• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جواب چاہتا ہوں.

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرے محترم بھائی۔ ایک طرف تخصص فی فقہ المعاملات کی مشکل ترین پڑھائی اور اس کے لیے مطالعہ اور دوسری طرف ان باتوں کے جوابات۔ میرے لیے مینج کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک موضوع کے تحت یہاں جتنے موضوعات شروع ہو چکے ہیں ان میں سے ایک وقت میں ایک یا دو کو حل کر لیں پھر بقایا کی جانب آ جائیں۔
اشماریہ بھائی!اللہ آپ کے لئے آسانی پیدا کرے، آپ نے میری کونسی بھینس چرائی ہے کہ میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی ہو! ایسا ان شاء اللہ آپ کی طرف سے بھی نہیں ہو گا! ہمارے مؤقف میں مخالفت ہے، اور وہ شدید ہے!بالکل میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ بہت سی باتیں شروع ہو گئی ہیں، اور ان پر ایک ساتھ گفتگو کرنا آسان نہیں، مگر یہ ساری باتیں جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا ایک سوال سے تین سوال اور تین سے تیس سوال نکالنے کا نتیجہ ہے!
شاید آپ میری بات سمجھے نہیں۔
تقلید کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سراسر جاہل ہے وہ صرف تقلید کرتا ہے اور کچھ نہیں کیوں کہ وہ اور کچھ کر ہی نہیں سکتا۔
دوسرا وہ شخص ہے جسے عبارت اور معانی پر عبور حاصل ہے تو وہ ان میں تو تقلید نہیں کرتا لیکن مسائل کے نہ استنباط کا ملکہ ہے نہ علم تو وہ ان میں تقلید کرتا ہے۔
تیسرا وہ شخص جسے فروع کا اور فروع کے اصول سے اخذ کرنے کا علم تو ہے لیکن اصول کے بنانے پر قادر نہیں تو وہ اصول میں تقلید کرتا ہے۔
چوتھا وہ شخص جو اصول بھی بنا سکتا ہے لیکن وہ کسی اور کے اصولوں سے متفق ہوتا ہے تو انہی کو اختیار کر کے تقلید کرتا ہے (ظاہر ہے یہ علی وجہ البصیرت ہوتی ہے۔)
یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔ تو اب ان میں سے ہر شخص کی تقلید کا درجہ مختلف ہوتا ہے۔
اشماریہ بھائی میں تو آپ کی بات پہلے بھی سمجھ گیا تھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہو اور آپ کا مدعا کیا ہے، مگر آپ کے مدعا سے متفق نہیں!
اشماریہ بھائی! اب میں آپ کو پھر آپ کے کلام کی غلطی بیان کروں گا تو آپ کہو گے کہ ہم اردو ادب پر تو گفتگو نہیں کر رہے، بلکل جناب ہم اردو ادب ہمارا موضوع نہیں مگر گفتگو ہم اردو میں کر رہے ہیں۔
آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ:
یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔
اشماریہ بھائی! آپ کی یہ بات غلط ہے، یہ آپ نے تقلید کی اقسام ہی بیان کی ہیں، اور ان کے علاوہ اور بھی ہو سکتی ہیں، اور یہ تقلید کی اقسام کی مثالیں ہیں۔ یہ درجات تقلید کی بنا پر تقلید کی قسمیں ہی ہیں۔ اور آپ کی کتب میں یہ تقسیم بالکل پائی جاتی ہیں! اب آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہوں کہ نہیں نہیں یہ تقلید کی تقسیم نہیں ہیں، تو ذرا بتائیے گا کہ یہ مثالیں کس کی ہیں؟
میں آپ کی کتب میں موجود اس تقسیم تقلید سے واقف ہوں، اب تک کی میری تحریر سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفیہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں!
مام طحاویؒ بعض کے نزدیک مجتہد فی المسائل اور بعض کے نزدیک مجتہد فی المذہب کے درجے پر ہیں (علی شرط صحۃ حفظی)۔ پہلے کا مطلب یہ ہوا کہ امام طحاوی منقول اصول و فروع میں تو اصلا کلام نہیں کرتے لیکن نئے مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور دوسرے کا مطلب یہ ہوا کہ اصول میں تو کلام نہیں کرتے لیکن فروع میں اپنا مسلک جداگانہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (اور یہ بات آسمان سے نہیں اتری بلکہ ان کی کتابوں کے تتبع سے معلوم ہوتی ہے)
اشماریہ بھائی! کیا یہ امام طحاویؒ نے خود فرمایا ہے کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المذہب؟ یقیناً یہ امام طحاوی ؒ نے خود نہیں فرمایا!
اس بات کا اختلاف ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول امام طحاویؒ کا نہیں ہے، بلکہ بعد میں آنے والے مقلدین نے اپنی طرف سے انہیں مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب میں شمار کر کے انہیں مقلدین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جب کہ جو عبارت جسے ہم نے پیش کیا ہے وہ امام طحاویؒ کا اپنا ہے! اب کسی کی بات معنی جائے؟ امام طحاویؒ کی اپنی بات مانی جائے ان کے بعد آنے والے امام طحاوی کے متعلق بیان کریں؟ہاں اگر یہ تخصیص امام طحاوی خود بیان کر دیں کہ میں مقلد تو ہوں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوں تو ہم امام طحاوی کی یہ بات ان کے متعلق مان لیں گے۔
اب جو شخص اس قدر صلاحیت رکھتا ہے اسے جب ابو عبید بن جرثومہؒ نے فرمایا:
ما ظننتك إلا مقلدا
اس کا ترجمہ کسی بھی انداز سے کریں:
میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا
میں تو آپ کو سمجھتا ہی نہیں ہوں مگر مقلد
میں تو آپ کو صرف مقلد ہی سمجھتا ہوں
بلکل جناب! ہم تو یہی کہتے ہیں کہ امام طحاویؒ مقلد نہیں، مقلد تو انہیں آپ باور کروا رہے ہیں ، کہ وہ مقلد تو ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔
تو ظاہر ہے امام طحاوی نرے مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے وضاحت کر دی کہ جس تقلید کا آپ ذکر کر رہے ہیں کہ بس ابو حنیفہ کا قول آ گیا تو میں مان لوں تو وہ میرے درجے کے شخص کا کام نہیں ہے۔ مجھے تو فقہ اور حدیث پر عبور حاصل ہے وہ تو غبی یا عصی کا کام ہے۔
یہ ہے مکمل بات۔ اگر اس میں کوئی اشکال ہے تو پیش فرمائیے۔
اشماریہ بھائی! بالکل ہم آپ کی اس بات پر اپنا اعتراض پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ یہ بات امام طحاویؒ نے نہیں کی، امام طحاوی نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اس میں یہ تخصیص آپ امام طحاوی ؒکے اپنے قول سے پیدا کرسکتے ہیں، انہوں نے اپنے نے مقلد مطلق کی نفی کی ہے اور مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوتے ہوئے تقلید کا اثبات کیا ہے۔ اپ اگر امام طحاویؒ سے یہ پیش کر سکتے ہوں تو بالکل قبول کیا جائے گا، لیکن بعد میں آنے والے مقلدین اگر امام طحاویؒ کی نیابت میں یہ بات کریں تو وہ تو قابل قبول نہیں ہو گی!
آپ نے فرمایا کہ "الا" سے تقیید پیدا کی ہے تو میں بھی مانتا ہوں۔ لیکن آپ مطلقا تقلید کا انکار اس سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالاں کہ یہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ الا کی یہ تقیید انہوں نے ابن جرثومہ کے الا کے جواب میں پیدا کی ہے۔ پوری بات سے جملے کو کاٹ کر معنی نکالنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا مطلوبہ معنی نکل ہی آئے گا لیکن پوری بات کا اپنا ایک مطلب ہوتا ہے جس کی میں نے وضاحت کر دی ہے۔
اشماریہ بھائی! جب آپ بھی یہ مانتے ہو کہ ''الا'' سے یہ تقید پیدا ہوتا ہے کہ امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! تو پھر اسے قبول کریں!
بلکل میرے بھائی! امام طحاویؒ نے ''إلا عصي'' کے کے الفاظ ادا کئے، اور ابن جرثومہ نے ''أو غبي'' کہہ کر امام طحاویؒ کے کلام ''إلا عصي'' کی توثیق کردی، اور اس میں '' غبي'' کا اضافہ کیا، ابن چرثومہ کے الفاظ میں ''أو '' اس پر دلالت کرتا ہے۔
باقی پھر وہی بات ہے کہ آپ ، امام طحاویؒ کے قول میں کہ وہ اپنے مقلد ہونے کی نفی کر رہے ہیں ، یہ تخصیص فرما رہے ہیں کہ مقلد مطلق ہونے کی نفی ہے ، اور امام طحاوی مقلد ہیں، مگر مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔ آپ کی یہ تخصیص خود ساختہ ہے، یعنی کہ آپ (اشماریہ نہیں) بلکہ جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ان کی خود ساختہ۔ اگر مقلد ہونے کی نفی کی اس تخصیص کو امام طحاویؒ نے بیان کیا ہے، تو ان کا کلام پیش کریں!مقلدین احناف کا امام طحاویؒ کے متعلق فیصلہ قبول نہیں کیا سکتا، اور بھی امام طحاویؒ کے قول کے مخالف!
اب میں آپ کو کہوں کہ یہاں آپ پر دو چیزیں لازم ہوگئی ہیں، ایک اس فرق کو بیان کرنا اور دوسرا اس پر دلیل پیش کرنا کہ ابن جرثومہ کو یہ فرق سمجھ نہیں آ رہا تھا، تو یہ کوئی مناسب بات نہیں ہوگی۔ ضد کے جواب میں پھر آخر کار یہ کرنا پڑتا ہے۔
اشماریہ بھائی! ہماری طرف سے کوئی ضد والی بات نہیں، بات تو آپ اپنی طرف سے بنا رہے ہیں! اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے! اپ ایسی باتوں پر بھی سوال اٹھا دیتے ہو، جو متفق علیہ ہیں، لیکن صرف بات کو الجھانے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے اس طرح کے سوال کر تے ہو! مگر اشماریہ بھائی! میں اپنی عمر کے تیس سال تک دیوبندی رہا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ :
عمر گزری ہےاس دشت کی سیاحی میں!

سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
بھائی جان! یہ بات اسی کلام میں موجود ہے کہ ابن جرثومہ امام طحاویؒ کو مقلد سمجھ رہے تھے، اور وہ بھی امام ابو حنیفہؒ کا، عبارت کو بغور پڑھیں!
اور امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تو کوئی کلام ہی نہیں! یہ بات تو امام طحاوی کے کلام میں کئی جگہ موجود ہے، اور اسی عبارت میں موجود ہے!
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ ۔ تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ! تو میں نے انہیں کہا کہ عصی یعنی عقل و خرد کی خرابی والےکے علاوہ اور کون تقلید کرتا ہے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ یا جاہل۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية

میرے محترم! اس سے امام طحاوی کا مقلد ہونا کیوں لازم نہیں آتا؟؟ اگر آپ یہ بات اس تقلید کے تناظر میں کہہ رہے ہیں جو آپ کے ذہن میں ہے اور جس میں عامی اور عالم برابر ہیں تو پھر تو آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن اگر آپ تقلید کی اس تفصیل کے تحت یہ بات کہہ رہے ہیں جو ہمارے نزدیک ہے تو پھر جناب من یہ آپ کی غلطی ہے۔
بھائی جان!آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ مقلدین کی یہ اقسام امام طحاویؒ نے نہیں بتائی، بلکہ یہ بعد میں آنے والے مقدین کی خود ساختہ ہے! امام طحاوی اپنے متعلق یہ کلام بعد میں آنے والے مقلدین کی کی گئی تقسیم کے تناظر میں نہیں دیکھی جائے گی، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اگر یہ بات آپ امام طحاوی ؒ کے قول سے دکھلا دیں، تو بالکل مانی جائے گی!
جناب من! امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی، اور یہ بتلا دیا کہ تقلید صرف عصی یعنی عقل وشعور سے خالی یا غبی یعنی جاہل ہی کرتا ہے!!
امام طحاویؒ تو اپنے مقلد ہونے کی نفی کر دیں، لیکن آپ انہیں زبردستی مقلد قرار دینے پر مصر ہیں!! باقی آپ نے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ کی یا آپ کے علماء کی تخلیق ہے، امام طحاویؒ نے بہر حال اپنے مقلد ہونے کی نفی بھی کردی اور تقلید کرنے والے کو عصی یعنی عقل وشعور سے خالی اور غبی یعنی جاہل قرار دیا!!
میں نے اوپر وضاحت کی ہے کہ امام طحاوی کس حیثیت سے مقلد ہیں۔ ہماری تفصیل کے مطابق ایک شخص جب ابو حنیفہ کے اصولوں کو قبول کر کے ان کے مطابق استنباط کرتا ہے تو وہ اصول میں ابو حنیفہ کا مقلد ہے اور فروع اپنے اخذ کرتا ہے یا کبھی ان کے مان لیتا ہے۔
اشماریہ بھائی! امام طحاویؒ کی مقلد ہونے کی حثیت آپ نے بیان کی ہے، جبکہ امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اگر آپ امام طحاویؒ کے قول سے بتلائیں، تو بات بنے، یہ بات اوپر تفصیلاً بیان کی ہے۔

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مدرسہ اہل الرائے کا ایک طرز معروف تھا کہ یہ تمام روایات کو جمع کرکے ان سے ایک مسئلہ اخذ کرتے تھے نہ کہ اصح ما فی الباب سے فقط۔ اس کے علاوہ صحابہ و سلف کے عمل کو بھی بغور دیکھتے تھے۔ امام طحاویؒ کی شرح معانی الآثار میں مختلف مقامات پر یہی طرز نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر امام اعظمؒ کے اصولوں کی واضح جھلک ملتی ہے۔
اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ امام طحاوی ابو حنیفہؒ کے مقلد ہیں۔
اب آپ ایسی بات کر جاتے ہو، جب ہم اس کا جواب دیتے ہیں تو بہت سی باتیں گفتگو میں شامل ہو جاتی ہیں۔ مدرسہ اہل رائے کا آپ نے جو طرز بتلایا ہے ایسا نہیں ہے، آپ نے تو معاملہ ہی الٹ کرکے رکھ دیا!
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے

اب یا تو آپ کو الٹا سمجھ آرہا ہے یا آپ کو الٹی پٹی پڑھائی گئی ہے! تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ خود لوگوں کو الٹی پڑھانا چاہتے ہیں! پہلی دو صورتوں کا علاج تو ہے کہ ہم آپ کو اہل الرائےکا اصل تعارف و حقیقت بتلا دیں اور وہ ہم کرتے ہیں، مدرسہ اہل الرائے کا طرز ہم آپ کو بتلاتے ہیں، اور وہ بھی بحوالہ ؛
علامہ شہرستانی ؒ، وہی جن کا حوالہ آپ نے ارجاء کے حوالے سے پیش کیا تھا، اور اسی کتاب'' الملل والنحل ''، جس سے آپ نے حوالہ پیش کیا تھا، اصحاب الرأي کا تعارف اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
أصحاب الرأي:
وهم أهل العراق هم: أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت. ومن أصحابه: محمد بن الحسن، وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي، وزفر بن الهذيل، والحسن بن زياد اللؤلؤي، وابن سماعة، وعافية القاضي، وأبو مطيع البلخي، وبشر المريسي.
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.

اصحاب الرائے : یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب محمدؒ ، قاضی ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، حسن بن زیادؒ ، ابن سماعہؒ، عافیہ القاضیؒ، ابو مطیع بلخیؒ اور بشر المریسی وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے متنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 جلد 02 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 - 221 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی دو کتابوں میں ان امور پر مفصل گفتگو کی ہے، ان دو کتابوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اہل الرائے کا تعارف، اور ان کا طرز استدلال اور ان کی صلاحیتوں کو بھی بیان کیا ہے، کچھ باتیں آپ کو پیش کرتے ہیں:
وَمِنْهَا أَنِّي وجدت أَن بَعضهم يزْعم أَن هُنَالك فرْقَتَيْن لَا ثَالِث لَهما، أهل الظَّاهِر، وَأهل الرَّأْي، وَأَن كل من قَاس، واستنبط فَهُوَ من أهل الرَّأْي - كلا وَالله - بل لَيْسَ المُرَاد بِالرَّأْيِ نفس الْفَهم وَالْعقل، فَإِن ذَلِك لَا يَنْفَكّ من أحد من الْعلمَاء، وَلَا الرَّأْي الَّذِي لَا يعْتَمد على سنة أصلا، فانه لَا يَنْتَحِلهُ مُسلم أَلْبَتَّة، وَلَا الْقُدْرَة على الاستنباط وَالْقِيَاس، فان أَحْمد وَإِسْحَق بل الشَّافِعِي أَيْضا لَيْسُوا من أهل الرَّأْي بالِاتِّفَاقِ، وهم يستنبطون ويقيسون، بل المُرَاد من أهل الرَّأْي قوم توجهوا بعد الْمسَائِل الْمجمع عَلَيْهَا بَين الْمُسلمين، أَو بَين جمهورهم إِلَى التَّخْرِيج على أصل رجل من الْمُتَقَدِّمين، فَكَانَ أَكثر أَمرهم حمل النظير على النظير، وَالرَّدّ إِلَى أصل من الْأُصُول دون تتبع الْأَحَادِيث والْآثَار، والظاهري من لَا يَقُول بِالْقِيَاسِ، وَلَا بآثار الصاحبة وَالتَّابِعِينَ كدواد وَابْن حزم، وَبَينهمَا الْمُحَقِّقُونَ من أهل السّنة كأحمد وَإِسْحَاق،
ان مسائل مشکلہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں نے بعض لوگوں کو پایا ہے کہ ان کا یہ خیال ہے کہ یہاں دو فریق ہیں، کوئی تیسرا فریق نہیں ہے، ایک اہل الظاہر ہیں اور ایک اہل الرائے ہیں اور ہر وہ شخص جو قیاس و استنباط کرتا ہے وہ اہل الرائے میں سے ہے، واللہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ رائے سے مراد نہ تو نفس فہم و عقل ہے اس واسطے کہ یہ ہر عالم میں موجود ہے، اور نہ وہ رائے مراد ہے جس کی سنت پر بالکل بنیاد نہ ہو اس واسطے کہ اس کو تو کوئی مسلمان بھی اپنی طرف منسوب نہ کرے گا اور نہ استنباط و قیاس پر قادر ہونا مراد ہے اس واسطے کہ امام احمد و اسحٰق بلکہ امام شافعی بھی بالاتفاق اہل الرائے میں سے نہ تھے حالانکہ وہ استنباط اور قیاس کرتے تھے، بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان مسائل کے بعد جن پر جمہور مسلمین متفق ہیں متقدمین میں سے کسی کے قول پر تخریج کرنے کی طرف توجہ کی۔
پس ان کا اکثر کام یہ ہے کہ وہ بجائے احادیث و آثار میں تتبع (تلاش و جستجو) کرنے کے ایک نظیر کو دوسری نظیر پر حمل کرتے ہیں اور اصول میں کسی اصل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اور ظاہری وہ شخص ہوتا ہے جو نہ قیاس کا قائل ہے اور نہ صحابہ و تابعین کے آثار کا، جیسے داؤد اور ابن حزم ہیں، اور ان دونوں فریق کے درمیان محققین اہل سنت ہیں جیسے امام احمد و اسحٰق۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 273 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 383 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 93 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 ۔ 65 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(بَاب الْفرق بَين أهل الحَدِيث وَأَصْحَاب الرَّأْي)
فَوَقع تدوين الحَدِيث وَالْفِقْه والمسائل من حَاجتهم بموقع من وَجه آخر وَذَلِكَ أَنه لم يكن عِنْدهم من الْأَحَادِيث والْآثَار مَا يقدرُونَ بِهِ على استنباط الْفِقْه على الْأُصُول الَّتِي اخْتَارَهَا أهل الحَدِيث، وَلم تَنْشَرِح صُدُورهمْ للنَّظَر فِي أَقْوَال عُلَمَاء الْبلدَانِ وَجَمعهَا والبحث عَنْهَا، واتهموا أنفسهم فِي ذَلِك وَكَانُوا اعتقدوا فِي أئمتهم أَنهم فِي الدرجَة الْعليا من التَّحْقِيق، وَكَانَ قُلُوبهم أميل شَيْء إِلَى أصاحبهم كَمَا قَالَ عَلْقَمَة: هَل أحد مِنْهُم أثبت من عبد الله؟ وَقَالَ أَبُو حنيفَة: إِبْرَاهِيم أفقه من سَالم، وَلَوْلَا فضل الصُّحْبَة لَقلت: علقمه أفقه من ابْن عمر، وَكَانَ عِنْدهم من الفطانة والحدس وَسُرْعَة انْتِقَال الذِّهْن من شَيْء إِلَى شَيْء مَا يقدرُونَ بِهِ على تَخْرِيج جَوَاب الْمسَائِل على أَقْوَال أَصْحَابهم " وكل ميسر لما خلق لَهُ ". {كل حزب بِمَا يهم فَرِحُونَ} .
فهمدوا الْفِقْه على قَاعِدَة التَّخْرِيج، وَذَلِكَ أَن يحفظ كل أحد كتاب من هُوَ لِسَان أَصْحَابه وأعرفهم بأقوال القَوْل وأصحهم نظرا فِي التَّرْجِيح، فيتأمل فِي كل مَسْأَلَة وَجه الحكم، فَكلما سُئِلَ عَن شَيْء، أَو احْتَاجَ إِلَى شَيْء رأى فِيمَا يحفظه من تصريحات أَصْحَابه، فَإِن وجد الْجَواب فِيهَا، وَإِلَّا نظر إِلَى عُمُوم كَلَامهم، فأجراه على هَذِه الصُّورَة، أَو إِشَارَة ضمنية لكَلَام، فاستنبط مِنْهَا ... ، وَرُبمَا كَانَ لبَعض الْكَلَام إِيمَاء أَو اقْتِضَاء يفهم الْمَقْصُود، وَرُبمَا كَانَ للمسألة الْمُصَرّح بهَا نَظِير يحمل عَلَيْهَا، وَرُبمَا نظرُوا فِي عِلّة الحكم الْمُصَرّح بِهِ بالتخريج أَو باليسر الْحَذف، فأداروا حكمه على غير الْمُصَرّح بِهِ، وَرُبمَا كَانَ لَهُ كلامان لَو اجْتمعَا على هَيْئَة الْقيَاس الاقتراني أَو الشرطي أنتجيا جَوَاب الْمَسْأَلَة، وَرُبمَا كَانَ فِي كَلَامهم مَا هُوَ مَعْلُوم بالمثال وَالْقِسْمَة غير مَعْلُومَة بِالْحَدِّ الْجَامِع الْمَانِع، فيرجعون إِلَى أهل اللِّسَان، ويتكلفون، فِي تَحْصِيل ذاتياته، وترتيب حد جَامع مَانع لَهُ، وَضبط مبهمه وتمييز مشكلة، وَرُبمَا كَانَ كَلَامهم مُحْتملا بِوَجْهَيْنِ فَيَنْظُرُونَ فِي تَرْجِيح أحد المحتملين، وَرُبمَا يكون تقريب الدَّلَائِل خفِيا، فيبينون ذَلِك، وَرُبمَا اسْتدلَّ بعض المخرجين من فعل أئمتهم وسكوتهم وَنَحْو ذَلِك، فَهَذَا هُوَ التَّخْرِيج وَيُقَال لَهُ القَوْل الْمخْرج لفُلَان كَذَا، وَيُقَال على مَذْهَب فلَان، أَو على أصل فلَان، أَو على قَول فلَان جَوَاب الْمَسْأَلَة كَذَا وَكَذَا، وَيُقَال لهَؤُلَاء: المجتهدون فِي الْمَذْهَب، وعنى هَذَا الاحتهاد على هَذَا الأَصْل من قَالَ من حفظ الْمَبْسُوط كَانَ مُجْتَهدا، أَي وَإِن لم يكن لَهُ علم بِرِوَايَة أصلا، وَلَا بِحَدِيث وَاحِد فَوَقع التَّخْرِيج فِي كل مَذْهَب، وَكثر، فَأَي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه مشهورين وسد إِلَيْهِم الْقَضَاء والافتاء، واشتهر تصانيفهم فِي النَّاس، ودرسوا درسا ظَاهرا انْتَشَر فِي أقطار الأَرْض، وَلم يزل ينتشر كل حِين، واي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه خاملين، وَلم يولوا الْقَضَاء والافتاء وَلم يرغب فيهم النَّاس اندرس بعد حِين.

اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین فرق کے بیان میں
پس حدیث، فقہ اور مسائل کو دوسرے طرز پر مدوّن کرنے کی ضرورت واقع ہوئی اور یہ اس واسطے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہ تھے جن سے ان اصول کے موافق جن کو اہل حدیث نے پسند کیا ہے استنباطِفقہ پر قادر ہوتے اور ان کو یہ پسند نہ تھا کہ علماء بلاد کے اقوال میں غور کرتے، ان کو جمع کرتے اور ان سے بحث کرتے بلکہ اس امر میں ان کو متہم سمجھا، اور ان کا اپنے اماموں کے متعلق یہ اعتماد تھا کہ وہ نہایت درجہ کے محقق ہیں اور ان کے دلوں کا میلان سب وہ سب سے زیادہ اپنے اصحاب کی طرف ہی تھا، جیسے علقمہ کا قول ہے کہ کوئی صحابی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ راسخ العلم نہیں ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا تھا ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اگر صحابی ہونے کی فضیلت نہ ہوتی تو میں یہ بھی کہہ دیتا کہ علقمہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ فقیہ ہیں لیکن ان لوگوں میں فطانت اور سمجھ اور ایک شئی سے دوسری شئی کی طرف ذہن کا سرعتِ انتقال اس درجہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اصحاب کے اقوال کے مطابق جواب مسائل کی تخریج بخوبی کرسکتے تھے، اور جس شخص کی پیدائش میں جو چیز ہوتی ہے وہ اس کے لئے سہل ہو جایا کرتی ہے (ہر گروہ اپنے اس طریقہ پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے) اس طرح پر انہوں نے تخریج کے قاعدہ پر فقہ کی ترتیب دی اور وہ یہ کہ ایک اس شخص کی کتاب کو محفوظ رکھتا تھا جو ان کے اصحاب کی زبان اور علماء کے اقوال کا زیادہ واقف اور ترجیح میں جس کی نظر سب سے زیادہ صحیح ہوتی تھی، اس واسطے وہ ہر مسئلہ میں حکم کی وجہ میں غور کر سکتا تھا پس جب کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جاتا یا اس کو کسی امر کی ضرورت پیش آتی تو وہ اپنے اصحاب کی تصریحات میں غور کرتا جو اس کو محفوظ ہوتی تھیں اگر ان میں جواب مل جاتا تو فبہا ورنہ ان کے عموم کلام کو دیکھتا اور اس مسئلہ جو اس عموم پر جاری کرتا یا کلام کے ضمنی اشارہ کو دیکھتا اور اس سے جواب مسئلہ مستنبط کر لیتا، کبھی بعض کلام میں کوئی اشارہ یا اقتضاء ہوا کرتا تھا جس سے امر مقصود و مفہوم ہو جایا کرتا تھا، اور کبھی مسئلہ مصرح کی کوئی نظیر ہوتی تھی جس پر اصل مسئلہ کو حمل کر لیا کرتے تھے اور کبھی وہ حکم مصرح کی علت میں بتخریج یا با یُسر وحذف غور کرتے تھے، اور اس کے حکم کو غیر مصرح میں ثابت کرتے تھے، اور کبھی کسی عالم کے دو قول ہوتے تھے کہ اگر ایک کو قیاس اقترانی یا شرطی کی ہیئت پر جمع کر لیتے تو جواب مسئلہ کا اس سے حاصل ہو جاتا، اور کبھی ان کے کلام میں بعض امور مثال اور تقسیم سے معلوم ہوتے تھے لیکن ان کی تعریف جامع اور مانع معلوم نہ تھی اس واسطے وہ فقہاء اہل زبان کی طرف رجوع کرتے تھے اور اس شئی کے ذاتیات حاصل کرنے میں اس کی جامع مانع تعریف مرتب کرنے میں، اس کے مبہم کو ضبط کرنے میں، اور اس کے مشکل کو ممیز کردینے میں کوشش کرتے تھے، اور کبھی ان کے کلام میں دو وجوہ کا احتمال ہوتا تھا، پس وہ دونوں میں سے ایک کو ترجیح دینے میں غور کرتے تھے، اور کبھی دلائل کی ادائیگی میں خفا ہوتا ہے پس یہ فقہاء اس کو صاف صاف بیان کردیتے ہیں، اور کبھی کبھی بعض اصحاب تخریج نے اپنے ائمہ کے فعل اور ان کے سکوت وغیرہ سے استدلال کیا ہے، پس ان طرقِ مذکورہ کو تخريج کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے قول کی اس طرح تخریج کی ہے اور کہا جاتا ہے فلاں مذہب کے موافق یا فلاں شخص کے قاعدہ کے موافق یا فلاں شخص کے قول کے موافق مسئلہ کا جواب اس اس طرح ہے اور ان تخریج کرنے والوں کو مجتہدین فی المذہب کہا جاتا ہے، اور جس نے یہ کہا ہے کہ جس نے مبسوط کو یاد کرلیا وہ مجتہد ہے تو اس سے وہی اجتہاد مراد ہے جو تخریج سے متعلق ہے اگرچہ ایسے شخص کو روایت علم بالکل نہ کو اور اس کو ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو اس طرح ہر ایک مذہب میں تخریج واقع ہوئی اور اس کی کثرت ہو گئی، پس جس مذہب کے لوگ زمانہ میں مشہور ہو گئے اور ان کو عہدہ قضاء و استفتاء ملا اور ان کی تصانیف لوگوں میں مشہور ہوئیں اور انہوں نے عام طور پر درس دینا شروع کیا تو وہ مذہب اطراف عالم میں پھیل گیا اور ہمیشہ اس کی شہرت ہوتی رہی اور جس مذہب کے لوگ گمنام رہے اور ان کو منصب قضاء وافتاء نہ ملا اور لوگوں نے ان میں رغبت نہ کی تو وہ چند روز بعد نابود ہوگیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 259 - 260 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 352 ۔ 355 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 61 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 ۔ 35 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

یہی نہیں بلکہ اہل لرائے کے اٹکل پچّو قیاسات کے متعلق فرماتے ہیں:
وَإِذا تحققت هَذِه الْمُقدمَة اتَّضَح عنْدك أَن أَكثر المقاييس الَّتِي يفتخر بهَا الْقَوْم، ويتطاولون لأَجلهَا على معشر أهل الحَدِيث يعود وبالا عَلَيْهِم من حَيْثُ لَا يعلمُونَ.
جب تم کو اس مقدمہ کی تحقیق ہو گئی تو یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ اکثر قیاسات جن پر لوگ فخر کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ جماعت اہل حدیث پر فوقیت ظاہر کرتے ہیں خود انہی کے لئے وبال ہیں جس کی انہیں خبر بھی نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 228 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 290 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی

مندرجہ بالا علامہ شہرستانی ؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریر سے کچھ باتیں عیاں ہیں کہ:
امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اہل الرائے ہیں، اور ان کے پاس بہت کم احادیث اور آثار تھے، یعنی کہ انہیں احادیث و آثار کا بہت کم علم تھا، نہ ہی ان میں اتنی لیاقت تھی کہ یہ احادیث و آثار سےمحدثین کے اصولوں کے مطابق استدلال و استنباط کر پاتے، اور نہ انہیں احادیث و آثار اور دیگر علماء کے اقوال کی تلاش و جستجو میں کوئی دلچسی تھی، بلکہ وہ اپنے استاد کے قول پر تخریج مسائل کرتے تھے۔ حتی حدیث سے بالکل جاہل یہاں تک کہ اسے ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو، وہ بھی اہل الرائے کا مجتہد فی المذہب ہو سکتا ہے، بس اسے اپنے مجتہد کے اقوال یاد ہوں!
اشماریہ بھائی!
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا
بند قبا دیکھ

اور اگر قاضی عیاضؒ کی ہی عبارت دیکھ لیتے، جہاں سے آپ نے ایک قول نقل کیا تھا، تو یہ اتنی بڑی گپ نہ چھوڑتے؛
قاضی عیاض ؒ کی مکمل عبارت یہ ہے:
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين.
ولهذا ما خالفه صاحباه محمد وأبو يوسف في نحو ثلث مذهبه إذ وجدوا السنن تخالفهم تركها لما ذكرناه عن قصد لتغليبه القياس وتقديمه أو لم تبلغه ولم يعرفها إذ لم يكن من مثقف علومه وبها شنع المشنعون عليه وتهافت الجراء على دم البراء بالطعن إليه.ثم ما تمسك به من السنن فغير مجمع عليه، وأحاديث ضعيفة ومتروكة وبسبب هذا تحزبت طائفة أهل الحديث على أهل الرأي وأساءوا فيهم القول والرأي.
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا يريد أنه تمسك بصحيح الآثار واستعملها، ثم أراهم أن من الرأي ما يحتاج إليه وتنبني أحكام الشرع عليه، وأنه قياس على أصولها ومنتزع منها.وأراهم كيفية انتزاعها، والتعلق بعللها وتنبيهاتها.
فعلم أصحاب الحديث أن صحيح الرأي فرع الأصل، وعلم أصحاب الرأي أنه لا فرع إلا بعد الأصل، وأنه لا غنى عن تقديم السنن وصحيح الآثار أولاً.

اور ابوحنیفہؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قیاس و اعتبار مقدم ہے سنن و آثار پر، اسی بنا پر انہوں نے (کئی جگہ )اصول کے نصوص کو ترک کرکے معقول سے تمسک کیا ہے، اور رائے ، قیاس اور استحسان کو (نصوص پر ) ترجیح دی ہے ؛ اور (اسی نصوص گریزی میں اتنا مبالغہ کیا کہ ) پھر (کئی ایک مقام پر ) استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیا ؛
اور بعض علماء نے استحسان کی تعریف یہ بیان کی ہے۔کہ استحسان (حکم کی علت سے صرف نظر کرکے )بے دلیل قول کی طرف جانے کا نام ہے ۔ اور یہ انتہائی قابل مذمت من پسندی ،اور خواہش پرستی ہے؛اور ایسا کرنا دین سازی اور بدعت ہے؛ حتی کہ امام شافعی فرماتے ہیں :جس نے استحسان کیا ،اس نے اپنی طرف سے دین گھڑا۔اسی لئے ان کے دو اصحاب، محمدؒ ،اور ابو یوسفؒ نے ابو حنیفہؒ کے ایک تہائی مذہب کی مخالفت کی ہے ،جہاں انہوں نے سنت کو ان کے مذہب کے خلاف پایا اس کو چھوڑ دیا ۔جیسا کہ ہم نے ابوحنیفہؒ کا عمداً قیاس کا غلبہ اور قیاس کو نصوص پر مقدم کرنا بیان کیا ، یا اس لئے بھی انہوں سنن کے مخالف رائے کو اپنایا کہ انہیں ان سنن کا علم ہی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ احادیث کے علوم و فنون کی مہارت و فطانت سے دور تھے، اور اسی سبب لوگوں نے ان کی عیب جوئی کی اور ان پر طعن کے نشتر چلے، اور جن مسائل میں انہوں نے سنت کا دامن تھاما بھی ،تو اختلافی اسانید والی احادیث کو ماخذ بنالیا، یا ضعیف و متروک روایات کو بنیاد بنایا اور اسی سبب اہل الحدیث نے اہل رائے سے علیحدگی کی راہ لی اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر ان کے بارے سخت لہجہ استعمال کیا۔
امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ :ہم ہمیشہ (اہل الحدیث ) اہل الرائے پر ،اور وہ ہم پر لعنت ہی کرتے رہے ،حتی کہ امام شافعیؒ آئے،انہوں نے ہمیں باہم ملایا، ان کا مطلب ہے کہ انہوں ایک طرف صحیح احادیث کو فقہی امور میں قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کیا ۔پھر دکھایا کہ بعض جگہ رائے (یعنی قیاس و استنباط ) کی بھی حاجت ہوتی ہے اور احکام شرع اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ رائے دراصل، احکام کا اپنے اصولوں پر قیاس ہے ،انہوں اس کی کیفیت سمجھائی اور بتایا کہ کیسے علت حکم کو دریافت کیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ (کے تدوین اصول فقہ )کے بعد اصحاب الحدیث نے سمجھا کہ صحیح رائے اصل کی فرع ہوتی ہے، اور اہل رائے نے یہ بات جان لی ۔۔کوئی فرع اصل کے بغیر نہیں ہوسکتی،اور (مصادر حکم کیلئے ) سب سے پہلےسنن اور صحیح آثار کو سب پر تقدیم دینا لازم ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - المملكة المغربية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 39 – 40 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية، بيروت

اشماریہ بھائی! اسی عبارت کو جہاں سے آپ نے ایک جملہ پیش کیا تھا، اور پوری عبارت کو دیکھ لیتے تو آپ کومعلوم ہو جاتا کہ اہل الرائے اور ان کے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا علم الحدیث کتنا تھا، اور وہ سنن وآثار کے ساتھ کیا کیا کرتے تھے، کہ اپنے قیاس کے مقابلے میں سنن و آثار کو رد کردیا کرتے تھے!
اس بارے میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قول دیکھیں:
حدثني إبراهيم، ثنا أبو توبة، عن أبي إسحاق الفزاري، قال: قال الأوزاعي: «إنا لا ننقم على أبي حنيفة الرأي كلنا نرى، إنما ننقم عليه أنه يذكر له الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيفتي بخلافه»
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا بیشک ہم قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو برا نہیں سمجھتے ،ہم سارے قیاس کرتے ہیں، ہم اس لیے اسے برا سمجھتے ہیں کہ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی جاتی ہے تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف فتویٰ دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
امام نے جس تقلیدی نظریہ و عمل کی نفی کی ہے اس کا سباق بھی تو دیکھیے۔ مخاطب کا خیال بھی دیکھیے۔ وہ تقلیدی نظریہ تو واقعی امام پر لاگو نہیں ہوتا بلکہ عصی پر لاگو ہوتا ہے۔
امام طحاوی ؒ نے تقلیدی نظریہ و عمل کی نفی کی ہے، یہ بات آپ کو تسلیم ہے، لیکن آپ کا مدعا یہ ہے کہ ایک خاص تقلیدی نظریہ و عمل کی نفی ہے، اور دوسرے تقلیدی نظریہ کی نفی نہی کی۔ آپ کی یہ بات دلیل کہ محتاج ہے، اور یاد رہے کہ ہم نے آپ کو اوپر بھی بتلایا ہے کہ یہ تخصیص امام طحاوی ؒ کے قول سے ہی کی جا سکتی ہے، آپ امام طحاوی ؒ کا وہ قول پیش کر دیں! اس کے سباق میں تو ایسی کوئی بات نہیں، اس کا بیان بھی پہلے گذر چکا ہے۔
(یہاں یہ یاد رہے کہ غبی کا لفظ تو ابن جرثومہ کا ہے امام طحاویؒ کا نہیں ہے۔ اس کی نسبت امام طحاوی کی جانب طرز کلام کی وجہ سے کی جاتی ہے کہ آپ نے بغیر نکیر کے بیان کر دیا ہے۔ جب طرز کلام یہاں حیثیت رکھتا ہے تو امام کے الفاظ و جملوں میں اسے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟)
بھائی جان! ہم نے کب کہا کہ طرز کلام کو نظر انداز کیا جائے، مگر اس کی کوئی دلیل سبیل و قرینہ بھی تو ہو! ہم نے وہاں وہ لفظ دکھلایا تھا کہ ''أو'' کے الفاظ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ''غبي'' کے الفاظ کا اضافہ کیا، اس کی توثیق امام طحاوی ؒ نے اس طرح ثابت ہے کہ امام طحاوی ؒ خود اس واقعہ کو بلا نکير اپنے بیٹے کو بیان کرتے ہیں۔ فتدبر!
آپ بھی اپنے استدلال پر ایسی کوئی دلیل و قرینہ تو پیش کریں!!جب تک آپ کے بیان کردہ تخصیص کی دلیل نہیں ، یہ مطلقاً تقلید کی ہی نفی رہے گی!
اسی کو ہم کہتے ہیں کہ بات کے طرز اور الفاظ پر غور کرنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رض سے غالبا ابن زبیر رض نے عرض کیا کہ سعی تو مستحب ہونی چاہیے نہ کہ واجب۔ کیوں کہ قرآن کے الفاظ ہیں "فلا جناح علیہ ان یطوف بہما"۔ اس پر صفا و مروہ کے چکر لگانے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ بات بالکل ٹھیک ہے الفاظ کی رو سے۔ یہی مطلب بنتا ہے۔ لیکن عائشہ رض نے فرمایا کہ اس صورت میں یہ ہونا چاہیے تھا "فلا جناح علیہ ان لا یطوف بہما"۔ یہ ہے طرز کلام کا فرق، کہ جب صحابہ کے دلوں میں بتوں کی نفرت کی وجہ سے سعی کے بارے میں کھٹکا پیدا ہوا تو کلام میں ان یطوف بہما آیا ورنہ ان لا یطوف بہما ہونا چاہیے تھا۔
بھائی جان! اسی لئے کہتا ہوں کہ علم الکلام نے لوگوں کی کلام کو سمجھنے کی مت مار دی ہے!
میں پہلے تو آپ کو وہ روایت پیش کرتا ہوں، جس کا آپ نے اشارہ کیا ہے:
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ، فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} [البقرة: 158]. فَمَا أُرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لاَ يَطَّوَّفَ بِهِمَا؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: " كَلَّا، لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، كَانَتْ: فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَطَّوَّفَ بِهِمَا، إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي الأَنْصَارِ، كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الإِسْلاَمُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} [البقرة: 158] "
صحيح البخاري » كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ » سُورَةُ الْبَقَرَةِ » بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ}

ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ( ان دنوں میں نو عمر تھا ) کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ، صفااور مروہ بے شک اللہ کی یاد گار چیزوں میں سے ہیں ۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمد ورفت ( یعنی سعی ) کرے ۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا کہ ہرگز نہیں جیساکہ تمہارا خیال ہے ۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا ۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی ( اسلام سے پہلے ) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے ، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہواتھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے ۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھا ، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ۔ ” صفا اور مروہ بے شک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں ، سوجوکوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان ( سعی ) کرے ۔ “

حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ عُرْوَةُ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْتُ لَهَا: أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} [البقرة: 158]، فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لاَ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، قَالَتْ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ، كَانَتْ: لاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَتَطَوَّفَ بِهِمَا، وَلَكِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي الأَنْصَارِ، كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ، الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَهَا عِنْدَ المُشَلَّلِ، فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا، سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [البقرة: 158]. الآيَةَ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا»، ثُمَّ أَخْبَرْتُ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَقَالَ: إِنَّ هَذَا لَعِلْمٌ مَا كُنْتُ سَمِعْتُهُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ العِلْمِ يَذْكُرُونَ: أَنَّ النَّاسَ، - إِلَّا مَنْ ذَكَرَتْ عَائِشَةُ - مِمَّنْ كَانَ يُهِلُّ بِمَنَاةَ، كَانُوا يَطُوفُونَ كُلُّهُمْ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَلَمَّا ذَكَرَ اللَّهُ تَعَالَى الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ فِي القُرْآنِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَطُوفُ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ وَإِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ فَلَمْ يَذْكُرِ الصَّفَا، فَهَلْ عَلَيْنَا مِنْ حَرَجٍ أَنْ نَطَّوَّفَ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ} [البقرة: 158] الآيَةَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: «فَأَسْمَعُ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي الفَرِيقَيْنِ كِلَيْهِمَا، فِي الَّذِينَ كَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْجَاهِلِيَّةِ بِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَالَّذِينَ يَطُوفُونَ ثُمَّ تَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بِهِمَا فِي الإِسْلاَمِ، مِنْ أَجْلِ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَ بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الصَّفَا، حَتَّى ذَكَرَ ذَلِكَ، بَعْدَ مَا ذَكَرَ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ»
صحيح البخاري » كِتَاب الْحَجِّ » بَابُ وُجُوبِ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، وَجُعِلَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ

عروہ نے بیان کیا کہ میں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ( جو سورہ بقرہ میں ہے کہ ) ” صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میںسے ہیں۔ اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں “۔ قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہئیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہئیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا بھتیجے ! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا، “ ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں “ بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لئے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے۔، احرام باندھتے تھے۔ یہ لوگ جب ( زمانہ جاہلیت میں ) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا او رکہا کہ یا رسو ل اللہ ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخرآیت تک۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دوپہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لئے کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کردے۔ انہوں نے کہا کہ پھر میں نے اس کا ذکر ابوبکر بن عبدالرحمن سے کیا توانھوں نے فرمایا کہ میں نے تو یہ علمی بات اب تک نہیں سنی تھی، بلکہ میں نے بہت سے اصحاب علم سے تویہ سنا ہے کہ وہ یوں کہتے تھے کہ عرب کے لوگ ان لوگوں کے سواجن کا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ذکر کیا جو مناۃ کے لئے احرام باندھتے تھے سب صفا مروہ کا پھیرا کیا کرتے تھے۔ اور اب اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر تو فرمایا لیکن صفا مروہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا صفا مروہ کی سعی کرنے میں ہم پر کچھ گناہ ہوگا؟ تب اللہ نے یہ آیت اتاری۔ ” صفا مروہ اللہ کی نشانیاں ہیں آخرآیت تک۔ “ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں سنتا ہوں کہ یہ آیت دونوں فرقوں کے باب میں اتری ہے یعنی اس فرقے کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف برا جانتا تھا اور اس کے باب میں جو جاہلیت کے زمانے میں صفا مروہ کا طواف کیا کرتے تھے۔ پھر مسلمان ہونے کے بعد اس کا کرنا اس وجہ سے کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کا ذکر کیا اور صفا ومروہ کا نہیں کیا، برا سمجھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے بیت اللہ کے طواف کے بعد ان کے طواف کا بھی ذکر فرمادیا۔

اشماریہ بھائی جان! آپ کا یہ کہنا کہ:
یہ ہے طرز کلام کا فرق، کہ جب صحابہ کے دلوں میں بتوں کی نفرت کی وجہ سے سعی کے بارے میں کھٹکا پیدا ہوا تو کلام میں ان یطوف بہما آیا ورنہ ان لا یطوف بہما ہونا چاہیے تھا۔
آپ کا کہنا، بالکل باطل ہے، کیونکہ اس کلام سے صفاو مروہ کا طواف یعنی سعی واجب نہ ہوتا، اور اسی بات کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ جب عروہ بن زبیر نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے استفسار کیا کہ اس آیت إِنَّ الصَّفَا وَالمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ البَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح صفا ومروہ کا طواف یعنی سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں، اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ صفا ومروہ کا طواف یعنی سعی نہ کرنے میں بھی حرج نہیں! اس پر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نکیر کی اور بتلایا کہ اس صورت میں تو یہ کلام ہوتا! کہ لاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لاَ يَتَطَوَّفَ بِهِمَا۔ مگر یہ کلام نہیں ہے! اور آپ فرماتے ہو کہ ہونا تو یہی چاہئے تھا، مگر صحابہ کے دلوں میں بتوں کی نفرت کی وجہ سے سعی کے بارے میں کھٹکا پیدا ہوا، تو فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا کے الفاظ کا نزول ہوا!
آپ کیا سعی کو واجب نہیں سمجھتے؟
اشماریہ بھائی! یہ ہوتا ہے اعتراض! اب میں بھی آپ کی طرح کے سوال اٹھا دیتا تو؟
اشماریہ بھائی! آپ بھی اس طرح اعتراض اور استدلال کا نقص بیان کیا کریں بھائی جان!

