HUMAIR YOUSUF
رکن
- شمولیت
- مارچ 22، 2014
- پیغامات
- 191
- ری ایکشن اسکور
- 56
- پوائنٹ
- 57
وعلیکم السلامالسلام علیکم
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمار ر ضی اللہ عنہ اور خؤد امیر المومنین علی رضہ عنہ سیدنا امیر المومنین عثمان رضہ سے اختلاف رکھتے تھے بہت سے مسائل میں اور بہت سے صحابہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے ۔۔ جب کہ صحابہ ایک دوسرے کو کبھی سخت الفاظ کہ جاتے تھے مجھے وہ الفاظ نقل کرنے کی حاجت نہیں نہ ہی آپ کو ضرورت ہونی چاہئے ۔ لیکن سیدنا عمار ضہ سیدنا عثمان رضہ پر سب شتم کرتے تھے کیا اس کو آپ اس انداز میں پیش کریں گے کہ وہ دیکھو عمارضی اللہ عنہ عثمان رضہ کے بارے میں یہ کہتے بس عثمان رضہ کو صحابہ نے قصور وار ٹھرایا۔۔۔۔ اللہ کے بندے آپ بھی مانتے ہیں کہ صحابہ انسان تھے ان سے غلطی ہوسکتی ہے وہ ایک دوسرے کی رائے سے اختلاف ہوتے ہوئے اس کا احترام رکھتے تھے نہ کہ آپ کی طرح ا ن پر برس پڑتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایات تو پڑھ لیں لیکن سیدنا ابن عباس رضہ و ابن عمر رضہ اللہ عنہ کی دسری باتیں کیون نظر انداز کیں
اب مجھے یہ محسوس ہورہا کہ آپ بحث سے جان چھڑانے کے چکر میں ہیں۔ اس لئے آپ نے غیر متعلقہ بحث چھیڑ دی اور اپنی بات کو گھما پھرا کر بلکہ جان بوجھ کر یہ کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ مجھے کسی طرح بھی ہو صحابہ کا گستاخ ثابت کردیا جائے۔ میں نے حالانکہ اوپر وضاحت بھی کردی تھی کہ "بھائی میں ہر گز سیدنا عبداللہ بن زبیر رض کو باغی نہیں تسلیم کرتا اور نہ ہی عبدالملک یا مروان انکو باغی تسلیم کرتے تھے، یہ محض آپ کی خام خیالی ہے۔ ہاں دوسرے چند اکابر صحابہ رض سیدنا عبداللہ بن زبیر کو باغی ضرور تسلیم کرتے تھے" پھر بھی آپ کی غیر ارادی یا دیدہ دانستہ کوشش یہاں پر یہ ہورہی مجھے صحابہ کو گستاخ قرار دلوا کہ اس فورم سے ہی بین کروادیا جائے۔ جناب یہ جو میں نے اس سلسلے کی صحیح احادیث کوٹ کی ہیں، پھر یہ کیا کہہ رہی ہیں؟؟ اگر یہ صحابہ کا آپسی کا معاملہ تھا اور اسی آپسی کے معاملات کی آپ کیا تاویل کریں گے؟ میرا تو شروع سے آخر تک بلکہ مرتے دم تک یہی عقیدہ رہے گا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رض ایک برگزیدہ صحابی الرسول تھے اور انکی شان و عزمت کے آگے ہم سب کی جانیں بھی قربان ہیں۔ لیکن جناب عالی یہ بھی عقیدہ ہم سب کا ہونا چاہئے کہ صحابہ کو معصوم عندالخطاء ہم نہیں مانتے۔ اور اسی غلطیوں کا صدور ابن زبیر سے ہوا، جسکا برملا اظہار دیگر اکابر صحابہ نے اپنی باتوں میں کیا اور تاریخی حقائق بھی اسکے گواہ ہیں۔ اگر میں ان حقائق کو یہاں بیان کروں تو کیا یہ میرا صحابہ پر برسنا ہے؟ عجیب بے تکی بات ہے یہ؟
ان انڈرلائن الفاظ کا باسند حوالہ دیجئے اور جو حوالہ دیں اسمیں صاف صاف لکھا ہوا ہونا چاہئے کہ حجاج نے ابن زبیر رض کے قتل کرنے پر خوشیاں منائی ہیں۔ کسی روایت کی تاویل یا اپنے الفاظ ڈالنے سے گریز ہی کیجئے گادوسری طرف کچھ لوگ ان کی موت پر خوشی کر رہے ہیں ۔۔۔۔کہ ایک جائز خلیفہ اور جلیل القدر صحابی کے قتل پر حجاج اور اس کے لوگ خوشیاں کر رہے تھے ۔۔
؎اور آپ کی ماں صدیق اکبر کی بیٹی اور آپ کی خالہ عائشہ تھین جو رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب بیوی تھیں آپ کے حق سے وہی شخص ناواقف ہوسکتا ہے جس کو خدا نے اندہا کیا ہو
یہاں جناب نے مجھ پر چوٹ کرنے کی کوشش کی ہے، اور روایت کی آڑ لیکر گہرا طنز فرمایا جارہا ہے۔ حالانکہ میں نے اوپر ہی کچھ اپنی بریت میں الفاظ کہے تھے انکو موصوف نے نظر انداز کردیا۔
