- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟
آپ فرماتے ہو کہ یہاں سے:
اشماریہ بھائی! کراچی کے ہو مگر آپ نے ناک کٹوا دی! ہم نے کہا رایوں کی تحقیق لکھنا لازم نہیں ، آپ نے اس سے سند سے ہی جان خلاصی کر لی!!
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!
اشماریہ بھائی! دراصل علم الکلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کی کلام کو سمجھنے کی مت ماری جاتی ہے! مجھے تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ نظر آرہا ہے۔
محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام مالکؒ کی روایت میں قوی قرار دینے کا معنی یہ نہیں کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ مقبول راوی ہیں، اور ان کی روایات مقبول قرار پاتی ہیں، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالک سے روایت درست قرار پائیں ہیں، کیونکہ جب محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی روایات کی تحقیق کی گئی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ ان کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات ثقہ راویوں سے بھی موجود ہے۔ یہ بس اتنی خبر ہے ، اس سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار نہیں دیا گیا!
اس پر تفصيلاً اوپر بحث گذر چکی ہے!
امام الذہبی ؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر مختصراً جرح بیان کر کے انہیں ضعیف قرار دے دیا، اور امام الذہبیؒ کا جروحات کے عدم ذکر سے، امام الذہبیؒ کا ان جرح کو رد کرنا لازم نہیں آتا!
اشماریہ بھائی ! بہت خوب! بہت ہی اعلیٰ!
اوپر قاضی ابو یوسفؒ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ '' تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا''
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ لسان المیزان امام الذہبی ؒ کی نہیں بلکہ امام ابن حجر العسقلانی ؒ کی کتاب ہے، اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ تو امام الذہبیؒ کے کافی بعد پیدا ہوئے ہیں، اب یہ کہنا کہ لسان المیزان میں حوالہ دیا ہے تو پڑھی بھی ہونگی، تو وہ تمام جروحات معلول ہیں تو اسی وجہ سے امام الذہبی ؒ نے قبول نہیں کیا! بھائی جان ایسا کچھ نہیں! نہ لسان الميزان امام الذہبیؒ کی کتاب ہے، نہ امام الذہبیؒ نے اسے معلول ٹھہرایا ہے اور نہ ان جروحات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے!
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافط'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
اور ہمارے اشماریہ بھائی! اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں!!
اشماریہ بھائی! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے تقريب التهذيب عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية
آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:
ابن خِراش: الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي.
میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!
امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة
جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام'' کہا ''رحمه اللہ'' کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان'' وہ '' النعمان'' نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
(جاری ہے)
اشماریہ بھائی! آپ میرے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں!! ہم نے آپ کو بتلایا تھا:میرے محترم یہ میں نے یہاں سے اخذ کر لیا!
محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
بھائی جان! یہی معاملہ ہے کہ مقلدین احناف حضرات جب امام ابو حنیفہ کے قول پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ سب چیزیں نہیں ہوا کرتی!! جب کہ اہل حدیث امام يحیی بن معین کا قول ہو، یا امام بخاری کا وہ ان تمام امور کا خیال رکھتے ہوئے، فیصلہ کرتے ہیں، اسی لئے وہ ان کے کئی اقوال کو رد بھی کردیتے ہیں!! فتدبر!!
اول تو صحيح بخاری کو صرف امام بخاری کے کہنے پر ہی صحیح تسلیم نہیں کیا جاتا، دوم کہ اگر صرف اس بنیاد پر بھی کیا جائے، تو امام بخاری کی تصحيح کی گواہی ماننا درست ہے، الا یہ کہ اس کے خلاف قرائین آجائیں، اور اس کے خلاف ایسے قرائین ثابت نہ ہو سکے!!