تو اسی طرح میرے محترم بھائی جب اس جگہ ابن جرثومہ نے امام طحاوی کو "صرف مقلد" کہا تو اگر امام طحاوی کسی حیثیت سے بھی مقلد نہ ہوتے تو سیدھا جواب یہی دیتے کہ میں ابو حنیفہ کا مقلد نہیں ہوں۔ مقتضی حال یہی ہے لیک خلاف مقتضی کلام جو لائے تو وہ اس وجہ سے کہ خود سے "فقط تقلید" کی نفی کر دی اور کہا کہ یہ عصی کا کام ہے اور میں اس سے تو درجہ میں آگے ہوں، میں اس سا فعل کیوں کروں؟
آپ کو اس روایت سے آپ کے پیش کردہ نکتہ کا باطل ہونا بیان کر دیا ہے۔ اور یاد رہے کہ صفا ومروہ کا طواف یعنی سعی کے وجوب پر دلیل موجود ہے، جو اس معنی کو متعین کرتی ہے کہ یہ مفہوم مرا د نہیں لیا جا سکتا کہ صفا ومروہ کا طواف واجب نہیں!
آپ بھی امام طحاویؒ کے کلام سے دلیل پیش کردیں، تو ہم مان لیں گے! لیکن اس طرح کا استدلال تو قبول نہیٖں کیا سکتا کہ آپ اپنی اٹکل سے امام طحاوی کے کلام میں تخصیص پیدا کریں۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔
میں آخر میں ایک بات کروں گا اس پر ذرا غور فرما لیجیے گا۔
اشماریہ بھائی! میں آپ پوری تحریر پر غور کرتا ہوں۔۔
یعنی اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہوا کہ۔۔۔۔۔ میں نہ مانوں کا فلسفہ جاری ہے۔ میں نے کتنی واضح بات کی ہے جو ذرا سا بھی عقل و شعور رکھنے والا سمجھ سکتا ہے اور وہ الفاظ سے ظاہر ہے جس کی میں نے وضاحت بھی کی ہے لیکن آپ اسے میری تخلیق قرار دے رہے ہیں۔
اشماریہ بھائی! امام طحاویؒ کو مقلدین میں شمار کرنے، اور مقلدین کی اقسام کرنے کی تخلیق امام طحاویؒ کو کسی حنفی مقلد کا مجتہد فی المذہب اور کسی کا مجتہد فی المسائل قرار دے کر مقلد شمار کرنا یہ بعد کے مقلدین کی ہی تخلیق ہے، اس کی تفصیل اوپر گذری!
میں اس جانب اشارہ کر رہا تھا کہ وہاں سے تقلید کی اقسام ملاحظہ فرما لیجیے۔
رہ گیا یہ جملہ تو انتظامی فتوی یہ تھا کہ "تقلید مطلق کو ترک کر کے صرف شخصی پر عمل کرنا چاہیے" اور یہ شرعی حکم نہیں تھا۔ باقی ثابت تو دونوں تقلیدیں شریعت سے ایک ہی وقت میں ہیں۔
بھائی جان! یہی تو اس جملہ کا لطیفہ ہے کہ ''شریعت سے ثابت'' تقلید مطلق کو ترک کرنے کا حکم؟ دے کی ''شریعت سے ثابت'' تقلید مطلق کو ممنوع قرار دے کر شرعی حکم سے روکا، اور یہ حکم بھی شرعی نہیں بلکہ انتظامی! اور صرف تقلید شخصی کہ جسے واجب قرار دے دیا ہے، اس کا حکم انتظامی تھا نہ کہ شرعی، لیکن اب دھڑلے سے اسے واجب قرار دیتے ہیں۔ بھائی جان ! یہ بات سمجھ لیں، ایک شخص میں تقلید مطلق اور تقلید شخصی جمع نہیں ہو سکتی!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب میں ایک آخری بات آپ کو اپنا بھائی سمجھ کر کرتا ہوں۔
میرے محترم بھائی اگر اس بحث سے آپ کا مقصد صرف اپنے موقف کو درست ثابت کرنا اور مجھے بطور حنفی یا مقلد کے چپ کرانا ہے تو میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ اور اگر اس سے آپ کا مقصد افہام و تفہیم ہے تو پھر اس کا یہ طرز نہیں ہوتا۔ میں ایک بات کی وضاحت کرتا ہوں، آپ الفاظ بدل کر اسی بات کو پھر ذکر کر دیتے ہیں۔ اور میں ایک بات پر آپ کی غلطی کی طرف اشارہ کر کے کچھ پوائنٹ دیتا ہوں کہ ان کو حل کریں تو آپ بجائے ان کو حل کرنے کے اپنی بات پر جم جاتے ہیں کہ میں نے کام کر دیا ہے۔ اور میں ایک بات کو اپنے موقف میں بہت واضح انداز میں ذکر کرتا ہوں لیکن آپ میرا موقف کچھ اور سمجھتے یا بیان کرتے ہیں اور اسی کے مطابق آگے چلتے جاتے ہیں۔
اشماریہ بھائی! افہام و تفہیم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کہ میں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جاؤں، اور کسی کی حکمت چین و حجت بنگال والی حجت حجت بازیوں کو سلجھانے بیٹھ جاؤں، اور آپ نے ایسی حجت بازی کی ہے، ان کے اقتباس بھی نقل کرتا ہوں، اور اگر آپ اتنے ہی افہام و تفہیم اور سمجھنے سمجھانے کے حوالہ سے گفتگو کرتے ، تو میاں آپ اشارہ نہیں کرتے آپ اسے بیان کرتے، کہ آپ کے استدلال میں فلاں نقص ہے، اور اسی کا مطالبہ ہم آپ سے کرتے رہے، کہ آپ اعتراض پیش کریں، کہ اپ کی بات میں، استدلال میں فلاں نقص ہے، مگر وہ آپ کرتے ہیں، کیونکہ معلوم ہے کہ اعتراض الٹا آپ کے گلے ہی پڑے گا۔ اسی طرح یہ کتابوں کے گواہ ہونے کے مسئلہ میں آپ نے خواہ مخواہ کی حجت بازی جاری رکھی، حتی کہ دارالعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی بتلایا دیا ، تو صاحب فرماتے ہیں کہ دلائل خصم کا مقام تو آخری ہے! اس کا جواب تو اسی مقام پر دیا جائے گا، بھائی صاحب متفق علیہ مسئلہ پر حجت بازی کرتے ہیں، اور ہمیں افہام و تفہیم کا درس دیتے ہیں۔ آپ کی حجت بازی کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں:
آپ مجھے گواہ دکھائیے جو البانی رح کے پاس آئے ہوں اور انہوں نے گواہی دی ہو؟ نیز وہ حکومت دکھائیے جس نے البانی کو یہ عہدہ دیا ہو۔
نیز وہ گواہ بھی دکھائیے جو آپ کے پاس آئے ہوں۔ البانی رح کی مہر شدہ کتاب بھی پیش فرمائیے جسے کھولا نہ گیا ہو۔
نہیں جناب۔ جب ایک قاضی اپنا خط دوسرے قاضی کو بھیجتا ہے تو اصول یہ ہے کہ وہ اس پر مہر لگا کر اسے بند کرتا ہے اور گواہوں کے ساتھ بھیجتا ہے کہ اسی قاضی کا خط ہے۔ اگر البانی کی حیثیت بھی قاضی کی سی ہے اور آپ کی بھی تو پھر البانی کی کتاب پر مہر بھی ہونی چاہیے۔
ڈائریکٹ حدیث سے استدلال تب ہوتا ہے جب حدیث میں اس کام کا حکم یا نہی وغیرہ ہو۔ آپ کی حدیث میں آخری نبی (اللہم صل علیہ و آلہ) آسمانی کتاب سے حکم دیکھ رہا ہے۔ ڈائریکٹ استدلال میں یہی ہوگا نا کہ جو بھی آخری نبی ہو وہ آسمانی کتاب سے حکم دیکھ سکتا ہے؟؟؟ یہ استدلال کہاں سے آگیا کہ آخری نبی نے آسمانی کتاب سے حکم دیکھا ہے روایت میں اس لیے محدث حکم کی گواہی قبول کرسکتا ہے محدث کی کتاب سے۔ جو میں نے سرخ رنگ سے لکھا ہے اسے ذرا روایت سے ڈھونڈ کر دکھائیے نا۔
میرے محترم اتباع سنت کا تو آپ کو ماشاء اللہ بہت شوق ہے۔ لیکن عمل پوری حدیث پر کیجیے نا پھر۔ پہلے کسی یہودی کو بن دیکھیں بتائیں کہ تورات میں فلاں حکم ہے پھر اس کے انکار پر تورات منگوا کر اس سے دیکھیے۔
مگر اشماریہ صاحب! وہ کہتے ہیں نا کہ:
ہمیں کس ظرف کے کردار کے قصے سناتا ہے
تجھے اے دیوبند! جانتے ہیں ہم بھی
اک زمانے سے

میرے محترم بھائی اگر اس بحث سے آپ کا مقصد صرف اپنے موقف کو درست ثابت کرنا اور مجھے بطور حنفی یا مقلد کے چپ کرانا ہے تو میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ اور اگر اس سے آپ کا مقصد افہام و تفہیم ہے تو پھر اس کا یہ طرز نہیں ہوتا۔ میں ایک بات کی وضاحت کرتا ہوں، آپ الفاظ بدل کر اسی بات کو پھر ذکر کر دیتے ہیں۔ اور میں ایک بات پر آپ کی غلطی کی طرف اشارہ کر کے کچھ پوائنٹ دیتا ہوں کہ ان کو حل کریں تو آپ بجائے ان کو حل کرنے کے اپنی بات پر جم جاتے ہیں کہ میں نے کام کر دیا ہے۔ اور میں ایک بات کو اپنے موقف میں بہت واضح انداز میں ذکر کرتا ہوں لیکن آپ میرا موقف کچھ اور سمجھتے یا بیان کرتے ہیں اور اسی کے مطابق آگے چلتے جاتے ہیں۔
نہیں میرے بھائی! میرا مقصد آپ کو چپ کرانا نہیں، بلکہ قارئین کو حقیقت سے آشنا کرانا ہے! اور آپ کا خاموش ہونا،میرے مقصد کے حصول کے لئے مفید نہ ہوگا! بھائی جان ! اب کو ایک بات دہرا دہرا کر اس لئے بتلانا پڑتی ہے کہ آپ کو کلام سمجھ نہیں آتا، اور آپ اسے سمجھے بغیر اس پر اپنے سوالات کی عمارت کھڑی کر دیتے ہو، لہٰذا آپ کو بتلایا جاتا ہے کہ آپ نے جس فہم کی بنیاد پر یہ عمارت کھڑی کی ہے وہ ہی بھونڈی ہے!
آپ وہ قتباس پیش کریں، کہ جہاں میں نے آپ کا مؤقف غلط سمجھا ہے یا غلط بیان کیا ہے؟ آپ نے بہر حال یہ کام کیا ہے، اور مجھ سے یہ بات آپ نے ''ہدایہ'' کے حوالہ سے بھی منسوب کی، مگر جواب آپ کو علمائے دیوبند کے تراجم پیش کئے ، تو اب آپ اس سے کنی کترا رہے ہو! بھائی جان یہ وصف جو آپ نے بیان کیا ہے، کم از کم اس تھریڈ میں تو آپ میری تحریر میں نہیں بتلا سکتے، کہ میں نے آپ کی بات غلط سمجھی یا بیان کی، مگر آپ کی تحریر سے اس وصف کا ہونا اسی تھریڈ میں موجود ہے۔ اس کو یہاں ذکر بھی کردیا ہے، اور اگر مطالبہ کرو تو میں اقتباس بھی پیش کردوں! بلکہ وہ سند کی تحقیق سے سند سے مستغنی ہونے کے بیان میں گذر بھی چکی ہے!


جی بھائی جان جو آپ نے عرض کیا تھا وہ میں نے پڑھ لیا ہے۔ اور میں نے عرض کیا تھا:
آپ نے جواب ہی نہیں دیا اور کہتے ہیں کہ استدلال پیش کیا ہے۔ یہ تو حال ہے ترک تقلید کے بعد۔ میں نے عرض کیا ہے کہ استدلال صرف یہ نہیں ہوتا کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے تم مان لو۔ استدلال کو استدلال کے طریقے سے ثابت بھی کریں نا۔
اس طرح تو کل کو آپ دعوی نبوت کر کے کوئی حدیث پیش کریں اور کہہ دیں کہ میں نے استدلال پیش کر دیا ہے آپ اعتراض کرو تو کیا ہم مان لیں گے؟ جی نہیں جناب جب آپ سے کہا جائے کہ اس استدلال کو ثابت کرو تب ثابت بھی کر کے دکھائیں کہ میرا استدلال عبارۃ النص سے ہے اور اس میں فلاں لفظ عام ہے اور فلاں کا فلاں معنی ہے وغیرہ تب استدلال "پیش" ہوگا۔
میں دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
  • دعوی یہ ہے کہ محدثین کی کتب کو گواہ کی کتاب مانتے ہوئے ان سے گواہی لینا درست ہے یا نہیں؟
  • آپ کی دلیل میں گواہ کون ہے؟ یہ تو عین دعوی ہے۔
  • آپ کے استدلال کا طریقہ کیا ہے؟
  • کسی محدث نے یہ استدلال کیا بھی ہے یا یہ فقط آپ کی ذہنی رسائی ہے؟
  • آپ کی پیش کردہ روایت اور مسئلہ میں بہت سے فروق ہیں۔
اور جناب والا! اب حجت چین و حکمت بنگال والا نعرہ لگا کر خود کو بری نہیں سمجھ لیجیے گا۔ ہم اردو ادب کی نہیں مسئلہ تقلید کی بحث کر رہے ہیں۔ آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ لگانے سے آپ کی بات پوری ہو جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو معذرت چاہتا ہوں ایسا نہیں ہوتا۔
بھائی جان! کتابوں کا گواہ ہونا ہم نے دارلعلوم دیوبند کے فتاوی سے بھی پیش کر کے بتلا دیا ہے کہ یہ متفق علیہ مسئلہ ہے، اب اس پر پھر بھی آپ کی یہ حجت بازی، حکمت چین و حجت بنگال ہی ٹھہرے گی! دار العلوم دیوبند کے فتاوی نے آپ کی اس حجت بازی کو حکمت چین و حجت بنگال ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے!
چچ چچ چچ۔ یار دعوی ہے آپ کا ترک تقلید کا اور فہم اتنی بھی نہیں کہ چلنے والی بحث میں اور اپنی دی ہوئی مثال میں فرق ہی سمجھ پائیں؟ تو پھر ترک تقلید کر کے آخر آپ کیا کرتے ہیں؟؟؟
اشماریہ بھائی! اب تک تو اپ کو اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کی باتیں آپ کے لئے ہی مضر ثابت ہوتی ہیں! لیکن آپ بھی باز نہیں آتے، تو خیر کوئی بات نہیں! ہم بھی ہر بار آپ کو اپ کا فہم سے عاجز ہونا یاد کرواتے جائیں گے!
اشماریہ بھائی! آپ کے علم میں ہوگا کہ آپ کے علماء تقلید کے وجوب کو ثابت کرنے کے لئے اپنا کم علم اور کج فہم ہونا بطور دلیل پیش کرتے رہیں کہ اس وجہ سے وہ تقلید کرتے ہیں! اور اب یہ مقلد لاچار و کج فہم، کسی دوسرے کے فہم پر سوال اٹھائے، یہ مقلد کو تو زیب نہیں دیتا! مقلد بااعتراف خود کج فہم ہوتا ہے! اور آپ کے اس جملہ میں بھی یہ مفہوم شامل ہے! بھائی جان! کچھ سوچ سمجھ کر تحریر کیا کریں!
او میرے بھائی بات یہ چل رہی ہے کہ گواہ کی کتاب کی گواہی قبول ہوتی ہے یا نہیں؟ اور وہ بھی کہاں! قاضی جیسی حیثیت والے محدث کے سامنے (جس کی اپنی گھڑی ہوئی اسپیشل حیثیت بھی ابھی تک ثابت نہیں کر سکے)۔ اور یہاں ان مسائل اور حوالہ جات میں اس بات کا (کہ قاضی یا اس جیسی حیثیت والے محدث کی مجلس میں یہ کتابیں بطور گواہ کے قبول ہیں) ذکر کہاں ہے؟ کیا اتنا بھی نہیں سمجھ آتا کہ مثال ممثل لہ کے مطابق نہیں ہے؟؟
پھر طرہ یہ کہ وہاں ہم کہہ رہے ہیں کہ محدث کی کتاب کسی غیر کے بارے میں گواہ کے طور پر قبول ہوگی یا نہیں اور یہاں ذکر ہے عموما (یہ عموما آپ کے لیے خصوصی طور پر لکھا ہے تا کہ آپ پھر غلط نہ سمجھ بیٹھیں) مصنف کی کتاب کا مصنف کے اپنے بارے میں بطور گواہ کے ہونے کا۔ کتنا فرق ہے!!
اشماریہ بھائی! آپ بھی اٹکل لڑانے سے باز نہیں آؤ گے! میاں جی! مصنف کی کتاب اس کے مؤقف پر شاہد ہے، اس کے فیصلہ پر شاہد ہے، اور اس نے کسی اور کے مؤقف کو درج کیا ہے ، تو مصنف کے ثقہ ہونے کی صورت میں، یا دوسری کتاب سے بیان ہونے، با سند صحیح بیان ہونے کی بنیاد پر، دوسرے کے مؤقف پر بھی گواہی ہے، یہ بات آپ کو متعدد بار اقتباس پیش کر کر کے بتلائی گئی ہے! مگر آپ ہو کہ بس، مرغے کی ایک ٹانگ!
مگر ہم بھی اس کا تریاق رکھتے ہیں؛ آپ کو مفتی محمد راشد ڈسکوی،استاذِ جامعہ فاروقیہ کراچی کا کلام ماہنامہ دار العلوم دیوبند سے پیش کرتے ہیں:
مذکورہ تینوں کتب میں جس حدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے، ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح“ اور ”المقاصد الحسنة“میں الفاظ کے قدرے فرق کے ساتھ موجود ہے، ذیل میں وہ روایت ”حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح “سے نقل کی جاتی ہے:
وذکر الدیملي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق ص مرفوعاً:”مَن مسَح العین بباطن أنملةِ السبابتین بعدَ تقبیلھما عند قول الموٴذن ”أشھد أن محمدًا رسولُ اللہ“، وقال: ”أشھد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ، رضیت باللّٰہ رباً وبالإسلام دیناً وبمحمدٍ ا نبیِّاً“، حلَّتْ لہ شفاعَتِياھ․
اور دوسری روایت جس کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جس کی طرف علامہ طحطاوی  نے اشارہ کیا ہے اور علامہ سخاوی  نے اسے مکمل ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے:
عن خضر علیہ السلام: أنہ من قال حین یسمع الموٴذن، یقول:”أشھد أن محمداً رسولُ اللہ“ مرحباً بحبیبي، وقرة عینيمحمد ا، ثم یُقبّل إبھامیہ ویجعلھما علی عینیہ، لم یرمَد أبداً․
ان میں سے پہلی حدیث کے بارے میں علامہ سخاوی  ، ملا علی قاری، علامہ طاہر پٹنی  اور علامہ محمد الامیر الکبیر المالکینے ”لا یصح“ کہتے ہوئے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:
(المقاصد الحسنة، حرف المیم، رقم الحدیث: ۱۰۱۹،ص: ۴۴۰، دارالکتب العلمیة)
( الموضوعات الکبریٰ للقاري، حرف المیم، رقم الحدیث: ۸۲۹، ص: ۲۱۰، قدیمي کتب خانہ)
(تذکرة الموضوعات لطاھر الفتني، باب الأذان ومسح العینین فیہ، ص:۳۴، کتب خانہ مجیدیة، ملتان)
(النخبة البہیّة في الأحادیث المکذوبة علی خیر البریة،رقم الحدیث:۳۱۶، ص:۱۷، المکتب الإسلامي)

ملاحظہ فرمائیں: تقبیل الابہامین سے متعلق بعض فقہائے احناف کی ایک عبارت کی تحقیق از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذِ جامعہ فاروقیہ، کراچی
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 4‏، جلد: 98 ‏، جمادی الثانیة 1435 ہجری مطابق اپریل 2014ء


رفع یدین کے سلسلے میں تقریباً ۳۵۰ صحیح احادیث آپ کے دوست کی نئی یافت ہے۔ آپ اگر باحوالہ اپنے دوست سے ان احادیث کو لکھوا کر بھیجیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔ شوافع اور حنابلہ جو قائلین رفع میں سے ہیں، صحیح احادیث کے اس مخفی خزانے کا آج تک سراغ نہ لگاسکے۔ امام بیہقی نے رفع کے سلسلے میں زیادہ سے زیادہ احادیث نقل کرنے کی کوشش کی تو کل ۳۰ /احادیث نقل کرسکے۔ جن میں سے نصف احادیث کے سلسلے میں امام بیہقی ہی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ قابل استدلال نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: فتوى: 354/ل = 354/ل، مورخہJul 28,2007، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

پھر مزید یہ کہ ابھی تک تو آپ نے دلیل ہی پیش نہیں کی۔ ہماری کتابوں سے ہم پر حجت قائم کرنے کا مرحلہ تو عقلا بعد میں آتا ہے۔ آپ ڈائریکٹ یہاں پہنچ گئے؟ پہلے اپنے موقف کو تو ثابت کریں۔ آپ نے کہیں ہماری کتب سے تو اپنا موقف نہیں نکال لیا؟؟ اور وہ بھی اپنی "فہم" کے مطابق؟؟؟
اشماریہ بھائی! دلیل تو ہم نے پیش کی ، مگر وہ آپ کے فہم پر پر حائل تقلیدی فلٹر کے سبب آپ کی فہم سے بالا تر رہی، اور آپ نے اپنے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے شروع کر دیئے، مگر آپ کو شاید یہ اندازہ نہیں تھاکہ ہم ان اٹکل کے گھوڑوں کو اصطبل میں باندھنے کا ہنر بھی رکھتے ہیں، اور آپ کے دارالعلوم دیوبند سے کتب کے گواہ ہونے کا ثبوت پیش کیا، اور اب محدثین کا فیصلہ کرنے والے ہونے، کا ثبوت بھی پیش کر دیا! اب ممکن ہے کہ آپ یہاں یہ کہہ دو کہ یہاں تو ''فیصلہ'' کا لفظ ہے ''قاضی جیسی حثیت'' کا لفظ دکھلاؤ!

اور آپ کی کتب سے حجت قائم کرنے کا معاملہ اس لئے پیش آیا کہ آپ ایک متفق علیہ مسئلہ میں مستقل اٹکل کے گھوڑے دوڑائے جا رہے ہو! آپ کو بتلایا بھی کہ بھائی! حکومتی قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق ہی سمجھ لیں! آپ اس پر بھی مجھے کہتے ہیں کہ یہ فرق بھی آپ کو میں بتلاؤں! تو میاں جی! میں نے آپ کو عرض کردیا تھا کہ اس واسطے آپ کو اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لینا ہوگا! میں آپ کو یہاں اردو تو پڑھانے سے رہا!
بہر حال ، علمائے دیوبند نے کتب کو گواہ بھی قرار دیا ہے، اور محدثین کو قاضی بھی! جس کے ثبوت آپ کو پیش کر دیئے گئے۔
اشماریہ بھائی! ایک مخلصانہ مشورہ ہے کہ آیندہ کسی بھی مسئلہ میں اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے قبل اس بات کو مد نظر رکھیں کہ یہ گھوڑے کہیں اپنے ہی گھر کو نہ روند ڈالیں! ایک بار پھر عرض کرتا ہوں:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ!
میرا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ آپ اپنا میڈیکل چیک اپ کروا لیں تو بہت اچھا ہوگا۔
اشماریہ بھائی! آپ ہو ویسے واقعی اثر پروف، جیسا کہ آپ نے اپنے بارے میں بیان کیا تھا! اس سے پہلے بھی آپ نے دو بار ڈاکٹر کا تذکرہ کیا تھا، اور اس کا جواب بھی آپ کو ملا، مگر آپ پھر بھی ۔۔۔۔۔۔
آپ کو کوئی پرائیوٹ ہسپتال تو نہیں کہ اس کی آمدنی بڑھانے کے لئے خومخواہ لوگوں کو ڈکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہو!
لیکن اس کا جواب تو بہر حال ہم اپ کو دیں گے!
اشماریہ بھائی! یہ نیم پاگل اور دماغی بیماری کے حالت میں اسلامی امور پر تحریر کرنا اور اسے وقت گزاری کا ذریعہ بنانا علمائے دیوبند کا شیوہ ہے، اور دیوبندی بھی ایسے ہیں کہ نیم پاگل حالت میں لکھی اس رطب و یابس کو تبلیغی نصاب بنا کر گلی گلی، شہر شہر، کفر و شرک کی دعوت دیئے جا رے ہیں!
ذرا ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے پڑھئے گا کہ محمد زکریا صاحب دیوبندی کیا فرماتے ہیں:
صفر 1357 ھ میں ایک مرض کی وجہ سے چند روز کے لئے دماغی کام سے روک دیا گیا۔ تو مجھے خیال ہوا کہ ان خالی ایام کو اس بابرکت مشغلہ میں گزاروں کہ اگر یہ اوراق پسند خاطر نہ ہوئے تب بھی میرے یہ خالی اوقات تو بہترین اور بابرکت مشغلہ میں گزر ہی جائیں گے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 17 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – اسلامک بک سرورس، نئی دہلی۔ انڈیا
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 19 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – ادارۂ دینیات، ممبئی ۔ انڈیا
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 06 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – یوسف سنز ، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 22 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – مکتبۃ البشری، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 08 – (تمہید۔ حکایات صحابہ ۔ فضائل اعمال ۔ تبلیغی نصاب) فضائل اعمال – گابا سنز، کراچی

اس پر میں نے ایک بار تعلیق بھی لکھی تھی، مختلف ویب سائٹ پر موجود ہے، شاید اسی فورم پر بھی ہو، مگر یہاں اس لئے پیش نہیں کر رہا کہ پھر اشماریہ صاحب خوامخواہ انظامیہ کو آوز دے کر ڈھنڈورا پیٹیں گے کہ ابن داود نے مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کی شان میں گستاخی کر دی!
اشماریہ بھائی!
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے
یار ہم کتاب سے جو موقف لیا جاتا ہے اسے مانتے ہیں، مصنف کی بات سمجھتے ہیں لیکن آپ کی طرح خود کو قاضی جیسی حیثیت (وہ اسپیشل والی حیثیت) والا محدث مان کر مصنف کی بات کو اپنی مجلس میں گواہی نہیں مانتے۔ اسے فیصلہ وغیرہ آپ کے لحاظ سے کہا تھا۔ اول تو آپ کو سامنے والے کی بات ہی سمجھ نہیں آتی۔ چلو نہیں آتی تو کوئی بات نہیں، خیر ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس پر آپ اپنی سوچ کے مطابق عمارت بھی تعمیر کر ڈالتے ہیں۔
اشماریہ بھائی! اس کی پوری تفصیل ایک بار پھر اوپر بیان ہوئی ہے۔ میرے بھائی! ہم تو آپ کی تحریر کا مطلب بالکل درست سمجھ رہے ہیں، یہ ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں کوئی اور بات ہو اور اسے آپ دم تحریر میں لانے قاصر ہوں ! اگر آپ کا یہ مدعا ہے کہ ہم نے آپ کی بات کو غلط سمجھا ہے تو آپ وہ اقتباس یہاں پیش کریں ، اپنی بات کا بھی اور پھر میری تحریر کا بھی کہ میں نے اپ کی فلاں بات غلط سمجھی، اور آپ کی عبارت کے معنی و مفہوم کے برخلاف یہ بیان کیا! اس طرح ہوائی بات کرنا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں!
اشماریہ بھائی! میں اپ کی پریشانی سمجھ سکتا ہوں کہ معاملہ کچھ یوں ہوا ہے کہ اپ جو عمارت تعمیر کرنا چاہ رہے تھے، دار العلوم دیوبند نے اس عمارت کو تعمیر کرنے پر حکم امتناع جاری کر دیا ہے!
ویسے یہ مسئلہ صرف آپ کے ساتھ ہے یا اور بھی عوام کے ساتھ ہے جو عام ہو کر ترک تقلید کرتے ہیں؟؟؟
پھر وہی بات! اور اب تو آپ کو یہ معلوم ہو گیا ہوگا کہ جواب تو آپ کو دیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اپنی فقہ کے خلاف دلیل آنے پر دل میں استنکار پیدا ہونا اور یہ دور دراز کی تاویلیں گڑھنا مقلدین احناف کا شیوہ ہے، وہ ایسی دور دراز تاویلیں کر کے عمارتیں کھڑی کر لیتے ہیں! لیجئے ثبوت حاضر ہے؛
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قوم مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے اُن کے قلب میں انشراح و انبساط رہتا بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے پھر تاویل کی فکر ہوتی ہے خواہ کتنی ہی بعید ہو اور خواہ دوسرے دلیل قوی اُس کے معارض ہو بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلے میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو خود اپنے دل میں اُس تاویل کے وقعت نہ ہو مگر نصرت مذہب کے لئے تاویل ضروری سمجھتے ہیں دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کر لیں بعض سنن مختلف فیہا مثلا آمین بالجہر وغیرہ پر حرب وضرب کی نوبت آجاتی ہے اور قرون ثلثہ میں اس کا شیوع بھی نہ ہوا تھا بلکہ کیف ما اتفق جس سے چاہا مسئلہ دریافت کر لیا اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اُس پر عمل جائز نہیں کہ حب داتر و منحصران چار میں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہوا ہی ہوں وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے دوسرے اگر اجماع ثابت ہوجاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 131 جلد 01 تذکرۃ الرشید – خلیل احمد سہارنپوری – بلالی سٹیم پریس ، ساڈھورہ

اشماریہ بھائی! یہی صورت کچھ آپ کی معلوم ہو رہی ہے کہ کہ قلب میں انشراح وانبساط مفقود ہو گیا ہے اور استنکار نے قلب میں جگہ لے لی ہے!
اور ایسی ایسی اٹکل لڑا کر تاویلیں لا رہے ہو کہ بس۔۔۔
ذرا دکھائیے تو کون سے "مجتہد" کا کون سا "مسئلہ" جناب نے پیش فرمایا ہے؟؟؟؟
ماشاء اللہ ! اشماریہ بھائی! ذرا تحمل کے ساتھ ہماری تحریر کو پڑھ لیتے! میں وہ اقتباس پھر پیش کر دیتا ہوں:
آپ نے فرمایا تھا:
تو میں انہی کے موقف کی بات کر رہا ہوں۔ البتہ آپ جو یہ فرماتے ہیں کہ کتاب میں مجتہد جو لکھتا ہے وہ اس کا اجتہاد ہوتا ہے تو اگر آپ کا مطلب اس سے یہ ہے کہ صرف تحری اور غور وفکر ہوتا ہے تو یہ بات درست نہیں۔ بلکہ مجتہد نے دلائل سے یعنی قرآن و حدیث و اجماع سے جو مسائل اخذ کیے ہوتے ہیں وہ لکھتا ہے اور وہ مسائل لکھتا ہے جن میں ان ادلہ ثلاثہ پر قیاس کیا گیا ہو۔ پھر بعض مسائل وہ ہوتے ہیں جو فقط اجتہاد و تحری ہو۔ کیا آپ نے کبھی المبسوط کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر نہیں تو ہدایہ تو پڑھی ہی ہوگی جس کا آپ بار بار ذکر کر رہے ہیں۔ اس کی بنیاد قدوری اور مبسوط ہی ہیں۔ تو کیا صرف تحری والے مسائل ہیں اس میں؟؟؟
تو اب امام محمد نے جو موقف قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس سے اخذ کر کے لکھا ہم اسے تو قبول کرسکتے ہیں نا آپ کے اصول کے مطابق؟
اس کے جواب میں اپ سے عرض کیا گیا تھا:
اگر ایسا ہوتا! بلکل اسے قبول کیا جاسکتا تھا، مگر جب تک کہ اس کے بطلان کا ثبوت واضح نہ ہوجائے!! مگر صورت حال کچھ اور ہے!!
معاملہ کچھ یوں ہےکہ امام محمد نے اپنا مؤقف قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس سے شرعی سے اخذ نہیں کیا، بلکہ اپنے اٹکل کی بنا پر قرآن و حدیث کے احکام کو رد کرتے ہوئے اپنی اٹکل سے مسائل اخذ کئے ہیں!! ایک مثال پیش کرتا ہوں اسی ہدایہ ہے کہ جس کے متعلق آپ نے کہا کہ اس کی بنیاد قدوری و مبسوط ہی ہیں:
(وَإِنْ سَبَقَهُ الْحَدَثُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ تَوَضَّأَ وَسَلَّمَ) لِأَنَّ التَّسْلِيمَ وَاجِبٌ فَلَا بُدَّ مِنْ التَّوَضُّؤِ لِيَأْتِيَ بِهِ (وَإِنْ تَعَمَّدَ الْحَدَثَ فِي هَذِهِ الْحَالَةِ أَوْ تَكَلَّمَ أَوْ عَمِلَ عَمَلًا يُنَافِي الصَّلَاةَ تَمَّتْ صَلَاتُهُ)
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 386 جلد 01 الهداية في شرح بداية المبتدي - ، أبو الحسن برهان الدين المرغيناني - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، کراتشي، باكستان
اب یہ بتا دیں کہ یہ بات کہ جب کوئی حنفی نماز میں تشہد کے بعد جان بوجھ کر سلام کے بجائے پاد مارے تو اس کی نماز مکمل ہو گئی! اس پر قرآن کی کون سی آیت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کون سی حدیث ہے، اور اگر یہ قیاسی مسئلہ ہے تو اس کا مقیس علیہ کون سی آیت یا کون سی حدیث ہے؟
جبکہ اگر حادثاتاً کسی کی ہوا خارج ہو جائے تو اس کی نماز نہیں ہوتی، اسے وضوء کرکے نماز مکمل کرنی ہوتی ہے!!
یقیناً آپ اس پر نہ قرآن کی آیت پیش کر سکتے ہیں، نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، اور نہ ہی اس کو قیاسی شرعی ہونے پر اس قرآن و حدیث سے اس کا مقیس علیہ!!
اور اسی طرح کی فقہ کو ہم قیاس آرائیاں اور اٹکل پچو کہتے ہیں!! یہ ایک وجہ ہے کہ ہم ان کتابوں کو معتبر نہیں سمجھتے!! دوسری وجہ اپنے استدلال و استنباط و قیاس میں نبی صلی اللہ علیہ کی احادیث کو رد کرنا بھی شامل ہیں!! جیسے یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو رد کیا گیا :

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ ، عَنْ عَائِشَة ، قَالَتْ : " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ بِالتَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ بِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ، وَكَانَ إِذَا رَكَعَ لَمْ يُشَخِّصْ رَأْسَهُ وَلَمْ يُصَوِّبْهُ وَلَكِنْ بَيْنَ ذَلِكَ ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ، وَكَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ لَمْ يَسْجُدْ حَتَّى يَسْتَوِي قَاعِدًا ، وَكَانَ يَقُولُ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ التَّحِيَّاتُ ، وَكَانَ إِذَا جَلَسَ يَفْرِشُ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَيَنْصِبُ رِجْلَهُ الْيُمْنَى ، وَكَانَ يَنْهَى عَنْ عَقِبِ الشَّيْطَانِ وَعَنْ فَرْشَةِ السَّبُعِ ، وَكَانَ يَخْتِمُ الصَّلَاةَ بِالتَّسْلِيمِ " .
سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ

حد تو یہ ہے کہ اس باب میں آپ کے امام اعظم کی روایات کردہ حدیث بھی منقول ہے۔ جو آپ کے نزدیک امام صاحب کی روایات ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الأَشْرَسِ السُّلَمِيُّ نَيْسَابُورِيٌّ ، أَخْبَرَنَا الْجَارُودُ بْنُ يَزِيدَ , أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي نَضْرَةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " الْوُضُوءُ مِفْتَاحُ الصَّلاةِ وَالتَّكْبِيرُ تَحْرِيمُهَا , وَالتَّسْلِيمُ تَحْلِيلُهَا , وَلا تُجْزِئُ صَلاةٌ إِلا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَمَعَهَا غَيْرُهَا " .
مسند أبي حنيفة لابن يعقوب » مُسْنَدُ الإِمَامِ أَبِي حَنِيفَةَ » مَا أَسْنَدَهُ الإِمَامُ أَبُو حَنِيفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ طَرِيفِ بْنِ شِهَابٍ أَبِي سُفْيَانَ ...

لہٰذا جو نام نہاد ''فقہ'' جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو رد کرنے پر مبنی ہو اسے ہم معتبر نہیں جانتے!!!

اپ سے جب اس کو جواب نہ بن پڑا تو آپ نے اس مسئلہ سے جان چھڑانے کے لئے عرض کیا کہ یہ مسئلہ محمد بن الحسن اشیبانی ؒ کی المبسوط میں نہیں، اور دوسرا مدعا یہ اٹھایا کہ میں اس تمت صلاته کا مطلب یہ غلط سمجھا ہوں، یا غلط بیان کر رہا ہوں:
انتہائی معذرت چاہتا ہوں۔ میں نے امام محمدؒ کے موقف کا ذکر کیا ہے اور یہ مسئلہ میری معلومات کی حد تک المبسوط میں موجود نہیں ہے جس کی میں نے بات کی ہے۔
رہ گئی بات یہ کہ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور المبسوط ہی ہیں تو یہ میں نے یقینا کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ ہدایہ مکمل انہی پر مشتمل ہے۔ وہاں مثال ہدایہ کی اس لیے دی تھی کہ اگر آپ نے المبسوط نہیں دیکھی تو ہدایہ کا مطالعہ کیا ہوگا وہاں کیا تمام مسائل تحری والے ہیں؟ ایسا نہیں ہے۔
اس لیے چوں کہ پیش کردہ مسئلہ میری بات یعنی امام محمدؒ کے موقف کو قبول کرنے سے متعلق ہی نہیں ہے اس لیے میں اس پر بحث بھی نہیں کرتا۔
ویسے عرض یہ ہے کہ آپ یا تو اس مسئلہ کو غلط سمجھ رہے ہیں یا پھر غلط بیان کر رہے ہیں۔ تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔ بہرحال میں کہہ چکا ہوں کہ یہ اس بحث کا مقام نہیں ہے اس لیے ہم آگے چلتے ہیں۔
آپ کو یہاں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ محمد بن حسن الشیبانی ؒ کا اخذ کردہ ہو یا نہ ہو، ہے بہر حال فقہ حنفیہ کا مسئلہ، اور آپ سے یہ بھی سوال کیا گیا کہ آپ بتلا دیں کہ یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے؟ مگر آپ نے اس کا جواب بھی نہیں دیا:
اشماریہ بھائی! موضوع امام محمدؒ نہیں، امام محمدؒ تو ایک مثال ہیں، ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں یہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ کس نے اخذ کیا ہے۔ بہر حال یہ فقہ حنفی کا مسئلہ ہے اور احناف میں ہے بھی متفقہ! یعنی قبول تو سب نے ہی کیا ہے!!
آپ مسئلہ پر گفتگو کرنے سے گریز فرمارہیں ہیں ، جبکہ آپ نے ابھی ابھی فرمایا تھا کہ:
اور آپ کے ہماری فہم پر کئے گئے اعتراض کا بحوالہ جواب دیا گیا کہ ہمارا بیان کیا گیا مطلب بالکل درست ہے، اور احناف اور دیوبندیوں نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے! اب آپ نے جو کہا تھا کہ ''ہمارےیہاں'' یہ مطلب نہیں، تو آپ کو اس کو جواب نہ بن پڑا، تو اب مسئلہ سے جان چھڑانا چاہئے ہو! اسی لئے آپ کو کہا تھا کہ کج فہمی آپ کی ہوتی ہے، اور آپ الزام دوسروں کو دیتے ہو!
آپ سے عرض کیا گیا تھا:
میں بھی در گزر کر ہی دیتا لیکن آپ نے پھر اپنی فقہ حنفیہ کی خامی تسلیم کرنے کی بجائے، ہمیں ہی قصوروار ٹھہرا دیا!
ایسے کیسے آگے چلے جائیں، اب تو رکنا پڑے گا!
بھائی جان، میں نے اس مسئلہ کا جو معنی بیان کیا ہے بلکل درست بیان کیا ہے!
اشماریہ بھائی! اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ آپ اپنے تقلیدی مذہب کو بچانے کے لئے اس دھوکہ و فریب سے کام نہ لیں!!
میں نے ہدایہ کے حوالہ سے جو نماز میں جان بوجھ کر ''حدث''، یعنی ''پد'' یا ''پاد'' مارنے کا مسئلہ بیان کیا ہے، وہ بلکل درست بیان کیا ہے، نہ میں غلط سمجھ رہا ہوں ، نہ میں غلط بیان کر رہا ہوں، مگر آپ یہ جو فرما رہے ہیں کہ ''تمت صلاتہ کا جو مطلب آپ لے رہے ہیں وہ ہمارے یہاں بھی مراد نہیں لیا جاتا۔'' یہ آپ نہ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہو بلکہ خود کو بھی! یا پھر آپ کے جملہ میں ''ہمارے یہاں'' سے مراد احناف کے علاوہ کوئی اور ہیں۔
اشماریہ بھائی! یہ فنکاری کم از کم میرے سامنے نہ کیجئے!!
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔ صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی


اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی

اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ

اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛
اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛
احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛
اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛

سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اشماریہ بھائی! اب بتلائیں، ہم نے جو سمجھا ہے، اور بتلایا ہے کہ وہ درست ہے یا نہیں؟ دوم کہ آپ نے جو فرمایا تھا۔
حنفیوں کی مراد تو میں نے آپ کو بتلا دی، اب اس کے برخلاف مراد لینے والے یہ '' ہمارے یہاں'' کن کے یہاں؟ ان کا کچھ تعارف کروا دیں!
یہ ہے اس مسئلہ کا سیاق؛ میرے بھائی جان!
یہ مسئلہ فقہ حنفیہ کا متفقہ ہے، اب اگر آپ اس پر مصر ہیں کہ یہ کسی مجتہد کا اخذ کردہ نہیں ہے، تو میرے بھائی، یہ تاویل بھی آپ کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوگی! پھر تو یہ فقہ جہلا کی کارستانی ثابت ہوگی۔ اشماریہ بھائی یہ سوال تو ہم نے آپ سے کیا ہے کہ بتایئے کہ کس مجتہد نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لو جی! تو اب امام محمد ایک مثال ہیں صرف؟ تو پھر اتنی بحث کیوں کی تھی ان پر۔ صرف اتنا کہہ دیتے کہ مثال میں تھوڑی کمزوری معلوم ہوتی ہے (یہ الگ بات ہے کہ وہ کمزوری مثال کی نہ ہو۔۔۔۔) اس لیے مثال تبدیل کر دیں۔ میں امام شافعیؒ کا ذکر کر دیتا یا امام مالک کا۔
اشماریہ بھائی! آپ نے محمد بن الحسن شیبانی کا نام لے کر پوچھا تھا کہ :
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
ہم نے آپ کو پہلے تو یہ فرق بتلایاتھا کہ:
وہ کیا کہتے ہیں کہ :
کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی!!
بھائی جان اسلئے کہ محمد بن حسن الشیبانی بذات خود قال اعتماد نہیں، حتی کہ انہیں جمہی کذاب تک قرار دیا گیا ہے۔ فتدبر!
یہ بات آپ کو تسلیم نہ تھی، اس پر دلائل بیان کئے گئے، اور اب دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے!
جہاں تک بات رہی کہ آپ امام الشافعی ؒ یا امام مالک ؒ کے حوالے سے یہ سوال کر لیتے، تو آپ کو اس بات کو جواب تو پہلے ہی دیا جا چکا ہے!
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن آپ ہمارے مدعا کو یا یاد نہیں رکھ پاتے، یا سمجھ نہیں پاتے، یا پھر جان کر کج بحثی کی صورت اختیار کرتے ہو!
ایک چیز کی معذرت چاہتا ہوں۔ ہدایہ کی بنیاد قدوری اور جامع صغیر ہیں مبسوط نہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی تھی۔
''ہدایہ'' کی بنیاد قدوری اور جامع صغیر بھی نہ ہو، تب بھی ہدایہ بہر حال فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب ہے!
اب ذرا دلیل سے اپنی اس بات کو مزین فرمائیں نا کہ "یہ مسئلہ احناف میں متفقہ ہے۔" دلیل کے بغیر تو صرف آپ کی بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
اشماریہ بھائی! آپ پھر مجھے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں! اشماریہ بھائی ! آپ کو ہدایہ کے چار اردو تراجم و شروحات کا ذکر کرے بتلایا تھا، اور وہ بھی علمائے دیوبند کی، کسی نے بھی اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کیا، اور نہ ہی کسی کا اختلاف نقل کیا! ان تراجم و شروحات کے نام ایک بار پھر نقل کرتا ہوں:
آپ کو شاید معلوم نہیں کہ یہ جو ترجمہ میں نے لکھا ہے یہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ صاحب عین الہدایہ سید امیر علی حنفی کا ترجمہ ہے!! اور اسی عین الہدایہ کو جدید اردو اسلوب میں مندرجہ ذیل علمائے دیوبند نے کو توثیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔
مقدمہ: الاستاذ الاسَاتذہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب ۔
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
تشریحات، تسھیل وترتیب جدید: مولانا محمد انوار الحق قاسمی مدظلہم ۔ استاد ہدایہ مدرسہ عالیہ ڈھاکہ
پیش لفظ: مولانا مفتی نظام الدین شامزئی مدظلہم
تقریظات: مولانا احسان اللہ شائق ۔ استاد ہدایہ جامعہ حمادیہ کراچی
اور مولانا عبد اللہ شوکت صاحب ۔ دار الافتاء جامعہ بنوریہ کراچی
اور اگر تشہد کے بعد حدث ہو گیا ہو تو وضوء کرکے صرف سلام کہہ لے، کیونکہ سلام کہنا اس وقت واجب ہے اس لئے وضوء کرنا اس کے ادا کرنے کے لئے ضروری ہوگا، اور اگر اسی وقت اپنے ارادہ سے حدث کرلے یا گفتگو کرلے یا کوئی بھی ایسا کام کرلے جو نماز کے مخالف ہو تو اس کی نماز پوری ہو گئی، کیونکہ اس نے بناء کرنے کو ناممکن بنادیا ہے مخالف نماز پائے جانے کی وجہ سے، لیکن اب اس پر اس نماز کو دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ ہوگی، کیونکہ اب اس پر کوئی رکن ادا کرنا باقی نہیں رہا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 259 جلد 02 عین الہدایہ جدید – سید امیر علی ۔ دار الاشاعت کراچی
اور اگر مصلی کو بعد تشہد کے حدث ہوگیا تو وضوء کرکے سلام دیوے، کیونکہ سلام دینا واجب ہے تو وضوء کرنا ضرور ہوا کہ سلام کو لاوے، اور اگر بعد تشہد کے اسنے عمداً حدث کردیا، یا عمداً کلام کر دیا، یا عمداً کوئی ایسا کام کیا جو نماز کے منافی ہے، تو اس کی نماز پوری ہو گئی۔ کیونکہ قاطع پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعذر ہے، لیکن اس پر نماز کا اعادہ نہیں ہے، کیونکہ اس پر ارکان میں سے کوئی چیز نہیں باقی رہی۔
ملاحظہ فرائیں:صفحہ 480 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
اگر ان حنفی دیوبندی علماء کی توثیق و صراحت بھی آپ کے لئے کافی نہ ہو تو آپ کو؛اشرف الہدایہ شرح اردو الہدایہ ۔ جمیل احمد سکرڈوی مدرس، دار العلوم دیوبند؛احسن الہدایہ ترجمہ وشرح اردو الہدایہ ۔ مفتی عبد الحلیم قاسمی، دار العلوم دیوبند ؛اَثمار الہدایہ علی الہدایہ ۔ ثمیر الدین قاسمی ۔ فاضل دار لعلوم دیوبند ، مدرس جامعہ اسلامیہ مانچسٹر؛سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔
اس کے علاوہ
شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين ابن الهمام الحنفي
العناية شرح الهداية - محمد بن محمد بن محمود البابرتي الحنفى
البناية شرح الهداية - بدر الدين العينى الحنفى

ان شروحات ہدایہ میں بھی کسی نے اس کی نکیر نہیں کی! یہ مسئلہ صرف ہدایہ میں نہیں، کنز الدقائق میں بھی موجود ہے! اور شرح وقایہ میں موجود ہے!
لہٰذا اب اگر آپ اب بھی اس بات کے قائل ہو، تو اختلافی قول پیش کریں! دوم علمائے دیوبند نے تو بہر حال اسی مسئلہ کو قبول کیا ہے!!
اور ایک بات بتائیں۔ یہ مسئلہ تو علامہ مرغینانی نے ذکر کیا ہے۔ یہ آپ نے علامہ مرغینانی کو مجتہد کب سے ماننا شروع کر دیا؟؟؟ اس مسئلہ کے بارے میں تو ان چیزوں کا جواب تب مجھ پر آئے گا جب آپ علامہ مرغینانی کو مجتہد ثابت کریں گے۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔
اشماریہ بھائی! اب آپ کی اس بات پر کیا کہوں! میان جی! جب میں محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو قابل اعتبار نہیں مانتا، تو آپ کے علامہ مرغنیانی کس کھیت کی مولی ہیں! بھائی جان میں تو مرغنیانی کو عالم بھی صرف مقلدین حنفیہ کا مانتا ہوں!
بھائی جان! آپ کے مرغنیانی کا بیان کردہ مسئلہ آپ کی فقہ حنفیہ کا مسئلہ ہے!! اور وہ بھی مقبول !! بلکہ متفقہ!!
یہ نہیں کہہ دیجیے گا کہ چوں کہ ہم مجتہد مانتے ہیں اس لیے ذکر کیا ہے۔ ایک تو ہم انہیں مجتہد کے اس درجے پر نہیں مانتے (شرح عقود رسم المفتی دیکھیے) اور دوسری بات میں نے ان کا ذکر کیا ہے جنہیں سب مجتہد مانتے ہیں۔
ارے بھائی! جان آپ بہت خوش فہمی کا شکار ہو، کہ ہم ''صاحب ہدایہ المرغنیانی'' کا تذکرہ میں نے ان الفاظ میں کیا تھا:
بھائی جان! استادوں کے سنے ہوئے اقوال کی حیثیت گواہی میں بھی ہو سکتے ہیں اور شنيد کی صورت میں بھی، کہ کہا جاتا ہے، اور بصورت دیگر افترا بھی ہوسکتا ہے؛
ایک مثال پیش کرتا ہوں:
صاحب الہدایہ المرغنیانی نے کئی ائمہ پر افترا اندازی کی ہے، نہ جانے کس کے سنے سنائے اقوال کبھی امام شافعی کے سر لگا دیئے، کبھی کس کے، حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اسے الفاظ منسوب کردیئے ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ بے اصل ہیں۔ بس اس بلا سند سنی سنائی پر فقہ حنفیہ کی بنیادی کتاب الہدایہ لکھ ماری، جسے اس کتاب کے مقدمہ میں قرآن کی مانند قرار دیا گیا!
اس کے باوجود آپ کو یہ خوش فہمی کہ میں ''مرغنیانی '' کو مجتہد قرار دے دوں گا!
اشماریہ بھائی! یہ مرغنیانی صاحب ، جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں!
اور میں نے تو لکھا تھا کہ مجتہد کا مسئلہ اور "دلیل" تحریر کریں تو یہ چیزیں بتا دوں گا۔ اب یہاں دلیل آپ کیوں کھا گئے۔
بھائی جان! یہ مسئلہ آپ کی فقہ کا ہے، اسی کو دیوبندی مسلک نے بھی اختیار کیا ہے!
اشماریہ بھائی! آپ بھی حد کرتے تو ! میں تو اسے اٹکل پچّو قرار دیتا ہوں! اٹکل پچّو کی بھی کوئی دلیل ہوتی ہے؟ میاں جی ! آپ اپنے گلے کی گھنٹی میرے گلے کیوں باندھنا چاہتے ہو!! مسئلہ آپ کا، کتاب آپ کی، قبول آپ کریں! اور دلیل کا مطالبہ مجھ سے! بھائی جان! دلیل اب آپ تلاش کریں، اور میرے مؤقف کو غلط ثابت کرکے بتلائیں، کہ یہ اٹکل پچّو نہیں ہے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس كے لیے ایك الگ تهریڈ بنا دیں۔ امید ہے آپ کو بنانا آتا ہوگا۔ جب موقع ملے گا اس پر وہاں بات کریں گے۔
اس مسئلہ کا اس موضوع سے کیا تعلق ہے؟؟؟ (امید ہے اب ڈھونڈ کے تعلق لائیں گے۔)
نہیں بھائی جان! آپ کے پاس جواب ہے تو پیش کریں! اور اگر جواب نہیں ہے، تو قبول کر لیں! کم از کم اتنا کہ آپ کے پاس فی الوقت جواب نہیں! اور مسئلہ سے تعلق نہیں تھا، تو آپ نے یہ اٹکل کیوں لڑائی تھی! اور نکالوں ۱ یک سے تین اور تین ست تیس سوالات!
بھائی جان! مسئلہ سے اس کا تعلق آپ نے ہی پیدا کیا تھا اب آپ کی جان کو آیا ہے تو تعلق بھول گئے ہو، مگر ایسی کیا بات ہے، ہم وہ اقتباس پیش کر دیتے ہیں:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اور ہم نے وہ فرق بیان کر دیا ہے!
اگر واقعی یہ بات ہے کہ:
اشماریہ بھائی! موضوع امام محمدؒ نہیں، امام محمدؒ تو ایک مثال ہیں،
تو ٹھیک ہے میں اس مثال کو تبدیل کر دیتا ہوں۔ میں نے عرض کیا تھا:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام محمد بن حسن الشیبانی اپنی المبسوط میں یہی طرز مسائل کے لیے اختیار کرتے ہیں تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
میں اسے تبدیل کر کے کہتا ہوں:
ایک بات بتائیے۔ امام بخاری یا امام مسلم رحمہما اللہ نے کتنی حدیثوں کے ساتھ ان کے رواۃ کے حالات، حالات کو ثابت کرنے والے اقوال، قائلین کا تزکیہ، اقوال کی استنادی حیثیت بیان کی ہے؟ یہ سب دلائل کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بیان نہیں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ صحیح بخاری میں جو احادیث ہیں وہ صحیح ہیں۔ اور اعتبار کرتے ہیں آپ امام بخاری رح کے علم و ورع پر۔
اور جب امام مالکؒ كا یہی طرز المدونۃ الکبری میں مسائل کے حل کے لیے ہوتا ہے تو آپ ان کے علم و ورع پر اعتماد کر کے عمل کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔
آخر ما بہ الفرق کیا ہے؟؟؟
اس کا جواب کئی بار دیا جا چکا ہے، ایک بار پھر پیش کر دیتے ہیں:
آپ سے پہلے بھی کہا تھا ایک دوسرے تھرید میں کہ پہلے آپ اہل حدیث کا مؤقف معلوم کر لیا کریں، پھر اپنے اشکال پیش کیا کریں!!
ہم نے کب کہا ہے کہ مجتہد اس حکم سے خارج ہے؟ بالکل مجتہد بھی اسی اللہ تعالیٰ کے فرمان: فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ میں داخل ہے!!
لیکن یہاں آپ کی ایک بات درست نہیں، کہ امام مالکؒ کا یہی طرز ''المدونة الكبری'' میں ہوتا ہے، کیونکہ ''المدونة الكبری'' امام مالک کی کتاب ہی نہیں!
اب امام محمدؒ کی ذات پر اگر آپ نے بحث کرنی ہے تو ایک اور تھریڈ بنا لیجیے۔ موجودہ تھریڈ سے فارغ ہو کر وہاں بحث کر لیں گے۔
آگے چوں کہ آپ نے امام محمدؒ کے بارے میں بحث کی ہے اور میں مثال تبدیل کر چکا ہوں اس لیے اس بحث کو آپ نئے تھریڈ میں منتقل کر سکتے ہیں۔ یہاں اس پر بات کرنے کی مزید ضرورت نہیں رہی۔
میں نے آپ سے کہا تھا کہ :
میں مسکرایہ تو کیا کرو گے!
نہیں جناب! بات تو اب یہیں ہو گی!
میں واقعتاً اب مسکرا رہا ہوں کہ کس طرح محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے!
ضرورت اس صورت میں نہیں رہے گی کہ آپ محمد بن الحسن الشیبانیؒ کو ناقابل استدلال و ضعیف و متروک، جہمی و کذاب تسلیم کر لیں گے!
جن کے ثبوت ہم پیش کر چکے ہیں! آپ کی اٹکل سے تو یہ جرح رفع نہیں ہو سکی!
ایک بار پھر سوال عرض ہے:
بھائی جان! آپ اس کے جواب کو مستقل گول کیے جارہے ہیں۔ پہلے جناب کا موقف تھا کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت ہوتی ہے۔ پھر موقف ہوا کہ قاضی سے فرق ہوتا ہے۔ اب میں نے عرض کیا ہے کہ یہ فرق والی حیثیت کسی دلیل سے ثابت کریں تو آپ یہ الفاظ ارشاد فرما رہے ہیں!!! دلیل دے دیں تاکہ بات ختم ہو۔
اب اگر آپ دلیل بھی نہیں دے سکتے اور فرق بھی نہیں بیان کر سکتے اور لغت سے کوئی حوالہ بھی نہیں دے سکتے تو پھر یہاں آپ (معذرت کے ساتھ) کیا بحث برائے بحث کے لیے تشریف لائے ہیں؟
اشماریہ بھائی! آپ کو کہا گیا ہے کہ:
اشماریہ بھائی! آپ پہلے ایک کام کریں! پرائمری اسکول میں داخلہ لیں، اور کسی انگلش میڈیم میں نہیں! بلکہ اردو میڈیم میں! جب آپ کو وہاں قاضی ، اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آجائے، پھر آپ اپنی باتوں کا تجزیہ کرکے جو اشکال باقی رہے، اسے ہمارے سامنے بیان پیش کریں! کیونکہ بھائی! یہ بات میں آپ کو پہلے بھی بتلا چکا ہوں کہ میں آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہا! میرے مراسلہ کا مطالعہ ذرا غور سے کیا کریں!! آپ سے عرض کیا تھا کہ یہ سارا معاملہ آپ کو اس لئے پیش آرہا ہے کہ آپ محدث کو حکومت کی جانب سے مامور قاضی باور کروانے پر تلے ہو، جبکہ ہم نے آپ کو یہ کہا تھا ، اور شروع سے اب تک یہی کہا ہے کہ محدث کی قاضی جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ فتدبر!
آپ یہ بات ہم کئی بار بتلا چکے ہیں کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو نہیں پڑھا سکتے! اس واسطے آپ کو اسکول میں داخلہ لینا ہو گا!
مزید کہ دارالعلوم دیوبند کا حوالہ بھی پیش کر دیا گیا ہے!!
چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اشماریہ بھائی! یہ ابتسامہ تو اپنی خفگی چھپانے کے لئے ہے! چلیں، اس پر ایک غزل کا شعر عرض کرتا ہوں!
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
آنکھوں میں نمی، ہنسی لبوں پر
کیا حال ہے، کیا دکھا رہے ہو

یہ چلیں آپ کی بات مان لیں ! چہ معنی دارد! ہماری بات ہی درست ہے! اس پر بھی ایک شعر یاد آیا ہے، ممکن ہے آپ کی حالت میں شدت پیدا ہو! مگر بہت زبردست شعر ہے:
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
اشماریہ بھائی! ایک اور شعر یاد آیا ہے، مگر ذرا ترمیم کے ساتھ!
ہماری جیب سے جب بھی قلم نکلتا ہے
سیاہ کار مقلدوں کا دم نکلتا ہے

ہاتھ لا اے دوست ، کہو کیسی کہی!
یاد آیا ، میں نے کہا تھا کہ میں مسکرایا تو کیا کرو گے!

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اب ذرا آپ دوبارہ اپنی تفصیل کو وضاحت سے بیان فرما دیجیے۔ کیوں کہ عبارت سے تو یہی پتا چل رہا ہے کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع اور قاضی کا عدول کی طرف رجوع تقلید نہیں ہے کیوں کہ یہ (رجوع کرنا) نص سے ثابت ہے۔ عبارت میں یہ کہاں سے ثابت ہو رہا ہے کہ اخذ شدہ اگر محض ان کا قول ہوگا تو تقلید ٹھہرے گا اور اگر اس کے علاوہ انہوں نے قرآن، حدیث، اجماع سے استنباط کیا ہو یا انہوں نے دو معارض احادیث کے درمیان تطبیق دی ہو یا انہوں نے ایک کو ناسخ اور دوسری کو منسوخ قرار دیا ہو تو یہ تقلید نہیں ہوگا؟؟
فہو عمل بحجۃ میں "ہو" ضمیر کس جانب راجع ہے؟؟
پھر مصنف اور شارح کا مشترکہ جملہ کچھ یوں ہے (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)
جو ہائیلائٹ کیا ہے اس سمیت ذرا خود ترجمہ کر دیجیے۔ مہربانی ہوگی
نیز یہ بھی بتائیے گا کہ وإن كان العمل بما أخذوا بعده تقليداً میں "ما" عام ہے۔ اس کی "فقط ان کے قول" کے ساتھ تخصیص کی کوئی خاص وجہ ہے؟
یہ تمام باتیں اس سے قبل بیان کی جا چکی ہیں! آپ کو ہماری بات پر جو اعتراض ہو پیش کریں!
جیسا کہ ہم نے آپ کے بیان پر پیش کیا تھا کہ آپ نے ضمیر غلط لوٹائی ہے! اور آپ کو بتلایا بھی تھا کہ کیسے!! اب تک تو آپ عبارت کی غلط ترکیب کر کے عامی کو مفتی کا مقلد باور کروانے پر مصر تھے، آپ کی ترکیب درست کر دی گئی، مگر پھر بھی بضد ہیں اور ہوا میں تیر چلائے جا رہے ہیں!
اشماریہ بھائی جان! ہمارے مراسلہ کو ذرا غور سے پڑھا کریں، یہ بات آپ کو پہلے ہی بتلا دی گئی ہے! اور آپ نے خود اعتراف کیا تھا کہ آپ کو سمجھ نہیں آئی کہ شرح التلويح علی التوضيح کی عبارت پیش کیوں کی!
اور یہ وجہ ہم نے شرح التلويح علی التوضیح سے بھی بیان کر دی تھی، جبکہ ایک قرینہ تو اسی عبارت میں مو جود ہے کہ آگے کہا گیا ہے کہ (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد)۔
اب اگر عامی کا مفتی کے فتوی پر عمل تقلید ہی ہوتا تو اسے عرف قرار دینا اور اصطلاح سے خارج قرار دینا، چہ معنی دارد!!
اشماریہ بھائی جان! اب ذرا کلام کو سمجھ کر مزید تحریر کیجئے گا! کیونکہ علم الکلام کے گھوڑے دوڑانے سے آپ کو پھر ندامت کا سامنہ ہو گا! اسی لئے کہتا ہوں کہ:
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتےصاحب! اگر رکھتے خبر پہلے

اور اب بتی والی بات نہیں کر دیجیے گا۔
اور ایک مہربانی اور اگر کر دیں اور اپنے ذکر کردہ شعر کی تقطیع کر دیں (ابتسامہ)۔۔۔۔۔
اشماریہ بھائی! ایک قصہ بتلاتا ہوں، میں جب طالب علمی کے زمانے میں ہاسٹل میں رہتا تھا، وہاں اور پاکستانی بھی تھے، کچھ پنجاب سے بھی تھے۔ ایک دن شاعری کی کچھ بات چل رہی تھی، ایک پنجابی دوست نے کہا کہ اس شعر کا وزن صحیح نہیں:
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
آپ کی یہ بات پڑھ کر مجھے یہ واقعہ یاد آگیا کہ کہیں آپ بھی اس شعر کی تقطیع پر سوال نہ کھڑا کر دیں، ویسے بھی سوالات کھڑے کرنے میں تو آپ ماسٹر ہو، سوال ہی کھڑا کرنا ہے نا، کوئی جواب تھوڑا ہی دینا ہے!!
تھوڑا سا تحمل آپ اختیار کر کے اس کی خود ہی وضاحت فرما دیں۔ ایسا نہ ہو کہ جناب کا مدعی میں غلط سمجھ بیٹھوں۔
بیان تو پہلے ہی کردیا تھا، دیگر الفاظ میں بھی، گر سمجھ نہیں آیا تو ہم کیا کر سکتے ہیں، ویسے بھی
سخن شناس نئی دلبرا خطاء اینجاست
ابھی اس بات کا بیان دوبارہ اوپر گزرا ہے۔
خیریت؟؟؟ دانت صاف نہیں کرتے کیا؟؟؟
اشماریہ بھائی! آپ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لے ہی لیں، مسکرانے میں دانتوں کو دکھلانا لازم نہیں!
بھائی جان! آپ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں آگے بھاگ لیں۔ کوئی منع نہیں ہے۔ لیکن جو چیز مانگی ہے دوران بحث اس کا بحث سے تعلق ہے اس لیے مہربانی کر کے وہ پیش فرمائیے۔ بحث ہو رہی ہے تقلید پر اور آپ اسی کی تعریف پیش کرنے سے انکاری ہو رہے ہیں۔
لو جناب! الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے! اول تو خود امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ کو بحث میں شامل کرتے ہیں، جب بحث سے تعلق قائم ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ الگ تھریڈ بنا لیں!
بھائی جان! آپ انکار کردیں کہ آپ تقلید کی اس تعریف کو جو فقہ حنفیہ کی کتب سے پیش کی گئی ہیں، نہیں مانتے!
ایک بار پھر سوال گندم اور جواب چنا۔
دوبارہ سوال عرض ہے اس درخواست کے ساتھ کہ سیدھا سادہ جواب دیجیے بغیر گھمائے پھرائے۔
محدث کی حیثیت قاضی کی سی ہے یا گواہ کی سی؟ وہ ایک ہی وقت میں ایک ہی حدیث پر حکم لگانے میں قاضی بھی ہے اور گواہ بھی، آخر یہ کیا گورکھ دھندا ہے۔
بھائی جان! آپ کہیں مراقبہ کی حالت میں میرے مراسلہ کو نہیں پڑھتے؟
بھائی جان! یہ دلیل ہم نے اپنے جواب کی دی تھی، کہ اس طرح جواب دینا بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور آپ کے اس سوال پر جواب یہ دیا گیا تھا:
بھائی جان! آپ نے درست فرمایا کہ آپ کی عقل عاجز ہے! اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی مت تقلید نے مار دی ہے!
ایک بات یہ بتلاو ! امام ابو حنیفہ استاد ہیں یا شاگرد!! وہ کبھی حماد بن ابی سلیمان کے شاگرد بن جاتے ہیں، کبھی محمد بن حسن الشيبانی کے استاد!!
بھائی جان! ایک بات بتلاؤں کبھی کبھی سوال کا جواب سوال سے دینا آسان فہم اور واضح جواب ہوتا ہے۔ اور یہی میں نے بھی کیا ہے۔ آپ اس گورکھ دھندے کو سمجھ جائیں گے کہ امام صاحب کب ایک حدیث کی روایت میں کب شاگرد اور کب استاد بن جاتے ہیں، تو آپ کو یہ بھی سمجھ آجائے گا!
ہمارا مناظرہ نہیں ہورہا تو میں بھی اس پر وقت کیوں ضائع کروں؟
اشماریہ بھائی! آپ کیاصرف مناظرہ میں ہی جواب دیا کرتے ہیں؟
اشماریہ بھائی! ایسے جان نہیں چھوٹے گی! آپ نے یہ جو فرمایا تھا کہ:
البتہ آپ کی یہ بات قبول ہے: "اجتہاد میں اگر اختلاف ہو جائے تو جس کا اجتہاد درست معلوم ہو اسے ہی قبول کیا جائے گا اور دوسرے کو مخطئ قرار دیا جائے گا۔ یہ بالکل اس آیت کے ذریعے قابل استدلال ہونے کو ثابت کرتا ہے۔"
اور یہ بات قبول نہیں : "لیکن یہ اس بات کا پابند نہیں کرتا کہ جب، کسی مجتہد کی خطاء بیان کردی جائے تب بھی اسی مجتہد کے قول سے چمٹا جائے!! بلکہ اسے ترک کرنا لازم آتا ہے۔" اور قبول نہ ہونے کی وجہ بہت سمپل ہے کہ بسا اوقات آپ کے نزدیک ایک چیز واضح ہوتی ہے اور دوسرے کے نزدیک نہیں ہوتی۔ تو اس پر یہ لازم ہے کہ جسے آپ خطاء کہہ رہے ہیں وہ اسے خطاء نہ سمجھتے ہوئے بھی جناب کی بات مانے؟؟؟ ایسا نہیں ہے اور اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ فرمائیے۔
آپ کے اس مرض کا تریاق ہم نے محمود الحسن دیوبندی کے نسخہ سے پیش کیا تھا کہ:
میرے بھائی! میں آپ کو اس کا ثبوت دے دیتا ہوں، جہاں نہ صرف یہ کہ صرف ایک عمل میں بلکہ مقلد کا مستقل اصول بتایا گیا ہے:
التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي
فالحاصل أن مسئلة الخيار من مهمات المسائل، وخالف أبو حنيفة فيه الجمهور، وكثيرا من الناس من المتقدمين، والمتأخرين صنفوا رسائل في ترديد مذهبه في هذه المسئلة، ورجح مولانا الشاه ولي الله المحدث الدهلوي قدس سره في رسائل مذهب الشافعي من جهة الأحاديث والنصوص، وكذلك قال شيخنا مدظله، يترجح مذهبه، وقال: الحق والإنصاف أن الترجيح للشافعي في هذه المسئلة، ونحن مقلدون، يجب علينا تقليد إمامنا أبي حنيفة، والله أعلم.

پس اس کا حاصل(بحث کا خلاصہ ) یہ ہے کہ مسئلہ خیار مہمات المسائل میں سے ہے، اور امام ابو حنیفہ نے اس مسئلہ میں جمہور کی مخالفت کی ہے، اور متقدمین و متاخریں میں سے بہت سے لوگوں نے امام ابو حنیفہ کے مسئلہ کی تردید میں رسائل لکھے ہیں، اور مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ نے رسائل میں امام شافعی کے مذہب کو احادیث و نصوص کی وجہ سے راجح قرار دیا ہے، اور اسی طرح ہمارے شیخ مد ظلہ(محمود حسن دیوبندی) نے بھی کہا کہ ترجیح امام شافعی کے مذہب کو ہے، اور کہا کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح ہے، اور ہم مقلد ہیں، ہم پر ہمارے امام ابو حنیفہ کی تقلید واجب ہے، واللہ اعلم۔
ملاحظہ فرمائیں:
مجلد 01 صفحه 84التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – الطاف ايند سنز
مجلد 01 صفحه 49التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – مكتبه رحمانيه
مجلد 01 صفحه 35 - 36التقرير للترمذي – شيخ الهند محمود حسن ديوبندي – قديمي كتب خانه

یہ ہے مقلِدین حنفیہ دیوبندیہ کا اصول کہ حق واضح ہو جانے کے باوجود بھی اپنے مقلَد کے قول سے چمٹا رہتا ہے!!
لہٰذا اب آپ اپنا علاج کروائیں! اور تسلیم کریں کہ آپ کی بات غلط تھی!
یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا کہ میں اس کا جواب نہیں دیتا! میان جی ! کوئی جواب ہو گا تو دو گے ! اس کفر و شرک پر کوئی دلیل ہو گی تو پیش کرو گے! آپ نے مقلدین دیوبندیہ کا مؤقف غلط بیان کیا تھا، ہم نے محمود الحسن دیوبندی کی عبارت پیش کرکے آپ کے بیان کی غلطی واضح کر دی ہے!
یہ عجیب کہی کہ یہ مناظرہ نہیں تو اس پر وقت ضائع نہیں کرتا! میاں جی! آپ کو پہلے اتنی لمبی لمبی چھوڑتے وقت یہ سوچنا چاہئے تھا کہ محمود الحسن دیوبندی صاحب آپ کی گپ کے راستے خود بند کر گئے ہیں!
لا حول ولا قوۃ الا باللہ
دوبارہ عرض کر رہا ہوں:
جناب عالی! دبوسیؒ نے یہاں حجج مضلہ کا ذکر کیا ہے۔ یعنی ان چیزوں کا جنہیں مناظرہ میں بطور دلیل کے پیش کیا جائے اور وہ گمراہ کریں۔
جیسے میں مناظرہ کے دوران آپ کو کہوں کہ آپ فلاں چیز پر دلیل بیان کریں اور آپ کہیں کہ بس فلاں نے کہا ہے اور فلاں کا کہنا میرے لیے دلیل ہے، تم بھی مانو۔ تو ایسی تقلید اور ایسے الہام کے پیش کرنے کا ذکر دبوسیؒ نے یہاں کیا ہے۔ اور جناب نے یہ تقلید کے کرنے پر لا چسپاں کیا!
دبوسی نے یہاں مقلدین کو جانوروں کے شمار نہیں کیا بلکہ قائل بالتقلید یعنی مناظرہ میں تقلید کو بطور دلیل پیش کرنے والے کو شمار کیا ہے۔
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے جانور کی فہرست میں ''مقلدین '' کو شمار کیا ہے، یا ''غیر مقلدین'' کو؟
ابو زید الدبوسی الحنفی المعتزلی نے اپنا دماغی علاج کروانے کا ''مقلدین'' کو کہا ہے یا ''غیر مقلدین'' کو؟

لو جی ایک بار پھر ترک تقلید کا دعوی ہے بغیر فہم فرق کے۔
یار میں نے کہا ہے کہ وہ صحت کے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔ اور جناب نے شرعی مسائل میں کلام شروع کر دیا۔ آپ کو فرق نظر نہیں آتا کیا صحت اور شریعت میں؟؟؟
اشماریہ بھائی! میری فہم پر اعتراض کرنے سے پہلے، اپنے نسیان کا علاج کروائیں: آپ اپنی تحریر لکھ کر خود بھول جاتے ہو! یہ صحت کا معاملہ بھی فقہائےاحناف سے ماخوذ ہو سکتا ہے، بلکہ اس صحت کے ہی مسائل میں تداوی بالحرام میں فقہائے احناف کے فتاوی یاد دلاؤ ں کیا؟
کھل گیا عشقِ صنم طرزِ سُخن سے مومن
اب چھپاتے ہو عبث بات بناتے کیوں ہو

اگر وہ ڈاکٹر صاحب صرف صحت کی بات کرتے، تب بھی وہ فقہائے احناف سے ہی متاثر معلوم ہوتے ہیں، کیونکہ فقہائے احناف نے اسے شہوت کے لئے بالاتفاق ممنوع قرار دیا ہے، باقی وجوہات پر فقہائے احناف نے راستہ کھلا چھوڑا ہے!
اور ذرا آپ اپنی تحریر دوبارہ پڑھیں آپ نے اسے ''جائز'' کہنے کا بھی ذکر کیا تھا! اور یہ ''جائز'' کہناتو شرعی حکم ہے میاں جی!
میں آپ کا کلام اور جواب دوبارہ پیش کرتا ہوں:
(ویسے ایک اضافی سوال یہ ہے کہ کراچی نفسیاتی ہسپتال کا مشورہ آپ نے اس لیے تو نہیں دیا کہ وہاں کے (غالبا) ایڈ منسٹریٹر ڈاکٹر مبین اختر استمناء بالید کو جائز اور صحت کے لیے بہتر فرماتے ہیں؟؟)
اشماریہ بھائی! آپ بھی ہو بڑے شرارتی! شرارت آپ کرتے ہوں پھر جب ہم جوا ب دیتے ہیں تو فورم کی انتظامیہ کو پکارتے ہو!مجھے تو خیر یہ معلوم نہیں تھا کہ کسی ڈاکٹر صاحب کا یہ خیال بھی ہے، نہ میں کسی مبین اختر کو جانتا ہوں، ویسے آپ کو بڑی خبر ہے! لیکن آپ کو خبر نہیں ہے تو اپنے حنفی علما کی نہیں! آیئے ہم آپ کو بتلاتے ہیں کہ آپ کے حنفی علماء اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں:
پھر کیا زلق لگانا جائز ہے۔ تلخیص جواب عینی وغیرہ یہ ہے کہ جس شخص نے اس سے شہوت کا مزہ چاہا تو یہ حرام ہے، چنانچہ مشائخ نے حدیث لکھی کہ ناكح اليد ملعون، ہاتھ کا جماع کرنیوالا ملعون ہے، اور زیلعی رحمہ اللہ نے بعض بزرگوں سے ذکر کیا ہے کہ محشر میں بعضوں کے ہاتھ حاملہ ہونگے۔ تو میرا گمان یہ ہے کہ یہی زلق لگانے والے ہوں گے۔ بالجملہ شہوت پرستی سے یہ فعل بالاتفاق حرام ہے اور اگر اسنے اس سے غلبہ شہوت کو دبانا چاہا در حال یہ کہ اس کو حلال جماع میسر نہیں ہے۔ تو شیخ ابوبکر الاسکاف نے کہا کہ اسکو ثواب ملے گا۔ فقیہ ابو اللیث نے کہا ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے روایت آئی کہ اس کو یہی بہت ہے کہ برابر چھوٹ جاوے، لہٰذا مشائخ نے کہا کہ امید ہے کہ عذاب نہ ہو۔ انزاری رحمہ اللہ نے غابۃ البیان میں کہا کہ میرے نزدیک قول ابو بکر الاسکاف صحیح ہے۔ عینی رحمہ اللہ نے کہا کہ امام احمد سے اجازت اور جدید قول شافعی میں حرمت ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ یہاں یہ اشکال وارد ہے کہ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ وغیرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اختصاء کی اجازت چاہی تھی اور مخنث ہو جانا مقصود نہ تھا کیونکہ اسکی نفيحت تو بدیہی ہے بلکہ کمی شہوت پس اگر زلق جائز ہوتا تو یہ مقصود حاصل ہو جاتا لہٰذا صحیح وہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے اور شیخ ابو بکر رحمہ اللہ وغیرہ کے قول میں تاویل یہ ہے کہ اگر اجنبیہ عورت سے تخلیہ ملا کہ خوف زنا ہے، پس اس نے زلق سے مادہ مہیجہ نکال دیا تو اِس حالت میں روا بلکہ امید ثواب ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 1112 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مکتبہ رحمانیہ، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 893 جلد 01 عین الہدایہ – سید امیر علی ۔ مطبوعہ نامی منشی نولکشور لکھنؤ
کیا یہ بتلانے کی ضرورت ہے کہ ابو بکر الاسکاف الحنفی اور اور انزاری الحنفی نے تو کنوارے ہونے کی صورت میں، اس زلق لگانے یعنی مشت زنی کو کارِ ثواب قرار دیاہے، اس پر تفصیل بیان کرنے کی نہ میری خواہش ہے ، اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوگا! مگر اتنا بتلا دوں کہ ان مسائل میں نہ الجھنا!بہر حال یہ ڈاکٹر صاحب فقہائے احناف سے متاثر معلوم ہوتے ہیں!
ندامت ہو گی پیچھے سے نہ سوچو کے اگر پہلے
یہ دن کب دیکھتے صاحب!اگر رکھتے خبر پہلے

(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ دونوں ضمیروں کا مرجع بتا کر ذرا واضح ترجمہ فرما دیجیے!
تیسری بھی متصل بعد ہے لیکن دو ہی کافی ہیں۔ (امام ابو یوسفؒ کا آپ کا ذکر کردہ جملہ یاد آگیا۔۔۔۔ ابتسامہ)
اشماریہ بھائی! آپ کو یہ پہلے بھی سمجھایا تھا کہ یہ عربی کے بھرم کسی اور محفل میں مارا کیجئے!
اشماریہ بھائی آپ کو قاضی ابو یوسف کا قول بالکل صحیح موقع محل پر یاد آیا ہےکہ:
قَالَ فَتَفَكَّرَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ هَذَا خَفِيٌّ مِنْ أَيْنَ أَنْ يَهْتَدُوا لِهَذَا
ابو یوسفؒ اس پر کچھ دیر سوچتے رہے، پھر بولے کہ یہ بہت مخفی قسم کی بات ہے، اہل مدینہ اس کا پتہ کہاں سے پائیں گے؟
بالکل یہی کام آپ نے کیا ہے، کہ گمان کیا کہ یہ نکتہ مخفی نکتہ ہمیں کیسے معلوم ہوگا! مگر افسوس تو اس کے با وجود بھی آپ کے ابتسامہ پر ہے، کہ ایک تو فراڈ کرتے ہو اوپر سے مسکراتے ہو!
اور ہم کو یہ قول یاد آیا جو قاضی ابو یوسف کو اس شخص نے کہا تھا، اور یہی بات ہم آپ سے کہتے ہیں:
قَالَ قُلْتُ وانما يحْتَج بِقَوْلِكَ عَلَى ضُعَفَاءِ النَّاسِ
اس شخص نے کہا کہ تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''
اس سے قبل بھی آپ نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میں نے ضمیر کا مرجع غلط لیا ہے، اور آپ نے اپنے تئیں ضمیر کا مرجع بیان کیا تھا، اور پھر جب ہم نے آپ کو بتلایا کہ ہمرا بیان کیا ہوا ضمیر کا مرجع ہی درست ہے اور آپ کا بیان کی اہوا ضمیر کا مرجع بالکل غلط ہے اور آپ کی ضمیر الٹی پڑ گئی تھی! تب بھی آپ بجائے اس کے کہ آپ اپنی غلطی تسلیم کرتے ، کہتے ہو کہ '' چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں'' اس کے باوجود بھی ابھی تک آپ پر عربی دانی کا بھوت سوار ہے، کوئی بات نہیں ہم آپ کا یہ بھوت بھی ابھی اتار دیتے ہیں! لیکن اس سے قبل آپ کی یاداشت کو پیش نظر رکھتے ہوئی پچھلا معاملہ پھر پیش کرتے ہیں:
محترم بھائی آپ نے عبارت تو مجھے سمجھانے کی عمدہ کوشش کی۔ میں اس پر تبصرہ بھی کرتا۔ لیکن۔۔۔۔ یہاں پھر ترجمہ میں ایک چھوٹی غلطی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ کچھ الگ مفہوم دے رہا ہے اور تشریح بھی واضح نہیں ہو رہی۔ میں ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔
جب آپ اس "علیہما" کا ترجمہ کریں گے تو ترجمہ کچھ یوں ہو جائے گا " اس لیے کہ یہ نص نے ان دونوں پر واجب کیا ہے"۔ اب جب نص نے واجب ان دونوں یعنی مفتی اور قاضی پر کیا ہے تو ان کا عمل کرنا حجت یا دلیل پر عمل کرنا ہوگا نہ کہ عامی کا۔ مسئلہ ہے عامی کی تقلید کا۔ اسے تو واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے اخذ شدہ پر عمل کرنا تقلید ہے۔ اس میں کوئی تفریق نہیں کہ یہ ان کا قول ہوگا یا نص سے ثابت شدہ ہوگا۔
اس پر آپ کو بتلایا گیا، باقاعدہ آپ کی ترکیب کا بطلان بھی بتلایا گیا ، اور ہماری بیان کردہ ترکیب کا اثبات بھی بیان کیا گیا:
اشماریہ بھائی! آپ نے'' عليهما ''کی ضمیر مفتی اور قاضی کی طرف غلط لوٹائی ہے، یہ ضمیر قاضی اور عامی کی طرف لوٹے گی، کیونکہ قاضی گواہی طلب کرنے والا، اور عامی فتوی طلب کرنے والا ہے اور معاملہ انہیں کے لئے ہے کہ ان کا قاضی کا گواہ سے رجوع کرنا اور عامی کا مفتی سے رجوع کرنا! لہٰذا ہمارا بیان کیا ہوا بیان ہی درست ہے!
یہ عذر امتحان جذب کیسا نکل آیا

ہم الزام ان کو دیتے تھے، قصور اپنا نکل آیا
اور پھر بجائے اس کے کہ اپنی غلطی تسلیم کرتے، آپ فرماتے ہیں:
چلیں جی آپ کی بات مان لیتے ہیں۔ آپ نے تو ترجمہ کیا ہی نہیں تھا (ابتسامہ)۔
اس کے باوجود بھی بھائی کے بھرم ہیں کہ ختم ہیں نہیں ہو رہے!
اشماریہ صاحب اوپر سے فرماتے ہیں، کہ واضح ترجمہ کرو! جیسے یہ جو ترجمہ کیا گیاہے واضح نہ ہو! اب کسی کی اردو اس قدر کمزور ہو تو اس میں ہمارا کیا قصور!!
اردو آپ کی ماشاء اللہ سے اتنی زبردست ہے کہ نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہے، یہ قاضی اور قاضی جیسی حيثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، اور حد تو یہ ہوئی کہ مذکورہ ترجمہ میں ضمیر کا مرجع بھی سمجھ نہیں آیا، اور نہ ترجمہ سمجھ آیا کہ واضح ترجمہ کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اب جب میں آپ کو کہتا ہوں کہ آپ کو چاہئے کہ اردو میڈیم پرائمری اسکول میں داخلہ لیں تو اس میں غلط کیا ہے؟
اشماریہ بھائی! یہ بات آپ کو متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ ہم آپ کو یہاں لغت تو پڑھانے سے رہے، ہاں ایک کام کر سکتا ہوں کہ آپ کو کچھ لغت کی کتابوں کا لنک دیئے دیتا ہوں، ان کتب سے استفادہ حاصل کریں۔
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ اول
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ دوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ سوم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ رفاہ عام پریس، لاہور- حصہ چہارم
فرہنگِ آصفیہ مطبوعہ اردو سائنس بورڈ ، لاہور

اگر فرہنگ آصفیہ آپ کے لئے مشکل ہو تو بتلایئے گا، آپ کو پھر فیروز اللغات کا لنک دیں گے!
اسی ترجمہ میں موجود ہے کہ ان ضمیروں کا مرجع کیا ہے! اور یاد رہے کہ ترجمہ بالکل واضح ہے! میں پھر بھی ان کو مارک کر دیتا!
بس اسی طرح کے اٹکل کے گھوڑے دوڑا کر فقہ حنفی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت صحیح احادیث کو رد کیا گیا ہے، جیسے اسی یہودیوں کو رجم کرنے کی حدیث کو بھی فقہ حنفیہ نے رد کردیا، فقہ حنفیہ میں یہودیوں (یا کسی اور کافر) کے لئے رجم کی سزا نہیں ہے اور ذرا غور کیجئے گا کہ امام محمد خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کر کے کس طرح اس حدیث اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو رد فرمارہے ہیں:
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَجُلا مِنْهُمْ وَامْرَأَةً زَنَيَا، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَجِدُونَ فِي التَّوْرَاةِ فِي شَأْنِ الرَّجْمِ» ؟ فَقَالُوا: نَفْضَحُهُمَا، وَيُجْلَدَانِ، فَقَالَ لَهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: كَذَبْتُمْ، إِنَّ فِيهَا الرَّجْمَ، فَأَتَوْا بِالتَّوْرَاةِ، فَنَشَرُوهَا، فَجَعَلَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ عَلَى آيَةِ الرَّجْمِ، ثُمَّ قَرَأَ مَا قَبْلَهَا وَمَا بَعْدَهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلامٍ: ارْفَعْ يَدَكَ، فَرَفَعَ يَدَهُ، فَإِذَا فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، فَقَالَ: صَدَقْتَ يَا مُحَمَّدُ، فِيهَا آيَةُ الرَّجْمِ، «فَأَمَرَ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُجِمَا» .قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَرَأَيْتُ الرَّجُلَ يَجْنَأُ عَلَى الْمَرْأَةِ يَقِيهَا الْحِجَارَةَ ".
قَالَ مُحَمَّدٌ: وَبِهَذَا كُلِّهِ نَأْخُذُ، أَيُّمَا رَجُلٍ حُرٍّ مُسْلِمٍ زَنَى بِامْرَأَةٍ وَقَدْ تَزَوَّجَ بِامْرَأَةٍ قَبْلَ ذَلِكَ حُرَّةٍ مُسْلِمَةٍ وَجَامَعَهَا فَفِيهِ الرَّجْمُ، وَهَذَا هُوَ الْمُحْصَنُ، فَإِنْ كَانَ لَمْ يُجَامِعْهَا إِنَّمَا تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَدْخُلْ بِهَا، أَوْ كَانَتْ تَحْتَهُ أَمَةٌ يَهُودِيَّةٌ أَوْ نَصْرَانِيَّةٌ لَمْ يَكُنْ بِهَا مُحْصَنًا، وَلَمْ يُرْجَمْ، وَضُرِبَ مِائَةً.وَهَذَا هُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا
موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني » كِتَابُ الْحُدُودِ وَالسَّرِقَةِ » بَابُ الْحُدُودِ فِي الزِّنَا


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ یہودی آئے اور آپ کو بتایا کہ ان میں سے ایک آدمی اور عورت نے زنا کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: رجم کے بارے میں تمہیں تورات میں کیا حکم ملا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان دونوں کو رسوا کیا جائے۔ کوڑے لگائے جائیں، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ علہ نے فرمایا تم نے جھوٹ بولا۔ اس میں تو رجم کا حکم ہے وہ (یہودی) تورات لے آئے انہوں نے اس کھولا ان میں سے ایک آدمی نے رجم والی آیت ہر پاتھ رکھ دیااور اس کے ماقبل اور مابعد کو پڑھا۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا اپنا ہاتھ اُٹھاؤ، اس نے اپنا ہاتھ اُٹھایا تو اس میں آیت رجم موجود تھی۔ وہ کہنے لگے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے سچ فرمایا ہے اس میں آیت رجم موجود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو ان دونوں کو سنگسار کردیا گیا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے دیکھا کہ (وہ) آدمی اس عورت کو بچانے کیلئے اس کے اوپر جھک جاتا تھا۔
حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں، اگر کوئی آزاد مسلمان کسی عورت سے زنا کرے جبکہ وہ پہلے کسی مسلمان آزاد عورت سے نکاح کر چکا ہو اور اس سے اس نے ہم بستری بھی کر لی ہو، اس صورت میں رجم کا حکم ہے کیونکہ وہ محصن ہے اگر اس نے مجامعت نہ کی ہو صرف نکاح کیا اور ہم بستری نہ کی ہو یا اس کے نکاح میں یہودی یا نصرانی لونڈی ہو تو وہ محصن نہیں اس کو سنگسار نہ کیا جائے گا، اس کو کوڑے لگائے جائیں گے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ہمارے اکثر فقہاء کرام کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 166 – 168 جلد 02 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – مكتبة البشری، كراتشي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 307 – 308 موطأ امام محمد - محمد بن الحسن الشيباني – الميزان، لاهور
میں اس مسئلہ میں زیادہ لمبی چوڑی بحث نہیں کرتا، بس اتنا سوال ہے کہ رجم تو یہاں یہودیوں کا کیا گیا، اور فقہ حنفیہ صرف مسلمانوں کو رجم کرنے کا کہتی ہے، اور اب اشماریہ صاحب یہ محمد بن الحسن الشیبانی سے پوچھ کر بتلائیں کہ یہ حدیث تو یہودیوں سے متعلق تھی، اس حدیث مین یہودی کی جگہ مسلمان کیسے آ گئے؟ دوسری احادیث میں تو مسلمانوں کا ذکر ہے، مگر معاملہ کچھ یوں ہے کہ اس حدیث کا صاف انکار کرنے کے باوجود بھی محمد بن الحسن الشیبانی فرماتے ہیں کہ ''ہم ان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں''مجھے پھر وہی قاضی ابو یوسف کا قصہ یاد آیا کہ''تمہارے طریقہ استدلال کو ضعیف العقل لوگوں کے ہی خلاف استعمال کیا جا سکے گا۔''

لیجئے جناب اب اعتراض کیجئے! بتایئے اب کہ ہم نے غلط مرجع بتلایا ہے! مگر بھائی جان ! یاد رہے کہ مجھ کہ یہ ترجمہ بھی آپ کے حنفی بھائی کا ہے!

مگر میں آپ کے اٹکل کے گھوڑوں کو پہلے ہی باند ھ دیتا ہوں لیجئے جناب! اپنے دیوبندی علماء کا ترجمہ ، جس پر آپ کے عبد الرشید نعمانی صاحب کا مقدمہ بھی ہے:
مالک ۔ نافع ۔ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ ان میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودیوں سے پوچھا کہ رجم کے متعلق تم توریت میں کیا پاتے ہو تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم لوگ ان دونوں کو رسوا کرتے اور کوڑے لگاتے ہیں، تو ان سے عبد اللہ بن سلام نے کہا تم جھوٹے ہو، تورات میں سنگسار کر دینے کا حکم ہے۔ تم توریت لاؤ جب ان لوگوں نے لایا اور اسے کھولا تو ان میں سے ایک نے رجم کی آیت پر ہاتھ رکھ دیا اور اس سے پہلے اور اس کے بعد کی آیتیں پڑھیں عبد اللہ بن سلام نے فرمایا اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب ہاتھ اٹھایا تو وہیں پر رجم کر دینے کی آیت تھی۔ عبد اللہ بن سلام نے کہا آپ نے سچ کہا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اس میں رجم کی آیت ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو سنگسار کر دینے کا حکم صادر فرمایا اور انہیں سنگسار کیا۔ حضرت ابن رعمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے اس مرد کو دیکھا کہ اس عورت کو پتھر سے بچانے کیلئے اس عورت پر جھک جاتا تھا۔
امام محمد نے کہا کہ ہم ان سب پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسلمان آزاد مرد کسی عورت سے زنا کرے اور وہ اس سے پہلے کسی عورت سے نکاح کرچکا ہو اور اس کے ساتھ جماع بھی کرچکا ہو تو اس صورت میں سنگسار کرنے کا حکم ہے۔ اور یہی شخص محصن ہے اور اگر اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو بلکہ صرف نکاح کیا ہو اور جماع نہ کیا ہو یا اس کے پاس یہودی یا نصرانی لونڈی ہے تو اس کے سبب سے محصن نہ ہوگا اور سنگسار نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے مارے جائیں گے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اور اکثر فقہائے احناف کا یہی قول ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 316 – 317 موطا امام محمد مع ترجمہ اردو ۔ خواجہ عبد الوحید – محمد سعید اینڈ سنز ، کراچی

اشماریہ بھائی ! یہاں ایک ایسا نکتہ اٹھانا چاہتے ہیں، جس کا ہمارے اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، یہ نکتہ تو ہم نے اٹھایا ہی نہیں؛ کہ کسی آزاد مسلمان کو جس نے نکاح کیا اور جماع نہ کیا ہو، یا جس کے پاس یہودی یا عیسائی لونڈی ہو اس کو رجم نہیں کیا جائے گا! کیونکہ وہ محصن شمار نہ ہوگا!
یہاں سے اشماریہ صاحب ! کا ارادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیں گے کہ یہاں تو مسلمان کو محصن نہ ہونے کی صورت میں رجم نہ کرنے کی بات ہے!
جبکہ ہمارا اعتراض یہ نہیں ہے، ہمارا اعتراض یہ ہے کہ یہاں صرف مسلمان کے رجم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے، اور یہودی کو رجم نہ کیا جائے گا!
اشماریہ بھائی! اب آپ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں؟ کہ امام ابو حنیفہ ؒ، محمد بن الحسن الشیبانی کے نزدیک اور فقہ حنفیہ میں يہودیوں کے لئے رجم نہیں ہے؟
آپ کی آسانی کے لئے ایک دو عبارات آپ کے فقہاء کی پیش کر ہی دیتا ہوں:
بَاب الْإِحْصَان
مُحَمَّد عَن يَعْقُوب عَن أبي حنيفَة (رَضِي الله عَنْهُم) قَالَ لَا يكون الْإِحْصَان إِلَّا بَين الحرين الْمُسلمين العاقلين الْبَالِغين قد جَامعهَا بعد بلوغهما وهما على هَذِه الصّفة قَالَ أَرْبَعَة شهدُوا على رجل بِالزِّنَا فَأنْكر الْإِحْصَان وَله امْرَأَة قد ولدت مِنْهُ فَإِنَّهُ يرْجم فَإِن لم تكن ولدت مِنْهُ وَشهد عَلَيْهِ بالإحصان رجل وَامْرَأَتَانِ رجم وَإِن رَجَعَ شُهُود الاحصان فَلَا شَيْء عَلَيْهِم وَالله اعْلَم

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 279 جلد 01 الجامع الصغير وشرحه النافع الكبير لمن يطالع الجامع الصغير - محمد بن الحسن الشيباني - محمد عبد الحي اللكنوي - إدارة القرآن والعلوم الإسلامية، كراتشي

اشماریہ بھائی! اب کرو خود اس کا ترجمہ، اور بتاو کہ یہاں مسلمان ہونا رجم کی شروط میں شامل ہے یا نہیں؟ یعنی کسی غیر مسلم کو رجم نہیں کیا جائے گا!
اشماریہ صاحب ! یہ فنکاری آپ اپنے مقلدین کو دکھایا کیجئے!
ما اہل حدیثیم دغا را نشناسیم
صد شکر کہ در مذہب ما حیلہ و فن نیست

اشماریہ بھائی! یہ تو وہ مسئلہ ہے کہ ابن ابی شیبہ رحہمہ اللہ نے آپ کے امام اعظم ابو حنیفہؒ کے رد میں جو کتاب، ''كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ'' اپنی مصنف میں لکھی ہے اس کا سب سے پہلا مسئلہ یہی بیان کیا ہے، اور ابن ابی شیبہ کس دور کے عالم و محدث تھے، یہ بتانی کی ضرورت تو نہیں!
ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے پہلے چار احادیث درج کیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کا رجم کیا، اور پھر امام شعبی ؒ کا قول آپ کے امام صاحب کے مؤقف پر پیش کیا:
كِتَابُ الرَّدِّ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ
یہ کتاب ابو حنیفہ کی تردید میں ہے
هَذَا مَا خَالَفَ بِهِ أَبُو حَنِيفَةَ الْأَثَرَ الَّذِي جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یہ وہ مسائل ہیں جن میں ابو حنیفہ نے ان آثار کی مخالفت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔
مَسْأَلَةُ رَجْمِ الْيَهُودِيِّ وَالْيَهُودِيَّةِ
یہودی مرد اور یہودیہ عورت کو رجم کرنے کا مسئلہ
حَدَّثَنَاأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَقِيُّ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً»
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کاحکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاأَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا "
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کو سنگسار (کرنے کا حکم ) فرمایا۔
حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً "
جابر بن عبداللہ رضی اللل عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودیہ عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا
حَدَّثَنَاابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيَّيْنِ أَنَا فِيمَنْ رَجَمَهُمَا»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یہودیوں کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا اور میں نے ان یہودیوں پر سنگ باری کی۔
حَدَّثَنَاجَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً " وَذُكِرَ أَنَّ أَبَا حَنِيفَةَ قَالَ: لَيْسَ عَلَيْهِمَا رَجْمٌ
شعبیؒ سے منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نئ ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار (کرنے کا حکم) فرمایا۔ اور ابو حنیفہ کا یہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ یہودی مرد و عورت پر سنگساری کا حکم نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 277 جلد 07 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار التاج، بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 351 - 352 جلد 12 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - الفاروق الحديثة للطباعة والنشر ، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 80 - 81 جلد 13 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - مكتبة الرشد، الرياض
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 53 - 54 جلد 20 المصنف في الأحاديث والآثار - أبو بكر بن أبي شيبة - دار القبلة - مؤسسة علوم القرآن، الرياض

اشماریہ بھائی! اب میں اسے آپ کا تجاہل عارفانہ کہوں؟ یا ڈرامہ مقلدانہ؟
اشماریہ بھائی! اللہ کو جان دینی ہے، کچھ اللہ کا خوف کرو! اختلاف الگ چیز ہے، فہم و استدلال میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس طرح کی ڈرامے بازی تو نہ کرو!
آپ تو ماشاء اللہ! تخصص فی الفقہ کے طالب علم ہو! اب ایسے تو آپ نہیں ہو جیسے ایک عام تبلیغی ہوتا ہے! جنید جمشید اگر اسی بے سرو پا کی مار بھی دے تو وہ تو خیر معذور ہے، اسے کیا معلوم فقہ حنفی کیا ہے، محصن کسے کہتے ہیں؟ لیکن آپ ایسی باتیں کرو تو پھر اندازہ یہ ہوتا ہے کہ آپ دانستہ دھوکہ دے رہے ہو! یا پھر ایک اتنہائی نکمے طالب العلم ہو، اور درس نظامی بس رٹہ لگا کر یا نقل کر کے پاس کیا ہے؟ کیونکہ فقہ حنفیہ کا درس نظامی کا فارغ، یہ تو عین ممکن ہے کہ وہ علم الحدیث میں کورا ہو، بلکل یوں وسمجھو کہ متقاضی ہی اس بات کا ہے، الا ماشاء اللہ! لیکن فقہ حنفی جو سات سال تک رگڑ رگڑ کر پڑھتے ہو، اور پھر آخر ی سال دور حدیث میں فقہ حنفی کو احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دینے کے لئے اٹکلی اسباب تلاش کرتے پھرتے ہو، تو فقہ حنفی سے تو اچھی طرح پڑھتے ہیں!
سجن سے جھوٹ مت بولو، خدا کے پاس جانا ہے
نہ ہاتھی ہے نہ گھوڑا ہے، وہاں پیدل ہی جانا ہے


(جاری ہے)
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب والا! یہ میں نے کس بات کے جواب میں عرض کیا تھا؟ یقینا آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا!

بات کہیں ہو رہی ہوتی ہے آپ کہیں لے جاتے ہیں۔ پھر دعوی ہے ترک تقلید کا۔
اشماریہ بھائی! یہ تو آپ خودبیچ میں آیت رجم کی بات لائے تھے، مجھے کیوں الزام دیتے ہو!
ميں یہی کہتا رہاہوں کہ بھائی جان ! ہمارا استدلال آیت رجم سے نہیں!
اتنے تکلف کی کیا ضرورت ہے؟ آپ یہاں میرے ساتھ بحث فرما رہے ہیں نا۔ فرق اور میری بات پر اس کا انطباق باحوالہ پیش فرمائیے۔ ممنون ہوں گا۔
اشماریہ بھائی! یہ بھی خوب کہی، اردو آپ کو سمجھ نہیں آرہی، خود کچھ کرنا نہیں، کم از کم لغت ہی اٹھا کر دیکھ لیتے، مگر ہمیں کہتے ہیں، کہ یہ تکلیف بھی آپ ہی کریں، اور آپ کو فرق بتائیں! اشماریہ بھائی! آپ تو بڑے نکمے نکلے!
آپ کو یہ بات متعدد بار بتلائی گئی ہے کہ آپ کو ہم لغت تو پڑھانے سے رہے، اتنا بتلا دیتے ہیں کہ آپ کو اوپر فرہنگ آصفیہ کا لنک دیا ہے ، وہاں دیکھ لیجئے!
آپ کا قصور یہ ہے کہ آپ سیدھا اور واضح جواب نہیں دیتے۔ آپ یہاں اپنے علم و فضل کی نمائش کے لیے نہیں بحث و مباحثہ اور افہام و تفہیم کے لیے موجود ہیں۔ اس لیے مہربانی کر کے باتوں کو ادھر ادھر نہیں گھمایا کریں۔
اور ایک بار پھر متادبانہ عرض ہے کہ بندہ کو آپ کے اشعار کی بحر نہیں مل رہی۔ اس لیے تقطیع تحریر فرما کر مشکور ہوں۔
زبردست جناب! اسی کو کہتے ہیں عزائم بلند رکھنا!
بھائی کو موطا امام مالک کی عبارت کا ترجمع واضح معلوم نہ ہوا! نہ استفسار اور اعتراض کا فرق معلوم ہوا ہے، نہ قاضی اور قاضی جیسی حیثیت کا فرق سمجھ آتا ہے، مگر بھائی کے جذبہ کی داد دینی چاہئے، پھر بھی اشعار کی بحر کی تلاش میں ہیں!
اشماریہ بھائی! اب کیا آپ ہم سے یہ توقع بھی لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم کو علم عروض بھی پڑھائیں گے؟ اگر ایسا ہے تو بھائی! یہ ممکن نہیں!
خیر ایک شعر میں آپ کی لیاقت کا خیال کرتے ہوئے لکھتا ہوں، بتلائے گا کہ آپ کو اس کی بحر معلوم ہوئی!
بکری نے مارا ہے بکرے کو سینگ
تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سینگ


اب تو لگ رہا ہے کہ میں اٹکل پچو لڑا رہا ہوں یا نہیں آپ اپنی بات بچانے کے لیے ایسا ضرور کر رہے ہیں۔
یا تو آپ پوسٹ پڑھتے نہیں ہیں یا پھر بھول جاتے ہیں۔ ذہبیؒ نے کہا: اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شک نہیں۔ تو میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ ان میں تھوڑا بہت ضعف ہونا اور حافظ ہونا ایک ساتھ ممکن ہے۔
اشماریہ بھائی! ميں نے آپ کی تحریر بالکل پڑھی بھی اور اس کو بالکل درست سمجھا بھی اور آپ کے مؤقف کا نقص بھی بتلایا، کہ آپ اپنا سارا مدعا ان الفاظ کہ ''فيه ضعف'' پر کھڑا کر رہے ہو، جبکہ امام الذہبی رحمہ اللہ نے سخت جراح بیان کرنے بعد یہ فرمایا ہے کہ ''اتفق علی ضعفه'' اور اس کا معنی یہ نہیں کہ اس راوی میں تھوڑا بہت ضعف ہونے پار اتفاق ہے، بلکہ اس کا معنی ہے اس راوی کے ضعيف ہونے پر اتفاق ہے!
آپ کی بد ہواسی کا عالم یہ ہے کہ امام الذہبی کے کلام سے آپ عمر بن هارون کے مطلق یہ بیان کرتے ہو کہ اس میں تھوڑا بہت ضعف تھا، جس پر اتفاق ہے ، اور اسی عمر بن هارون کے متعلق، ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ کے کلام سے اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ اسے متروک کہا ہے اور متروک کا سبب متہم بالكذب ہوتا ہے!
اشماریہ صاحب! اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ علم حدیث کا میدان ہے، فقہ حنفیہ کے اٹکل پچّو کا نہیں!
ذرا متروک کا سبب دیكهیے:
والقسم الثاني من أقسام المردود: -وهو ما يكون بسببِ تُهمة الراوي بالكذب- هو المتروك.
نزهۃ النظر ۱۔۲۵۵ ط مكتبۃ المدینۃ
یعنی متروك كا سبب یہ ہوتا ہے کہ راوی پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہوتی ہے۔ یہ جرح ہے راوی کی عدالت پر۔
جبکہ حافظ راوی کی توثیق ہے اس کے حفظ میں۔ نہ کہ اس کی عدالت میں۔
آپ کہتے ہیں کہ حافظ کلمہ توثیق نہیں ہے ورنہ ابن حجر عسقلانیؒ متروک نہ قرار دیتے۔ ماشاء اللہ اہل حدیث ہو کر اصول حدیث کے میدان میں اٹکل پچو لڑائے جا رہے ہیں۔
حافظ کے معنی بیان کیجیے ذرا۔۔۔۔!
اور حافظ کے لغوی معنی سے تو توثیق ثابت ہوتی ہے۔ اگر آپ بضد ہیں ہی کہ یہ کلمہ توثیق نہیں ہے تو اس پر صریح حوالہ پیش فرمائیے!
آپ کی بات کا اعتبار نہیں ہے اور جو مثالیں آپ اپنے زعم میں لا رہے ہیں ان کا بطلان اور فرق واضح ہے۔
اشماریہ بھائی! اب کیا کہیں آپ کو! پچھلے پیراگراف میں امام الذہبیؒ کے کلام سے آپ یہ باور کروانا چاہتے تھے کہ عمر بن ھارون میں صرف تھوڑا بہت ضعف ہے، اور یہاں آپ مجھے متروک کا سبب بتلا رہے ہو کہ عمر بن ھارون متہم بالكذب ہے۔
اشماریہ بھائی! یہ کوئی اور عمر بن ھارون نہیں یہ وہی عمر بن ھارون ہے جس کا ذکر امام الذہبی ؒ کی عبارت میں اوپر گزا!!! ابتسامہ۔۔۔۔
اشماریہ بھائی! کہیں آپ کا صلاۃ کے لغوی معنی کولہے مٹکانا بتلا کر بھنگڑے کو تو صلاۃ قرار دینے کا ارادہ تو نہیں کھتے؟
بھائی جان! علم الحدیث ميں جو اصطلاح استعمال ہوتی ہیں اس کا مفہوم محدثین کے کلام سے ہی اخذ کیا جائے گا! آپ کی اٹکل سے نہیں!
اشماریہ صاحب! یہ بھی آپ نے صحیح کہی، کہ ہماری بیان کردہ مثال کا بطلان اور فرق واضح ہے! حالانکہ آپ نے ایک بھی فرق بیان نہیں کیا، اور نہ ہی اس کا بطلان بتلایا ہے، سوائے اپنی اٹکل کے، اور آپ کی اٹکل کا بطلان تو ہم نے ہر ہر بار ثابت کیا ہے!
ایک تو یہ بھی عجب دلیل ہے کہ بطلان واضح ہے؟ پوچھو بطلان کیا ہے، جواب دیا جائے اظہر من الشمس ہے!
لو جی! ایک بار پھر وہی کام!!!
ابن داود بھائی آپ کے اس طرح کے "علوم" آپ کے طبقے میں ہی چلیں گے یہاں نہیں۔ میں آپ کی طرح اہل حدیث کا نام نہیں رکھتا لیکن الحمد للہ جو حدیث کے اصول پڑھے ہیں انہیں گہرائی میں جا کر پڑھا ہے۔
اشماریہ بھائی ! ان اہل الرائے حنفیوں کی علم الحدیث میں لیاقت اور اہلیت تو آپ کو بتلا چکے ہیں! آپ کی یاد دہانی کے لئے ایک بار پھر پیش کرتا ہوں:
علامہ شہرستانی ؒ، وہی جن کا حوالہ آپ نے ارجاء کے حوالے سے پیش کیا تھا، اور اسی کتاب'' الملل والنحل ''، جس سے آپ نے حوالہ پیش کیا تھا، اصحاب الرأي کا تعارف اور ان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں:
أصحاب الرأي:
وهم أهل العراق هم: أصحاب أبي حنيفة النعمان بن ثابت. ومن أصحابه: محمد بن الحسن، وأبو يوسف يعقوب بن إبراهيم بن محمد القاضي، وزفر بن الهذيل، والحسن بن زياد اللؤلؤي، وابن سماعة، وعافية القاضي، وأبو مطيع البلخي، وبشر المريسي.
وإنما سموا أصحاب الرأي؛ لأن أكثر عنايتهم: بتحصيل وجه القياس، والمعنى المستنبط من الأحكام، وبناء الحوادث عليها؛ وربما يقدمون القياس الجلي على آحاد الأخبار. وقد قال أبو حنيفة: علمنا هذا رأي، وهو أحسن ما قدرنا عليه؛ فمن قدر على غير ذلك فله ما رأى، ولنا ما رأينا. وهؤلاء ربما يزيدون على اجتهاده اجتهاداً، ويخالفونه في الحكم الاجتهادي. والمسائل التي خالفوه فيها معروفة.

اصحاب الرائے : یہ اہل عراق ہیں۔ یہ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب محمدؒ ، قاضی ابو یوسفؒ، امام زفرؒ، حسن بن زیادؒ ، ابن سماعہؒ، عافیہ القاضیؒ، ابو مطیع بلخیؒ اور بشر المریسی وغیرہ ہیں۔ انہیں اصحاب الرائے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ ان کی زیادہ تر توجہ قیاس کی وجہ (سبب) کی تحصیل، احکام سے مستنبط ہونے والے معانی اور ان پر حوادث و اقعات کی بنیاد کی جانب رہی ہے۔بعض اوقات یہ حضرات اخبار احاد پر قیاس جلی کو مقدم کرتے اور اسے ترجیح دیتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ'' ہم جانتے ہیں کہ یہ رائے ہے، اور اس رائے میں بہتر ہے جس پر ہم قادر ہوئے، اگر اس کے غیر وخلاف پر قادر ہو، تو اسے اختیار ہے کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور ہمیں اختیار ہے کہ اپنی رائے پر عمل کریں۔''
(حنفی مجتہدین) اکثر (امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے) اجتہاد پر ایک اور اجتہاد کا اضافہ کرتے ہیں اور حکم اجتہادی میں ان کے خلاف (رائے رکھتے) ہیں۔ جن مسائل میں ان لوگوں نے (امام ابو حنیفہ کی) مخالفت کی ہے، معروف و مشہور ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 12 جلد 02 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - مؤسسة الحلبي
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار المعرفة، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 219 - 221 جلد 01 - الملل والنحل أبو الفتح محمد بن عبد الكريم الشهرستاني - دار الكتب العلمية

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی دو کتابوں میں ان امور پر مفصل گفتگو کی ہے، ان دو کتابوں میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اہل الرائے کا تعارف، اور ان کا طرز استدلال اور ان کی صلاحیتوں کو بھی بیان کیا ہے، کچھ باتیں آپ کو پیش کرتے ہیں:
وَمِنْهَا أَنِّي وجدت أَن بَعضهم يزْعم أَن هُنَالك فرْقَتَيْن لَا ثَالِث لَهما، أهل الظَّاهِر، وَأهل الرَّأْي، وَأَن كل من قَاس، واستنبط فَهُوَ من أهل الرَّأْي - كلا وَالله - بل لَيْسَ المُرَاد بِالرَّأْيِ نفس الْفَهم وَالْعقل،فَإِن ذَلِك لَا يَنْفَكّ من أحد من الْعلمَاء، وَلَا الرَّأْي الَّذِي لَا يعْتَمد على سنة أصلا، فانه لَا يَنْتَحِلهُ مُسلم أَلْبَتَّة، وَلَا الْقُدْرَة على الاستنباط وَالْقِيَاس، فان أَحْمد وَإِسْحَق بل الشَّافِعِي أَيْضا لَيْسُوا من أهل الرَّأْي بالِاتِّفَاقِ، وهم يستنبطون ويقيسون، بل المُرَاد من أهل الرَّأْي قوم توجهوا بعد الْمسَائِل الْمجمع عَلَيْهَا بَين الْمُسلمين، أَو بَين جمهورهم إِلَى التَّخْرِيج على أصل رجل من الْمُتَقَدِّمين، فَكَانَ أَكثر أَمرهم حمل النظير على النظير، وَالرَّدّ إِلَى أصل من الْأُصُول دون تتبع الْأَحَادِيث والْآثَار، والظاهري من لَا يَقُول بِالْقِيَاسِ، وَلَا بآثار الصاحبة وَالتَّابِعِينَ كدواد وَابْن حزم، وَبَينهمَا الْمُحَقِّقُونَ من أهل السّنة كأحمد وَإِسْحَاق،
ان مسائل مشکلہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں نے بعض لوگوں کو پایا ہے کہ ان کا یہ خیال ہے کہ یہاں دو دفریق ہی، کوئی تیسرا فریق نہیں ہے، ایک اہل الظاہر ہیں اور ایک اہل الرائے ہیں اور ہر وہ شخص جو قیاس و استنباط کرتا ہے وہ اہل الرائے میں سے ہے، واللہ ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ رائے سے مراد نہ تو نفس فہم و عقل ہے اس واسطے کہ یہ ہر عالم میں موجود ہے، اور نہ وہ رائے مراد ہے جس کی سنت پر بالکل بنیاد نہ ہو اس واسطے کہ اس کو تو کوئی مسلمان بھی اپنی طرف منسوب نہ کرے گا اور نہ استنباط و قیاس پر قادر ہونا مراد ہے اس واسطے کہ امام احمد و اسحٰق بلکہ امام شافعی بھی بالاتفاق اہل الرائے میں سے نہ تھے حالانکہ وہ استنباط اور قیاس کرتے تھے، بلکہ اہل الرائے سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان مسائل کے بعد جن پر جمہور مسلمین متفق ہیں متقدمین میں سے کسی کے قول پر تخریج کرنے کی طرف توجہ کی۔
پس ان کا اکثر کام یہ ہے کہ وہ بجائے احادیث و آثار میں تتبع (تلاش و جستجو) کرنے کے ایک نظیر کو دوسری نظیر پر حمل کرتے ہیں اور اصول میں کسی اصل کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اور ظاہری وہ شخص ہوتا ہے جو نہ قیاس کا قائل ہے اور نہ صحابہ و تابعین کے آثار کا، جیسے داؤد اور ابن حزم ہیں، اور ان دونوں فریق کے درمیان محققین اہل سنت ہیں جیسے امام احمد و اسحٰق۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 273 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 161 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 383 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 93 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 64 ۔ 65 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اہل الحدیث اور اہل الرائے کا فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(بَاب الْفرق بَين أهل الحَدِيث وَأَصْحَاب الرَّأْي)
فَوَقع تدوين الحَدِيث وَالْفِقْه والمسائل من حَاجتهم بموقع من وَجه آخر وَذَلِكَ أَنه لم يكن عِنْدهم من الْأَحَادِيث والْآثَار مَا يقدرُونَ بِهِ على استنباط الْفِقْه على الْأُصُول الَّتِي اخْتَارَهَا أهل الحَدِيث، وَلم تَنْشَرِح صُدُورهمْ للنَّظَر فِي أَقْوَال عُلَمَاء الْبلدَانِ وَجَمعهَا والبحث عَنْهَا، واتهموا أنفسهم فِي ذَلِك وَكَانُوا اعتقدوا فِي أئمتهم أَنهم فِي الدرجَة الْعليا من التَّحْقِيق، وَكَانَ قُلُوبهم أميل شَيْء إِلَى أصاحبهم كَمَا قَالَ عَلْقَمَة: هَل أحد مِنْهُم أثبت من عبد الله؟ وَقَالَ أَبُو حنيفَة: إِبْرَاهِيم أفقه من سَالم، وَلَوْلَا فضل الصُّحْبَة لَقلت: علقمه أفقه من ابْن عمر، وَكَانَ عِنْدهم من الفطانة والحدس وَسُرْعَة انْتِقَال الذِّهْن من شَيْء إِلَى شَيْء مَا يقدرُونَ بِهِ على تَخْرِيج جَوَاب الْمسَائِل على أَقْوَال أَصْحَابهم " وكل ميسر لما خلق لَهُ ". {كل حزب بِمَا يهم فَرِحُونَ} .
فهمدوا الْفِقْه على قَاعِدَة التَّخْرِيج، وَذَلِكَ أَن يحفظ كل أحد كتاب من هُوَ لِسَان أَصْحَابه وأعرفهم بأقوال القَوْل وأصحهم نظرا فِي التَّرْجِيح، فيتأمل فِي كل مَسْأَلَة وَجه الحكم، فَكلما سُئِلَ عَن شَيْء، أَو احْتَاجَ إِلَى شَيْء رأى فِيمَا يحفظه من تصريحات أَصْحَابه، فَإِن وجد الْجَواب فِيهَا، وَإِلَّا نظر إِلَى عُمُوم كَلَامهم، فأجراه على هَذِه الصُّورَة، أَو إِشَارَة ضمنية لكَلَام، فاستنبط مِنْهَا ... ، وَرُبمَا كَانَ لبَعض الْكَلَام إِيمَاء أَو اقْتِضَاء يفهم الْمَقْصُود، وَرُبمَا كَانَ للمسألة الْمُصَرّح بهَا نَظِير يحمل عَلَيْهَا، وَرُبمَا نظرُوا فِي عِلّة الحكم الْمُصَرّح بِهِ بالتخريج أَو باليسر الْحَذف، فأداروا حكمه على غير الْمُصَرّح بِهِ، وَرُبمَا كَانَ لَهُ كلامان لَو اجْتمعَا على هَيْئَة الْقيَاس الاقتراني أَو الشرطي أنتجيا جَوَاب الْمَسْأَلَة، وَرُبمَا كَانَ فِي كَلَامهم مَا هُوَ مَعْلُوم بالمثال وَالْقِسْمَة غير مَعْلُومَة بِالْحَدِّ الْجَامِع الْمَانِع، فيرجعون إِلَى أهل اللِّسَان، ويتكلفون، فِي تَحْصِيل ذاتياته، وترتيب حد جَامع مَانع لَهُ، وَضبط مبهمه وتمييز مشكلة، وَرُبمَا كَانَ كَلَامهم مُحْتملا بِوَجْهَيْنِ فَيَنْظُرُونَ فِي تَرْجِيح أحد المحتملين، وَرُبمَا يكون تقريب الدَّلَائِل خفِيا، فيبينون ذَلِك، وَرُبمَا اسْتدلَّ بعض المخرجين من فعل أئمتهم وسكوتهم وَنَحْو ذَلِك، فَهَذَا هُوَ التَّخْرِيج وَيُقَال لَهُ القَوْل الْمخْرج لفُلَان كَذَا، وَيُقَال على مَذْهَب فلَان، أَو على أصل فلَان، أَو على قَول فلَان جَوَاب الْمَسْأَلَة كَذَا وَكَذَا، وَيُقَال لهَؤُلَاء: المجتهدون فِي الْمَذْهَب، وعنى هَذَا الاحتهاد على هَذَا الأَصْل من قَالَ من حفظ الْمَبْسُوط كَانَ مُجْتَهدا، أَي وَإِن لم يكن لَهُ علم بِرِوَايَة أصلا، وَلَا بِحَدِيث وَاحِد فَوَقع التَّخْرِيج فِي كل مَذْهَب، وَكثر، فَأَي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه مشهورين وسد إِلَيْهِم الْقَضَاء والافتاء، واشتهر تصانيفهم فِي النَّاس، ودرسوا درسا ظَاهرا انْتَشَر فِي أقطار الأَرْض، وَلم يزل ينتشر كل حِين، واي مَذْهَب كَانَ أَصْحَابه خاملين، وَلم يولوا الْقَضَاء والافتاء وَلم يرغب فيهم النَّاس اندرس بعد حِين.

اہل الحدیث اور اہل الرائے کے مابین فرق کے بیان میں
پس حدیث، فقہ اور مسائل کو دوسرے طرز پر مدوّن کرنے کی ضرورت واقع ہوئی اور یہ اس واسطے کہ ان کے پاس اتنی احادیث اور آثار نہ تھے جن سے ان اصول کے موافق جن کو اہل حدیث نے پسند کیا ہے استنباطِ فقہ پر قادر ہوتے اور ان کو یہ پسند نہ تھا کہ علماء بلاس کے اقوال میں غور کرتے، ان کو جمع کرتے اور ان سے بحث کرتے بلکہ اس امر میں ان کو متہم سمجھا، اور ان کا اپنے اماموں کے متعلق یہ اعتماد تھا کہ وہ نہایت درجہ کے محقق ہیں اور ان کے دلوں کا میلان سب وہ سب سے زیادہ اپنے اصحاب کی طرف ہی تھا، جیسے علقمہ کا قول ہے کہ کوئی صحابی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے زیادہ راسخ العلم نہیں ہے، اور ابو حنیفہ نے کہا تھا ابراہیم سالم سے زیادہ فقیہ ہیں اور اگر صحابی ہونے کی فضیلت نہ ہوتی تو میں یہ بھی کہہ دیتا کہ علقمہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے زیادہ فقیہ ہیں لیکن ان لوگوں میں فطانت اور سمجھ اور ایک شئی سے دوسری شئی کی طرف ذہن کا سرعتِ انتقال اس درجہ تھا کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے اصحاب کے اقوال کے مطابق جواب مسائل کی تخریج بخوبی کرسکتے تھے، اور جس شخص کی پیدائش میں جو چیز ہوتی ہے وہ اس کے لئے سہل ہو جایا کرتی ہے (ہر گروہ اپنے اس طریقہ پر نازاں ہے جو اس کے پاس ہے) اس طرح پر انہوں نے تخریج کے قاعدہ پر فقہ کی ترتیب دی اور وہ یہ کہ ایک اس شخص کی کتاب کو محفوظ رکھتا تھا جو ان کے اصحاب کی زبان اور علماء کے اقوال کا زیادہ واقف اور ترجیح میں جس کی نظر سب سے زیادہ صحیح ہوتی تھی، اس واسطے وہ ہر مسئلہ میں ھکم کی وجہ میں غور کر سکتا تھا پس جب کسی عالم سے مسئلہ دریافت کیا جاتا یا اس کو کسی امر کی ضرورت پیش آتی تو وہ اپنے اصحاب کی تصریحات میں غور کرتا جو اس کو محفوظ ہوتی تھیں اگر ان میں جواب مل جاتا تو فبہا ورنہ ان کے عموم کلام کو دیکھتا اور اس مسئلہ جو اس عموم پر جاری کرتا یا کلام کے ضمنی اشارہ کو دیکھتا اور اس سے جواب مسئلہ مستنبط کر لیتا، کبھی بعض کلام میں کوئی اشارہ یا اقتضاء ہوا کرتا تھا جس سے امر مقصود و مفہوم ہو جایا کرتا تھا، اور کبھی مسئلہ مصرح کی کوئی نظیر ہوتی تھی جس پر اصل مسئلہ کو حمل کر لیا کرتے تھے اور کبھی وہ حکم مصرح کی علت میں بتخریج یا با یُسر وحذف غور کرتے تھے، اور اس کے حکم کو غیر مصرح میں ثابت کرتے تھے، اور کبھی کسی عالم کے دو قول ہوتے تھے کہ اگر ایک کو قیاس اقترانی یا شرطی کی ہیئت پر جمع کر لیتے تو جواب مسئلہ کا اس سے حاصل ہو جاتا، اور کبھی ان کے کلام میں بعض امور مثال اور تقسیم سے معلوم ہوتے تھے لیکن ان کی تعریف جامع اور مانع معلوم نہ تھی اس واسطے وہ فقہاء اہل زبان کی طرف رجوع کرتے تھے اور اس شئی کے ذاتیات حاصل کرنے میں اس کی جامع مانع تعریف مرتب کرنے میں، اس کے مبہم کو ضبط کرنے میں، اور اس کے مشکل کو ممیز کردینے میں کوشش کرتے تھے، اور کبھی ان کے کلام میں دو وجوہ کا احتمال ہوتا تھا، پس وہ دونوں میں سے ایک کو ترجیح دینے میں غور کرتے تھے، اور کبھی دلائل کی ادائیگی میں خفا ہوتا ہے پس یہ فقہاء اس کو صاف صاف بیان کردیتے ہیں، اور کبھی کبھی بعض اصحاب تخریج نے اپنے ائمہ کے فعل اور ان کے سکوت وغیرہ سے استدلال کیا ہے، پس ان طرقِ مذکورہ کو تخريج کہا جاتا ہے اور اسی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے قول کی اس طرح تخریج کی ہے اور کہا جاتا ہے فلاں مزہب کے موافق یا فلاں شخص کے قاعدہ کے موافق یا فلاں شخص کے قول کے موافق مسئلہ کا جواب اس اس طرح ہے اور ان تخریج کرنے والوں کو مجتہدین فی المذہب کہا جاتا ہے، اور جس نے یہ کہا ہے کہ جس نے مبسوط کو یاد کرلیا وہ مجتہد ہے تو اس سے وہی اجتہاد مراد ہے جو تخریج سے متعلق ہے اگرچہ ایسے شخص کو روایت علم بالکل نہ کو اور اس کو ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو اس طرح ہر ایک مذہب میں تخریج واقع ہوئی اور اس کی کثرت ہو گئی، پس جس مذہب کے لوگ زمانہ میں مشہور ہو گئے اور ان کو عہدہ قضاء و استفتاء ملا اور ان کی تصانیف لوگوں میں مشہور ہوئیں اور انہوں نے عام طور پر درس دینا شروع کیا تو وہ مذہب اطراف عالم میں پھیل گیا اور ہمیشہ اس کی شہرت ہوتی رہی اور جس مذہب کے لوگ گمنام رہے اور ان کو منصب قضاء وافتاء نہ ملا اور لوگوں نے ان میں رغبت نہ کی تو وہ چند روز بعد نابود ہوگیا۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 259 - 260 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 152جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 352 ۔ 355 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 57 – 61 جلد 01 الإنصاف في بيان أسباب الاختلاف - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار النفائس، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 ۔ 35 الانصاف في بيان اسباب الاختلاف مع ترجمه اردو - مطبع مهاكا

یہی نہیں بلکہ اہل لرائے کے اٹکل پچّو قیاسات کے متعلق فرماتے ہیں:
وَإِذا تحققت هَذِه الْمُقدمَة اتَّضَح عنْدك أَن أَكثر المقاييس الَّتِي يفتخر بهَا الْقَوْم، ويتطاولون لأَجلهَا على معشر أهل الحَدِيث يعود وبالا عَلَيْهِم من حَيْثُ لَا يعلمُونَ.
جب تم کو اس مقدمہ کی تحقیق ہو گئی تو یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ اکثر قیاسات جن پر لوگ فخر کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ جماعت اہل حدیث پر فوقیت ظاہر کرتے ہیں خود انہی کے لئے وبال ہیں جس کی انہیں خبر بھی نہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 228 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - دار الجيل، بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 131 جلد 01 حجة الله البالغة - الشاه ولي الله المحدث الدهلوي - إدارة الطباعة المنيرية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 290 جلد 01 حجۃ اللہ البالغۃ مع ترجمہ اردو نعمۃ اللہ السّابغۃ ۔ ابو محمد عبد الحق حقانی ۔ نور محمد اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب، کراچی

مندرجہ بالا علامہ شہرستانی ؒ اور شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی تحریر سے کچھ باتیں عیاں ہیں کہ:
امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب اہل الرائے ہیں، اور ان کے پاس بہت کم احادیث اور آثار تھے، یعنی کہ انہیں احادیث و آثار کا بہت کم علم تھا، نہ ہی ان میں اتنی لیاقت تھی کہ یہ احادیث و آثار سےمحدثین کے اصولوں کے مطابق استدلال و استنباط کر پاتے، اور نہ انہیں احادیث و آثار اور دیگر علماء کے اقوال کی تلاش و جستجو میں کوئی دلچسی تھی، بلکہ وہ اپنے استاد کے قول پر تخریج مسائل کرتے تھے۔ حتی حدیث سے بالکل جاہل یہاں تک کہ اسے ایک حدیث بھی معلوم نہ ہو، وہ بھی اہل الرائے کا مجتہد فی المذہب ہو سکتا ہے، بس اسے اپنے مجتہد کے اقوال یاد ہوں!

اشماریہ بھائی!
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا
بند قبا دیکھ

اور اگر قاضی عیاضؒ کی ہی عبارت دیکھ لیتے، جہاں سے آپ نے ایک قول نقل کیا تھا، تو یہ اتنی بڑی گپ نہ چھوڑتے؛
قاضی عیاض ؒ کی مکمل عبارت یہ ہے:
(فصل) وأما أبو حنيفة فإنه قال بتقديم القياس والاعتبار على السنن والآثار، فترك نصوص الأصول وتمسك بالمعقول وآثر الرأي والقياس والاستحسان، ثم قدم الاستحسان على القياس فأبعد ما شاء.
وحد بعضهم استحسان أنه الميل إلى القول بغير حجة.وهذا هو الهوى المذموم والشهوة والحدث في الدين والبدعة، حتى قال الشافعي من استحسن فقد شرع في الدين.
ولهذا ما خالفه صاحباه محمد وأبو يوسف في نحو ثلث مذهبه إذ وجدوا السنن تخالفهم تركها لما ذكرناه عن قصد لتغليبه القياس وتقديمه أو لم تبلغه ولم يعرفها إذ لم يكن من مثقف علومه وبها شنع المشنعون عليه وتهافت الجراء على دم البراء بالطعن إليه.ثم ما تمسك به من السنن فغير مجمع عليه، وأحاديث ضعيفة ومتروكة وبسبب هذا تحزبت طائفة أهل الحديث على أهل الرأي وأساءوا فيهم القول والرأي.
قال أحمد بن حنبل ما زلنا نلعن أهل الرأي ويعلنوننا حتى جاء الشافعي فمزج بيننا يريد أنه تمسك بصحيح الآثار واستعملها، ثم أراهم أن من الرأي ما يحتاج إليه وتنبني أحكام الشرع عليه، وأنه قياس على أصولها ومنتزع منها.وأراهم كيفية انتزاعها، والتعلق بعللها وتنبيهاتها.
فعلم أصحاب الحديث أن صحيح الرأي فرع الأصل، وعلم أصحاب الرأي أنه لا فرع إلا بعد الأصل، وأنه لا غنى عن تقديم السنن وصحيح الآثار أولاً.

اور ابوحنیفہؒ اس بات کے قائل ہیں کہ قیاس و اعتبار مقدم ہے سنن و آثار پر، اسی بنا پر انہوں نے (کئی جگہ )اصول کے نصوص کو ترک کرکے معقول سے تمسک کیا ہے، اور رائے ، قیاس اور استحسان کو (نصوص پر ) ترجیح دی ہے ؛ اور (اسی نصوص گریزی میں اتنا مبالغہ کیا کہ ) پھر (کئی ایک مقام پر ) استحسان کو قیاس پر بھی مقدم کردیا ؛
اور بعض علماء نے استحسان کی تعریف یہ بیان کی ہے۔کہ استحسان (حکم کی علت سے صرف نظر کرکے )بے دلیل قول کی طرف جانے کا نام ہے ۔ اور یہ انتہائی قابل مذمت من پسندی ،اور خواہش پرستی ہے؛اور ایسا کرنا دین سازی اور بدعت ہے؛ حتی کہ امام شافعی فرماتے ہیں :جس نے استحسان کیا ،اس نے اپنی طرف سے دین گھڑا۔
اسی لئے ان کے دو اصحاب، محمدؒ ،اور ابو یوسفؒ نے ابو حنیفہؒ کے ایک تہائی مذہب کی مخالفت کی ہے ،جہاں انہوں نے سنت کو ان کے مذہب کے خلاف پایا اس کو چھوڑ دیا ۔جیسا کہ ہم نے ابوحنیفہؒ کا عمداً قیاس کا غلبہ اور قیاس کو نصوص پر مقدم کرنا بیان کیا ، یا اس لئے بھی انہوں سنن کے مخالف رائے کو اپنایا کہ انہیں ان سنن کا علم ہی نہیں تھا ۔کیونکہ وہ احادیث کے علوم و فنون کی مہارت و فطانت سے دور تھے، اور اسی سبب لوگوں نے ان کی عیب جوئی کی اور ان پر طعن کے نشتر چلے، اور جن مسائل میں انہوں نے سنت کا دامن تھاما بھی ،تو اختلافی اسانید والی احادیث کو ماخذ بنالیا، یا ضعیف و متروک روایات کو بنیاد بنایا اور اسی سبب اہل الحدیث نے اہل رائے سے علیحدگی کی راہ لی اور ان کے بارے میں انتہائی سخت رویہ اپنا کر ان کے بارے سخت لہجہ استعمال کیا
امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ :ہم ہمیشہ (اہل الحدیث ) اہل الرائے پر ،اور وہ ہم پر لعنت ہی کرتے رہے ،حتی کہ امام شافعیؒآئے،انہوں نے ہمیں باہم ملایا، ان کا مطلب ہے کہ انہوں ایک طرف صحیح احادیث کو فقہی امور میں قبول کیا اور ان پر عمل درآمد کیا ۔پھر دکھایا کہ بعض جگہ رائے (یعنی قیاس و استنباط ) کی بھی حاجت ہوتی ہے اور احکام شرع اس پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہ رائے دراصل، احکام کا اپنے اصولوں پر قیاس ہے ،انہوں اس کی کیفیت سمجھائی اور بتایا کہ کیسے علت حکم کو دریافت کیا جاتا ہے۔
امام شافعی ؒ (کے تدوین اصول فقہ )کے بعد اصحاب الحدیث نے سمجھا کہ صحیح رائے اصل کی فرع ہوتی ہے، اور اہل رائے نے یہ بات جان لی ۔۔کوئی فرع اصل کے بغیر نہیں ہوسکتی،اور (مصادر حکم کیلئے ) سب سے پہلےسنن اور صحیح آثار کو سب پر تقدیم دینا لازم ہے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - المملكة المغربية
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 39 – 40 جلد 01 ترتيب المدارك وتقريب المسالك - أبو الفضل القاضي عياض - دار الكتب العلمية، بيروت

اشماریہ بھائی! اسی عبارت کو جہاں سے آپ نے ایک جملہ پیش کیا تھا، اور پوری عبارت کو دیکھ لیتے تو آپ کومعلوم ہو جاتا کہ اہل الرائے اور ان کے امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کا علم الحدیث کتنا تھا، اور وہ سنن وآثار کے ساتھ کیا کیا کرتے تھے، کہ اپنے قیاس کے مقابلے میں سنن و آثار کو رد کردیا کرتے تھے!
اس بارے میں امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قول دیکھیں:
حدثني إبراهيم، ثنا أبو توبة، عن أبي إسحاق الفزاري، قال: قال الأوزاعي: «إنا لا ننقم على أبي حنيفة الرأي كلنا نرى، إنما ننقم عليه أنه يذكر له الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيفتي بخلافه»
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا بیشک ہم قیاس کی وجہ سے ابو حنیفہ کو برا نہیں سمجھتے ،ہم سارے قیاس کرتے ہیں، ہم اس لیے اسے برا سمجھتے ہیں کہ اس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کی جاتی ہے تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے خلاف فتویٰ دیتا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 207 جلد 01 - السنة - أبو عبد الرحمن عبد الله بن أحمد بن حنبل - دار ابن القيم، الدمام

پھر بھی اشماریہ صاحب علم لحدیث میں دعوی رکھتے ہیں، اور اب تک تو بھائی نے سوائے اٹکل کے گھوڑے دوڑانے کیا تو کچھ نہیں!

(جاری ہے)
 
Last edited:
Top