• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدث اصغر کی صورت میں مصحف قرآنی کو ہاتھ لگانے کا حکم

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
قرآن و حدیث میں یہ خاص جزئی دلیل موجود نہیں کہ بلاوضو قرآن چھونا جائز ہے البتہ عمومی دلائل موجود ہیں۔
عمومی دلائل ذکر کریں تاکہ بلاوضو قرآن چھونے کے قائلین کے موقف کا اندازہ ہوسکے کہ کتنا مضبوط ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
عمومی دلائل ذکر کریں تاکہ بلاوضو قرآن چھونے کے قائلین کے موقف کا اندازہ ہوسکے کہ کتنا مضبوط ہے۔
1)نبی ﷺ نے ہرقل کو خط لکھا تھا جس میں قرآنی آیت
يَاأَهْلَ الْـكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ
الآية

مرقوم تھی ۔
2) اسی طرح حدیث میں ہے کہ مومن ناپاک نہیں ہوتا: إن المؤمن لاينجس
3)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ بیت الخلا سے باہر آئے تو پوچھا گیا کہ کیا آپ کے لیے وضو کا پانی لایا جائے؟
تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے صرف نماز ہی کے لیے وضو کا حکم دیا گیا ہے:
إنما أمرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة۔(مسند احمد)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
طاہر بھائی پہلی دلیل کے بارے دو باتیں ہیں:

ایک یہ کہ یہ مصحف کے بارے نہیں ہے بلکہ ایسی چیز کے بارے ہے کہ جس میں کچھ قرآن موجود ہو جیسا کہ کسی ایسی کتاب کو ہاتھ لگانا کہ جس میں کچھ قرآن کی آیات کا ذکر ہو۔ تو ظاہری بات ہے کہ مصحف میں اور اس کتاب یا خط میں فرق ہے کہ جس میں کچھ قرآن منقول ہو۔ پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسی کتاب کو بلاوضو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں قرآن مجید کی کچھ آیات ہوں اور اس پر مصحف کے نام کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس دلیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافر اور مشرک کے لیے بھی یہ جائز ہے کہ وہ کسی ایسی کتاب کو ہاتھ لگائے کہ جس میں قرآن مجید کی آیات ہوں۔ اس میں سرے سے مصحف کی بات ہی نہیں ہے۔

دوسری دلیل غیر متعلق ہے کیونکہ حدث اور نجاست میں فرق ہے۔ محدث اور نجس میں فرق ہے۔ مومن محدث ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے لیکن نجس نہیں ہوتا ہے یعنی اس کا جسم، پسینہ، لعاب وغیرہ حالت حدث یا غیر حدث، حالت جنابت یا غیر جنابت، حدث اصغر یا حدث اکبر میں پاک رہتا ہے۔ حالت جنابت میں مومن پاک ہے یعنی نجس نہیں ہے لیکن اسے حدث اکبر لاحق ہے جس کی وہ سے اس کے لیے مس مصحف بلکہ مصحف کی تلاوت بھی حرام ہے۔ اگر آپ کے نزدیک حدث اکبر یعنی جنابت میں مس مصحف جائز ہے تو پھر یہ دلیل متعلق ہو سکتی ہے۔

تیسری دلیل کے بارے عرض یہ ہے کہ مکمل روایت یوں ہے:
وعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْخَلاَءِ فَقُرِّبَ إِلَيْهِ طَعَامٌ فَقَالُوا أَلا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ قَالَ إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلاةِ . رواه الترمذي ( الأطعمة/1770)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے تو کھانا آپ کے نزدیک کیا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے لیے وضو کا پانی نہ لے آئیں۔ تو آپ نے کہا: مجھے صرف نماز کے لیے وضو کا حکم دیا گیا ہے۔

اس روایت میں جس چیز کے لیے وضو نہ ہونے کا ذکر ہے تو وہ کھانا ہے۔ باقی رہی بات حصر کی تو یہ اسلوب حصر کتاب وسنت میں بیسیوں مقامات پر ہے لیکن مراد نہیں ہے۔ اس بارے الاتقان میں کلمہ حصر انما کے معنی حصر کے بارے امام سیوطی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ ابحاث کا مطالعہ مفید ہو سکتا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
1)نبی ﷺ نے ہرقل کو خط لکھا تھا جس میں قرآنی آیت
يَاأَهْلَ الْـكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ
الآية

مرقوم تھی ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

محترم ابوالحسن علوی بھائی نے آپکو تمام باتوں کے علمی جوابات دے دئے ہیں بس میں اس میں تھوڑا سا یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اس روایت سے آپ مصحف قرآنی کو بلاوضو ہاتھ لگانے کی دلیل لاتے ہو تو کفار و مشرکین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ...٢٨﴾... سورة التوبة
تو پھر اس سے تو یہ دلیل بھی لی جاسکتی ہے کہ نجس اور ناپاک آدمی بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ جبکہ یہ استدلال آپکے نزدیک درست نہیں ہوگا تو بلاوضو قرآن کو چھونے کا استدلال کیونکر درست ہوا؟

)
تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے صرف نماز ہی کے لیے وضو کا حکم دیا گیا ہے:
إنما أمرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة۔(مسند احمد)
اس روایت سے بظاہر صرف نماز کے لئے وضو کا شرط ہونا ثابت ہوتا ہے اور دیگر تمام امور کے لئے وضو کے واجب ہونے کا انکار ہے۔ حالانکہ طواف کے لئے باوضو ہونا بھی شرط ہے اور آپ کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ تو پھر اس دلیل کو صرف مصحف قرآنی کو بلاوضو چھونے کی دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟
 
Last edited:

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

محترم ابوالحسن علوی بھائی نے آپکو تمام باتوں کے علمی جوابات دے دئے ہیں بس میں اس میں تھوڑا سا یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اس روایت سے آپ مصحف قرآنی کو بلاوضو ہاتھ لگانے کی دلیل لاتے ہو تو کفار و مشرکین کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ...٢٨﴾... سورة التوبة
تو پھر اس سے تو یہ دلیل بھی لی جاسکتی ہے کہ نجس اور ناپاک آدمی بھی قرآن کو ہاتھ لگا سکتا ہے۔ جبکہ یہ استدلال آپکے نزدیک درست نہیں ہوگا تو بلاوضو قرآن کو چھونے کا استدلال کیونکر درست ہوا؟


اس روایت سے بظاہر صرف نماز کے لئے وضو کا شرط ہونا ثابت ہوتا ہے اور دیگر تمام امور کے لئے وضو کے واجب ہونے کا انکار ہے۔ حالانکہ طواف کے لئے باوضو ہونا بھی شرط ہے اور آپ کے نزدیک بھی ایسا ہی ہے۔ تو پھر اس دلیل سے صرف مصحف قرآنی کو بلاوضو چھونے کی دلیل کے طور پر کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟
(الف) ۔طواف کے لئے وضو کی شرط:
1 - نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

بیت اللہ کا طواف نماز ہے ، لیکن اس میں تم کلام کرسکتے ہو ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 960 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 121 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔

2 - صحیحین میں عائشہ رضي اللہ تعالی عنہاسے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب طواف کرنے کا ارادہ کرتے توآپ وضوء کرتے تھے ۔

(ب) نجس اور ناپاک کا مصحف کو ہاتھ لگانا:
(نام نہاد) نجس و ناپاکی کی دو بنیادی اقسام ہیں۔ اول جنبی حالت میں ہونا اور دوسرا حیض و نفاس کی حالت میں ہونا۔ اول الذکر ایک اختیاری اور عارضی ”ناپاکی“ ہے۔ لہٰذا غسل کرکے بآسانی اس حالت سے نکلا جاسکتا ہے۔ لہٰذا کوئی جنبی مسلمان مصحف کو ہاتھ لگانا یا تلاوت کرنا ”پسند“ ہی نہیں کرتا۔ اس کے برعکس اگر (نام نہاد) ”ناپاکی“ دوسری قسم کی ہو تو خواتین کیا کریں؟ عام خواتین تو چند دنوں تک قرآن سے دور رہ بھی سکتی ہیں۔ لیکن قرآن کی خواتین اساتذہ اور طالبات کیا کریں اور مدارس میں بالعموم یہ کیا کرتی ہیں؟؟؟

ازراہ تفنن عرض ہے کہ جب پاک و ہند کے مسلمان حرمین شریفین میں عربوں کے ہاتھوں مصحف قرآن کی (نام نہاد) ”بے حرمتی“ دیکھتے ہیں تو سخت آزردہ ہوتے ہیں اور عربوں کے بارے میں ناپسندیدہ کلمات بھی ادا کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہندی نے ہمت کرتے ہوئے جب یہی بات ایک عرب سے کہی تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ آپ ہندی لوگ قرآن کی بہت زیادہ ”عزت“ کرتے ہو۔ لیکن بالعموم تلاوت قرآن کے دوران نہ تو اسے سمجھتے ہو اور نہ ہی اس کے فرمان پر عمل کرتے ہو۔ ہم عرب مانا کہ ”آپ کی طرح قرآن کی عزت" نہیں کرتے، لیکن اسے پڑھتے ہوئے اس کے معنی کو سمجھتے بھی ہیں اور اس کے فرمان پر عمل بھی کرتے ہیں۔

سیدھی سی بات ہے کہ جب قرآن اور حدیث میں کہیں بھی یہ صاف صاف نہیں لکھا ہے کہ تلاوت قرآن یا مصحف کو ہاتھ لگانے کے لئے وضو بھی کرو ۔۔۔ جیسا کہ نماز اور طواف کے لئے کہا گیا ہے تو ہم قرآن کو ہاتھ لگانے یا تلاوت کرنے کے لئے ایسی پابندی کیوں لگانا چاہتے ہیں؟ اگر تو ”مقصد“ مسلمانوں کو قرآن سے دور کرنا ہے تو ایسے فتاویٰ کے ذریعہ ہم یہ “ٹارگٹ“ بخوبی حاصل کر رہے ہیں (ابتسامہ) اگر نہیں تو پھر قرآن و حدیث سے بالا تر اس اضافی پابندی پر اصرار کیوں؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
ایک یہ کہ یہ مصحف کے بارے نہیں ہے بلکہ ایسی چیز کے بارے ہے کہ جس میں کچھ قرآن موجود ہو جیسا کہ کسی ایسی کتاب کو ہاتھ لگانا کہ جس میں کچھ قرآن کی آیات کا ذکر ہو۔ تو ظاہری بات ہے کہ مصحف میں اور اس کتاب یا خط میں فرق ہے کہ جس میں کچھ قرآن منقول ہو۔ پس اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایسی کتاب کو بلاوضو ہاتھ لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں قرآن مجید کی کچھ آیات ہوں اور اس پر مصحف کے نام کا اطلاق نہ ہوتا ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس دلیل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافر اور مشرک کے لیے بھی یہ جائز ہے کہ وہ کسی ایسی کتاب کو ہاتھ لگائے کہ جس میں قرآن مجید کی آیات ہوں۔ اس میں سرے سے مصحف کی بات ہی نہیں ہے۔

دوسری دلیل غیر متعلق ہے کیونکہ حدث اور نجاست میں فرق ہے۔ محدث اور نجس میں فرق ہے۔ مومن محدث ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے لیکن نجس نہیں ہوتا ہے یعنی اس کا جسم، پسینہ، لعاب وغیرہ حالت حدث یا غیر حدث، حالت جنابت یا غیر جنابت، حدث اصغر یا حدث اکبر میں پاک رہتا ہے۔ حالت جنابت میں مومن پاک ہے یعنی نجس نہیں ہے لیکن اسے حدث اکبر لاحق ہے جس کی وہ سے اس کے لیے مس مصحف بلکہ مصحف کی تلاوت بھی حرام ہے۔ اگر آپ کے نزدیک حدث اکبر یعنی جنابت میں مس مصحف جائز ہے تو پھر یہ دلیل متعلق ہو سکتی ہے۔
ماشاء اللہ بہترین نکات بیان کئے ہیں اور محدث اور نجس کے فرق کے بیان سے میری غلط فہمی بھی دور ہوگئی اور علم میں بھی اضافہ ہوا۔ جزاک اللہ خیرا
علمائے کرام کو میرا یہاں بحث کے لئے دعوت دینے کا اصل مقصد بھی یہی تھا کہ ان کی علمی گفتگو سے صحیح مسئلہ نکھر کر سامنے آجائے اور آئندہ ہم جیسے لوگ اعتماد کے ساتھ اس خاص مسئلہ میں گفتگو یا بحث کے قابل ہوسکیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میں نے جو دلائل پیش کیے تھے وہ محتمل ہیں ؛یہ بات درست ہے لیکن وجوب کی بھی صریح دلیل کوئی نہیں۔
اس ضمن میں بنیادی دلیل أن لا يمس القران إلا طاہر ہی ہے لیکن اس میں بھی احتمالات موجود ہیں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
شیخ ابن عثیمین مرحوم بھی مس مصحف کے لیے وضو کو واجب نہیں سمجھتے اور اس روایت میں لفظ طاہر کو محتمل قرار دیتے ہیں؛بہ ہر حال معاملے میں وسعت ہے اور وضو کو واجب قرار دینے پر اصرار نہیں کرنا چاہیے البتہ یہ افضل اور بہتر ہے ،اس میں کوئی شبہہ نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,011
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
میں نے جو دلائل پیش کیے تھے وہ محتمل ہیں ؛یہ بات درست ہے لیکن وجوب کی بھی صریح دلیل کوئی نہیں۔
اس ضمن میں بنیادی دلیل أن لا يمس القران إلا طاہر ہی ہے لیکن اس میں بھی احتمالات موجود ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ سلف صالحین میں سے کس نے اس حدیث سے یہ احتمال لیا ہے کہ اس سے مراد حدث اکبر سے پاک اور وضو نا کیا ہوا شخص مراد ہے؟
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
عام طور سے اہل حدیث علما کا یہی موقف ہے؛مولانا اقبال کیلانی نے فضائل قرآن مجید اور حافظ عمران ایوب لاہوری نے فضائل قرآن کی کتاب میں اسی کو اختیار کیا ہے ۔
 
Top