دیر سے جواب دینے کی معذرت، میں اپنے نجی کاموں میں مصروف تھا اس لئے کچھ تاخیر ہوئی۔ خیر دیر آید درست آید
السلام علیکم
ہر گز نہیں میں جان چھڑانے نہیں بلکہ یہ بات میں نے آپ کو مثال دینی کے لئے کہی کیون کہ صحابہ کو ایک دوسرے کے لئے ایسے الفاظ وغیرہ استعمال کرتے تھے ۔اور بات حجاج کی تھی لیکن آپ نے صحابہ کے زریعے ایک اور صحابی پر حملہ کرنے کی کوشش کی
وعلیکم السلام ورحمہ محترم بھائی
اب آپ نے پھر میرے متعلق ایک بدگمانی پالی ہے کہ میں صحابہ کے ذریعے ایک صحابی پر حملہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ بھائی میرے میں صرف آپ کو ان تاریخی حوالوں کی جانب توجہ مرکوز کروانے کی کوشش کررہا ہوں جو مختلف صحیح حدیثوں سے ثابت ہیں، اسکے علاوہ میرا مقصد اور کچھ نہیں۔
۔۔ تو مجھے مجبورن یہ کہنا پڑا۔۔اور ان الفاظ کو بنیاد بنا کر پھر اگر کوئی سیدنا ابن زبیر رضہ کو باغی مخطی ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے تو اسے دوسرے صحابہ کے بارے میں کیا کہے گیں۔
بھائی سیدنا ابن زبیر رض کو باغی مخطی ہم ہرگز ثابت نہیں کررہے بلکہ ایسا کچھ صحابہ کی ہی ارشاد کردہ باتوں سے ثابت ہے کہ وہ ہی ایسا سمجھتے تھے۔ آپ نے صحیح مسلم کی ایک حدیث مبیر والی بیان کرکے ایک صحابیہ کے منہ سے جو الفاظ حجاج کے خلاف نکلے، اسکو تو من و عن تسلیم کرلیا، لیکن جب ایک صحابی دوسرے صحابی یعنی حضرت عبداللہ بن زبیر رض کے متعلق کچھ ایسے ہی مذمتی الفاظ ادا کرے، تو آپ انکو "من و عن" تسلیم کرنے سے کیوں انکاری ہیں؟ میری تو سمجھ میں یہی نہیں آتا۔ آئیے میں آپکو دوبارہ سے کچھ ایسے ہی الفاظ جو صحابہ ہی کے منہ سے حضرت عبداللہ کے منہ سے ادا ہوئے میں یہاں دوبارہ لکھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ ان کو پڑھ کر بتائے کہ کون کس کو مخطی سمجھتا ہے
صحابی رسول ابوبرزة الأسلمي رضی اللہ عنہ نے کہا:وَإِنْ ذَاكَ الَّذِي بِمَكَّةَ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَااور وہ جو مکہ میں ہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما واللہ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں
[صحيح البخاري:كتاب الفتن: باب إذا قال عند قوم شيئا، ثم خرج فقال بخلافه ، رقم 7112]۔
یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں بھی صحیح سند کے ساتھ ہے اوراس کے اخیر میں ہے:وَإِنَّ ذَاكَ الَّذِي بِمَكَّةَ يَعْنِي ابْنَ الزُّبَيْرِ وَاللَّهِ إِنْ يُقَاتِلُ إِلَّا عَلَى الدُّنْيَااور وہ جو مکہ میں ہیں یعنی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، اللہ کی قسم ! وہ بھی صرف دنیا کے لیے لڑرہے ہیں۔
[مصنف ابن أبي شيبة: 7/ 449 واسنادہ صحیح]۔
اسی طرح صحابی رسول عبد الله بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے بھی عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے کہا:يَا ابْنَ الزُّبَيْرِ ، إِيَّاكَ وَالإِلْحَادَ فِي حَرَمِ اللهِاے ابن زبیررضی اللہ عنہ ! آپ حرم میں فساد والحاد سے بچیں۔
[مسند أحمد: 2/ 219 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عباس رض، حضرت ابن زبیر رض کی حکومت پر امیر عبدالملک کی بیعت کو ترجیح دیتے تھے، کیوں؟؟
ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملا تو کہنے لگے" کیا آپ لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ابن زبیر خلافت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں؟ میں نے دل میں سوچا ہے کہ میں غور کرونگا کہ آیا وہ اس کے مستحق ہیں یا نہیں۔ میں نے ابوبکر و عمر کی خلافت کے معاملے میں کبھی غور نہیں کیا کیونکہ وہ طرح سے اس کے لائق تھے۔ پھر میں نے دل میں سوچا کہ وہ ( ابن زبیر) تو نبی ﷺ کی پھوپھی کے بیٹے (پوتے) اور زبیر بن عوام کے صاحبزادے ہیں جو کہ عشرہ مبشرہ میں داخل ہیں۔ یہ حضور اکرم ﷺ کے یار غار (ابوبکر) کے نواسے ہیں اور سیدہ خدیجہ کے بھائی کےبھائی کے بیٹے ہیں اور سیدہ اسماء کے بیٹے ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ وہ خود کو مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ میں انکا مقرب بن جاؤں۔ میں اپنے دل میں ان سے نہ کھنچوں گا لیکن ابن زبیر میری طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں کچھ بھلائی محسوس کرتے ہوں، لیکن اب میں اپنے چچا کے بیٹے (عبدالملک) کی بیعت کرلونگا کیونکہ کسی غیر کے حاکم ہونے سے بہتر ہے کہ ہمارے عزیز حاکم ہوں۔(صحیح بخاری۔ کتاب التفسیر۔ حدیث 4389
صحیح بخاری کی اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رض کے اندر کچھ نسلی تفاخر کے جذبات موجود تھے جسکا احساس حضرت عبداللہ بن عباس رض نے کیا اور ان سے بیعت نہیں کی۔
علی رضہ معاویہ رضہ کو باغی سمجھتے تھے صحابہ انسان تھے خطا کر سکتے ہیں میں بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں
اگر آپ سیدنا معاویہ رض کو یہاں باغی سمجھتے ہیں، تو بالکل ہی غلط سمجھتے ہیں۔ باغی وہ ہوتا ہے جو کسی کی بیعت کرکے اس سے منحرف ہوجائے۔ کیا میں یہاں پوچھنے کا حقدار ہوں کہ سیدنا معاویہ رض نے کب اور کس وقت حضرت علی کی بیعت کی تھی، جسکی مخالفت کرکے وہ "باغی" کا لقب پاگئے؟ آپ جا بجا شیخ کفایت اللہ صاحب کا حوالہ دیتے ہیں، اب میں یہاں شیخ صاحب ہی کے الفاظ میں کچھ جملے نقل کرتا ہوں
با
غی کہتے ہیں جو پہلے بیعت کرلے بعد میں بیعت توڑ دے ۔
لیکن جس نے شروع ہی سے بیعت نہیں کی وہ باغی کیسے ہوں گے ؟
حدیث عمار رضی اللہ عنہ میں فئۃ باغیۃ کا مصداق نہ تو علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ہے اور نہ ہی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ کیونکہ ان لوگوں نے کسی کی بیعت کرکے ان کی بیعت نہیں توڑی ہے ۔
البتہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین یہ پہلے عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کرچکے ہیں اور بعد میں ان کی بیعت توڑدی حتی کہ عثمان رضی اللہ عنہ قتل بھی کردیا بعد میں یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل گئے اس لئے یہی لوگ حدیث میں مذکور فئۃ باغیہ کے مصداق ہیں ۔یہی لوگ جہنم کی طرف بلانے والے تھے۔
لنک پوسٹ : http://forum.mohaddis.com/threads/ابو-الغادیہ-کیا-سیدنا-معاویہ-رض-کی-فوج-میں-شامل-تھے؟.26869/#post-215118
لیکن اس بات کی آڑ لے کر کچھ صحابہ کے اقوال پیش کر کہ کسی صحابی کو مطعون کرنے پر تل جانا اور پھر اسی حقائق بیان کرنے سے تشبیع دینے سے مجھے اختلاف ہے ۔۔
بھائی سیدھی سی بات ہے، جسطرح آپ نے ایک صحیح مسلم کی حدیث کو لے کر اسکی ترجمانی کی ہے، بالکل اسی طرح میں نے بھی کچھ صحیح حدیثوں کا سہارا لیکر کچھ تاریخ حقائق سے آپکو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے، اب آپ کو یہ معاملہ یک طرفہ لگ رہا ہے تو اس سلسلے میں ، میں کیا کرسکتا ہوں؟ جو بات آپ یہاں کررہے ہو، ویسی ہی بات میں ہی ادھر کررہا ہوں، معاملہ برابر
اس لئے اختلاف صحابہ کو صحابہ تک رکھیں۔ اور جناب امیر المومینین عبداللہ بن زبیر رضہ کی ہی اجتہاد قابل ثواب ہے مروان کا نہیں۔اس لئے مروان و اس کے بیٹے کو ان کے مقابلہ میں مت لائیں۔
جی جی میں صحابہ کے اختلاف کو انکے درمیان ہی رکھنے کی کوشش کی ہے، اور کبھی بھی معاذ اللہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رض کو اس سلسلے میں مطعون کرنے کی کوشش نہیں کی ہے، بس یہاں صحابہ کی ابن زبیر کے خلاف باتیں بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ آپ کو بھی ذرا معاملے کا دوسرا رخ دکھا دوں، ورنہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رض کو دشمن نہیں ہوں۔مروان اور اسکے بیٹے کو میں مقابلے میں نہیں لارہا۔ بلکہ صحابہ ہی نے مروان اور اسکے بیٹے کو ابن زبیر رض پر ترجیح دی تھی، جو ایک تاریخی حقیقت ہے جس سے آپ بھی بخوبی واقف ہیں۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ انہوں نے ابن زبیر رض کو چھوڑ کر عبدالملک کے ہاتھ پر بیعت کرلی؟؟؟؟
اور بے شک پھر وہ معاویہ بن یزید کے بعد امام تھے و مروان بن حکم سے زیادہ ہدایت یافتہ تھے آپ نے اپنے اوپر اتفاق ہونے کے بعد اس سے جھگڑا کیا اور افاق میں آپ کی بیعت ہوگئی اور امارت آپ کے لئے درست ہوگئی۔۔
عرض ہے حافظ ابن کثیر کے ان الفاظ پر بار بار غور کرین
لیکن میرے بھائی بہت سے علماء آپ کی اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات سے متفق نہیں ہیں کہ معاویہ بن یزید کے بعد، عبداللہ بن زبیر ہی امام و خلیفہ تھے، ملاحظہ ہو
حافظ ابن حجر، ابو داؤد کے الفاظ کی بنا پر خلفائے راشدین اور بنی امیّہ میں سے ان خلفاء کو گناتے ہیں جن کی خلافت پر تمام امت کا اجتماع رہا یعنی
۱۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ۲۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ۳۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۴۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ۵۔حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ۶۔یزید ۷۔عبدالملک ۸۔ولید ۹۔سلیمان ۰۱۔عمر بن عبدالعزیز ۱۱۔یزید ثانی ۲۱۔ہشام
(سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، جلد سوم، ص۴۰۶۔ تحت اخبار غیب یا پیش گوئی)
یہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور سید سلمان ندوی رحمہ اللہ دونوں نے امیر یزید کے بعد سیدھا عبدالملک کو ہی "امام و خلیفہ" مانا ہے۔ اب میں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے امیر المومنین عبدالملک کو خلیفہ کہہ دیا تو میرے بھائی انگلیاں صرف مجھ پر ہی کیوں اٹھ رہی ہیں؟ کیا جو جرم میں نے کیا ہے، اس میں ابن حجر و سلمان ندوی برابر کے شریک نہیں ہیں؟؟؟ اسی طرح اوپر کی لسٹ ان علمائے کرام نے بھی اپنی اپنی کتب میں پیش کی ہے، جو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی کہی ہوئی بات سے متفق نہیں ہیں
حسب ذیل کتب میں بھی معمولی تغیّر کے ساتھ بارہ خلفاء کے نام آئے ہیں: (فتح الباری، جلد۳۱۔ ص۴۱۲، منہاج السنۃ لابن تیمیۃ جلد۴۔ ص۶۰۲، تاریخ الخلفاء للسیوطی مترجمہ شمس بریلوی، الصواعق المحرقۃ لابن حجر ہیتمی، ص۱۲، شرح فقہ اکبر لملا علی قاری، ص۴۸، تکملہ فتح الملہم للشیخ محمد تقی عثمانی جلد۳۔ ص۴۸۲)
امام نووی شرح صحیح مسلم حدیث مبیر میں فرماتے ہیں
ومذهب أهل الحق أنابن الزبيركان مظلوما ، وأنالحجاجورفقته كانوا خوارج عليه .
