حلب کے پاس تو سر درد کی گولی بھی نہی!
طبیب نہیں شفا نہیں دوا نہیں
دعائوں سے موت ٹلتی ہے بھلا
پچھلے چند دن سے بوجہ ہسپتال کے لگاتار چکر لگ رہے۔
کوئی ایسی مصروفیت ہوتی نہیں اس لئے ادھر ادھر گپ شپ، گفتگو، حال احوال چلتا رہتا یا پھر مشاھدے کی سان تیز کرتے وقت گزر جاتا۔
اطواری میں حادثاتی مریضوں کی چیخیں۔ النسائی کے باہر منتظر شوہر کا فکر مند چہرہ، زچہ بچہ کی خیریت جان کر روتے ھنستے وضو خانے کی طرف اٹھتے قدم۔
نومولود کی قلقاریاں اور اقرباء کی پھولوں سے لدی تحائف کی ٹوکریوں کے ہمراۂ آمد۔
امراض قلب کی جانب زیر لب دعائیں مانگتے جاتے تیمادار اور زرد چہرے والے مریض۔
ایمبولینسوں کے سائرن، رضاکاروں کی پھرتیاں
کسی گاڑی کی ٹکر سے زخم زخم بے ہوش نوجوان اور اس کے منہ سے نکلتی جھاگ۔ دوا لگاتی پٹی باندھتی نرسیں۔
میں سوچتا ہوں فقط آدھے گھنٹے کو صرف تیس منٹ کو یہ سب بندھ ہو جائے کتنے مریضوں کی سانسیں رک جائیں گی کتنے بیماروں کو موت آ دبوچے گی
کتنے زخمیوں کی آھوں سے آسمان دھل جائے گا۔ کتنی مائیں بددعائوں کے لئے جھولیاں پھیلا لیں گی اور کتنے مرد عملے کے ساتھ مرنے مارنے ہر اتر آئیں گے۔
کل شب آٹھ دس سال کے زخمی بچے کو لایا گیا غالبا چھت سے گر کر چوٹ کھا بیٹھا تھا۔ الحمداللہ کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہ تھا مگر اس کے ساتھ سبھی گھر والے ہی دوڑے چلے آئے تھے باپ کے چہرے پر سمٹے تفکرات اور برقعے میں لپٹی ماں کا لرزاں بدن ۔ بوڑھا دادا لاٹھی کم ٹیکتا اور زور زور سے مناجات زیادہ کر رہا تھا۔ کوئی ھڈی نہیں ٹوٹی تھی۔ خوف کے باعث وہ چیخنے کے انداز میں بول رہا تھا۔ جمعے کی وجہ سے مریض زیادہ تو سبھی عملہ ادھر ادھر مصروف تھا۔ میں کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے زرا آگے ہوا ، جب بچے کے باپ نے مجھے ڈاکٹر سمجھ کر پکڑ لیا اور غصے سے کہنے لگا "عجیب ڈاکٹر ہو میرا بچہ مر رہا اور تم مزے کر رہے۔"جب تک میں بولتا وہ میرا گریبان پکڑے دیوار سے لگا چکا تھا "اگر میرے بچے کو کچھ ہوا تو تمہاری خیر نہیں" ۔
کب کوئی آیا۔ کب اس نے گریبان چھوڑا کب میں گاڑی میں پہنچا۔ کب آنسو بند ہوئے، میری ہچکیاں ختم ہوئیں ھاں بس اتنا یاد رہا کہ کسی حلب والے نے میرا گریبان پکڑا ہوا اور منظر قیامت کا ہے