یہاں شیخ صاحب کے ان الفاظ پر غور کیا تھا جناب عالی نے؟ ادھر شیخ کفایت صاحب نے بھی ایک امکان ہی ظاہر کیا تھا، یعنی وہ بھی اس فتنے کے تعین کرنے سے لاچار ہیں جسکو آپ نے بڑے جزم کے ساتھ ان الفاظ میں پیش کیا تھاپھر شیخ لکھتے ہیں۔ حدیث مذکورکا مصداق کون ؟؟؟
اصل حقیقت اللہ ہی کومعلوم ہے کیونکہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفتن کی باتیں کوئی شریعت کا حصہ نہیں ہیں کہ ان کی بھی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہو--
ثانیا:مذکورہ عہد حجاج بن یوسف کی امارت کا عہدہے، حجاج بن یوسف نے گرچہ اچھے کام بھی کئے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اس نے بہت سارے صحابہ کرام اورتابعین عظام کو بہت ہی بے دردی سے قتل کیا اور اپنی بات منوانے میں حددرجہ سختی سے کام لیتا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ممکن ہے حدیث مذکور میں اسی فتنہ کی طرف اشارہ ہو
عہد یزید سے بعد کا دور ہے۔۔ (یعنی عبدالمالک کا دور۔۔)
حیرت ہے آپ جس دور کو امت کی تباہی گمان کررہے ہیں، وہی دور امت کی تاریخ کا سب سے درخشاں اور کامیاب دور بھی گزرا ہے۔ جتنا اس دور میں اسلام ترقی و کامرانی پاگیا، اتنا خلفائے راشدین کے عہد مبارکہ کو چھوڑ کر اتنا کامیاب نہیں گزرا۔ عباسی دور، بنی فاطمہ دور، خلافت ترکیہ عثمانی دور بھی مجموعی طور پر اتنا کامیاب نہیں ہے جتنا اموی دور کے 100 سال۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ جیسے عالم نے ایک حدیث کو لے کر دوسری صحیح احادیث مبارکہ سےآنکھیں چرا لی۔اللہ کے رسول علیہ السلام کا فرمان کہ میری امت کی تباہی بلکل صحیح تھا کیونکہ اسی آدمی کی حکومت میں مسلمانوں کو گائے بکری سمجھ کر قتل کیا جاتا تھا۔
یہ غلبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک ہی موقوف نہیں رہا بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کم از کم بارہ خلفاء تک ضرور قائم رہا۔ ’’لَا یَزَالُ الْاِسْلَامُ عَزِیْزاً اِلیٰ اِثْنَیْ عَشَرَ خَلِیْفَۃً۔۔۔لَا یَزَالُ ہٰذا الدِّیْنُ عَزِیْزاً مُنِیْعًا اِلیٰ اِثْنَیْ عَشَرَ خَلِیْفَۃً‘‘(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش والخلافۃ فی قریشہ جلد۲، ص۹۱۱)
جب کہ صحیح بخاری میں یہ الفاظ آئے ہیں: ’’یَکُوْنُ اثْنَا عَشَرَ اَمِیْراً۔۔۔کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ‘‘
(صحیح بخاری کتاب الاحکام، باب بلاعنوان بعد از باب الاستخلاف، رقم الحدیث ۲۲۲۷)
سنن ابی داؤد کی روایت میں بتایا گیا ہے کہ: ’’لَا یَزَالُ ہٰذا الدِّیْنُ قَاءِمٌ حَتّیٰ یَکُوْنَ عَلَیْکُمْ اِثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً کُلُّہُمْ تَجْتَمِعُ عَلَیْہِ الْاُمَّۃُ‘‘(سنن ابی داؤد، کتاب الفتن، باب الملاحم جلد ۲۔ ص۹۳۲)
جامع ترمذی میں ’’یَکُوْنُ مِنْ م بَعْدِیْ اِثْنَا عَشَرَ اَمِیْراً‘‘کے الفاظ آئے ہیں۔ (جامع الترمذی، جلد دوم، ص۳۱۱)
مذکورہ روایات میں بتایا گیا ہے کہ اسلام بارہ خلفاء کے دور تک ہمیشہ غالب رہے گا، کوئی بیرونی طاقت ان پر غلبہ نہ پا سکے گی، یہ سب کے سب قریش میں سے ہوں گے اور ان سب پر امت کا اجماع ہو گا۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ ’’ بارہ خلفاء‘‘ کی بحث میں لکھتے ہیں کہ: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ خلفاء کے ہونے کی بشارتیں حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف الفاظ میں آئی ہیں۔۔۔ علمائے اہل سنت میں سے قاضی عیاض اس حدیث کا یہ مطلب بتاتے ہیں کہ تمام خلفاء میں سے بارہ وہ شخص مراد ہیں جن سے اسلام کی خدمت بن آئی اور وہ متقی تھے۔
حافظ ابن حجر، ابو داؤد کے الفاظ کی بنا پر خلفائے راشدین اور بنی امیّہ میں سے ان خلفاء کو گناتے ہیں جن کی خلافت پر تمام امت کا اجتماع رہا یعنی
۱۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ۲۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۳۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۴۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ۵۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ۶۔یزید ۷۔عبدالملک ۸۔ولید ۹۔سلیمان ۰۱۔عمر بن عبدالعزیز ۱۱۔یزید ثانی ۲۱۔ہشام
(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد سوم، ص۴۰۶۔ تحت اخبار غیب یا پیش گوئی)
حسب ذیل کتب میں بھی معمولی تغیّر کے ساتھ بارہ خلفاء کے نام آئے ہیں: (فتح الباری، جلد۳۱۔ ص۴۱۲، منہاج السنۃ لابن تیمیۃ جلد۴۔ ص۶۰۲، تاریخ الخلفاء للسیوطی مترجمہ شمس بریلوی، الصواعق المحرقۃ لابن حجر ہیتمی، ص۱۲، شرح فقہ اکبر لملا علی قاری، ص۴۸، تکملہ فتح الملہم للشیخ محمد تقی عثمانی جلد۳۔ ص۴۸۲)
محدثین کی مذکورہ تشریح سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی ہشام بن عبد الملک اموی کے دور خلافت میں پوری اور سچی ثابت ہوئی۔ مذکورہ اموی خلفاء کو یہ شرف حاصل رہا کہ ان پر پوری امت متفق و مجتمع تھی، ان کے ادوار میں تمام عالم اسلام کا ایک ہی سیاسی مرکز تھا۔ ایک ہی خلیفہ کا حکم پوری اسلامی دنیا پر چلتا تھا اور نہ صرف اندرونِ مملکت اسلام غالب تھا بلکہ کسی بیرونی قوت کو خلافتِ اسلامیہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔
ذرا آنکھیں کھول کر دیکھیں حضرت کہ ان جیدعلمائے کرام نے 6، 7 اور 8 نمبر پر کن خلفائے بنو مروان کو رکھا ہوا ہے۔ کیا ان خلفاء کا عہد "تباہی" کا دور تھا؟ افسوس کے اس سبائی سوچ نے ہمارے اچھے اچھے دماغوں کا کیا بیڑا غرق کیا ہے اور اللہ جانے کیسا فسوں پڑھ کر آنکھوں میں پھونک دیا ہے کہ
وحشت میں ہر اِک نقشہ اُلٹا نظر آتا ہے،
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلیٰ نظر آتا ہے
جناب میں پوچھ سکتا ہوں کہ میں نے کس جگہ ان خیالات کا اظہار کیا ہے جسکو میں نے سرخ سے انڈر لائن کیا ہے؟ میں نے تو اپنی ہر پوسٹ میں صرف اتنا کہا ہے کہ حجاج سے منسوب وہ ظلم ستم کی داستانیں مبالغہ آرائی سے کم نہیں ہیں۔ ممکن ہے اسمیں تھوڑی بہت سچائی بھی ہو لیکن یہ داستانیں ایسی ہی غلط ان سے منسوب ہوگئی ہیں جیسے کربلا کی جھوٹی داستانیں امیر یزید سے۔آپ ہی اکیلے ہیں نایاب جحاج کو ظالم نہیں مانتے بلکہ مسلمانوں کا محسن مانتے ہیں کہ اس نے اچھا کیا سیدنا ابن زبیر رضہ کو ختمکی
واہ جی واہ، کیا جناب نے فرمایا ہے، کہاں تو یہ دعویٰ تھا کہعبداللہ بن زبیر رضہ ، عبداللہ بن مطیع العدوی وغیرہ کو
کہ جیسے مکہ میں ہزاروں کی تعداد میں صحابہ کا قتل عام حجاج نے کروادیا ہو اور نام صرف دو افراد کے لیے جناب نے۔ آپ نے شیخ کفایت اللہ صاحب کے بہت جگہ ریفرنس دئیے ہیں، آئیے میں آپکو شیخ صاحب ہی کے قلم سے ان عبداللہ بن مطیع صاحب کا احوال بتاتا ہوں کہ جنکو آپ نے بڑے اعتماد سے صحابی رسول کہا ہےسبحان اللہ جو شخص صحابہ کو قتل کرسکتا ہے اس کے لئے بے حرمتی ممکن کیسے نہیں تھی
عبداللہ بن مطیع کون تھے؟عبداللہ بن مطیع رحمہ اللہ کے صحابی ہونے کا میرے علم میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اورنہ ہی میرے ناقص علم کے مطابق محدثین میں سے کسی نے انہیں صحابی کہا ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنھایہ میں جو یہ لکھا ہے کہ: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےابن مطیع کوگھٹی دی اور ان کے لئے برکت کی دعا فرمائی۔[البداية والنهاية ط إحياء التراث 8/ 380]
تو امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے نہ تو اس بات کی سند ذکر کی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی حوالہ پیش کیا ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ان کے لئے” له رؤية“ کہا ہے یعنی انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں دیکھا ہے [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 3626]
عرض ہے کہ محض اتنی سی بات سے کوئی صحابی نہیں ہوجاتا بلکہ صحابی ہونے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت بھی ضروری ہے۔ ہم تسلی کے لئے کچھ حوالے پیش کرتے ہیں۔
امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233) رحمہ اللہ نے ایک جواب میں کہا:
عن إسحق بن منصور قال قلت ليحيى محمد بن حاطب له رؤية أو صحبة قال رؤية
اسحاق بن منصور کہتے ہیں کہ میں نے امام ابن معین رحمہ اللہ سے پوچھا : محمدبن حاطب کو رویت حاصل ہے یا وہ صحابی ہیں ؟ تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے جواب دیا : انہیں رویت حاصل ہے[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 183]
أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277) نے کہا:
طارق بن شهاب له رؤية وليست له صحبة
طارق بن شہاب کو رویت حاصل ہے یہ صحابی نہیں ہیں[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 98]
نیز ان کے بیٹے نے کہا:
سئل أبي عن عبد الرحمن بن عثمان التيمي له صحبة قال لا له رؤية
میرے والد سے پوچھا گیا کہ عبدالرحمن بن عثمان تیمی کیا صحابی ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں ، انہیں رویت حاصل ہے[المراسيل لابن أبي حاتم ص: 123]
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
محمود بن الربيع ويقال بن ربيعة الخزرجي الأنصاري مدينى أدرك النبي صلى الله عليه و سلم وهو صبي ليست له صحبة وله رؤية
محمود بن ربیع انہیں ابن ربیعہ خزرجی انصاری مدینی بھی کہا جاتا ہے انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بچپن میں پایا ہے یہ صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں صرف رویت حاصل ہے[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 289]
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الادراک والرؤية اقل افادة من قولہ لہ صحبة لان الصحبة کما لایخفاکم یلاحظ فیھا المعنی اللغوی ولو فی حدود ضیقة، اما لہ ادراک و لہ رؤية فذلک مما لایستلزم ، قد یکون راہ وھو طفل صغیر ادرک الرسول وھو کذلک ، لکن لا ینسحب علیہ معنی الصحبة مھما ضیقت دائرتھا ولذلک فمن قیل فیہ : بانہ لہ صحبة اقرب الی ان یحشر فی الصحابہ ولا یحشر مما قیل فیہ لہ رؤية او لہ ادراک
''فلاں کو ادراک حاصل ہے '' یا ''فلاں کو رویت حاصل ہے'' اس قول کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ فلاں کو صحبت حاصل ہےجیساکہ ظاہرہے اس کے لغوی معنی کو کسی نہ کسی شکل میں پیش نظر رکھنا ہوگا۔ رہی یہ بات کہ ''فلاں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا ہے'' یا ''فلاں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے'' تو اس سے صحابی ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ ممکن ہے کہ اس نے جب دیکھا ہے اس وقت وہ چھوٹا بچہ رہا ہو ، اور یہی صورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پانے میں بھی ہے۔ ایسے لوگوں پر صحابی کا اطلاق کسی بھی صورت میں نہیں ہوسکتا ۔ لہٰذا جس کے بارے میں یہ کہا گیا کہ ''اسے صحبت حاصل ہے'' تو یہ اس بات کے قریب ہے کہ اسے صحابہ میں شمار کیا جائے ، اور جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ : ''اسے رویت حاصل ہے'' یا ''اسے ادراک حاصل ہے '' تو اس طرح کے لوگوں کا شمار صحابہ میں نہیں ہوسکتا۔[سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 119]۔
معلوم ہوا کہ صحابی ہونے کے لئے محض رویت کافی نہیں ہے اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابن مطیع کا تذکرہ کیا تو انہیں صحابی نہیں کہا دیکھئے :[الكاشف للذهبي: 1/ 599]۔
اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی ابن مطیع ذکر کیا تو انہیں صحابی نہیں کہا، دیکھئے :[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم3626]
واضح رہے کہ بعض اہل علم ’’لہ رویۃ‘‘ والوں کو صحابی کہہ دیتے ہیں تو ان کی نظر میں صحابی کا عام اصطلاحی معنی مراد نہیں ہوتا ہے بلکہ تشریفی طور پر مقید صحبت ان کی مراد ہوتی ہے چنانچہ ایسے ہی ایک شخص کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلاَ صُحْبَةَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، بَلْ لَهُ رُؤْيَةٌ، وَتِلْكَ صُحْبَةٌ مُقَيَّدَةٌ.
عبدالرحمن صحابی نہیں ہیں بلکہ انہیں روایت حاصل ہے اور یہ ایک مقید صحبت ہے [سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 484]
یعنی صحابی ہونے اورصاحب رویت ہونے میں فرق ہے ، الغرض یہ کہ ابن مطیع صحابی نہیں ہیں میرے ناقص علم کی حد تک کسی نے بھی انہیں صحابی نہیں کہا ہے۔
بطورفائدہ عرض ہے کہ محمدبن ابی بکر بھی ان لوگوں میں تھے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے ارادہ سے عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر گئے تھے بلکہ محمدبن ابی بکرنے قتل کااقدام بھی کردیا تھا لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی بات سے شرمندہ ہوکررک گئے۔[تاريخ خليفة بن خياط ص: 174 واسنادہ صحیح]
ان کے بارے میں بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
محمد بن أبي بكر الصديق أبو القاسم له رؤية
محمدبن ابی بکرالصدیق ابوالقاسم ،انہیں رؤیت حاصل ہے[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 1/ 384]
یعنی انہوں نے بچپن میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بھی صحابی ہیں؟اورپھریہ بھی سوال اٹھے گا کہ کیا بعض صحابہ بھی نعوذباللہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں شامل تھے ؟
صاف بات یہ ہے کہ لہ رؤیۃ سے صحابی ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے محمدبن ابی بکر صحابی نہیں ہیں ۔
اسی طرح ابن مطیع بھی صحابی نہیں ہیں۔اور بعض اہل علم نے صحابہ والی کتاب میں جو ان کا تذکرہ کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ انہیں صحابی مانتے ہیں بلکہ انہوں نے فقط رویت کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں صحابہ والی کتاب میں ذکر کردیا ہے۔
اور اگر صحابہ والی کتاب میں کسی کے تذکرہ سے یہ لازم آتا ہے کہ وہ صحابی ہیں تو واقعہ حرہ میں مدینہ پرحملہ کرنے والی فوج کے قائد مسلم بن عقبہ تھے ان کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں موجود ہے دیکھئے:[الإصابة في تمييز الصحابة 6/ 232]۔
اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبدالرحمن بن ملجم کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے دیکھئے:[تجريد أسماء الصحابة للذھبی: 1/ 356 ، الإصابة في تمييز الصحابة 5/ 85]۔
نیز عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کی نیت سے جانے والے محمدبن ابی بکر کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے دیکھئے:[أسد الغابة ط العلمية 5/ 97 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب 3/ 1366]
بلکہ لطف تو یہ ہے کہ مختار ثقفی جیسے کذاب ودجال کا ذکر بھی صحابہ والی کتاب میں ہے ، دیکھئے:[أسد الغابة ط الفكر 4/ 346 ، الاستيعاب في معرفة الأصحاب 4/ 1465]
تو کیا یہ سب کے سب صحابہ ہیں ؟؟
واضح رہے کہ ’’لہ رویۃ ‘‘ والے حضرات چونکہ صحابی نہیں ہوتے اسی لئے یہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو محدثین اس روایت کو مرسل قرار دیتے ہیں اسے متصل نہیں مانتے جب کہ صحابہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت بیان کرتے ہیں تو انہیں متصل مانا جاتا ہے۔اس بابت بھی کچھ حوالے ملاحظہ ہوں:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
فإن كان لم يكن له إلا مُجرَّدُ رُؤْية، فقولُه: "قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " محمولٌ على الإرسال.
اگرکسی کو محض اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت حاصل ہے اور وہ کہے کہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : تو اس کی یہ روایت مرسل ہوگی [الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 59 ، نیز دیکھیں: سير أعلام النبلاء للذهبي: 3/ 509]۔
امام ابن رجب رحمه الله (المتوفى795)نے کہا:
وكذلك كثير من صبيان الصحابة رأوا النبي ولم يصح لهم سماع ، فرواياتهم عنه مرسلة كطارق بن شهاب وغيره
صحابہ کے بچوں میں سے کئی ایک نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا نہیں اس لئے اس طرح کے لوگوں کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت مرسل ہوتی ہے[شرح علل الترمذي لابن رجب ص: 58]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے :[سؤالات أبي الحسن المأربي للعلامة المحدث الألباني ص: 119]۔
الغرض یہ کہ جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ ’’لہ رویۃ‘‘ ان کو صحابی کہنا درست نہیں ہے اس لئےبعض لوگوں کا ابن مطیع کو صحابی کہنا اوران پر صحابہ کے احکامات منطبق کرنا اصول حدیث کے خلاف ہے ۔واللہ اعلم۔
آخر میں یہ واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ بعض لوگ ابن مطیع کو صحابی کہنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے امیر یزیدبن معاویہ کو تارک صلاۃ اور شراب نوش کہا ہے۔جیساکہ البدایہ والنھایہ کی روایت میں ہے۔
عرض ہے کہ ابن مطیع نے شراب نوشی اور ترک صلاۃ کی جوبات کہی ہے وہ ان کی اپنی بات یا ان کا اپنا مشاہدہ ہے ہی نہیں ۔بلکہ ابن مطیع نے کسی مجہول و نامعلوم شخص سے یہ بات سنی ہے چنانچہ ابن مطیع اور ان کے ساتھیوں نے یہ بات کہی تو محمدبن الحنفیہ نے ان سے شہادت طلب کی اور پوچھا کہ کیا تم لوگوں نے خود یہ بات دیکھی ہے تو انہوں نے صاف طور سے کہا کہ ہم نے یہ بات خود نہیں دیکھی ہے لیکن ہمارے نزدیک یہ بات سچ ہے۔
یعنی ابن مطیع اور ان کے ساتھ ان الزامات میں کسی اور کی بات پر یقین کررہے جس کا نام ان لوگوں نے نہیں بتایا ۔
معلوم ہوا کہ اس بات کو کہنے والا اصل شخص مجہول ہے اس کا صحابی ہونا تو دور کی بات سرے سے مسلمان ہونا بھی ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کانام اور حال سب نامعلوم ہے بہت ممکن ہے یہ بات کہنے والا کوئی منافق سبائی ہو جس سے ابن مطیع وغیرہ دھوکہ کھا گئے ہوں۔
اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے دیکھیں ہماری کتاب : یزیدبن معاویہ پر الزامات کا تحقیقی جائزہ۔
واہ جی واہ ، سبحان اللہ، بڑا زبردست ناصبی تھا کہ اس نےجب پوری قدرت رکھتا تھا اسکے باوجود بھی حضرت زین العابدین، حضرت ابن حنفیہ، حضرت ابن عباس اور دوسرے تمام بنی ہاشم کی جان بخش دی اور ابن زبیر کے دو بیٹوں کو بھی امان دی۔ میں نے کچھ اسی حوالے سے کچھ پوچھا تھا، حضرت نے اسکی طرف کیوں کچھ دھیان نہ دیا۔ مکرر عرض کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اب جذبات اور بنو امیہ دشمنی کو ایک طرف رکھ کر انکے جوابات عرض کیجئےحجاج کے خلاف کئے روایات ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ وہ ناصبی تھا
اگر امیر حجاج ناصبی ہوتے تو کیا وہ سیدنا عبداللہ عباس، ابن حنفیہ اور زین العابدین رحمہ اللہ اجمعین کو کیا وہ زندہ چھوڑ دیتے، حالانکہ ان حضرات نے تو امیر المومنین عبدالملک کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی۔ نیز مروان رحمہ اللہ کے بیٹے سے تو سیدنا علی المرتضی رض کی بیٹی بھی بیاہی گئی تھی، تو مروان کیسے ناصبی بن گئے؟
اچھا جی، تو کیا ان حدیثوں کی شرح لکھنے والوں سے بھی تسامح ہوا ہے جو بار بار مختار کذاب کو جھوٹا مدعی نبوت ہی گردانتے ہیں۔اسی محدث فورم سے چند چیدہ چیدہ اقتسباتکیا کہون۔۔ میں بھی کہتا ہون مختار کے معاملے میں ابن تیمیہ سے تسامح ہوا ۔۔ انہوں تاریخ کی داستانوں کو بنیاد بنا کر سیدنا حسین رضہ کا بدلہ لینے والے کے بارے میں ایسے الفاظ کہے -بس معاملہ وہیں کا وہیں لٹک رہا ہے۔۔ ابھی تک۔
http://forum.mohaddis.com/threads/سنن-ابن-ماجه.14255/page-100#post-11262033- بَاب مَنْ أَمِنَ رَجُلاً عَلَى دَمِهِ فَقَتَلَهُ
۳۳ -باب: کسی کو امان دینے کے بعدقتل کرنا کیساہے؟
2688- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ شَدَّادٍ الْقِتْبَانِيِّ ؛ قَالَ: لَوْلا كَلِمَةٌ سَمِعْتُهَا مِنْ عَمْرِو بْنِ الْحَمِقِ الْخُزَاعِيِّ، لَمَشَيْتُ فِيمَا بَيْنَ رَأْسِ الْمُخْتَارِ وَجَسَدِهِ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَنْ أَمِنَ رَجُلا عَلَى دَمِهِ فَقَتَلَهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ لِوَاءَ غَدْرٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "۔* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۰، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۳، ۲۲۴، ۴۳۶، ۴۳۷) (صحیح)۲۶۸۸- رفاعہ بن شدادقتبانی کہتے ہیں کہ اگر وہ حدیث نہ ہوتی جو میں نے عمر و بن حمق خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنی ہے تو میں مختار ثقفی کے سراور جسم کے درمیان چلتا ۱؎ ، میں نے عمر و بن حمق خزاعی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس نے کسی کو جان کی امان دی، پھر اس کو قتل کر دیا تو قیامت کے دن دغابازی کا جھنڈا اُٹھائے ہوئے ہو گا '' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کا سربدن سے جدا کر دیتا ، مختار بن عبید ثققی نے قاتلین حسین کو چن چن کر قتل کیا اور مسلمانوں کو خوش کیا لیکن آگے چل کرخود نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا اور مصعب بن زیبر رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں قتل ہوا۔
2689- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبُو لَيْلَى عَنْ أَبِي عُكَّاشَةَ، عَنْ رِفَاعَةَ؛ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى الْمُخْتَارِ فِي قَصْرِهِ، فَقَالَ: قَامَ جِبْرَائِيلُ مِنْ عِنْدِيَ السَّاعَةَ، فَمَا مَنَعَنِي مِنْ ضَرْبِ عُنُقِهِ إِلا حَدِيثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ؛ أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا أَمِنَكَ الرَّجُلُ عَلَى دَمِهِ، فَلا تَقْتُلْهُ " فَذَاكَ الَّذِي مَنَعَنِي مِنْهُ۔
* تخريج : حدیث رفاعۃ تقدم تخریجہ بمثل الحدیث السابق (۲۶۸۸)، وحدیث سلیمان بن صرد، تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۴۵۷۰ (الف)، ومصباح الزجاجۃ: ۹۵۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۴)
۲۶۸۹- رفاعہ کہتے ہیں کہ میں مختار ثقفی کے پاس اس کے محل میں گیا ،تواس نے کہا : جبریل ابھی ابھی میرے پاس سے گئے ہیں ۱؎ ،اس و قت اس کی گردن اڑا دینے سے صرف اس حدیث نے مجھے باز رکھا جو میں نے سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے سنی تھی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : '' جب کو ئی شخص تم سے جان کی اما ن میں ہوتو اسے قتل نہ کرو، تو اسی بات نے مجھے اس کو قتل کرنے سے روکا '' ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ رسالت کا دعوی کر رہاتھا۔
لنک پوسٹ : http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-یزید-پر-لعنت-کرنا-جائز-ہے۔.6920/page-23#post-202890یہ مختار ثقفی کون تھا ،بلکہ کیا تھا ؟ شاید آپ جانتے نہیں!
آپ نے اس کی توہین کرتے ہوئے اسے صرف ،،انسان ،،بنادیا ؟ْ؟ حالانکہ خود مختار کا دعوی تو یہ تھا کہ اس پر وحی آتی ہے
وروى ابن أبي حاتم عن عكرمة قال: قدمت على المختار فأكرمني وأنزلني عنده، وكان يتعاهد مبيتي بالليل قال فقال لي: اخرج فحدث الناس، قال: فخرجت فجاء رجل فقال: ما تقول في الوحي؟ فقلت الوحي وحيان قال الله تعالى: * (إنا أوحينا إليك هذا القرآن) * [يوسف: 3] وقال تعالى: * (وكذلك جعلنا لكل نبي عدوا شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا) * [الانعام: 112] قال فهموا أن يأخذوني فقلت: مالكم وذاك! إني مفتيكم وضيفكم.
فتركوني، وإنما أراد عكرمة أن يعرض بالمختار وكذبه في ادعائه أن الوحي ينزل عليه.( البداية والنهاية ۸۔۳۲۱)
لنک : http://forum.mohaddis.com/threads/حدیث-خلافت-راشدہ-کے-بعد.12303/#post-83666مختار ثقفی کے بارے میں منقول ہے کہ جب اس نے کوفہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ایک حدیث دان سے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر ایک ایسی حدیث وضع کیجئے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میرے بعد ایک خلیفہ ہوگا جو میرے بیٹے(حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کا قصاص لے گا۔ اس حدیث کے گھڑنے کے عوض میں آپ کو دس ہزار درہم اور اس کے علاوہ خلعت سواری اور خادم عطا کروں گا اس شخص نے کہا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام پر تو ایسی حدیث وضع نہی کر سکتا البتہ کسی صحابی کے نام سے گھڑلوں گا آپ معاوضہ میں جو کمی کرنا چاہیں کردیں مختار کہنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جو روایت منقول ہوگی اس میں زیادہ تاکید ہوگی اور اس پر عذاب بھی سخت ملے گا۔(الملل النحل ج ۱ص۹۷،نیز اللالی المصنوعہ ج۲ ص۴۶۸)
اب صورتحال بالکل سب سے سامنے واضح ہے کہ تمام معاملے کی ایسی تیسی کون کررہا ہے (ابتسامہ)
Last edited: