نہ ہی میں نے ایسی کوئی بات کہی ہے۔
حتى أسأل رسول ،،،،فسألته عن ذلك فقال إنه عمك، فأذني له ۔ یہ پوچھنا پڑدے کے متعلق تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے بھی یہی فائدہ ملتا ہے۔
حدثنا إبراهيم بن الحارث حدثنا يحيى بن أبي بكير حدثنا زهير بن معاوية الجعفي حدثنا أبو إسحاق عن عمرو بن الحارث ختن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخي جويرية بنت الحارث قال ما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم عند موته درهما ولا دينارا ولا عبدا ولا أمة ولا شيئا إلا بغلته البيضاء وسلاحه وأرضا جعلها صدقة صحيح البخاري
ابن حجر شرح میں لکھتے ہیں: تصدق بمنفعة الأرض فصار حكمها حكم الوقف
اور حجرہ اس میں سے عائشہ رضی اللہ عنھا کے تصرف میں تھا۔ جیسا کہ گزشتہ پوسٹ میں بیان کیا گیا تھا۔
ملکیت کے حوالے سے سوال کا جواب مکمل ہوا۔
لیکن آپ کا مقصد سوال کا جواب حاصل کرنا نہیں بلکہ شبہات کو پھیلانا ہے اور مجھے معلوم تھا کہ جناب کس جانب گامزن ہیں۔
اور آخر بلی باہر آگئی
یہ روافض کا جدید نہیں بلکہ پرانا شبہ ہے۔
محمود الآلوسي اپنی تفسیر روح المعاني میں فرماتے ہیں:
ومن أهل السنة من أجاب عن أصل البحث بأن المال بعد وفاة النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - صار في حكم الوقف على جميع المسلمين ، فيجوز لخليفة الوقت أن يخص من شاء بما شاء كما خص الصديق جناب الأمير ( رضي الله عنه ) بسيف ، ودرع ، وبغلة شهباء تسمى الدلدل مع أن الأمير ( رضي الله عنه ) لم يرث النبي - صلى الله عليه وسلم - بوجه ، وقد صح أيضا أن الصديق أعطى الزبير بن العوام ، ومحمد بن مسلمة بعضا من متروكاته - صلى الله عليه وسلم
صحابہ رضی اللہ عنھم کو تو اس مسئلے میں کوئی اشکال نہ تھا نہ ہی کسی نے اعتراض کیا۔ نہ سلف الصالحین کو یہ بات معیوب لگی۔ لیکن روافض کو یہ بات نہیں ہضم ہوتی اور نہ ہی ہونی ہے۔ واللہ أعلم
اچھا تو آپ کا نظریہ ہی کچھ اور ہے آپ امی اور ابوبکر رضی اللہ عنہما دونوں میں سے کسی کی ملک نہیں سمجھتے۔۔۔۔۔
أن المال بعد وفاة النبي - صلى الله تعالى عليه وسلم - صار في حكم الوقف على جميع المسلمين
یاد رہے کہ صدقہ اور وقف میں فرق ہے۔۔۔ایک یہ کہ صدقہ فقط فقیر اور مستحق کے لیے ہے جب کہ وقف جسکے لیے بھی کیا جائے اس کے لیے ہوگا
صدقے کو وقف قرار دینا بھی تو دعوی ہے نا کہ دلیل
یعنی تم کس دلیل پر اس صدقے کو وقف میں تبدیل کر رہے ہو؟(البتہ اس کا جواب مھم نہیں)
وقف کے لیے ضروری ہے کہ اسکے اسعمال کی جہت معلوم کرے اور وہ بھی واقف ہی تعیین کر سکتا ہے۔۔۔۔تو یہ حجرہ کس چیز کے لیے وقف کیا گیا؟
یہاں پر وقف کرنے والا کون ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقف کیا تھا؟
فيجوز لخليفة الوقت أن يخص من شاء بما شاء
یہ بھی دعوی ہے دلیل نہیں ہے یعنی کیا دلیل ہے جو اس وقف سے خلیفہ کے دفن کی جگہ لی جائے۔۔۔؟
وقف کے لیے کئی چیزیں ہوتی مثلا قبرستان کی زمین تو کیا یہ حجرہ قبرستان کے لیے وقف تھا؟
آپ کے بقول یہ صدقے سے وقف میں تبدیل ہوا ہے تو صدفہ وہی لے سکتا ہے جو مستحق ہو نا کہ ہر شخص۔۔۔۔ تو کیا خلیفے صاحب مستحق تھے؟
اور یہ حق تدفین فقط خلیفے کے لیے کیوں؟ کیا دلیل ہے اس اخصاص پر؟
كما خص الصديق جناب الأمير ( رضي الله عنه ) بسيف ، ودرع ، وبغلة شهباء تسمى الدلدل مع أن الأمير ( رضي الله عنه ) لم يرث النبي - صلى الله عليه وسلم - بوجه ، وقد صح أيضا أن الصديق أعطى الزبير بن العوام ، ومحمد بن مسلمة بعضا من متروكاته - صلى الله عليه وسلم
خلیفے صاحب کا یہ کام بھی تو خود دعوی ہےیعنی خلیفے نے بغیر کسی دلیل شرعی کے انجام دیا۔۔۔۔
خلاصہ کلام
آلوسی صاحب نے بھی دعوی کو ہی دلیل بنا کر پیش کیا ہے کیونکہ ایک بھی دلیل شرعی نہیں دی ہے۔۔۔۔
صحابہ رضی اللہ عنھم کو تو اس مسئلے میں کوئی اشکال نہ تھا نہ ہی کسی نے اعتراض کیا۔ نہ سلف الصالحین کو یہ بات معیوب لگی۔ لیکن روافض کو یہ بات نہیں ہضم ہوتی اور نہ ہی ہونی ہے
سلف صالحین نے نہیں روکا یا ٹوکا تو یہ بحث پھر سے مسئلہ صحابہ پر چلے جائیں گے کیونکہ یہ بھی در حقیقت دعوی ہے دلیل نہیں۔۔۔
وہ اس طرح کہ (معذرت کے ساتھ) جو علی علیہ السلام کو چھوڑ کر دوسروں کو خلیفہ بنا سکتے ہیں وہ یہ کام بھی کر سکتے ہیں
جو علی علیہ السلام کے گھر کے جلانے کی دھمکی پر بھی خاموش رہ سکتے ہیں وہ یہاں پر خاموش رہ سکتے ہیں۔۔۔۔۔
مطلب یہ کہ شرعی دلیل چاہیے۔۔۔۔