ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ یہ تصور بھی غلط ہے کہ ”کوئی غیر مومن قرآن کو نہ چھوئے“ کیونکہ:
- قرآن مجید تو عام بازاروں میں دستیاب ہے۔ وہاں اسے اسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ غیر مومن کو قرآن نہ دینے کا کوئی قرینہ ضابطہ موجود نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی پابندی قابل عمل ہے۔ پھر عربی قرآن نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ ہر ایک (مومن، غیر مومن) کی دسترس میں ہے۔
- اگرہم غیر مومن کو مصحف قرآن نہیں دیں گے تو دین کی تبلیغ کیسے ہوگی؟ کیا ہر پڑھے لکھے غیر مومن کو ہم یہ پابند کریں گے کہ وہ دین اسلام کی بنیاد قرآن کو تو ہاتھ نہ لگائیں بلکہ قرآنی تعلیمات پر مبنی ”ہماری کتب“ کو پڑھ کر اسلام کو جانیں اور سیکھیں۔
- یہ بھی کہا جاتا ہے کہ غیر مومن کو مصحف قرآن تو نہ دیا جائے البتہ اس کا ترجمہ دیا جاسکتا ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن غیر مومنین کی زبان عربی ہے، انہیں کون سا ترجمہ دیا جائے۔ ایسے لاکھوں عیسائی موجود ہیں، جن کی مادری زبان عربی ہے۔
- شاہ فیصل مرحوم سے یہ بات منسوب ہے کہ کسی انگریز اسکالر (نام مجھے اس وقت یاد نہیں) نے ایک مرتبہ ان سے کہا کہ آپ لوگ کہتے ہو کہ قرآن ایک زندہ معجزہ ہے، جو اسے ایک بار پڑھ لے، اس کی زندگی بدل جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ (مفہوم بیان) لیکن میں نے تو قرآن کو بارہا پڑھا، مجھ پر تو کوئی اثر نہیں ہوا۔ شاہ فیصل نے پوچھا کہ آپ نے قرآن کو کیسے پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھا ہے۔ شاہ فیصل نے کہا کہ پھر آپ نے قرآن نہیں پڑھا۔ قرآن تو عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ اگر قرآن کے اعجاز کو دیکھنا ہے تو اسے عربی زبان میں پڑھ کر دیکھئے۔ کہتے ہیں کہ اس اسکالر نے دو سال کی مدت میں عربی سیکھی، پھر قرآن کو براہ راست پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
اصل میں ہم لوگ عملاً (معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ) کنویں کے مینڈک ہیں۔ اپنے گرد و پیش کے ماحول کے ”جُز“ کو ہی ”کُل“ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اسلام (یعنی کہ قرآن و سنت) ساری انسانیت کے لئے نازل ہوا ہے۔ ہم اسے عام لوگوں، مسلمان اور غیر مسلمان تک پہنچنے سے کیسے روک سکتے ہیں۔ ہمارا کام تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے نہ کہ ”خود ساختہ ضابطوں“ کے تحت اس کی ترسیل کی راہ میں روڑے اٹکانا۔ اگر کوئی غیر مسلم ہم سے ہمارا یہ فتویٰ سنے کہ ۔ ۔ ۔
غیر مسلم نجس اور ناپاک ہیں لہٰذا وہ مصحف قرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا وہ یہ سن کر ہنسے گا نہیں کہ قرآن تو عام بازار سے وہ جب چاہے خرید کر اسے ہاتھ لگا سکتا ہے، پڑھ سکتا ہے۔ پھر وہ ہماری یہ ”تحقیر آمیز“ بات سن کر کیا قرآن کا پیغام ہمارے منہ سے سننا پسند کرے گا؟ آج کے عہد میں قرآن پر اس قسم کی پابندی لگاکر ہم قرآن کی خدمت کریں گے یا کچھ اور۔ ذرا سوچئے۔