بھائی جان! محدث جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگاتا ہے تو وہ ان اتصال سند، عدالت الرواۃ، ضبط الراوة ، عدم علت اور عدم شذوذ کا حکم لگاتا ہے، جو اس نے کتب سے حاصل کی ہوتی ہیں یا اسے روایت ہوتی ہے۔ کسی راوی کے بارے میں جانے بغیر فیصلہ نہیں دیتا!! محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
ہاں اب یہ جو مقلدین حنفیہ نے ایک نیا اصول ایجاد کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے گمنام شیوخ ، کہ جن کا نام بھی نہیں معلوم، وہ حدیث بھی صحیح ہوگی!!
یہ ساری باتیں آپ کی یاد دہانی کے لئے دوبارہ پیش کر کے آپ سے عرض کیا تھا کہ:امام بخاری کا سند ذکر کرنا امام بخاری کی گواہی ہے، اور اس حدیث کو امام بخاری کا اپنی سند کے راویوں کی شہادت کو قبول کرنا امام بخاری کا فیصلہ، اور امام بخاری کا یہ فیصلہ ان راویوں کے ثقہ ہونے کی شہادت پر ہے، جو امام بخاری نے اپنے شیوخ سے حاصل کی۔ اور امام بخاری کے فیصلہ کی دلیل امام بخاری کی بیان کردہ سند ہے!!
اور آپ نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ سند سے مستغنی ہو گئے؟؟
آپ فرماتے ہو کہ یہاں سے:
اشماریہ بھائی! آپ کو راویوں کی تحقیق کو ذکر اور سند کا فرق معلوم ہے؟ امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں سند ذکر کی ہے، اس میں موجود رایوں کی تحقیق وہاں رقم نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ سند کی ہی کوئی حاجت نہیں! ہم نے یہاں سند سے متصل رایوں کی تحقق کے ذکر کے درج کے لزول کی نفی کی ہے، سند کی نہیں! اور اگر کسی نے مکمل سند بیان نہیں کی، تعلیقاً روایت کیا ہے، تو اس کی مکمل سند کے سامنے آجانے تک معلق احادیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی!! یا وہ کسی کتاب کا حوالہ ذکر کردے، کہ اس کی سند فلاں نے ذکر کی ہے!محدث کو ان راویوں کی تحقیق وہیں لکھنا لازم نہیں، اس کی گواہی ہی کافی ہے!!
اشماریہ بھائی! کراچی کے ہو مگر آپ نے ناک کٹوا دی! ہم نے کہا رایوں کی تحقیق لکھنا لازم نہیں ، آپ نے اس سے سند سے ہی جان خلاصی کر لی!!
سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست!
جی بھائی جان! یہ مجھے معلوم ہے، اور ابھی آگے جا کر آپ خود بھول جاؤ گے! یہی الفاظ میزان الاعتدال میں امام الذہبیؒ کے ہیں، جس سے امام ابن حجر العسقلانیؒ نے علق کیا ہے۔ایک بات تو یہ کہ لسان المیزان میں "انتہی" سے قبل کی عبارت علامہ ذہبی کی ہوتی ہے جو میزان الاعتدال سے ماخوذ ہوتی ہے۔ لہذا یہ علامہ ذہبی کا قول ہے ابن حجر کا نہیں۔
امام الذہبیؒ نے خود محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ضعیف قرار دیا، امام الذہبیؒ کی ديوان الضعفاء والمتروكين اور المغني في الضعفاء کا حوالہ اوپر گذرا!ذہبی نے سب سے پہلے ان کے بارے میں کہا ہے: احد الفقہاء۔ یہ ان کے فقہ کی تصدیق ہے۔
اس کے بعد جرح ذکر کی ہے ان کے بارے میں صرف ان الفاظ سے لينه النسائي وغيره من قبل حفظه۔ یعنی بغیر کوئی لفظ ذکر کیے انتہائی کمزور و مختصر جرح۔
یہ آپ کے اٹکل ہیں کہ دوسرے راوی پر اتنی تفصیل بیان کی ہے، محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر اتنی تفصیل بیان نہیں کی تو اس سے ثابت ہوا کہ امام الذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں!! اشماریہ بھائی! آپ ان اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے گریز کریں، امام الذہبی نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو ديوان الضعفاء اور المغني في الضعفاء میں صراحتاً ضعیف قرار دیا ہے!حالانکہ انہی سے ذرا آگے محمد بن الحسن بن زبالہ المخزومی ہیں۔ ان کے بارے میں جب جرح ذکر کی ہے تو اس طرح کی ہے:
محمد بن الحسن بن زبالة المخزومي المدني.
عن مالك وذويه.
قال أبو داود: كذاب.
وقال يحيى: ليس بثقة.
وقال النسائي والازدى: متروك.
وقال أبو حاتم: واهى الحديث.
وقال الدارقطني وغيره: منكر الحديث.
اس طرز سے ذکر یہ بتاتا ہے ذہبی کے نزدیک ان کی جرح زیادہ اہم نہیں۔
ایسی ''توثیق'' کی کچھ مثالیں عرض کی ہیں، کہ ایسی توثیق کے بعد امام الذہبیؒ نے رافضی بھی قرار دیا ہے، آگے ابن خراش کے حوالے سے ذکر آئے گا!!پھر آگے اپنا فیصلہ یوں فرمایا ہے: كان من بحور العلم والفقه۔ یہ امام محمدؒ کے علم و تفقہ میں اعلی درجہ کی توثیق ہے لیکن یہ درست ہے کہ یہ جملہ ذکاوت، علم اور تفقہ پر تو دلالت کرتا ہے لیکن ثقاہت پر دلالت نہیں کرتا۔
بلکل جناب ! یہ ممکن ہے! آپ کو سمجھنے میں مسئلہ یوں ہو رہا ہے کہ آپ کے خیال میں یہاں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے روایات میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ، فی نفسہ ثقہ ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ تحقیق یہ بتلاتی ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات درست ہیں، لہٰذا یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات میں وہ قوی ہیں، وگرنہ فی نفسہ ضعیف ہیں!اس لیے اگلا جملہ ارشاد فرمایا ہے: قويا في مالك۔ ایک شخص ایک طرف تو کذاب ہو، دنیا بھر پر جھوٹ باندھے، اس کی احادیث مقبول نہ ہوں اور دوسری طرف وہ امام مالک سے روایت میں مقبول نہیں بلکہ قوی ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟
بھائی جان! یہ آپ کو کس نے کہا کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار دیا ہے ، کیونکہ امام مالکؒ سے ان کی روایات ثابت ہیں! بالکل جناب ایسا کچھ نہیں! محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام الذہبیؒ نے مقبول قرار نہیں دیا۔اور جو وجہ آپ نے بیان کی کہ امام مالک سے ان کی روایات دوسرے طرق سے ثابت ہوتی ہیں اس لیے یہ قبول ہیں تو یہ تو صریح البطلان ہے اور اس کو میں بیان کر چکا ہوں کہ ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ کسی کذاب راوی کو صرف اس بنا پر قبول کر لیا جائے کہ اس کی بعض روایات دوسرے طرق سے ثابت ہیں۔
اشماریہ بھائی! دراصل علم الکلام پڑھ پڑھ کر لوگوں کی کلام کو سمجھنے کی مت ماری جاتی ہے! مجھے تو آپ کے ساتھ بھی یہی معاملہ نظر آرہا ہے۔
محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو امام مالکؒ کی روایت میں قوی قرار دینے کا معنی یہ نہیں کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ مقبول راوی ہیں، اور ان کی روایات مقبول قرار پاتی ہیں، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی امام مالک سے روایت درست قرار پائیں ہیں، کیونکہ جب محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی روایات کی تحقیق کی گئی ہے تو معلوم ہوا ہے کہ ان کی امام مالکؒ سے کی گئی روایات ثقہ راویوں سے بھی موجود ہے۔ یہ بس اتنی خبر ہے ، اس سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو مقبول قرار نہیں دیا گیا!
اس پر تفصيلاً اوپر بحث گذر چکی ہے!
ایں خیال است و محال است و جنوں!آگے آپ نے فرمایا کہ لسان المیزان میں ان پر اور بھی جرح موجود ہیں۔ تو ظاہر ہے میں نے جب وہاں سے حوالہ دیا ہے تو وہ پڑھی بھی ہوں گی۔ وہ تمام جروحات معلول ہیں اسی وجہ سے ذہبی نے انہیں قبول نہیں کیا۔
امام الذہبی ؒ نے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ پر مختصراً جرح بیان کر کے انہیں ضعیف قرار دے دیا، اور امام الذہبیؒ کا جروحات کے عدم ذکر سے، امام الذہبیؒ کا ان جرح کو رد کرنا لازم نہیں آتا!
اشماریہ بھائی ! بہت خوب! بہت ہی اعلیٰ!
اوپر قاضی ابو یوسفؒ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ '' تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا''
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ تو معلوم ہو گا کہ لسان المیزان امام الذہبی ؒ کی نہیں بلکہ امام ابن حجر العسقلانی ؒ کی کتاب ہے، اور امام ابن حجر العسقلانی ؒ تو امام الذہبیؒ کے کافی بعد پیدا ہوئے ہیں، اب یہ کہنا کہ لسان المیزان میں حوالہ دیا ہے تو پڑھی بھی ہونگی، تو وہ تمام جروحات معلول ہیں تو اسی وجہ سے امام الذہبی ؒ نے قبول نہیں کیا! بھائی جان ایسا کچھ نہیں! نہ لسان الميزان امام الذہبیؒ کی کتاب ہے، نہ امام الذہبیؒ نے اسے معلول ٹھہرایا ہے اور نہ ان جروحات کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے!
بالکل غلط! امام ابن حجر العسقلانی ؒنے لسان میزان میں اپنا فیصلہ بھی نقل کیا ہے۔ اور وہ وہی ہے جو امام الذہبی ؒ کا ہے، کہ محمد بن الحسن الشیبانی ؒ ضعیف راوی ہیں، ان کی امام مالکؒ سے روایات، قوی ہیں، اور امام مالکؒ سے روایات کے قوی ہونے کا مطلب آپ کو بتلا دیا گیا ہے، او امام ابن حجر العسقلانی ؒ نے دیگر جراح بھی ذکر کیں اور کسی کا بھی رد نہیں کیا، بلکہ ان کے ساتھ علق کیا ہے۔ فتدبر!ابن حجر نے اپنا فیصلہ یہاں تحریر نہیں کیا
ماشاء اللہ! اشماریہ بھائی! لفظ'' امام ''سے محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کی توثیق کشید کرنے لگے ہیں! اور کنیت کے ذکرکرنے سے توثیق کشید کرنے میں تو کمال ہی کردیا بھائی نے۔لیکن الإیثار فی معرفۃ رواۃ الآثار میں امام محمدؒ کا نام اس طرح ادب سے لفظ "الامام" اور کنیت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں:
فَإِن بعض الإخوان التمس مني الْكَلَام على رُوَاة كتاب الْآثَار للْإِمَام أبي عبد الله مُحَمَّد بن الْحسن الشَّيْبَانِيّ الَّتِي رَوَاهَا عَن الإِمَام أبي حنيفَة فأجبته إِلَى ذَلِك مسارعا ووقفت عِنْد مَا اقترح طَائِعا
بھائی جان! آپ کو بحوالہ بتلایا گیا تھا کہ ''امام'' اور ''حافظ'' وغیرہ کے الفاظ سے توثیق لازم نہیں آتی، مگر پھر بھی آپ اپنی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آتے!واضح رہے کہ اوپر آپ نے ایک راوی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کردیا ہے کہ "الحافظ" اور "الامام" تعدیل نہیں ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ دونوں الفاظ انتہائی اہم معانی رکھتے ہیں۔ الحافظ سے مراد حافظ حدیث ہوتا ہے اور الامام مقتدی کو کہتے ہیں۔ ایک جانب کسی کو الامام کہہ کر مقتدی کہیں اور دوسری جانب یہ کہیں کہ یہ مجروح ہے؟ چہ معنی دارد۔ پھر الامام کا لقب کیوں لائے تھے؟
اشماریہ بھائی! اس اٹکل لڑانے سے قبل آپ اگر ہمارے پیش کردہ حوالہ کو بغور پڑھ لیتے تو بہتر تھا، وہاں آگے امام الذہبی ؒ نے فرمایا ہے:نیز اگر ابن حجر کے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی پر جروحات قبول ہوتیں تو واضح فرما دیتے کہ راوی اصل ہی ضعیف بلکہ کذاب ہے۔ آگے رواۃ کا کیا ذکر کروں؟؟ لیکن یہ نہیں فرمایا بلکہ اپنے شوق کا اظہار فرمایا کہ میں نے جلدی سے اس کام کو قبول کیا۔
عمر بن ہارون پر گفتگو کا یہ موقع نہیں ہے نہ ان پر میری کوئی تحقیق ہے لیکن عرض کرتا چلوں کہ وہاں الفاظ ہیں: علی ضعف فیہ۔ اور ضعف کی تنوین تقلیل کے لیے ہے جیسے کہ سباق کلام سے ظاہر ہے۔ معنی ہوا: وہ اپنے میں تھوڑے سے ضعف کے باوجود حافظ الحدیث، امام، مکثر وغیرہ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان دونوں چیزوں میں کوئی منافاۃ نہیں ہے۔ ایک شخص میں یہ تمام صفات ہونے کے ساتھ ساتھ تھوڑا بہت ضعف ہونا ممکن ہے۔ کوئی انسان بھی کامل نہیں ہوتا۔ جب امام بخاری تدلیس کر سکتے ہیں (چاہے بعد میں آنے والوں نے لاکھ توجیہات کی ہوں) تو یہاں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہاں جب ضعف کثیر ہو، جب حافظہ کمزوری کی حد کو پہنچ جائے، اور جب انسان کی غلطیاں کثیر ہو جائیں تو اس وقت انسان حافظ کے درجے پر نہیں رہتا۔
عمر بن هارون الحافظ الإمام المكثر عالم خراسان أبو حفص الثقفي مولاهم البلخي: من أوعية العلم على ضعف فيه.
۔۔۔۔۔۔۔۔
قلت: كذبه ابن معين جاء ذلك من وجهين عنه، وقال مرة: ليس بشيء. وقال أبو داود: ليس بثقة. وقال النسائي وجماعة.
متروك. قلت لا ريب في ضعفه.
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 340 - 341 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 311 – 312 جلد 01 - تذكرة الحفاظ - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي -دائرة المعارف النظامية ، حيدرآباد، دكن
عمر بن ہارون کا امام الذہبیؒ نے ''الحافط'' بھی کہا ''امام'' بھی کہا '' من أوعية العلم'' بھی قرار دیا، اور ان تمام القابات کے باوجود فرمایا:
قلت لا ريب في ضعفه
میں کہتا ہوں اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں!!
اور ہمارے اشماریہ بھائی! اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہیں!!
اشماریہ بھائی! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
امام ابن حجر العسقلانی ؒنے تقريب التهذيب عمر بن هارون کو متروک قرار دیا، اور اس کے ساتھ یہ بتلایا کہ وہ نویں طبقہ کے حافظ ہیں۔ لہٰذا ''حافظ'' کلمہ توثیق نہیں۔ اگر یہ کلمہ توثیق ہوتا تو امام ابن حجر العسقلانی، اسی جملہ میں عمر بن هارون کو متروك قرار نہ دیتے۔
عمر ابن هارون ابن يزيد الثقفي مولاهم البلخي متروك وكان حافظا من كبار التاسعة مات سنة أربع وتسعين [ومائة] ت ق
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 417 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار الرشيد – سوريا
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 728 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - دار العاصمة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 459 جلد 01 - تقريب التهذيب - ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية
آیئے ہم آپ کو اس کے مزید ثبوت پیش کرتے ہیں:
امام الذہبیؒ سير أعلام النبلاء میں ابن خراش کا تعارف یوں فرماتےہیں:
ابن خِراش: الحَافِظُ، النَّاقِد، البَارع أَبُو مُحَمَّدٍ عبد الرَّحْمَن بن يُوْسُف بن سَعِيْدِ بن خِرَاش المَرْوَزِيّ، ثم البغدادي.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 508 جلد 13 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - مؤسسة الرسالة – بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 2250 - سير أعلام النبلاء - شمس الدين أبو عبد الله الذهبي - بيت الافكار الدولية
اسی ابن خراش کے متعلق امام الذہبیؒ ميزان الاعتدال میں موسى بن إسماعيل، أبو سلمة المنقرى التبوذكى البصري الحافظ الحجة، أحد الاعلام. کے ترجمہ میں رقم فرماتے ہیں:
قلت: لم أذكر أبا سلمة للين فيه، لكن لقول ابن خراش فيه: صدوق، وتكلم الناس فيه.
قلت: نعم تكلموا فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي.
میں(الذہبی) کہتا ہوں : ابو سلمہ کو لین ذکر نہیں کیا گیا، لیکن ابن خراش کا قول ہے کہ ابو سلمہ صدوق ہیں اور لوگوں نے ان پر کلام کیا ہے۔
میں (الذہبی) کہتا ہوں: جی ہاں ابو سلمہ کے بارے میں لوگوں نے یہ کلام کیا ہے کہ ابو سلمہ ثقہ ثبت ہیں، اے(ابن خراش) رافضی!
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 200 جلد 04 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 536 جلد 06 - ميزان الاعتدال في نقد الرجال - امام الذهبي - دار الكتب العلمية، بيروت
جب بات چل نکلی ہے تو ہم بھی وہاں تک پہنچا دیتے ہیں، جس وجہ سے ''امام'' کے لفظ سے ثقاہت کشید کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے؛ ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے ملاحظہ فرمائیے گا!
امام الذہبی ؒ اپنی کتاب دیوان الضعفاء والمتروکین میں فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمه الله، قال ابن عدي: عامة ما يرويه غلط وتصحيف وزيادات، وله احاديث صالحة،
وقال النسائي: ليس بالقوي في الحديث، کثير الغلط علي قلة روايته، وقال ابن معين: لا يکتب حديثه.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 411 – 412 ديوان الضعفاء والمتروكين - امام الذهبي - مكتبة النهضة الحديثة، مكة
جناب! اب کیا فرمائیں گے؟ یہاں امام الذہبی ؒ نے ''النعمان'' کو ''امام'' کہا ''رحمه اللہ'' کہا، اور انہیں ضعفاء والمتروکین میں شمار کرتے ہوئے ان کے ضعیف ہونے پر مہر لگا دی!اب کہیں یہ ارادہ تو نہیں کہ یہ کہہ دیا جائے کہ یہ ''النعمان'' وہ '' النعمان'' نہیں ہیں! لیکن یہ حجت بازی بھی ''امام'' سے توثیق کشید کرنے میں مفید نہ ہوگی! کیونکہ امام الذہبیؒ نے ''امام'' کہنے کے باوجود انہیں ضعیف و متروک قرار دیا ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ فقہ حنفی کے اٹکل پچّو کا میدان نہیں یہ علم الحدیث کا میدان ہے!
(جاری ہے)
Last edited: