اشماریہ بھائی !مصروفیت کی وجہ سے تھوڑا غائب تھا۔ اور اب یہ بحث اتنی آگے چلی گئی ہے کہ کس کس بات کا جواب دوں اور کس کس کا نہ دوں۔ جب کہ مصروفیت ابھی بھی ہے۔
اس لیے اس بحث کو ان شاء اللہ پھر کبھی کروں گا۔
بہنا آپ کی مراد شاید یہ پوسٹ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو لنک دے دیجیےاشماریہ بھائی !
آپ بحث میں نہ پڑیں۔نہ ہی بحث مطلوب ہے بھائی۔
جو سوالات محمد علی جواد نے پیش کیئے ہیں ، پلیز ان کے جوابات دے دیں۔یہ بلکل ٹو دی پوائنٹ ہیں۔
ہمیں شدت سے ان سے متعلق جوابات کا انتظار ہے اس لیے۔
السلام و علیکم-
قرآن میں الله کا فرمان ہے کہ :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النساء 60
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں- پھر اگر آپس میں کسی معاملے میں نزاع پیدا ہو جائے تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو- یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-
سوره البقرہ آیت ٢٣٠ میں اگر ذرا غور کرلیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے کہ حرام فعل "حلالہ" کے ذریے ایک عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو سکتی - کیوں کہ حلالہ کی بنیاد پر جو نکاح کیا جاتا ہے اس میں شرط حائل ہوتی ہے - اب ملاحظه ہو قرآن کی سوره البقرہ کی آیت ٢٣٠
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ٢٣٠
پھر اگر اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں رجوع کر لیں اگر ان کا گمان غالب ہو کہ وہ الله کی حدیں قائم سکیں گے اور یہ الله کی حدیں ہیں وہ انہیں کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں -
اس لفظ پر غور کریں فَإِنْ طَلَّقَهَا- پھر اگر وہ (یعنی دوسرا شوہر) اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں- یعنی دوسرا شوہر بغیر کسی شرط کے اس عورت کو اپنی مرضی سے طلاق دے - تب وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گی -ں فَإِنْ طَلَّقَهَا کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرا شوہر شرط کا پابند نہیں -(وہ جب اپنی مرضی سے طلاق دے گا - تب ہی وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہو گی (اور یہی اہل سنّت سلف و صالحین کا موقف تھا اور ہے)-
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آل آلہ وسلم اور صحابہ کرام نے اس حلالہ کو ایک لعنتی فعل قرار دیا اور زنا میں شمار کیا ہے- اس کے ذریے پہلے شوہر سے تجدید نکاح نہیں ہو سکتا -
کیوںکہ حلالہ کا فعل ہوتا ہی شروط کی بنیاد پر ہے -
والسلام -
یہاں سب سے پہلے احناف کا ایک اصول سنیے کہ احناف کے نزدیک نکاح میں شرائط فاسدہ کا اعتبار نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی شخص نکاح میں کوئی شرط فاسد لگائے تو نکاح درست ہو جاتا ہے اور شرط ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ شرط فاسد بذات خود ایک غلط اور ممنوع عمل ہے۔ بیع وغیرہ میں تو یہ منازعہ کی نوبت تک پہنچا دیتا ہے لیکن نکاح میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہدایہ اور مختلف کتب میں یہ قاعدہ مذکور ہے۔
کیا یہ قاعدہ ہدایہ اور احناف کی مختلف کتابوں میں موجود ہونا ہم سب کے لیے دلیل ہے -احناف کے نزدیک نکاح میں شرائط فاسدہ کا اعتبار نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی شخص نکاح میں کوئی شرط فاسد لگائے تو نکاح درست ہو جاتا ہے اور شرط ختم ہو جاتی ہے۔
اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ شرط فاسد بذات خود ایک غلط اور ممنوع عمل ہے۔ بیع وغیرہ میں تو یہ منازعہ کی نوبت تک پہنچا دیتا ہے لیکن نکاح میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہدایہ اور مختلف کتب میں یہ قاعدہ مذکور ہے۔
اب اگر کوئی شخص حلالہ کی شرط لگاتا ہے تو یہ شرط فاسد ہے۔ چناں چہ اس کا نکاح عام نکاح کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اس عورت کو رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے اور شریعت یہی چاہتی ہے کہ وہ عورت کو اپنے پاس رکھ لے۔
سوال یہ ہے کہ پھر متعہ کیوں نکاح درست نہیں ہوتا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ متعہ میں ایک تو لفظ تمتع استعمال ہوتا ہے اور دوسرا متعین وقت ہوتا ہے طلاق کا۔ اسی طرح نکاح موقت میں بھی متعین وقت ہوتا ہے
اس کے برعکس اول تو حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے اور اگر کوئی کرتا ہے تو بھی اس میں ہمبستری کا ذکر ہوتا ہے۔ اس بات کا نہیں کہ اسے صبح طلاق ہو جائے گی۔
(یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ "صبح طلاق دے دوں گا" اور "صبح طلاق ہو جائے گی" میں بہت فرق ہے۔ اول الذکر صرف وعدہ طلاق ہے شرط طلاق نہیں۔)
اگر کوئی حلالہ میں یہ شرط لگاتا ہے کہ صبح طلاق ہو جائے گی تو میرا یہ خیال ہے کہ اس کا نکاح بھی نہیں ہوگا۔
امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ اگر کوئی فعل حرام ہے تو اس پر نتیجہ مرتب نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیجہ ایک نعمت ہے اور فعل حرام معصیت تو معصیت کی وجہ سے نعمت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟
احناف کے نزدیک جب نہی افعال شرعیہ سے ہو تو نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ میں افعال حسیہ اور شرعیہ کی بحث میں نہیں جاتا۔ خلاصہ کلام احناف کا یہ ہے کہ ایک چیز خود تو درست ہوتی ہے لیکن کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس سے منع کیا جاتا ہے۔ جیسے روزہ خود تو مشروع ہے لیکن یوم نحر کی وجہ سے منع کیا گیا، اور بیع خود تو درست ہے لیکن شرط فاسد کی وجہ سے منع کر دی گئی۔ اور جیسے۔۔۔۔۔۔ نکاح خود تو درست ہے لیکن حلالہ کی شرط کی وجہ سے اس سے منع کر دیا گیا۔ (منع سے مراد حرام ہونا ہے۔)
اب ایسی صورت میں کوئی شخص جب وہ مشروع اور درست فعل کر رہا ہے جسے کسی اور وصف کی وجہ سے ممنوع قرار دیا گیا ہے تو اس فعل مشروع کا نتیجہ بھی نکلنا چاہیے۔ وہ نتیجہ کیا ہے؟ بیع فاسد میں ملک اور نکاح حلالہ میں۔۔۔۔۔ حلت۔
یہ بحث ہے اصول فقہ کی جسے میں علماء کی جماعتوں کے فہم کا طریقہ کہتا ہوں۔
اشماریہ بھائیآپ فرماتے ہیں کہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کاصاف سیدھامطلب تویہ نکلتاہے کہ حلالہ حضور پاک کے دور میں بھی رائج تھا۔ آپ کسی صحیح روایت سے ثابت کریں کہ حلالہ کا قبیح فعل نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں بھی رائج تھا-
یہ ضروری نہیں کہ کوئی برا یا حرام فعل جس کی قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئ ہو یا اس عذاب کا ذکر ہو- وہ لازمی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں وقوع پذیر ہوا ہو - ہم جنس پرستی کے فعل کی قرآن و احادیث نبوی میں ممانعت اور عذاب کا ذکر جتنی تفصیل سے ہے -(جو قوم لوط علیہ سلام کا عمل تھا)- اتنا تفصیلی ذکر اور کسی گناہ کا کم ہی ہے - لیکن عرب کے معاشرے میں یہ فعل نبی کریم کے دور میں توکیا بعد کے ادوار میں شاید ہی کسی نے کیا ہو - تو کیا اب ہم اس کی حرام ہونے کی علت سے انکار کریں ؟؟
دوسری بات یہ کہ اگر 'حلالہ' کے قبیح فعل کو ہم برا تسلیم کرنے کے باوجود شریعت میں اس کو جگہ دے دیں - تو اس سے مزید قباحتیں پیدا ہو جائیں گی -اور ایسی قباحتیں کہ جن کا قرآن میں کوئی حکم موجود نہیں-
مثال کے طور پرایک آدمی جلد بازی میں اپنی بیوی کوتین طلاق دے دیتا ہے (جیسا کہ احناف کے ہاں ہوتا ہے) - اب وہ پچھتاتا ہے - فتویٰ ملتا ہے کہ اب یاہو صورت دوبارہ نکاح کی ہے کہ کسی اور سے حلالہ کروایا جائے - تب تمہاری بیوی حلال ہو گی -
١-کیا حلالہ کے بعد وہ انسان اپنی اس بیوی کو اسی طرح قبول کرے گا - جس طرح پہلے کرتا تھا ؟؟؟
٢ -کیا اس کی بیوی کی کوئی عزت نہیں - وہ کیا سوچے گی کہ صرف اس کو اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے واسطے دو تین راتوں کے لئے ایک دوسرے مرد کو سونپ دیا گیا - ایسی صورت میں وہ خودکشی بھی کر سکتی ہے - احناف ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراس بارے میں سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا یہ فعل جائز ہے-اور معاشرے کی ضرورت بن سکتا ہے ؟؟
٣-دوسرے مرد سے حلالہ کی صورت میں اگر عورت کو حمل ٹھر جاتا ہے - تو بچہ کے نان نفقے کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟ قرآن و احادیث نبوی میں اس کا کیا حکم ہے- (یہ بات ذہن میں رہے کہ اور دوسرے معاملات میں قرآن و حدیث نے بچے کی کفالت کا تفصیلی حکم نافذ کیا ہے)- تو حلالہ کی صورت میں ایسا کوئی حکم کیوں نہیں ؟؟ اگر قرآن و حدیث میں اس مسلے کا کوئی حل نہیں تو آپ کی حنفی فقہ میں تو ضرور اس کا حل ہونا چاہیے -(کیوں کہ ان کے نزدیک حلالہ ضرورت کے تحت جائز ہے) تو اس کو بیان کریں-
٤-حلالہ کے لئے کس قسم کے مرد کی ضرورت ہوتی ہے - اگر کوئی اس کو کاروبار بنا لے - تو کیا اس سے حلالہ جائز ہو گا؟؟ احناف اپنی حنفی فقہ کی سے اس کا جواب دیں؟؟
آپ کے تفصیلی جواب کا انتظار رہے گا -
والسلام -
اشماریہ بھائی
یوں تو یہ سوالات کسی اور سے کیئے گئے ہیں۔
مگر جب کہ آپ جواب دے ہی رہیں ہیں تو ذرا ان سوالات پر بھی روشنی ڈالیں۔
اگر اس میں صرف سوالات کے جوابات فقہ حنفی سے مطلوب ہیں تو وہ میں دے دیتا ہوں۔محترم -
آپ نے جوغیر اخلاقی الفاظ جو میری پوسٹ کے حوالے سے دیے گئے ان کو نظر انداز کر کے -آپ سے اس پوسٹ کے حوالے سے کچھ سوال ہیں -
آپ فرماتے ہیں کہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کاصاف سیدھامطلب تویہ نکلتاہے کہ حلالہ حضور پاک کے دور میں بھی رائج تھا۔ آپ کسی صحیح روایت سے ثابت کریں کہ حلالہ کا قبیح فعل نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں بھی رائج تھا-
یہ ضروری نہیں کہ کوئی برا یا حرام فعل جس کی قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئ ہو یا اس عذاب کا ذکر ہو- وہ لازمی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں وقوع پذیر ہوا ہو - ہم جنس پرستی کے فعل کی قرآن و احادیث نبوی میں ممانعت اور عذاب کا ذکر جتنی تفصیل سے ہے -(جو قوم لوط علیہ سلام کا عمل تھا)- اتنا تفصیلی ذکر اور کسی گناہ کا کم ہی ہے - لیکن عرب کے معاشرے میں یہ فعل نبی کریم کے دور میں توکیا بعد کے ادوار میں شاید ہی کسی نے کیا ہو - تو کیا اب ہم اس کی حرام ہونے کی علت سے انکار کریں ؟؟
دوسری بات یہ کہ اگر 'حلالہ' کے قبیح فعل کو ہم برا تسلیم کرنے کے باوجود شریعت میں اس کو جگہ دے دیں - تو اس سے مزید قباحتیں پیدا ہو جائیں گی -اور ایسی قباحتیں کہ جن کا قرآن میں کوئی حکم موجود نہیں-
مثال کے طور پرایک آدمی جلد بازی میں اپنی بیوی کوتین طلاق دے دیتا ہے (جیسا کہ احناف کے ہاں ہوتا ہے) - اب وہ پچھتاتا ہے - فتویٰ ملتا ہے کہ اب یاہو صورت دوبارہ نکاح کی ہے کہ کسی اور سے حلالہ کروایا جائے - تب تمہاری بیوی حلال ہو گی -
١-کیا حلالہ کے بعد وہ انسان اپنی اس بیوی کو اسی طرح قبول کرے گا - جس طرح پہلے کرتا تھا ؟؟؟
٢ -کیا اس کی بیوی کی کوئی عزت نہیں - وہ کیا سوچے گی کہ صرف اس کو اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے واسطے دو تین راتوں کے لئے ایک دوسرے مرد کو سونپ دیا گیا - ایسی صورت میں وہ خودکشی بھی کر سکتی ہے - احناف ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراس بارے میں سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا یہ فعل جائز ہے-اور معاشرے کی ضرورت بن سکتا ہے ؟؟
٣-دوسرے مرد سے حلالہ کی صورت میں اگر عورت کو حمل ٹھر جاتا ہے - تو بچہ کے نان نفقے کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟ قرآن و احادیث نبوی میں اس کا کیا حکم ہے- (یہ بات ذہن میں رہے کہ اور دوسرے معاملات میں قرآن و حدیث نے بچے کی کفالت کا تفصیلی حکم نافذ کیا ہے)- تو حلالہ کی صورت میں ایسا کوئی حکم کیوں نہیں ؟؟ اگر قرآن و حدیث میں اس مسلے کا کوئی حل نہیں تو آپ کی حنفی فقہ میں تو ضرور اس کا حل ہونا چاہیے -(کیوں کہ ان کے نزدیک حلالہ ضرورت کے تحت جائز ہے) تو اس کو بیان کریں-
٤-حلالہ کے لئے کس قسم کے مرد کی ضرورت ہوتی ہے - اگر کوئی اس کو کاروبار بنا لے - تو کیا اس سے حلالہ جائز ہو گا؟؟ احناف اپنی حنفی فقہ کی سے اس کا جواب دیں؟؟
آپ کے تفصیلی جواب کا انتظار رہے گا -
والسلام -
محترم! شاد بھائی نے دعوی نہیں کیا بلکہ روایت ابن عمر سے ظاہر ہونے والی ایک بات کا ذکر کیا ہے۔ آپ صحیح روایت سے کس بات کا ثبوت چاہ رہے ہیں؟آپ فرماتے ہیں کہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کاصاف سیدھامطلب تویہ نکلتاہے کہ حلالہ حضور پاک کے دور میں بھی رائج تھا۔ آپ کسی صحیح روایت سے ثابت کریں کہ حلالہ کا قبیح فعل نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں بھی رائج تھا-
ہم جنس پرستی کی سزائیں خلفائے اربعہ کے دور میں جاری کی گئی ہیں۔ مشکاۃ دیکھیے۔یہ ضروری نہیں کہ کوئی برا یا حرام فعل جس کی قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئ ہو یا اس عذاب کا ذکر ہو- وہ لازمی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں وقوع پذیر ہوا ہو - ہم جنس پرستی کے فعل کی قرآن و احادیث نبوی میں ممانعت اور عذاب کا ذکر جتنی تفصیل سے ہے -(جو قوم لوط علیہ سلام کا عمل تھا)- اتنا تفصیلی ذکر اور کسی گناہ کا کم ہی ہے - لیکن عرب کے معاشرے میں یہ فعل نبی کریم کے دور میں توکیا بعد کے ادوار میں شاید ہی کسی نے کیا ہو - تو کیا اب ہم اس کی حرام ہونے کی علت سے انکار کریں ؟؟
حلالہ شرط کے ساتھ حرام ہے۔ یہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ اب اس کی روشنی میں رہتے ہوئے ان سوالات کو دیکھیے۔مثال کے طور پرایک آدمی جلد بازی میں اپنی بیوی کوتین طلاق دے دیتا ہے (جیسا کہ احناف کے ہاں ہوتا ہے) - اب وہ پچھتاتا ہے - فتویٰ ملتا ہے کہ اب یاہو صورت دوبارہ نکاح کی ہے کہ کسی اور سے حلالہ کروایا جائے - تب تمہاری بیوی حلال ہو گی -
اگر کسی شخص نے حرام حلالہ کروانا گوارا کر لیا ہے تو وہ یہ بھی برداشت کر لے گا۔١-کیا حلالہ کے بعد وہ انسان اپنی اس بیوی کو اسی طرح قبول کرے گا - جس طرح پہلے کرتا تھا ؟؟؟
حلالہ بالشرط کو تو ہم حرام قرار دیتے ہیں۔ پھر اس سوال کا مطلب؟٢ -کیا اس کی بیوی کی کوئی عزت نہیں - وہ کیا سوچے گی کہ صرف اس کو اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے واسطے دو تین راتوں کے لئے ایک دوسرے مرد کو سونپ دیا گیا - ایسی صورت میں وہ خودکشی بھی کر سکتی ہے - احناف ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراس بارے میں سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا یہ فعل جائز ہے-اور معاشرے کی ضرورت بن سکتا ہے ؟؟
حلالہ جائز نہیں ہے۔٣-دوسرے مرد سے حلالہ کی صورت میں اگر عورت کو حمل ٹھر جاتا ہے - تو بچہ کے نان نفقے کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟ قرآن و احادیث نبوی میں اس کا کیا حکم ہے- (یہ بات ذہن میں رہے کہ اور دوسرے معاملات میں قرآن و حدیث نے بچے کی کفالت کا تفصیلی حکم نافذ کیا ہے)- تو حلالہ کی صورت میں ایسا کوئی حکم کیوں نہیں ؟؟ اگر قرآن و حدیث میں اس مسلے کا کوئی حل نہیں تو آپ کی حنفی فقہ میں تو ضرور اس کا حل ہونا چاہیے -(کیوں کہ ان کے نزدیک حلالہ ضرورت کے تحت جائز ہے) تو اس کو بیان کریں-
جب پہلی بار ہی جائز نہیں بشرط حلالہ تو آئندہ کیوں جائز ہوگا؟ ہر گز نہیں۔٤-حلالہ کے لئے کس قسم کے مرد کی ضرورت ہوتی ہے - اگر کوئی اس کو کاروبار بنا لے - تو کیا اس سے حلالہ جائز ہو گا؟؟ احناف اپنی حنفی فقہ کی سے اس کا جواب دیں؟؟
1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
2- اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًۭا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًۭا ﴿56﴾
ترجمہ: تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (سورۃ النساء،آیت 65)
اور فرمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿31﴾
ترجمہ: (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ آل عمران،آیت31)