• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
14: فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
15: پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی
16: نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟
اشماریہ صاحب! آپ ضمیر اور ''ما'' سے استدلال کر کے ہماری بات کو غلط ثابت کرتے!! مگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اشماریہ صاحب اب یہ ہمت نہیں کر رہے!! کیونکہ ایک دو بار صاحب نے اس کام کی جرأت کی تو تھی، مگر اپنا ہی قصور نکل آیا! لہٰذا بس سوال پر سوال قائم کر کے، خواہ مخواہ بات کوالجھائے جا رہے ہیں!
اب تک کی گفگتو ملاحظہ فرمائیں:
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!اب تو میں آپ کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تقلید کی تعریف کا مطالعہ کر لیں!! وہاں موجود ہے کہ عامی کا مفتی کے کے فتوی پر عمل تقلید نہیں!!نہ جانے کیوں آپ تقلید کی تعریف سے کنّی کترا رہے ہیں۔ خیر میں اب ایک بار پھر تقلید کی تعریف پیش کرتا ہوں:
التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة كأخذ العامي المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه وكذا العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول لإ يجاب النص ذلك عليهما لكن العرف على أن العامي مقلد للمجتهد قال الإمام وعليه معظم الاصوليين
(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ) غیر (یعنی امتی) کے قول پر بغیر حجت (دلیل) کے عمل (کا نام) ہے۔ جیسے عامی (جاہل) اپنے جیسے عامی اور مجتہد دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔ پس نبی صلی اللہ علیہ الصلاۃ والسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید میں سے نہیں ہے) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔ امام (امام الحرمین) نے کہا: اور اسی (تعریف) پر علم اصول کے علماء (متفق) ہیں۔۔۔۔۔۔۔
(التقليد: العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل، والمراد بالحجة حجة من الحجج الأربع، وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله، فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً (لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين) وهو المشتهر المعتمد عليه
"تقلید کسی غیر (غیر نبی) کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔ یہ عمل سے متعلق ہے، اور حجت سے (شرعی) ادلہ اربعہ ہیں ، ورنہ عامی کے لئے تو مجتہد کا قول دلیل اور حجت ہوتا ہے۔ جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتہد کسی دوسرے مجتہد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة والسلام اور آل و اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں، کیونکہ یہ دلیل کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں اور یہ بات قابل اعتماد اور مشہور ہے"۔
ملاحظہ فرمائیں : مجلد 02 صفحه 432 - فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت - دار الكتب العلمية
ملون الفاظ پر غور فرمائیں کہ عامی کا مفتی کے فتوی پر اور قاضی کا گواہوں کی گواہی کی طرف رجوع کرنا تقلید نہیں ہے، اور ان کے تقلید نہ ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اسے نص نے واجب کیا ہے، یعنی جسے نص واجب کرے وہ تقلید نہیں ہوتی!!
یہاں ایک جملہ کا ترجمہ رہ گیا تھا آگے تصحیح آئے گی
***

یہ تعریف پیش کرنے پر شکریہ۔
یہ جو آپ نے تعریف پیش فرمائی ہے اور اس میں حوالہ دیا ہے فواتح الرحموت کا تو میرے محترم بھائی میں نے یہاں جہاں ترجمہ میں ڈنڈی ماری گئی ہے اسے ہائیلائٹ کر دیا ہے۔
یہاں تو یہ لکھا ہے کہ: "یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) حاصل کریں اس پر عمل تقلید ہے۔"
اب اگر آپ اسی تعریف کو مان لیں تو بقول آپ کے قاضی کی سی حیثیت والے محدث کے قول کی جانب رجوع تو تقلید نہیں ہوگا لیکن اس سے حاصل کردہ حکم پر عمل (یا اسے ماننا) یہ تقلید ہی ہوگا۔
جی جناب میں اپنی ایک غلطی ضرور تسلیم کرتا ہوں، کہ اردو ترجمہ میں ایک فقرہ کا ترجمہ رہ گیا! یہ غلطی ویسے تو میں نے کئی سال قبل ہی اپنی فائل میں درست کر لی تھی مگر شاید وہ محفوظ نہیں ہوئی! میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ آپ اسے ''ڈنڈی'' کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ ''ڈنڈی'' ماری نہیں تھی لگ گئی تھی!! خیر اس کی نشاندہی پر میں آپ کا شکر گذار ہوں!! میں اس کی تصحیح بھی کر دیتا ہوں! جزاک الله خیراً
لیکن بھائی جان آپ مدعا پھر بھی غلط ہے اور اور ہمارا مدعا پھر بھی درست ہے!
آپ کو عبارت سمجھاتے ہیں:
فإنه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليداً وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً(لإ يجاب النص ذلك عليهما) فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا (تقلید نہیں) یہ رجوع خود تقلید نہیں ہے اگرچہ اس کے بعد جو وہ (ان سے) اخذ کریں اس پر عمل تقلید ہے۔ کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے، پس وہ دلیل پر عمل کرنا ہے نہ کہ محض غیر کے قول پر، لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔
ان سے اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہو گا تو تقلید ٹھہرے گا کیونکہ آگے صریح الفاظ ہیں کہ فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط۔ اور یہ بات بالکل درست ہے، جیسا کہ شرح التلويح علی التوضيح میں ہے:
وَالْأَدِلَّةُ الْأَرْبَعَةُ إنَّمَا يَتَوَصَّلُ بِهَا الْمُجْتَهِدُ لَا الْمُقَلِّدُ فَأَمَّا الْمُقَلِّدُ فَالدَّلِيلُ عِنْدَهُ قَوْلُ الْمُجْتَهِدِ فَالْمُقَلِّدُ يَقُولُ هَذَا الْحُكْمُ وَاقِعٌ عِنْدِي؛ لِأَنَّهُ أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - وَكُلُّ مَا أَدَّى إلَيْهِ رَأْيُهُ فَهُوَ وَاقِعٌ عِنْدِي
ادلہ اربع کا تعلق مجتہد سے ہے نہ کہ مقلد سے، کیونکہ مقلد کی دلیل مجتہد کا قول ہے، لہٰذ ا مقلد کہے گا کہ یہ حکم میرے نزدیک اس لئے کیونکہ اس میں ابو حنیفہ کی یہ رائے ہے، اور ہر ایک معاملہ میں ان کی جو رائے ہے، میرے نزدیک بھی وہی ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 21 جلد 01 شرح التلويح على التوضيح - سعد الدين مسعود بن عمر التفتازاني - دار الكتب العمية


***

سچ بات یہ ہے کہ میرا یہ خیال تھا کہ یہ ترجمہ آپ کا نہیں کسی اور کا کیا ہوا ہے اس لیے اسے ڈنڈی کہا تھا۔ اگر آپ کا سمجھتا تو اسے غلطی کہتا۔
جزاک اللہ!
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا

آپ نے جو حوالہ تلویح کا پیش کیا ہے تو وہ تو درست ہے لیکن اس سے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!

ذرا تحمل سے مطالعہ فرمائیں! وہاں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ تلویح کے حوالہ سے کس بات کا اثبات کیا گیا ہے!

***

اب ذرا آپ دوبارہ اپنی تفصیل کو وضاحت سے بیان فرما دیجیے۔ کیوں کہ عبارت سے تو یہی پتا چل رہا ہے کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع اور قاضی کا عدول کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے کیوں کہ یہ (رجوع کرنا) نص سے ثابت ہے۔ عبارت میں یہ کہاں سے ثابت ہو رہا ہے کہ اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہوگا تو تقلید ٹھہرے گا اور اگر اس کے علاوہ انہوں نے قرآن، حدیث، اجماع سے استنباط کیا ہو یا انہوں نے دو معارض احادیث کے درمیان تطبیق دی ہو یا انہوں نے ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیا ہو تو یہ تقلید نہیں ہوگا؟؟
فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی
نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟
یہ تمام باتیں اس سے قبل بیان کی جا چکی ہیں! آپ کو ہماری بات پر جو اعتراض ہو پیش کریں!
جیسا کہ ہم نے آپ کے بیان پر پیش کیا تھا کہ آپ نے ضمیر غلط لوٹائی ہے! اور آپ کو بتلایا بھی تھا کہ کیسے!! اب تک تو آپ عبارت کی غلط ترکیب کر کے عامی کو مفتی کا مقلد باور کروانے پر مصر تھے، آپ کی ترکیب درست کر دی گئی، مگر پھر بھی بضد ہیں اور ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! ہمارے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں، یہ بات آپ کو پہلے ہی بتلا دی گئی ہے! اور آپ نے خود اعتراف کیا تھا کہ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ شرح التلويح علی التوضيح کی عبارت پیش کیوں کی!
اور یہ وجہ ہم نے شرح التلويح علی التوضیح سے بھی بیان کر دی تھی، جبکہ ایک قرینہ تو اسی عبارت میں مو جود ہے کہ آگے کہا گیا ہے کہ (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)۔
اب اگر عامی کا مفتی کے فتوی پر عمل تقلید ہی ہوتا تو اسے عرف قرار دینا اور اصطلاح سے خارج قرار دینا، چہ معنی دارد!!
اشماریہ بھائی جان! اب ذرا کلام کو سمجھ کر مزید تحریر کیجئے گا! کیونکہ علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے سے آپ کو پھر ندامت کا سامنہ ہو گا! اسی لئے کہتا ہوں کہ:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتےصاحب! اگر رکھتے خبر پہلے

***
ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ دونوں ضمیروں کا مرجع بتا کر ذرا واضح ترجمہ فرما دیجیے!
تیسری بھی متصل بعد ہے لیکن دو ہی کافی ہیں۔ (امام ابو یوسفؒ کا آپ کا ذکر کردہ جملہ یاد آگیا۔۔۔۔ ابتسامہ)
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا
ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:
چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!

اضافہ:
اشماریہ صاحب! شرح التلویح علی التوضیح کی عبارت آپ کو اچار ڈالنے کے لئے دی ہے؟ اور آگے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) سے یہ جو بتلایا گیا ہے کہ عرف اس پر دلالت کرتا ہے کہ عامی مقلدہےمجتہد کا، پھر اسے عرف میں تقلید بتلانا چہ معنی دارد، یہی اکیلا قرینہ بھی کافی ہوتا!
اور پھر یہ کلمات آپ کیوں بھول جاتے ہو!فهو عمل بحجة لا بقول الغير فقط
ہم نے تو آپ کو شرح التلویح علی التوضيح سے بھی دلیل پیش کر دی!
اشماریہ صاحب! اشماریہ صاحب! ایک دلیل اور لے لیں:
(مَسْأَلَةُ التَّقْلِيدِ الْعَمَلُ بِقَوْلِ مَنْ لَيْسَ قَوْلُهُ إحْدَى الْحُجَجِ) الْأَرْبَعِ الشَّرْعِيَّةِ (بِلَا حُجَّةٍ مِنْهَا فَلَيْسَ الرُّجُوعُ إلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَالْإِجْمَاعُ مِنْهُ) أَيْ مِنْ التَّقْلِيدِ عَلَى هَذَا؛ لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا حُجَّةٌ شَرْعِيَّةٌ مِنْ الْحُجَجِ الْأَرْبَعِ، وَكَذَا لَيْسَ مِنْهُ عَلَى هَذَا عَمَلُ الْعَامِّيِّ بِقَوْلِ الْمُفْتِي وَعَمَلُ الْقَاضِي بِقَوْلِ الْعُدُولِ؛
ملاحظہ فرمائیں :مجلد 03 صفحه 433 - التقرير والتحبير -ابن أمير حاج،يقال له ابن الموقت الحنفي - دار الكتب العلمية

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
17: تقلید کی وہ تعریف کسی سے نقل فرمائیے جو آپ کے نزدیک درست ہو۔
آپ کو فقہائے احناف کی بیان کردہ تقلید کی تعریف پر اعتراض ہو، اور آپ اس کے منکر ہوں تو فرمائیے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
18: حافظ کے معنی بیان کیجیے!
اشماریہ بھائی! حافظ کے معنی تو آپ لغت میں دیکھیں! اتنے نکمے نہ بنیں! اور نہ یہاں حافظ کے لغوی معنی میں ہمارا کوئی اختلاف ہے! مسئلہ اس لفظ کے علم الحدیث میں استعمال کا ہے، کہ آیا اس سے توثیق ثابت ہوتی ہے یا نہیں!
19: حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! اس بحث کو بھی آپ کے لئے دوبارہ پیش کر دیتے ہیں:
ایک اور چیز بھی بتاتا چلوں کہ لسان المیزان میں امام محمدؒکےترجمہمیںمذکورہے:
يروي عن مالك بن أنس، وَغيره , وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك
یہاں تین چیزیں مذکور ہیں۔ وہ بحر علم تھے، وہ بحر فقہ تھے، وہ مالک کے سلسلے میں قوی تھے۔ تو جو بحر علم و فقہ ہو اور موطا مالک کی روایت میں قوی ہو وہ ضعیف یا کذاب ہو سکتا ہے؟
یہ فیصلہ ہے ان علماء کا جن کے سامنے ان پر جرحیں موجود تھیں اور انہوں نے اس کے باوجود یہ فیصلہ کیا ہے۔
"محمد" بن الحسن الشيباني أبو عبد الله أحد الفقهاء لينه النسائي وغيره من قبل حفظه يروي عن مالك بن أنس وغيره وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك انتهى
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 60 - 61 جلد 07 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية

جی بلکل درست ہے کہ امام ابن حجر نے اسے لسان المیزان میں بیان کیا ہے۔ یوں تو اسی لسان المیزان میں اسی سے آگے بہت سخت جراح بھی بیان کی ہیں، مگر طوالت مراسلہ کی وجہ سے اسے ذکر نہیں کرتا۔
مگر یہ تو بتائیے، کہ اپ کے ذکر کردہ کلام میں امام محمد کا ثقہ ہونا کہاں ثابت ہوتا ہے؟
یہ بحور العلم ہونے سے کسی کا ثقہ ہونے کب سے لازم آگیا؟
اسی طرح کی بات الیاس گھمن نے لکھی ہے؛ اس کا جواب فورم پر ہی لکھا ہے، یہاں بھی پیش کردیتا ہوں:
الیاس گھمن صاحب عمر بن هارون کی توثیق ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:
علامہ ذہبی: الحافظ،الامام ،المکثر، عالم خراسان ،من اوعیۃ العلم“ [علم کا خزانہ تھے ]المحدث ، وارتحل و صنف و جمع [حصول علم کے اسفار کئے، کتب تصنیف کیں اور احادیث جمع کیں](تذکرۃ الحفاظ للذہبی ج:1ص:248،249،سیر اعلام النبلاء ج:7ص:148تا 152)
اول تو ''الحافظ'' ''الإمام'' ،''المكثر'' ''عالم خراسان'' ،''من أوعية العلم'' ؛ یہ کلمات توثیق نہیں، یہ بات امام الذهبی نے انہیں کلمات سے ظاہر ہوتی ہے ، جو کلمات امام الذهبي نے ان کے ساتھ ہی بالکل متصل لکھے ہیں اور وہ کلمات ہیں؛ على ضعف فيه.۔ مگر الیاس گھمن صاحب نے انہیں حذف کردیا۔ کیونکہ اگر الیاس گھمن صاحب ان لفاظ کو بیان کردیتے تو ان کی فنکاری کیا کرتے۔ فتدبر!!یہی نہیں امام الذهبي نے اسی کتاب میں، اسی باب میں اگلی چند سطور میں، یہاں تک کہا ہے کہ عمر بن هارون کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة. متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن

ہم نے عرض کیا ہے نا آپ کو کہ یہ علم الحدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!!
اور امام مالک سے روایات میں قوی ہونے کا مطلب ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، اس سے امام محمد کا فی نفسہ ثقہ ہونا ثابت نہیں ہوتا، وگرنہ روایات امام مالک کی قید چہ معنی دارد!!
وہ کہتے ہیں کہ:
سخن شناس نئی دلبرا خطا ائنجا ست

***

ایک بات تو یہ کہ لسان المیزان میں "انتہی" سے قبل کی عبارت علامہ ذہبی کی ہوتی ہے جو میزان الاعتدال سے ماخوذ ہوتی ہے۔ لہذا یہ علامہ ذہبی کا قول ہے ابن حجر کا نہیں۔
جی بھائی جان! یہ مجھے معلوم ہے، اور ابھی آگے جا کر آپ خود بھول جاؤ گے! یہی الفاظ میزان الاعتدال میں امام الذہبیؒ کے ہیں، جس سے امام ابن حجر العسقلانیؒ نے علق کیا ہے۔
ذہبی نے سب سے پہلے ان کے بارے میں کہا ہے: احد الفقہاء۔ یہ ان کے فقہ کی تصدیق ہے۔
اس کے بعد جرح ذکر کی ہے ان کے بارے میں صرف ان الفاظ سے لينه النسائي وغيره من قبل حفظه۔ یعنی بغیر کوئی لفظ ذکر کیے انتہائی کمزور و مختصر جرح۔
امام الذہبیؒ نے خود محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ضعیف قرار دیا، امام الذہبیؒ کی ديوان الضعفاء والمتروكين اور المغني في الضعفاء کا حوالہ اوپر گذرا!
حالانکہ انہی سے ذرا آگے محمد بن الحسن بن زبالہ المخزومی ہیں۔ ان کے بارے میں جب جرح ذکر کی ہے تو اس طرح کی ہے:
محمد بن الحسن بن زبالة المخزومي المدني.
عن مالك وذويه.
قال أبو داود: كذاب.
وقال يحيى: ليس بثقة.
وقال النسائي والازدى: متروك.
وقال أبو حاتم: واهى الحديث.
وقال الدارقطني وغيره: منكر الحديث.

اس طرز سے ذکر یہ بتاتا ہے ذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں۔
یہ آپ کے اٹکل ہیں کہ دوسرے راوی پر اتنی تفصیل بیان کی ہے، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر اتنی تفصیل بیان نہیں کی تو اس سے ثابت ہوا کہ امام الذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں!! اشماریہ بھائی! آپ ان اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے گریز کریں، امام الذہبی نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ديوان الضعفاء اور المغني في الضعفاء میں صراحتاً ضعیف قرار دیا ہے!
پھر آگے اپنا فیصلہ یوں فرمایا ہے: كان من بحور العلم والفقه۔ یہ امام محمدؒ کے علم و تفقہ میں اعلی درجہ کی توثیق ہے لیکن یہ درست ہے کہ یہ جملہ ذکاوت، علم اور تفقہ پر تو دلالت کرتا ہے لیکن ثقاہت پر دلالت نہیں کرتا۔
ایسی ''توثیق'' کی کچھ مثالیں عرض کی ہیں، کہ ایسی توثیق کے بعد امام الذہبیؒ نے رافضی بھی قرار دیا ہے، آگے ابن خراش کے حوالے سے ذکر آئے گا!!
اس لیے اگلا جملہ ارشاد فرمایا ہے: قويا في مالك۔ ایک شخص ایک طرف تو کذاب ہو، دنیا بھر پر جھوٹ باندھے، اس کی احادیث مقبول نہ ہوں اور دوسری طرف وہ امام مالک سے روایت میں مقبول نہیں بلکہ قوی ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟
بلکل جناب ! یہ ممکن ہے! آپ کو سمجھنے میں مسئلہ یوں ہو رہا ہے کہ آپ کے خیال میں یہاں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے روایات میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ، فی نفسہ ثقہ ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ تحقیق یہ بتلاتی ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات درست ہیں، لہٰذا یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات میں وہ قوی ہیں، وگرنہ فی نفسہ ضعیف ہیں!
اور جو وجہ آپ نے بیان کی کہ امام مالک سے ان کی روایات دوسرے طرق سے ثابت ہوتی ہیں اس لیے یہ قبول ہیں تو یہ تو صریح البطلان ہے اور اس کو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ کسی کذاب راوی کو صرف اس بنا پر قبول کر لیا جائے کہ اس کی بعض روایات دوسرے طرق سے ثابت ہیں۔
بھائی جان! یہ آپ کو کس نے کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار دیا ہے ، کیونکہ امام مالکؒ سے ان کی روایات ثابت ہیں! بالکل جناب ایسا کچھ نہیں! محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام الذہبیؒ نے مقبول قرار نہیں دیا۔
اشماریہ بھائی! دراصل علم الکلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کی کلام کو سمجھنے کی مت ماری جاتی ہے! مجھے تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ نظر آرہا ہے۔
محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام مالکؒ کی روایت میں قوی قرار دینے کا معنی یہ نہیں کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ مقبول راوی ہیں، اور ان کی روایات مقبول قرار پاتی ہیں، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالک سے روایت درست قرار پائیں ہیں، کیونکہ جب محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی روایات کی تحقیق کی گئی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ ان کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات ثقہ راویوں سے بھی موجود ہے۔ یہ بس اتنی خبر ہے ، اس سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار نہیں دیا گیا!
اس پر تفصيلاً اوپر بحث گذر چکی ہے!
آگے آپ نے فرمایا کہ لسان المیزان میں ان پر اور بھی جرح موجود ہیں۔ تو ظاہر ہے میں نے جب وہاں سے حوالہ دیا ہے تو وہ پڑھی بھی ہوں گی۔ وہ تمام جروحات معلول ہیں اسی وجہ سے ذہبی نے انہیں قبول نہیں کیا۔
ایں خیال است و محال است و جنوں!
امام الذہبی ؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر مختصراً جرح بیان کر کے انہیں ضعیف قرار دے دیا، اور امام الذہبیؒ کا جروحات کے عدم ذکر سے، امام الذہبیؒ کا ان جرح کو رد کرنا لازم نہیں آتا!
اشماریہ بھائی ! بہت خوب! بہت ہی اعلیٰ!
اوپر قاضی ابو یوسفؒ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ '' تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا''
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ لسان المیزان امام الذہبی ؒ کی نہیں بلکہ امام ابن حجر العسقلانی ؒ کی کتاب ہے، اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ تو امام الذہبیؒ کے کافی بعد پیدا ہوئے ہیں، اب یہ کہنا کہ لسان المیزان میں حوالہ دیا ہے تو پڑھی بھی ہونگی، تو وہ تمام جروحات معلول ہیں تو اسی وجہ سے امام الذہبی ؒ نے قبول نہیں کیا! بھائی جان ایسا کچھ نہیں! نہ لسان الميزان امام الذہبیؒ کی کتاب ہے، نہ امام الذہبیؒ نے اسے معلول ٹھہرایا ہے اور نہ ان جروحات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے!
ابن حجر نے اپنا فیصلہ یہاں تحریر نہیں کیا
بالکل غلط! امام ابن حجر العسقلانی ؒنے لسان میزان میں اپنا فیصلہ بھی نقل کیا ہے۔ اور وہ وہی ہے جو امام الذہبی ؒ کا ہے، کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ ضعیف راوی ہیں، ان کی امام مالکؒ سے روایات، قوی ہیں، اور امام مالکؒ سے روایات کے قوی ہونے کا مطلب آپ کو بتلا دیا گیا ہے، او امام ابن حجر العسقلانی ؒ نے دیگر جراح بھی ذکر کیں اور کسی کا بھی رد نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ علق کیا ہے۔ فتدبر!
لیکن الإیثار فی معرفۃ رواۃ الآثار میں امام محمدؒ کا نام اس طرح ادب سے لفظ "الامام" اور کنیت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
فَإِن بعض الإخوان التمس مني الْكَلَام على رُوَاة كتاب الْآثَار للْإِمَام أبي عبد الله مُحَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ الَّتِي رَوَاهَا عَن الإِمَام أبي حنيفَة فأجبته إِلَى ذَلِك مسارعا ووقفت عِنْد مَا اقترح طَائِعا
ماشاء اللہ! اشماریہ بھائی! لفظ'' امام ''سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی توثیق کشید کرنے لگے ہیں! اور کنیت کے ذکرکرنے سے توثیق کشید کرنے میں تو کمال ہی کردیا بھائی نے۔
واضح رہے کہ اوپر آپ نے ایک راوی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ "الحافظ" اور "الامام" تعدیل نہیں ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دونوں الفاظ انتہائی اہم معانی رکھتے ہیں۔ الحافظ سے مراد حافظ حدیث ہوتا ہے اور الامام مقتدی کو کہتے ہیں۔ ایک جانب کسی کو الامام کہہ کر مقتدی کہیں اور دوسری جانب یہ کہیں کہ یہ مجروح ہے؟ چہ معنی دارد۔ پھر الامام کا لقب کیوں لائے تھے؟
بھائی جان! آپ کو بحوالہ بتلایا گیا تھا کہ ''امام'' اور ''حافظ'' وغیرہ کے الفاظ سے توثیق لازم نہیں آتی، مگر پھر بھی آپ اپنی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آتے!
نیز اگر ابن حجر کے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی پر جروحات قبول ہوتیں تو واضح فرما دیتے کہ راوی اصل ہی ضعیف بلکہ کذاب ہے۔ آگے رواۃ کا کیا ذکر کروں؟؟ لیکن یہ نہیں فرمایا بلکہ اپنے شوق کا اظہار فرمایا کہ میں نے جلدی سے اس کام کو قبول کیا۔
عمر بن ہارون پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے نہ ان پر میری کوئی تحقیق ہے لیکن عرض کرتا چلوں کہ وہاں الفاظ ہیں: علی ضعف فیہ۔ اور ضعف کی تنوین تقلیل کے لیے ہے جیسے کہ سباق کلام سے ظاہر ہے۔ معنی ہوا: وہ اپنے میں تھوڑے سے ضعف کے باوجود حافظ الحدیث، امام، مکثر وغیرہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ ایک شخص میں یہ تمام صفات ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت ضعف ہونا ممکن ہے۔ کوئی انسان بھی کامل نہیں ہوتا۔ جب امام بخاری تدلیس کر سکتے ہیں (چاہے بعد میں آنے والوں نے لاکھ توجیہات کی ہوں) تو یہاں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جب ضعف کثیر ہو، جب حافظہ کمزوری کی حد کو پہنچ جائے، اور جب انسان کی غلطیاں کثیر ہو جائیں تو اس وقت انسان حافظ کے درجے پر نہیں رہتا۔
اشماریہ بھائی! اس اٹکل لڑانے سے قبل آپ اگر ہمارے پیش کردہ حوالہ کو بغور پڑھ لیتے تو بہتر تھا، وہاں آگے امام الذہبی ؒ نے فرمایا ہے:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافط'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!

اور ہمارے اشماریہ بھائی! اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں!!
اشماریہ بھائی! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے تقريب التهذيب عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظامن كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:
ابن خِراش:الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية

اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي.

میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت

جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!
امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام''کہا ''رحمه اللہ''کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان'' وہ'' النعمان''نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!

***

ار یہ کس حکیم نے آپ کو کہا ہے کہ حافظ وغیرہ کے تعریفی الفاظ سے جرح ختم نہیں ہوتی؟؟
اشماریہ بھائی! ہیں تو بہت سے حکیم جنہوں نے ہمیں یہ بتاتا ہے ، ان میں سے دو حکیموں کے نام ان کی کتابیں اور ان کی عبارت اسی نسخہ کی پیش کی ہیں! ان دو حکیموں کے نام دہرا دیتا ہوں؛
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني

آخر پھر اس تعریف کا مقصد کیا ہوتا ہے اگر اس کا معنی ہی مراد نہ لیا جا سکے۔ ایک شخص حافظ بھی ہو یعنی حافظ الحدیث یعنی جسے حدیثیں حفظ ہوں یعنی۔۔۔۔۔۔ صحیح طرح یاد ہوں۔ اور وہی شخص اعلی درجہ کا ضعیف بھی ہو یعنی اسے حدیثیں یاد نہ رہتی ہوں۔۔۔۔ کیا یہ دونوں باتیں ایک وقت میں ایک شخص میں جمع ہو سکتی ہیں؟؟؟
پھر بھی اگر آپ بضد ہیں تو پھر میرے خیال میں حافظ کا مطلب یہی رہ جائے گا کہ وہ شخص ضعیف ہے لیکن اس کا تعلق حافظ سوہن حلوہ والے سے ہے۔ جب معنی ہی مراد نہ لیا جائے تو تعریف کیا اچار ڈالنے کے لیے کی گئی ہے؟
اشماریہ بھائی! اسی لئے تو کہتا ہوں: یہ فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے۔ آپ کے ان اٹکل کا جواب پہلے گذر چکا ہے!

***

اب تو لگ رہا ہے کہ میں اٹکل پچو لڑا رہا ہوں یا نہیں آپ اپنی بات بچانے کے لیے ایسا ضرور کر رہے ہیں۔
یا تو آپ پوسٹ پڑھتے نہیں ہیں یا پھر بھول جاتے ہیں۔ ذہبیؒ نے کہا: اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔ تو میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ان میں تھوڑا بہت ضعف ہونا اور حافظ ہونا ایک ساتھ ممکن ہے۔
اشماریہ بھائی! ميں نے آپ کی تحریر بالکل پڑھی بھی اور اس کو بالکل درست سمجھا بھی اور آپ کے مؤقف کا نقص بھی بتلایا، کہ آپ اپنا سارا مدعا ان الفاظ کہ ''فيه ضعف'' پر کھڑا کر رہے ہو، جبکہ امام الذہبی رحمہ اللہ نے سخت جراح بیان کرنے بعد یہ فرمایا ہے کہ ''اتفق علی ضعفه'' اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اس راوی میں تھوڑا بہت ضعف ہونے پار اتفاق ہے، بلکہ اس کا معنی ہے اس راوی کے ضعيف ہونے پر اتفاق ہے!
آپ کی بد ہواسی کا عالم یہ ہے کہ امام الذہبی کے کلام سے آپ عمر بن هارون کے مطلق یہ بیان کرتے ہو کہ اس میں تھوڑا بہت ضعف تھا، جس پر اتفاق ہے ، اور اسی عمر بن هارون کے متعلق، ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے کلام سے اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ اسے متروک کہا ہے اور متروک کا سبب متہم بالكذب ہوتا ہے!
اشماریہ صاحب! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ علم حدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
ذرا متروک کا سبب دیكهیے:
والقسم الثاني من أقسام المردود: -وهو ما يكون بسببِ تُهمة الراوي بالكذب- هو المتروك.
نزهۃ النظر ۱۔۲۵۵ ط مكتبۃ المدینۃ
یعنی متروك كا سبب یہ ہوتا ہے کہ راوی پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہوتی ہے۔ یہ جرح ہے راوی کی عدالت پر۔
جبکہ حافظ راوی کی توثیق ہے اس کے حفظ میں۔ نہ کہ اس کی عدالت میں۔
آپ کہتے ہیں کہ حافظ کلمہ توثیق نہیں ہے ورنہ ابن حجر عسقلانیؒ متروک نہ قرار دیتے۔ ماشاء اللہ اہل حدیث ہو کر اصول حدیث کے میدان میں اٹکل پچو لڑائے جا رہے ہیں۔
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! اب کیا کہیں آپ کو! پچھلے پیراگراف میں امام الذہبیؒ کے کلام سے آپ یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ عمر بن ھارون میں صرف تھوڑا بہت ضعف ہے، اور یہاں آپ مجھے متروک کا سبب بتلا رہے ہو کہ عمر بن ھارون متہم بالكذب ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ کوئی اور عمر بن ھارون نہیں یہ وہی عمر بن ھارون ہے جس کا ذکر امام الذہبی ؒ کی عبارت میں اوپر گزا!!! ابتسامہ۔۔۔۔
اشماریہ بھائی! کہیں آپ کا صلاۃ کے لغوی معنی کولہے مٹکانا بتلا کر بھنگڑے کو تو صلاۃ قرار دینے کا ارادہ تو نہیں کھتے؟
بھائی جان! علم الحدیث ميں جو اصطلاح استعمال ہوتی ہیں اس کا مفہوم محدثین کے کلام سے ہی اخذ کیا جائے گا! آپ کی اٹکل سے نہیں!
اشماریہ صاحب! یہ بھی آپ نے صحیح کہی، کہ ہماری بیان کردہ مثال کا بطلان اور فرق واضح ہے! حالانکہ آپ نے ایک بھی فرق بیان نہیں کیا، اور نہ ہی اس کا بطلان بتلایا ہے، سوائے اپنی اٹکل کے، اور آپ کی اٹکل کا بطلان تو ہم نے ہر ہر بار ثابت کیا ہے!
ایک تو یہ بھی عجب دلیل ہے کہ بطلان واضح ہے؟ پوچھو بطلان کیا ہے، جواب دیا جائے اظہر من الشمس ہے!

***

یہاں پھر حافظ کا ذکر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت حفظ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذہبی نے اس کا کہاں انکار کیا ہے؟؟
بھائی جان! ہم نے کب کہا کہ امام الذہبیؒ نے قوت حفظ سے انکار کیا ہے! ہم یہی تو آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ حافظ کہنے سے امام الذہبی کی جانب نے توثیق لازم نہیں آتی! آپ یہاں سے توثیق اخذ کرنے کے مدعی ہو!
ذہبی نے کہا ہے: قُلْتُ: هَذَا مُعَثَّر مَخْذُول، كَانَ علمه وَبَالاً، وَسعيه ضلاَلاً نَعُوذ بِاللهِ مِنَ الشَّقَاء. (سیر)
ان کے علم کو تسلیم کر کے کہا ہے کہ علم تو تھا (حافظہ کی قوت نے علم محفوظ رکھا تھا) لیکن وبال تھا (جو تھا وہ درست نہیں تھا۔ غلط باتیں محفوظ کی ہوئی تھیں)
اشماریہ صاحب! اب کہئے! کیااس حافظ کہنے سے کیا ابن خراش کی توثیق لازم آتی ہے؟
اشماریہ صاحب! یہی ہم آپ کو سمجھا رہے ہیں کہ حافظ کہنے سے توثیق لازم نہیں آتی!
اور جناب نے جو جرح پیش کی ان کے رافضی ہونے کی تو اس جرح کا تعلق عدالت سے ہے یا حفظ سے؟؟؟
رفض بدعت کی ایک قسم ہے اور اس کا تعلق عدالت سے ہے۔ یعنی ایک شخص کا حافظہ تو قوی تھا لیکن اس میں بدعت تھی۔ اس میں کوئی منافاۃ نہیں۔
اور اگر آپ کے اصول کے مطابق یوں کہیں " ایک شخص حافظ تو ہے لیکن ضعیف ہونے کی وجہ سے اس کا حافظہ قوی نہیں ہے" تو کیا اسے کوئی عاقل (آپ کو شامل نہیں کریں تو) تسلیم کرے گا۔
ایک بار پھر عرض ہے:
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ نے جو باتیں دہرائی ہیں ان کا جواب ابھی ابھی اوپر گزرا ہے، لہذا اسے دوبارہ پیش نہیں کرتا، ہاں آپ نے مجھے جو عاقل کی صف سے خارج قرار دینے کی بات کی ہے، کوئی بات نہیں! میں آپ کی حالت سمجھ سکتا ہوں! اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ کٹتی مرغی کو پھڑپھڑانے بھی نہ دیا جائے! آپ کی یہ پھڑپھڑاہٹ بے سبب نہیں ہے! اس کے کئی اسباب میں نے آپ کے لئے پیدا کئے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! آپ نے اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر حافظ کے لفظ سے توثیق کشید کرنے کی بڑی کوشش کی ہے، مگر ایسا ہو نہیں سکتا! کیونکہ توثیق کے مفہوم، عدالت اور حفظ دونوں شامل ہوتے ہیں، لہٰذا جب تک عدالت ثابت نہ ہو، حافظ یا ضابط کے لفظ سے توثیق اخذ نہیں کی جا سکتی!
اشماریہ صاحب! آپ نے جوش میں آکر علم الحدیث میں دعوی یہ کیا تھا:
الحمد للہ جو حدیث کے اصول پڑھے ہیں انہیں گہرائی میں جا کر پڑھا ہے۔
اشماریہ صاحب غالباً ''قواعد في علوم الحدیث از ظفر احمد عثمانی '' کو علم الحدیث کی گہرائی سمجھ بیٹھے ہیں!
یہاں مراسلہ نمبر 08 پر اس کتاب کاکچھ تعارف بیان کیا ہے۔

اشماریہ بھائی! اب آپ اپنے اٹکل کے گھوڑوں کو خود واپس بلا لیں! کیونکہ اب ہم آپ کو مقدمہ ابن صلاح اور اس کی تشرح ، شرح فتح المغیث سے حوالہ پیش کرنے جارہے ہیں! جو آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو ذبح کرتے ہوئے، ہمارے مؤقف پر تصدیق کرے گی:
(الْأُولَى): قَالَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ: " إِذَا قِيلَ لِلْوَاحِدِ إِنَّهُ " ثِقَةٌ أَوْ مُتْقِنٌ " فَهُوَ مِمَّنْ يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ ".
قُلْتُ: وَكَذَا إِذَا قِيلَ " ثَبْتٌ أَوْ حُجَّةٌ "، وَكَذَا إِذَا قِيلَ فِي الْعَدْلِ إِنَّهُ " حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ "، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 122 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الفكر، دمشق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 242 - 243 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 307 - 308 جلد 01 معرفة أنواع علوم الحديث، (مقدمة ابن الصلاح) - عثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح - دار المعارف، القاهرة

كَأَنْ يُقَالَ فِيهِ: حَافِظٌ أَوْ ضَابِطٌ ; إِذْ مُجَرَّدُ الْوَصْفِ بِكُلٍّ مِنْهُمَا غَيْرُ كَافٍ فِي التَّوْثِيقِ، بَلْ بَيْنَ [الْعَدْلِ وَبَيْنَهُمَا عُمُومٌ وَخُصُوصٌ مِنْ وَجْهٍ ; لِأَنَّهُ يُوجَدُ بِدُونِهِمَا، وَيُوجَدَانِ بِدُونِهِ، وَتُوجَدُ الثَّلَاثَةُ] .
وَيَدُلُّ لِذَلِكَ أَنَّ ابْنَ أَبِي حَاتِمٍ سَأَلَ أَبَا زُرْعَةَ عَنْ رَجُلٍ، فَقَالَ: " حَافِظٌ، فَقَالَ لَهُ: أَهُوَ صَدُوقٌ؟ " وَكَانَ أَبُو أَيُّوبَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الشَّاذَكُونِيُّ مِنَ الْحُفَّاظِ الْكِبَارِ، إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يُتَّهَمُ بِشُرْبِ النَّبِيذِ وَبِالْوَضْعِ، حَتَّى قَالَ الْبُخَارِيُّ: هُوَ أَضْعَفُ عِنْدِي مِنْ كُلِّ ضَعِيفٍ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 280 – جلد 02 فتح المغيث بشرح الفية الحديث للعراقي - شمس الدين أبو الخير محمد بن عبد الرحمن السخاوي - مكتبة دار المنهاج، الرياض
اشماریہ صاحب! اب کہئے! کیا کیا فرمائیے گا؟
اشماریہ صاحب یہاں تو صریح الفاظ میں اصول بتلا دیا گیا کہ ''حافظ'' اور ''ضابط '' کے کسی عادل کے متعلق کہے گئے یہ الفاظ توثیق پر دلالت کرتے ہیں، اور اگر یہ الفاظ ایسے راوی کے متعلق ہو جو عادل نہیں تو یہ الفاظ یعنی'' حافظ'' اور ''ضابط'' توثیق کا فائدہ نہیں دیتے!
اور جب ہم آپ کو یہی بات امام الذہبیؒ اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ کے کلام سے سمجھا رہے تھے تو اشماریہ صاحب اٹکل پچّو کی گہرائی میں غوطہ زن ہو کر فرماتے تھے کہ ہماری بات کا بطلان واضح ہے!
اشماریہ صاحب! اب معلوم ہوا کہ کس کے مؤقف کا بطلان واضح ہے؟
نہ جانے اس کی وجہ تعصب ہے، قلۃ فہمی، اپنی بات منوانے کی کوشش۔ میں نہیں جانتا۔
علامہ ذہبی نے نعمان کو امام قرار دیا ہے اپنی رائے میں اور آگے دیگر لوگوں کی آراء پیش فرمائی ہیں اپنی نہیں۔ کیا آپ کو "قال ابن عدی، قال النسائی، اور قال ابن معین" نظر نہیں آ رہا؟
پھر بھی کہتے ہیں:
بھائی جان! امام الذہبی نے متقدمین کی جرح نقل کی ہے اور اسے قبول کیا ہے، اس کی نکیر نہیں کی اس اسی بنا پر ''نعمان'' کو ضعفاء والمتروکین میں شمار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آخر کیا خاص بات ہے کہ آپ نے ان ''النعمان'' کی کنیت نہیں لکھی!
! آپ یہ عوام سے اس بات کو اوجھل رکھنا چاہتے ہو کہ یہ ''النعان'' کون ہیں! ویسے اس سے قبل کتنی بار آپ نے ان ''النعمان'' کا ذکر بغیر کنیت کے کیا ہے! (ابتسامہ، ابتسامہ یہاں بنتا ہے کہ آپ کو تو اب ان ''النعمان'' کی کنیت بیان کرتے بھی جھجک ہو رہی ہے)
استغفر اللہ۔
کاش کہ آپ نے مقدمہ المعلق میں یہ ہی پڑھ لیا ہوتا کہ ذہبی نے اس میں پانچ قسم کے لوگوں کو ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ ثقات ہے۔
اشماریہ صاحب! ہم نے اس کا مقدمہ بھی پڑھا ہے اور سمجھا ہے! میں وہ الفاظ بیان کردیتا ہوں:
بسم الله الرحمن الرحيم
رب يسر وأعن يا معين:
الحمد لله، والشكر لله، ولا حول ولا قوة إلا بالله، والصلاة على رسول الله.
أما بعد -فهذا "ديوان أسماء الضعفاء والمتروكين" وخلق من المجهولين، وأناس ثقات فيهم لين، على ترتيب حروف المعجم، بأخصر عبارة وألخص إشارة، فمن كان في كتاب من الكتب الستة: البخاري، ومسلم، وأبي داود، والترمذي، والنسائي، وابن ماجه له رواية،

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 01 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

اشماریہ بھائی! اس ''النعمان'' پر ''لین'' کی جراح نہیں کہ اسے اس قسم میں شامل کیا جا سکتا کہ جو ''ثقہ'' ہیں اور ان میں ''لین'' ہے! اشماریہ صاحب ان ''النعمان'' پر اس سے بڑھ کر جراح ہے ! دوبارہ پیش کرتا ہوں:
جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام''کہا ''رحمه اللہ''کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان''وہ'' النعمان''نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
اشماریہ صاب! قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة، یہ کیا ''لین'' کی جراح ہے؟
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، یہ کیا ''لین'' کی جراح ہے؟
وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.یہ کیا'' لین'' کی جراح ہے؟
اشماریہ صاحب! آپ کے یہ ''النعمان'' صاحب کو''وأناس ثقات فيهم لين،'' میں شمار نہیں کیا جا سکتا، بلکہ ان کا شمار ضعفاء والمتروکین میں ہی ہوگا!

دوسری بات یہ ہے کہ المغنی اور دیوان ان دونوں میں علامہ ذہبی نے علماء کے اقوال جمع کیے ہیں۔ اپنی رائے بہت کم ذکر کی ہے۔ کیا ذہبی کا کسی کو اس میں ذکر کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ ذہبی اس کو ضعیف سمجھتے ہیں
نہیں ! نہیں! اس دیوان الضعفاء والمتروکین میں امام الذہبیؒ نے جن راویوں کو ذکر کیا ہے، انہیں ثقہ ، ثبت ، الحجہ قرار دیا ہے! اور یہاں متقدمین کی جراح بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام جرح کو مردود قرار دیتے ہیں! کیا خیال ہے؟ ایسا کہنا درست ہے؟ آپ کی نظر میں!

اشماریہ بھائی! کچھ عقل کو ہاتھ مارو! امام الذہبی کا متقدمین کی جراح کو بلا نکیر نقل کرنا ، ان کی جراح کو قبول کرنا اور اس کے ساتھ علق کرنا ہے!
اشماریہ صاحب! آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ :
مجھے تو مشورہ دیا تھا جناب نے ہوش و حواس کا، خود کیا ہوش و حواس کھو دیے تھے؟
میرے بھائی! آپ کے ان افعال پر ہو سکتا ہے کہ آپ کے ہم مذہب و مشرب بغلیں بجائیں کہ ابن داود اتنی زبردست جرح ذکر رہا ہے لیکن یہاں ان کا چلنا مشکل ہے۔ مجھے علم الحدیث کا میدان بتانے والے خود اٹکل پچو کیا بھان متی کا کنبہ جوڑ رہے ہیں۔ بات ایک کی لے کر دوسرے پر فٹ کر رہے ہیں۔
اشماریہ بھائی!
جملے بتا رہے ہیں کہ حالت خراب ہے!
اشماریہ بھائی! پنجابی کا ایک محاورہ یاد آیا ہے، شاید آپ کو پنجابی اردو سے بہتر آتی ہو!
۔۔۔۔ بندہ ڈھیٹ ہونا چاہئدا اے
آپ کی علم الحدیث میں کی گئی ہر وہ بات ، جس میں آپ نے ہم سے اختلاف کیا ہے بلکل باطل ثابت ہورہی ہے اور پھر بھی دوسروں پر الزام دھرنا!!
ابن داود بھائی! ایک بھی چیز کا سیدھا جواب نہیں ملا!
سہ بارہ عرض کرتا ہوں:
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ لغوی معنی کا معاملہ اور یہ پوری بات اوپر بحوالہ گزری ہے! مقدمہ ابن صلاح اور فتح المغیث کے حوالہ سے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب تک یہ سوالات ایسے ہیں جن کا جناب والا نے جواب نہیں دیا۔ یا حکمت چین حجت بنگال کا نعرہ لگایا ہے، یا مثالیں دینے کی کوشش کی ہے اور یا ادھر ادھر کی باتیں کی ہیں۔
اشماریہ بھائی! حد ہوتی ہے، تجاہل عارفانہ یا ڈرامہ مقلدانہ کی !
یہ تو آپ کہہ سکتے تھے کہ آپ کو ان جوابات سے اتفاق نہیں، لیکن یہ کہنا کہ جوابات نہیں دیئے ، یہ تو آپ نے حد ہی کردی!
میاں جی !آپ کی باتوں کو جہاں حکمت چین و حجت بنگال کہا ہے، وہاں آپ کی باتوں کا حجت بازی ہونا بھی بتلایا ہے!
اشماریہ صاحب! آپ کو جواب دے کر مثالوں سے اس کو سمجھایا بھی ہے! اور صرف مثال سے جواب دینا بھی درست ہوتا ہے، لیکن آپ کو اگر سمجھ نہ آئے تو ہمارا کیا قصور!
اشماریہ صاحب! ادھر ادھر کی ایک بات جو میں نے کی ہو، اس کا اقتباس پیش کریں!
اشماریہ صاحب! اب آپ پر یہ لازم ہے کہ ہم نے کوئی ایک بات بھی ادھر ادھر کی ہو! اس کا اقتباس پیش کریں!
اشماریہ صاحب! اگر آپ نے وہ اقتباس پیش نہیں کیا، تو آپ دانسہ جھوٹ بولنے کے مرتکب سمجھے جاؤ گے!
پیش کرو اب وہ اقتباس جس میں کوئی ادھر ادھر کی بات کی گئی ہو!
محترم ابن داود بھائی! اس بحث کو حل کرنے کے لیے ان سوالات کے جوابات مجھے اور قارئین کو مطلوب ہیں۔ اور گھماؤ پھراؤ نہیں۔۔۔۔۔ سیدھے اور واضح جوابات۔ جن میں ابہام نہ ہو۔
اشماریہ صاحب! آپ کے ان تمام سوالات کے جواب اسی تھریڈ میں دیئے گئے تھے، انہیں دوبارہ پیش کیا گیا ہے!
اشماریہ صاحب! قارئین صرف آپ نہیں ہوم قارئین تو دیکھ ہی لیں گے! آپ اپنی بات کریں، تمام قارئین کو خود پر قیاس نہ کریں! کہ وہ سب آپ کی طرح سخن سے نا آشنا، کم فہم و کج فہم ہوں ، اور انہیں ہر بات ، حتی کہ تراجم بھی واضح نطر نہ آئیں! نہ انہیں ترجمہ میں ضمیر کا مرجع نظر نہ آئے! اشماریہ بھائی! یقین مانئے! تمام قارئین کا فہم آپ کی طرح نہیں ہے!
اگر جناب یہ جوابات عنایت نہیں فرماتے تو پھر مجھے بامر مجبوری انتظامیہ کو بلانا پڑے گا (جس کے آپ خود ایک رکن ہیں۔۔۔۔۔ ابتسامہ)
اشماریہ صاحب! انتظامیہ نے یہاں کیا کرنا ہے؟
کیوں کہ فضول بحث برائے بحث کا وقت آپ کے پاس تو ہوگا ہمارے پاس نہیں ہے۔
اشماریہ صاحب! آگے بھی کبھی کوئی بحث کرنا تو:
''اگلی واری وی نسن دا بہانہ سوچ کر آئیں!''

نوٹ: جن باتوں کا آپ نے جواب نہیں دیا، کوئی بات نہیں! قارئین دیکھ لیں گے، اور ہم نے تو پیش کر دیئے ہیں؛
تاکہ سند رہے، اور بوقت ضرورت کام آوے


(جواب مکمل ہوا ، بحمد للہ تعالیٰ)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
انتہائی مصروفیت کی بنا پر یہاں نہیں آ پا رہا۔ ان شاء اللہ وقت ملنے پر آتا ہوں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جی بلکل اشماریہ بھائی! اللہ ہمارے وقت میں برکت دے! آمین!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اشماریہ بھائی!اللہ آپ کے لئے آسانی پیدا کرے، آپ نے میری کونسی بھینس چرائی ہے کہ میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی ہو! ایسا ان شاء اللہ آپ کی طرف سے بھی نہیں ہو گا! ہمارے مؤقف میں مخالفت ہے، اور وہ شدید ہے!بالکل میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ بہت سی باتیں شروع ہو گئی ہیں، اور ان پر ایک ساتھ گفتگو کرنا آسان نہیں، مگر یہ ساری باتیں جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا ایک سوال سے تین سوال اور تین سے تیس سوال نکالنے کا نتیجہ ہے!

اشماریہ بھائی میں تو آپ کی بات پہلے بھی سمجھ گیا تھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہو اور آپ کا مدعا کیا ہے، مگر آپ کے مدعا سے متفق نہیں!
اشماریہ بھائی! اب میں آپ کو پھر آپ کے کلام کی غلطی بیان کروں گا تو آپ کہو گے کہ ہم اردو ادب پر تو گفتگو نہیں کر رہے، بلکل جناب ہم اردو ادب ہمارا موضوع نہیں مگر گفتگو ہم اردو میں کر رہے ہیں۔
آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ:

اشماریہ بھائی! آپ کی یہ بات غلط ہے، یہ آپ نے تقلید کی اقسام ہی بیان کی ہیں، اور ان کے علاوہ اور بھی ہو سکتی ہیں، اور یہ تقلید کی اقسام کی مثالیں ہیں۔ یہ درجات تقلید کی بنا پر تقلید کی قسمیں ہی ہیں۔ اور آپ کی کتب میں یہ تقسیم بالکل پائی جاتی ہیں! اب آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہوں کہ نہیں نہیں یہ تقلید کی تقسیم نہیں ہیں، تو ذرا بتائیے گا کہ یہ مثالیں کس کی ہیں؟
میں آپ کی کتب میں موجود اس تقسیم تقلید سے واقف ہوں، اب تک کی میری تحریر سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفیہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں!

اشماریہ بھائی! کیا یہ امام طحاویؒ نے خود فرمایا ہے کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المذہب؟ یقیناً یہ امام طحاوی ؒ نے خود نہیں فرمایا!
اس بات کا اختلاف ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول امام طحاویؒ کا نہیں ہے، بلکہ بعد میں آنے والے مقلدین نے اپنی طرف سے انہیں مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب میں شمار کر کے انہیں مقلدین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جب کہ جو عبارت جسے ہم نے پیش کیا ہے وہ امام طحاویؒ کا اپنا ہے! اب کسی کی بات معنی جائے؟ امام طحاویؒ کی اپنی بات مانی جائے ان کے بعد آنے والے امام طحاوی کے متعلق بیان کریں؟ہاں اگر یہ تخصیص امام طحاوی خود بیان کر دیں کہ میں مقلد تو ہوں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوں تو ہم امام طحاوی کی یہ بات ان کے متعلق مان لیں گے۔

بلکل جناب! ہم تو یہی کہتے ہیں کہ امام طحاویؒ مقلد نہیں، مقلد تو انہیں آپ باور کروا رہے ہیں ، کہ وہ مقلد تو ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔

اشماریہ بھائی! بالکل ہم آپ کی اس بات پر اپنا اعتراض پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ یہ بات امام طحاویؒ نے نہیں کی، امام طحاوی نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اس میں یہ تخصیص آپ امام طحاوی ؒکے اپنے قول سے پیدا کرسکتے ہیں، انہوں نے اپنے نے مقلد مطلق کی نفی کی ہے اور مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوتے ہوئے تقلید کا اثبات کیا ہے۔ اپ اگر امام طحاویؒ سے یہ پیش کر سکتے ہوں تو بالکل قبول کیا جائے گا، لیکن بعد میں آنے والے مقلدین اگر امام طحاویؒ کی نیابت میں یہ بات کریں تو وہ تو قابل قبول نہیں ہو گی!

اشماریہ بھائی! جب آپ بھی یہ مانتے ہو کہ ''الا'' سے یہ تقید پیدا ہوتا ہے کہ امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! تو پھر اسے قبول کریں!
بلکل میرے بھائی! امام طحاویؒ نے ''إلا عصي'' کے کے الفاظ ادا کئے، اور ابن جرثومہ نے ''أو غبي'' کہہ کر امام طحاویؒ کے کلام ''إلا عصي'' کی توثیق کردی، اور اس میں '' غبي'' کا اضافہ کیا، ابن چرثومہ کے الفاظ میں ''أو '' اس پر دلالت کرتا ہے۔
باقی پھر وہی بات ہے کہ آپ ، امام طحاویؒ کے قول میں کہ وہ اپنے مقلد ہونے کی نفی کر رہے ہیں ، یہ تخصیص فرما رہے ہیں کہ مقلد مطلق ہونے کی نفی ہے ، اور امام طحاوی مقلد ہیں، مگر مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔ آپ کی یہ تخصیص خود ساختہ ہے، یعنی کہ آپ (اشماریہ نہیں) بلکہ جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ان کی خود ساختہ۔ اگر مقلد ہونے کی نفی کی اس تخصیص کو امام طحاویؒ نے بیان کیا ہے، تو ان کا کلام پیش کریں!مقلدین احناف کا امام طحاویؒ کے متعلق فیصلہ قبول نہیں کیا سکتا، اور بھی امام طحاویؒ کے قول کے مخالف!

اشماریہ بھائی! ہماری طرف سے کوئی ضد والی بات نہیں، بات تو آپ اپنی طرف سے بنا رہے ہیں! اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے! اپ ایسی باتوں پر بھی سوال اٹھا دیتے ہو، جو متفق علیہ ہیں، لیکن صرف بات کو الجھانے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے اس طرح کے سوال کر تے ہو! مگر اشماریہ بھائی! میں اپنی عمر کے تیس سال تک دیوبندی رہا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ :
عمر گزری ہےاس دشت کی سیاحی میں!

سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
بھائی جان! یہ بات اسی کلام میں موجود ہے کہ ابن جرثومہ امام طحاویؒ کو مقلد سمجھ رہے تھے، اور وہ بھی امام ابو حنیفہؒ کا، عبارت کو بغور پڑھیں!
اور امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تو کوئی کلام ہی نہیں! یہ بات تو امام طحاوی کے کلام میں کئی جگہ موجود ہے، اور اسی عبارت میں موجود ہے!
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ ۔ تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ! تو میں نے انہیں کہا کہ عصی یعنی عقل و خرد کی خرابی والےکے علاوہ اور کون تقلید کرتا ہے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ یا جاہل۔

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية


بھائی جان!آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ مقلدین کی یہ اقسام امام طحاویؒ نے نہیں بتائی، بلکہ یہ بعد میں آنے والے مقدین کی خود ساختہ ہے! امام طحاوی اپنے متعلق یہ کلام بعد میں آنے والے مقلدین کی کی گئی تقسیم کے تناظر میں نہیں دیکھی جائے گی، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اگر یہ بات آپ امام طحاوی ؒ کے قول سے دکھلا دیں، تو بالکل مانی جائے گی!


اشماریہ بھائی! امام طحاویؒ کی مقلد ہونے کی حثیت آپ نے بیان کی ہے، جبکہ امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اگر آپ امام طحاویؒ کے قول سے بتلائیں، تو بات بنے، یہ بات اوپر تفصیلاً بیان کی ہے۔

(جاری ہے)

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

اشماریہ بھائی میں تو آپ کی بات پہلے بھی سمجھ گیا تھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہو اور آپ کا مدعا کیا ہے، مگر آپ کے مدعا سے متفق نہیں!
اشماریہ بھائی! اب میں آپ کو پھر آپ کے کلام کی غلطی بیان کروں گا تو آپ کہو گے کہ ہم اردو ادب پر تو گفتگو نہیں کر رہے، بلکل جناب ہم اردو ادب ہمارا موضوع نہیں مگر گفتگو ہم اردو میں کر رہے ہیں۔
آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ:

اشماریہ بھائی! آپ کی یہ بات غلط ہے، یہ آپ نے تقلید کی اقسام ہی بیان کی ہیں، اور ان کے علاوہ اور بھی ہو سکتی ہیں، اور یہ تقلید کی اقسام کی مثالیں ہیں۔ یہ درجات تقلید کی بنا پر تقلید کی قسمیں ہی ہیں۔ اور آپ کی کتب میں یہ تقسیم بالکل پائی جاتی ہیں! اب آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہوں کہ نہیں نہیں یہ تقلید کی تقسیم نہیں ہیں، تو ذرا بتائیے گا کہ یہ مثالیں کس کی ہیں؟
میں آپ کی کتب میں موجود اس تقسیم تقلید سے واقف ہوں، اب تک کی میری تحریر سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفیہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں!
شاید یہ آپ کا کہنا ہے میرے محترم بھائی کہ آپ فقہ حنفی سے اچھی طرح واقف ہیں۔ لیکن ایسا تو اس مسئلہ میں بھی معلوم نہیں ہوتا۔ ہاں اگر آپ نے الفاظ کتب پڑھ رکھے ہوں تو الگ بات ہے۔
دیکھیں میں نے عرض کیا تھا کہ یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔ اور یہ میں نے اپنے کلام کے مطابق عرض کیا تھا کہ میں نے انہیں بطور مثال کے بیان کیا ہے کیونکہ اس کے علاوہ بھی قسمیں بنائی گئی ہیں۔ کون سی راجح ہیں، کونسی مرجوح اس کی بحث نہیں۔ اب میں نے صرف چار قسمیں تحریر کی ہیں لیکن علامہ ابن عابدینؒ نے سات قسمیں بیان کی ہیں۔ پھر کیا ان میں لفظا مطابقت ہے؟؟؟
اب اگر آپ یہ کہنے لگ جائیں کہ میرے کلام کو آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں تو پھر ظاہر ہے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اشماریہ بھائی! کیا یہ امام طحاویؒ نے خود فرمایا ہے کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المذہب؟ یقیناً یہ امام طحاوی ؒ نے خود نہیں فرمایا!
اس بات کا اختلاف ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول امام طحاویؒ کا نہیں ہے، بلکہ بعد میں آنے والے مقلدین نے اپنی طرف سے انہیں مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب میں شمار کر کے انہیں مقلدین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جب کہ جو عبارت جسے ہم نے پیش کیا ہے وہ امام طحاویؒ کا اپنا ہے! اب کسی کی بات معنی جائے؟ امام طحاویؒ کی اپنی بات مانی جائے ان کے بعد آنے والے امام طحاوی کے متعلق بیان کریں؟ہاں اگر یہ تخصیص امام طحاوی خود بیان کر دیں کہ میں مقلد تو ہوں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوں تو ہم امام طحاوی کی یہ بات ان کے متعلق مان لیں گے۔

بلکل جناب! ہم تو یہی کہتے ہیں کہ امام طحاویؒ مقلد نہیں، مقلد تو انہیں آپ باور کروا رہے ہیں ، کہ وہ مقلد تو ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔

اشماریہ بھائی! بالکل ہم آپ کی اس بات پر اپنا اعتراض پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ یہ بات امام طحاویؒ نے نہیں کی، امام طحاوی نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اس میں یہ تخصیص آپ امام طحاوی ؒکے اپنے قول سے پیدا کرسکتے ہیں، انہوں نے اپنے نے مقلد مطلق کی نفی کی ہے اور مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوتے ہوئے تقلید کا اثبات کیا ہے۔ اپ اگر امام طحاویؒ سے یہ پیش کر سکتے ہوں تو بالکل قبول کیا جائے گا، لیکن بعد میں آنے والے مقلدین اگر امام طحاویؒ کی نیابت میں یہ بات کریں تو وہ تو قابل قبول نہیں ہو گی!

اشماریہ بھائی! جب آپ بھی یہ مانتے ہو کہ ''الا'' سے یہ تقید پیدا ہوتا ہے کہ امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! تو پھر اسے قبول کریں!
بلکل میرے بھائی! امام طحاویؒ نے ''إلا عصي'' کے کے الفاظ ادا کئے، اور ابن جرثومہ نے ''أو غبي'' کہہ کر امام طحاویؒ کے کلام ''إلا عصي'' کی توثیق کردی، اور اس میں '' غبي'' کا اضافہ کیا، ابن چرثومہ کے الفاظ میں ''أو '' اس پر دلالت کرتا ہے۔
باقی پھر وہی بات ہے کہ آپ ، امام طحاویؒ کے قول میں کہ وہ اپنے مقلد ہونے کی نفی کر رہے ہیں ، یہ تخصیص فرما رہے ہیں کہ مقلد مطلق ہونے کی نفی ہے ، اور امام طحاوی مقلد ہیں، مگر مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔ آپ کی یہ تخصیص خود ساختہ ہے، یعنی کہ آپ (اشماریہ نہیں) بلکہ جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ان کی خود ساختہ۔ اگر مقلد ہونے کی نفی کی اس تخصیص کو امام طحاویؒ نے بیان کیا ہے، تو ان کا کلام پیش کریں!مقلدین احناف کا امام طحاویؒ کے متعلق فیصلہ قبول نہیں کیا سکتا، اور بھی امام طحاویؒ کے قول کے مخالف!

اشماریہ بھائی! ہماری طرف سے کوئی ضد والی بات نہیں، بات تو آپ اپنی طرف سے بنا رہے ہیں! اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے! اپ ایسی باتوں پر بھی سوال اٹھا دیتے ہو، جو متفق علیہ ہیں، لیکن صرف بات کو الجھانے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے اس طرح کے سوال کر تے ہو! مگر اشماریہ بھائی! میں اپنی عمر کے تیس سال تک دیوبندی رہا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ :
عمر گزری ہےاس دشت کی سیاحی میں!

سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
بھائی جان! یہ بات اسی کلام میں موجود ہے کہ ابن جرثومہ امام طحاویؒ کو مقلد سمجھ رہے تھے، اور وہ بھی امام ابو حنیفہؒ کا، عبارت کو بغور پڑھیں!
اور امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تو کوئی کلام ہی نہیں! یہ بات تو امام طحاوی کے کلام میں کئی جگہ موجود ہے، اور اسی عبارت میں موجود ہے!
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ ۔ تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ! تو میں نے انہیں کہا کہ عصی یعنی عقل و خرد کی خرابی والےکے علاوہ اور کون تقلید کرتا ہے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ یا جاہل۔

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية


بھائی جان!آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ مقلدین کی یہ اقسام امام طحاویؒ نے نہیں بتائی، بلکہ یہ بعد میں آنے والے مقدین کی خود ساختہ ہے! امام طحاوی اپنے متعلق یہ کلام بعد میں آنے والے مقلدین کی کی گئی تقسیم کے تناظر میں نہیں دیکھی جائے گی، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اگر یہ بات آپ امام طحاوی ؒ کے قول سے دکھلا دیں، تو بالکل مانی جائے گی!


اشماریہ بھائی! امام طحاویؒ کی مقلد ہونے کی حثیت آپ نے بیان کی ہے، جبکہ امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اگر آپ امام طحاویؒ کے قول سے بتلائیں، تو بات بنے، یہ بات اوپر تفصیلاً بیان کی ہے۔

اس ساری بات کے جواب میں میں ایک سوال کرتا ہوں۔ اگر آپ اس کا جواب دے دیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی۔
کیا امام بخاری، سفیان ثوری اور شعبہ نے خود کہا تھا کہ ہم امیر المومنین فی الحدیث ہیں؟؟ یا کیا یحیی بن معین، یحیی بن سعید قطان اور اور نسائی نے خود کہا تھا کہ ہم ائمہ جرح و تعدیل ہیں؟؟
کیا رواۃ صحیح اور رواۃ حسن کی تفصیل خود ان رواۃ سے اپنے بارے میں منقول ہے کہ ہم راوی حسن یا صحیح ہیں؟؟؟

اگر نہیں تو ان باتوں کی تعیین کس نے کی؟ مجھے اس سوال پر تبصرہ نہیں مختصرا جواب چاہیے۔

اب آپ ایسی بات کر جاتے ہو، جب ہم اس کا جواب دیتے ہیں تو بہت سی باتیں گفتگو میں شامل ہو جاتی ہیں۔ مدرسہ اہل رائے کا آپ نے جو طرز بتلایا ہے ایسا نہیں ہے، آپ نے تو معاملہ ہی الٹ کرکے رکھ دیا!
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے

اب یا تو آپ کو الٹا سمجھ آرہا ہے یا آپ کو الٹی پٹی پڑھائی گئی ہے! تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ خود لوگوں کو الٹی پڑھانا چاہتے ہیں! پہلی دو صورتوں کا علاج تو ہے کہ ہم آپ کو اہل الرائےکا اصل تعارف و حقیقت بتلا دیں اور وہ ہم کرتے ہیں، مدرسہ اہل الرائے کا طرز ہم آپ کو بتلاتے ہیں، اور وہ بھی بحوالہ ؛
علامہ شہرستانی ؒ، وہی جن کا حوالہ آپ نے ارجاء کے حوالے سے پیش کیا تھا، اور اسی کتاب'' الملل والنحل ''، جس سے آپ نے حوالہ پیش کیا تھا، اصحاب الرأي کا تعارف اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
أصحاب الرأي:
وهم أهل العراق هم: أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت. ومن أصحابه: محمد بن الحسن، وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي، وزفر بن الهذيل، والحسن بن زياد اللؤلؤي، وابن سماعة، وعافية القاضي، وأبو مطيع البلخي، وبشر المريسي.
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.
اصحاب الرائے : یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب محمدؒ ، قاضی ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، حسن بن زیادؒ ، ابن سماعہؒ، عافیہ القاضیؒ، ابو مطیع بلخیؒ اور بشر المریسی وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے متنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 جلد 02 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 - 221 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی دو کتابوں میں ان امور پر مفصل گفتگو کی ہے، ان دو کتابوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اہل الرائے کا تعارف، اور ان کا طرز استدلال اور ان کی صلاحیتوں کو بھی بیان کیا ہے، کچھ باتیں آپ کو پیش کرتے ہیں:
وَمِنْهَا أَنِّي وجدت أَن بَعضهم يزْعم أَن هُنَالك فرْقَتَيْن لَا ثَالِث لَهما، أهل الظَّاهِر، وَأهل الرَّأْي، وَأَن كل من قَاس، واستنبط فَهُوَ من أهل الرَّأْي - كلا وَالله - بل لَيْسَ المُرَاد بِالرَّأْيِ نفس الْفَهم وَالْعقل، فَإِن ذَلِك لَا يَنْفَكّ من أحد من الْعلمَاء، وَلَا الرَّأْي الَّذِي لَا يعْتَمد على سنة أصلا، فانه لَا يَنْتَحِلهُ مُسلم أَلْبَتَّة، وَلَا الْقُدْرَة على الاستنباط وَالْقِيَاس، فان أَحْمد وَإِسْحَق بل الشَّافِعِي أَيْضا لَيْسُوا من أهل الرَّأْي بالِاتِّفَاقِ، وهم يستنبطون ويقيسون، بل المُرَاد من أهل الرَّأْي قوم توجهوا بعد الْمسَائِل الْمجمع عَلَيْهَا بَين الْمُسلمين، أَو بَين جمهورهم إِلَى التَّخْرِيج على أصل رجل من الْمُتَقَدِّمين، فَكَانَ أَكثر أَمرهم حمل النظير على النظير، وَالرَّدّ إِلَى أصل من الْأُصُول دون تتبع الْأَحَادِيث والْآثَار، والظاهري من لَا يَقُول بِالْقِيَاسِ، وَلَا بآثار الصاحبة وَالتَّابِعِينَ كدواد وَابْن حزم، وَبَينهمَا الْمُحَقِّقُونَ من أهل السّنة كأحمد وَإِسْحَاق،
ان مسائل مشکلہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں نے بعض لوگوں کو پایا ہے کہ ان کا یہ خیال ہے کہ یہاں دو دفریق ہی، کوئی تیسرا فریق نہیں ہے، ایک اہل الظاہر ہیں اور ایک اہل الرائے ہیں اور ہر وہ شخص جو قیاس و استنباط کرتا ہے وہ اہل الرائے میں سے ہے، واللہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ رائے سے مراد نہ تو نفس فہم و عقل ہے اس واسطے کہ یہ ہر عالم میں موجود ہے، اور نہ وہ رائے مراد ہے جس کی سنت پر بالکل بنیاد نہ ہو اس واسطے کہ اس کو تو کوئی مسلمان بھی اپنی طرف منسوب نہ کرے گا اور نہ استنباط و قیاس پر قادر ہونا مراد ہے اس واسطے کہ امام احمد و اسحٰق بلکہ امام شافعی بھی بالاتفاق اہل الرائے میں سے نہ تھے حالانکہ وہ استنباط اور قیاس کرتے تھے، بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان مسائل کے بعد جن پر جمہور مسلمین متفق ہیں متقدمین میں سے کسی کے قول پر تخریج کرنے کی طرف توجہ کی۔
پس ان کا اکثر کام یہ ہے کہ وہ بجائے احادیث و آثار میں تتبع (تلاش و جستجو) کرنے کے ایک نظیر کو دوسری نظیر پر حمل کرتے ہیں اور اصول میں کسی اصل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اور ظاہری وہ شخص ہوتا ہے جو نہ قیاس کا قائل ہے اور نہ صحابہ و تابعین کے آثار کا، جیسے داؤد اور ابن حزم ہیں، اور ان دونوں فریق کے درمیان محققین اہل سنت ہیں جیسے امام احمد و اسحٰق۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 273 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 383 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 93 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 ۔ 65 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(بَاب الْفرق بَين أهل الحَدِيث وَأَصْحَاب الرَّأْي)
فَوَقع تدوين الحَدِيث وَالْفِقْه والمسائل من حَاجتهم بموقع من وَجه آخر وَذَلِكَ أَنه لم يكن عِنْدهم من الْأَحَادِيث والْآثَار مَا يقدرُونَ بِهِ على استنباط الْفِقْه على الْأُصُول الَّتِي اخْتَارَهَا أهل الحَدِيث، وَلم تَنْشَرِح صُدُورهمْ للنَّظَر فِي أَقْوَال عُلَمَاء الْبلدَانِ وَجَمعهَا والبحث عَنْهَا، واتهموا أنفسهم فِي ذَلِك وَكَانُوا اعتقدوا فِي أئمتهم أَنهم فِي الدرجَة الْعليا من التَّحْقِيق، وَكَانَ قُلُوبهم أميل شَيْء إِلَى أصاحبهم كَمَا قَالَ عَلْقَمَة: هَل أحد مِنْهُم أثبت من عبد الله؟ وَقَالَ أَبُو حنيفَة: إِبْرَاهِيم أفقه من سَالم، وَلَوْلَا فضل الصُّحْبَة لَقلت: علقمه أفقه من ابْن عمر، وَكَانَ عِنْدهم من الفطانة والحدس وَسُرْعَة انْتِقَال الذِّهْن من شَيْء إِلَى شَيْء مَا يقدرُونَ بِهِ على تَخْرِيج جَوَاب الْمسَائِل على أَقْوَال أَصْحَابهم " وكل ميسر لما خلق لَهُ ". {كل حزب بِمَا يهم فَرِحُونَ} .
فهمدوا الْفِقْه على قَاعِدَة التَّخْرِيج، وَذَلِكَ أَن يحفظ كل أحد كتاب من هُوَ لِسَان أَصْحَابه وأعرفهم بأقوال القَوْل وأصحهم نظرا فِي التَّرْجِيح، فيتأمل فِي كل مَسْأَلَة وَجه الحكم، فَكلما سُئِلَ عَن شَيْء، أَو احْتَاجَ إِلَى شَيْء رأى فِيمَا يحفظه من تصريحات أَصْحَابه، فَإِن وجد الْجَواب فِيهَا، وَإِلَّا نظر إِلَى عُمُوم كَلَامهم، فأجراه على هَذِه الصُّورَة، أَو إِشَارَة ضمنية لكَلَام، فاستنبط مِنْهَا ... ، وَرُبمَا كَانَ لبَعض الْكَلَام إِيمَاء أَو اقْتِضَاء يفهم الْمَقْصُود، وَرُبمَا كَانَ للمسألة الْمُصَرّح بهَا نَظِير يحمل عَلَيْهَا، وَرُبمَا نظرُوا فِي عِلّة الحكم الْمُصَرّح بِهِ بالتخريج أَو باليسر الْحَذف، فأداروا حكمه على غير الْمُصَرّح بِهِ، وَرُبمَا كَانَ لَهُ كلامان لَو اجْتمعَا على هَيْئَة الْقيَاس الاقتراني أَو الشرطي أنتجيا جَوَاب الْمَسْأَلَة، وَرُبمَا كَانَ فِي كَلَامهم مَا هُوَ مَعْلُوم بالمثال وَالْقِسْمَة غير مَعْلُومَة بِالْحَدِّ الْجَامِع الْمَانِع، فيرجعون إِلَى أهل اللِّسَان، ويتكلفون، فِي تَحْصِيل ذاتياته، وترتيب حد جَامع مَانع لَهُ، وَضبط مبهمه وتمييز مشكلة، وَرُبمَا كَانَ كَلَامهم مُحْتملا بِوَجْهَيْنِ فَيَنْظُرُونَ فِي تَرْجِيح أحد المحتملين، وَرُبمَا يكون تقريب الدَّلَائِل خفِيا، فيبينون ذَلِك، وَرُبمَا اسْتدلَّ بعض المخرجين من فعل أئمتهم وسكوتهم وَنَحْو ذَلِك، فَهَذَا هُوَ التَّخْرِيج وَيُقَال لَهُ القَوْل الْمخْرج لفُلَان كَذَا، وَيُقَال على مَذْهَب فلَان، أَو على أصل فلَان، أَو على قَول فلَان جَوَاب الْمَسْأَلَة كَذَا وَكَذَا، وَيُقَال لهَؤُلَاء: المجتهدون فِي الْمَذْهَب، وعنى هَذَا الاحتهاد على هَذَا الأَصْل من قَالَ من حفظ الْمَبْسُوط كَانَ مُجْتَهدا، أَي وَإِن لم يكن لَهُ علم بِرِوَايَة أصلا، وَلَا بِحَدِيث وَاحِد فَوَقع التَّخْرِيج فِي كل مَذْهَب، وَكثر، فَأَي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه مشهورين وسد إِلَيْهِم الْقَضَاء والافتاء، واشتهر تصانيفهم فِي النَّاس، ودرسوا درسا ظَاهرا انْتَشَر فِي أقطار الأَرْض، وَلم يزل ينتشر كل حِين، واي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه خاملين، وَلم يولوا الْقَضَاء والافتاء وَلم يرغب فيهم النَّاس اندرس بعد حِين.
اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین فرق کے بیان میں
پس حدیث، فقہ اور مسائل کو دوسرے طرز پر مدوّن کرنے کی ضرورت واقع ہوئی اور یہ اس واسطے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہ تھے جن سے ان اصول کے موافق جن کو اہل حدیث نے پسند کیا ہے استنباطِفقہ پر قادر ہوتے اور ان کو یہ پسند نہ تھا کہ علماء بلاس کے اقوال میں غور کرتے، ان کو جمع کرتے اور ان سے بحث کرتے بلکہ اس امر میں ان کو متہم سمجھا، اور ان کا اپنے اماموں کے متعلق یہ اعتماد تھا کہ وہ نہایت درجہ کے محقق ہیں اور ان کے دلوں کا میلان سب وہ سب سے زیادہ اپنے اصحاب کی طرف ہی تھا، جیسے علقمہ کا قول ہے کہ کوئی صحابی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ راسخ العلم نہیں ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا تھا ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اگر صحابی ہونے کی فضیلت نہ ہوتی تو میں یہ بھی کہہ دیتا کہ علقمہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ فقیہ ہیں لیکن ان لوگوں میں فطانت اور سمجھ اور ایک شئی سے دوسری شئی کی طرف ذہن کا سرعتِ انتقال اس درجہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اصحاب کے اقوال کے مطابق جواب مسائل کی تخریج بخوبی کرسکتے تھے، اور جس شخص کی پیدائش میں جو چیز ہوتی ہے وہ اس کے لئے سہل ہو جایا کرتی ہے (ہر گروہ اپنے اس طریقہ پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے) اس طرح پر انہوں نے تخریج کے قاعدہ پر فقہ کی ترتیب دی اور وہ یہ کہ ایک اس شخص کی کتاب کو محفوظ رکھتا تھا جو ان کے اصحاب کی زبان اور علماء کے اقوال کا زیادہ واقف اور ترجیح میں جس کی نظر سب سے زیادہ صحیح ہوتی تھی، اس واسطے وہ ہر مسئلہ میں حکم کی وجہ میں غور کر سکتا تھا پس جب کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جاتا یا اس کو کسی امر کی ضرورت پیش آتی تو وہ اپنے اصحاب کی تصریحات میں غور کرتا جو اس کو محفوظ ہوتی تھیں اگر ان میں جواب مل جاتا تو فبہا ورنہ ان کے عموم کلام کو دیکھتا اور اس مسئلہ جو اس عموم پر جاری کرتا یا کلام کے ضمنی اشارہ کو دیکھتا اور اس سے جواب مسئلہ مستنبط کر لیتا، کبھی بعض کلام میں کوئی اشارہ یا اقتضاء ہوا کرتا تھا جس سے امر مقصود و مفہوم ہو جایا کرتا تھا، اور کبھی مسئلہ مصرح کی کوئی نظیر ہوتی تھی جس پر اصل مسئلہ کو حمل کر لیا کرتے تھے اور کبھی وہ حکم مصرح کی علت میں بتخریج یا با یُسر وحذف غور کرتے تھے، اور اس کے حکم کو غیر مصرح میں ثابت کرتے تھے، اور کبھی کسی عالم کے دو قول ہوتے تھے کہ اگر ایک کو قیاس اقترانی یا شرطی کی ہیئت پر جمع کر لیتے تو جواب مسئلہ کا اس سے حاصل ہو جاتا، اور کبھی ان کے کلام میں بعض امور مثال اور تقسیم سے معلوم ہوتے تھے لیکن ان کی تعریف جامع اور مانع معلوم نہ تھی اس واسطے وہ فقہاء اہل زبان کی طرف رجوع کرتے تھے اور اس شئی کے ذاتیات حاصل کرنے میں اس کی جامع مانع تعریف مرتب کرنے میں، اس کے مبہم کو ضبط کرنے میں، اور اس کے مشکل کو ممیز کردینے میں کوشش کرتے تھے، اور کبھی ان کے کلام میں دو وجوہ کا احتمال ہوتا تھا، پس وہ دونوں میں سے ایک کو ترجیح دینے میں غور کرتے تھے، اور کبھی دلائل کی ادائیگی میں خفا ہوتا ہے پس یہ فقہاء اس کو صاف صاف بیان کردیتے ہیں، اور کبھی کبھی بعض اصحاب تخریج نے اپنے ائمہ کے فعل اور ان کے سکوت وغیرہ سے استدلال کیا ہے، پس ان طرقِ مذکورہ کو تخريج کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے قول کی اس طرح تخریج کی ہے اور کہا جاتا ہے فلاں مذہب کے موافق یا فلاں شخص کے قاعدہ کے موافق یا فلاں شخص کے قول کے موافق مسئلہ کا جواب اس اس طرح ہے اور ان تخریج کرنے والوں کو مجتہدین فی المذہب کہا جاتا ہے، اور جس نے یہ کہا ہے کہ جس نے مبسوط کو یاد کرلیا وہ مجتہد ہے تو اس سے وہی اجتہاد مراد ہے جو تخریج سے متعلق ہے اگرچہ ایسے شخص کو روایت علم بالکل نہ کو اور اس کو ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو اس طرح ہر ایک مذہب میں تخریج واقع ہوئی اور اس کی کثرت ہو گئی، پس جس مذہب کے لوگ زمانہ میں مشہور ہو گئے اور ان کو عہدہ قضاء و استفتاء ملا اور ان کی تصانیف لوگوں میں مشہور ہوئیں اور انہوں نے عام طور پر درس دینا شروع کیا تو وہ مذہب اطراف عالم میں پھیل گیا اور ہمیشہ اس کی شہرت ہوتی رہی اور جس مذہب کے لوگ گمنام رہے اور ان کو منصب قضاء وافتاء نہ ملا اور لوگوں نے ان میں رغبت نہ کی تو وہ چند روز بعد نابود ہوگیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 259 - 260 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 352 ۔ 355 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 61 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 ۔ 35 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا
جناب ابن داود صاحب! میں نے مدرسہ اہل الرائے کے طرز کا ذکر کیا تھا نہ کہ ان کی وجہ تسمیہ کا۔
میں نے کچھ مقامات ہائیلائٹ کیے ہیں۔
پہلا جو حوالہ آپ نے دیا اس میں وجہ تسمیہ کا ذکر ہے۔ ہماری اس سے بحث نہیں۔
دوسرا جو حوالہ جناب نے تحریر فرمایا اس میں ایک لفظ جسے میں نے ہائلائٹ کیا ہے، کا ترجمہ ہے: متقدمین میں سے کسی شخص کی اصل پر۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ذکر بعد کے لوگوں کا ہے۔ ان کا نہیں جن کی ہم بات کر رہے ہیں۔ اور جن میں ابراہیم نخعیؒ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہاں بات ہو رہی ہے اہل ظاہر کی، ان کے زمانے میں موجود اہل الرائے کی اور اسی زمانے کے آس پاس کے امام احمد اور اسحاق کی۔ آپ نے اسے اٹھا کر ابتدا کے لوگوں پر فٹ کر دیا۔ یہ طرز عمل مناسب نہیں ہے۔

البتہ جو تیسرا حوالہ ہے اس میں تھوڑی سی گڑبڑ ہو گئی ہے شاید۔
ایک تو آپ نے باب کا نام اور یہ عبارت بالکل ساتھ ساتھ لکھ دی ہے۔ اس کے درمیان کی طویل عبارت جس میں اصلا اہل حدیث اور اہل الرائے کا فرق موجود ہے کہ اہل حدیث حدیث کا بیان زیادہ کیا کرتے تھے اور اہل الرائے (جن میں ابراہیم، شعبی، علقمہ اور ابن مسعود رض مذکور ہیں) حدیث بیان کرتے وقت ڈرتے تھے، یہ عبارت بیچ سے حذف کیوں کی گئی ہے؟؟
پھر آگے اتہموا انفسہم کا ترجمہ کیا گیا ہے "اس امر میں ان کو متہم سمجھا" حالاں کہ اس کا ترجمہ یہ ہے "اس امر میں خود کو متہم سمجھا"۔
تو یہ دو گڑبڑیں نہ جانے کیوں ہو گئیں۔ بغور پڑھا جائے تو شاید اور بھی ہوں۔
بہرحال یہ جو عبارت ہے یہ ان علماء کے بارے میں تو ہو نہیں سکتی جن کا ذکر اہل الرائے کے طور پر ہوا ہے کیوں کہ ان میں جو علقمہ، ابن مسعود اور ابراہیم موجود ہیں ان کے "امام" بھلا کون تھے جنہیں وہ لوگ غایت درجہ تحقیق پر سمجھتے تھے۔ نیز تاریخ گواہ ہے کہ ان لوگوں کا علم حدیث میں کیا مقام تھا! کیا ان کے پاس بھی حدیثیں نہیں تھیں؟؟
ظاہر ہے یہ آئیندہ زمانے کے لوگوں کے بارے میں ہے لیکن کتنے آئیندہ کے کون لوگ؟ اس کی وضاحت نہیں ہے۔ اس لیے ہم یہی سمجھ سکتے ہیں کہ یا تو یہاں سقط عبارت ہے اور یا پھر یہاں مصنفؒ سے تاریخ کے بیان میں غلطی ہوئی ہے۔

چوتھا حوالہ جو آپ نے دیا ہے:
یہی نہیں بلکہ اہل الرائے کے اٹکل پچّو قیاسات کے متعلق فرماتے ہیں:
وَإِذا تحققت هَذِه الْمُقدمَة اتَّضَح عنْدك أَن أَكثر المقاييس الَّتِي يفتخر بهَا الْقَوْم، ويتطاولون لأَجلهَا على معشر أهل الحَدِيث يعود وبالا عَلَيْهِم من حَيْثُ لَا يعلمُونَ.
جب تم کو اس مقدمہ کی تحقیق ہو گئی تو یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ اکثر قیاسات جن پر لوگ فخر کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ جماعت اہل حدیث پر فوقیت ظاہر کرتے ہیں خود انہی کے لئے وبال ہیں جس کی انہیں خبر بھی نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 228 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 290 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
اس کے بارے میں مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ جہاں لفظ قیاس یا اہل حدیث نظر آئے وہاں اہل الرائے اور اہل حدیث کے تقابل کو بیان کرنا نہ شروع کر دیا کیجیے آگے پیچھے بھی دیکھ لیا کریں۔ یہاں ما قبل میں اس کی بات چل رہی ہے کہ مقادیر میں قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ اور القوم سے وہ لوگ مراد ہیں جو یہ قیاس کرتے ہیں۔ یہاں اہل الرائے کی بحث کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ نیز یہ شاہ ولی اللہؒ کی اپنی رائے ہے جو کسی مجتہد کے خلاف ظاہر ہے حجت نہیں ہو سکتی۔
اس لیے آپ بھی مہربانی فرما کر اس طرح نہیں کیا کریں۔ لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں ایسے اٹکل پچو قیاسات سے۔

مندرجہ بالا علامہ شہرستانی ؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریر سے کچھ باتیں عیاں ہیں کہ:
امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اہل الرائے ہیں، اور ان کے پاس بہت کم احادیث اور آثار تھے، یعنی کہ انہیں احادیث و آثار کا بہت کم علم تھا، نہ ہی ان میں اتنی لیاقت تھی کہ یہ احادیث و آثار سےمحدثین کے اصولوں کے مطابق استدلال و استنباط کر پاتے، اور نہ انہیں احادیث و آثار اور دیگر علماء کے اقوال کی تلاش و جستجو میں کوئی دلچسی تھی، بلکہ وہ اپنے استاد کے قول پر تخریج مسائل کرتے تھے۔ حتی حدیث سے بالکل جاہل یہاں تک کہ اسے ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو، وہ بھی اہل الرائے کا مجتہد فی المذہب ہو سکتا ہے، بس اسے اپنے مجتہد کے اقوال یاد ہوں!
اشماریہ بھائی!
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا
بند قبا دیکھ
ماشاء اللہ اپنی مرضی کی باتیں تو عیاں کرنے میں آپ کو ملکہ حاصل ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تصریح کے مطابق تو اس میں ابراہیم، علقمہ اور ابن مسعود رض بھی آتے ہیں۔ پھر؟؟؟

اور اگر قاضی عیاضؒ کی ہی عبارت دیکھ لیتے، جہاں سے آپ نے ایک قول نقل کیا تھا، تو یہ اتنی بڑی گپ نہ چھوڑتے؛
قاضی عیاض ؒ کی مکمل عبارت یہ ہے:
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين.
ولهذا ما خالفه صاحباه محمد وأبو يوسف في نحو ثلث مذهبه إذ وجدوا السنن تخالفهم تركها لما ذكرناه عن قصد لتغليبه القياس وتقديمه أو لم تبلغه ولم يعرفها إذ لم يكن من مثقف علومه وبها شنع المشنعون عليه وتهافت الجراء على دم البراء بالطعن إليه.ثم ما تمسك به من السنن فغير مجمع عليه، وأحاديث ضعيفة ومتروكة وبسبب هذا تحزبت طائفة أهل الحديث على أهل الرأي وأساءوا فيهم القول والرأي.
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا يريد أنه تمسك بصحيح الآثار واستعملها، ثم أراهم أن من الرأي ما يحتاج إليه وتنبني أحكام الشرع عليه، وأنه قياس على أصولها ومنتزع منها.وأراهم كيفية انتزاعها، والتعلق بعللها وتنبيهاتها.
فعلم أصحاب الحديث أن صحيح الرأي فرع الأصل، وعلم أصحاب الرأي أنه لا فرع إلا بعد الأصل، وأنه لا غنى عن تقديم السنن وصحيح الآثار أولاً.
اور ابوحنیفہؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قیاس و اعتبار مقدم ہے سنن و آثار پر، اسی بنا پر انہوں نے (کئی جگہ )اصول کے نصوص کو ترک کرکے معقول سے تمسک کیا ہے، اور رائے ، قیاس اور استحسان کو (نصوص پر ) ترجیح دی ہے ؛ اور (اسی نصوص گریزی میں اتنا مبالغہ کیا کہ ) پھر (کئی ایک مقام پر ) استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیا ؛
اور بعض علماء نے استحسان کی تعریف یہ بیان کی ہے۔کہ استحسان (حکم کی علت سے صرف نظر کرکے )بے دلیل قول کی طرف جانے کا نام ہے ۔ اور یہ انتہائی قابل مذمت من پسندی ،اور خواہش پرستی ہے؛اور ایسا کرنا دین سازی اور بدعت ہے؛ حتی کہ امام شافعی فرماتے ہیں :جس نے استحسان کیا ،اس نے اپنی طرف سے دین گھڑا۔اسی لئے ان کے دو اصحاب، محمدؒ ،اور ابو یوسفؒ نے ابو حنیفہؒ کے ایک تہائی مذہب کی مخالفت کی ہے ،جہاں انہوں نے سنت کو ان کے مذہب کے خلاف پایا اس کو چھوڑ دیا ۔جیسا کہ ہم نے ابوحنیفہؒ کا عمداً قیاس کا غلبہ اور قیاس کو نصوص پر مقدم کرنا بیان کیا ، یا اس لئے بھی انہوں سنن کے مخالف رائے کو اپنایا کہ انہیں ان سنن کا علم ہی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ احادیث کے علوم و فنون کی مہارت و فطانت سے دور تھے، اور اسی سبب لوگوں نے ان کی عیب جوئی کی اور ان پر طعن کے نشتر چلے، اور جن مسائل میں انہوں نے سنت کا دامن تھاما بھی ،تو اختلافی اسانید والی احادیث کو ماخذ بنالیا، یا ضعیف و متروک روایات کو بنیاد بنایا اور اسی سبب اہل الحدیث نے اہل رائے سے علیحدگی کی راہ لی اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر ان کے بارے سخت لہجہ استعمال کیا۔
امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ :ہم ہمیشہ (اہل الحدیث ) اہل الرائے پر ،اور وہ ہم پر لعنت ہی کرتے رہے ،حتی کہ امام شافعیؒ آئے،انہوں نے ہمیں باہم ملایا، ان کا مطلب ہے کہ انہوں ایک طرف صحیح احادیث کو فقہی امور میں قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کیا ۔پھر دکھایا کہ بعض جگہ رائے (یعنی قیاس و استنباط ) کی بھی حاجت ہوتی ہے اور احکام شرع اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ رائے دراصل، احکام کا اپنے اصولوں پر قیاس ہے ،انہوں اس کی کیفیت سمجھائی اور بتایا کہ کیسے علت حکم کو دریافت کیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ (کے تدوین اصول فقہ )کے بعد اصحاب الحدیث نے سمجھا کہ صحیح رائے اصل کی فرع ہوتی ہے، اور اہل رائے نے یہ بات جان لی ۔۔کوئی فرع اصل کے بغیر نہیں ہوسکتی،اور (مصادر حکم کیلئے ) سب سے پہلےسنن اور صحیح آثار کو سب پر تقدیم دینا لازم ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - المملكة المغربية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 39 – 40 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية، بيروت

اشماریہ بھائی! اسی عبارت کو جہاں سے آپ نے ایک جملہ پیش کیا تھا، اور پوری عبارت کو دیکھ لیتے تو آپ کومعلوم ہو جاتا کہ اہل الرائے اور ان کے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا علم الحدیث کتنا تھا، اور وہ سنن وآثار کے ساتھ کیا کیا کرتے تھے، کہ اپنے قیاس کے مقابلے میں سنن و آثار کو رد کردیا کرتے تھے!
اس بارے میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قول دیکھیں:
حدثني إبراهيم، ثنا أبو توبة، عن أبي إسحاق الفزاري، قال: قال الأوزاعي: «إنا لا ننقم على أبي حنيفة الرأي كلنا نرى، إنما ننقم عليه أنه يذكر له الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيفتي بخلافه»
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا بیشک ہم قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو برا نہیں سمجھتے ،ہم سارے قیاس کرتے ہیں، ہم اس لیے اسے برا سمجھتے ہیں کہ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی جاتی ہے تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف فتویٰ دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام
میں نے یہ عبارت دیکھی تھی لیکن میرے محترم یہ صرف قاضی عیاضؒ کا خیال ہے اور اوزاعیؒ کی رائے۔ امام ابو حنیفہؒ کے مسائل تو اس کے خلاف ہیں ورنہ علامہ طحاویؒ ان کے مسلک پر اتنے دلائل کہاں سے ڈھونڈ لاتے؟
لہذا ان کے خیالات کی کوئی حیثیت نہیں ہے فقہ حنفی کے بارے میں کیوں کہ یہ ان کا موضوع ہی نہیں رہا کبھی۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ کے مراسلہ کے درمیان لکھنے پر معذرت!
مگر آپ میرے اقتباس کو مکمل میرے اقتباس کی صورت میں پیش کریں، مہربانی ہو گی!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! آپ کے مراسلہ کے درمیان لکھنے پر معذرت!
مگر آپ میرے اقتباس کو مکمل میرے اقتباس کی صورت میں پیش کریں، مہربانی ہو گی!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کاپی تو میں مکمل ہی کرتا ہوں۔ اگر آپ کی مراد آپ کےحوالے کے ساتھ ہے جیسے آپ پیش کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پاس فورم تھوڑا سست چلتا ہے اس وجہ سے تنگی ہوتی ہے۔
بہر حال میں ان شاء اللہ کوشش کروں گا۔

امام طحاوی ؒ نے تقلیدی نظریہ و عمل کی نفی کی ہے، یہ بات آپ کو تسلیم ہے، لیکن آپ کا مدعا یہ ہے کہ ایک خاص تقلیدی نظریہ و عمل کی نفی ہے، اور دوسرے تقلیدی نظریہ کی نفی نہی کی۔ آپ کی یہ بات دلیل کہ محتاج ہے، اور یاد رہے کہ ہم نے آپ کو اوپر بھی بتلایا ہے کہ یہ تخصیص امام طحاوی ؒ کے قول سے ہی کی جا سکتی ہے، آپ امام طحاوی ؒ کا وہ قول پیش کر دیں! اس کے سباق میں تو ایسی کوئی بات نہیں، اس کا بیان بھی پہلے گذر چکا ہے۔
بھائی جان! ہم نے کب کہا کہ طرز کلام کو نظر انداز کیا جائے، مگر اس کی کوئی دلیل سبیل و قرینہ بھی تو ہو! ہم نے وہاں وہ لفظ دکھلایا تھا کہ ''أو'' کے الفاظ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ''غبي'' کے الفاظ کا اضافہ کیا، اس کی توثیق امام طحاوی ؒ نے اس طرح ثابت ہے کہ امام طحاوی ؒ خود اس واقعہ کو بلا نکير اپنے بیٹے کو بیان کرتے ہیں۔ فتدبر!
آپ بھی اپنے استدلال پر ایسی کوئی دلیل و قرینہ تو پیش کریں!!جب تک آپ کے بیان کردہ تخصیص کی دلیل نہیں ، یہ مطلقاً تقلید کی ہی نفی رہے گی!
میرے محترم میں نے اس بات کا کب دعوی کیا ہے کہ یہ واقعہ امام طحاوی کو قبول نہیں تھا یا انہوں نے صرف حکایت کی تھی؟
البتہ باقی جو آپ فرما رہے ہیں کہ تخصیص امام طحاویؒ کے قول سے ہی پیش کی جا سکتی ہے تو یہ قبول نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کتنے ایسے ضعیف، کذاب، رافضی، شیعہ وغیرہ رواۃ ہیں جن کے اپنے قول سے ان کے بارے میں یہ ثابت ہے؟ ان کے قول سے ایسا کچھ نہیں ثابت بلکہ ان کے فعل کو دیکھتے ہوئے بعد والوں نے انہیں یہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح امام طحاویؒ کے بارے میں بھی حنفی ہونے کا فیصلہ بعد والوں کا ہے جو ان کے افعال کو دیکھ کر کیا گیا ہے۔ اگر ہم آپ کا اصول قبول کر لیں تو پھر تو پورا علم جرح و تعدیل ہی ختم ہو جائے گا۔
اور اگر آپ یہ کہیں کہ رفض و تشیع میں تو دوسروں کا قول قبول ہے لیکن یہاں نہیں تو پھر میں آپ سے یہ پوچھوں گا کہ آپ کے لینے کے باٹ اور اور دینے کے اور کیوں ہیں؟
اور اگر آپ یہ کہیں کہ امام طحاوی کو حنفی کہا گیا ہے لیکن اس سے مراد ابو حنیفہؒ کا مقلد ہونا نہیں بلکہ اس سے مراد کچھ اور ہے تو میں عرض کروں گا کہ پھر اس حنفی اور حنفی کے درمیان فرق کو کہیں سے دکھائیے۔

پھر میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ ایک تو امام طحاویؒ کا ارشاد یہ ہے: أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول "کیا 'ہر' وہ چیز جو ابو حنیفہ نے کہی ہو میں کہوں گا؟"
یہ "کل" اور "ہر" یہ بتاتا ہے کہ "بعض" ایسی چیزیں بھی ہیں جن میں امام طحاویؒ ابو حنیفہؒ کے قول کو اختیار کرتے تھے۔ اور یہ عربی والا "بعض" ہے جس کا اطلاق بہت عام ہوتا ہے۔ امام طحاوی کتنی چیزوں میں ابو حنیفہؒ کے قول کو اختیار کرتے ہیں یہ شرح معانی الآثار اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ کم از کم نوے فیصد مسائل میں ابو حنیفہؒ کے قول کو اختیار کیا ہے امام طحاوی نے۔ پھر تقلید کے سر پر سینگ ہوتے ہیں کیا؟
دوسری بات یہ کہ امام طحاویؒ نے اپنے "نرے مقلد" ہونے کی نفی کی ہے نہ کہ مطلقا تقلید کی نفی کی ہے۔ اس کی وضاحت میں ترجمہ کے ذریعے کر چکا ہوں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مطلقا تقلید کی نفی کی ہے تو کریں ترجمہ اور ثابت کریں اپنی بات۔ امام طحاوی نے تو مطلقا تقلید کا ذکر ہی نہیں کیا۔
ابن جرثومہ نے کہا: میں آپ کو صرف مقلد ہی سمجھتا ہوں۔ (یعنی علم سے فیصلہ کرنے والا نہیں سمجھتا)
اس کی امام طحاوی نے آگے نفی کردی اور اس فعل کو (صرف مقلد ہونا اور علم سے فیصلہ یا غور و فکر نہ کرنا) عصی اور غبی کا فعل قرار دیا۔
اب اگر آپ کو مطلقا تقلید کی نفی نظر آ رہی ہے تو ہمیں بھی دکھائیے۔ البتہ اگر آپ نے بغیر دلیل اپنی پہلے والی بات دہرا دی اس بار تو میں مجبورا فورم کے قانون نمبر 1 پر عمل کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤں گا۔ آپ جانیں اور قاری جانے۔

بھائی جان! اسی لئے کہتا ہوں کہ علم الکلام نے لوگوں کی کلام کو سمجھنے کی مت مار دی ہے!
میں پہلے تو آپ کو وہ روایت پیش کرتا ہوں، جس کا آپ نے اشارہ کیا ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ، فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} [البقرة: 158]. فَمَا أُرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لاَ يَطَّوَّفَ بِهِمَا؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: " كَلَّا، لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، كَانَتْ: فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَطَّوَّفَ بِهِمَا، إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي الأَنْصَارِ، كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} [البقرة: 158] "
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ الْبَقَرَةِ » بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ}
ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ( ان دنوں میں نو عمر تھا ) کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ، صفااور مروہ بے شک اللہ کی یاد گار چیزوں میں سے ہیں ۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمد ورفت ( یعنی سعی ) کرے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا کہ ہرگز نہیں جیساکہ تمہارا خیال ہے ۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا ۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی ( اسلام سے پہلے ) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے ، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہواتھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ۔ ” صفا اور مروہ بے شک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں ، سوجوکوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان ( سعی ) کرے ۔ “

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} [البقرة: 158]، فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لاَ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، قَالَتْ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ، كَانَتْ: لاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَتَطَوَّفَ بِهِمَا، وَلَكِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي الأَنْصَارِ، كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ، الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَهَا عِنْدَ المُشَلَّلِ، فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا، سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [البقرة: 158]. الآيَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا»، ثُمَّ أَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ مَا كُنْتُ سَمِعْتُهُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ العِلْمِ يَذْكُرُونَ: أَنَّ النَّاسَ، - إِلَّا مَنْ ذَكَرَتْ عَائِشَةُ - مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ بِمَنَاةَ، كَانُوا يَطُوفُونَ كُلُّهُمْ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ فِي القُرْآنِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَطُوفُ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ وَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ فَلَمْ يَذْكُرِ الصَّفَا، فَهَلْ عَلَيْنَا مِنْ حَرَجٍ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [البقرة: 158] الآيَةَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: «فَأَسْمَعُ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي الفَرِيقَيْنِ كِلَيْهِمَا، فِي الَّذِينَ كَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْجَاهِلِيَّةِ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَالَّذِينَ يَطُوفُونَ ثُمَّ تَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بِهِمَا فِي الإِسْلاَمِ، مِنْ أَجْلِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الصَّفَا، حَتَّى ذَكَرَ ذَلِكَ، بَعْدَ مَا ذَكَرَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ»
صحيح البخاري » كِتَاب الْحَجِّ » سُورَةُ الْبَقَرَةِ » بَابُ وُجُوبِ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَجُعِلَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ
عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ( جو سورہ بقرہ میں ہے کہ ) ” صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میںسے ہیں۔ اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں “۔ قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہئیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہئیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے ! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا، “ ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں “ بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لئے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے۔، احرام باندھتے تھے۔ یہ لوگ جب ( زمانہ جاہلیت میں ) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا او رکہا کہ یا رسو ل اللہ ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخرآیت تک۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دوپہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لئے کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کردے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے اس کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمن سے کیا توانھوں نے فرمایا کہ میں نے تو یہ علمی بات اب تک نہیں سنی تھی، بلکہ میں نے بہت سے اصحاب علم سے تویہ سنا ہے کہ وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے لوگ ان لوگوں کے سواجن کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا جو مناۃ کے لئے احرام باندھتے تھے سب صفا مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے۔ اور اب اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر تو فرمایا لیکن صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا صفا مروہ کی سعی کرنے میں ہم پر کچھ گناہ ہوگا؟ تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ ” صفا مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں آخرآیت تک۔ “ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں سنتا ہوں کہ یہ آیت دونوں فرقوں کے باب میں اتری ہے یعنی اس فرقے کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف برا جانتا تھا اور اس کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پھر مسلمان ہونے کے بعد اس کا کرنا اس وجہ سے کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور صفا ومروہ کا نہیں کیا، برا سمجھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کے بعد ان کے طواف کا بھی ذکر فرمادیا۔

اشماریہ بھائی جان! آپ کا یہ کہنا کہ:
آپ کا کہنا، بالکل باطل ہے، کیونکہ اس کلام سے صفاو مروہ کا طواف یعنی سعی واجب نہ ہوتا، اور اسی بات کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ جب عروہ بن عبد اللہ بن زبیر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا کہ اس آیت إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح صفا ومروہ کا طواف یعنی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ صفا ومروہ کا طواف یعنی سعی نہ کرنے میں بھی حرج نہیں! اس پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نکیر کی اور بتلایا کہ اس صورت میں تو یہ کلام ہوتا! کہ لاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَتَطَوَّفَ بِهِمَا۔ مگر یہ کلام نہیں ہے! اور آپ فرماتے ہو کہ ہونا تو یہی چاہئے تھا، مگر صحابہ کے دلوں میں بتوں کی نفرت کی وجہ سے سعی کے بارے میں کھٹکا پیدا ہوا، تو فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا کے الفاظ کا نزول ہوا!
آپ کیا سعی کو واجب نہیں سمجھتے؟
اشماریہ بھائی! یہ ہوتا ہے اعتراض! اب میں بھی آپ کی طرح کے سوال اٹھا دیتا تو؟
اشماریہ بھائی! آپ بھی اس طرح اعتراض اور استدلال کا نقص بیان کیا کریں بھائی جان!
پہلی بات تو یہ بتائیں کہ یہ جو آپ علم الکلام کا نام لیتے ہیں تو اس کا یہاں کیا تعلق ہے؟ آپ کو معلوم بھی ہے کہ علم الکلام کس موضوع میں ہے اور اس میں کیا ہے؟

دوسری بات یہ کہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اتنی تفصیل بیان فرما دی۔ بہر صورت میرا مدعا یہ تھا کہ مقام کے لحاظ سے طرز کلام میں فرق ہوتا ہے جیسا کہ ام المومنین عائشہ رض نے حضرت عروہ رض کو ارشاد فرمایا کہ اگر تمہاری بات کو دیکھا جائے تو کلام یوں ہونا چاہیے تھا نہ کہ یوں۔ تو طرز کلام میں مقام کے لحاظ سے فرق ہوتا ہے اور ہمیں اس کا اعتبار کرنا ہوتا ہے۔ مدعا ثابت ہے تفصیل جو بھی ہو۔
ویسے میرا خیال ہے کہ یہ عروۃ بن الزبیر ہیں عروۃ بن عبد اللہ نہیں۔ دیکھ کر مطلع فرما دیجیے۔

آپ کو اس روایت سے آپ کے پیش کردہ نکتہ کا باطل ہونا بیان کر دیا ہے۔ اور یاد رہے کہ صفا ومروہ کا طواف یعنی سعی کے وجوب پر دلیل موجود ہے، جو اس معنی کو متعین کرتی ہے کہ یہ مفہوم مرا د نہیں لیا جا سکتا کہ صفا ومروہ کا طواف واجب نہیں!
آپ بھی امام طحاویؒ کے کلام سے دلیل پیش کردیں، تو ہم مان لیں گے! لیکن اس طرح کا استدلال تو قبول نہیٖں کیا سکتا کہ آپ اپنی اٹکل سے امام طحاوی کے کلام میں تخصیص پیدا کریں۔
اشماریہ بھائی! میں آپ پوری تحریر پر غور کرتا ہوں۔۔
اشماریہ بھائی! امام طحاویؒ کو مقلدین میں شمار کرنے، اور مقلدین کی اقسام کرنے کی تخلیق امام طحاویؒ کو کسی حنفی مقلد کا مجتہد فی المذہب اور کسی کا مجتہد فی المسائل قرار دے کر مقلد شمار کرنا یہ بعد کے مقلدین کی ہی تخلیق ہے، اس کی تفصیل اوپر گذری!
اس بات پر کلام ما قبل میں گزر چکا ہے۔
محدثین تو حدیث کی بھی تقسیمات کر ڈالیں، کسی کو صحیح کہیں اور کسی کو ضعیف تو بلادلیل قبول ہوں اور فقہاء اہل فقہ و اجتہاد کی تقسیم کریں تو قبول نہ ہوں اور تخلیق سمجھا جائے۔ آخر کیوں؟؟؟
بھائی جان! یہی تو اس جملہ کا لطیفہ ہے کہ ''شریعت سے ثابت'' تقلید مطلق کو ترک کرنے کا حکم؟ دے کی ''شریعت سے ثابت'' تقلید مطلق کو ممنوع قرار دے کر شرعی حکم سے روکا، اور یہ حکم بھی شرعی نہیں بلکہ انتظامی! اور صرف تقلید شخصی کہ جسے واجب قرار دے دیا ہے، اس کا حکم انتظامی تھا نہ کہ شرعی، لیکن اب دھڑلے سے اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ بھائی جان ! یہ بات سمجھ لیں، ایک شخص میں تقلید مطلق اور تقلید شخصی جمع نہیں ہو سکتی!
میرا خیال ہے اس بات کو ہم الگ تھریڈ میں بھی موضوع بحث بنا سکتے ہیں اور موجودہ باتوں کے ختم ہونے کے بعد بھی۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! افہام و تفہیم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کہ میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاؤں، اور کسی کی حکمت چین و حجت بنگال والی حجت حجت بازیوں کو سلجھانے بیٹھ جاؤں، اور آپ نے ایسی حجت بازی کی ہے، ان کے اقتباس بھی نقل کرتا ہوں، اور اگر آپ اتنے ہی افہام و تفہیم اور سمجھنے سمجھانے کے حوالہ سے گفتگو کرتے ، تو میاں آپ اشارہ نہیں کرتے آپ اسے بیان کرتے، کہ آپ کے استدلال میں فلاں نقص ہے، اور اسی کا مطالبہ ہم آپ سے کرتے رہے، کہ آپ اعتراض پیش کریں، کہ اپ کی بات میں، استدلال میں فلاں نقص ہے، مگر وہ آپ کرتے ہیں، کیونکہ معلوم ہے کہ اعتراض الٹا آپ کے گلے ہی پڑے گا۔ اسی طرح یہ کتابوں کے گواہ ہونے کے مسئلہ میں آپ نے خواہ مخواہ کی حجت بازی جاری رکھی، حتی کہ دارالعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی بتلایا دیا ، تو صاحب فرماتے ہیں کہ دلائل خصم کا مقام تو آخری ہے! اس کا جواب تو اسی مقام پر دیا جائے گا، بھائی صاحب متفق علیہ مسئلہ پر حجت بازی کرتے ہیں، اور ہمیں افہام و تفہیم کا درس دیتے ہیں۔ آپ کی حجت بازی کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
مگر اشماریہ صاحب! وہ کہتے ہیں نا کہ:
ہمیں کس ظرف کے کردار کے قصے سناتا ہے
تجھے اے دیوبند! جانتے ہیں ہم بھی اک زمانے سے

نہیں میرے بھائی! میرا مقصد آپ کو چپ کرانا نہیں، بلکہ قارئین کو حقیقت سے آشنا کرانا ہے! اور آپ کا خاموش ہونا،میرے مقصد کے حصول کے لئے مفید نہ ہوگا! بھائی جان ! اب کو ایک بات دہرا دہرا کر اس لئے بتلانا پڑتی ہے کہ آپ کو کلام سمجھ نہیں آتا، اور آپ اسے سمجھے بغیر اس پر اپنے سوالات کی عمارت کھڑی کر دیتے ہو، لہٰذا آپ کو بتلایا جاتا ہے کہ آپ نے جس فہم کی بنیاد پر یہ عمارت کھڑی کی ہے وہ ہی بھونڈی ہے!
آپ وہ قتباس پیش کریں، کہ جہاں میں نے آپ کا مؤقف غلط سمجھا ہے یا غلط بیان کیا ہے؟ آپ نے بہر حال یہ کام کیا ہے، اور مجھ سے یہ بات آپ نے ''ہدایہ'' کے حوالہ سے بھی منسوب کی، مگر جواب آپ کو علمائے دیوبند کے تراجم پیش کئے ، تو اب آپ اس سے کنی کترا رہے ہو! بھائی جان یہ وصف جو آپ نے بیان کیا ہے، کم از کم اس تھریڈ میں تو آپ میری تحریر میں نہیں بتلا سکتے، کہ میں نے آپ کی بات غلط سمجھی یا بیان کی، مگر آپ کی تحریر سے اس وصف کا ہونا اسی تھریڈ میں موجود ہے۔ اس کو یہاں ذکر بھی کردیا ہے، اور اگر مطالبہ کرو تو میں اقتباس بھی پیش کردوں! بلکہ وہ سند کی تحقیق سے سند سے مستغنی ہونے کے بیان میں گذر بھی چکی ہے!


بھائی جان! کتابوں کا گواہ ہونا ہم نے دارلعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی پیش کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے، اب اس پر پھر بھی آپ کی یہ حجت بازی، حکمت چین و حجت بنگال ہی ٹھہرے گی! دار العلوم دیوبند کے فتاوی نے آپ کی اس حجت بازی کو حکمت چین و حجت بنگال ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے!

اب میرا خیال ہے کہ ہم کسی باہر کے بندے کی مدد لے لیتے ہیں۔ کیوں کہ آپ میرے سوالات کو بھی بغیر جواب دیے حکمت چین و حجت بنگال قرار دیتے ہیں اور میں کسی بات کا سوالیہ انداز میں مکمل جواب دوں تو اس کو بھی یہی کہتے ہیں۔ حالاں کہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ آپ سوالات کو سیدھا سیدھا حل کر دیتے اور ان کے عام فہم جوابات دے دیتے لیکن نہ جانے ایسا کرنے سے آپ کو کیا چیز مانع ہے۔ تو اس طرح تو کام نہیں چل سکتا۔ میں پہلی بار تو بحث نہیں کر رہا کہ مجھے اس کا طریقہ نہ آتا ہو۔
@ابوالحسن علوی بطور علمی نگران
@خضر حیات بھائی

شماریہ بھائی! اب تک تو اپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کی باتیں آپ کے لئے ہی مضر ثابت ہوتی ہیں! لیکن آپ بھی باز نہیں آتے، تو خیر کوئی بات نہیں! ہم بھی ہر بار آپ کو اپ کا فہم سے عاجز ہونا یاد کرواتے جائیں گے!
اشماریہ بھائی! آپ کے علم میں ہوگا کہ آپ کے علماء تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے اپنا کم علم اور کج فہم ہونا بطور دلیل پیش کرتے رہیں کہ اس وجہ سے وہ تقلید کرتے ہیں! اور اب یہ مقلد لاچار و کج فہم، کسی دوسرے کے فہم پر سوال اٹھائے، یہ مقلد کو تو زیب نہیں دیتا! مقلد بااعتراف خود کج فہم ہوتا ہے! اور آپ کے اس جملہ میں بھی یہ مفہوم شامل ہے! بھائی جان! کچھ سوچ سمجھ کر تحریر کیا کریں!
اب دیکھیں نا میں کیا بات کر رہا ہوں آپ اس کو کس جانب لے جا رہے ہیں؟
میرے بھائی میں یہی تو عرض کر رہا ہوں کہ کم فہم ہوتے ہوئے انسان تقلید کرے تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر فہم بھی مکمل نہ ہو اور وہ تقلید بھی چھوڑ دے تو کہاں جائے گا؟ کیا کرے گا اور کیسے کرے گا؟
اب جب آپ بات کو پٹڑی سے بالکل ہی الٹ جانب لے جاتے ہیں تو ظاہر ہے میں بور ہو جاتا ہوں۔ میں اس طرح کی الٹی باتوں کے جوابات میں چار صفحے کیسے بھروں؟ اس کے بجائے کوئی مفید کام نہ کر لوں؟

اشماریہ بھائی! آپ بھی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آؤ گے! میاں جی! مصنف کی کتاب اس کے مؤقف پر شاہد ہے، اس کے فیصلہ پر شاہد ہے، اور اس نے کسی اور کے مؤقف کو درج کیا ہے ، تو مصنف کے ثقہ ہونے کی صورت میں، یا دوسری کتاب سے بیان ہونے، با سند صحیح بیان ہونے کی بنیاد پر، دوسرے کے مؤقف پر بھی گواہی ہے، یہ بات آپ کو متعدد بار اقتباس پیش کر کر کے بتلائی گئی ہے! مگر آپ ہو کہ بس، مرغے کی ایک ٹانگ!
میں نے جو اعتراضات پیش کیے تھے ان کے جوابات تو آپ نے پیش کیے نہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ اعتراض پیش کیا کریں۔
او میرے بھائی بات یہ چل رہی ہے کہ گواہ کی کتاب کی گواہی قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور وہ بھی کہاں! قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے سامنے (جس کی اپنی گھڑی ہوئی اسپیشل حیثیت بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکے)۔ اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں (ذات کے بارے میں۔ میں نے موقف کا ذکر نہیں کیا نہ اس کی بات چل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ناقل) گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟
@ابوالحسن علوی بھائی
@خضر حیات بھائی
مجھے ذرا آپ دونوں حضرات ہی بتا دیں کہ جب یہ ابن داود بھائی جواب نہیں دیں گے، وضاحت نہیں کریں گے، سوالات اور اعتراضات حل نہیں کریں گے، اعتراض کے لیے اپنا پسندیدہ طریقہ مجھ پر تھوپنے کی کوشش کریں گے تو بھلا میں بحث میں کیا کروں گا؟؟؟


مگر ہم بھی اس کا تریاق رکھتے ہیں؛ آپ کو مفتی محمد راشد ڈسکوی،استاذِ جامعہ فاروقیہ کراچی کا کلام ماہنامہ دار العلوم دیوبند سے پیش کرتے ہیں:
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے، ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“ اور ”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللّٰہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی  نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی  نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی  ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی  اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے ”لا یصح“ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة، ملتان)
(النخبة البہیّة في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)
ملاحظہ فرمائیں: تقبیل الابہامین سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء


رفع یدین کے سلسلے میں تقریباً ۳۵۰ صحیح احادیث آپ کے دوست کی نئی یافت ہے۔ آپ اگر باحوالہ اپنے دوست سے ان احادیث کو لکھوا کر بھیجیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ شوافع اور حنابلہ جو قائلین رفع میں سے ہیں، صحیح احادیث کے اس مخفی خزانے کا آج تک سراغ نہ لگاسکے۔ امام بیہقی نے رفع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ احادیث نقل کرنے کی کوشش کی تو کل ۳۰ /احادیث نقل کرسکے۔ جن میں سے نصف احادیث کے سلسلے میں امام بیہقی ہی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ قابل استدلال نہیں۔

ملاحظہ فرمائیں: فتوى: 354/ل = 354/ل، مورخہJul 28,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اشماریہ بھائی! دلیل تو ہم نے پیش کی ، مگر وہ آپ کے فہم پر پر حائل تقلیدی فلٹر کے سبب آپ کی فہم سے بالا تر رہی، اور آپ نے اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے، مگر آپ کو شاید یہ اندازہ نہیں تھاکہ ہم ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں، اور آپ کے دارالعلوم دیوبند سے کتب کے گواہ ہونے کا ثبوت پیش کیا، اور اب محدثین کا فیصلہ کرنے والے ہونے، کا ثبوت بھی پیش کر دیا! اب ممکن ہے کہ آپ یہاں یہ کہہ دو کہ یہاں تو ''فیصلہ'' کا لفظ ہے ''قاضی جیسی حثیت'' کا لفظ دکھلاؤ!

اور آپ کی کتب سے حجت قائم کرنے کا معاملہ اس لئے پیش آیا کہ آپ ایک متفق علیہ مسئلہ میں مستقل اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہو! آپ کو بتلایا بھی کہ بھائی! حکومتی قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق ہی سمجھ لیں! آپ اس پر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ فرق بھی آپ کو میں بتلاؤں! تو میاں جی! میں نے آپ کو عرض کردیا تھا کہ اس واسطے آپ کو اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لینا ہوگا! میں آپ کو یہاں اردو تو پڑھانے سے رہا!
بہر حال ، علمائے دیوبند نے کتب کو گواہ بھی قرار دیا ہے، اور محدثین کو قاضی بھی! جس کے ثبوت آپ کو پیش کر دیئے گئے۔
اشماریہ بھائی! ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ کسی بھی مسئلہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے قبل اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ گھوڑے کہیں اپنے ہی گھر کو نہ روند ڈالیں! ایک بار پھر عرض کرتا ہوں:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

اب مزید دیکھیے! کہتے ہیں "دلیل تو میں نے پیش کردی مگر آپ اٹکل کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔"
میرے بھائی اسی دلیل کے بارے میں تو کچھ چیزیں میں ثابت کرنے کا بار بار کہہ رہا ہوں لیکن آپ ہیں کہ ان کو چھیڑ ہی نہیں رہے۔ بار بار ٹرک کی بتی کا ذکر کر دیتے ہیں۔ نہ جانے اس سے کیا لگاؤ ہے۔

بہرحال میں اپنے جوابات کو یہاں موقوف کرتا ہوں اور انتظامیہ کے حضرات کا انتظار کرتا ہوں۔ تا کہ ایک بار یہ حل ہو جائے اور آپ ان باتوں کا سیدھا جواب دے دیں تو میں آگے بڑھوں اور اپنا وقت اور قوت بے فائدہ ضائع نہ کروں۔
کیوں کہ میں نے آگے بھی نظر ڈالی ہے تو میرے سوالات کے سیدھے اور عام فہم جواب (یا عام فہم جواب کی تعیین) کے بجائے آپ نے کاپی پیسٹ کا شاندار مظاہرہ کیا ہوا ہے۔ وہ تو اگر آپ کاپی نہ کرتے تب بھی میں نے پڑھ لیا تھا۔ مجھے سیدھا جواب چاہیے تھا اور وہ آپ نے دیا نہیں، نہ پہلے اور نہ اب۔ تو پہلے ذرا انتظامیہ اس بات کو حل کر لے پھر وہ بات ان کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! کیا آپ کا جواب یہاں ختم ہو گیا ہے یا جاری ہے؟
آپ نے یہاں موقوف کرنے کا کہہ دیا ہے، ٹھیک
اب میں آپ کی اب تک کی بات کا جواب لکھتا ہوں، پھر دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
@ابوالحسن علوی بھائی
@خضر حیات بھائی
پہلے میرے جواب کا انتظار کیجئے گا!
اشماریہ بھائی!
عمر گزری ہے اس دشت کی سیاہی میں!
 
Last edited:
Top