اور اہل حق کا مذہب یہی ہے کہ ابن زبیر رضہ مظلوم تھے اور حجاج اور ساتھی خارجی تھے
مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ ابن زبیر رض کو سب صحابہ کرام اور خیر القرون کے تابعین کرام، مظلوم سمجھتے ہوئے اور حجاج کو خارجی سمجھتے ہوئے بھی اس کے ہاتھ پر عبدالملک کے ہاتھ پر دھڑادھڑ بیعت کرتے چلے گئے، کسی ایک کو بھی ابن زبیر رض کی مظلومیت کو ذرا برابر بھی خیال نہ آیا؟ اب اس گتھی کو بھی آپ ہی سلجھا دئیے حضرت
اب امام نووی رحمہ اللہ کی مسلم کی حدیث کی تشریح کے برعکس، حضرت عبداللہ بن عمر رض کیا فرماتے تھے حضرت ابن زبیر رض کے متعلق ، آئیے ذرا شیخ کفایت اللہ صاحب کا ایک اور آرٹیکل پڑھتے ہیں، جس میں انہوں نے ایک بیہقی کی صحیح حدیث نقل کرتے ہوئے فرمایا
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی۴۵۸)نے کہا:
حدثنا أبو عبد اللہ الحافظ، إملاء , ثنا أبو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ الزاہد , ثنا أحمد بن محمد بن مہدی بن رستم، ثنا بشر بن شعیب بن أبی حمزۃ القرشی، حدثنی أبی ح،وأخبرنا أبو الحسین بن الفضل القطان، ببغداد , أنبأ عبد اللہ بن جعفر بن درستویہ، ثنا یعقوب بن سفیان، ثنا الحجاج بن أبی منیع، ثنا جدی،وثنا یعقوب، حدثنی محمد بن یحیی بن إسماعیل، عن ابن وہب، عن یونس، ,جمیعا عن الزہری، وہذا لفظ حدیث شعیب بن أبی حمزۃ , عن الزہری، أخبرنی حمزۃ بن عبد اللہ بن عمر،: أنہ بینما ہو جالس مع عبد اللہ بن عمر إذ جاء ہ رجل من أہل العراق، فقال: یا أبا عبد الرحمن إنی واللہ لقد حرصت أن اتسمت بسمتک, وأقتدی بک فی أمر فرقۃ الناس, وأعتزل الشر ما استطعت , وإنی أقرأ آیۃ من کتاب اللہ محکمۃ قد أخذت بقلبی, فأخبرنی عنہا , أرأیت قول اللہ تبارک وتعالی:{وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّی تَفِیء َ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَإِنْ فَاء َتْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ } (الحجرات: ۹) أخبرنی عن ہذہ الآیۃ، فقال عبد اللہ: ومالک ولذلک , انصرف عنی , فانطلق حتی تواری عنا سوادہ , أقبل علینا عبد اللہ بن عمر فقال: ما وجدت فی نفسی من شیء من أمر ہذہ الأمۃ ما وجدت فی نفسی أنی لم أقاتل ہذہ الفئۃ الباغیۃ کما أمرنی اللہ عز وجل. زاد القطان فی روایتہ:قال حمزۃ: فقلنا لہ: ومن تری الفئۃ الباغیۃ؟ قال ابن عمر: ابن الزبیر بغی علی ہؤلاء القوم , فأخرجہم من دیارہم , ونکث عہدہم۔۔۔
حمزہ بن عبداللہ بن عمرکہتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس عراق سے ایک شخص آیا اور کہا:اے ابوعبدالرحمن! واللہ میں اس بات کاحریص ہوں کہ آپ کے نقش قدم پرچلوں اورلوگوں کے اختلاف کے معاملہ میں آپ کی پیروی کروں اورجہاں تک ہوسکے فساد سے الگ تھلگ رہوں ۔لیکن میں قرآن مجید کی ایک محکم آیت پڑھتاہوں تو دل میں کچھ کھٹکتاہے تو آپ اس آیت کے بارے میں مجھے بتادیں! آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا خیال ہے(اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں ںلڑ پڑیں تو ان میںملاپ کرا دیا کرو، پھر اگر ان دونوں میںا سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے ،اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دواور عدل کرو بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے)(الحجرات:۹)۔اس آیت کی تفسیر مجھے بتلائیں ! توعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے کہا: یہ جان کرکیا کرو گے ؟ جاؤ یہاں سے ۔پھروہ شخص چلا گیا یہاں تک کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔ اس کے بعدعبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ہماری جانب متوجہ ہوئے اورکہا:
اس امت کے معاملات میں سے کسی معاملہ پرمجھے اتناافسوس نہیں ہواجنتااس بات پرافسوس ہوا کہ میں نے اس باغی جماعت سے قتال کیوں نہیں کیا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔حسین بن القطان نے مزید بیان کیا کہ :حمزہ نے کہا: ہم نے عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ کس کو باغی جماعت سمجھتے ہیں؟ تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:ابن زبیررضی اللہ عنہ نے اس قوم کے خلاف بغاوت کی ہے انہیں ان کے گھروں سے نکال دیا ، ان کا عہد توڑ دیا ۔۔۔[السنن الکبری للبیہقی:۸؍۲۹۸ واسنادہ صحیح واخرجہ ایضا ابن عساکر فی تاریخہ ۳۱؍۱۹۳من طرق عن الزھری بہ ونقلہ الحافظ فی الفتح ۱۳؍۷۲]۔
اس روایت کی سند صحیح ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ نے روایت کے ابتدائی حصہ کو شعیب بن ابی حمزہ کے طریق سے نقل کیا ہے اور آخری حصہ کو ابن القطان کے طریق سے نقل کیا ہے اوران دونوں طریق کی مکمل سند بالکل صحیح ہے۔
اوپر درج کردہ حدیث، شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب کے اس آرٹیکل سے نقل کی گئی ہے
لنک آرٹیکل :
http://aetedaal.com/باغی-گروہ-کے-سلسلہ-میں-عبداللہ-بن-عمررض
اب خدارا مجھے اس بات کا الزام مت دیئے گا کہ میں نے شیخ صاحب کی بات نقل کرکے خدانخواستہ ابن زبیر رض کو باغی قرار دیا ہے، میں صرف ایک بات کرنے کا ناقل ہوں، جسطرح شیخ صاحب اور صاحب البھیقہی نے مذکورہ حدیث نقل کی ہے
وَقَالَ الْوَاقِدِيُّ: حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ ثَابِتٍ، الخ
بھائی یہ تو آپ کی چھلانگ ہی غلط نکل آئی۔ حیرت ہے آپ جیسا اتنا تجربہ کار اور مدبر بھی ابن کثیر کی پیش کردہ اس حدیث کی سند میں موجود "ایک خطرناک رافضی کیڑے" کو نہیں پہچان سکا؟ حیرت ہے !! جی میں محمد بن عمر واقدی کی بات کررہا ہوں، جو آپ کی اس روایت کا پیش کرنے والا پہلا راوی ہے۔ یہ واقدی کون تھا اور اسکے متعلق کبار علمائے کرام نے کیا کہا ہے، آئیے ذرا سنتے ہیں
سند میں موجود ’’محمدبن عمر واقدی ‘‘ کذاب ہے چنانچہ:
امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)نے کہا:
كتب الواقدي كذب
واقدی کی ساری کتابیں جھوٹی ہیں[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام إسحاق بن راهَوَيْه رحمه الله (المتوفى 237)نے کہا:
عندي ممن يضيع الحديث
میرے نزدیک یہ حدیث گھڑنے والوں میں سے تھا[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 20 وسندہ صحیح]۔
امام نسائي رحمه الله (المتوفى303)نے کہا:
والكذابون المعروفون بِوَضْع الحَدِيث على رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَرْبَعَة: ١- ابْن أبي يحيى بِالْمَدِينَةِ ٢- والواقدي بِبَغْدَاد ٣ - وَمُقَاتِل بن سُلَيْمَان بخراسان ٤ - وَمُحَمّد بن السعيد بِالشَّام
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حدیث گھڑنے والے مشہور و معروف جھوٹے راوی چار ہیں (1) مدینہ میں ابن ابی یحیی۔ (2) بغداد میں واقدی ۔ (3) خراسان میں مقاتل بن سلیمان۔(4) شام میں محدبن سعید [ أسئلة للنسائي في الرجال المطبوع فی رسائل في علوم الحديث ص: 76]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507)نے کہا:
أجمعوا على تركه
اس کے متروک ہونے پر محدثین کا اجماع ہے[معرفة التذكرة لابن القيسراني: ص: 163]۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
قد انعقد الإجماع اليوم على أنه ليس بحجة، وأن حديثه في عداد الواهي
آج اس بات پر اجماع ہوچکا ہے کہ واقدی حجت نہیں ہے اور اس کی حدیث سخت ضعیف میں شمار ہوگی[سير أعلام النبلاء للذهبي: 9/ 469]۔
ان ائمہ کے علاوہ اوربھی متعدد ناقدین نے اس پر جرح کی ہے ملاحظہ ہو عام کتب رجال
فائدہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
محمد بن عمر هذا - وهو الواقدي - كذاب ، فلا يفرح بروايته
محمدبن عمر یہ واقدی کذاب ہے اس لئے اس کی روایت کسی کام کی نہیں[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 4/ 13]۔
جی شیخ حفظہ اللہ کی بات پیش کرنے کا سبب یہ نہیں تھا کہ انہوں نے امکان ظاہر کیا(اگر انہوں نے امکان ظاہر کیا تو وہ حدیث صحیح مسلم نہیں بلکہ 70 کے فتنوں سے پناھ مانگنے کی حدیث پر کہا ہے) لیکن آپ نے شیخ محترم کے دوسرے الفاظ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی یا پھر جان بوجھ کر چھوڑ دیا اور ہمارہ مقصد سمجھنے سے اپ قاصر رہے یا جان بوجھ کر ایسا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور اس کے نیچے بہت واضع الفاظ میں شیخ نے حجاج کو حدیث مبیر کا مصداق کہا ہے جو آپ نے جان بوجھ کر نہیں دیکھا۔ہمارہ یہاں مقصد تھا کہ شیخ نے حجاج کو ظالم اور اس کے فتنہ کو بڑا فتنہ قرار دیا ہے جس آپ نے چالاکی سے گول کردیا اور پڑھنے والے کو تاثر دے رہے ہیں کہ میں شیخ کے یہ بات فتنہ کے متعلق نقل کی
محترم میں نے "امکان ہونے" کی بات اس لئے کی تھی کہ شیخ صاحب بھی اس فتنہ کے تعین ہونے میں ہیچ میچ تھے جس حدیث میں ، حضرت ابوہریرہ رض کی سن 70 والی حدیث، میں کسی فتنہ کا اشارہ کیا گیا تھا۔ اب انکے الفاظ جو آ پ نے یہاں بھی کوٹ کیئے ہیں، دوبارہ غور سے پڑھئے تو آپ کو خود ہی اندازہ ہوجائے گا کہ میرا اندازہ کتنا درست ہے۔ میں شیخ صاحب کے الفاظ انڈرلائن کرتا ہوں۔
شیخ نے حجاج کے بارے میں جو لکھا وہ یہ ہے
لیکن یہ بات مسلم ہے کہ اس نے بہت سارے صحابہ کرام اورتابعین عظام کو بہت ہی بے دردی سے قتل کیا اور اپنی بات منوانے میں حددرجہ سختی سے کام لیتا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔ممکن ہے حدیث مذکور میں اسی فتنہ کی طرف اشارہ ہو کیونکہ حجاج بن یوسف کا فتنہ بھی کوئی معمولی فتنہ نہ تھا ۔
اب اس
ممکن ہے کے الفاظ سے کیا ظاہر نہیں ہورہا کہ شیخ صاحب یہاں فتنہ کے تعین ہونے میں یقین نہیں رکھتے ؟ اگر شیخ صاحب بھی حدیث میں موجود فتنے کے تعین کا سبب حجاج کو ہی ٹہراتے تو پھر یہاں ممکن ہے کا لفظ کیوں لے کر آتے؟ وہ یہ بات جزم و یقین سے کہتے کہ اس حدیث میں جو فتنہ کا اشارہ ہے وہ حجاج بن یوسف کا فتنہ ہے۔ بلکہ ایک اور جگہ اس فتنہ کا تعین کا امکان شیخ صاحب نے سیدنا علی رض کے عہد میں ہونے والے فتنہ کا ٹہرایا ہے۔ ملاحظہ ہوں شیخ صاحب کے الفاظ
گرکوئی کہے کہ یہ فتنہ دور یزید میں تو ہوا ، تو عرض ہے کہ اس سے بڑے فتنے علی رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئے ، جنگ جمل اورجنگ صفین میں صحابہ کی بہت بڑی تعداد شہید ہوئی ، بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جس قدر صحابہ کرام کا خون بہا اتنا خون یزیدبن معاویہ کے پورے دور میں نہیں بہا اوران فتنوں کی طرف اشارہ صرف صحیح ہی نہیں بلکہ صحیح ومرفوع روایات میں ہے ، تو کیا ان تمام صحابہ کے خون کی ذمہ داری علی رضی اللہ عنہ پرہوگی ۔
لنک پوسٹ : http://forum.mohaddis.com/threads/سن-ساٹھ-٦٠-ہجری-اور-بچوں-کی-امارت.7329/#post-46952
اب بتائیے کیا الفاظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ شیخ صاحب بھی اس فتنے کے تعین ہونے میں یقین نہیں رکھتے۔ اسی موضوع پر ایک دوسرےدھاگے میں وہ لکھتے ہیں کہ
ہم اوپرمفصل وضاحت کرچکے ہیں کہ حدیث مذکورکامصداق یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کو قطعانہیں بتایاجاسکتا،لیکن اب سوال یہ ہے کہ پھراس کا مصداق کیاہے؟ حدیث میں مذکورعہدمیں کون سا ایساشدید فتنہ تھا جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو پناہ مانگنے کاحکم دیا ؟؟؟
تو عرض ہے کہ
اولا:
اصل حقیقت اللہ ہی کومعلوم ہے کیونکہ وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیش آنے والے حوادث وفتن کی باتیں کوئی شریعت کا حصہ نہیں ہیں کہ ان کی بھی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لی ہو۔
لنک پوسٹ : http://forum.mohaddis.com/threads/سن-ستر-٧٠-سے-پناہ-مانگنے-کا-حکم-اورامارت-یزیدبن-معاویہ-رحمہ-اللہ۔.7328/#post-46950
شیخ صاحب کی دونوں تحاریر آپ کے سامنے ہیں۔ ذرا پرسکون ہوکر کھلے دل سے ان الفاظ کو پڑھیے اور مجھے بتائیے کہ کیا واقعی شیخ کفایت اللہ صاحب حدیث ابوھریرہ رض میں درج فتنے کو یقین کے ساتھ "حجاج بن یوسف" کے ساتھ ہی منسلک کررہے ہیں؟؟؟؟؟
بلکہ ایک روایت میں تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صراحتا شر قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد کی روایت میں اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہافرماتی ہیں:
وَاللَّهِ لَقَدْ أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ثَقِيفٍ كَذَّابَانِ،الْآخِرُ مِنْهُمَا شَرٌّ مِنَ الْأَوَّلِ، وَهُوَ مُبِيرٌ[مسند أحمد: 44/ 529 واسنادہ صحیح علی شرط الشیخین]۔
ترجمہ: اللہ کی قسم ! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردی ہے کہ بنوثقیف میں دو کذاب آدمیوں کا خروج عنقریب ہوگا ،جس میں دوسرا پہلے کی بنسبت زیادہ بڑے شر اورفتنے والا ہوگا اور وہ مبیر ہوگا""""""
تو آپ شیخ محترم کی بات کو پھر سے غور سے پڑہیں
مسند احمد کی تو بات نہ کریں، نہ یہ کتاب صحاح ستہ میں شامل ہے اور نہ اس میں احادیث صحت کے اس درجے پر قائم ہیں جو صحاح ستہ بالخصوص صحیحین میں موجود ہیں۔ بلکہ مسند احمد میں تو ہر طبقے کو خوش کرنے کے لئے احادیث کا انبار موجود ہے۔ اس میں تو کثرت سے ایسی احادیث بھی شامل ہیں جس میں صحیحین سے صاف روگردانی کرتے ہوئے ، شیعت کے موقف کا اثبات موجود ہے اور انکے عقیدے کو سہارا دینے والی احادیث بھی موجود ہیں۔ امام احمد حنبل رحمہ اللہ کو امام بخاری رحمہ اللہ کا اُستاد کہا جاتا ہے، لیکن اگر ان کی کتب احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو دونوں میں حیرت انگیز تفاوت پایا جاتا ہے ۔ بخاری نے دنیوی قبر میں مُردے کی زندگی اور اس کے سماع کا حدیثوں کے ذریعے انکار کیا ہے اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے وفات شدہ لوگوں پر عرضِ اعمال کے عقیدے کو باطل ٹھہرایا ہے مگر مسند احمد میں امام احمد بن حنبل نے روایتوں کے ذریعہ اِن باتوں کو ثابت کیا ہے۔نیز اسمیں بہت ساری احادیث ایسی بھی موجود ہیں جو امیر معاویہ رض، سیدنا عثمان رض اور دیگر اموی و صحابہ حضرات کی قدح موجود ہے۔ اسکی تفضیل کے لئے آپ یہ دھاگہ ملاحظہ فرمائیں، ہے زیر نظر تحقیق اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے
لنک:
http://forum.mohaddis.com/threads/موازنہ-صحیح-بخاری-اور-مسند-احمد.27065
آپ جانتے ہیں یہ تو چند باتیں ہیں جو موازنے کی صورت میں اس وقت پیش کی گئی ہیں . اصول کافی میں یہ ساری مسند احمد کی روایات ملیں گی آپ کو جن کا امام بخاری نے رد کیا ہے
الله رحم فرماے امام بخاری پر جنہوں نے صحیح روایات بیان کر کے شیعت کی دھجیاں اڑا دیں
اموی مروانی دور میں صرف فتوحات ہوئیں صرف فتوحات کو بنیاد بنا کر ان کو عادل خلفاء سمجھنا بہت ہی خطرناک ہے ۔
جی کیا صرف فتوحات ہی صرف اموی و مروانی دور میں ہوئی تھیں؟ کیا آپ قرآن پاک پر اعراب لگوانے والی بات بھول رہے ہیں، جسکا سہرا بھی بقول آپ کے اسی ظالم و فاسق و جابر و شر آدمی کے سر منڈھتا ہے جسکو دنیا حجاج بن یوسف ثقفی کے نام سے جانتی ہے۔ قرآن سے امیر حجاج کی محبت کا عالم دیکھئے۔ امیر حجاج بن یوسف ثقفی اپنے باپ کی طرح شروع سے ہی قرآن کی تعلیم دیا کرتےتھے۔مال کیلئے نہیں بلکہ اللہ کا ثواب حاصل کرنے کیلئے۔ پھر یہ بنو امیہ کے بڑے گورنروں میں سے ایک بڑے گورنر بنے۔ انہوں نے ہی قرآن پر اعراب وغیرہ لگوائے ۔ اپنی قساوت قلبی اور سخت گیری کے باوجود قرآن کی پابندی سے تلاوت کیا کرتے تھے ۔لوگوں کی قرآن حفظ کرنے پہ ہر طرح سے حوصلہ افزائی کیا کرتا تھے اور حفاظ قرآن کو اپنے قریب رکھتا تھے ۔ (أحمد صدقى العَمَد/ الحجاج بن يوسف الثقفى- حياته وآراؤه السياسية/ دار الثقافة/ بيروت/ 1975م/ 86- 87، 96، 474، 477- 478، وهزاع بن عيد الشّمّرى/ الحجاج بن يوسف الثقفى- وجهحضارى فى تاريخ الإسلام/ دار أمية/ الرياض/ 44
. اسکے علاوہ اموی دور کی فتوحات نے ان علاقوں کی تعداد میں بہت اضافہ کر دیا جہاں اسلام کی تبلیغ ہو سکتی تھی۔ چنانچہ مفتوحہ قوموں کے بے شمار افراد نے قرآن پاک لکھنا شروع کیا لیکن ان کے لیے اعراب کے بغیر کتاب کو پڑھنا ممکن نہ تھا۔ اس لیے عبدالملک بن مروان نے اپنے دور حکومت میں حجاج کے ہاتھوں (واضح رہے کہ امیر حجاج خود قرآن کے ایک اچھے قاری اور اسکے معلم بھی تھے) قرآن پاک پر اعراب لگوائے اور ایک جیسے حرف کو ایک دوسرے سے ممیز کرنے کے لیے نقطے لگائے گئے۔ عبدالملک خود قرآن پاک سے گہرا شغف رکھتا تھا اور عمر بن عبدالعزیز کی دینی ذوق کے بارے میں دو آرا ہو ہی نہیں سکتیں۔ ان دونوں خلفاء کے زمانوں میں قرآن پاک کے حفظ کے بارے میں تفسیر لکھنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دی گئی۔ اموی دور کے مشہور مفسرین قرآن میں عکرمہ ، قتادہ بن دعامہ سروسی، مجاہد بن جبیر ، سعید بن جبیر اور حسن بصری معروف ہیں اور بعد کے مفسرین انہی کی آراء کے حوالے دیتے ہیں۔ حضرت علی کے ایک رفیق اور حمزہ اور امام باقر نے بھی تفاسیر لکھی تھیں۔
اسکے علاوہ حدیث کی تدوین کے نقطہ نظر سے بھی اموی دور بنیادی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دور میں بعض صحابہ تابعین کی کثیر تعداد اور تبع تابعین موجود تھے۔ اس لیے فطری طور پر یہ روایات جمع کرنے اور ان کو مرتب کرنے کا دور تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس شعبہ کی طرف توجہ فرمائی اور احادیث کے مجموعے مرتب کروائے اور ان کی نقول دور دراز کے علمی مراکز کو بھجوائیں ۔ خالد بن معدان ، عطا بن ابی رباح اور عبدالرحمن ( جو حضرت عبداللہ بن مسعود کے پوتے تھے) کے صحیفے اس سلسلے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ثمرہ بن جندب اور وہب بن منبہ کی بیاضیں ان کے علاوہ تھیں۔ ہشام بن عبدالملک نے امام زہری سے چار سو احادیث کا مجموعہ مرتب کروایا۔
فلسفہ اور طب کی جو ترقی عباسی دور میں سامنے آئی اس کی خشت اول دور بنو امیہ میں رکھی گئی تھی ۔ یونانی فلسفہ و منطق کے اثرات اسی دور ہی میں نظر آنے لگے تھے۔ معتزلہ فرقہ کے بانی واصل بن عباء اسی زمانے میں پیدا ہوا ، جو خواجہ حسن بصری کی مجلس سے علیحدگی اختیار کرنے ہی کی بدولت ’’معتزلی‘‘ کہلایا۔ یونانی طب نے بھی اس زمانے میں فروغ پایا۔ حکیم عرب حارث بن کلاوہ اور اس کا بیٹا طائف کے معروف طبیب تھے۔ ابن اثال جیسے عیسائی طبیب کی شہرت اور سرپرستی امور حکمرانوں کی علم پروری اور غیر متعصبانہ روش کی آئینہ دار ہے۔
اموی دور حکومت بحیثیت مجموعی معاشی خوشحالی کا دور ہے۔ اس دور میں فتوحات نے مسلم معاشرے کو بے پناہ معاشی وسائل مہیا کیے۔ ایک وسیع و عریض اور مضبوط و مستحکم حکومت کے قیام نے تجارت و صنعت کے لیے سازگار ماحول پیدا کر دئیے۔ قدیم زمانے سے ہی مشرق ممالک کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ سیاسی و فوجی قوت کے اضافے سے ان کی بحری تجارت کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ فتح اندلس سے عرب تاجروں کے لیے یورپ کی منڈیوں تک بھی رسائی حاصل ہوگئی تھی۔ ایران ترکستان کی فتح اور سندھ کی تسخیر سے مشرق و مغرب کے درمیان خشکی کے راسے سے تجارت میں کئی گناہ اضافہ ہو گیا اور ایک علاقہ کی پیداوار کو دوسرے علاقوں منتقل کرکے اس دور کے تاجروں نے بہت دولت کمائی
اموی دور میں زراعت نے بھی خوب ترقی کی ۔ حکومت نے زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے۔ آبپاشی کے کئی منصوبے بنائے گئے۔ افتادہ زمینوں کو آباد کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ پرانے زمانے کے روایتی جاگیردار جو زمین کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے ختم ہوگئے۔ مزارعین کو اگرچہ حکومت کو خراج ادا کرنا پڑتا تھا لیکن ان کی حالت پہلے سے بہت بہتر تھی۔ تجارتی ترقی نے ان کی زرعی پیداوار کے لیے مناسب قمیت کا بندوبست کیا۔ فتح اندلس نے مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کو مزید فروغ دیا تو مشرقی علاقوں کے زراعت پیشہ لوگ مزید خوشحال ہوگئے
ترک عثمانی دور بنی امیہ مروانی دور سے کافی کامیاب اور زبردست رہا ہے 600 سال تک وہ طاقت رہے ہیں جبکہ مروانی صرف 50 سال تک حکومت کر سکے اور ان کی حکومت بنو امیہ مروانی سے اچھی خاصی تھی۔۔ انہون نے ہی قسطنطنیہ کو فتح کرکہ حضور علیہ الاسلام کی پیش گوئی پوری کی۔ ان کے سلطان محمد فاتح ، بعد کے اموی خلفاء سے بہت بہتر تھا۔
معاف کیجئے گا عثمانی ترکوں کا آپ مقابلہ خیر القرون سے نہیں کرسکتے، کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی ایک واضح حدیث اس سلسلے میں موجود ہے کہ
(
خَیْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ )
’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے‘ پھر وہ لوگ جو ان سے ملتے ہیں ‘ پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں ‘‘
اب اس حدیث مبارکہ کی رو سے سب سے افضل زمانہ حضور پاک ﷺ کا ہے، پھر خلافت راشدہ کا دو ر مبارکہ ہے اور اسکے بعد اموی دور حکومت۔ عباسی دور اور خلافت عثمانیہ دور اس حدیث مبارکہ کی رو سے "خیر القرون" سے باہر چلا جاتا ہے۔ نیز آپ نے لکھا تھا کہ عثمانی ترکو ں کا دور حکومت 600 سال تک رہا جبکہ مروانیوں کو دور حکومت صرف 50 سال تک ہی رہا، تو آپکی اطلاع کے لئے غرض ہے کہ جب سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا تو اس وقت وہ خلیفہ اسلام نہیں کہلاتا تھا، یہ تو اسکے پوتے سلطان سلیم اول کے عہد میں خلافت عباسیہ مصر سے منتقل ہوکر سن 1520 عیسوی میں ترک عثمانیہ میں منتقل ہوگئی تھی۔ اور تب سے وہ خلیفۃ المسلمین کا لقب اختیار کرتا ہے اور اسکے بعد خلفائے عثمانیہ کا دور عروج کا سلسلہ بھی صرف 100 سال ہی رہا۔ اور سن 1620 عیسوی کی شروعات ہوتے ہی عثمانی خلفاء کو شکستوں کا سامنہ کرنا پڑا اور انکی سلطنت کا رقبہ دن بہ کم سے کم ہی ہوتا چلا چلا گیا۔ اور آئندہ آنے والے سالوں میں تو وہ بالکل عباسی خلفائے بغداد کی طرح صرف برائے نام ہی خلیفہ رہے، جنکی پشت پر کچھ اور قوتیں کام کرتی رہی تھیں۔ جب خلفائے بنو امیہ کو شروع سے لیکر آخر تک امیر المومنین ہونے اور کہلوانے کا اعزاز حاصل رہا۔ نیز جب امویوں کی ایک شاخ اسپین میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی تو کچھ عرصے کے بعد انکے سلاطین کو امیر المومنین اور خلفاء ہی کے لقب سے جانا جاتا تھا۔
جناب کو شعر و شاعری کا بڑہ شوق ہے تو عرض ے کہ ان علماء نے اگر مروان اور عبدالمالک کی حکومت کو عبداللہ بن زبیر رضہ کے ہوتے ہوئے صحیح کہا ہے تو مجھے دلیل دیں
جی شعر و شاعری سے بندے کو اتنا شغف نہیں ہے، بس انداز بیان میں تھوڑا وزن و حسن پیدا کرنے کے لئے کبھی کبھار اشعار وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں۔ ان علماء نے یقینا خلفائے بنی مروان کو حضرت عبداللہ بن زبیر رض سے زیادہ صحیح خلافت کا مستحق سمجھتے ہوئے ہی حدیث جابر بن سمرۃ رض کا مصداق ٹھہرایا ہے اور ان خلفاء کا اُن 12 خلفاء میں شمار کروایا ہے جن سے اسلام کی شان و شوکت بن آئی اور انکے عہد میں اسلام ترقی و نشونما پاتا رہا۔ ملا علی قاری رحمہ کا اسکین تو میں اوپر دے ہی چکا ہوں، ان میں زرا تلاش کرکے بتائے کہ 12 خلفاء کی لسٹ میں کیا حضرت عبداللہ بن زبیر رض کا نام شامل ہے یا نہیں؟؟؟ اگر شامل نہیں تو ملا علی قاری صاحب نے ان کا نام کیوں اس لسٹ سے خارج کیا ہے، کیا وجوہات تھیں وہاں پر؟؟؟
۔۔ ورنہ ان کی ظالمانہ شہادت کے بعد تو میں بھی کہتا ہوں عبدالمالک کا دور شروع ہوا ، جو اتنا اچھا نہیں تھا اس نے باپ کی وصیت کے خلاف کیا اور عمرو بن سعید کا قتل کیا ۔
عمرو بن سعید کا قتل، ایک سیاسی قتل تھا جو کسی مذہبی جذبے کے بغیر ہوا تھا۔ اور اسکا قتل کیوں ہوا تھا اس کی وجہ بھی سن لیجے
عمروبن سعید بنواُمیہ کے اندر ہردل عزیز اور بہت ذی عزت تھا، اس کے پاس حشم وخدم کی بھی کثرت تھی اور سرداری وافسری کی قابلیت بھی رکھتا تھا، مروان کے بعد جب عبدالملک تخت نشین ہوا توعمروبن سعید کے ساتھ اس نے ایسا سلوک کیا جس سے اس کے دل کا انقباض دور ہوگیا، اب جب کہ عبدالملک فوج لے کرقرقیسا کی جانب روانہ ہوا توعمروبن سعید نے اس سے راستے میں کہا کہ آپ اپنے بعد میرے لیے تختِ خلافت کی وصیت کردیں، مجھ کواپنا ولی عہد مقرر فرمائیں، اس قسم کے وعدے عمروبن سعید کے ساتھ شروع ہی میں کرلیے گئے تھے، وہ صرف ان کا باقاعدہ اعلان چاہتا تھا، عبدالملک نے عمروبن سعید کی خواہش کے پورا کرنے سے صاف انکار کیا، عمروبن سعید کواس سے دل گرفتگی ہوئی، وہ راستے ہی سے موقع پاکر دمشق کی جانب واپس چلا آیا اور یہاں آتے ہی عبدالرحمن کونکال دیا اور خود دمشق پرقابض ہوکر اپنی خلافت وحکومت کا اعلان کیا، لوگوں کوجمع کرکے خطبہ دیا اور وظائف مقرر کرنے اور بحسنِ سلوک پیش آنے کا وعدہ کیا۔عبدالملک نے عمرو بن سعید کو کیوں ولی عہدی کی لسٹ سے نکالا، اسکی وجہ یہ تھی ۔
مروان بن حکم کواس شرط پرتخت نشین کیا گیا تھا کہ اس کے بعد خالد بن یزید اور اس کے بعد عمروبن سعید تحت نشین ہوں گے، مروان نے بجائے ان دونوں کے اپنے بیٹوں عبدالملک وعبدالعزیز کوولی عہد بناکر خالد وعمر دونوں کوولی عہدی سے معزول کردیا تھا۔
ریفرنس :
http://webcache.googleusercontent.com/search?q=cache:XOh6XR5fIK4J:anwar-e-islam.org/node/9654+&cd=3&hl=en&ct=clnk&gl=pk#.Vo_2g7Z94sY
یعنی یہاں آپکی بات غلط ہے کہ عمرو بن سعید کو اپنے باپ کی وصیت کے خلاف اسکو ولی عہدی سے نکالا ۔ جناب عمرو بن سعید کو ولی عہدی سے عبدالملک نے نہیٰں بلکہ خود امیر مروان نے ہی نکالا تھا۔ اور عمرو کا قتل ایک سیاسی وجہ سے ہوا تھا کہ اس نے دمشق پر قبضہ کرکے اپنی خلافت و حکومت کا اعلان کرکے گویا عبدالملک سے بغاوت کی تھی۔ تو یہ تھی وجہ
سیدنا ابن زبیر رضہ کی نعش کی بے حرمتی کا حکم دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف کیا۔۔ بس اس کے بیٹے ولید کے دور میں ان کو عروج ملا۔آپ اسے سبائی سوچ قرار دے کر مظلوم بننے کی کوشش نہ کریں
اور حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے جو عین حرم شریف میں قتل و غارتگری مچائی تھی، اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رض اور محمد بن حنفیہ دونوں کو مکہ کی گھاٹی میں قید کردیا گیا تھا۔ ابن زبیر رض کو انکی جانب سے خطرات بڑھ گئے، انہوں نے ابن حنفیہ اور انکے ساتھ ابن عباس پر بھی دباؤ ڈالنا شروع کیا۔ لیکن یہ لوگ بیعت کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔
آخر میں انہیں اور انکے اہل خانہ کو مکہ کی گھاٹی میں بند کردیا گیا۔ ایک روایت ہے کہ ابن حنیفہ کو چاہ زمزم کی چار دیواری میں قید کرکے لکڑیوں کا انبار لگادیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ بیعت نہ کریں گے تو انہیں پھینک دیا جائے گا۔ مختار کے معصب بن زبیر کے خاتمہ کے بعد ابن زبیر نے پھر ابن حنفیہ سے بیعت کا مطالبہ شروع کیا اور اپنے بھائی عروہ کو انکے پاس بھیجا۔ انہوں نے جاکر ابن حنفیہ کو یہ پیغام دیا " اگر بیعت نہ کروگے تو میں پھر قید کردونگا۔ جس کذاب (مختار) کی امداد اور اعانت کا تم کو سہارا تھا اسکو خدا نے قتل کردیا ہے اور اب عرب و عراق کا میری خلافت پر اجماع ہوگیا ہے ۔ اب تم بھی میری بیعت کرلو ورنہ جنگ کے لئے تیار رہو"۔
ابن حنفیہ نے اس تہدیدی پیغام کا یہ جواب دیا کہ "تمہارے بھائی (ابن زبیر) قطع رحم اور انحقاف حق میں کتنے تیز اور خدا کی عفوت سے کتنے غافل ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ دنیا میں رہنا ہے ۔نیز حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے تو سیدنا عبداللہ بن عباس رض کے گھروں کو آگ لگانے کا بھی اعلان کیا تھا، دیکھئے تاریخ ابن خلدون، جلد دوئم ۔
اسکے علاوہ جب امیر یزید رحمہ اللہ حیات تھے اور واقعہ حرہ کے بعد امیر یزید نے مکہ کی بغاوت رفع کرنے کے لئے حضرت ابن زبیر رض کے سوتیلے بھائی عمرو بن زبیر کو انکو گرفتار کرنے بھیجا تو ان کی جماعت پریکایک حملہ ہو گیا وہ اپنے جس بھائی کو گرفتار کرنے آئے تھے انھوں نے ہی انھیں گرفتار کرالیا۔ گرفتاری کے وقت ان کے دوسرے بھائی عبیدہ بن الزبیر نے انھیں اپنی پناہ میں لے لیا تھا مگر عبدالله بن زبیر نے قبول نہ کیا اور اپنے ان سوتیلے بھائی عمرو بن زبیر کو قید کر دیا۔ متعدد روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ سخت سے سخت اذیتیں ان کو دی گئیں۔ نہایت بے رحمی کے ساتھ کوڑوں سے مار پیٹ کی گئی بالآخر اسی ذود کوب میں ان کی جان نکل گئی (الانساب الاشرف بلاذری، ج۴، ص۲۶) پھر حضرت عبدالله بن زبیر نے حکم دیا کہ لاش کو سولی دی جائے نا
مریہ عبدالله فکان ذالک اول مانعمة الناس (انساب الاشراف، ج۸، ص۳۸) پھر طائف میں امیر المومنین یزید رحمہ اللہ کے وفادار سعد مولی عتبہ بن ابو سفیان نے ان کے لوگوں کی مقاومت کی تھی پچاس آدمیوں کے ساتھ قلعہ بند ہو گئے تھے۔ مگر ابن زبیر نے ان سب کو پکڑ والیا اور حرم میں لا کر ان کی گردنیں مار دیں (
وضرب اعناقھم فی الحرم۔ بلاذری ج۴، ص۲۰)
حضرت عبدالله بن عباس کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی فرمایا:
حضرت ابن عباس نے فرمایا، اگر میں اپنے والد کے قاتل کو بھی حرم کے اندر پا جاتا تو اس کو وہاں قتل نہ کرتا۔
قال ابن عباس لو لقیت قاتل ابی بالحرم ماقتلتہ۔
(ص۳۰، ج انساب الاشرف)
حضرت عبدالله بن عمر نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ جب حرم میں انھوں نے خونریزی کی ہے تو وہ بھی ایک دن وہیں قتل ہوں گے۔
اب بتائیے مجھے کہ کیا حرم میں قتل و غارتگری کرنا حضرت عبداللہ بن زبیر رض کے لئے مباح ہوگیا؟
یہی میں کہتا ہوں کہ حجاج کا ظلم اگر داستیانیں ہیں تو یہ داستانی مجھ ناچیز سے بڑے بڑے بیان کرتے آئے ہیں لیکن یزید کے مقابلے میںاس کے خلاف صحیح روایات موجود ہیں۔جو مناسب موقع پر پیش کروں گا ۔۔
جیسے ابن کثیر 73 ہجری شروع کرتے وقت لکھتے ہیں
ثم دخلت سنة ثلاث وسبعين
فِيهَا كَانَ مَقْتَلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُعَنْهُ عَلَى يَدَيِ الْحَجَّاجِ بْنِ يُوسُفَ الثَّقَفِيِّ الْمُبِيرِقَبَّحَهُ اللَّهُ وَأَخْزَاهُ
اس سال حضرت ابن زبیر رضہ ظالم حجاج کے ہاتھوں قتل ہوئے اللہ اس کا بھلا نہ کرے اور اسے زلیل کرے۔۔
پھر لکھتے ہیں
ثم سقط إلى الأرض فأسرعوا إليه فقتلوه (1) رضي الله عنه، وجاؤوا إِلَى الْحَجَّاجِ فَأَخْبَرُوهُ فَخَرَّ سَاجِدًا قَبَّحَهُ اللَّهُ
پھر اپ زمین ہر گر پڑے اور انہوں اپ کو قتل کردیا رضی اللہ عنہ اور حجاج کو اس کی خبر دی تو سجدہ میں گر پڑا اللہ اس کا بھلا نہ کرے
یہ جو حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالاجات آپ نے نقل کئے ہیں، کیا آپ کو یقین ہیں کہ یہ ابن کثیر کے ہی لکھے ہوئے ہیں، کسی بعد والے نے ان پر کچھ تصرف نہیں کیا ہوگا؟ ایک پچھلی تھریڈ "واقعہ حواب والی میں" پوسٹ نمبر 178 میں امیر یزید کے متعلق آپ نے ابن کثیر رحمہ اللہ کے متعلق کچھ ایسے ہی شبہات کا اعتراف کیا تھا۔
۔کیا آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ حافظ ابن کثیر کی تاریخ میں کچھ حرکات بعد میں کی گئی ہیں یا پھر خود حافظ ابن کثیر ہی پہلے جو لکھ آتے ہیں آگلے کچھ صفحوں پر اسی کا رد کردیتے ہیں مطلب ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک جگہ خود ہی ایک بات کہ کر آئے ہوں پھر آگے چل کر خود ہی اس کا انکار کردیں مثالیں تو بہت ہیں لیکن کچھ عرض خدمت ہیں۔۔ الخ
لنک:
http://forum.mohaddis.com/threads/%D8%B1%D9%88%D8%A7%DB%8C%D8%A7%D8%AA-%D8%AD%D9%8E%D9%88%D9%92%D8%A3%D9%8E%D8%A8%D9%90-%DA%A9%DB%92-%DA%A9%D8%AA%DB%92-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%84%D9%85%D9%88%D9%85%D9%86%DB%8C%D9%86-%D8%AD%D8%B6%D8%B1%D8%AA-%D8%B9%D8%A7%D8%A6%D8%B4%DB%81-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81%D8%A7-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D8%AD%D9%82%DB%8C%D9%82%DB%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%D8%B2%DB%81.26240/page-18
اور ویسے بھی ابن کثیر رحمہ اللہ کی یہ عادت تھی کہ وہ جو بات کسی پرانی تاریخی کتب سے نقل کرتے، وہ بلا کسی نقد وجرح کے اپنی تاریخ میں بھی نقل کردیتے۔ انکی کی ہی کتاب البدایہ سے یہ اقتباس مشہور ہے
”وللشیعة والرافضة فی صفة مصرع الحسین کذب کثیر، واخبار باطلة، وفیما ذکرنا کفایة، وفی بعض ما اوردناہ نظر لولا ابن جریر وغیرہ من الحفاظ والائمة ذکروہ ما سقتُہ، واکثرہ من روایة ابی مخنف لوط بن یحییٰ، وقد کان شیعاً وھو ضعیف الحدیث عند الائمة، لکنہ اخباری حافظ، عندہ من ھذہ الاشیاء ما لیس عند غیرہ، ولھذا یترامی علیہ کثیر من المصنفین فی ھذا الشأن “․(البدایة والنھایة : 209/8)
ترجمہ :شیعوں اور رافضیوں کی شہادت حسین سے متعلق بہت ساری دروغ گوئیاں اور بے بنیاد خبریں ہیں ، ہم نے جو ذکر کیا اس میں کفایت ہے اور ہماری ذکر کردہ بعض چیزیں قابلِ اشکال ہیں، اگر ابن جریر طبری وغیرہ جیسے ائمہ اور حفاظ اسے ذکر نہ کرتے تو ہم بھی ان روایات کو نہ لاتے اور یہ اکثر ابو مخنف کی روایتیں ہیں، جو یقیناً شیعہ ہے اور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے ،لیکن اخباری(صحافی) اور حافظ ہے اور اس کے پاس اس حوالے سے ایسی چیز یں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں،لہذا بعد کے اکثر مصنفین نے ان روایات کے بارے میں ابو مخنف سے نقل پر اکتفا کیا ہے۔
پہلے جناب بڑے بڑے آئمہ جنہوں نے حجاج کے ظلم سے امت کو اگاہ گیا ان کو اور حافظ ابن کثیر ار شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کو سبائی قرار دیں پھر ہماری باری۔۔۔۔۔
جناب عالی میں آپ کو سبائی نہیں کہا۔ بلکہ آپ کی تحریر میں جھلکتی اس سوچ کوسبائی جیسا کہا تھا جسکے مطابق آپ کو ہماری عظیم تاریخ اسلامی کا دور بھی تباہ کن اور فتنہ پرور دکھائی دیتا ہے جو سب سے کامیاب دور خلافت راشدہ کے بعد مانا جاتا ہے، یعنی اموی دور۔ اس دور پر کڑھتے اور جلتے تو صرف سبائی رافضی ہی ہیں یا ان سے متاثر لوگ۔ اللہ نہ کرے کہ میں آپکو "سبائی " کہہ کر مخاطب کروں، میں تو بس اُس سوچ کے بارے میں کہہ رہا تھا جو سبائی طرز فکر کے سبب خیر القرون کے زمانے کو شر القرون بنانے پر تلی ہوتی ہے۔ اور جہاں تک امیر حجاج کے مبینہ ظلم و ستم کی بات ہے، تو میں اس کا حال احوال اچھی طرح اپنی پچھلی پوسٹوں میں بتا چکا ہوں۔
۔اور ہاں ہم نے کہیں پر بھی آپ پر ناصبیت کا لیبل نہیں لگایا حالانکہ آپ بنو امیہ مروانیون کے مظالم کے حمایت پر کمر بستہ ہیں– اس لئے آپ کو یہ حق نہیں آپ ہماری بات کو سبائیت کہ کر ہم پر سبائیت کا لیبل لگادیں
جی آپ بے شک مجھ پر ناصبی ہونے کا الزام عائد کرسکتے ہیں۔ آپ کو اسکی کھلی اجازت ہے۔ اگر چند حقائق پیش کرکے صدیوں پرانے اس سبائی و عباسی پروپیگنڈے اور امویوں کو بدنام کرنے کے افسانے کا پردہ چاک کرنے پر مجھے یہ لقب بھی خطاب کردیا جائے تو واللہ مجھے کوئی دکھ اور افسوس نہیں ہوگا۔ کیونکہ میں ہمیشہ سچ بولتا ہوں اور وہی بات کرتا ہوں جو حقیقی ہو، خوابوںکی دنیا میں رہنا مجھے پسند نہیں۔ اور نہ ہی میری فطرت ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہوں۔ افسوس ہم سب لوگوں پر جامد تقلید کا پٹہ پڑا ہوا ہے اور جو صدیوں پرانے لوگ اپنے کسی مذہبی اور تعصبی رجحان کی سبب کچھ لکھ گئے، ہماری آنکھیں اس دائرے سے باہر دیکھنے کی عادی ہی نہیں رہیں۔ بس کسی مورخ یا محدث نے کچھ لکھ دیا اور وہ پتھر کی لکیر ہوکر جیسے لوح محفوظ پر ثبت ہوگیا، بس اس اگے کسی نے نہ تحقیق کرنی ہے اور نہ ہی کوئی زاویہ دیکھنا ہے، لکیر کا فقیر بنے ان ہی گھسی پٹی باتوں کو پیٹتے رہنا ہے۔
میری بنو امیہ سے کوئی دشمنی نہیں ہے امیر المومنین عثمان رضہ امیر المومنین معاویہ رضہ اور یزید بنو امیہ سے ہیں ان کے بارے میں میرہ موقف آپ پڑھ لیں اور ہاں مروان اور عبدالمالک سے بھی میری کوئی دشمنی نہیں لیکن یہ کسی ھی عبداللہ بن زبیر رضہ کے مقابلے میں صحیح نہیں تھے میرہ یہ موقف ہے۔
آپ کی مروان اور عبدالملک وغیرھم سے دشمنی نہیں ہے، اچھی بات ہے، لیکن آپ کو بھی حقائق پر نظر رکھنا ہوگی۔ تاریخ کا عمل ایک سیدھا سادھا عمل نہیں ہے، اسکو سمجھنے کے لئے بہت سے عوامل و شواہد کو سمجھنا پڑتا ہے۔ آپ کی باتوں سے معاف کیجئے گا ایسا ہی کچھ اندازہ ہورہا ہے کہ آپ بھی شیعہ حضرات کی طرح بنوامیہ کو مجسم شیطان سمجھتے ہیں، بے شک سیدنا عثمان، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنھم اور امیر یزید کے لئے آپ کے جذبات ایسے نہیں ہیں، لیکن باقی بنومروان کو تو آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رض بے شک ایک عظیم ہستی تھے۔ لیکن سیاسی سمجھ بوجھ ان میں ہرگز نہیں ہے۔ میں یہ بات اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ شاہ معین الدین ندوی رحمہ اللہ کے الفاظ یہاں نقل کررہا ہوں جو انہوں نے اپنی تالیف "تاریخ اسلام" ج 2 ص 59 – 66 پر لکھے ہیں۔ میں شاہ صاحب کے الفاظ ہی یہاں نقل کردیتا ہوں کہ کہیں مبادا مجھے ہی آپ گستاخ صحابہ ہی ثابت نہیں کردیں۔
ابن زبیر کی ایک سیاسی غلطی:
یزید کی موت کے بعد خاندان بنی امیہ میں کوئی ایسا عالی دماغ اور حوصلہ مند نہ رہ گیا تھا جو ان مخالف حالات میں حکومت سنبھال سکتا۔ جو دو چار افراد تھے وہ مختلف مقامات پر منتشر تھے۔ مروان اور عبدالملک وغیرہ حصین بن نمیر کے ساتھ مدینہ ہی میں تھے۔ ان میں اس وقت کوئی ہمت و حوصلہ نہ تھا۔ ان حالات میں حصین بن نمیر نے عبداللہ بن زبیر رض سے لڑنا مناسب نہ سمجھا اور ان سے صلح کرلی اور کہا اب بنی امیہ کا معاملہ کمزور پڑچکا ہے، آپ سے زیادہ مجھے کوئی خلافت کا اہل نظر نہیں آتا، میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ شام کے تمام عمائد میرے ہمراہ ہیں۔ آپ میرے ساتھ شام چلیئے وہاں ایک شخص بھی آپ کی مخالفت کرنے والا نہیں ہے۔ ابن زبیر رض شجاع و بہادر تھے، لیکن موقع شناس نہیں تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب تک ایک ایک حجازی کے بدلے دس دس شامیوں کا سر قلم نہ کرلوں گا۔ اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ جواب سن کر حصین بولا جو شخص آپکو عرب کا مدبر کہتا ہے، وہ غلطی پر ہے۔ میں آپ سے راز کی بات کرتا ہوں آپ چلا کر اسکا جواب دیتے ہیں۔ میں خلافت دلانا چاہتا ہوں اور آپ جنگ و خونریزی پر آمادہ ہیں۔ آخر ابن زبیر رض اس پر راضی ہوگئے کہ مکہ ہی میں انکی بیعت کی جائے ، وہ شام نہ جائیں۔ لیکن حصین بن نمیر نے کہا یہاں بیعت بیکار ہے، شام میں چند بنی امیہ موجود ہیں ۔ انکی موجودگی میں بغیر آپ کے گئے کچھ نہیں ہوسکتا۔ ابن زبیر رض اس پر راضی نہ ہوئے اور حصین مایوس ہوکر شام لوٹ گیا۔ (مستدرک حاکم ج 3 تذکرہ ابن زبیر و ابن اثیر ج 3 ص 49) اسطرح ابن زبیر رض نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے ایک بہترین موقع کھو دیا، اگر انہوں نے ابن نمیر کے مشورہ پر عمل کیا ہوتا تو آج بنی امیہ کی تاریخ کا کہیں وجود نہ ہوتا۔
چند صفحہ چل کرشاہ صاحب آگے لکھتے ہیں
ابن زبیر رض کی ایک سیاسی غلطی اور اسکا نتیجہ: اس وقت کل دنیائے اسلام میں ابن زبیر رض کی خلافت مسلم ہوگئی تھی کہ عین اس وقت انہوں نے ایک فاش غلطی کردی کہ بنی امیہ کی اکھڑی ہوئی حکومت پھر قائم ہوگئی۔
یاد ہوگا کہ انہوں نے مکہ اور مدینہ سے بنی امیہ کو نکلوادیا تھا، لیکن واقعہ حرہ کے بعد یہ لوگ پھر لوٹ کر آئے تھے۔ یزید کی موت کے بعد ان کی ہمت اتنی پست ہوگئی تھی کہ مروان بن حکم اموی تک جو مدینہ کا حاکم تھا، ابن زبیر رض کے ہاتھوں بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہوگیا تھا۔ (ابن اثیر) لیکن ابن زبیر رض کو بنی امیہ سے اتنی نفرت تھی کہ انہوں نے انجام کو سوچے سمجھے بغیر کُل بنوامیہ کو جن میں مروان اور اسکا لڑکا عبدالملک بھی تھا مدینہ سے نکلوادیا۔ اس وقت عبدالملک چیچک میں مبتلا تھا اس لئے مروان کا مدینہ چھوڑنا مشکل تھا۔ لیکن ابن زبیر رض نے اسے ایک لمحہ کے لئے بھی ٹکنے نہ دیا اور مروان کو اسی حالت میں عبدالملک کو لے کر نکلنا پڑا۔ بعد میں ابن زبیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اس کی تلاش میں آدمی دوڑائے لیکن وہ نکل چکے تھے ۔ (ابو الفدا ج اول ص 192) ۔ ا س واقعے نے ابن زبیر رض اور بنی امیہ دونوں کی تاریخ کا رخ بدل دیا، اگر اس وقت بنی امیہ کو ابن زبیر رض نے روک لیا ہوتا تو پھر انکا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ (تاریخ اسلام، شاہ معین الدین ندوی، ج 2 صفحہ 59، 66)
تو آپ نے دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے سیاسی میدان میں کتنی غلطیاں کی۔ ہوسکتا ہے عبدالملک جو ابن زبیر رض کا سخت مخالف بن گیا تھا، وہ اسی واقعے کا نتیجہ ہو جب اسکو اسکے والد سمیت بیماری کے حالت میں ابن زبیر رض نے مدینہ سے نکال دیا ہو۔ کیونکہ آج سے ہزار سال پہلے چیچک کی بیماری ایک خطرناک بیماری سمجھی جاتی تھی اور اس میں لوگ یقینا موت کا بھی آسانی سے شکارہوجاتے تھے۔ اتنا بڑا ریفرنس میں نے صرف آپکو سمجھانے کے لئے لکھا ہے، ورنہ میں کوئی سیدنا عبداللہ بن زبیر رض سے کوئی دلی بغض نہیں رکھتا۔ صرف آپکو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے یہ سب کچھ تحریر کیا ہے۔ آپ اگر کہیں گے تو میں ان سب ریفرنس کا اسکین پیج بھی یہاں لگا سکتا ہوں۔
۔ اور یہاں حجاج کی بات چل رہی ہے جو بنو امیہ کا نہیں بنو ثقیف کا تھا ۔۔اس لئے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش نہ کریں کہ میں بنو امیہ کا دشمن ہون بلکہ میں حجاج کو ظالم اور مبیر والی حدیث کا مصداق مانتا ہوں جبکہ آپ اسے رحمہ اللہ اور عبداللہ بن زبیر رضہ کے قتل سے اس کی جان چھڑانے کی کوشش میں ہین۔
حضرت ،امیر حجاج کس کے گورنر تھے؟ بنوامیہ کے نا۔ تو انکی ساری کاروائی کس کے کھاتے میں جائے گی۔ یقینا بنو امیہ یا بنو مروان کے۔ اس لئے آگر آپ حجاج کو کچھ برا ور شر تصور کرتے ہیں تو اسکا نتیجہ کو ئی بھی شخص دو جمع دو چار کے اصول کے تحت یہی سمجھ سکتا ہے کہ چونکہ امیر حجاج بنوامیہ کی گورنمنٹ کا ایک اہم کل پرزہ تھے، اور گورنمنٹ کا کوئی آدمی بغیر اپنے حکام کی منظوری کے کوئی عمل بذات خود نہیں کرتا۔ اس لئے آپ کے حجاج کو برا بھلا کہنا دراصل سیدھا بنی امیہ کو ہی طعن کرنا مترادف ہوگا۔ اگر حدیث مبیر ہی کی بات کریں تو مجھے صرف اتنا بتادیجئے کہ کیا رسول اکرم ﷺ نے اس حدیث میں صاف حجاج کا نام لیکر اسکو ظالم و مبیر کہا تھا؟ اگر کہا تھا تو ذرا وہ حدیث یہاں لگائیے اور نہیں کہا تھا تو آپ کو یہ یقین کامل کیسے حاصل ہوگیا؟ حضرت اسماء کی بات ایک طرف رہنے دیجئے۔ صرف اتنا مجھے بتائیے کہ کیا حدیث مبیر میں صاف صاف الفاظ میں حجاج کا نام ، حضور اکرم ﷺ سے ثابت ہے؟؟
اور عرض ہے کہ حجاج مبیر کے مکہ پر چڑہائی اور ظلم و بربریت کے وقت سیدنا ابن عباس رضہ کی وفات ہوچکی تھی ورنہ اس کے ظلم دیکھ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابن عباس رضہ چپ رہیں جو سیدنا علی رضہ جیسے آدمی کے سامنے چپ نہیں رہے جب ان کی فوجیوں نے لوگون کو جلا دیا۔تو حجاج کے مظالم کیسے برداشت کرتے۔ اور سیدنا زین العابدین مدینہ میں مقیم تھے جو واقعہ کربلا کے بعد بلکل گوشہ نشین ہوچکے تھے۔
جناب دیگر ہاشمی بزرگوں یعنی حضرت علی (زین العابدین) حضرت محمد بن علی (ابن الحنفیہ )حضرت عبدالله بن عباس نے یہ الٹی بات کیوں کی کہ ابن الزبیر کا ساتھ نہ دیا مختار ثقفی کی تحریک سے تبرا کیا۔ امیر المومنین مروان امیرالمومنین عبدالملک کی بیعت میں داخل ہو گئے۔سیدنا ابن عباس اگرچہ امیرالمومنین عبدالملک کی بیعت مکمل ہونے سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے یکن آپ جائز خلیفہ انہی کو سمجھتے تھے اسی لیے ابن الزبیر سے بیعت نہیں کی۔
رہی بات سیدنا عبداللہ بن زبیر رضہ کے بیٹوں کی تو ان میں ایک خبیب بھی تھے جو حجاج سے جا ملے تھے اسی پر اپ رضہ کی کنیت ابو خبیب تھی ۔۔ اس خبیب کے ساتھ جو حال و حشر بنو امیہ نے کیا وہ آپ تاریخ میں پڑہیں اسی ظلم نے عمر بن عبدالعزیز کو عمر ثانی بننے پر مجبور کردیا۔۔۔
جی کیا آپکو پتہ بھی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیر رض کے بیٹے کو کس نے کوڑے لگوائے اور قتل کیا اور کس کے سلوک کی وجہ سے خبیب بن عبداللہ بن زبیر مارے گئے، آئیے یہ بھی آپکو بتاتا چلوں
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے دور میں ایک ناخوش گوار واقعہ بھی پیش آیا۔آپ نے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے بیٹے خبیب کو خلیفہ کے کہنے پر کوڑے لگوائے اور سردی میں کھڑا کر دیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی ۔اس حادثے نے آپ کی طبیعت پر گہرا اثر ڈالا۔ جو آپ کی تعریف کرتا، اسے کہتے: مجھے خبیب کے قتل کی سزا سے کون بچائے گا
لنک ریفرنس :
http://www.al-mawrid.org/index.php/articles_urdu/view/umar-bin-abdul-aziz
جی اب کیا خیال ہے؟ اور یہاں آپ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز کا نام صاف صاف چھپاتے ہوئے صرف "بنوامیہ" لکھ دیا؟ کیا آپکو معلوم نہ تھا کہ خبیب کو مروانے والے یہی حضرت عمر بن العزیز تھے، ہمیشہ آپ بھی آدھی بات بتاتے ہیں اور آدھی بات چھپاتے ہیں۔ جب کوئی بات لکھا کریں تو پوری بات لکھا کریں تاکہ سچائی کھل کرسامنے آئے۔ اب حجاج پر تو الزام لگ گیا کہ وہ حضرت ابن زبیر رض کا قاتل ہے، تو اسی طرح کیا آپ ابن زبیر کے بیٹے کا قاتل بھی حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مانتے ہو؟؟؟؟
مطلب یہ ہے کہ اگر ان محدیثین کو مختار کے متعلق تسامع نہیں ہوا تو انہیں محدیثین کو حجاج کے متعلق تسامع کیسے ہوگیا ۔۔ یہیں آپ سے کہنا چاہتا ہون۔۔ جو آپ نے بلا جھجک ابن تیمیہ کو تسامع ہونا کہ دیا وجہ کیا بنی۔
دیکھیں مختار کے بارے میں جو بات آپ کہتے ہیں وہی میں کہتاہوں لیکن یہ بات مین اس لئے کی کہ آپ ابن تیمیہ کی آدہی تشریع کو تو قبول کرتے ہیں لیکن آدہی کو ابن تیمیہ کا تسامع کہ کر جان چھڑانے کے چکر میں تھے اس لئے میں نے کہا آپ پہلی تشریع مانتے ہیں میں پہلی نہیں مانتا یعنی ابن تیمیہ کو پہلی میں بھی تسامع ہوا ہے یہ صرف آپ کو الزامی جواب دیا تھا
جناب میں نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے لئے تسامح کا شکار ہونے کے الفاظ اس لئے ادا کیئے تھے کیونکہ انہوں نے حجاج کے لئے ناصبی وغیرہ کے الفاظ ادا کئیے تھے۔ حالانکہ امیر حجاج کے طرز عمل سے ایسا کچھ نہیں ثابت ہوتا کہ وہ سیدنا علی رض یا انکی اولاد کے دشمن ہوں۔ جن ابن حنیفہ رحمہ اللہ نے عبدالملک کے ہاتھ پر بذریعہ امیر حجاج بیعت کرنا چاہی تو عبدالملک رحمہ اللہ نے حجاج کو انکی تعظیم و حق شناسی کی تعظیم کی، جسکو امیر حجاج نے پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انکی بیعت عبدالملک مکمل کی اور حضرت آبو حنفیہ کا پورا پورا احترام کیا۔ نیز جب حضرت ابن حنفیہ نے حجاج کی ماتحتی سےا پنے آپ کو مستثنیٰ قرار دینے کی درخواست کی ، تو وہ بھی عبدالملک نے پوری کی اور امیر حجاج نے بغیر چوں چراں کئیے اپنے خلیفہ کی بات کو تسلیم کیا۔ اب بتائیے مجھے کہ میں اس بات سے کیا نتیجہ نکالوں؟ کیا میں یہاں ابن تیمیہ کے یہ الفاظ "تسامح" نہ سمجھوں؟ کیا یہاں ابن تیمیہ رحمہ اللہ تسامح نہیں ہوا کہ ایک ایسے شخص کو وہ ناصبی کہہ رہے ہیں جو اولاد علی کا پورا پورا احترام کررہا ہے۔ اس لئے یہ میرا یہاں موقف ہے۔ زیل کا تاریخ ابن خلدون کا اسکین دیکھئے
اور آپ نے ابھی ابھی میری روایت جس میں حجاج خوشیاں منانے کا زکر ہے اس کو آپ نے عقد الفرید کی روایت کہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی ہے میں اس پر آپ کو اللہ نے چاہا توجواب دوں گا
جی جی ضرور، میں بھی اللہ کی توفیق سے آپ کی بات کا جواب دینے کی کوشش کرونگا۔ سردست تو اتنا بتادیجئے کہ یہ عقدالفرید کی روایت صحیح ہے، موضوع ہے یا اسکا اسنادی درجہ کیا ہے، نیز اسکے راوی کون کون ہیں۔
لیکن فی الحال صحیح مسلم کی حدیث کو ہی لی لیں
بھائی میں اس صحیح مسلم کی حدیث کے بارے میں کافی کچھ باتیں عرض کرچکا ہوں، اسلئے یہاں انکا دوہرا سراسر وقت کا ضیاع اور خوامخواہ بات کو بڑھانا ہوگا۔ اس کے لئے میرا موقف جاننے کے لئے اوپر کی چند میری پوسٹوں کا دوبارہ سے مطالعہ کرلیں۔
صحیح مسلم کی یہ حدیث ہی حجاج کے شر و لعنتی ہونے کے لئے کافی ہے اس حدیث میں کافی باتیں جو یہ ہیں
آپ بھی صرف ایک حدیث پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، اور تمام تاریخی واقعات و حقائق سے آپ منہ چُرا رہے ہیں۔
دوم ::رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ، خلیفہ حق اور سیدہ ام المومنین عائشہ رضہ کے محبوب بھتیجے اور حواری رسول کے بیٹے کی نعش کے ساتھ بقول امام نووی خارجیوں نے جو سلوک کیا وہ شاید کسی یہودی سے بھی نہیں کیا جانا چاہئے ۔صرف خارجی ہی ایسا کام کر سکتے ہیں-
یاد رہے اس کا حکم حجاج کو عبدالمالک نے دیا تھا جو آپ کا محبوب خلیفہ ہے۔
اسکا جواب میں اوپر دے چکا ہوں، شاہ معین الدین ندوی رحمہ اللہ کے حوالے سے۔
سوم :::سیدنا عبداللہ بن عمر رضہ نے ابن زبیر رضہ کو نہ صرف سلام کیا بلکہ آپ رضہ تعریف کی ۔جس کی وجہ سے حجاج کو خطرہ ہوا کہ لوگ ابن عمر رضہ کی اس بات سے مخالفت نہ ہوجائیں تو اس نے نعش ہٹوا دی۔۔۔
لیکن انہی عبداللہ بن عمر رض نے خلیفہ عبدالملک کی بیعت کی اور اسی امیر حجاج کے ہاتھوں بیعت کی، جسکو آپ سیدنا عبداللہ بن زبیر کا قاتل وغیرہ گردانتے ہیں۔
چہارم ::ایک صحابیہ سیدہ اسماء بنت صدیق اکبر رضہ کی شان میں گستاخی کی بلکہ سخت گستاخی ۔ یہ وہ اسماء ہیں جو ہجرت کے موقع پر حضور علیہ السلام اور صدیق اکبر رضہ کو کھانا پھنچاتی تھی ۔اسی دوران آپ علیہ السلام نے انہیں زات النطاقین کا لقب دیا تھا جو ان کے لئے شرف تھا۔۔ انہیں کو حجاج کہتا ہے """صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں"حجاج نے پھر بلا بھیجا اور کہا کہ تم آتی ہو تو آؤ ورنہ میںایسے شخص کو بھیجوں گا جو تمہارا چونڈا پکڑ کر گھسیٹ کر لائے گا""""""
اور یہیں بس نہیں سیدنا ابن زبیر رضہ کو طعنے دیتا ہے کہ تو ذات النطاقين کا بیٹا ہے۔۔
یہاں میں آپکی حمایت کرتا ہوں۔ کر اگر امیر حجاج نے واقعی ایسا کہا ہے بالکل غلط کہا ہے۔ اس معاملے میں وہ بالکل ہی غلط تھے اور ان کو ہرگز سیدہ صاحبہ کی بے عزتی و گستاخی نہیں کرنا چاہئے تھی۔ میں یہاں کھل کر امیر حجاج کی اس معاملے میں مذمت کرتا ہوں۔ لیکن صرف اسی معاملے کو لیکر امیر حجاج کے دیگر حسنات کو ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
یہیں پر اس کا جی نہیں بھرا تو سیدنا ابن زبیر رضہ کو اللہ کا دشمن کہتا ہے ۔۔ اللہ کی پناھ کیا حجاج اللہ عبدالمالک کو سمجھتا تھا۔۔اللہ کی پناھ اللہ کی پناھ۔۔ اللہ تعالی ایسے لوگون پر لعنت کرے
اس واقعے کی سند اور یہ کس کتاب میں لکھا ہوا ہے؟ اگر امیر حجاج نے ایسا واقعی کہا ہے تو میرے خیال سے اسکی وجہ وہ سیاسی گرم ماحول ہوگا جو خلافت ابن زبیر رض اور عبدالملک کے زمانے میں پیش آیا ہوگا۔
اس کے علاوہ اس شخص نے سیدنا ابن عمر رضہ کو زخمی کروایا جس ان کی وفات ہوئی ، امام شافعی نقل کرتے ہیں کہ آپ رضہ یعنی ابن عمر رضہ حجاج کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے تھے
لیکن بھائی جان آپکے اوپر بیان کردہ واقعہ کے برعکس، امیر حجاج تو عبداللہ بن عمر رض سے فقہی مسائل پوچھا کرتے تھے اور اسکے مطابق عمل کیا کرتے تھے۔ یہ دیکھئے مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث:
وعن ابن شهاب قال : أخبرني سالم أن الحجاج بن يوسف عام نزل بابن الزبير سأل عبد الله : كيف نصنع في الموقف يوم عرفة ؟ فقال سالم إن كنت تريد السنة فهجر بالصلاة يوم عرفة فقال عبد الله بن عمر : صدق إنهم كانوا يجمعون بين الظهر والعصر في السنة فقلت لسالم : أفعل ذلك رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ فقال سالم : وهل يتبعون في ذلك إلا سنته ؟ رواه البخاري (مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ عرفات اور مزدلفہ سے واپسی کا بیان ۔ حدیث 1162)
حضرت ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے حضرت سالم رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ حجاج ابن یوسف نے جس سال حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کیا اسی سال اس نے (مکہ آنے کے بعد) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہم عرفہ کے دن وقوف کے دوران کیا کریں۔ (یعنی عرفات میں اس دن ظہر، عصر کی نماز وقوف سے پہلے پڑھ لیں یا وقوف کے دوران اور یا وقوف کے بعد؟) اس کا جواب سالم نے دیا کہ" اگر تو سنت پر عمل کرنا چاہتا ہے تو عرفہ کے دن (ظہر و عصر کی نماز) سویرے پڑھ" (یہ جواب سن کر) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ سالم ٹھیک کہتے ہیں، کیونکہ صحابہ طریقہ سنت کو اختیار کرنے کے لئے ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے پوچھا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا؟ حضرت سالم نے فرمایا۔ ہم اس معاملہ میں (یعنی اس طرح نماز پڑھنے میں) صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے طریقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ (بخاری)
مشکوٰۃ کی حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ امیر حجاج اکثر مسائل میں صحابہ کے مشورہ کو اہمیت دیتے تھے اور انکا احترام بھی کیا کرتے تھے، ہاں بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ انہوں نے کچھ مسائل میں صحابہ سے اختلاف بھی کیا تھا، اور ایسا اختلاف شرعی نقطہ نظر سے جائز بھی تھا۔ نیز اوپر بیان کردہ حدیث کی رو سے صحابہ اور حجاج کے درمیان سیدنا عبداللہ بن زبیر رض کے قتل کے بعد فاصلے بڑھے نہیں تھے اور حجاج بدستور پہلے کی صحابہ کی محفلوں میں اٹھتے بیٹھتے رہتے تھے۔ اور نہ ہی صحابہ کرام نے حجاج کو حضرت ابن زبیر رض کے قتل میں ملوث ہونے کے بعد بھی اپنی محافل سے آؤٹ نہیں کیا تھا، اور اس سے پہلے جیسے مراسم قائم رکھے۔ حضرت ابن زبیر رض کی شہادت کےا س واقعہ کے بعدبھی اس سال عبدالملک بن مروان نے اس کو حاجیوں کا امیر مقرر کیا اور اسے حکم دیا کہ تمام افعال حج میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افعال و اقوال کی پیروی کرنا، ان سے حج کے مسائل پوچھتے رہنا اور کسی معاملہ میں ان کی مخالفت نہ کرنا، چنانچہ حجاج نے اس وقت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مذکورہ بالا مسئلہ بھی پوچھا۔اور ان کی رائے کے مطابق ہی حجاج نے مناسک حج ادا کروائے۔
اس شخص نے سیدنا ابن زبیر رضہ کو ملحد کہا ۔ امام الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن چار لوگون سے سیکھو ۔۔ ان چا ر میں ایک عبداللہ بن مسعود رضہ بھی تھے جن امیر المومنین عمر الفاروق رضہ نے کوفہ تعلیم قران کے لئے بھیجا تھا ۔۔۔ یہ شخص حجاج ان کی قرآت پر اعتراض کرتا ہے یہیں بس نہین کہتا ہے کہ ان کی قرآت ہذیل کے عشقیہ اشعار ہیں ۔۔ یہیں بس نہیں یہ شخص کہتا ہے کہ ابن مسعود رضہ منافق ہیں، یہین پر اس کا جی نہیں بھرتا تو کہتا ہے کہ اگر ابن مسعود کو پالیتا تو اس کی گردن اتار دیتا۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کی بھی مجھے سند و حوالہ چاہئے؟
اللہ کی پناھ ، جناب اعلی جاری و ساری رکھیں حجاج کی حمایت کہتے رہیں اسے رحمہ اللہ ، ہمیں آپ سے کیا گلا ہوسکتا ہے ۔لیکن ہم اسے آج بھی کل بھی اور قیامت تک حدیث مبیر کا مصداق ہی مانتے ہیں جس کا انکار آپ لاکھ کوششین کر کہ بھی نہیں کرسکتے۔
[/QUO
TE]
جی ضرور، میں ہر ممکن کوشش کرونگا کہ میری ذات سے اگر خیر القرون پر پڑے کچھ گندگی کے چھینٹے صاف ہوسکتے ہیں تو ضرور صاف ہوجائیں۔ امیر حجاج کو اولا "رحمہ اللہ" میں نے نہیں کہا تھا، یہ تو صاحب تھریڈ شاہ صاحب نے لکھا تھا۔ لیکن میں ان کے شروع کردہ اس تھریڈ سے پوری طرح متفق و حمایت میں ہوں ۔ اور میری کوشش یہاں پر یہی رہی ہے کہ امیر حجاج کی چند خدمات و کارناموں کا یہاں تذکرہ کیا جائے تاکہ انکی ذات سے جو غلط سلط باتیں منسوب ہوگئی ہیں انکو رفع کیا جائے۔ میں نے موضوع کی مناسبت سے یہاں بہت کچھ تحریر کیا ہے، لیکن آپ تو لگتا ہے اس موضوع کی مکمل مخالفت میں تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ صاحب پوسٹ کی پرزور یہاں پر اپیل تھی کہ جسکو حجاج کے ظلم و برائیاں گنوانی ہوں وہ علیحدہ سے ایک پوسٹ کھول لے، لیکن آپ جناب نے جوش میں شاہ صاحب کی یہ درخواست بھی قابل اعتنا نہ سمجھی۔ (ابتسامہ) خیر بالکل میری کوشش یہی ہوگی ان شاء اللہ کہ امیر حجاج کا دفاع ہر ممکن حد تک پورا کروں جتنی مجھ میں سمجھ بوجھ ہے ، کیونکہ آپ کے لئے ایک اسکین یہاں لگاتا ہوں جو عظیم سعودیہ کے گرینڈمفتی عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ صاحب نے ایک فتویٰ دیا تھا۔ اس فتویٰ کی روشنی میں ، میں نے امیر حجاج کا یہاں دفاع کیا ہے۔ امیر حجاج مرتے دم تک ایک مسلمان ہی رہے، بے شک ان سے کچھ گناہ بھی سرزد ہوئے ہوں، لیکن وہ پورے پورے اسلام پر کاربند رہے، اسکی رو سے وہ بالکل اس بات کے مستحق ہیں کہ انکے لئے ہم دعا خیر و مغفرت و ترحم کریں۔