• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ جیسے لعنتی فعل پر آپکو سمجھانے کے لئے،،، انتہائی ضروری بات،،

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
حلالہ شرط کے ساتھ حرام ہے۔ یہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ اب اس کی روشنی میں رہتے ہوئے ان سوالات کو دیکھیے۔
حلالہ جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی نے کر لیا تو بچہ جس کے وہ نکاح میں تھی اس کا ہوگا۔
میں ایک بار پھر واضح طور پر کہتا ہوں کہ حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے لیکن نکاح ہو جائے گا۔ ہمبستری کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی اور زوج ثانی کے لیے اسے طلاق دینا ہرگز ضروری نہیں ہے۔
یہ احناف کا مسلک ہے نہ کہ یہ کہ حلالہ بالکل جائز اور اچھا عمل ہے۔
جہاں تک مجھے ایک دو پوسٹیں پڑھنے سے بحث کی سمجھ آئی ہے تو نقاط بحث یہ ہیں
1-حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شرط (یا وعدہ) کے ساتھ شادی کی جائے کہ ہمبستری کر کے صبح طلاق دے دوں گا
2-ایسی شرط لگانا حرام ہے
3-اگر کوئی یہ حرام کام کر دے تو کیا نکاح ہو جائے گا یا نہیں
4-اگر اوپر والا نہیں گناہ کے باوجود ہو جاتا ہے تو اگلا نکاح عورت کر سکتی ہے ورنہ اگلا اوپر والا نکاح ہی نہ ہوا تو اگلا نکاح کیسے جائز ہو سکتا ہے

میرے خیال میں پہلی دو باتوں میں کوئی اختلاف نہیں البتہ اختلاف تیسری بات میں ہے اور اسی وجہ سے چوتھی میں عمل میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ نکاح کے احکام لاگوں ہوں گے البتہ گناہ ہو گا جنکہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ نکاح کے احکامات ہی لاگوں نہیں ہوں گے
اصل میں اس میں اختلاف یہ ہے کہ جب شریعت میں کسی کام سے نہی آئے تو کیا وہ اس فعل کے باطل ہونے کا مطالبہ کرتی ہے اور کیا اس کے تحت احکامات لاگوں نہیں ہوں گے مثلا حیض میں طلاق کی ممانعت ہے پس اگرچہ حیض میں طلاق گناہ کا کام ہو گا مگر کیا ایسا کرنے سے طلاق والا فعل لاگو ہو جائے گا

جمہور فقہاء کے ہاں کسی فعل کے تحت احکامات کے لاگو ہونے کے لئے دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں ایک صحیح اور دوسری باطل
اگر اوپر طلاق کے احکامات لاگوں ہوں گے تو اسکو صحیح کہا جائے گا اور اگر لاگو نہیں ہوں گے تو اس طلاق کے فعل کو باطل کہا جائے گا
البتہ حنفیوں کے ہاں درمیان میں ایک تیسری قسم فاسد فعل کی بھی ہوتی ہے کہ اگر جس فعل سے نہی آئی ہے وہ اصل کے اعتبار سے تو جائز ہو لیکن کسی وصف کے اعتبار سے جائز نہ ہو تو اس وقت وہ فعل باطل کی بجائے فاسد کہلائے گا اور باطل اور فاسد میں فرق یہ ہو گا کہ شریعت میں دونوں سے منع ہو گا البتہ فاسد سے احکامات لوگو ہو جائیں گے اور باطل سے احکامات لاگو نہیں ہوں گے یہ ایک فقہی اختلاف میں نے بتایا ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ احناف کچھ چیزوں میں فعل کو باطل کی بجائے فاسد کہتے ہیں مثلا عید یا ایام تشریق کے روزے کی نذر، فروخت کے وقت ماں اور بچے میں جدائی، نکاح شغار وغیرہ

پس حنفیوں کے ہاح نکاح حلالہ بھی ایک فقہی اختلاف ہو سکتا ہے کہ چونکہ حلالہ میں نکاح اصل کے لحاظ سے تو حلال ہے مگر ایک وصف یعنی شرط کے لحاظ سے حرام ہے تو باطل کی بجائے فاسد ہوا پس ہم انکو اپنی سمجھ کے مطابق اجتہادی غلطی پر سمجھیں گے

البتہ مجھے اس پر محترم اشماریہ بھائی سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ اصول ہر جگہ لاگو ہو گا مثلا نکاح متعہ وغیرہ
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
شروع سے لے کر اب تک پورامراسلہ پڑھ جائیے ۔ایسالگتاہے کہ کسی نے حنفی موقف کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے خیالات اورمزعومات پر ہی قیاسات کا محل تعمیر کیاہے۔

اہلحدیث (انتظامیہ) کے طعن وتشنیع ان کے اکابر سے لے کر اصاغر تک کی وجہ یہ رہی ہے کہ ’’احناف نکاح حلالہ کو جائز کہتے ہیں‘‘
مجھے حیرت ہے کہ ان لوگوں نے حنفی موقف سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔
حنفی جس نکاح کو جائز کہتے ہیں وہ نکاح حلالہ ہے ہی نہیں ۔
حنفی کہتے ہیں کہ نکاح میں اگرکوئی شرط لگائی گئی تونکاح جائز اورشرط باطل ہوجائے گی۔ جب احناف حضرات شرط کو باطل قراردے رہے ہیں تو اب وہ نکاح حلالہ رہاکہاں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟÷÷
یہ اتنی سامنے کی بات ہے جس کو سمجھنے کیلئے افلاطون کے عقل کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر تعصب کی عینک اتار کر احناف کے موقف پر سنجیدگی سے غورکیاجائے توپتہ چلتاہے کہ احناف کے موقف میں اوردیگر افراد کے موقف میں کوئی ’’بون بعید‘‘ نہیں ہے۔

دیگر فقہاء کا مسلک ہے کہ اگرشرط کے ساتھ نکاح کیاجارہاہے تو نکاح باطل
احناف کہتے ہیں کہ شرط باطل اورنکاح جائز
اب مجھے کوئی بتائے کہ دونوں میں کیافرق رہا۔

اس کی ایک مثال لیں
ایک شخص اونٹ بیچ رہاہے اوراس کے ساتھ شرط لگارہاہے کہ بلی بھی خریدنی ہوگی
توایک جماعت کا موقف ہے کہ چونکہ بلی کی شرط لگانا غلط ہے لہذا معاملہ ہی پورا غلط اورباطل ہوگا۔
دوسری جماعت کا موقف ہے کہ معاملہ صحیح ہوگا اورجوشرط اس نے زائد لگائی گئی ہے کہ بلی خریدنی ہوگی وہ توشرط باطل ہوگی۔
کوئی مجھے بتائے کہ دونوں جماعتوں کے موقف میں کتنا اورکس قدر فرق ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اگرفقہاء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ نکاح حلالہ میں طلاق اورجدائی کی شرط رکھی گئی ہے اس لئے نکاح باطل ہوگی
دوسری جماعت نکاح کو باطل نہ قراردے کر شرط کو ہی باطل قراردے رہی ہے تو دونوں کے موقف میں کیافرق رہا۔ جس وجہ سے اورجس علت کے باعث پہلی جماعت نے نکاح کو غلط قراردیاتھا دوسری جماعت نے اس علت کو ہی ختم کردیاتواب دونوں جماعت کے موقف میں کیافرق رہا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

شاکر صاحب نے فقہ حنفی سے ایک جملہ اخذ کیاہے کہ اگراصلاح احوال کیلئے کوئی نکاح کرکے طلاق دے دیتاہے تووہ ماجور ہوگا اوراس پر طنز فرمانے کی کوشش کی ہے ۔یہ کام اس سے قبل دیگر اہل حدیث حضرات (انتظامیہ!) کے ساتھ صاحب تحفۃ الاحوذی بھی کرچکے ہیں لیکن ان سب کو معلوم نہیں کہ یہ صرف احناف کی بات نہیں ہے ۔

بلکہ قاسم سالم جیسے سربرآورہ فقہائے مدینہ بھی اس کے قائل تھے۔قاسم کون ہیں ان کی جلالت شان کیاہے سب جانتے ہیں نہ معلوم ہو تو کتب جرح وتعدیل میں معلوم کرلیں۔ سالم حضرت عبداللہ بن عمر کے بیٹے تھے۔ یحیی بن سعید اورربعیۃ الرائے بھی اس کے قائل تھے۔ کیاان سب حضرات پر بھی وہی بھپتی کسی جائے گی۔

جولوگ فقہائے احناف اورفقہ حنفی کو مطعون کررہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنی وسعت معلومات کیلئے تھوڑامطالعہ التمہید لابن عبدالبر اورالمحلی لابن حزم کا کرلیں شاید اپنے نظریہ پر نظرثانی کرنے کی ضرورت پڑجائے۔ بالخصوص المحلی لابن حزم میں تو ابن حزم نے پورے طورپر فقہ حنفی کی ہی تقریباتقریبا ترجمانی کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں احناف کا موقف درست ہے بشرطیکہ جذبات کی گرمی کو دورچھوڑ کر سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

ان سب سے ہٹ کر جولوگ اس مسئلہ میں احناف کو مطعون کرتے ہیں انہوں نے ابھی تک اپنے موقف کو دلائل سے ثابت نہیں کیاہے ۔ میں اس مسئلہ میں ان سے بحث نہیں کرناچاہتا ہوں جن کے علم کا دارومدارادھر ادھر کے اقتباسات پر ہوتاہے ۔ جولوگ فورم پر علمی لیاقت رکھتے ہیں وہ دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔
شاکر صاحب نے دودلیلیں دیں لیکن ان کی دلیل ان کے ہی خلاف پڑگئی۔ اس کے علاوہ اورکوئی دلیل مجھے ابھی تک ملی نہیں ہے۔

امید ہے کہ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے بحث کی جائے ذاتیات کو درکنار کرتے ہوئے۔
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
کمال یہ ہے کہ کچھ لوگ صاف سیدھی اورسامنے کی بات کو سمجھنے کی لیاقت نہیں رکھتے۔
شاکر صاحب نے ایک دلیل دی کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نکاح حلالہ کو عہد نبوی میں زناشمار کرتے تھے۔

نمبرایک : کسی چیز کا شمار تواسی وقت ہوسکتاہے جب کہ اس کا وقوع ہو۔اگراس کا وقوع نہ ہو تو پھر اس چیز کو شمار کیسے کیاجاسکتاہے۔
نمبر: حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ اس میں مسلمانوں کے بارے میں بات کررہے ہیں یاکافروں کے بارے میں؟اگرکسی سے سے بھی پوچھاجائے توبات یہی ہوگی کہ وہ مسلمانوں کے معاشرے کی بات کررہے ہیں ۔کافروں کے معاشرے کی بات نہیں کررہے ہیں۔ یہود ونصاری کے معاشرے کی بات نہیں کررہے ہیں۔

اس نتیجے پر کچھ لوگوں کو اشکالات ہیں۔
حضورپاک نے کچھ چیزوں کے بارے میں مستقبل کی خبردی ہے ۔ توظاہرسی بات ہے کہ صحابہ کرام کے عہد سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔
کچھ چیزوں کا مطلقا حکم بیان فرمایاہے اس کابھی صحابہ کرام سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔
لیکن جس چیزکو ایک صحابی کہہ رہاہو کہ ہم فلاں فعل کو ایساویساسمجھتے تھے تواس کے بارے میں یہ کہناکہ وہ پیشگوئی کے تعلق سے ہے یاکچھ اور سفاہت کی بات ہے عقل کی بات نہیں ہے۔
اب یہ تو اہل حدیث (انتظامیہ) حضرات کو چاہئے کہ وہ اپنی اس دلیل کا مطلب ہمیں سمجھائیں۔ ظاہر میں تو یہ حدیث ان کے ہی خلاف جارہی ہے۔ دیکھیں اس کا وہ کیاجواب دیتے ہیں۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
شروع سے لے کر اب تک پورامراسلہ پڑھ جائیے ۔ایسالگتاہے کہ کسی نے حنفی موقف کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے بلکہ اپنے خیالات اورمزعومات پر ہی قیاسات کا محل تعمیر کیاہے۔

غیرمقلدین کے طعن وتشنیع ان کے اکابر سے لے کر اصاغر تک کی وجہ یہ رہی ہے کہ ’’احناف نکاح حلالہ کو جائز کہتے ہیں‘‘
مجھے حیرت ہے کہ ان لوگوں نے حنفی موقف سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔
حنفی جس نکاح کو جائز کہتے ہیں وہ نکاح حلالہ ہے ہی نہیں ۔
حنفی کہتے ہیں کہ نکاح میں اگرکوئی شرط لگائی گئی تونکاح جائز اورشرط باطل ہوجائے گی۔ جب احناف حضرات شرط کو باطل قراردے رہے ہیں تو اب وہ نکاح حلالہ رہاکہاں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟÷÷
یہ اتنی سامنے کی بات ہے جس کو سمجھنے کیلئے افلاطون کے عقل کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر تعصب کی عینک اتار کر احناف کے موقف پر سنجیدگی سے غورکیاجائے توپتہ چلتاہے کہ احناف کے موقف میں اوردیگر افراد کے موقف میں کوئی ’’بون بعید‘‘ نہیں ہے۔

دیگر فقہاء کا مسلک ہے کہ اگرشرط کے ساتھ نکاح کیاجارہاہے تو نکاح باطل
احناف کہتے ہیں کہ شرط باطل اورنکاح جائز
اب مجھے کوئی بتائے کہ دونوں میں کیافرق رہا۔

اس کی ایک مثال لیں
ایک شخص اونٹ بیچ رہاہے اوراس کے ساتھ شرط لگارہاہے کہ بلی بھی خریدنی ہوگی
توایک جماعت کا موقف ہے کہ چونکہ بلی کی شرط لگانا غلط ہے لہذا معاملہ ہی پورا غلط اورباطل ہوگا۔
دوسری جماعت کا موقف ہے کہ معاملہ صحیح ہوگا اورجوشرط اس نے زائد لگائی گئی ہے کہ بلی خریدنی ہوگی وہ توشرط باطل ہوگی۔
کوئی مجھے بتائے کہ دونوں جماعتوں کے موقف میں کتنا اورکس قدر فرق ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اگرفقہاء کی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ نکاح حلالہ میں طلاق اورجدائی کی شرط رکھی گئی ہے اس لئے نکاح باطل ہوگی
دوسری جماعت نکاح کو باطل نہ قراردے کر شرط کو ہی باطل قراردے رہی ہے تو دونوں کے موقف میں کیافرق رہا۔ جس وجہ سے اورجس علت کے باعث پہلی جماعت نے نکاح کو غلط قراردیاتھا دوسری جماعت نے اس علت کو ہی ختم کردیاتواب دونوں جماعت کے موقف میں کیافرق رہا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

شاکر صاحب نے فقہ حنفی سے ایک جملہ اخذ کیاہے کہ اگراصلاح احوال کیلئے کوئی نکاح کرکے طلاق دے دیتاہے تووہ ماجور ہوگا اوراس پر طنز فرمانے کی کوشش کی ہے ۔یہ کام اس سے قبل دیگر غیرمقلدین کے ساتھ صاحب تحفۃ الاحوذی بھی کرچکے ہیں لیکن ان سب کو معلوم نہیں کہ یہ صرف احناف کی بات نہیں ہے ۔

بلکہ قاسم سالم جیسے سربرآورہ فقہائے مدینہ بھی اس کے قائل تھے۔قاسم کون ہیں ان کی جلالت شان کیاہے سب جانتے ہیں نہ معلوم ہو تو کتب جرح وتعدیل میں معلوم کرلیں۔ سالم حضرت عبداللہ بن عمر کے بیٹے تھے۔ یحیی بن سعید اورربعیۃ الرائے بھی اس کے قائل تھے۔ کیاان سب حضرات پر بھی وہی بھپتی کسی جائے گی۔

جولوگ فقہائے احناف اورفقہ حنفی کو مطعون کررہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنی وسعت معلومات کیلئے تھوڑامطالعہ التمہید لابن عبدالبر اورالمحلی لابن حزم کا کرلیں شاید اپنے نظریہ پر نظرثانی کرنے کی ضروررت پڑجائے۔ بالخصوص المحلی لابن حزم میں تو ابن حزم نے پورے طورپر فقہ حنفی کی ہی تقریباتقریبآترجمانی کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ میں احناف کا موقف درست ہے بشرطیکہ جذبات کی گرمی کو دورچھوڑ کر سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔

ان سب سے ہٹ کر جولوگ اس مسئلہ میں احناف کو مطعون کرتے ہیں انہوں نے ابھی تک اپنے موقف کو دلائل سے ثابت نہیں کیاہے ۔ میں اس مسئلہ میں ان سے بحث نہیں کرناچاہتا ہوں جن کے علم کا دارومدارادھر ادھر کے اقتباسات پر ہوتاہے ۔ جولوگ فورم پر علمی لیاقت رکھتے ہیں وہ دلیل کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔
شاکر صاحب نے دودلیلیں دیں لیکن ان کی دلیل ان کے ہی خلاف پڑگئی۔ اس کے علاوہ اورکوئی دلیل مجھے ابھی تک ملی نہیں ہے۔

امید ہے کہ اس مسئلہ پر سنجیدگی سے بحث کی جائے ذاتیات کو درکنار کرتے ہوئے۔
مجھے اس سوال کا جواب چاھیے !

لفط حلالہ ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے اس کا بدلے نکاح کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا ؟

میرے بھائی اس طرح کے فتویٰ سے آپ کیا سمجھے گے-

میں نے غصہ میں ایک مجلس کے اندر تین طلاق دیدیا۔ میرے دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ، اب مجھے افسوس ہورہا ہے۔ براہ کرم، میری رہ نمائی فرمائیں کہ کیا میں اپنی بیوی کو واپس لا سکتا ہوں؟

والسلام
Jun 09,2007 Answer: 585
(فتوى: 548/ج=546/ج)

تین طلاق دینے کے بعد حلالہ شرعی ضروری ہے ﴿فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ (سورہ بقرہ) حلالہ کی صورت یہ ہے کہ عدت گذار کر مطلقہ دوسرے مرد سے باضابطہ نکاح کرلے دوسرا شوہر بعد نکاح اس کے ساتھ ہمبستری (جماع) کرے اس کے بعد اگر دوسرا شوہر طلاق دیدے گا تو عدت گذار کر وہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=585
 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
لفط حلالہ ہی کیوں استعمال کیا جاتا ہے اس کا بدلے نکاح کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا ؟
اس سوال کا جواب تواپنے علماء سے دریافت کیجئے ۔ چونکہ اس نکاح سے وہ سابقہ شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے۔ لہذا اس کو حلالہ کہتے ہیں۔ اورمزید کوئی بات نہیں ہے اب یہ حلالہ نکاح دوطرح کا ہوتاہے ایک توجائز اوردرست
یعنی ایک عورت کو اس کے سابقہ شوہر نے تین طلاق دے دی۔ اس نے دوسرے شخص سے نکاح کرلیا اس دوسرے شخص نے ایک مدت کے بعد اس کو طلاق دے دی یاپھر شوہر کا انتقال ہوگیا تواب یہ عورت اپنے پہلے شوہر کے پاس جاسکتی ہے اس سے نکاح کرسکتی ہے۔
یہ جائز نکاح ہے اوردرست ہے لیکن اسے بھی نکاح حلالہ ہی کہیں گے کیونکہ اس کے ذریعہ وہ پہلے شوہر کیلئے حلال ہوجاتی ہے۔
حلالہ کی دوسری قسم جس پر اللہ کے رسول نے لعنت کی ہے وہ یہ کہ شرط لگائی جائے ۔ اصل میں اس زمانے میں،اس زمانے میں بلکہ ہرزمانے میں ہوتایہ رہاہے کہ جس کی ایک رات کیلئے شادی کرائی جاتی ہے اس کو کچھ معاوضہ دیاجاتاہے اسی کو حدیث میں کرائے کے سانڈ سے تعبیر کیاگیاہے۔ اسی پر حضور نے لعنت فرمائی ہے علامہ ابن حزم نے توبڑی لمبی چوڑی بحث کی ہے کہ ملعون کون ہے اورکس صورت میں ہے۔اس کو محلی میں دیکھ لیجئے۔

بقیہ اوپر تفصیل سے لکھ چکاہوں کہ
دیگر ائمہ کے یہاں شرط لگانے سے پورانکاح باطل ہوجاتاہے
ائمہ احناف کے یہاں شرط باطل ہوجاتی ہے۔

نتیجہ دونوں کا تقریباتقریباایک ہی رہتاہے۔

اگرآپ حضرات کسی مسئلہ میں دیگر ائمہ کے بھی اقوال اورمسلک معلوم کرلیاکریں تو شاید حنفیت سے آپ کی ضد کچھ کم ہوجائے۔
 
  • پسند
Reactions: Dua
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
اس بارے میں کیا کہے گے​
یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح کا کام کر رہے ہیں​
to Results | All categories > Services > Other Services​
Islamic Halala Center​
Posted 28 Apr 2014 Lahore, Punjab, Pakistan​
Ad details​
Agher aap apne ex husbend or wife say rejoin karns chahte hain tu HALALA kay liye rabta karain aapka masla raaz may rakha jaye ga munadib charges. rabtay kay liye isi add ka reply karain no age limit.​
Regards​

 

شاد

مبتدی
شمولیت
مئی 03، 2014
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
23
مجھے آپ کی سمجھ اورعقل پر تعجب ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
دنیا میں نظریات اورفکریات پر بات ہوتی ہے کسی شخص یااشخاص کے طرز عمل پر نہیں۔ نہیں توہم بھی ایسے ایک نہیں دسیوں رابطے پیش کرکے غیرمقلدعلماء اورعوام کے کرتوت پیش کرسکتے ہیں۔ کیااس کو غیر مقلدین اپنے لئے مثال سمجھیں گے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟یایہی کہیں گے کہ وہ ان کا ذاتی فعل ہے اس سے مسلک اہل حدیث کا کچھ لینادینانہیں ہے۔توجوجواب خود کیلئے پسند کرتے ہیں وہی جواب دوسرے کیلئے بھی پسند کریں اورتطفیف کا شغل چھوڑدیں۔
میراخیال ہے کہ اتنا جواب کافی ہوگا۔ اگراس پر بس نہ ہو تومزید پھلجڑیاں چھوڑیں تاکہ ہم بھی فیس بک اورادھر ادھر سے رابطے ڈھونڈ کر کالے کرتوت پیش کرکے دنیا کو دکھاسکیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جہاں تک مجھے ایک دو پوسٹیں پڑھنے سے بحث کی سمجھ آئی ہے تو نقاط بحث یہ ہیں
1-حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شرط (یا وعدہ) کے ساتھ شادی کی جائے کہ ہمبستری کر کے صبح طلاق دے دوں گا
2-ایسی شرط لگانا حرام ہے
3-اگر کوئی یہ حرام کام کر دے تو کیا نکاح ہو جائے گا یا نہیں
4-اگر اوپر والا نہیں گناہ کے باوجود ہو جاتا ہے تو اگلا نکاح عورت کر سکتی ہے ورنہ اگلا اوپر والا نکاح ہی نہ ہوا تو اگلا نکاح کیسے جائز ہو سکتا ہے

میرے خیال میں پہلی دو باتوں میں کوئی اختلاف نہیں البتہ اختلاف تیسری بات میں ہے اور اسی وجہ سے چوتھی میں عمل میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ نکاح کے احکام لاگوں ہوں گے البتہ گناہ ہو گا جنکہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ نکاح کے احکامات ہی لاگوں نہیں ہوں گے
اصل میں اس میں اختلاف یہ ہے کہ جب شریعت میں کسی کام سے نہی آئے تو کیا وہ اس فعل کے باطل ہونے کا مطالبہ کرتی ہے اور کیا اس کے تحت احکامات لاگوں نہیں ہوں گے مثلا حیض میں طلاق کی ممانعت ہے پس اگرچہ حیض میں طلاق گناہ کا کام ہو گا مگر کیا ایسا کرنے سے طلاق والا فعل لاگو ہو جائے گا

جمہور فقہاء کے ہاں کسی فعل کے تحت احکامات کے لاگو ہونے کے لئے دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں ایک صحیح اور دوسری باطل
اگر اوپر طلاق کے احکامات لاگوں ہوں گے تو اسکو صحیح کہا جائے گا اور اگر لاگو نہیں ہوں گے تو اس طلاق کے فعل کو باطل کہا جائے گا
البتہ حنفیوں کے ہاں درمیان میں ایک تیسری قسم فاسد فعل کی بھی ہوتی ہے کہ اگر جس فعل سے نہی آئی ہے وہ اصل کے اعتبار سے تو جائز ہو لیکن کسی وصف کے اعتبار سے جائز نہ ہو تو اس وقت وہ فعل باطل کی بجائے فاسد کہلائے گا اور باطل اور فاسد میں فرق یہ ہو گا کہ شریعت میں دونوں سے منع ہو گا البتہ فاسد سے احکامات لوگو ہو جائیں گے اور باطل سے احکامات لاگو نہیں ہوں گے یہ ایک فقہی اختلاف میں نے بتایا ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ احناف کچھ چیزوں میں فعل کو باطل کی بجائے فاسد کہتے ہیں مثلا عید یا ایام تشریق کے روزے کی نذر، فروخت کے وقت ماں اور بچے میں جدائی، نکاح شغار وغیرہ

پس حنفیوں کے ہاح نکاح حلالہ بھی ایک فقہی اختلاف ہو سکتا ہے کہ چونکہ حلالہ میں نکاح اصل کے لحاظ سے تو حلال ہے مگر ایک وصف یعنی شرط کے لحاظ سے حرام ہے تو باطل کی بجائے فاسد ہوا پس ہم انکو اپنی سمجھ کے مطابق اجتہادی غلطی پر سمجھیں گے

البتہ مجھے اس پر محترم اشماریہ بھائی سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ اصول ہر جگہ لاگو ہو گا مثلا نکاح متعہ وغیرہ
یہ اصول تو ہر جگہ لاگو ہوتا ہے لیکن اپنے مقام پر یعنی اس جگہ جہاں اس اصول پر تخریج ہو سکے۔
کیوں کہ احناف یہ اصول اس وقت کہتے ہیں جب فساد وصف مجاور میں ہو۔ اگر فساد صلب عقد میں ہو تو پھر عقد ہر حال میں باطل ہوتا ہے۔
متعہ نکاح ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اول الفاظ نکاح نہیں بلکہ الفاظ تمتع استعمال ہوتے ہیں۔ اور ثانی اس میں وقت کی شرط صلب عقد میں ہوتی ہے۔
نکاح موقت البتہ نکاح ہے لیکن اس میں بھی وقت کی شرط صلب عقد میں ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ درست نہیں ہوتا۔ نکاح موقت اس طرح ہوتا ہے "میں اس عورت سے فلاں وقت تک کے لیے نکاح کرتا ہوں"۔ یہ فلاں وقت انتہا ہے اس عقد کی اس لیے یہ عقد ہی صحیح طرح نہیں ہوا کیوں کہ نکاح کی لمٹ یا انتہا نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس حلالہ میں شرط کے ساتھ نکاح یوں ہوتا ہے "میں اس سے نکاح کرتا ہوں اور ہمبستری کے بعد طلاق دے دوں گا" یا یوں "میں اس عورت کا آپ سے نکاح کرتا ہوں اس شرط پر کہ آپ اسے ہمبستری کے بعد طلاق دے دیں گے"۔ اب اس میں شرط کا تعلق ڈائریکٹ عقد سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق زوج کے فعل سے ہے اور زوج پر یہ شرط لگائی جا رہی ہے کہ تم نے یہ طلاق دینی ہے۔ یہ شرط اضافی ہے اور یہ باطل ہو کر نکاح باقی رہ جائے گا۔
جب کہ نکاح موقت میں نکاح کا تعلق ہی اس لمٹ سے ہے۔ اس کے بغیر تو نکاح ہی قبول نہیں ہے۔ اس لیے اسے صلب عقد میں قرار دیتے ہیں اور یہ باطل نہیں ہوتی۔

ایک بات کی اور وضاحت کرتا چلوں کہ احناف اس قاعدہ کو بیع وغیرہ میں جاری نہیں کرتے کیوں کہ اس میں شرط مفضی الی المنازعہ ہوتی ہے۔


شاد بھائی پلیز یہ بے شک بہت گرم اور برداشت سے باہر موضوع ہے لیکن اپنے الفاظ میں تھوڑی نرمی رکھیے۔
وجادلہم بالتی ہی احسن
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top