• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
میرے محترم یہ میں نے یہاں سے اخذ کر لیا!
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
یہ ساری باتیں آپ کی یاد دہانی کے لئے دوبارہ پیش کر کے آپ سے عرض کیا تھا کہ:
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟
آپ فرماتے ہو کہ یہاں سے:
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ کو راویوں کی تحقیق کو ذکر اور سند کا فرق معلوم ہے؟ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں سند ذکر کی ہے، اس میں موجود رایوں کی تحقیق وہاں رقم نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سند کی ہی کوئی حاجت نہیں! ہم نے یہاں سند سے متصل رایوں کی تحقق کے ذکر کے درج کے لزول کی نفی کی ہے، سند کی نہیں! اور اگر کسی نے مکمل سند بیان نہیں کی، تعلیقاً روایت کیا ہے، تو اس کی مکمل سند کے سامنے آجانے تک معلق احادیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی!! یا وہ کسی کتاب کا حوالہ ذکر کردے، کہ اس کی سند فلاں نے ذکر کی ہے!
اشماریہ بھائی! کراچی کے ہو مگر آپ نے ناک کٹوا دی! ہم نے کہا رایوں کی تحقیق لکھنا لازم نہیں ، آپ نے اس سے سند سے ہی جان خلاصی کر لی!!
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!
ایک بات تو یہ کہ لسان المیزان میں "انتہی" سے قبل کی عبارت علامہ ذہبی کی ہوتی ہے جو میزان الاعتدال سے ماخوذ ہوتی ہے۔ لہذا یہ علامہ ذہبی کا قول ہے ابن حجر کا نہیں۔
جی بھائی جان! یہ مجھے معلوم ہے، اور ابھی آگے جا کر آپ خود بھول جاؤ گے! یہی الفاظ میزان الاعتدال میں امام الذہبیؒ کے ہیں، جس سے امام ابن حجر العسقلانیؒ نے علق کیا ہے۔
ذہبی نے سب سے پہلے ان کے بارے میں کہا ہے: احد الفقہاء۔ یہ ان کے فقہ کی تصدیق ہے۔
اس کے بعد جرح ذکر کی ہے ان کے بارے میں صرف ان الفاظ سے لينه النسائي وغيره من قبل حفظه۔ یعنی بغیر کوئی لفظ ذکر کیے انتہائی کمزور و مختصر جرح۔
امام الذہبیؒ نے خود محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ضعیف قرار دیا، امام الذہبیؒ کی ديوان الضعفاء والمتروكين اور المغني في الضعفاء کا حوالہ اوپر گذرا!
حالانکہ انہی سے ذرا آگے محمد بن الحسن بن زبالہ المخزومی ہیں۔ ان کے بارے میں جب جرح ذکر کی ہے تو اس طرح کی ہے:
محمد بن الحسن بن زبالة المخزومي المدني.
عن مالك وذويه.
قال أبو داود: كذاب.
وقال يحيى: ليس بثقة.
وقال النسائي والازدى: متروك.
وقال أبو حاتم: واهى الحديث.
وقال الدارقطني وغيره: منكر الحديث.

اس طرز سے ذکر یہ بتاتا ہے ذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں۔
یہ آپ کے اٹکل ہیں کہ دوسرے راوی پر اتنی تفصیل بیان کی ہے، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر اتنی تفصیل بیان نہیں کی تو اس سے ثابت ہوا کہ امام الذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں!! اشماریہ بھائی! آپ ان اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے گریز کریں، امام الذہبی نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ديوان الضعفاء اور المغني في الضعفاء میں صراحتاً ضعیف قرار دیا ہے!
پھر آگے اپنا فیصلہ یوں فرمایا ہے: كان من بحور العلم والفقه۔ یہ امام محمدؒ کے علم و تفقہ میں اعلی درجہ کی توثیق ہے لیکن یہ درست ہے کہ یہ جملہ ذکاوت، علم اور تفقہ پر تو دلالت کرتا ہے لیکن ثقاہت پر دلالت نہیں کرتا۔
ایسی ''توثیق'' کی کچھ مثالیں عرض کی ہیں، کہ ایسی توثیق کے بعد امام الذہبیؒ نے رافضی بھی قرار دیا ہے، آگے ابن خراش کے حوالے سے ذکر آئے گا!!
اس لیے اگلا جملہ ارشاد فرمایا ہے: قويا في مالك۔ ایک شخص ایک طرف تو کذاب ہو، دنیا بھر پر جھوٹ باندھے، اس کی احادیث مقبول نہ ہوں اور دوسری طرف وہ امام مالک سے روایت میں مقبول نہیں بلکہ قوی ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟
بلکل جناب ! یہ ممکن ہے! آپ کو سمجھنے میں مسئلہ یوں ہو رہا ہے کہ آپ کے خیال میں یہاں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے روایات میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ، فی نفسہ ثقہ ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ تحقیق یہ بتلاتی ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات درست ہیں، لہٰذا یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات میں وہ قوی ہیں، وگرنہ فی نفسہ ضعیف ہیں!
اور جو وجہ آپ نے بیان کی کہ امام مالک سے ان کی روایات دوسرے طرق سے ثابت ہوتی ہیں اس لیے یہ قبول ہیں تو یہ تو صریح البطلان ہے اور اس کو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ کسی کذاب راوی کو صرف اس بنا پر قبول کر لیا جائے کہ اس کی بعض روایات دوسرے طرق سے ثابت ہیں۔
بھائی جان! یہ آپ کو کس نے کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار دیا ہے ، کیونکہ امام مالکؒ سے ان کی روایات ثابت ہیں! بالکل جناب ایسا کچھ نہیں! محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام الذہبیؒ نے مقبول قرار نہیں دیا۔
اشماریہ بھائی! دراصل علم الکلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کی کلام کو سمجھنے کی مت ماری جاتی ہے! مجھے تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ نظر آرہا ہے۔
محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام مالکؒ کی روایت میں قوی قرار دینے کا معنی یہ نہیں کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ مقبول راوی ہیں، اور ان کی روایات مقبول قرار پاتی ہیں، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالک سے روایت درست قرار پائیں ہیں، کیونکہ جب محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی روایات کی تحقیق کی گئی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ ان کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات ثقہ راویوں سے بھی موجود ہے۔ یہ بس اتنی خبر ہے ، اس سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار نہیں دیا گیا!
اس پر تفصيلاً اوپر بحث گذر چکی ہے!
آگے آپ نے فرمایا کہ لسان المیزان میں ان پر اور بھی جرح موجود ہیں۔ تو ظاہر ہے میں نے جب وہاں سے حوالہ دیا ہے تو وہ پڑھی بھی ہوں گی۔ وہ تمام جروحات معلول ہیں اسی وجہ سے ذہبی نے انہیں قبول نہیں کیا۔
ایں خیال است و محال است و جنوں!
امام الذہبی ؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر مختصراً جرح بیان کر کے انہیں ضعیف قرار دے دیا، اور امام الذہبیؒ کا جروحات کے عدم ذکر سے، امام الذہبیؒ کا ان جرح کو رد کرنا لازم نہیں آتا!
اشماریہ بھائی ! بہت خوب! بہت ہی اعلیٰ!
اوپر قاضی ابو یوسفؒ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ '' تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا''
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ لسان المیزان امام الذہبی ؒ کی نہیں بلکہ امام ابن حجر العسقلانی ؒ کی کتاب ہے، اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ تو امام الذہبیؒ کے کافی بعد پیدا ہوئے ہیں، اب یہ کہنا کہ لسان المیزان میں حوالہ دیا ہے تو پڑھی بھی ہونگی، تو وہ تمام جروحات معلول ہیں تو اسی وجہ سے امام الذہبی ؒ نے قبول نہیں کیا! بھائی جان ایسا کچھ نہیں! نہ لسان الميزان امام الذہبیؒ کی کتاب ہے، نہ امام الذہبیؒ نے اسے معلول ٹھہرایا ہے اور نہ ان جروحات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے!
ابن حجر نے اپنا فیصلہ یہاں تحریر نہیں کیا
بالکل غلط! امام ابن حجر العسقلانی ؒنے لسان میزان میں اپنا فیصلہ بھی نقل کیا ہے۔ اور وہ وہی ہے جو امام الذہبی ؒ کا ہے، کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ ضعیف راوی ہیں، ان کی امام مالکؒ سے روایات، قوی ہیں، اور امام مالکؒ سے روایات کے قوی ہونے کا مطلب آپ کو بتلا دیا گیا ہے، او امام ابن حجر العسقلانی ؒ نے دیگر جراح بھی ذکر کیں اور کسی کا بھی رد نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ علق کیا ہے۔ فتدبر!
لیکن الإیثار فی معرفۃ رواۃ الآثار میں امام محمدؒ کا نام اس طرح ادب سے لفظ "الامام" اور کنیت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
فَإِن بعض الإخوان التمس مني الْكَلَام على رُوَاة كتاب الْآثَار للْإِمَام أبي عبد الله مُحَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ الَّتِي رَوَاهَا عَن الإِمَام أبي حنيفَة فأجبته إِلَى ذَلِك مسارعا ووقفت عِنْد مَا اقترح طَائِعا
ماشاء اللہ! اشماریہ بھائی! لفظ'' امام ''سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی توثیق کشید کرنے لگے ہیں! اور کنیت کے ذکرکرنے سے توثیق کشید کرنے میں تو کمال ہی کردیا بھائی نے۔
واضح رہے کہ اوپر آپ نے ایک راوی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ "الحافظ" اور "الامام" تعدیل نہیں ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دونوں الفاظ انتہائی اہم معانی رکھتے ہیں۔ الحافظ سے مراد حافظ حدیث ہوتا ہے اور الامام مقتدی کو کہتے ہیں۔ ایک جانب کسی کو الامام کہہ کر مقتدی کہیں اور دوسری جانب یہ کہیں کہ یہ مجروح ہے؟ چہ معنی دارد۔ پھر الامام کا لقب کیوں لائے تھے؟
بھائی جان! آپ کو بحوالہ بتلایا گیا تھا کہ ''امام'' اور ''حافظ'' وغیرہ کے الفاظ سے توثیق لازم نہیں آتی، مگر پھر بھی آپ اپنی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آتے!
نیز اگر ابن حجر کے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی پر جروحات قبول ہوتیں تو واضح فرما دیتے کہ راوی اصل ہی ضعیف بلکہ کذاب ہے۔ آگے رواۃ کا کیا ذکر کروں؟؟ لیکن یہ نہیں فرمایا بلکہ اپنے شوق کا اظہار فرمایا کہ میں نے جلدی سے اس کام کو قبول کیا۔
عمر بن ہارون پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے نہ ان پر میری کوئی تحقیق ہے لیکن عرض کرتا چلوں کہ وہاں الفاظ ہیں: علی ضعف فیہ۔ اور ضعف کی تنوین تقلیل کے لیے ہے جیسے کہ سباق کلام سے ظاہر ہے۔ معنی ہوا: وہ اپنے میں تھوڑے سے ضعف کے باوجود حافظ الحدیث، امام، مکثر وغیرہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ ایک شخص میں یہ تمام صفات ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت ضعف ہونا ممکن ہے۔ کوئی انسان بھی کامل نہیں ہوتا۔ جب امام بخاری تدلیس کر سکتے ہیں (چاہے بعد میں آنے والوں نے لاکھ توجیہات کی ہوں) تو یہاں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جب ضعف کثیر ہو، جب حافظہ کمزوری کی حد کو پہنچ جائے، اور جب انسان کی غلطیاں کثیر ہو جائیں تو اس وقت انسان حافظ کے درجے پر نہیں رہتا۔
اشماریہ بھائی! اس اٹکل لڑانے سے قبل آپ اگر ہمارے پیش کردہ حوالہ کو بغور پڑھ لیتے تو بہتر تھا، وہاں آگے امام الذہبی ؒ نے فرمایا ہے:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن

عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافط'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!

اور ہمارے اشماریہ بھائی! اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں!!
اشماریہ بھائی! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے تقريب التهذيب عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:
ابن خِراش: الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية

اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي.

میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت

جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!
امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام'' کہا ''رحمه اللہ'' کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان'' وہ '' النعمان'' نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی آپ نے یہ جو فرمایا ہے:
جب امام بخاری تدلیس کر سکتے ہیں (چاہے بعد میں آنے والوں نے لاکھ توجیہات کی ہوں) تو یہاں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
آپ یہ تو نہیں سمجھے تھے کہ آپ کی اس بات کا جواب نہیں دیا جائے گا، اگر ایسی بات ہے تو آپ کا اندیشہ غلط تھا!
آپ نے اس پر کوئی دلیل پیش نہیں کی، اور تا قیامت امام بخاریؒ پر اس الزام کو ثابت نہیں کر سکتے، الزام و تہمت لگانے میں مقلدین حنفیہ دیوبندیہ سے کوئی بعید نہیں ، انہوں نے تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مدلس قرار دیا ہے، اس وقت وہ کتاب مجھے میسر نہیں، لہذا میں وہ عبارت پیش نہیں کر رہا۔ لیکن میں آپ کو آپ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کا تدلیس سے بھی بہت بڑا کارنامہ بتلا دیتا ہوں:
فَأَما رِوَايَة أبي سِنَان عَن عَلْقَمَة فِي متن هَذَا الحَدِيث اذ قَالَ فِيهِ ان جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام حَيْثُ قَالَ جِئْت أَسأَلك عَن شرائع الاسلام فَهَذِهِ زِيَادَة مُخْتَلفَة لَيست من الْحُرُوف بسبيل وانما أَدخل هَذَا الْحَرْف فِي رِوَايَة هَذَا الحَدِيث شرذمة زِيَادَة فِي الْحَرْف مثل ضرب النُّعْمَان بن ثَابت وَسَعِيد بن سِنَان وَمن يجاري الارجاء نَحْوهمَا وانما أَرَادوا بذلك تصويبا فِي قَوْله فِي الايمان وتعقيد الارجاء ذَلِك مَا لم يزدْ قَوْلهم الا وَهنا وَعَن الْحق الا بعدا اذ زادوا فِي رِوَايَة الاخبار مَا كفى بِأَهْل الْعلم وَالدَّلِيل على مَا قُلْنَا من ادخالهم الزِّيَادَة فِي هَذَا الْخَبَر أَن عَطاء بن السَّائِب وسُفْيَان روياه عَن عَلْقَمَة فَقَالَا قَالَ يَا رَسُول الله مَا الاسلام وعَلى ذَلِك رِوَايَة النَّاس بعد مثل سُلَيْمَان ومطر وكهمس ومحارب وَعُثْمَان وحسين بن حسن وَغَيرهم من الْحفاظ كلهم يَحْكِي فِي رِوَايَته أَن جِبْرِيل عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ يَا مُحَمَّد مَا الاسلام وَلم يقل مَا شرائع الاسلام كَمَا رَوَت المرجئة
ابی سنان کی علقمہ سے روایت کے متن میں کہا گیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے یہ کہا کہ میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ سے شرائع الاسلام کے متعلق سوال کروں، تو یہ ’’ شرائع ‘‘کے لفظ کی زیادتی ’’ خود ساختہ ‘‘ ہے۔ ان الفاظ کا کوئی (ثقہ روات سے کوئی ثبوت ) نہیں۔ اس زیادہ شدہ لفظ کو اس حدیث کی روایت میں ایک مختصر جماعت نے داخل کیا ہے، جیسے نعمان بن ثابت اور سعید بن سنان اور جو ارجاء کے قائل ہیں، انہوں نے ایمان کے متعلق اپنے قول اور ارجاء کے عقیدے کے کو صحیح ثابت کرنے ارادے سے اسے بیان کیا ہے۔ جبکہ اس سے بھی کچھ نہیں ہوگا سوائے کہ ان کا قول مزید کمزور ہوگا، اس کے روایت میں اس لفظ کا اضافہ کرنے کی بعد بھی۔(شرائع کے لفظ کی زیادتی )، جیساکہ ہم نے کہا، خود ساختہ ہے،اہل علم و دلیل کے پاس اس بات کا خاطر خواہ ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث میںجو عطاء بن السائب اور سفیان نے علقمہ کے واسطے سے روایت کی ہے دونوں نے(اس میں جبریل کا قول یہ نقل کیا ) کہ '' اے اللہ کے رسول ، اسلام کیا ہے،اور اسی کو لوگوں نے آگے روایت کیا، جیسے سلیمان، مطر، کھمس محارب، عثمان، اور حسین بن حسن وغیرہ نے ، جو حفاظ میں سے تھے۔ ان تمام کہ تمام نے اپنی روایات میں یہی بیان کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد ! اسلام کیا ہے؛ یہ نہیں کہا کہ شرئع الاسلام کیا ہے ، جیسا کہ مرجئہ روایت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 199 – 200 جلد 01 التمييز – امام مسلم بن الحجاج - وزارة المعارف السعودية

لیجئے جناب! ہم تو ابھی محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر بحث کر رہے تھے، مگر اشماریہ صاحب کی'' شرارت'' کی وجہ سے اب تو ''امام اعظم صاحب'' کا بھی ذکر خیر آنکلا ہے! اور یہ ''امام اعظم'' صاحب تو نہ صرف مرجئی نکلے، بلکہ اپنے ارجاء کی تائید میں حدیث میں تحریف کرکے پھیلانے والے بھی!
اشماریہ صاحب ! اب آپ اپنے امام صاحب کی آپ کے ہاں جو روایات ہیں، انہیں دیکھئے، آپ کو حدیث جبریل میں ''شرائع الاسلام '' کے محرف الفاظ نظر آئیں گے!!
چلیں دو روایات ہم ہی یہاں رقم کر دیتے ہیں، باقی مزید درکار ہوں تا حکم کیجئے گا!
عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمُرَ ، قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا مَعَ صَاحِبٍ لِي بِمَدِينَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَ بَصُرْنَا بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، فَقُلْتُ لِصَاحِبِي : هَلْ لَكَ أَنْ نَأْتِيَهُ ، فَنَسْأَلَهُ عَنِ الْقَدَرِ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قُلْتُ : دَعْنِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا الَّذِي أَسْأَلُهُ ، فَإِنِّي أَعْرَفُ بِهِ مِنْكَ . قَالَ : فَانْتَهَيْنَا إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ ، وَقَعَدْنَا إِلَيْهِ ، فَقُلْتُ لَهُ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إِنَّا نَتَقَلَّبُ فِي هَذِهِ الْأَرْضِ ، فَرُبَّمَا قَدِمْنَا الْبَلْدَةَ بِهَا قَوْمٌ يَقُولُونَ : لَا قَدَرَ ، فَبِمَا نَرُدُّ عَلَيْهِمْ ؟ فَقَالَ : أَبْلِغْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيءٌ ، وَلَوْ أَنِّي وَجَدْتُ أَعْوَانًا لَجَاهَدْتُهُمْ ، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا ، قَالَ : " بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَعَهُ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ ، إِذْ أَقْبَلَ شَابٌّ جَمِيلٌ ، أَبْيَضُ ، حَسَنُ اللَّمَّةِ ، طَيِّبُ الرِّيحِ ، عَلَيْهِ ثِيَابٌ بِيضٌ ، فَقَالَ : السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ ، قَالَ : فَرَدَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَرَدَدْنَا مَعَهُ ، فَقَالَ : أَدْنُو يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : ادْنُ ، فَدَنَا دَنْوَةً ، أَوْ دَنْوَتَيْنِ ، ثُمَّ قَامَ مُوَقِّرًا لَهُ ، ثُمَّ قَالَ : أَدْنُو يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَالَ : ادْنُهْ ، فَدَنَا حَتَّى أَلْصَقَ رُكْبَتَيْهِ بِرُكْبَتَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ ، فَقَالَ : الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ ، وَمَلَائِكَتِهِ ، وَكُتُبِهِ ، وَرُسُلِهِ ، وَلِقَائِهِ ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ مِنَ اللَّهِ . قَالَ : صَدَقْتَ ، قَالَ : فَعَجِبْنَا مِنْ تَصْدِيقِهِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَوْلِهِ : صَدَقْتَ ، كَأَنَّهُ يَعْلَمُ . قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنْ شَرَائِعِ الْإِسْلَامِ مَا هِيَ ؟ قَالَ : إِقَامُ الصَّلَاةِ ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ ، وَحَجُّ الْبَيْتِ ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ ، وَالِاغْتِسَالُ مِنَ الْجَنَابَةِ ، قَالَ : صَدَقَتَ ، فَعَجِبْنَا لِقَوْلِهِ : صَدَقْتَ ، قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ مَا هُوَ ؟ قَالَ : الْإِحْسَانُ أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ ، قَالَ : فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ ، فَأَنَا مُحْسِنٌ ؟ قَالَ : نَعَمْ ، قَالَ : صَدَقْتَ ، قَالَ : فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ ، مَتَى هِيَ ؟ ، قَالَ : مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ ، وَلَكِنْ لَهَا أَشْرَاطٌ ، فَقَالَ : إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34 . قَالَ : صَدَقْتَ ، وَانْصَرَفَ وَنَحْنُ نَرَاهُ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَيَّ بِالرَّجُلِ ، فَقُمْنَا عَلَى أَثَرِهِ فَمَا نَدْرِي أَيْنَ تَوَجَّهَ ، وَلَا رَأَيْنَا شَيْئًا ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : هَذَا جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ ، وَاللَّهِ مَا أَتَانِي فِي صُورَةٍ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُهُ فِيهَا ، إِلَّا هَذِهِ الصُّورَةَ " .
مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْقَدَرِ وَالشَّفَاعَة

عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صُورَةِ شَابٍّ عَلَيْهِ ثِيَابٌ بِيضٌ ، فَقَالَ : السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَعَلَيْكَ السَّلَامُ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْنُو ؟ فَقَالَ : ادْنُهْ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا الْإِيمَانُ ؟ قَالَ : الْإِيمَانُ بِاللَّهِ ، وَمَلَائِكَتِهِ ، وَكُتُبِهِ ، وَرُسُلِهِ ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ . قَالَ : صَدَقْتَ ، فَعَجِبْنَا لِقَوْلِهِ : صَدَقْتَ ، كَأَنَّهُ يَدْرِي ! ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، فَمَا شَرَائِعُ الْإِسْلَامِ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِقَامُ الصَّلَاةِ ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ ، وَغُسْلُ الْجَنَابَةِ . قَالَ : صَدَقْتَ ، فَعَجْبِنَا لِقَوْلِهِ : صَدَقْتَ ، كَأَنَّهُ يَدْرِي ! ثُمَّ قَالَ : فَمَا الْإِحْسَانُ ؟ قَالَ : أَنْ تَعْمَلَ لِلَّهِ كَأَنَّكَ تَرَاهُ ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ . قَالَ : صَدَقْتَ . قَالَ : فَمَتَى قِيَامُ السَّاعَةِ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ . فَقَفَّى ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : عَلَيَّ بِالرَّجُلِ ، فَطَلَبْنَاهُ ، فَلَمْ نَرَ لَهُ أَثَرًا ، فَأَخْبَرْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : ذَلِكَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ ، جَاءَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ " .
مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي » كِتَابُ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْقَدَرِ وَالشَّفَاعَة ...


ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے
صاحب! اگر رکھتے خبر پہلے

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک چیز ابھی دوران مطالعہ اور نظر آئی کہ اسی الایثار میں ابن حجر نے امام محمد کا ذکر بطور راوی کے بھی کیا ہے۔ وہاں الفاظ یہ ہیں:
وَقَالَ ابْن الْمُنْذر سَمِعت الْمُزنِيّ يَقُول سَمِعت الشَّافِعِي يَقُول مَا رَأَيْت سمينا أخف روحا من مُحَمَّد بن الْحسن
حمل جمل من الْعلم
قَالَ عبد الله بن عَليّ بن الْمَدِينِيّ عَن أَبِيه صَدُوق
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيّ لَا يتْرك
وَتكلم فِيهِ يحيى ابْن معِين فِيمَا حَكَاهُ مُعَاوِيَة بن صَالح
وعظمه أَحْمد وَالشَّافِعِيّ قبله
وَكَانَ من أَفْرَاد الدَّهْر فِي الذكاء

یہاں ان ساری جروحات کو ابن حجر نے بھی چھوڑ دیا جو لسان المیزان میں لکھی تھیں۔ صرف ابن معین کا ذکر کیا اور وہ بھی وضاحت سے نہیں بلکہ تکلم فیہ کے الفاظ سے۔ (شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ابن معین ایک تو متشدد ہیں اور دوسرے امام محمد کے ہم عصر بھی۔ اور اقران کی جروح کے قبول نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ مشہور ہے۔)
اور یہاں ایک چیز اور بھی ذکر کی ہے عظمه أَحْمد۔ احمد نے ان کی تعظیم کی ہے (معنی یقینا تعظیم ہی ہے کیوں کہ آگے شافعی کا ذکر اس کے ساتھ ہی ہے اور شافعیؒ سے ان پر کوئی جرح ثابت نہیں ہے)۔ جبکہ آپ کہتے ہیں کہ امام احمد نے اصحاب ابی حنیفہ کی مذمت کی ہے تو ظاہر ہے کہ ابن حجر کے نزدیک باوجود احمد کی جروحات کے سامنے ہونے کے ایسا نہیں ہے۔
اشماریہ بھائی! امید ہے کہ اوپر جو کچھ بیان ہوا ہے اس کے بعد آپ اٹکل دوڑانا چھوڑ دو گے! آپ کا یہ کہنا کہ امام شافعیؒ سے ان پر کوئی جرح ثابت نہیں، وہ تو اوپر تفصیلاً بیان ہو گیا، اسی میں امام الشافعیؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی عظمت اور ذکاوت کا کمال بیان کر دیا ہے۔ اور امام احمد بن حنبلؒ کی جرح کے متعلق بھی مفصل کلام اوپر گذرا!
ابن حجر العسقلانی ؒ نے یہاں تکلم فیہ کہہ کر اشاریہ کردیا ہے، تفصیل امام ابن حجر العسقلانی ؒ نے لسان المیزان میں بیان کردی ہے!
آپ کا شاید! بس اس شاید سے زیادہ کچھ نہیں! اب اس شاید کی بنیاد پر تو جرح رفع نہیں ہو سکتی بھائی!
جو بھی بچھڑے ہیں کب ملیں ہیں فراز
پھر بھی تو انتظار کر شاید
آپ نے اس پر ایک بار پھر ایک ایسی بات کر دی جس کی تک نہیں ہے؟ جب ایک اصول ہے جو قضاۃ کے درمیان جاری رہا ہے تو اس پر چلیے۔ جب ایک ہیڈماسٹر جو صرف آپ کے کاغذات اٹیسٹ کرتا ہے اس کی تصدیق بھی بغیر مہر کے قبول نہیں ہوتی تو ایک قاضی کی گواہی کیسے قبول ہو جاتی ہے؟ تاریخ میں کتنی کتابیں ہیں جن کی نسبت غلط مصنفین کی طرف کی گئی ہے! حتی کہ امام شافعیؒ کی جانب پورا سفرنامہ کر دیا گیا ہے۔ اگر آپ کے خیال میں البانی کی کتاب کی حیثیت "قاضی" کی کتاب کی ہے تو اسے اتنی اہمیت تو دیجیے۔
معذرت چاہتا ہوں! آپ صرف حدیث مبارکہ پیش کرکے بضد ہیں کہ دلیل پیش ہو گئی۔ ایسے نہیں ہوتا۔ میں نے عرض کیا ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!
سچ بات یہ ہے کہ میرا یہ خیال تھا کہ یہ ترجمہ آپ کا نہیں کسی اور کا کیا ہوا ہے اس لیے اسے ڈنڈی کہا تھا۔ اگر آپ کا سمجھتا تو اسے غلطی کہتا۔
جزاک اللہ!
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا

آپ نے جو حوالہ تلویح کا پیش کیا ہے تو وہ تو درست ہے لیکن اس سے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں؟
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!
ذرا تحمل سے مطالعہ فرمائیں! وہاں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ تلویح کے حوالہ سے کس بات کا اثبات کیا گیا ہے!
میری سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ کو میرے ابتسامہ سے چڑ کیا ہے؟ میں تو اسے بر محل جان رہا ہوں نا۔ آپ سے کس نے پوچھا ہے کہ یہ بر محل ہے یا بے محل؟
آپ تو ناراض ہوگئے، نہیں جناب اللہ اپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے، مگر اس کا خیال رکھیں کہ:
میں مسکرایا تو کیا کرو گے!!
آپ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ کس کی کی ہوئی تعریف مانتے ہیں؟ وہ تعریف یہاں کر دیجیے۔
بھائی جان! اصطلاحات کی متعدد تعریفات، مختلف تناظر میں کی جاتی ہیں! میں کیوں خواہ مخواہ اب ایک نئے مسئلہ میں الجھوں! اشماریہ بھائی! میں نے آپ کو پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میں ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے والا نہیں ہوں!
آپ کو واضح جواب دینے میں کوئی مسئلہ ہے؟ قارئین بھی دیکھتے ہوں گے کہ یہ بندہ ہر سوال کا جواب گھما کر کیوں دیتا ہے!
اس کا واضح اور سیدھا سا جواب دے دیجیے:
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!
اشماریہ بھائی! بلکل یہ بات آپ نے بہت اچھی کہی کہ قارئین بھی دیکھتے ہون گے، لہٰذا میں قارئین کو اپنے طرز کی دلیل بھی بیان کردیتا ہوں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ ، وَلَا هَامَةَ " ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا ، فَقَالَ : فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَسِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحو ست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ کہ یا رسول اللہ ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہوگیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہر نوں کی طرح ( صاف اور خوب چکنے ) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آجاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی ؟
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب لَا صَفَرَ وَهُوَ دَاءٌ يَأْخُذُ الْبَطْنَ
میں نے دلیل تو بیان کردی، مگر اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اشماریہ بھائی مجھ پر یہ الزام نہ لگا بیٹھیں کہ یہ عمل تو آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، آپ یہ کیسے کر رہے ہیں! اور پھر اشماریہ بھائی نے مجھ سے اس حدیث کی دلالت پر سوال اٹھانے شروع کردیئے کہ وہ تو اونٹ کے متعلق سوال تھا، حدیث پر عمل کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اونٹ پالو! وغیرہ وغیرہ!
لیکن الحمدللہ! میری بچت یوں ہو گئی کہ میں نے یہ دلیل قارئین کے لئے بیان کی ہے! وگرنہ اشماریہ بھائی نے تو مجھے ۔۔۔۔ باقی قارئین سمجھدار ہیں!

میرے محترم!
جناب محترم @طاہر اسلامبھائی نے اس جملے کی جانب اشارہ فرمایا تھا تو میں نے اس کا جواب عرض کیا تھا:
ویسے اس مسئلہ پر میں اور بھی بحث کر چکا ہوں۔ دل چاہے تو سرچ کر لیجیے اور وہاں میرا رد بھی فرما دیجیے۔ اس مقام پر میں نے ابن تیمیہؒ کے حوالے سے بھی غالبا کافی کچھ عرض کیا تھا۔
جی میں نے یہ اسی جگہ پڑھا بھی تھا، وہاں آپ نے کچھ حد تک اچھی بات کہی تھی، لیکن پھر بھی کچھ حد تک، اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ جب کوئی شخص جس سے میں اختلاف بھی رکھتا ہوں کوئی اچھی بات کہے تو اس کی کو زچ کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، لہٰذا میں نے اسی کو بہتر جانا کہ چلو کم از کم جامد تقلید کو تو اشماریہ بھائی نے مذموم ٹھہرا دیا، لہٰذا باقی ان کے لئے دعا کی جائے!
اشماریہ بھائی، معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ نے جس خیال پر مجھے ڈاکڑ کے پاس جانے کا مشورہ دیا تھا، اسی کو محمود الحسن دیوبندی صاحب واجب قرار دے رہے ہیں! آپ نے اس پر تبصرہ نہیں کیا، کوئی بات نہیں! کیونکہ یہ ہمارا کوئی مناظرہ تو ہو نہیں رہا، ہاں اگر مناطرہ ہوتا تب تو میں نے آپ کو اسی پر باندھ کر رکھنا تھا! ہم نے بہر حال آپ کو بتلا دیا ہے، باقی اس کا جواب اگر آپ دینا چاہیں تو خود دیں، اور اگر ماضی ميں آپ نے اس پر کچھ کلام کیا ہے تو آپ خود تلاش کر کے پیش کر دیں!
میرے محترم بهائی جان! یہ سیاق و سباق کو دیکھے بغیر اقتباس دینے کی عادت جناب میں کہاں سے آگئی؟؟؟
جناب عالی! دبوسیؒ نے یہاں حجج مضلہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ان چیزوں کا جنہیں مناظرہ میں بطور دلیل کے پیش کیا جائے اور وہ گمراہ کریں۔
جیسے میں مناظرہ کے دوران آپ کو کہوں کہ آپ فلاں چیز پر دلیل بیان کریں اور آپ کہیں کہ بس فلاں نے کہا ہے اور فلاں کا کہنا میرے لیے دلیل ہے، تم بھی مانو۔ تو ایسی تقلید اور ایسے الہام کے پیش کرنے کا ذکر دبوسیؒ نے یہاں کیا ہے۔ اور جناب نے یہ تقلید کے کرنے پر لا چسپاں کیا!
دبوسیؒ نے اس سے پہلے یہ عنوان قائم کیا ہے:
القول في أسماء الحجج التي هي مضلة
هذه الأسماء أربعة: التقليد، ثم الإلهام، ثم استصحاب الحال، ثم الطرد.

پھر آگے طویل بحث کی ہے۔ پھر آپ کے ذکر کردہ جملوں سے پہلے قول بالتقلید کرنے والے سے مناظرہ کرنے کا طریقہ سکھایا ہے:
ولأنا نقول للمقلد: إنك مبطل فقلدني لأني عاقل، فإن قلدك فقد رجع عن مذهبه وأقر أنه مبطل، وإن لم يقلدك فقد رجع عن حجته لأنه لما لم يقلدك فقد زعم أن التقليد باطل.
ولأنا نقول له: أتقلد إمامك على أنه محق أم على أنه مبطل، أم على أنك جاهل بحاله؟
فإن قال على أنه مبطل، أو على أني جاهل بحاله لم يناظر لأنه ممن لم يميز الحق من الباطل فيكون مجنونا، أو ممن زعم أن الباطل متبع فيكون سفيها.
فيبقى قوله على أني أتبعه على أنه محق وقط لا يعرف المحق من غيره بنفس الخبر.
فالمقلد في حاصل أمره ملحق نفسه بالبهائم في إتباع الأولاد الأمهات على مناهجها بلا تمييز فإن ألحق نفسه بها لفقده آلة التمييز فمعذور فيداوى ولا يناظر، وإن ألحقه بها ومعه آلة التمييز فالسيف أولى به حتى يقبل على الآلة فيستعملها ويجيب خطاب الله تعالى المفترض طاعته.

اور جسے میں نے ہائیلائٹ کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے "تو وہ معذور ہے سو اس کا علاج کیا جائے گا اور 'اس سے مناظرہ نہیں کیا جائے گا'"۔
اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ حشویہ کا مخصوص مذہب ہے جس کا دبوسی نے رد کیا ہے اور رد سے پہلے ان کا مذہب بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمؑ کی تقلید و اتباع واجب تھی اس لیے جو ان کے بعد آتے جائیں گے ان کی تقلید بھی واجب ہے۔ ذرا سا عقل سے کام لیجیے تو اس تقلید کا کون قائل ہے ہم میں سے؟؟ کیا ہم قابیل کی تقلید کرتے ہیں؟
اس ساری بحث کو آپ نے عامی کی تقلید پر منطبق کر دیا اور دبوسیؒ کا حشویہ کے پیروکار کے بارے میں موجود حکم یہاں لا فٹ کیا۔
اشماریہ بھائی! اللہ کی توفیق سے میں کوئی بھی حوالہ سیاق و سباق کے بغیر دیکھے بغیر پیش نہیں کرتا، خواہ وہ کسی اہل الحدیث عالم کی کتاب میں بھی پڑھا ہو! کیونکہ جب میں کوئی حوالہ پیش کروں گا تو اس پر جو تمہید اور نقد لکھوں گا، تو مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اس عبارت کا سیاق کیا ہے؟ ان امور میں آپ مجھے بہت پکا دیکھو گے، ان شاء اللہ! اللہ کی توفیق سے۔
بھائی جان! میں نے کب کہا کہ آپ حشویہ کی تقلید کرتے ہو، یا قابیل کی تقلید کرتے ہو! یا کسی شیعہ مرجع کی تقلید کرتے ہو!
مگر بھائی جان! گو کہ یہ سب تقلید الگ الگ کی کرتے ہیں، مگر نفس تقلید میں تو یہ ایک دوسرے کے بھائی ہوئے نا! مقلد شیعہ بھی، مقلد بریلوی بھی ، مقلد دیوبندی بھی، مقلد حشویہ بھی!
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے جانور کہ فہرست میں ''مقلدین '' کو شمار کیا ہے، یا ''غیر مقلدین'' کو؟
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے اپنا دماغی علاج کروانے کا ''مقلدین'' کو کہا ہے یا ''غیر مقلدین'' کو؟
(ویسے ایک اضافی سوال یہ ہے کہ کراچی نفسیاتی ہسپتال کا مشورہ آپ نے اس لیے تو نہیں دیا کہ وہاں کے (غالبا) ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر مبین اختر استمناء بالید کو جائز اور صحت کے لیے بہتر فرماتے ہیں؟؟)
اشماریہ بھائی! آپ بھی ہو بڑے شرارتی! شرارت آپ کرتے ہوں پھر جب ہم جوا ب دیتے ہیں تو فورم کی انتظامیہ کو پکارتے ہو!
مجھے تو خیر یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال بھی ہے، نہ میں کسی مبین اختر کو جانتا ہوں، ویسے آپ کو بڑی خبر ہے! لیکن آپ کو خبر نہیں ہے تو اپنے حنفی علما کی نہیں! آیئے ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آپ کے حنفی علماء اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں:
پھر کیا زلق لگانا جائز ہے۔ تلخیص جواب عینی وغیرہ یہ ہے کہ جس شخص نے اس سے شہوت کا مزہ چاہا تو یہ حرام ہے، چنانچہ مشائخ نے حدیث لکھی کہ ناكح اليد ملعون، ہاتھ کا جماع کرنیوالا ملعون ہے، اور زیلعی رحمہ اللہ نے بعض بزرگوں سے ذکر کیا ہے کہ محشر میں بعضوں کے ہاتھ حاملہ ہونگے۔ تو میرا گمان یہ ہے کہ یہی زلق لگانے والے ہوں گے۔ بالجملہ شہوت پرستی سے یہ فعل بالاتفاق حرام ہے اور اگر اسنے اس سے غلبہ شہوت کو دبانا چاہا در حال یہ کہ اس کو حلال جماع میسر نہیں ہے۔ تو شیخ ابوبکر الاسکاف نے کہا کہ اسکو ثواب ملے گا۔ فقیہ ابو اللیث نے کہا ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت آئی کہ اس کو یہی بہت ہے کہ برابر چھوٹ جاوے، لہٰذا مشائخ نے کہا کہ امید ہے کہ عذاب نہ ہو۔ انزاری رحمہ اللہ نے غابۃ البیان میں کہا کہ میرے نزدیک قول ابو بکر الاسکاف صحیح ہے۔ عینی رحمہ اللہ نے کہا کہ امام احمد سے اجازت اور جدید قول شافعی میں حرمت ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ یہاں یہ اشکال وارد ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وغیرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اختصاء کی اجازت چاہی تھی اور مخنث ہو جانا مقصود نہ تھا کیونکہ اسکی نفيحت تو بدیہی ہے بلکہ کمی شہوت پس اگر زلق جائز ہوتا تو یہ مقصود حاصل ہو جاتا لہٰذا صحیح وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے اور شیخ ابو بکر رحمہ اللہ وغیرہ کے قول میں تاویل یہ ہے کہ اگر اجنبیہ عورت سے تخلیہ ملا کہ خوف زنا ہے، پس اس نے زلق سے مادہ مہیجہ نکال دیا تو اِس حالت میں روا بلکہ امید ثواب ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 1112 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مکتبہ رحمانیہ، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 893 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

کیا یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ ابو بکر الاسکاف الحنفی اور اور انزاری الحنفی نے تو کنوارے ہونے کی صورت میں، اس زلق لگانے یعنی مشت زنی کو کارِ ثواب قرار دیاہے، اس پر تفصیل بیان کرنے کی نہ میری خواہش ہے ، اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا! مگر اتنا بتلا دوں کہ ان مسائل میں نہ الجھنا!
بہر حال یہ ڈاکٹر صاحب فقہائے احناف سے متاثر معلوم ہوتے ہیں!

ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے
صاحب! اگر رکھتے خبر پہلے

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے محترم اتباع سنت کا تو آپ کو ماشاء اللہ بہت شوق ہے۔ لیکن عمل پوری حدیث پر کیجیے نا پھر۔ پہلے کسی یہودی کو بن دیکھیں بتائیں کہ تورات میں فلاں حکم ہے پھر اس کے انکار پر تورات منگوا کر اس سے دیکھیے۔
یہ اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟
باقی استدلال پر بات گزر گئی ہے۔
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .
قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.
وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور

میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''
مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
نہیں۔۔۔۔۔ ٹرک کی بتی کے آگے لگانا چاہتا ہوں۔ پیچھے لگ کر کیا کریں گے!!
استدلال کو ثابت کرنے کا مطالبہ کیا تو ہے۔ اعتراض پیش کیا ہے کہ ثابت نہیں ہو رہا۔ جو ثابت کرنے کا طریقہ ہے اس سے ثابت کریں ورنہ کسی اور سے دکھائیں۔ اور کیا اعتراض پیش کرنے کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟؟
اشماریہ بھائی! آپ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لے ہی لیں! تا کہ آپ کو استفسار اور اعتراض کا فرق سمجھ آجائے!
بھائی جان تو میں نے کب کہا تھا کہ آپ نے آیت سے استدلال پیش کیا ہے؟؟؟
یہ آپ نے کیا فرمایا تھا؟
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ میں نے تو توراۃ کے "اس حکم" کا ذکر کیا ہے۔ اس حکم کی تائید قرآن پاک نے کی ہوئی ہے اور یہ قرآن کی منسوخ التلاوۃ آیت سے ثابت ہے۔ وہاں حکم رجم کا ذکر ہے۔
اشماریہ بھائی! ایک تو آپ اپنا کلام بھی بھول جاتے ہو!
ہک ہا!!! اسی لیے تو آپ سے عرض کرتا ہوں کہ بجائے مثالیں دینے کے سیدھا سادہ جواب دیا کیجیے۔ مثالیں دے کر گھمایا پھرایا نہ کیجیے۔ بات مبہم ہو جاتی ہے۔ کوئی چار پانچ صفحوں بعد جا کر پتا چلتا ہے کہ مثال کس لیے دی گئی تھی۔ سیدھا جواب دیا کریں تو ہم جیسے کم علموں کے لیے بھی آسانی ہو جائے۔
اشماریہ بھائی! اب اگر آپ نہیں سمجھ پاتے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے بھائ!
ضیا کو تیرگی اور تیرگی کو ضیا سمجھے
پڑیں
پتھر سمجھ ایسی پہ وہ سمجھے تو کیا سمجھے
ار یہ کس حکیم نے آپ کو کہا ہے کہ حافظ وغیرہ کے تعریفی الفاظ سے جرح ختم نہیں ہوتی؟؟
اشماریہ بھائی! ہیں تو بہت سے حکیم جنہوں نے ہمیں یہ بتاتا ہے ، ان میں سے دو حکیموں کے نام ان کی کتابیں اور ان کی عبارت اسی نسخہ کی پیش کی ہیں! ان دو حکیموں کے نام دہرا دیتا ہوں؛
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني

آخر پھر اس تعریف کا مقصد کیا ہوتا ہے اگر اس کا معنی ہی مراد نہ لیا جا سکے۔ ایک شخص حافظ بھی ہو یعنی حافظ الحدیث یعنی جسے حدیثیں حفظ ہوں یعنی۔۔۔۔۔۔ صحیح طرح یاد ہوں۔ اور وہی شخص اعلی درجہ کا ضعیف بھی ہو یعنی اسے حدیثیں یاد نہ رہتی ہوں۔۔۔۔ کیا یہ دونوں باتیں ایک وقت میں ایک شخص میں جمع ہو سکتی ہیں؟؟؟
پھر بھی اگر آپ بضد ہیں تو پھر میرے خیال میں حافظ کا مطلب یہی رہ جائے گا کہ وہ شخص ضعیف ہے لیکن اس کا تعلق حافظ سوہن حلوہ والے سے ہے۔ جب معنی ہی مراد نہ لیا جائے تو تعریف کیا اچار ڈالنے کے لیے کی گئی ہے؟
اشماریہ بھائی! اسی لئے تو کہتا ہوں: یہ فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے۔ آپ کے ان اٹکل کا جواب پہلے گذر چکا ہے!
شکر ہے آپ نے مجھے یہ قیمتی بات بتا دی۔ پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟؟؟
وہ تو قارئین خود نتیجہ اخذ کر لیں گے، ویسے ابھی اوپر امام الشافعی رحمہ اللہ کے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ اور اہل الرائے پر نقد کے مزید حوالہ بیان کئے گئے ہیں!

(اللہ کی توفیق سے جواب مکمل ہوا، الحمد للہ !)
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

نہیں میرے بھائی! آپ کی بات اور امام طحاویؒ کی بات میں بہت فرق ہے! امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! کیونکہ'' إلا'' نے یہ تقید پیدا کیا ہے۔
جبکہ آپ کے بیان میں یہ ہے کہ ایسا جاہل صرف تقلید ہی کرسکتا ہے، اور اسے جاہل کے علاوہ بھی تقلید کر سکتے ہیں !! اور یقیناً آپ اسی کے قائل بھی ہو! کیونکہ آپ اپنے علماء کو نہ عقل وشعور سے خالی، اور نہ جاہل قرار دیتے ہو!!

بلکل جناب! ہم امام طحاویؒ کے منہج سے واقف ہیں۔

کیونکہ ابو عبیدہ جرثومہ بھی امام طحاویؒ کو آپ کی طرح امام ابو حنیفہؒ کا مقلد سمجھ بیٹھے تھے، کیونکہ انہیں بھی شاید آپ کی طرح حنفی ہونے اور امام ابو حنیفہؒ کا مقلد ہونے کا فرق سمجھ نہیں آرہا تھا! اور اسی بات کی امام طحاویؒ نے نفی کی ہے! ویسے آپ بھی کمال کے آدمی ہو!! لعنت کے معنی رحمت اسی طرح اخذ کئے جاتے ہیں!! فتدبر!!

بلکل جناب! بہت سے مسائل میں امام طحاویؒ کا مؤقف وہی ہے جو امام ابوحنیفہ کا ہے! لیکن اس سے امام طحاویؒ کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ یہاں تو امام طحاویؒ نے اس بات کی صراحت کردی کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کے تمام مؤقف کو قبول نہیں کرتے!! یہ بھی آپ نے عجیب کہی کہ ''بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے کہ میں ابو حنیفہؒ کا مقلد نہیں ہوں'' بھائی جان، جب امام طحاویؒ نے تقلیدی نظریہ وعمل کی نفی کر دی تو یہ کیونکر لازم آیا کہ وہ لفظ بھی وہی استعمال کریں !! وگرنہ نہیں مانا جائے گا، جبکہ آگے امام طحاویؒ نے لفظ بھی بیان کر دیئے ہیں!!

جی بلکل ابو عبیدہ جرثومہ امام طحاویؒ کو آپ کی طرح امام ابو حنیفہؒ کا مقلد سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے کہا کہ ''میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا'' اور آپ بھی ابو عبیدہ جرثومہ کی طرح امام طحاوی کو مقلد شمار کرتے ہو، جس کی امام طحاویؒ نفی کرتے ہیں!!

جناب من! امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی، اور یہ بتلا دیا کہ تقلید صرف عصی یعنی عقل وشعور سے خالی یا غبی یعنی جاہل ہی کرتا ہے!!
امام طحاویؒ تو اپنے مقلد ہونے کی نفی کر دیں، لیکن آپ انہیں زبردستی مقلد قرار دینے پر مصر ہیں!! باقی آپ نے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ کی یا آپ کے علماء کی تخلیق ہے، امام طحاویؒ نے بہر حال اپنے مقلد ہونے کی نفی بھی کردی اور تقلید کرنے والے کو عصی یعنی عقل وشعور سے خالی اور غبی یعنی جاہل قرار دیا!!
تقی عثمانی صاحب کی اس کتاب کا میں مطالعہ کر چکا ہوں، اگر آپ کو اس کتاب سے کوئی دلیل ملے تو آپ یہاں بیان کیجئے، خیر جب ذکر ہوا ہے مولانا تقی عثمانی کی کتاب ''تقلید کی شرعی حیثیت'' کا تو ایک وہاں سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا ایک لطیفہ پیش کر دیتا ہوں:
'' صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ عنہم کے زمانے میں چونکہ خوفِ خدا اور فکر آخرت کا غلبہ تھا اس لئے اُس دور میں ''تقلید مطلق'' سے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ لوگ اپنی خواہشات کے تابع کبھی کسی مجتہد کا اور کبھی کسی مجتہد کا قول اختیار کریں گے، اس لئے اُس دور میں ''تقلید مطلق'' پر بے روک ٹوک عمل ہوتا رہا، اور اُس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی گئی،
لیکن بعد کے فقہاء نے جب دیکھا کہ دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے اور لوگوں پر نفسانیت غالب آتی جارہی ہے تو اس وقت انہوں نے مذکورہ بالا انتظامی مصلحت سے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلید شخصی پر عمل کرنا چاہئے، اور ''تقلید مطلق'' کا طریقہ ترک کردینا چاہئے، یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا، بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا، ''
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 65 تقلید کی شرعی حیثیت۔ مفتی تقی احمد عثمانی ۔ مکتبہ دار العلوم کراچی
کتاب کا نام ہے ''تقلید کی شرعی حیثیت'' اور صاحب فرماتے ہیں ''تقلید مطلق'' کو تو ترک دینا چاہئے، اور یہ ''تقلید شخصی'' کوئی شرعی حکم نہیں تھا!! تو پھر کس تقلید کے اثبات میں شرعی حیثیت ثابت ہوئی؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟!!

(جاری ہے)

میرے محترم بھائی۔ ایک طرف تخصص فی فقہ المعاملات کی مشکل ترین پڑھائی اور اس کے لیے مطالعہ اور دوسری طرف ان باتوں کے جوابات۔ میرے لیے مینج کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک موضوع کے تحت یہاں جتنے موضوعات شروع ہو چکے ہیں ان میں سے ایک وقت میں ایک یا دو کو حل کر لیں پھر بقایا کی جانب آ جائیں۔

نہیں میرے بھائی! آپ کی بات اور امام طحاویؒ کی بات میں بہت فرق ہے! امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! کیونکہ'' إلا'' نے یہ تقید پیدا کیا ہے۔
جبکہ آپ کے بیان میں یہ ہے کہ ایسا جاہل صرف تقلید ہی کرسکتا ہے، اور اسے جاہل کے علاوہ بھی تقلید کر سکتے ہیں !! اور یقیناً آپ اسی کے قائل بھی ہو! کیونکہ آپ اپنے علماء کو نہ عقل وشعور سے خالی، اور نہ جاہل قرار دیتے ہو!!
شاید آپ میری بات سمجھے نہیں۔
تقلید کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سراسر جاہل ہے وہ صرف تقلید کرتا ہے اور کچھ نہیں کیوں کہ وہ اور کچھ کر ہی نہیں سکتا۔
دوسرا وہ شخص ہے جسے عبارت اور معانی پر عبور حاصل ہے تو وہ ان میں تو تقلید نہیں کرتا لیکن مسائل کے نہ استنباط کا ملکہ ہے نہ علم تو وہ ان میں تقلید کرتا ہے۔
تیسرا وہ شخص جسے فروع کا اور فروع کے اصول سے اخذ کرنے کا علم تو ہے لیکن اصول کے بنانے پر قادر نہیں تو وہ اصول میں تقلید کرتا ہے۔
چوتھا وہ شخص جو اصول بھی بنا سکتا ہے لیکن وہ کسی اور کے اصولوں سے متفق ہوتا ہے تو انہی کو اختیار کر کے تقلید کرتا ہے (ظاہر ہے یہ علی وجہ البصیرت ہوتی ہے۔)
یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔ تو اب ان میں سے ہر شخص کی تقلید کا درجہ مختلف ہوتا ہے۔
امام طحاویؒ بعض کے نزدیک مجتہد فی المسائل اور بعض کے نزدیک مجتہد فی المذہب کے درجے پر ہیں (علی شرط صحۃ حفظی)۔ پہلے کا مطلب یہ ہوا کہ امام طحاوی منقول اصول و فروع میں تو اصلا کلام نہیں کرتے لیکن نئے مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور دوسرے کا مطلب یہ ہوا کہ اصول میں تو کلام نہیں کرتے لیکن فروع میں اپنا مسلک جداگانہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (اور یہ بات آسمان سے نہیں اتری بلکہ ان کی کتابوں کے تتبع سے معلوم ہوتی ہے)
اب جو شخص اس قدر صلاحیت رکھتا ہے اسے جب ابو عبید بن جرثومہؒ نے فرمایا:
ما ظننتك إلا مقلدا
اس کا ترجمہ کسی بھی انداز سے کریں:
میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا
میں تو آپ کو سمجھتا ہی نہیں ہوں مگر مقلد
میں تو آپ کو صرف مقلد ہی سمجھتا ہوں

تو ظاہر ہے امام طحاوی نرے مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے وضاحت کر دی کہ جس تقلید کا آپ ذکر کر رہے ہیں کہ بس ابو حنیفہ کا قول آ گیا تو میں مان لوں تو وہ میرے درجے کے شخص کا کام نہیں ہے۔ مجھے تو فقہ اور حدیث پر عبور حاصل ہے وہ تو غبی یا عصی کا کام ہے۔
یہ ہے مکمل بات۔ اگر اس میں کوئی اشکال ہے تو پیش فرمائیے۔

آپ نے فرمایا کہ "الا" سے تقیید پیدا کی ہے تو میں بھی مانتا ہوں۔ لیکن آپ مطلقا تقلید کا انکار اس سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالاں کہ یہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ الا کی یہ تقیید انہوں نے ابن جرثومہ کے الا کے جواب میں پیدا کی ہے۔ پوری بات سے جملے کو کاٹ کر معنی نکالنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا مطلوبہ معنی نکل ہی آئے گا لیکن پوری بات کا اپنا ایک مطلب ہوتا ہے جس کی میں نے وضاحت کر دی ہے۔

کیونکہ ابو عبیدہ جرثومہ بھی امام طحاویؒ کو آپ کی طرح امام ابو حنیفہؒ کا مقلد سمجھ بیٹھے تھے، کیونکہ انہیں بھی شاید آپ کی طرح حنفی ہونے اور امام ابو حنیفہؒ کا مقلد ہونے کا فرق سمجھ نہیں آرہا تھا! اور اسی بات کی امام طحاویؒ نے نفی کی ہے! ویسے آپ بھی کمال کے آدمی ہو!! لعنت کے معنی رحمت اسی طرح اخذ کئے جاتے ہیں!! فتدبر!!
اب میں آپ کو کہوں کہ یہاں آپ پر دو چیزیں لازم ہوگئی ہیں، ایک اس فرق کو بیان کرنا اور دوسرا اس پر دلیل پیش کرنا کہ ابن جرثومہ کو یہ فرق سمجھ نہیں آ رہا تھا، تو یہ کوئی مناسب بات نہیں ہوگی۔ ضد کے جواب میں پھر آخر کار یہ کرنا پڑتا ہے۔

بلکل جناب! بہت سے مسائل میں امام طحاویؒ کا مؤقف وہی ہے جو امام ابوحنیفہ کا ہے! لیکن اس سے امام طحاویؒ کا مقلد ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ یہاں تو امام طحاویؒ نے اس بات کی صراحت کردی کہ وہ امام ابو حنیفہؒ کے تمام مؤقف کو قبول نہیں کرتے!! یہ بھی آپ نے عجیب کہی کہ ''بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے کہ میں ابو حنیفہؒ کا مقلد نہیں ہوں'' بھائی جان، جب امام طحاویؒ نے تقلیدی نظریہ وعمل کی نفی کر دی تو یہ کیونکر لازم آیا کہ وہ لفظ بھی وہی استعمال کریں !! وگرنہ نہیں مانا جائے گا، جبکہ آگے امام طحاویؒ نے لفظ بھی بیان کر دیئے ہیں!!
میرے محترم! اس سے امام طحاوی کا مقلد ہونا کیوں لازم نہیں آتا؟؟ اگر آپ یہ بات اس تقلید کے تناظر میں کہہ رہے ہیں جو آپ کے ذہن میں ہے اور جس میں عامی اور عالم برابر ہیں تو پھر تو آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن اگر آپ تقلید کی اس تفصیل کے تحت یہ بات کہہ رہے ہیں جو ہمارے نزدیک ہے تو پھر جناب من یہ آپ کی غلطی ہے۔
میں نے اوپر وضاحت کی ہے کہ امام طحاوی کس حیثیت سے مقلد ہیں۔ ہماری تفصیل کے مطابق ایک شخص جب ابو حنیفہ کے اصولوں کو قبول کر کے ان کے مطابق استنباط کرتا ہے تو وہ اصول میں ابو حنیفہ کا مقلد ہے اور فروع اپنے اخذ کرتا ہے یا کبھی ان کے مان لیتا ہے۔
مدرسہ اہل الرائے کا ایک طرز معروف تھا کہ یہ تمام روایات کو جمع کرکے ان سے ایک مسئلہ اخذ کرتے تھے نہ کہ اصح ما فی الباب سے فقط۔ اس کے علاوہ صحابہ و سلف کے عمل کو بھی بغور دیکھتے تھے۔ امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار میں مختلف مقامات پر یہی طرز نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر امام اعظمؒ کے اصولوں کی واضح جھلک ملتی ہے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ امام طحاوی ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔
امام نے جس تقلیدی نظریہ و عمل کی نفی کی ہے اس کا سباق بھی تو دیکھیے۔ مخاطب کا خیال بھی دیکھیے۔ وہ تقلیدی نظریہ تو واقعی امام پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ عصی پر لاگو ہوتا ہے۔
(یہاں یہ یاد رہے کہ غبی کا لفظ تو ابن جرثومہ کا ہے امام طحاویؒ کا نہیں ہے۔ اس کی نسبت امام طحاوی کی جانب طرز کلام کی وجہ سے کی جاتی ہے کہ آپ نے بغیر نکیر کے بیان کر دیا ہے۔ جب طرز کلام یہاں حیثیت رکھتا ہے تو امام کے الفاظ و جملوں میں اسے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟)

یہ بھی آپ نے عجیب کہی کہ ''بجائے اس کے کہ وہ یہ کہتے کہ میں ابو حنیفہؒ کا مقلد نہیں ہوں'' بھائی جان، جب امام طحاویؒ نے تقلیدی نظریہ وعمل کی نفی کر دی تو یہ کیونکر لازم آیا کہ وہ لفظ بھی وہی استعمال کریں !! وگرنہ نہیں مانا جائے گا
اسی کو ہم کہتے ہیں کہ بات کے طرز اور الفاظ پر غور کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رض سے غالبا ابن زبیر رض نے عرض کیا کہ سعی تو مستحب ہونی چاہیے نہ کہ واجب۔ کیوں کہ قرآن کے الفاظ ہیں "فلا جناح علیہ ان یطوف بہما"۔ اس پر صفا و مروہ کے چکر لگانے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ بات بالکل ٹھیک ہے الفاظ کی رو سے۔ یہی مطلب بنتا ہے۔ لیکن عائشہ رض نے فرمایا کہ اس صورت میں یہ ہونا چاہیے تھا "فلا جناح علیہ ان لا یطوف بہما"۔ یہ ہے طرز کلام کا فرق، کہ جب صحابہ کے دلوں میں بتوں کی نفرت کی وجہ سے سعی کے بارے میں کھٹکا پیدا ہوا تو کلام میں ان یطوف بہما آیا ورنہ ان لا یطوف بہما ہونا چاہیے تھا۔
تو اسی طرح میرے محترم بھائی جب اس جگہ ابن جرثومہ نے امام طحاوی کو "صرف مقلد" کہا تو اگر امام طحاوی کسی حیثیت سے بھی مقلد نہ ہوتے تو سیدھا جواب یہی دیتے کہ میں ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ہوں۔ مقتضی حال یہی ہے لیک خلاف مقتضی کلام جو لائے تو وہ اس وجہ سے کہ خود سے "فقط تقلید" کی نفی کر دی اور کہا کہ یہ عصی کا کام ہے اور میں اس سے تو درجہ میں آگے ہوں، میں اس سا فعل کیوں کروں؟

جی بلکل ابو عبیدہ جرثومہ امام طحاویؒ کو آپ کی طرح امام ابو حنیفہؒ کا مقلد سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے کہا کہ ''میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا'' اور آپ بھی ابو عبیدہ جرثومہ کی طرح امام طحاوی کو مقلد شمار کرتے ہو، جس کی امام طحاویؒ نفی کرتے ہیں!!
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
میں آخر میں ایک بات کروں گا اس پر ذرا غور فرما لیجیے گا۔

جناب من! امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی، اور یہ بتلا دیا کہ تقلید صرف عصی یعنی عقل وشعور سے خالی یا غبی یعنی جاہل ہی کرتا ہے!!
امام طحاویؒ تو اپنے مقلد ہونے کی نفی کر دیں، لیکن آپ انہیں زبردستی مقلد قرار دینے پر مصر ہیں!! باقی آپ نے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ کی یا آپ کے علماء کی تخلیق ہے، امام طحاویؒ نے بہر حال اپنے مقلد ہونے کی نفی بھی کردی اور تقلید کرنے والے کو عصی یعنی عقل وشعور سے خالی اور غبی یعنی جاہل قرار دیا!!
یعنی اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ۔۔۔۔۔ میں نہ مانوں کا فلسفہ جاری ہے۔ میں نے کتنی واضح بات کی ہے جو ذرا سا بھی عقل و شعور رکھنے والا سمجھ سکتا ہے اور وہ الفاظ سے ظاہر ہے جس کی میں نے وضاحت بھی کی ہے لیکن آپ اسے میری تخلیق قرار دے رہے ہیں۔

تقی عثمانی صاحب کی اس کتاب کا میں مطالعہ کر چکا ہوں، اگر آپ کو اس کتاب سے کوئی دلیل ملے تو آپ یہاں بیان کیجئے، خیر جب ذکر ہوا ہے مولانا تقی عثمانی کی کتاب ''تقلید کی شرعی حیثیت'' کا تو ایک وہاں سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا ایک لطیفہ پیش کر دیتا ہوں:
'' صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ عنہم کے زمانے میں چونکہ خوفِ خدا اور فکر آخرت کا غلبہ تھا اس لئے اُس دور میں ''تقلید مطلق'' سے یہ اندیشہ نہیں تھا کہ لوگ اپنی خواہشات کے تابع کبھی کسی مجتہد کا اور کبھی کسی مجتہد کا قول اختیار کریں گے، اس لئے اُس دور میں ''تقلید مطلق'' پر بے روک ٹوک عمل ہوتا رہا، اور اُس میں کوئی قباحت نہیں سمجھی گئی،
لیکن بعد کے فقہاء نے جب دیکھا کہ دیانت کا معیار روز بروز گھٹ رہا ہے اور لوگوں پر نفسانیت غالب آتی جارہی ہے تو اس وقت انہوں نے مذکورہ بالا انتظامی مصلحت سے یہ فتویٰ دیا کہ اب لوگوں کو صرف تقلید شخصی پر عمل کرنا چاہئے، اور ''تقلید مطلق'' کا طریقہ ترک کردینا چاہئے، یہ کوئی شرعی حکم نہیں تھا، بلکہ ایک انتظامی فتویٰ تھا، ''
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 65 تقلید کی شرعی حیثیت۔ مفتی تقی احمد عثمانی ۔ مکتبہ دار العلوم کراچی
کتاب کا نام ہے ''تقلید کی شرعی حیثیت'' اور صاحب فرماتے ہیں ''تقلید مطلق'' کو تو ترک دینا چاہئے، اور یہ ''تقلید شخصی'' کوئی شرعی حکم نہیں تھا!! تو پھر کس تقلید کے اثبات میں شرعی حیثیت ثابت ہوئی؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟!!
میں اس جانب اشارہ کر رہا تھا کہ وہاں سے تقلید کی اقسام ملاحظہ فرما لیجیے۔
رہ گیا یہ جملہ تو انتظامی فتوی یہ تھا کہ "تقلید مطلق کو ترک کر کے صرف شخصی پر عمل کرنا چاہیے" اور یہ شرعی حکم نہیں تھا۔ باقی ثابت تو دونوں تقلیدیں شریعت سے ایک ہی وقت میں ہیں۔

اب میں ایک آخری بات آپ کو اپنا بھائی سمجھ کر کرتا ہوں۔
میرے محترم بھائی اگر اس بحث سے آپ کا مقصد صرف اپنے موقف کو درست ثابت کرنا اور مجھے بطور حنفی یا مقلد کے چپ کرانا ہے تو میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ اور اگر اس سے آپ کا مقصد افہام و تفہیم ہے تو پھر اس کا یہ طرز نہیں ہوتا۔ میں ایک بات کی وضاحت کرتا ہوں، آپ الفاظ بدل کر اسی بات کو پھر ذکر کر دیتے ہیں۔ اور میں ایک بات پر آپ کی غلطی کی طرف اشارہ کر کے کچھ پوائنٹ دیتا ہوں کہ ان کو حل کریں تو آپ بجائے ان کو حل کرنے کے اپنی بات پر جم جاتے ہیں کہ میں نے کام کر دیا ہے۔ اور میں ایک بات کو اپنے موقف میں بہت واضح انداز میں ذکر کرتا ہوں لیکن آپ میرا موقف کچھ اور سمجھتے یا بیان کرتے ہیں اور اسی کے مطابق آگے چلتے جاتے ہیں۔
میرے محترم بھائی نہ تو میرا شوق مناظرہ ہے اور نہ مجادلہ ورنہ میں ان کا طرز اختیار کرتا (اور میں ایسی صورت میں مخاطب کو چپ کرانے کے فن سے واقف ہوں)۔ میں علمی بحث کو علمی مقصد سے کرنا پسند کرتا ہوں۔ افہام و تفہیم ہو نہ کہ بحث و مباحثہ صرف۔
اللہ پاک ہم سب کو فہم سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! اس طرح تو ہوتا ہے،اس طرح کے کاموں میں!
تمام تحریر کا جواب مطلوب ہے! ایسا نہیں چلے گا کہ آپ ایک بات اپنی پسند کی اٹھا کر بات شروع کر لیں!
اور یہ تمام باتیں آپ کے ایک سے تین اور تین سے تیس سوالات نکالنے کا نتیجہ ہے!
جواب تو پورے مراسلہ کا دیں، میں انتظار کر لوں گا ایسی کوئی بات نہیں!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

میں نے آپ کو عرض کیا تھا کہ:

آپ کو اس پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں!

بھائی جان، ہم نے آپ کو حدیث پیش کی ہے اور اس حدیث سے استدلال، آپ کی نظر میں اس استدلال کا کوئی نقص ہے تو وہ پیش کریں!! ہم نے ایسے ہی نہیں کہہ دیا کہ ہم نے کہا ہے تو مان لو!![/HL]
جی بھائی جان جو آپ نے عرض کیا تھا وہ میں نے پڑھ لیا ہے۔ اور میں نے عرض کیا تھا:
میرے محترم میں نے اس دلیل کے بارے میں یہ عرض کیا تھا:
جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟
استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟
ور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔
آپ نے نہ تو اوپر موجود دونوں سوالوں کے جوابات دیے نہ وضاحت کی۔ اور نہ تیسرا مطالبہ پورا کیا۔
اب اگر آپ یہ کہیں کہ بس میں نے دلیل دے دی تم مان لو تو بھلا ایسے کون ذی عقل مان سکتا ہے؟؟ ثابت کیجیے تو ہم مانیں۔ عموما میں صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کا حوالہ یا استدلال کسی سے دکھائیے لیکن آپ کو اہل علم میں سے جان کر پچھلے دو سوالات کیے ہیں۔ براہ کرم ان کی وضاحت کیجیے۔ صرف عبارت لکھ کر یہ سمجھنا کہ ہمارا مدعی ثابت ہو گیا تو ناکافی ہوتا ہے۔
درحقیقت آپ کی بات میں اور اس حدیث میں بہت فرق ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ نبی ﷺ کی سنت کے طور پر قاضی کا یہ عمل ثابت ہو رہا ہے تب بھی دعوی یہ ہے کہ "گواہ کی کتاب سے گواہی درست یا قبول ہو جاتی ہے۔" یہ دعوی نہیں کہ "کتاب کی گواہی قبول ہے۔" دوم یہ کہ آپ کی پیش کردہ روایت میں دعوی یہ تھا کہ "تورات میں رجم کا حکم موجود ہے"۔ یہودی نے انکار کیا اور عبد اللہ بن سلام رض نے اسے جھٹلایا یعنی اس بات کی تصدیق کی کہ موجود ہے۔ تو تورات منگوائی گئی اور حکم دیکھا گیا۔ یہ "حکم تورات میں موجود ہونا" تو عین دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ شہادت دعوی سے خارج ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر آپ نے خضر حیات بھائی نے اپنی کتاب میں ابجد لکھی ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں لکھی۔ اب شہادت یہ ہوتی ہے کہ آپ اپنی بات پر شاہد نذیر اور محمد ارسلان بھائی کو بلائیں اور وہ یہ کہیں کہ ہاں یہ لکھی ہے۔ اور میں فلاں اور فلاں کو بلاؤں کہ نہیں یہ نہیں لکھی۔
لیکن اگر کتاب موجود ہے اور وہ منگوا کر دیکھی گئی تو یہ تو عین دعوی ہے۔ یہی تو آپ کا دعوی ہے۔ یہ شہادت تو ہے ہی نہیں۔ اگر یہ شہادت ہے تو پھر دعوی کہاں ہے۔
پھر یہاں بڑے فرق ہیں:
نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟
دوم کتاب آسمانی کتاب ہے اگرچہ تحریف شدہ۔ اس میں اور کسی بھی انسان کی کتاب میں واضح فرق ہے۔
سوم جس حکم کی یہاں بات ہوئی وہ بھی منصوص من اللہ ہے قطعی طور پر کیوں کہ نبی ﷺ کی تائید بلکہ اخبار غیبی اسے حاصل ہے کہ یہ حکم تمہاری کتاب میں ہے۔ نیز اس حکم کو قرآن کی تائید بھی حاصل ہے۔

اب بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ:
  1. دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  2. آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  3. آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  4. کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  5. آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔

ان باتوں کو آپ حل کریں گے تو آپ کا استدلال تام اور قابل قبول ہوگا۔

آپ نے جواب ہی نہیں دیا اور کہتے ہیں کہ استدلال پیش کیا ہے۔ یہ تو حال ہے ترک تقلید کے بعد۔ میں نے عرض کیا ہے کہ استدلال صرف یہ نہیں ہوتا کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے تم مان لو۔ استدلال کو استدلال کے طریقے سے ثابت بھی کریں نا۔
اس طرح تو کل کو آپ دعوی نبوت کر کے کوئی حدیث پیش کریں اور کہہ دیں کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے آپ اعتراض کرو تو کیا ہم مان لیں گے؟ جی نہیں جناب جب آپ سے کہا جائے کہ اس استدلال کو ثابت کرو تب ثابت بھی کر کے دکھائیں کہ میرا استدلال عبارۃ النص سے ہے اور اس میں فلاں لفظ عام ہے اور فلاں کا فلاں معنی ہے وغیرہ تب استدلال "پیش" ہوگا۔
میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں:

  • دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  • آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  • آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  • کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  • آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔

اور جناب والا! اب حجت چین و حکمت بنگال والا نعرہ لگا کر خود کو بری نہیں سمجھ لیجیے گا۔ ہم اردو ادب کی نہیں مسئلہ تقلید کی بحث کر رہے ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ لگانے سے آپ کی بات پوری ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معذرت چاہتا ہوں ایسا نہیں ہوتا۔

اشماریہ بھائی! میری بات تو شاید آپ سمجھ کر بھی نا سمجھ بن جائیں، لیکن اب میں جو بات پیش کرنے لگا ہوں ، اس کے بارے میں مجھے حد درجہ یقین ہے کہ آپ کو فوراً سمجھ آجائے گی، کیونکہ قرآن حدیث سے مستنبط بات کا سمجھنا مقلد کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن اپنے علماء کی باتیں نہ صرف سمجھ آجاتیں ہیں، بلکہ وہ اسے دوسروں کو سمجھانے کی بھی کاوش کرتا ہے۔ تو لیجئے جناب! کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام دیوبند کتابوں کے گواہ ہونے سے متعلق:
(۱) اہل سنت والجماعت کے طریق سے منحرف ہیں جیسا کہ خود مودودی صاحب اور جماعت کے اونچے ذمہ داران کی کتب اس پر شاہد ہیں
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: 156/ ھ= 109/ ھ مورخہMar 01,2008، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
(۱)پاکستان میں جوغیرمقلدین آپ کو پریشان کرتے ہیں، ان کا حال سعودی عرب کے حضرات کے بالکل خلاف ہے، سعودی عرب میں چوٹی کے علمائے کرام تقلید کو نہ حرام قرار دیتے ہیں نہ شرک کہتے ہیں، بلکہ بڑی تعداد ان علمائے کرام کی تقلید کو اختیارکیے ہوئے ہے، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ کے عامةً وہاں کے اہل علم مقلد ہیں جیسا کہ خود ان کی کتب اس پر شاہدِ عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 1644/ ھ= 302/ تھ مورخہNov 10,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
اکرام سے مراد خاطر مدارات نیز مہمان کی دلجوئی اور اس کے ظاہری مناسب حال رواداری اور رکھ رکھاوٴ ہے اور یہ ناجائز نہیں۔ حضرت نبی اکرم صل یاللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں بعض مرتبہ کفار کے وفود آتے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان کو مسجد نبوی میں خیمہ لگاکر ٹھیراتے اور ان کی مہمان داری کا پورا خیال رکھتے تھے، نیز یہودی پڑوسیوں وغیرہ سے خاطر مدارات کے معاملات اور مخالفین اسلام کی دلجوئی اوران کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا حضرات صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی بکثرت منقول ہے، جیسا کہ کتب سیر وتواریخ اس پر شاہد عدل ہیں،
ملاحظہ فرمائیں: فتوی: فتوی: 650=460/ھ مورخہMar 29,2009، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
مفتی شفیع احمدعثمانی (المتوفی ۱۹۸۶/)علماء دیوبند کے ممتاز علماء اور مقتدا میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی عربی ادبیت بھی کسی دوسرے ہمعصر سے کم نظر نہیں آتی ۔آپ نثر ونظم دونوں میدانوں کے ماہر فن معلوم ہوتے ہیں۔ آپ کی تالیف ''نفحات''اس کی شاہد عدل ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: عربی زبان وادب میں علمائے دیوبند کی خدمات کاتنقیدی جائزہ - ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 99 ‏، جمادی الاولی 1436 ہجری مطابق مارچ 2015ء
چچ چچ چچ۔ یار دعوی ہے آپ کا ترک تقلید کا اور فہم اتنی بھی نہیں کہ چلنے والی بحث میں اور اپنی دی ہوئی مثال میں فرق ہی سمجھ پائیں؟ تو پھر ترک تقلید کر کے آخر آپ کیا کرتے ہیں؟؟؟
او میرے بھائی بات یہ چل رہی ہے کہ گواہ کی کتاب کی گواہی قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور وہ بھی کہاں! قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے سامنے (جس کی اپنی گھڑی ہوئی اسپیشل حیثیت بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکے)۔ اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟

اشماریہ بھائی! اب آپ کتاب کو گواہ ماننے کو تیار ہو!! کہیں اب آپ یہ تو نہیں کہو گے کہ یہاں شاہد کہا گیا ہے، اور ہماری بحث گواہی کی ہو رہی ہے؟ اور پھر یہ مطالبہ کرنے کا ارادہ تو نہیں کہ اصول و قاعدہ دکھلاؤ کہ شاہد اور گواہ مترادف الفاظ ہیں؟
یہی نہیں آپ نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب سے ابن تیمیہ کا موقف پیش کیا، وہ کیا آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے خود ہی بتلایا تھا؟ آپ نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب سے پیش کیا، اور اسے آپ نے بھی تقلید نہ ہونے کی صراحت کردی، جیسا کہ آپ نےفرمایا:
میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنا میڈیکل چیک اپ کروا لیں تو بہت اچھا ہوگا۔
یار ہم کتاب سے جو موقف لیا جاتا ہے اسے مانتے ہیں، مصنف کی بات سمجھتے ہیں لیکن آپ کی طرح خود کو قاضی جیسی حیثیت (وہ اسپیشل والی حیثیت) والا محدث مان کر مصنف کی بات کو اپنی مجلس میں گواہی نہیں مانتے۔ اسے فیصلہ وغیرہ آپ کے لحاظ سے کہا تھا۔ اول تو آپ کو سامنے والے کی بات ہی سمجھ نہیں آتی۔ چلو نہیں آتی تو کوئی بات نہیں، خیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پر آپ اپنی سوچ کے مطابق عمارت بھی تعمیر کر ڈالتے ہیں۔
ویسے یہ مسئلہ صرف آپ کے ساتھ ہے یا اور بھی عوام کے ساتھ ہے جو عام ہو کر ترک تقلید کرتے ہیں؟؟؟

ماشاء اللہ! اب مقلدین بتلائیں گے کہ مجتہدین کے استدلال کی کمزوری کیا کیاہیں !! ایک مسئلہ آپ کو پیش کیا ہے، دیکھتے ہیں اس کے متعلق آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ آپ کا جواب تو مکمل ہو گیا، اور آپ نے جواب نہ دینا ہی مناسب سمجھا ، کوئی بات نہیں، کوئی زور جبر نہیں، مگر بس ایک التماس ہے کہ ایسی ''بھڑک'' مارنے سے بھی گریز کریں!

(جاری ہے)
ذرا دکھائیے تو کون سے "مجتہد" کا کون سا "مسئلہ" جناب نے پیش فرمایا ہے؟؟؟؟

اشماریہ بھائی! موضوع امام محمدؒ نہیں، امام محمدؒ تو ایک مثال ہیں، ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں یہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے۔ بہر حال یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے اور احناف میں ہے بھی متفقہ! یعنی قبول تو سب نے ہی کیا ہے!!
آپ مسئلہ پر گفتگو کرنے سے گریز فرمارہیں ہیں ، جبکہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھاکہ:

آپ چاروں فقہ میں سے کسی ایک کے مجتہد کے کسی مسئلہ اور دلیل کو تحریر فرمائیں میں آپ کو یہ چیزیں حل کر کے دکھا دوں گا ان شاء اللہ اور اگر کوئی کمزوری یا خامی معلوم ہوئی تو وہ بھی بتا دوں گا۔
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!!

لو جی! تو اب امام محمد ایک مثال ہیں صرف؟ تو پھر اتنی بحث کیوں کی تھی ان پر۔ صرف اتنا کہہ دیتے کہ مثال میں تھوڑی کمزوری معلوم ہوتی ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ کمزوری مثال کی نہ ہو۔۔۔۔) اس لیے مثال تبدیل کر دیں۔ میں امام شافعیؒ کا ذکر کر دیتا یا امام مالک کا۔
ایک چیز کی معذرت چاہتا ہوں۔ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور جامع صغیر ہیں مبسوط نہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔
اب ذرا دلیل سے اپنی اس بات کو مزین فرمائیں نا کہ "یہ مسئلہ احناف میں متفقہ ہے۔" دلیل کے بغیر تو صرف آپ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

اور ایک بات بتائیں۔ یہ مسئلہ تو علامہ مرغینانی نے ذکر کیا ہے۔ یہ آپ نے علامہ مرغینانی کو مجتہد کب سے ماننا شروع کر دیا؟؟؟ اس مسئلہ کے بارے میں تو ان چیزوں کا جواب تب مجھ پر آئے گا جب آپ علامہ مرغینانی کو مجتہد ثابت کریں گے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔
یہ نہیں کہہ دیجیے گا کہ چوں کہ ہم مجتہد مانتے ہیں اس لیے ذکر کیا ہے۔ ایک تو ہم انہیں مجتہد کے اس درجے پر نہیں مانتے (شرح عقود رسم المفتی دیکھیے) اور دوسری بات میں نے ان کا ذکر کیا ہے جنہیں سب مجتہد مانتے ہیں۔
اور میں نے تو لکھا تھا کہ مجتہد کا مسئلہ اور "دلیل" تحریر کریں تو یہ چیزیں بتا دوں گا۔ اب یہاں دلیل آپ کیوں کھا گئے۔

میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛
سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے یہ جو فرمایا کہ

تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!

اس كے لیے ایك الگ تهریڈ بنا دیں۔ امید ہے آپ کو بنانا آتا ہوگا۔ جب موقع ملے گا اس پر وہاں بات کریں گے۔
اس مسئلہ کا اس موضوع سے کیا تعلق ہے؟؟؟ (امید ہے اب ڈھونڈ کے تعلق لائیں گے۔)

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!

اشماریہ بھائی! آپ ہمیں کیا مریخ کے باسی سمجھتے ہو؟ بھائی جان ہم بھی اسی دنیا میں رہتے ہیں!! آپ نے یہ عجیب کہی کہ مجموع الفتاوی اپ کے پاس نہیں!! میرے بھائی ممکن ہے آپ کے پاس مجموع الفتاوی کی ہارڈ کاپی نہ ہو، لیکن جس سافٹ وئیر سے اپ یہ اقتباس کاپی کر رہے ہیں ، وہ غالباً المکتبة الشاملة ہے، اور اس المکتبة الشاملة میں مجموع الفتاوی بھی ہوگا، ذرا تلاش کر لیں۔ اب یہ نہ کہنا کہ یہ اقتباس اور حوالہ آپ کتاب سے دیکھ کر بمع اعراب اپنے کی بورڈ سے تحریر فرماتے ہیں!! المكتبة الشاملة سے فائدہ اٹھانے میں کوئی قباحت نہیں، یہ بہت مفید ہے، اور اس مفید سافٹ وئیر سے فائدہ حاصل کرنا چاہئے۔ میں خود بھی اسے استعمال کرتا ہوں، اور اسی سے اقتباس کو کاپی کرتا ہوں، الا یہ کہ کوئی کتاب المكتبة الشاملة میں نہ ہو، تو پھر اسے خود دم تحریر ميں لانا مجبوری ہو جاتی ہے!!

میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس قول کے متعلق صراحت تلاش کررہا تھا، مجھے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مندرجہ ذیل قول مجموع الفتاوی میں ملا ہے، جس سے یہ ثابت ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے صراحت کے ساتھ مذکورہ قول کو امام محمد سے ثابت قرار دیا ہے۔
وَثَبَتَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ - صَاحِبِ أَبِي حَنِيفَةَ - أَنَّهُ قَالَ: " اتَّفَقَ الْفُقَهَاءُ كُلُّهُمْ مِنْ الشَّرْقِ وَالْغَرْبِ: عَلَى الْإِيمَانِ بِالْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيثِ الَّتِي جَاءَ بِهَا الثِّقَاتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِفَةِ الرَّبِّ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ غَيْرِ تَفْسِيرٍ وَلَا وَصْفٍ وَلَا تَشْبِيهٍ فَمَنْ فَسَّرَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَقَدْ خَرَجَ مِمَّا كَانَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ. فَإِنَّهُمْ لَمْ يَصِفُوا وَلَمْ يُفَسِّرُوا وَلَكِنْ آمَنُوا بِمَا فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ ثُمَّ سَكَتُوا. فَمَنْ قَالَ بِقَوْلِ جَهْمٍ فَقَدْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ " انْتَهَى
ملاحظہ فرمائیں : صفحه 04 – 05 جلد 04 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 09 جلد 04 - مجموع الفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - دار الوفاء
لیکن ، اشماریہ بھائی! آپ نے غالباً میرے مراسلہ کا بغور مطالعہ نہیں کیا، آپ کے اس اشکال کا جواب میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں، اقتباس پیش خدمت ہے ، اور ان الفاظ کو ملون کر دیا ہے جو آپ کی نظر کرم کی سے شاید محروم رہ گئے ہیں:

اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا شرح اصول السنة کی جس روایت کو اپنے فیصلہ کی دلیل بنایا ہے وہ روایت انتہائی مردود ہے، کیونکہ وہ مجہول رواة پر مشتمل ہے۔ لہٰذا شیخ الاسلام کا فیصلہ غلط قرار پاتا ہے۔ اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں، امام حاکم کی مستدرك الحاكم ہی دیکھ لیں! امام ذہبی نے ان کئی احادیث کو نا قابل قبول ٹھہرایا ہے جسے امام حاکم نے درست قرار دیا۔
اور یہ بات ہم آپ کو پہلے بھی بتلا چکے ہیں، غالباً آپ بھول گئے۔ ایک بار پھر پیش خدمت ہے!!


اس کے بعد بھی اگر آپ کو کوئی اشکال ہے تو پیش کریں!!
بلکل امام طحاوی نے یہ فرمایا ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ یہ امام طحاوی کا ایک ظن ہے، جبکہ دلائل امام طحاوی ہے ظن کے خلاف ہیں!! فتدبر!

جو روایت جزم کے ساتھ کی جائے، اس کا صحیح ہونا کب سے لازم آگیا ہے؟
امام احمد بن حنبل ، امام يحیی بن معین، امام ابی حاتم، امام ابی زرعہ رحمہ اللہ عنہم کی مان لیں!!

اشماریہ بھائی! آپ کو پچھلے مراسلہ میں بھی اس سے قبل کے کی تحریر کے اقتباس پیش کر کرے یاد دلایا تھا کہ آپ سند سے مستغنی نہیں ہو سکتے!!





میرے بھائی جان! آپ کویہ کس نے کہہ دیا کہ اب سند کے رواة کی تحقیق کی ضرورت نہیں رہی، آپ کو ابھی اوپر بیان کیا گیا، کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا یہ فیصلہ کیونکر غلط ہے۔

اشماریہ بھائی آپ سے عرض کیا تو ہے کہ آپ ان راواة کا پہلے تعارف تو کروادیں، جو شرح اصول السنة کی سند میں ہیں! ان رواة کی ثقہ ہونے نہ ہونے کا تو بعد میں معلوم ہو گا!!

(جاری ہے)

اگر واقعی یہ بات ہے کہ:
شماریہ بھائی! موضوع امام محمدؒ نہیں، امام محمدؒ تو ایک مثال ہیں
تو ٹھیک ہے میں اس مثال کو تبدیل کر دیتا ہوں۔ میں نے عرض کیا تھا:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
میں اسے تبدیل کر کے کہتا ہوں:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام مالکؒ كا یہی طرز المدونۃ الکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟

اب ٹھیک ہے؟
اب امام محمدؒ کی ذات پر اگر آپ نے بحث کرنی ہے تو ایک اور تھریڈ بنا لیجیے۔ موجودہ تھریڈ سے فارغ ہو کر وہاں بحث کر لیں گے۔

آگے چوں کہ آپ نے امام محمدؒ کے بارے میں بحث کی ہے اور میں مثال تبدیل کر چکا ہوں اس لیے اس بحث کو آپ نئے تھریڈ میں منتقل کر سکتے ہیں۔ یہاں اس پر بات کرنے کی مزید ضرورت نہیں رہی۔

اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!
ایک بار پھر سوال عرض ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔

اب اگر آپ دلیل بھی نہیں دے سکتے اور فرق بھی نہیں بیان کر سکتے اور لغت سے کوئی حوالہ بھی نہیں دے سکتے تو پھر یہاں آپ (معذرت کے ساتھ) کیا بحث برائے بحث کے لیے تشریف لائے ہیں؟

اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا
ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اب ذرا آپ دوبارہ اپنی تفصیل کو وضاحت سے بیان فرما دیجیے۔ کیوں کہ عبارت سے تو یہی پتا چل رہا ہے کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع اور قاضی کا عدول کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے کیوں کہ یہ (رجوع کرنا) نص سے ثابت ہے۔ عبارت میں یہ کہاں سے ثابت ہو رہا ہے کہ اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہوگا تو تقلید ٹھہرے گا اور اگر اس کے علاوہ انہوں نے قرآن، حدیث، اجماع سے استنباط کیا ہو یا انہوں نے دو معارض احادیث کے درمیان تطبیق دی ہو یا انہوں نے ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیا ہو تو یہ تقلید نہیں ہوگا؟؟
فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی

نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟

اور اب بتی والی بات نہیں کر دیجیے گا۔
اور ایک مہربانی اور اگر کر دیں اور اپنے ذکر کردہ شعر کی تقطیع کر دیں (ابتسامہ)۔۔۔۔۔

سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!
ذرا تحمل سے مطالعہ فرمائیں! وہاں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ تلویح کے حوالہ سے کس بات کا اثبات کیا گیا ہے!
تھوڑا سا تحمل آپ اختیار کر کے اس کی خود ہی وضاحت فرما دیں۔ ایسا نہ ہو کہ جناب کا مدعی میں غلط سمجھ بیٹھوں۔

آپ تو ناراض ہوگئے، نہیں جناب اللہ اپ کو ہمیشہ مسکراتا رکھے، مگر اس کا خیال رکھیں کہ:
میں مسکرایا تو کیا کرو گے!!
خیریت؟؟؟ دانت صاف نہیں کرتے کیا؟؟؟

بھائی جان! اصطلاحات کی متعدد تعریفات، مختلف تناظر میں کی جاتی ہیں! میں کیوں خواہ مخواہ اب ایک نئے مسئلہ میں الجھوں! اشماریہ بھائی! میں نے آپ کو پہلے بھی عرض کیا تھا کہ میں ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے والا نہیں ہوں!
بھائی جان! آپ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں آگے بھاگ لیں۔ کوئی منع نہیں ہے۔ لیکن جو چیز مانگی ہے دوران بحث اس کا بحث سے تعلق ہے اس لیے مہربانی کر کے وہ پیش فرمائیے۔ بحث ہو رہی ہے تقلید پر اور آپ اسی کی تعریف پیش کرنے سے انکاری ہو رہے ہیں۔

بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!
اشماریہ بھائی! بلکل یہ بات اپ نے بہت اچھی کہی کہ قارئین بھی دیکھتے ہون گے، لہٰذا میں قارئین کو اپنے طرز کی دلیل بھی بیان کردیتا ہوں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَغَيْرُهُ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ ، وَلَا هَامَةَ " ، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ : يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا بَالُ إِبِلِي تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيَأْتِي الْبَعِيرُ الْأَجْرَبُ فَيَدْخُلُ بَيْنَهَا فَيُجْرِبُهَا ، فَقَالَ : فَمَنْ أَعْدَى الْأَوَّلَ ، رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَسِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحو ست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ کہ یا رسول اللہ ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہوگیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہر نوں کی طرح ( صاف اور خوب چکنے ) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آجاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی ؟
صحيح البخاري » كِتَاب الطِّبِّ » باب لَا صَفَرَ وَهُوَ دَاءٌ يَأْخُذُ الْبَطْنَ
میں نے دلیل تو بیان کردی، مگر اب مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اشماریہ بھائی مجھ پر یہ الزام نہ لگا بیٹھیں کہ یہ عمل تو آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، آپ یہ کیسے کر رہے ہیں! اور پھر اشماریہ بھائی نے مجھ سے اس حدیث کی دلالت پر سوال اٹھانے شروع کردیئے کہ وہ تو اونٹ کے متعلق سوال تھا، حدیث پر عمل کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے اونٹ پالو! وغیرہ وغیرہ!
لیکن الحمدللہ! میری بچت یوں ہو گئی کہ میں نے یہ دلیل قارئین کے لئے بیان کی ہے! وگرنہ اشماریہ بھائی نے تو مجھے ۔۔۔۔ باقی قارئین سمجھدار ہیں!
ایک بار پھر سوال گندم اور جواب چنا۔
دوبارہ سوال عرض ہے اس درخواست کے ساتھ کہ سیدھا سادہ جواب دیجیے بغیر گھمائے پھرائے۔
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔

جی میں نے یہ اسی جگہ پڑھا بھی تھا، وہاں آپ نے کچھ حد تک اچھی بات کہی تھی، لیکن پھر بھی کچھ حد تک، اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ جب کوئی شخص جس سے میں اختلاف بھی رکھتا ہوں کوئی اچھی بات کہے تو اس کی کو زچ کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، لہٰذا میں نے اسی کو بہتر جانا کہ چلو کم از کم جامد تقلید کو تو اشماریہ بھائی نے مذموم ٹھہرا دیا، لہٰذا باقی ان کے لئے دعا کی جائے!
اشماریہ بھائی، معاملہ کچھ یوں ہے کہ آپ نے جس خیال پر مجھے ڈاکڑ کے پاس جانے کا مشورہ دیا تھا، اسی کو محمود الحسن دیوبندی صاحب واجب قرار دے رہے ہیں! آپ نے اس پر تبصرہ نہیں کیا، کوئی بات نہیں! کیونکہ یہ ہمارا کوئی مناظرہ تو ہو نہیں رہا، ہاں اگر مناطرہ ہوتا تب تو میں نے آپ کو اسی پر باندھ کر رکھنا تھا! ہم نے بہر حال آپ کو بتلا دیا ہے، باقی اس کا جواب اگر آپ دینا چاہیں تو خود دیں، اور اگر ماضی ميں آپ نے اس پر کچھ کلام کیا ہے تو آپ خود تلاش کر کے پیش کر دیں!
ہمارا مناظرہ نہیں ہورہا تو میں بھی اس پر وقت کیوں ضائع کروں؟

اشماریہ بھائی! اللہ کی توفیق سے میں کوئی بھی حوالہ سیاق و سباق کے بغیر دیکھے بغیر پیش نہیں کرتا، خواہ وہ کسی اہل الحدیث عالم کی کتاب میں بھی پڑھا ہو! کیونکہ جب میں کوئی حوالہ پیش کروں گا تو اس پر جو تمہید اور نقد لکھوں گا، تو مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ اس عبارت کا سیاق کیا ہے؟ ان امور میں آپ مجھے بہت پکا دیکھو گے، ان شاء اللہ! اللہ کی توفیق سے۔
بھائی جان! میں نے کب کہا کہ آپ حشویہ کی تقلید کرتے ہو، یا قابیل کی تقلید کرتے ہو! یا کسی شیعہ مرجع کی تقلید کرتے ہو!
مگر بھائی جان! گو کہ یہ سب تقلید الگ الگ کی کرتے ہیں، مگر نفس تقلید میں تو یہ ایک دوسرے کے بھائی ہوئے نا! مقلد شیعہ بھی، مقلد بریلوی بھی ، مقلد دیوبندی بھی، مقلد حشویہ بھی!
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے جانور کہ فہرست میں ''مقلدین '' کو شمار کیا ہے، یا ''غیر مقلدین'' کو؟
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے اپنا دماغی علاج کروانے کا ''مقلدین'' کو کہا ہے یا ''غیر مقلدین'' کو؟
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
جناب عالی! دبوسیؒ نے یہاں حجج مضلہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ان چیزوں کا جنہیں مناظرہ میں بطور دلیل کے پیش کیا جائے اور وہ گمراہ کریں۔
جیسے میں مناظرہ کے دوران آپ کو کہوں کہ آپ فلاں چیز پر دلیل بیان کریں اور آپ کہیں کہ بس فلاں نے کہا ہے اور فلاں کا کہنا میرے لیے دلیل ہے، تم بھی مانو۔ تو ایسی تقلید اور ایسے الہام کے پیش کرنے کا ذکر دبوسیؒ نے یہاں کیا ہے۔ اور جناب نے یہ تقلید کے کرنے پر لا چسپاں کیا!

دبوسی نے یہاں مقلدین کو جانوروں کے شمار نہیں کیا بلکہ قائل بالتقلید یعنی مناظرہ میں تقلید کو بطور دلیل پیش کرنے والے کو شمار کیا ہے۔

شماریہ بھائی! آپ بھی ہو بڑے شرارتی! شرارت آپ کرتے ہوں پھر جب ہم جوا ب دیتے ہیں تو فورم کی انتظامیہ کو پکارتے ہو!
مجھے تو خیر یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال بھی ہے، نہ میں کسی مبین اختر کو جانتا ہوں، ویسے آپ کو بڑی خبر ہے! لیکن آپ کو خبر نہیں ہے تو اپنے حنفی علما کی نہیں! آیئے ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آپ کے حنفی علماء اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں:
پھر کیا زلق لگانا جائز ہے۔ تلخیص جواب عینی وغیرہ یہ ہے کہ جس شخص نے اس سے شہوت کا مزہ چاہا تو یہ حرام ہے، چنانچہ مشائخ نے حدیث لکھی کہ ناكح اليد ملعون، ہاتھ کا جماع کرنیوالا ملعون ہے، اور زیلعی رحمہ اللہ نے بعض بزرگوں سے ذکر کیا ہے کہ محشر میں بعضوں کے ہاتھ حاملہ ہونگے۔ تو میرا گمان یہ ہے کہ یہی زلق لگانے والے ہوں گے۔ بالجملہ شہوت پرستی سے یہ فعل بالاتفاق حرام ہے اور اگر اسنے اس سے غلبہ شہوت کو دبانا چاہا در حال یہ کہ اس کو حلال جماع میسر نہیں ہے۔ تو شیخ ابوبکر الاسکاف نے کہا کہ اسکو ثواب ملے گا۔ فقیہ ابو اللیث نے کہا ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت آئی کہ اس کو یہی بہت ہے کہ برابر چھوٹ جاوے، لہٰذا مشائخ نے کہا کہ امید ہے کہ عذاب نہ ہو۔ انزاری رحمہ اللہ نے غابۃ البیان میں کہا کہ میرے نزدیک قول ابو بکر الاسکاف صحیح ہے۔ عینی رحمہ اللہ نے کہا کہ امام احمد سے اجازت اور جدید قول شافعی میں حرمت ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ یہاں یہ اشکال وارد ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وغیرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اختصاء کی اجازت چاہی تھی اور مخنث ہو جانا مقصود نہ تھا کیونکہ اسکی نفيحت تو بدیہی ہے بلکہ کمی شہوت پس اگر زلق جائز ہوتا تو یہ مقصود حاصل ہو جاتا لہٰذا صحیح وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے اور شیخ ابو بکر رحمہ اللہ وغیرہ کے قول میں تاویل یہ ہے کہ اگر اجنبیہ عورت سے تخلیہ ملا کہ خوف زنا ہے، پس اس نے زلق سے مادہ مہیجہ نکال دیا تو اِس حالت میں روا بلکہ امید ثواب ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 1112 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مکتبہ رحمانیہ، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 893 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

کیا یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ ابو بکر الاسکاف الحنفی اور اور انزاری الحنفی نے تو کنوارے ہونے کی صورت میں، اس زلق لگانے یعنی مشت زنی کو کارِ ثواب قرار دیاہے، اس پر تفصیل بیان کرنے کی نہ میری خواہش ہے ، اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا! مگر اتنا بتلا دوں کہ ان مسائل میں نہ الجھنا!
بہر حال یہ ڈاکٹر صاحب فقہائے احناف سے متاثر معلوم ہوتے ہیں!

ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے
صاحب! اگر رکھتے خبر پہلے
لو جی ایک بار پھر ترک تقلید کا دعوی ہے بغیر فہم فرق کے۔
یار میں نے کہا ہے کہ وہ صحت کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ اور جناب نے شرعی مسائل میں کلام شروع کر دیا۔ آپ کو فرق نظر نہیں آتا کیا صحت اور شریعت میں؟؟؟


جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .
قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.
وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور

میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''
مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''

ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ دونوں ضمیروں کا مرجع بتا کر ذرا واضح ترجمہ فرما دیجیے!
تیسری بھی متصل بعد ہے لیکن دو ہی کافی ہیں۔ (امام ابو یوسفؒ کا آپ کا ذکر کردہ جملہ یاد آگیا۔۔۔۔ ابتسامہ)

اشماریہ بھائی! آپ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لے ہی لیں! تا کہ آپ کو استفسار اور اعتراض کا فرق سمجھ آجائے!
بھائی جان تو میں نے کب کہا تھا کہ آپ نے آیت سے استدلال پیش کیا ہے؟؟؟
یہ آپ نے کیا فرمایا تھا؟
اشماریہ بھائی! ایک تو آپ اپنا کلام بھی بھول جاتے ہو!
جناب والا! یہ میں نے کس بات کے جواب میں عرض کیا تھا؟ یقینا آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا!
ایک عجیب بات آپ نے اور کردی کہ جو تورات لائی گئی تھی اس کی تائید قرآن کریم نے کی ہے۔ قرآن کریم نے تو اسے محرف قرار دیا ہے!
بات کہیں ہو رہی ہوتی ہے آپ کہیں لے جاتے ہیں۔ پھر دعوی ہے ترک تقلید کا۔

شماریہ بھائی! آپ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لے ہی لیں! تا کہ آپ کو استفسار اور اعتراض کا فرق سمجھ آجائے!
اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ آپ یہاں میرے ساتھ بحث فرما رہے ہیں نا۔ فرق اور میری بات پر اس کا انطباق باحوالہ پیش فرمائیے۔ ممنون ہوں گا۔

اشماریہ بھائی! اب اگر آپ نہیں سمجھ پاتے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے بھائ!
ضیا کو تیرگی اور تیرگی کو ضیا سمجھے
پڑیں
پتھر سمجھ ایسی پہ وہ سمجھے تو کیا سمجھے
آپ کا قصور یہ ہے کہ آپ سیدھا اور واضح جواب نہیں دیتے۔ آپ یہاں اپنے علم و فضل کی نمائش کے لیے نہیں بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے مہربانی کر کے باتوں کو ادھر ادھر نہیں گھمایا کریں۔
اور ایک بار پھر متادبانہ عرض ہے کہ بندہ کو آپ کے اشعار کی بحر نہیں مل رہی۔ اس لیے تقطیع تحریر فرما کر مشکور ہوں۔

شماریہ بھائی! ہیں تو بہت سے حکیم جنہوں نے ہمیں یہ بتاتا ہے ، ان میں سے دو حکیموں کے نام ان کی کتابیں اور ان کی عبارت اسی نسخہ کی پیش کی ہیں! ان دو حکیموں کے نام دہرا دیتا ہوں؛
شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي
أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني
اشماریہ بھائی! اس اٹکل لڑانے سے قبل آپ اگر ہمارے پیش کردہ حوالہ کو بغور پڑھ لیتے تو بہتر تھا، وہاں آگے امام الذہبی ؒ نے فرمایا ہے:
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن

عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافط'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
اور ہمارے اشماریہ بھائی! اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں!!
اشماریہ بھائی! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!

اب تو لگ رہا ہے کہ میں اٹکل پچو لڑا رہا ہوں یا نہیں آپ اپنی بات بچانے کے لیے ایسا ضرور کر رہے ہیں۔
یار میں نے کہا تھا:
عمر بن ہارون پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے نہ ان پر میری کوئی تحقیق ہے لیکن عرض کرتا چلوں کہ وہاں الفاظ ہیں: علی ضعف فیہ۔ اور ضعف کی تنوین تقلیل کے لیے ہے جیسے کہ سباق کلام سے ظاہر ہے۔ معنی ہوا: وہ اپنے میں تھوڑے سے ضعف کے باوجود حافظ الحدیث، امام، مکثر وغیرہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ ایک شخص میں یہ تمام صفات ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت ضعف ہونا ممکن ہے۔ کوئی انسان بھی کامل نہیں ہوتا۔
یا تو آپ پوسٹ پڑھتے نہیں ہیں یا پھر بھول جاتے ہیں۔ ذہبیؒ نے کہا: اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔ تو میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ان میں تھوڑا بہت ضعف ہونا اور حافظ ہونا ایک ساتھ ممکن ہے۔

امام ابن حجر العسقلانی ؒنے تقريب التهذيب عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة]
ذرا متروک کا سبب دیكهیے:
والقسم الثاني من أقسام المردود: -وهو ما يكون بسببِ تُهمة الراوي بالكذب- هو المتروك.
نزهۃ النظر ۱۔۲۵۵ ط مكتبۃ المدینۃ
یعنی متروك كا سبب یہ ہوتا ہے کہ راوی پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہوتی ہے۔ یہ جرح ہے راوی کی عدالت پر۔
جبکہ حافظ راوی کی توثیق ہے اس کے حفظ میں۔ نہ کہ اس کی عدالت میں۔
آپ کہتے ہیں کہ حافظ کلمہ توثیق نہیں ہے ورنہ ابن حجر عسقلانیؒ متروک نہ قرار دیتے۔ ماشاء اللہ اہل حدیث ہو کر اصول حدیث کے میدان میں اٹکل پچو لڑائے جا رہے ہیں۔
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔

آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:
ابن خِراش: الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي.
میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
لو جی! ایک بار پھر وہی کام!!!
ابن داود بھائی آپ کے اس طرح کے "علوم" آپ کے طبقے میں ہی چلیں گے یہاں نہیں۔ میں آپ کی طرح اہل حدیث کا نام نہیں رکھتا لیکن الحمد للہ جو حدیث کے اصول پڑھے ہیں انہیں گہرائی میں جا کر پڑھا ہے۔
یہاں پھر حافظ کا ذکر دلالت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ قوت حفظ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذہبی نے اس کا کہاں انکار کیا ہے؟؟
ذہبی نے کہا ہے: قُلْتُ: هَذَا مُعَثَّر مَخْذُول، كَانَ علمه وَبَالاً، وَسعيه ضلاَلاً نَعُوذ بِاللهِ مِنَ الشَّقَاء. (سیر)
ان کے علم کو تسلیم کر کے کہا ہے کہ علم تو تھا (حافظہ کی قوت نے علم محفوظ رکھا تھا) لیکن وبال تھا (جو تھا وہ درست نہیں تھا۔ غلط باتیں محفوظ کی ہوئی تھیں)
اور جناب نے جو جرح پیش کی ان کے رافضی ہونے کی تو اس جرح کا تعلق عدالت سے ہے یا حفظ سے؟؟؟
رفض بدعت کی ایک قسم ہے اور اس کا تعلق عدالت سے ہے۔ یعنی ایک شخص کا حافظہ تو قوی تھا لیکن اس میں بدعت تھی۔ اس میں کوئی منافاۃ نہیں۔

اور اگر آپ کے اصول کے مطابق یوں کہیں " ایک شخص حافظ تو ہے لیکن ضعیف ہونے کی وجہ سے اس کا حافظہ قوی نہیں ہے" تو کیا اسے کوئی عاقل (آپ کو شامل نہیں کریں تو) تسلیم کرے گا۔

ایک بار پھر عرض ہے:
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔

جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!
امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة

جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام'' کہا ''رحمه اللہ'' کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان''وہ'' النعمان'' نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
نہ جانے اس کی وجہ تعصب ہے، قلۃ فہمی، اپنی بات منوانے کی کوشش۔ میں نہیں جانتا۔
علامہ ذہبی نے نعمان کو امام قرار دیا ہے اپنی رائے میں اور آگے دیگر لوگوں کی آراء پیش فرمائی ہیں اپنی نہیں۔ کیا آپ کو "قال ابن عدی، قال النسائی، اور قال ابن معین" نظر نہیں آ رہا؟
پھر بھی کہتے ہیں:
امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
استغفر اللہ۔
کاش کہ آپ نے مقدمہ المعلق میں یہ ہی پڑھ لیا ہوتا کہ ذہبی نے اس میں پانچ قسم کے لوگوں کو ذکر کیا ہے۔ ان میں سے ایک طبقہ ثقات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ المغنی اور دیوان ان دونوں میں علامہ ذہبی نے علماء کے اقوال جمع کیے ہیں۔ اپنی رائے بہت کم ذکر کی ہے۔ کیا ذہبی کا کسی کو اس میں ذکر کرنے کا یہ مطلب ہوگا کہ ذہبی اس کو ضعیف سمجھتے ہیں جب کہ ذہبی نے دیگر جگہوں پر توثیقی کلمات بھی بیان کیے ہوں؟ یعنی ذہبی کی خود تصریح بھی قبول نہیں ہوگی کیوں کہ جناب کو پسند نہیں ہے؟؟؟
مجھے تو مشورہ دیا تھا جناب نے ہوش و حواس کا، خود کیا ہوش و حواس کھو دیے تھے؟
میرے بھائی! آپ کے ان افعال پر ہو سکتا ہے کہ آپ کے ہم مذہب و مشرب بغلیں بجائیں کہ ابن داود اتنی زبردست جرح ذکر رہا ہے لیکن یہاں ان کا چلنا مشکل ہے۔ مجھے علم الحدیث کا میدان بتانے والے خود اٹکل پچو کیا بھان متی کا کنبہ جوڑ رہے ہیں۔ بات ایک کی لے کر دوسرے پر فٹ کر رہے ہیں۔

اشماریہ بھائی! اسی لئے تو کہتا ہوں: یہ فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں، یہ علم الحدیث کا میدان ہے۔ آپ کے ان اٹکل کا جواب پہلے گذر چکا ہے!
ابن داود بھائی! ایک بھی چیز کا سیدھا جواب نہیں ملا!
سہ بارہ عرض کرتا ہوں:
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔

وہ تو قارئین خود نتیجہ اخذ کر لیں گے، ویسے ابھی اوپر امام الشافعی رحمہ اللہ کے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ اور اہل الرائے پر نقد کے مزید حوالہ بیان کئے گئے ہیں!

(اللہ کی توفیق سے جواب مکمل ہوا، الحمد للہ !)
ویسے تو آپ کے پیش کردہ "نقد" کا بہت خوبصورت جواب تھا لیکن چوں کہ میں نے مثال میں تبدیلی کر دی ہے اس لیے یہ اب موضوع سے غیر متعلق ہو گیا ہے۔ جو نیا تھریڈ آپ بنائیں گے اس میں اس پر بات کریں گے ان شاء اللہ۔

آپ کا جواب تو مکمل ہوا لیکن میرا جواب جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اب تک یہ سوالات ایسے ہیں جن کا جناب والا نے جواب نہیں دیا۔ یا حکمت چین حجت بنگال کا نعرہ لگایا ہے، یا مثالیں دینے کی کوشش کی ہے اور یا ادھر ادھر کی باتیں کی ہیں۔
محترم ابن داود بھائی! اس بحث کو حل کرنے کے لیے ان سوالات کے جوابات مجھے اور قارئین کو مطلوب ہیں۔ اور گھماؤ پھراؤ نہیں۔۔۔۔۔ سیدھے اور واضح جوابات۔ جن میں ابہام نہ ہو۔
اگر جناب یہ جوابات عنایت نہیں فرماتے تو پھر مجھے بامر مجبوری انتظامیہ کو بلانا پڑے گا (جس کے آپ خود ایک رکن ہیں۔۔۔۔۔ ابتسامہ) کیوں کہ فضول بحث برائے بحث کا وقت آپ کے پاس تو ہوگا ہمارے پاس نہیں ہے۔

1:قاضی کو تو حکومت وقت مقرر کرتی ہے۔ وہ خود بخود یا لوگوں کے بنانے سے سے قاضی نہیں بن جاتا نہ ہی علم حاصل کرنے سے۔ یہاں محدث کو قاضی کی سی حیثیت کس نے دی؟
جناب نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے دی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس حدیث یا آیت میں یہ آیا ہے کہ اس کی حیثیت قاضی جیسی ہے؟؟؟

2:دوسرا سوال یہ کہ قاضی کے سامنے تو گواہ ہوتے ہیں یا یمین۔ یہ کیسا قاضی ہے جو سالوں پہلے گزرے ہوئے لوگوں کے اقوال سے دنیا کے سب سے عظیم شخص کی جانب اقوال کو منسوب کر رہا ہے؟ نہ تو تزکیہ ہوا نہ تعدیل۔ کتابوں میں لکھے اور استادوں سے سنے ہوئے اقوال کی بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ؟؟
اس کے جواب میں جناب نے کہا کہ الفاظ گواہی کے مقام پر ہیں۔ اور دلیل میں آگے جا کر رجم والی حدیث پیش کر دی۔ لیکن اس سے استدلال پر سوالات (جو آگے مذکور ہیں) ابھی تک حل نہیں کیے۔

3: امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام مالکؒ كا یہی طرز المدونۃ الکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
(یہ مثال کی تبدیلی کے ساتھ سوال عرض ہے۔)

4: جیسے اس آیت سے محدث کے حدیث پر صحیح ہونے کے حکم کو بلا دلیل ماننا ثابت ہے اسی طرح مجتہد کے کسی مسئلے میں حکم کو بلا دلیل ماننا بھی ثابت ہے؟
یا یوں کہہ لیں کہ امام بخاری کا اپنی صحیح میں حدیث کو ذکر کرنا اس آیت کے ذریعے اس کے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے اسی طرح امام مالک کا مسئلہ کو ذکر کرنا اسی آیت سے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے؟
(سوال مثال کی تبدیلی کے ساتھ)

5: آپ کے ایک جملہ پر جسے ہائیلائٹ کر رہا ہوں دو سوال عرض کیے تھا:
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
اول: تو جس جس کے کہنے پر تسلیم کیا جاتا ہے وہ کب ایک ایک راوی کی تحقیق شہادت و قضا کے اصولوں کے مطابق ہر حدیث کے تحت لکھتا ہے؟ وہ تو صرف اپنا فیصلہ بتاتا ہے بلا دلیل۔
دوم: امام بخاری محدث ہیں اور محدث کی گواہی نہیں یہ اس کا فیصلہ ہے جو آپ کے بقول اس نے قاضی کی سی حیثیت سے کیا ہے۔ اس فیصلہ کے دلائل کہاں ہیں؟؟ اور بغیر دلیل کے ماننا کیا ہے؟؟؟

6: جو دلیل آپ نے حدیث سے دی تو اس میں قاضی تو نبی ﷺ ہیں لیکن وہ گواہ کون ہے جس کی کتاب سے گواہی دی جا رہی ہے اور اس نے کتاب میں وہ گواہی لکھی ہے؟

7:فیصلہ کرنے میں محدث کی حیثیت قاضی جیسی ہے ؟ نہ نافذ ہونے میں قاضی جیسی ہے نہ گواہوں کی مجلس قاضی میں حاضری میں۔ یہ اسپیشل حیثیت کسی دلیل سے ثابت کیجیے جس میں یہ استثناءات بھی موجود ہوں۔

8: محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔

9: ڈائریکٹ استدلال کے چار طریقے ہوتے ہیں۔ استدلال بعبارۃ النص، باشارۃ النص، بدلالۃ النص اور باقتضاء النص۔ تو یہ آپ کا استدلال کا کون سا طریقہ ہے؟

10: اور اگر یہ نہ دکھا سکیں تو یہ حدیث ظاہر ہے صرف آپ پر تو واضح ہوئی نہیں ہے اس لیے محدثین میں سے کسی سے یہ استدلال دکھائیے کہ قاضی ایسے بھی گواہی قبول کرسکتا ہے۔

11: نبی ﷺ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ تورات یا انجیل کے کسی بھی حکم کی تائید یا تردید فرما سکتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی قاضی یہ نہیں کر سکتا۔ تو جب اس معاملے میں خصوصیت نبی ﷺ کا یہ پہلو موجود ہے تو کوئی اور قاضی یہ کام کیسے کر سکتا ہے؟؟

12: اتباع سنت کے درمیان میں تورات محدث کی کتاب سے کیوں چینج ہو رہی ہے؟؟؟

13: پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔

14: فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
15: پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی

16: نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟

17: تقلید کی وہ تعریف کسی سے نقل فرمائیے جو آپ کے نزدیک درست ہو۔

18: حافظ کے معنی بیان کیجیے!
19: حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔

ان میں سے اگر کسی سوال کا واضح صریح جواب (جس پر اشکال پیدا نہ ہوا ہو) آپ کے خیال میں گزر چکا ہے تو نقل فرما دیجیے۔

(بحمد اللہ جواب مکمل ہوا۔)
 
Top