجوع تو تقلید نہیں ہوگا لیکن اس سے حاصل کردہ حکم پر عمل (یا اسے ماننا) یہ تقلید ہی ہوگا۔
لیکن بھائی جان آپ مدعا پھر بھی غلط ہے اور اور ہمارا مدعا پھر بھی درست ہے!
آپ کو عبارت سمجھاتے ہیں:
فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً(لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) اخذ کریں اس پر عمل تقلید ہے۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔
ان سے اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہو گا تو تقلید ٹھہرے گا کیونکہ آگے صریح الفاظ ہیں کہ فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، جیسا کہ شرح التلويح علی التوضيح میں ہے:
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 01 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العمية
***
جزاک اللہ!سچ بات یہ ہے کہ میرا یہ خیال تھا کہ یہ ترجمہ آپ کا نہیں کسی اور کا کیا ہوا ہے اس لیے اسے ڈنڈی کہا تھا۔ اگر آپ کا سمجھتا تو اسے غلطی کہتا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!آپ نے جو حوالہ تلویح کا پیش کیا ہے تو وہ تو درست ہے لیکن اس سے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟
ذرا تحمل سے مطالعہ فرمائیں! وہاں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ تلویح کے حوالہ سے کس بات کا اثبات کیا گیا ہے!
***
یہ تمام باتیں اس سے قبل بیان کی جا چکی ہیں! آپ کو ہماری بات پر جو اعتراض ہو پیش کریں!اب ذرا آپ دوبارہ اپنی تفصیل کو وضاحت سے بیان فرما دیجیے۔ کیوں کہ عبارت سے تو یہی پتا چل رہا ہے کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع اور قاضی کا عدول کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے کیوں کہ یہ (رجوع کرنا) نص سے ثابت ہے۔ عبارت میں یہ کہاں سے ثابت ہو رہا ہے کہ اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہوگا تو تقلید ٹھہرے گا اور اگر اس کے علاوہ انہوں نے قرآن، حدیث، اجماع سے استنباط کیا ہو یا انہوں نے دو معارض احادیث کے درمیان تطبیق دی ہو یا انہوں نے ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیا ہو تو یہ تقلید نہیں ہوگا؟؟
فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی
نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟
جیسا کہ ہم نے آپ کے بیان پر پیش کیا تھا کہ آپ نے ضمیر غلط لوٹائی ہے! اور آپ کو بتلایا بھی تھا کہ کیسے!! اب تک تو آپ عبارت کی غلط ترکیب کر کے عامی کو مفتی کا مقلد باور کروانے پر مصر تھے، آپ کی ترکیب درست کر دی گئی، مگر پھر بھی بضد ہیں اور ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! ہمارے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں، یہ بات آپ کو پہلے ہی بتلا دی گئی ہے! اور آپ نے خود اعتراف کیا تھا کہ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ شرح التلويح علی التوضيح کی عبارت پیش کیوں کی!
اور یہ وجہ ہم نے شرح التلويح علی التوضیح سے بھی بیان کر دی تھی، جبکہ ایک قرینہ تو اسی عبارت میں مو جود ہے کہ آگے کہا گیا ہے کہ (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)۔
اب اگر عامی کا مفتی کے فتوی پر عمل تقلید ہی ہوتا تو اسے عرف قرار دینا اور اصطلاح سے خارج قرار دینا، چہ معنی دارد!!
اشماریہ بھائی جان! اب ذرا کلام کو سمجھ کر مزید تحریر کیجئے گا! کیونکہ علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے سے آپ کو پھر ندامت کا سامنہ ہو گا! اسی لئے کہتا ہوں کہ:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتےصاحب! اگر رکھتے خبر پہلے
***
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ دونوں ضمیروں کا مرجع بتا کر ذرا واضح ترجمہ فرما دیجیے!
تیسری بھی متصل بعد ہے لیکن دو ہی کافی ہیں۔ (امام ابو یوسفؒ کا آپ کا ذکر کردہ جملہ یاد آگیا۔۔۔۔ ابتسامہ)
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا
ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اضافہ:
اشماریہ صاحب! شرح التلویح علی التوضیح کی عبارت آپ کو اچار ڈالنے کے لئے دی ہے؟ اور آگے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) سے یہ جو بتلایا گیا ہے کہ عرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ عامی مقلدہےمجتہد کا، پھر اسے عرف میں تقلید بتلانا چہ معنی دارد، یہی اکیلا قرینہ بھی کافی ہوتا!
اور پھر یہ کلمات آپ کیوں بھول جاتے ہو!فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط
ہم نے تو آپ کو شرح التلویح علی التوضيح سے بھی دلیل پیش کر دی!
اشماریہ صاحب! اشماریہ صاحب! ایک دلیل اور لے لیں:
(مَسْأَلَةُ التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ) الْأَرْبَعِ الشَّرْعِيَّةِ (بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ) أَيْ مِنْ التَّقْلِيدِ عَلَى هَذَا؛ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا حُجَّةٌ شَرْعِيَّةٌ مِنْ الْحُجَجِ الْأَرْبَعِ، وَكَذَا لَيْسَ مِنْهُ عَلَى هَذَا عَمَلُ الْعَامِّيِّ بِقَوْلِ الْمُفْتِي وَعَمَلُ الْقَاضِي بِقَوْلِ الْعُدُولِ؛
ملاحظہ فرمائیں :مجلد 03 صفحه 433 - التقرير والتحبير -ابن أمير حاج،يقال له ابن الموقت الحنفي - دار الكتب العلمية
(جاری ہے)
Last edited: