- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ بھائی! اب میں آپ کو پھر آپ کے کلام کی غلطی بیان کروں گا تو آپ کہو گے کہ ہم اردو ادب پر تو گفتگو نہیں کر رہے، بلکل جناب ہم اردو ادب ہمارا موضوع نہیں مگر گفتگو ہم اردو میں کر رہے ہیں۔
آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ:
میں آپ کی کتب میں موجود اس تقسیم تقلید سے واقف ہوں، اب تک کی میری تحریر سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفیہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں!
اس بات کا اختلاف ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول امام طحاویؒ کا نہیں ہے، بلکہ بعد میں آنے والے مقلدین نے اپنی طرف سے انہیں مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب میں شمار کر کے انہیں مقلدین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جب کہ جو عبارت جسے ہم نے پیش کیا ہے وہ امام طحاویؒ کا اپنا ہے! اب کسی کی بات معنی جائے؟ امام طحاویؒ کی اپنی بات مانی جائے ان کے بعد آنے والے امام طحاوی کے متعلق بیان کریں؟ہاں اگر یہ تخصیص امام طحاوی خود بیان کر دیں کہ میں مقلد تو ہوں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوں تو ہم امام طحاوی کی یہ بات ان کے متعلق مان لیں گے۔
بلکل میرے بھائی! امام طحاویؒ نے ''إلا عصي'' کے کے الفاظ ادا کئے، اور ابن جرثومہ نے ''أو غبي'' کہہ کر امام طحاویؒ کے کلام ''إلا عصي'' کی توثیق کردی، اور اس میں '' غبي'' کا اضافہ کیا، ابن چرثومہ کے الفاظ میں ''أو '' اس پر دلالت کرتا ہے۔
باقی پھر وہی بات ہے کہ آپ ، امام طحاویؒ کے قول میں کہ وہ اپنے مقلد ہونے کی نفی کر رہے ہیں ، یہ تخصیص فرما رہے ہیں کہ مقلد مطلق ہونے کی نفی ہے ، اور امام طحاوی مقلد ہیں، مگر مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔ آپ کی یہ تخصیص خود ساختہ ہے، یعنی کہ آپ (اشماریہ نہیں) بلکہ جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ان کی خود ساختہ۔ اگر مقلد ہونے کی نفی کی اس تخصیص کو امام طحاویؒ نے بیان کیا ہے، تو ان کا کلام پیش کریں!مقلدین احناف کا امام طحاویؒ کے متعلق فیصلہ قبول نہیں کیا سکتا، اور بھی امام طحاویؒ کے قول کے مخالف!
عمر گزری ہےاس دشت کی سیاحی میں!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
بھائی جان! یہ بات اسی کلام میں موجود ہے کہ ابن جرثومہ امام طحاویؒ کو مقلد سمجھ رہے تھے، اور وہ بھی امام ابو حنیفہؒ کا، عبارت کو بغور پڑھیں!
اور امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تو کوئی کلام ہی نہیں! یہ بات تو امام طحاوی کے کلام میں کئی جگہ موجود ہے، اور اسی عبارت میں موجود ہے!
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ ۔ تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ! تو میں نے انہیں کہا کہ عصی یعنی عقل و خرد کی خرابی والےکے علاوہ اور کون تقلید کرتا ہے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ یا جاہل۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
(جاری ہے)
اشماریہ بھائی!اللہ آپ کے لئے آسانی پیدا کرے، آپ نے میری کونسی بھینس چرائی ہے کہ میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی ہو! ایسا ان شاء اللہ آپ کی طرف سے بھی نہیں ہو گا! ہمارے مؤقف میں مخالفت ہے، اور وہ شدید ہے!بالکل میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ بہت سی باتیں شروع ہو گئی ہیں، اور ان پر ایک ساتھ گفتگو کرنا آسان نہیں، مگر یہ ساری باتیں جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا ایک سوال سے تین سوال اور تین سے تیس سوال نکالنے کا نتیجہ ہے!میرے محترم بھائی۔ ایک طرف تخصص فی فقہ المعاملات کی مشکل ترین پڑھائی اور اس کے لیے مطالعہ اور دوسری طرف ان باتوں کے جوابات۔ میرے لیے مینج کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک موضوع کے تحت یہاں جتنے موضوعات شروع ہو چکے ہیں ان میں سے ایک وقت میں ایک یا دو کو حل کر لیں پھر بقایا کی جانب آ جائیں۔
اشماریہ بھائی میں تو آپ کی بات پہلے بھی سمجھ گیا تھا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہو اور آپ کا مدعا کیا ہے، مگر آپ کے مدعا سے متفق نہیں!شاید آپ میری بات سمجھے نہیں۔
تقلید کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سراسر جاہل ہے وہ صرف تقلید کرتا ہے اور کچھ نہیں کیوں کہ وہ اور کچھ کر ہی نہیں سکتا۔
دوسرا وہ شخص ہے جسے عبارت اور معانی پر عبور حاصل ہے تو وہ ان میں تو تقلید نہیں کرتا لیکن مسائل کے نہ استنباط کا ملکہ ہے نہ علم تو وہ ان میں تقلید کرتا ہے۔
تیسرا وہ شخص جسے فروع کا اور فروع کے اصول سے اخذ کرنے کا علم تو ہے لیکن اصول کے بنانے پر قادر نہیں تو وہ اصول میں تقلید کرتا ہے۔
چوتھا وہ شخص جو اصول بھی بنا سکتا ہے لیکن وہ کسی اور کے اصولوں سے متفق ہوتا ہے تو انہی کو اختیار کر کے تقلید کرتا ہے (ظاہر ہے یہ علی وجہ البصیرت ہوتی ہے۔)
یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔ تو اب ان میں سے ہر شخص کی تقلید کا درجہ مختلف ہوتا ہے۔
اشماریہ بھائی! اب میں آپ کو پھر آپ کے کلام کی غلطی بیان کروں گا تو آپ کہو گے کہ ہم اردو ادب پر تو گفتگو نہیں کر رہے، بلکل جناب ہم اردو ادب ہمارا موضوع نہیں مگر گفتگو ہم اردو میں کر رہے ہیں۔
آپ نے یہ جو فرمایا ہے کہ:
اشماریہ بھائی! آپ کی یہ بات غلط ہے، یہ آپ نے تقلید کی اقسام ہی بیان کی ہیں، اور ان کے علاوہ اور بھی ہو سکتی ہیں، اور یہ تقلید کی اقسام کی مثالیں ہیں۔ یہ درجات تقلید کی بنا پر تقلید کی قسمیں ہی ہیں۔ اور آپ کی کتب میں یہ تقسیم بالکل پائی جاتی ہیں! اب آپ پھر بھی اس بات پر مصر ہوں کہ نہیں نہیں یہ تقلید کی تقسیم نہیں ہیں، تو ذرا بتائیے گا کہ یہ مثالیں کس کی ہیں؟یہ تقسیمات نہیں مثالیں ہیں۔
میں آپ کی کتب میں موجود اس تقسیم تقلید سے واقف ہوں، اب تک کی میری تحریر سے آپ کو یہ اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ فقہ حنفیہ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں!
اشماریہ بھائی! کیا یہ امام طحاویؒ نے خود فرمایا ہے کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا کہ وہ مقلد ہیں لیکن مجتہد فی المذہب؟ یقیناً یہ امام طحاوی ؒ نے خود نہیں فرمایا!مام طحاویؒ بعض کے نزدیک مجتہد فی المسائل اور بعض کے نزدیک مجتہد فی المذہب کے درجے پر ہیں (علی شرط صحۃ حفظی)۔ پہلے کا مطلب یہ ہوا کہ امام طحاوی منقول اصول و فروع میں تو اصلا کلام نہیں کرتے لیکن نئے مسائل کا استنباط کرتے ہیں اور دوسرے کا مطلب یہ ہوا کہ اصول میں تو کلام نہیں کرتے لیکن فروع میں اپنا مسلک جداگانہ رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ (اور یہ بات آسمان سے نہیں اتری بلکہ ان کی کتابوں کے تتبع سے معلوم ہوتی ہے)
اس بات کا اختلاف ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قول امام طحاویؒ کا نہیں ہے، بلکہ بعد میں آنے والے مقلدین نے اپنی طرف سے انہیں مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب میں شمار کر کے انہیں مقلدین کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ جب کہ جو عبارت جسے ہم نے پیش کیا ہے وہ امام طحاویؒ کا اپنا ہے! اب کسی کی بات معنی جائے؟ امام طحاویؒ کی اپنی بات مانی جائے ان کے بعد آنے والے امام طحاوی کے متعلق بیان کریں؟ہاں اگر یہ تخصیص امام طحاوی خود بیان کر دیں کہ میں مقلد تو ہوں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوں تو ہم امام طحاوی کی یہ بات ان کے متعلق مان لیں گے۔
بلکل جناب! ہم تو یہی کہتے ہیں کہ امام طحاویؒ مقلد نہیں، مقلد تو انہیں آپ باور کروا رہے ہیں ، کہ وہ مقلد تو ہیں لیکن مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔اب جو شخص اس قدر صلاحیت رکھتا ہے اسے جب ابو عبید بن جرثومہؒ نے فرمایا:
ما ظننتك إلا مقلدا
اس کا ترجمہ کسی بھی انداز سے کریں:
میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا تھا
میں تو آپ کو سمجھتا ہی نہیں ہوں مگر مقلد
میں تو آپ کو صرف مقلد ہی سمجھتا ہوں
اشماریہ بھائی! بالکل ہم آپ کی اس بات پر اپنا اعتراض پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ یہ بات امام طحاویؒ نے نہیں کی، امام طحاوی نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اس میں یہ تخصیص آپ امام طحاوی ؒکے اپنے قول سے پیدا کرسکتے ہیں، انہوں نے اپنے نے مقلد مطلق کی نفی کی ہے اور مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب ہوتے ہوئے تقلید کا اثبات کیا ہے۔ اپ اگر امام طحاویؒ سے یہ پیش کر سکتے ہوں تو بالکل قبول کیا جائے گا، لیکن بعد میں آنے والے مقلدین اگر امام طحاویؒ کی نیابت میں یہ بات کریں تو وہ تو قابل قبول نہیں ہو گی!تو ظاہر ہے امام طحاوی نرے مقلد نہیں تھے۔ انہوں نے وضاحت کر دی کہ جس تقلید کا آپ ذکر کر رہے ہیں کہ بس ابو حنیفہ کا قول آ گیا تو میں مان لوں تو وہ میرے درجے کے شخص کا کام نہیں ہے۔ مجھے تو فقہ اور حدیث پر عبور حاصل ہے وہ تو غبی یا عصی کا کام ہے۔
یہ ہے مکمل بات۔ اگر اس میں کوئی اشکال ہے تو پیش فرمائیے۔
اشماریہ بھائی! جب آپ بھی یہ مانتے ہو کہ ''الا'' سے یہ تقید پیدا ہوتا ہے کہ امام طحاوی ؒ کے نزدیک تقلید وہی کرتا ہے جو غبی ہو یا عصی ہو، یعنی کہ یا تو جس کے اعصاب یعنی عقل و شعور کام نہ کرتے ہوں، یا جاہل ہو۔ ان کے علاوہ کوئی تقلید نہیں کرتا! تو پھر اسے قبول کریں!آپ نے فرمایا کہ "الا" سے تقیید پیدا کی ہے تو میں بھی مانتا ہوں۔ لیکن آپ مطلقا تقلید کا انکار اس سے ثابت کرنا چاہ رہے ہیں حالاں کہ یہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ الا کی یہ تقیید انہوں نے ابن جرثومہ کے الا کے جواب میں پیدا کی ہے۔ پوری بات سے جملے کو کاٹ کر معنی نکالنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا مطلوبہ معنی نکل ہی آئے گا لیکن پوری بات کا اپنا ایک مطلب ہوتا ہے جس کی میں نے وضاحت کر دی ہے۔
بلکل میرے بھائی! امام طحاویؒ نے ''إلا عصي'' کے کے الفاظ ادا کئے، اور ابن جرثومہ نے ''أو غبي'' کہہ کر امام طحاویؒ کے کلام ''إلا عصي'' کی توثیق کردی، اور اس میں '' غبي'' کا اضافہ کیا، ابن چرثومہ کے الفاظ میں ''أو '' اس پر دلالت کرتا ہے۔
باقی پھر وہی بات ہے کہ آپ ، امام طحاویؒ کے قول میں کہ وہ اپنے مقلد ہونے کی نفی کر رہے ہیں ، یہ تخصیص فرما رہے ہیں کہ مقلد مطلق ہونے کی نفی ہے ، اور امام طحاوی مقلد ہیں، مگر مجتہد فی المسائل یا مجتہد فی المذہب۔ آپ کی یہ تخصیص خود ساختہ ہے، یعنی کہ آپ (اشماریہ نہیں) بلکہ جن سے آپ نقل کر رہے ہیں ان کی خود ساختہ۔ اگر مقلد ہونے کی نفی کی اس تخصیص کو امام طحاویؒ نے بیان کیا ہے، تو ان کا کلام پیش کریں!مقلدین احناف کا امام طحاویؒ کے متعلق فیصلہ قبول نہیں کیا سکتا، اور بھی امام طحاویؒ کے قول کے مخالف!
اشماریہ بھائی! ہماری طرف سے کوئی ضد والی بات نہیں، بات تو آپ اپنی طرف سے بنا رہے ہیں! اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے! اپ ایسی باتوں پر بھی سوال اٹھا دیتے ہو، جو متفق علیہ ہیں، لیکن صرف بات کو الجھانے اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے اس طرح کے سوال کر تے ہو! مگر اشماریہ بھائی! میں اپنی عمر کے تیس سال تک دیوبندی رہا ہوں، وہ کہتے ہیں کہ :اب میں آپ کو کہوں کہ یہاں آپ پر دو چیزیں لازم ہوگئی ہیں، ایک اس فرق کو بیان کرنا اور دوسرا اس پر دلیل پیش کرنا کہ ابن جرثومہ کو یہ فرق سمجھ نہیں آ رہا تھا، تو یہ کوئی مناسب بات نہیں ہوگی۔ ضد کے جواب میں پھر آخر کار یہ کرنا پڑتا ہے۔
عمر گزری ہےاس دشت کی سیاحی میں!
