• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ جیسے لعنتی فعل پر آپکو سمجھانے کے لئے،،، انتہائی ضروری بات،،

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مصروفیت کی وجہ سے تھوڑا غائب تھا۔ اور اب یہ بحث اتنی آگے چلی گئی ہے کہ کس کس بات کا جواب دوں اور کس کس کا نہ دوں۔ جب کہ مصروفیت ابھی بھی ہے۔
اس لیے اس بحث کو ان شاء اللہ پھر کبھی کروں گا۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
مصروفیت کی وجہ سے تھوڑا غائب تھا۔ اور اب یہ بحث اتنی آگے چلی گئی ہے کہ کس کس بات کا جواب دوں اور کس کس کا نہ دوں۔ جب کہ مصروفیت ابھی بھی ہے۔
اس لیے اس بحث کو ان شاء اللہ پھر کبھی کروں گا۔
اشماریہ بھائی !
آپ بحث میں نہ پڑیں۔نہ ہی بحث مطلوب ہے بھائی۔
جو سوالات محمد علی جواد نے پیش کیئے ہیں ، پلیز ان کے جوابات دے دیں۔یہ بلکل ٹو دی پوائنٹ ہیں۔
ہمیں شدت سے ان سے متعلق جوابات کا انتظار ہے اس لیے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی !
آپ بحث میں نہ پڑیں۔نہ ہی بحث مطلوب ہے بھائی۔
جو سوالات محمد علی جواد نے پیش کیئے ہیں ، پلیز ان کے جوابات دے دیں۔یہ بلکل ٹو دی پوائنٹ ہیں۔
ہمیں شدت سے ان سے متعلق جوابات کا انتظار ہے اس لیے۔
بہنا آپ کی مراد شاید یہ پوسٹ ہے۔ اگر ایسا نہیں تو لنک دے دیجیے

السلام و علیکم-

قرآن میں الله کا فرمان ہے کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النساء 60
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں- پھر اگر آپس میں کسی معاملے میں نزاع پیدا ہو جائے تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیر دو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو- یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے-


سوره البقرہ آیت ٢٣٠ میں اگر ذرا غور کرلیا جائے تو یہ بات آسانی سے سمجھ آ سکتی ہے کہ حرام فعل "حلالہ" کے ذریے ایک عورت اپنے پہلے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو سکتی - کیوں کہ حلالہ کی بنیاد پر جو نکاح کیا جاتا ہے اس میں شرط حائل ہوتی ہے - اب ملاحظه ہو قرآن کی سوره البقرہ کی آیت ٢٣٠


فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ٢٣٠
پھر اگر اسے طلاق دے دی تو اس کے بعد اس کے لیے وہ حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر اگر وہ اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں رجوع کر لیں اگر ان کا گمان غالب ہو کہ وہ الله کی حدیں قائم سکیں گے اور یہ الله کی حدیں ہیں وہ انہیں کھول کر بیان کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں -


اس لفظ پر غور کریں فَإِنْ طَلَّقَهَا- پھر اگر وہ (یعنی دوسرا شوہر) اسے طلاق دے دے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں- یعنی دوسرا شوہر بغیر کسی شرط کے اس عورت کو اپنی مرضی سے طلاق دے - تب وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہو گی -ں فَإِنْ طَلَّقَهَا کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دوسرا شوہر شرط کا پابند نہیں -(وہ جب اپنی مرضی سے طلاق دے گا - تب ہی وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہو گی (اور یہی اہل سنّت سلف و صالحین کا موقف تھا اور ہے)-

یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ و آل آلہ وسلم اور صحابہ کرام نے اس حلالہ کو ایک لعنتی فعل قرار دیا اور زنا میں شمار کیا ہے- اس کے ذریے پہلے شوہر سے تجدید نکاح نہیں ہو سکتا -

کیوںکہ حلالہ کا فعل ہوتا ہی شروط کی بنیاد پر ہے -

والسلام -

یہاں سب سے پہلے احناف کا ایک اصول سنیے کہ احناف کے نزدیک نکاح میں شرائط فاسدہ کا اعتبار نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی شخص نکاح میں کوئی شرط فاسد لگائے تو نکاح درست ہو جاتا ہے اور شرط ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ شرط فاسد بذات خود ایک غلط اور ممنوع عمل ہے۔ بیع وغیرہ میں تو یہ منازعہ کی نوبت تک پہنچا دیتا ہے لیکن نکاح میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہدایہ اور مختلف کتب میں یہ قاعدہ مذکور ہے۔
اب اگر کوئی شخص حلالہ کی شرط لگاتا ہے تو یہ شرط فاسد ہے۔ چناں چہ اس کا نکاح عام نکاح کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اس عورت کو رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے اور شریعت یہی چاہتی ہے کہ وہ عورت کو اپنے پاس رکھ لے۔
سوال یہ ہے کہ پھر متعہ کیوں نکاح درست نہیں ہوتا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ متعہ میں ایک تو لفظ تمتع استعمال ہوتا ہے اور دوسرا متعین وقت ہوتا ہے طلاق کا۔ اسی طرح نکاح موقت میں بھی متعین وقت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اول تو حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے اور اگر کوئی کرتا ہے تو بھی اس میں ہمبستری کا ذکر ہوتا ہے۔ اس بات کا نہیں کہ اسے صبح طلاق ہو جائے گی۔
(یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ "صبح طلاق دے دوں گا" اور "صبح طلاق ہو جائے گی" میں بہت فرق ہے۔ اول الذکر صرف وعدہ طلاق ہے شرط طلاق نہیں۔)
اگر کوئی حلالہ میں یہ شرط لگاتا ہے کہ صبح طلاق ہو جائے گی تو میرا یہ خیال ہے کہ اس کا نکاح بھی نہیں ہوگا۔

اب اس کے بعد آئیے اس بات کی طرف کہ کیا فعل حرام پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے یا نہیں؟
امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ اگر کوئی فعل حرام ہے تو اس پر نتیجہ مرتب نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیجہ ایک نعمت ہے اور فعل حرام معصیت تو معصیت کی وجہ سے نعمت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟
احناف کے نزدیک جب نہی افعال شرعیہ سے ہو تو نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ میں افعال حسیہ اور شرعیہ کی بحث میں نہیں جاتا۔ خلاصہ کلام احناف کا یہ ہے کہ ایک چیز خود تو درست ہوتی ہے لیکن کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس سے منع کیا جاتا ہے۔ جیسے روزہ خود تو مشروع ہے لیکن یوم نحر کی وجہ سے منع کیا گیا، اور بیع خود تو درست ہے لیکن شرط فاسد کی وجہ سے منع کر دی گئی۔ اور جیسے۔۔۔۔۔۔ نکاح خود تو درست ہے لیکن حلالہ کی شرط کی وجہ سے اس سے منع کر دیا گیا۔ (منع سے مراد حرام ہونا ہے۔)
اب ایسی صورت میں کوئی شخص جب وہ مشروع اور درست فعل کر رہا ہے جسے کسی اور وصف کی وجہ سے ممنوع قرار دیا گیا ہے تو اس فعل مشروع کا نتیجہ بھی نکلنا چاہیے۔ وہ نتیجہ کیا ہے؟ بیع فاسد میں ملک اور نکاح حلالہ میں۔۔۔۔۔ حلت۔
یہ بحث ہے اصول فقہ کی جسے میں علماء کی جماعتوں کے فہم کا طریقہ کہتا ہوں۔

اسی بات کو اب ہم قرآن کریم کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔
آپ نے پہلی آیت جو کتابت فرمائی اس کا تو یہاں محل ہی نہیں ہے۔
دوسری آیت کریمہ میں آپ نے فرمایا کہ شوہر بغیر شرط کے طلاق دے دے۔ تو میرے انتہائی محترم بھائی! شرط سے اگر آپ کی وقت مقررہ پر طلاق خود ہو جانے کی شرط ہے تو اس کے ساتھ تو نکاح ہی درست نہیں ہوتا۔ لیکن اگر مراد اس سے شرط حلالہ ہے تو وہ شرط فاسد ہونے کی وجہ سے خود ساقط ہو چکی ہے۔ اب شوہر کو پورا اختیار ہے کہ وہ اس عورت کو اپنے پاس رکھ لے۔ اس پر کوئی شرط لازم نہیں لیکن وہ پھر بھی صرف ایک کی ہوئی بات کو پورا کر رہا ہے تو کیا وہ قرآن کے ان صریح الفاظ کی روشنی میں نہیں آتا؟ "پھر اگر وہ طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے یہاں تک کے دوسرے شوہر سے نکاح (یا ہمبستری) کرے"۔
قرآن نے مطلقا اور واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر وہ طلاق دے دے تو حلال ہے۔ اول تو کسی شرط کی نفی کا ذکر ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو یہاں شرط موجود نہیں ہے۔
شرط موجود نہیں ہونے پر ایک واضح علامت یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیوی کو طلاق نہیں دیتا تو کوئی عدالت اسے مجبور نہیں کر سکتی اور نہ اس سے مطالبہ ہو سکتا ہے۔ یعنی شرط کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔

تو آپ نے فرمایا کہ قرآن میں بغیر شرط کے نکاح کا ذکر ہے۔ اور میں نے عرض کیا کہ اول تو ایسی کوئی قید یہاں نہیں ہے لیکن اگر قید دیگر دلائل سے مانیں تو بھی یہاں شرط موجود نہیں ہے۔
یہ بات مکمل ہوئی۔

اب محترمی انس بھائی کی ایک دو باتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ جناب مجھ سے کافی زیادہ علم رکھتے ہیں اور میں کیا حیثیت رکھتا ہوں کہ ان کی باتوں پر رد کروں لیکن اپنی ناقص فہم کے مطابق عرض کرتا ہوں۔
میں نے تمام پوسٹس نہیں پڑھیں۔ جو پڑھی ہیں ان میں سے بعض کی بات کر رہا ہوں۔
محترمی انس بھائی نے فرمایا کہ قرآن میں نکاح سے مراد عقد نکاح ہے اور ہمبستری حدیث امرءۃ رفاعۃ قرظی سے ثابت ہو رہی ہے۔
محترم بھائی! قرآن نے لفظ "تنکح" کا ذکر کیا ہے۔ نکاح کے دو معنی آتے ہیں: ایک وطی یا جماع اور دوسرا عقد نکاح۔
تاج العروس میں ہے:۔
(النكاح) ، بالكسر، في كلام العرب: (الوطء) ، في الأصل، (و) قيل: هو (العقد له) ، وهو التزويج، لأنه سبب للوطء المباح، وفي (الصحاح) : النكاح: الوطء، وقد يكون العقد.
آگے لفظ "زوج" کا ذکر ہے۔ جس کے معنی شوہر یا خاوند کے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ جو "پہلے سے" شوہر ہو اس سے نکاح کا کیا مطلب ہوا؟؟؟؟
تو بلاغت کے اعتبار سے یہاں دو توجیہات ممکن ہیں۔
  1. نکاح جماع کے معنی میں ہے یعنی دوسرے شوہر سے جماع کرے۔
  2. نکاح عقد کے معنی میں ہے اور زوج کا لفظ ما یکون (آئیندہ) کے اعتبار سے کہا گیا ہے۔
جب ہم حدیث امراۃ رفاعۃ قرظی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پہلے معنی یعنی نکاح بمعنی جماع کو ترجیح حاصل ہوتی نظر آتی ہے۔ اس لیے یہاں اس کو مراد لیا ہے۔
البتہ جماع کے ساتھ زوج کی شرط واقعی ہے۔ اور زوج وہ بن جاتا ہے جیسے اوپر تفصیل گزر گئی۔


دوسری بات روایت ابن عمر رض کی۔
اس پر جو اقوال آپ نے تحریر فرمائے وہ میں پڑھ چکا ہوں اور یہ لکھتے وقت میرے ذہن میں بھی تھے۔
میرے محترم من السنۃ، امرنا اور نہینا میں تو رفع صراحتا ثابت ہوتا ہے (و فیہ اختلاف ایضا) لیکن کنا نعد اور ان الفاظ میں ہر لحاظ سے فرق ہے جو آپ پر بھی مخفی نہیں ہوگا۔ لہذا ان الفاظ سے اس کی بحث تو نہیں ہوسکتی۔ وجہ یہ ہے کہ صحابی جب من السنۃ کہے گا تو سنت نبی ﷺ کی ہی مراد ہو گی، جب امرنا کہے گا تو ظاہر ہے آمر نبی مکرم ﷺ ہی ہوں گے اور جب نہینا کہے گا تو ناہی بھی میرے آقا ﷺ ہی ہوں گے۔ لیکن جب کنا نعد (ہم شمار کرتے تھے) کہا جائے گا تو اس میں نبی ﷺ کی جانب کس بات کی نسبت ہوگی؟؟؟
ہاں اس کی بحث تقریر رسول ﷺ کی تحت ہو سکتی ہے کہ صحابی کہیں کنا فعلنا فی عہد رسول اللہ ﷺ (ہم نبی ﷺ کے زمانے میں کرتے تھے) تو ظاہر ہوتا ہے کہ نبی ﷺ نے اس کام سے منع نہیں فرمایا۔ اس بات میں کس قدر مضبوطی ہے اس سے قطع نظر تقریر رسول ﷺ کو دیکھیے کہ یہ کیا ہے؟ نبی ﷺ ایک امر کا مشاہدہ فرمائیں اور اس سے روکیں نہ۔ یہ تقریر رسول ﷺ ہے۔ لیکن یہ امر مشاہد پر تو ہو سکتی ہے امر عقلی پر نہیں ہو سکتی۔
جیسے کوئی صحابی کہیں: ہم نبی ﷺ کے زمانے میں ایسا "سمجھتے" تھے یا ہم نبی ﷺ کے زمانے میں ایسا "سوچتے" تھے۔ اس سے تقریر رسول ثابت نہیں ہوتی۔ اسی طرح "عد" (شمار کرنا (کسی بات کو)) بھی ایک امر عقلی ہے۔ ہم نبی پاک ﷺ کے لیے علم غیب نہیں مانتے اور اس بات کے ذکر کا صحابی نے تذکرہ نہیں کیا تو بھلا تقریر کیسے ثابت ہوئی؟
آپ مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں اس لیے اگر آپ محدثین کا الفاظ "ظن" وغیرہ پر بھی یہ فیصلہ جانتے ہیں تو مجھے مطلع فرمائیے۔
جزاک اللہ خیرا

آگے ایک بحث اور۔۔۔
ہر آیت قرآنی متواتر ہے۔ اور حدیث متواتر کو خبر واحد پر ترجیح ہوتی ہے۔ بلکہ حدیث کے رد و قبول میں تو ایک راوی کی ایک سے زائد راوی سے مخالفت کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ تو آخر کیا وجہ ہے کہ حدیث متواتر کو تواتر کی وجہ سے خبر واحد پر ترجیح ہو اور متواتر کو دلائل میں اول درجہ دیا جائے اور خبر واحد سے اس میں فرق نہیں کیا جائے اور آیت قرآنی جو حدیث متواتر سے بھی کہیں زیادہ تواتر رکھتی ہے اس کی یہ حیثیت نہ ہو؟ اس میں خبر واحد سے تخصیص کر لی جائے؟ یہ تو محدثین کے اصول کے بھی خلاف ہے اور عقل کے بھی۔ شاکر بھائی امید ہے آپ کی بات کی وضاحت ہو گئی ہوگی۔

اللہ تعالی ہم سب پر اپنا کرم فرمائے اور ہمیں علم نافع عطا فرمائے۔
میرے جواب میں اگر تاخیر ہو جائے تو معذرت خواہ ہوں گا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یہاں سب سے پہلے احناف کا ایک اصول سنیے کہ احناف کے نزدیک نکاح میں شرائط فاسدہ کا اعتبار نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی شخص نکاح میں کوئی شرط فاسد لگائے تو نکاح درست ہو جاتا ہے اور شرط ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ شرط فاسد بذات خود ایک غلط اور ممنوع عمل ہے۔ بیع وغیرہ میں تو یہ منازعہ کی نوبت تک پہنچا دیتا ہے لیکن نکاح میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہدایہ اور مختلف کتب میں یہ قاعدہ مذکور ہے۔

کیا ہم سب احناف کے اصول کے پابند ہیں - کیا اہمیت ہے احناف کی - اس بات کو احناف کے اصولوں پر نہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کے اصولوں پر بیان کریں -

احناف کے نزدیک نکاح میں شرائط فاسدہ کا اعتبار نہیں ہوتا یعنی اگر کوئی شخص نکاح میں کوئی شرط فاسد لگائے تو نکاح درست ہو جاتا ہے اور شرط ختم ہو جاتی ہے۔
کیا یہ قاعدہ ہدایہ اور احناف کی مختلف کتابوں میں موجود ہونا ہم سب کے لیے دلیل ہے -

اس کی وجہ غالبا یہ ہے کہ شرط فاسد بذات خود ایک غلط اور ممنوع عمل ہے۔ بیع وغیرہ میں تو یہ منازعہ کی نوبت تک پہنچا دیتا ہے لیکن نکاح میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہدایہ اور مختلف کتب میں یہ قاعدہ مذکور ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ایک طرف کیا کہہ رھے ہیں

اب اگر کوئی شخص حلالہ کی شرط لگاتا ہے تو یہ شرط فاسد ہے۔ چناں چہ اس کا نکاح عام نکاح کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اس عورت کو رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے اور شریعت یہی چاہتی ہے کہ وہ عورت کو اپنے پاس رکھ لے۔

اور دوسری طرف کیا کہہ رھے ہیں
سوال یہ ہے کہ پھر متعہ کیوں نکاح درست نہیں ہوتا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ متعہ میں ایک تو لفظ تمتع استعمال ہوتا ہے اور دوسرا متعین وقت ہوتا ہے طلاق کا۔ اسی طرح نکاح موقت میں بھی متعین وقت ہوتا ہے
تیسری طرف کیے کہہ رھے ہیں

اس کے برعکس اول تو حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے اور اگر کوئی کرتا ہے تو بھی اس میں ہمبستری کا ذکر ہوتا ہے۔ اس بات کا نہیں کہ اسے صبح طلاق ہو جائے گی۔
(یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ "صبح طلاق دے دوں گا" اور "صبح طلاق ہو جائے گی" میں بہت فرق ہے۔ اول الذکر صرف وعدہ طلاق ہے شرط طلاق نہیں۔)
چوتھی طرف کیا کہہ رھے ہیں
اگر کوئی حلالہ میں یہ شرط لگاتا ہے کہ صبح طلاق ہو جائے گی تو میرا یہ خیال ہے کہ اس کا نکاح بھی نہیں ہوگا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

امام شافعی رح فرماتے ہیں کہ اگر کوئی فعل حرام ہے تو اس پر نتیجہ مرتب نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیجہ ایک نعمت ہے اور فعل حرام معصیت تو معصیت کی وجہ سے نعمت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟

امام شافعی رح تو یاد آ جاتے ہیں آپ کو یہاں - کیا امام شافعی رح احناف کے نزدیک حجت ہیں -
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
احناف کے نزدیک جب نہی افعال شرعیہ سے ہو تو نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ میں افعال حسیہ اور شرعیہ کی بحث میں نہیں جاتا۔ خلاصہ کلام احناف کا یہ ہے کہ ایک چیز خود تو درست ہوتی ہے لیکن کسی دوسری چیز کی وجہ سے اس سے منع کیا جاتا ہے۔ جیسے روزہ خود تو مشروع ہے لیکن یوم نحر کی وجہ سے منع کیا گیا، اور بیع خود تو درست ہے لیکن شرط فاسد کی وجہ سے منع کر دی گئی۔ اور جیسے۔۔۔۔۔۔ نکاح خود تو درست ہے لیکن حلالہ کی شرط کی وجہ سے اس سے منع کر دیا گیا۔ (منع سے مراد حرام ہونا ہے۔)
اب ایسی صورت میں کوئی شخص جب وہ مشروع اور درست فعل کر رہا ہے جسے کسی اور وصف کی وجہ سے ممنوع قرار دیا گیا ہے تو اس فعل مشروع کا نتیجہ بھی نکلنا چاہیے۔ وہ نتیجہ کیا ہے؟ بیع فاسد میں ملک اور نکاح حلالہ میں۔۔۔۔۔ حلت۔
یہ بحث ہے اصول فقہ کی جسے میں علماء کی جماعتوں کے فہم کا طریقہ کہتا ہوں۔

خوب تاویل کی آپ نے - صرف اپنی فقہ کا دفاع کرنے کے لیے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
آپ فرماتے ہیں کہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کاصاف سیدھامطلب تویہ نکلتاہے کہ حلالہ حضور پاک کے دور میں بھی رائج تھا۔ آپ کسی صحیح روایت سے ثابت کریں کہ حلالہ کا قبیح فعل نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں بھی رائج تھا-

یہ ضروری نہیں کہ کوئی برا یا حرام فعل جس کی قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئ ہو یا اس عذاب کا ذکر ہو- وہ لازمی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں وقوع پذیر ہوا ہو - ہم جنس پرستی کے فعل کی قرآن و احادیث نبوی میں ممانعت اور عذاب کا ذکر جتنی تفصیل سے ہے -(جو قوم لوط علیہ سلام کا عمل تھا)- اتنا تفصیلی ذکر اور کسی گناہ کا کم ہی ہے - لیکن عرب کے معاشرے میں یہ فعل نبی کریم کے دور میں توکیا بعد کے ادوار میں شاید ہی کسی نے کیا ہو - تو کیا اب ہم اس کی حرام ہونے کی علت سے انکار کریں ؟؟

دوسری بات یہ کہ اگر 'حلالہ' کے قبیح فعل کو ہم برا تسلیم کرنے کے باوجود شریعت میں اس کو جگہ دے دیں - تو اس سے مزید قباحتیں پیدا ہو جائیں گی -اور ایسی قباحتیں کہ جن کا قرآن میں کوئی حکم موجود نہیں-

مثال کے طور پرایک آدمی جلد بازی میں اپنی بیوی کوتین طلاق دے دیتا ہے (جیسا کہ احناف کے ہاں ہوتا ہے) - اب وہ پچھتاتا ہے - فتویٰ ملتا ہے کہ اب یاہو صورت دوبارہ نکاح کی ہے کہ کسی اور سے حلالہ کروایا جائے - تب تمہاری بیوی حلال ہو گی -

١-کیا حلالہ کے بعد وہ انسان اپنی اس بیوی کو اسی طرح قبول کرے گا - جس طرح پہلے کرتا تھا ؟؟؟

٢ -کیا اس کی بیوی کی کوئی عزت نہیں - وہ کیا سوچے گی کہ صرف اس کو اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے واسطے دو تین راتوں کے لئے ایک دوسرے مرد کو سونپ دیا گیا - ایسی صورت میں وہ خودکشی بھی کر سکتی ہے - احناف ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراس بارے میں سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا یہ فعل جائز ہے-اور معاشرے کی ضرورت بن سکتا ہے ؟؟

٣-دوسرے مرد سے حلالہ کی صورت میں اگر عورت کو حمل ٹھر جاتا ہے - تو بچہ کے نان نفقے کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟ قرآن و احادیث نبوی میں اس کا کیا حکم ہے- (یہ بات ذہن میں رہے کہ اور دوسرے معاملات میں قرآن و حدیث نے بچے کی کفالت کا تفصیلی حکم نافذ کیا ہے)- تو حلالہ کی صورت میں ایسا کوئی حکم کیوں نہیں ؟؟ اگر قرآن و حدیث میں اس مسلے کا کوئی حل نہیں تو آپ کی حنفی فقہ میں تو ضرور اس کا حل ہونا چاہیے -(کیوں کہ ان کے نزدیک حلالہ ضرورت کے تحت جائز ہے) تو اس کو بیان کریں-

٤-حلالہ کے لئے کس قسم کے مرد کی ضرورت ہوتی ہے - اگر کوئی اس کو کاروبار بنا لے - تو کیا اس سے حلالہ جائز ہو گا؟؟ احناف اپنی حنفی فقہ کی سے اس کا جواب دیں؟؟

آپ کے تفصیلی جواب کا انتظار رہے گا -

والسلام -
اشماریہ بھائی
یوں تو یہ سوالات کسی اور سے کیئے گئے ہیں۔
مگر جب کہ آپ جواب دے ہی رہیں ہیں تو ذرا ان سوالات پر بھی روشنی ڈالیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی
یوں تو یہ سوالات کسی اور سے کیئے گئے ہیں۔
مگر جب کہ آپ جواب دے ہی رہیں ہیں تو ذرا ان سوالات پر بھی روشنی ڈالیں۔

محترم -
آپ نے جوغیر اخلاقی الفاظ جو میری پوسٹ کے حوالے سے دیے گئے ان کو نظر انداز کر کے -آپ سے اس پوسٹ کے حوالے سے کچھ سوال ہیں -
آپ فرماتے ہیں کہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کاصاف سیدھامطلب تویہ نکلتاہے کہ حلالہ حضور پاک کے دور میں بھی رائج تھا۔ آپ کسی صحیح روایت سے ثابت کریں کہ حلالہ کا قبیح فعل نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں بھی رائج تھا-
یہ ضروری نہیں کہ کوئی برا یا حرام فعل جس کی قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئ ہو یا اس عذاب کا ذکر ہو- وہ لازمی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں وقوع پذیر ہوا ہو - ہم جنس پرستی کے فعل کی قرآن و احادیث نبوی میں ممانعت اور عذاب کا ذکر جتنی تفصیل سے ہے -(جو قوم لوط علیہ سلام کا عمل تھا)- اتنا تفصیلی ذکر اور کسی گناہ کا کم ہی ہے - لیکن عرب کے معاشرے میں یہ فعل نبی کریم کے دور میں توکیا بعد کے ادوار میں شاید ہی کسی نے کیا ہو - تو کیا اب ہم اس کی حرام ہونے کی علت سے انکار کریں ؟؟
دوسری بات یہ کہ اگر 'حلالہ' کے قبیح فعل کو ہم برا تسلیم کرنے کے باوجود شریعت میں اس کو جگہ دے دیں - تو اس سے مزید قباحتیں پیدا ہو جائیں گی -اور ایسی قباحتیں کہ جن کا قرآن میں کوئی حکم موجود نہیں-
مثال کے طور پرایک آدمی جلد بازی میں اپنی بیوی کوتین طلاق دے دیتا ہے (جیسا کہ احناف کے ہاں ہوتا ہے) - اب وہ پچھتاتا ہے - فتویٰ ملتا ہے کہ اب یاہو صورت دوبارہ نکاح کی ہے کہ کسی اور سے حلالہ کروایا جائے - تب تمہاری بیوی حلال ہو گی -
١-کیا حلالہ کے بعد وہ انسان اپنی اس بیوی کو اسی طرح قبول کرے گا - جس طرح پہلے کرتا تھا ؟؟؟
٢ -کیا اس کی بیوی کی کوئی عزت نہیں - وہ کیا سوچے گی کہ صرف اس کو اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے واسطے دو تین راتوں کے لئے ایک دوسرے مرد کو سونپ دیا گیا - ایسی صورت میں وہ خودکشی بھی کر سکتی ہے - احناف ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراس بارے میں سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا یہ فعل جائز ہے-اور معاشرے کی ضرورت بن سکتا ہے ؟؟
٣-دوسرے مرد سے حلالہ کی صورت میں اگر عورت کو حمل ٹھر جاتا ہے - تو بچہ کے نان نفقے کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟ قرآن و احادیث نبوی میں اس کا کیا حکم ہے- (یہ بات ذہن میں رہے کہ اور دوسرے معاملات میں قرآن و حدیث نے بچے کی کفالت کا تفصیلی حکم نافذ کیا ہے)- تو حلالہ کی صورت میں ایسا کوئی حکم کیوں نہیں ؟؟ اگر قرآن و حدیث میں اس مسلے کا کوئی حل نہیں تو آپ کی حنفی فقہ میں تو ضرور اس کا حل ہونا چاہیے -(کیوں کہ ان کے نزدیک حلالہ ضرورت کے تحت جائز ہے) تو اس کو بیان کریں-
٤-حلالہ کے لئے کس قسم کے مرد کی ضرورت ہوتی ہے - اگر کوئی اس کو کاروبار بنا لے - تو کیا اس سے حلالہ جائز ہو گا؟؟ احناف اپنی حنفی فقہ کی سے اس کا جواب دیں؟؟
آپ کے تفصیلی جواب کا انتظار رہے گا -
والسلام -
اگر اس میں صرف سوالات کے جوابات فقہ حنفی سے مطلوب ہیں تو وہ میں دے دیتا ہوں۔

آپ فرماتے ہیں کہ اثر ابن عمر رضی اللہ عنہ کاصاف سیدھامطلب تویہ نکلتاہے کہ حلالہ حضور پاک کے دور میں بھی رائج تھا۔ آپ کسی صحیح روایت سے ثابت کریں کہ حلالہ کا قبیح فعل نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں بھی رائج تھا-
محترم! شاد بھائی نے دعوی نہیں کیا بلکہ روایت ابن عمر سے ظاہر ہونے والی ایک بات کا ذکر کیا ہے۔ آپ صحیح روایت سے کس بات کا ثبوت چاہ رہے ہیں؟
باقی اس روایت میں یہ ہے کہ ہم ایسا سمجھتے یا شمار کرتے تھے۔ کب؟ نبی ﷺ کے عہد میں۔ یعنی آپ ﷺ کے دور میں ایسا ہوتا تھا اور ہم اسے برا سمجھتے تھے۔
آپ دعوے کی جہت ملاحظہ کر کے روایت کا مطالبہ فرمائیں۔

یہ ضروری نہیں کہ کوئی برا یا حرام فعل جس کی قرآن یا احادیث نبوی میں صراحت کے ساتھ ممانعت آئ ہو یا اس عذاب کا ذکر ہو- وہ لازمی نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے دور میں وقوع پذیر ہوا ہو - ہم جنس پرستی کے فعل کی قرآن و احادیث نبوی میں ممانعت اور عذاب کا ذکر جتنی تفصیل سے ہے -(جو قوم لوط علیہ سلام کا عمل تھا)- اتنا تفصیلی ذکر اور کسی گناہ کا کم ہی ہے - لیکن عرب کے معاشرے میں یہ فعل نبی کریم کے دور میں توکیا بعد کے ادوار میں شاید ہی کسی نے کیا ہو - تو کیا اب ہم اس کی حرام ہونے کی علت سے انکار کریں ؟؟
ہم جنس پرستی کی سزائیں خلفائے اربعہ کے دور میں جاری کی گئی ہیں۔ مشکاۃ دیکھیے۔
لیکن آپ نے اس میں اور حلالہ میں کیا مناسبت دیکھی ہیے؟

مثال کے طور پرایک آدمی جلد بازی میں اپنی بیوی کوتین طلاق دے دیتا ہے (جیسا کہ احناف کے ہاں ہوتا ہے) - اب وہ پچھتاتا ہے - فتویٰ ملتا ہے کہ اب یاہو صورت دوبارہ نکاح کی ہے کہ کسی اور سے حلالہ کروایا جائے - تب تمہاری بیوی حلال ہو گی -
حلالہ شرط کے ساتھ حرام ہے۔ یہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ اب اس کی روشنی میں رہتے ہوئے ان سوالات کو دیکھیے۔

١-کیا حلالہ کے بعد وہ انسان اپنی اس بیوی کو اسی طرح قبول کرے گا - جس طرح پہلے کرتا تھا ؟؟؟
اگر کسی شخص نے حرام حلالہ کروانا گوارا کر لیا ہے تو وہ یہ بھی برداشت کر لے گا۔

٢ -کیا اس کی بیوی کی کوئی عزت نہیں - وہ کیا سوچے گی کہ صرف اس کو اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال کرنے کے واسطے دو تین راتوں کے لئے ایک دوسرے مرد کو سونپ دیا گیا - ایسی صورت میں وہ خودکشی بھی کر سکتی ہے - احناف ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کراس بارے میں سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا یہ فعل جائز ہے-اور معاشرے کی ضرورت بن سکتا ہے ؟؟
حلالہ بالشرط کو تو ہم حرام قرار دیتے ہیں۔ پھر اس سوال کا مطلب؟

٣-دوسرے مرد سے حلالہ کی صورت میں اگر عورت کو حمل ٹھر جاتا ہے - تو بچہ کے نان نفقے کا ذمہ دار کون ہو گا؟؟ قرآن و احادیث نبوی میں اس کا کیا حکم ہے- (یہ بات ذہن میں رہے کہ اور دوسرے معاملات میں قرآن و حدیث نے بچے کی کفالت کا تفصیلی حکم نافذ کیا ہے)- تو حلالہ کی صورت میں ایسا کوئی حکم کیوں نہیں ؟؟ اگر قرآن و حدیث میں اس مسلے کا کوئی حل نہیں تو آپ کی حنفی فقہ میں تو ضرور اس کا حل ہونا چاہیے -(کیوں کہ ان کے نزدیک حلالہ ضرورت کے تحت جائز ہے) تو اس کو بیان کریں-
حلالہ جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر کسی نے کر لیا تو بچہ جس کے وہ نکاح میں تھی اس کا ہوگا۔

٤-حلالہ کے لئے کس قسم کے مرد کی ضرورت ہوتی ہے - اگر کوئی اس کو کاروبار بنا لے - تو کیا اس سے حلالہ جائز ہو گا؟؟ احناف اپنی حنفی فقہ کی سے اس کا جواب دیں؟؟
جب پہلی بار ہی جائز نہیں بشرط حلالہ تو آئندہ کیوں جائز ہوگا؟ ہر گز نہیں۔

خلاصہ کلام یہ کہ آپ لوگ جو اپنے ذہن میں ہوتا ہے اسی کو احناف کا مسلک کیوں سمجھتے ہیں اور اسی کو لے کر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟
احناف کا جو مسلک احناف بتاتے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے کیوں کہ اس پر اعتراضات کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔

میں ایک بار پھر واضح طور پر کہتا ہوں کہ حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہے لیکن نکاح ہو جائے گا۔ ہمبستری کے بعد عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جائے گی اور زوج ثانی کے لیے اسے طلاق دینا ہرگز ضروری نہیں ہے۔
یہ احناف کا مسلک ہے نہ کہ یہ کہ حلالہ بالکل جائز اور اچھا عمل ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم :

مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک چیز حلالہ جس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اس کے دفاع کے لئے اتنی لمبی چوڑی بحث کی جا رہی ہے کیا یہ طرز عمل صحابہ رضی اللہ عنہ کا تھا میرے بھائی ھم سب کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل حجت ہیں - اور دلیل سامنے آنے کے بعد اگر کوئی شخص اس پر اعتراض کریں - وہ اپنے ایمان کی فکر کریں -

دلیل! حلالہ کسی بھی قسم کو ہو وہ حرام ہیں -


1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2076 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.


2- اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتا ليے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم آپ ضرور بتائيں.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالى حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1936 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے حسن قرار ديا ہے.


ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًۭا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًۭا ﴿56﴾

ترجمہ: تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے (سورۃ النساء،آیت 65)

اور فرمایا:

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌۭ رَّحِيمٌۭ ﴿31﴾

ترجمہ: (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (سورۃ آل عمران،آیت31)
اور آخر میں اس پوسٹ کو بھی ضرور پڑھ لے -
اور ایک آڈیو ہے شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی اس کا لنک یہ ہے
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top