- شمولیت
- نومبر 01، 2013
- پیغامات
- 2,035
- ری ایکشن اسکور
- 1,227
- پوائنٹ
- 425
جہاں تک مجھے ایک دو پوسٹیں پڑھنے سے بحث کی سمجھ آئی ہے تو نقاط بحث یہ ہیںحلالہ شرط کے ساتھ حرام ہے۔ یہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ اب اس کی روشنی میں رہتے ہوئے ان سوالات کو دیکھیے۔
حلالہ جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی نے کر لیا تو بچہ جس کے وہ نکاح میں تھی اس کا ہوگا۔
میں ایک بار پھر واضح طور پر کہتا ہوں کہ حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے لیکن نکاح ہو جائے گا۔ ہمبستری کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی اور زوج ثانی کے لیے اسے طلاق دینا ہرگز ضروری نہیں ہے۔
یہ احناف کا مسلک ہے نہ کہ یہ کہ حلالہ بالکل جائز اور اچھا عمل ہے۔
1-حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شرط (یا وعدہ) کے ساتھ شادی کی جائے کہ ہمبستری کر کے صبح طلاق دے دوں گا
2-ایسی شرط لگانا حرام ہے
3-اگر کوئی یہ حرام کام کر دے تو کیا نکاح ہو جائے گا یا نہیں
4-اگر اوپر والا نہیں گناہ کے باوجود ہو جاتا ہے تو اگلا نکاح عورت کر سکتی ہے ورنہ اگلا اوپر والا نکاح ہی نہ ہوا تو اگلا نکاح کیسے جائز ہو سکتا ہے
میرے خیال میں پہلی دو باتوں میں کوئی اختلاف نہیں البتہ اختلاف تیسری بات میں ہے اور اسی وجہ سے چوتھی میں عمل میں بھی اختلاف ہو جاتا ہے کہ حنفی کہتے ہیں کہ نکاح کے احکام لاگوں ہوں گے البتہ گناہ ہو گا جنکہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ نکاح کے احکامات ہی لاگوں نہیں ہوں گے
اصل میں اس میں اختلاف یہ ہے کہ جب شریعت میں کسی کام سے نہی آئے تو کیا وہ اس فعل کے باطل ہونے کا مطالبہ کرتی ہے اور کیا اس کے تحت احکامات لاگوں نہیں ہوں گے مثلا حیض میں طلاق کی ممانعت ہے پس اگرچہ حیض میں طلاق گناہ کا کام ہو گا مگر کیا ایسا کرنے سے طلاق والا فعل لاگو ہو جائے گا
جمہور فقہاء کے ہاں کسی فعل کے تحت احکامات کے لاگو ہونے کے لئے دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں ایک صحیح اور دوسری باطل
اگر اوپر طلاق کے احکامات لاگوں ہوں گے تو اسکو صحیح کہا جائے گا اور اگر لاگو نہیں ہوں گے تو اس طلاق کے فعل کو باطل کہا جائے گا
البتہ حنفیوں کے ہاں درمیان میں ایک تیسری قسم فاسد فعل کی بھی ہوتی ہے کہ اگر جس فعل سے نہی آئی ہے وہ اصل کے اعتبار سے تو جائز ہو لیکن کسی وصف کے اعتبار سے جائز نہ ہو تو اس وقت وہ فعل باطل کی بجائے فاسد کہلائے گا اور باطل اور فاسد میں فرق یہ ہو گا کہ شریعت میں دونوں سے منع ہو گا البتہ فاسد سے احکامات لوگو ہو جائیں گے اور باطل سے احکامات لاگو نہیں ہوں گے یہ ایک فقہی اختلاف میں نے بتایا ہے
اس کی وجہ یہ ہے کہ احناف کچھ چیزوں میں فعل کو باطل کی بجائے فاسد کہتے ہیں مثلا عید یا ایام تشریق کے روزے کی نذر، فروخت کے وقت ماں اور بچے میں جدائی، نکاح شغار وغیرہ
پس حنفیوں کے ہاح نکاح حلالہ بھی ایک فقہی اختلاف ہو سکتا ہے کہ چونکہ حلالہ میں نکاح اصل کے لحاظ سے تو حلال ہے مگر ایک وصف یعنی شرط کے لحاظ سے حرام ہے تو باطل کی بجائے فاسد ہوا پس ہم انکو اپنی سمجھ کے مطابق اجتہادی غلطی پر سمجھیں گے
البتہ مجھے اس پر محترم اشماریہ بھائی سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا یہ اصول ہر جگہ لاگو ہو گا مثلا نکاح متعہ وغیرہ