سمعت أبا الحسن علي بن أبي جعفر الطحاوي يقول سمعت أبي يقول وذكر فضل أبي عبيد بن جرثومة وفقهه فقال كان يذاكرني بالمسائل فأجبته يوما في مسألة فقال لي ما هذا قول أبي حنيفة فقلت له أيها القاضي أو كل ما قاله أبو حنيفة أقول به فقال ما ظننتك إلا مقلدا فقلت له وهل يقلد إلا عصي فقال لي أو غبي
بھائی جان! یہ بات اسی کلام میں موجود ہے کہ ابن جرثومہ امام طحاویؒ کو مقلد سمجھ رہے تھے، اور وہ بھی امام ابو حنیفہؒ کا، عبارت کو بغور پڑھیں!
اور امام طحاوی کے حنفی ہونے پر تو کوئی کلام ہی نہیں! یہ بات تو امام طحاوی کے کلام میں کئی جگہ موجود ہے، اور اسی عبارت میں موجود ہے!
میں نے انہیں ایک مسئلہ میں ایک دن جواب دیا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابو حنیفہؒ کا قول نہیں ہے! تو میں نے کہا: کیا ہر وہ چیز جو ابوحنیفہ نے کہی ہو میں وہی کہتا ہوں؟ ۔ تو انہوں نے کہا: میں تو آپ کو مقلد کے سوا کچھ نہیں سمجھتا ! تو میں نے انہیں کہا کہ عصی یعنی عقل و خرد کی خرابی والےکے علاوہ اور کون تقلید کرتا ہے، تو انہوں نے مجھے کہا کہ یا جاہل۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 626 جلد 01 لسان الميزان - ابن حجر العسقلاني - مكتب المطبوعات الإسلامية
بھائی جان!آپ کو پہلے بھی بتایا ہے کہ مقلدین کی یہ اقسام امام طحاویؒ نے نہیں بتائی، بلکہ یہ بعد میں آنے والے مقدین کی خود ساختہ ہے! امام طحاوی اپنے متعلق یہ کلام بعد میں آنے والے مقلدین کی کی گئی تقسیم کے تناظر میں نہیں دیکھی جائے گی، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اگر یہ بات آپ امام طحاوی ؒ کے قول سے دکھلا دیں، تو بالکل مانی جائے گی!میرے محترم! اس سے امام طحاوی کا مقلد ہونا کیوں لازم نہیں آتا؟؟ اگر آپ یہ بات اس تقلید کے تناظر میں کہہ رہے ہیں جو آپ کے ذہن میں ہے اور جس میں عامی اور عالم برابر ہیں تو پھر تو آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن اگر آپ تقلید کی اس تفصیل کے تحت یہ بات کہہ رہے ہیں جو ہمارے نزدیک ہے تو پھر جناب من یہ آپ کی غلطی ہے۔
جناب من! امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی، اور یہ بتلا دیا کہ تقلید صرف عصی یعنی عقل وشعور سے خالی یا غبی یعنی جاہل ہی کرتا ہے!!
امام طحاویؒ تو اپنے مقلد ہونے کی نفی کر دیں، لیکن آپ انہیں زبردستی مقلد قرار دینے پر مصر ہیں!! باقی آپ نے جو باتیں کی ہیں، یہ آپ کی یا آپ کے علماء کی تخلیق ہے، امام طحاویؒ نے بہر حال اپنے مقلد ہونے کی نفی بھی کردی اور تقلید کرنے والے کو عصی یعنی عقل وشعور سے خالی اور غبی یعنی جاہل قرار دیا!!
اشماریہ بھائی! امام طحاویؒ کی مقلد ہونے کی حثیت آپ نے بیان کی ہے، جبکہ امام طحاویؒ نے اپنے مقلد ہونے کی نفی کردی ہے، اگر آپ امام طحاویؒ کے قول سے بتلائیں، تو بات بنے، یہ بات اوپر تفصیلاً بیان کی ہے۔میں نے اوپر وضاحت کی ہے کہ امام طحاوی کس حیثیت سے مقلد ہیں۔ ہماری تفصیل کے مطابق ایک شخص جب ابو حنیفہ کے اصولوں کو قبول کر کے ان کے مطابق استنباط کرتا ہے تو وہ اصول میں ابو حنیفہ کا مقلد ہے اور فروع اپنے اخذ کرتا ہے یا کبھی ان کے مان لیتا ہے۔
(جاری ہے)
Last edited: