حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
اشماریہ''نکاح بشرط التحلیل ناجائز ہونے کے باوجود منعقد ہوجاتا ہے
(در س ترمذی، 3؍398۔ 401 ۔از مولانا تقی عثمانی ، کراچی
اشماریہ''نکاح بشرط التحلیل ناجائز ہونے کے باوجود منعقد ہوجاتا ہے
(در س ترمذی، 3؍398۔ 401 ۔از مولانا تقی عثمانی ، کراچی
ہمارے ایک دوست نے اسی تناظر میں ایک بہت ہی بہترین بات کہی تھی کہان کا یہی کہنا تھا کہ جو مذہب ایک حرام کام کو جائز قرار دیتا ہے اور ایک مسلمان کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ جلد بازی میں کیے گئے فیصلے ( یعنی اکھٹی ٣ طلاقوں پر میاں بیوی میں جدائی) ہو جانے پر نظر ثانی کر سکے-
ابتسامہہمارے ایک دوست نے اسی تناظر میں ایک بہت ہی بہترین بات کہی تھی کہ
"یار ان حنفیوں سے تو Nokia والے بھی اچھے ہیں کوئی بھی چیز Delete کرنے سے پہلے پوچھتے تو ہیں کہ Are you sure you want to delete selected item. یہ تو بالکل مہلت نہیں دیتے۔
الحىد لله علىٰ ذٰلكابتسامہ۔ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں اہلحدیث بنایا ہے۔ الحمدللہ
يوںالحىد لله علىٰ ذٰلك
الحمدلله عَلیٰ ذلك
جزاک الله بھائی iPad پر لکھا تھا٬ اس لیے شاید display صحیح نہیں آیا ہوگا
بھائی، ہماری نظر ہوتی ہے نتائج پر۔ اور ہم ڈھکے چھپے اس طرح کے کام نہیں کرتے ہیں۔
نہ تو آپ ہی حلالہ کی مخالفت کر رہے ہیں نہ آپ کے علماء ہی کرتے ہیں۔ الفاظ کا ہیر پھیر ہی ہے کہ "حلالہ کروا لو" واقعی لکھا نہیں ملتا۔ لیکن طلاق کے بعد بندہ جس مصیبت میں پھنسا ہوتا ہے، اسے ایسے فتووں میں اور لکھے ہوئے فتووں میں بھی ایسا ہی مل جاتا ہے جس سے وہ خود حلالہ کروا کر مسئلے کا حل نکالنے پر تل جاتا ہے۔
ارسلان بھائی، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور آئندہ یہ حضرات جب بھی حلالہ سے انکار کریں تو یہ فتاویٰ ان کے منہ پر کر دیجئے، ساری حقیقت خود ہی کھل کر سامنے آ جائے گی۔
حلالہ کا کیا مطلب ہے؟
کیا ایسا کرنا درست ہے؟
May 10,2007
Answer: 420
(فتوى: 184/ل=184/ل)
حلالہ ایک اصطلاحی لفظ ہے، حلالہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر عورت کو تین طلاق دی جاتی ہے تو وہ اولاً عدت گذارے پھر دوسرے شوہر سے نکاح کرے اور وہ اس کے ساتھ دخول کرے، اس کے بعد وہ اپنی مرضی سے طلاق دے پھر یہ عورت عدت گذارے، اس کے بعد اس عورت کے لیے پہلے شوہر جس نے طلاق دی تھی اس کے لیے نکاح کرنا جائز ہوگا، ورنہ نہیں۔ چونکہ دوسرا شوہر نکاح اور وطی کے ذریعہ پہلے شوہر کے لیے نکاح کو حلال کرتا ہے اس لیے اس کا یہ فعل حلالہ کہلاتا ہے۔
حلالہ کی شرط پر نکاح کرنا مکروہ تحریمی ہے اگرچہ اس کی وجہ سے وہ شوہر اول کے لیے حلال ہوجائے گی: وکرہ التزوج للثاني تحریما بشرط التحلیل وإن حلت للأول (شامي: 5/47 ط زکریا دیوبند) لیکن اگر حلالہ کی شرط نہ کرے بلکہ اس کو چھپائے رکھے تو یہ مکروہ نہیں: أما إذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل ماجورًا (شامي: 5/48، ط زکریا دیوبند)
آن لائن حوالہ
اب بتائیے عوام کو اس فتویٰ سے کیا سمجھانا مقصود ہے؟؟؟
یہی نا کہ حلالہ کی شرط عائد نہ کرنا، بلکہ دل میں چھپا کر یہ کام کر لینا۔
بس فرق اتنا سا ہی ہے کہ مفتی صاحب خود اپنے قلم سے نہیں لکھتے کہ حلالہ کروا لو، لیکن
ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی باور کروا کر،
اور حلالہ کے علاوہ کوئی صورت واپسی کی نہیں کہہ کر،
پھر حلالہ تو مکروہ تحریمی ہے ،
لیکن اگر کر لیا جائے تو اس سے شوہر اول کے لئے حلال ہو جائے گی کہہ کر
اور آخر میں مکروہ تحریمی سے بھی بچنا چاہو، تو دل میں نیت رکھنا، ظاہر مت کرنا ،
اب بتائیے، اس پریشان حال شخص کو کیا خود اس نتیجہ تک پہنچا نہیں دیا گیا ہے، کہ وہ اس لعنتی فعل میں ملوث ہو کر کرائے کا سانڈ ڈھونڈتا پھرے،
ہاںمفتی صاحب نے وہ الفاظ ادا نہیں کئے کہ حلالہ کروا لو۔ لہٰذا سب کچھ جائز و درست ہو گیا اور
مفتی خوش، کہ بندہ کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک ایسا حل بتا دیا کہ جس سے اس کا کام بھی بن جائے گا، اور کسی حرام فعل کا ارتکاب بھی نہ ہوگا۔ اور نہ کوئی ہم پر اعتراض کر سکے گا، اعتراض کرے گا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے کب کہا "حلالہ کروا لو"۔
بندہ بھی خوش،کہ چلو کوئی راستہ تو نظر آیا، بیوی کے حصول کا۔ یہ اور بات کہ اس واقعہ کے بعد ساری زندگی خجالت اور ندامت اس کا پیچھا نہ چھوڑے۔
حلالہ کے لئے استعمال ہونے والا کرائے کا سانڈ سب سے زیادہ خوش، کہ اس نے دوست کے کہنے پر فقط دل ہی دل میں ارادہ کیا، اور ایک رات کے بعد طلاق دے ڈالی، مکروہ کا ارتکاب بھی نہ ہوا، بلکہ غالباًدوست کی مدد کے جذبہ اور نیت کا ثواب کا متمنی بھی رہے گا۔
''نکاح بشرط التحلیل ناجائز ہونے کے باوجود منعقد ہوجاتا ہے
(در س ترمذی، 3؍398۔ 401 ۔از مولانا تقی عثمانی ، کراچی
حرام کام کے ذریعے بیوی کو حلال قرآن نے کہا ہے۔ اور جلد بازی کے فیصلے پر حکم عمر رض کا لگایا ہوا ہے۔میں ایک صاحب کو جانتا ہوں کہ جنہوں نے حلالہ کی لعنتی فعل کے حنفی مذہب میں جائز ہونے کی بنا پر حنفیت کو خیر آباد که کر مسلک حق "مسلک اہل حدیث " اختیار کر لیا -ان کا یہی کہنا تھا کہ جو مذہب ایک حرام کام کو جائز قرار دیتا ہے اور ایک مسلمان کو اتنی مہلت نہیں دیتا کہ جلد بازی میں کیے گئے فیصلے ( یعنی اکھٹی ٣ طلاقوں پر میاں بیوی میں جدائی) ہو جانے پر نظر ثانی کر سکے- ایسے مذہب پر الله کی لعنت -
ابتسامہ
بھائی جان یہ صرف اپنی عوام کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں، کسی دیوبندی مولوی کی اپنی بہن یا بیٹی کو طلاق مل جائے تو پھر فتویٰ اہلحدیث سے لیا جاتا ہے، پھر حلالہ نہیں کروایا جاتا۔۔۔ اپنی عزت کی اتنی پرواہ ہے اور عوام کا استحصال کرنے میں کوئی شرم نہیں آتی۔۔۔ یا اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں اہلحدیث بنایا ہے۔ الحمدللہ
- محمد ابوبکر صاحب کے بیان میں "واضح تضاد" موجود ہے۔ اُن کے انکل نے فتویٰ سن کر ایک طرف تو یہ (جھوٹ) کہا کہ انہوں نے طلاق ہی نہیں دی۔ لیکن پھر دوبارہ نکاح بھی کرلیا۔ اس میں "حلالہ اور اندھی تقلید کا انجام" کہاں ہےِ؟ جس کا ذکر ابوبکر نے کیا ہے۔
- بات صرف اتنی ہے کہ اُن کے انکل نے حلالہ کا فتویٰ نہیں مانا۔ اور سیدھے طریقہ سے دوبارہ نکاح کرلیا۔ اُن کا عمل تو ٹھیک ہی تھا۔ البتہ انہوں نے اپنے "ہم مسلکوں" کا منہ بند کرنے کے لئے یہ غلط کہا کہ انہوں نے طلاق ہی نہیں دی۔
- منظور احمد کا تبصرہ انتہائی نامعقول اور غلط ہے، جو انہوں نے ابوبکر کی "غلط بیانی" سے متاثر ہوکر دیاہے۔ جب ابوبکر کے انکل نے طلاق کے بعد نکاح کرلیا تو پھر "ساری زندگی حرام اور بچہ بھی حرام" کا تبصرہ چہ معنی دارد؟
- ارسلان بھائی بھی یہاں "بغضِ حنفیہ" میں یہ ساری رام کہانی، (ایک غلط بیان اور اس پر ایک غلط تبصرہ) یہاں شیئر کر کے ایک غلط کام کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ آمین