السلام علیکم
تکلفات برطرف
جو انداز خطاب واعظ محترم حضرت ناصح اور مفکر ملت وقوم شیخ العرب والعجم ،اور شیخ الکل فی الکل نے اختیار فرمایا ہے ،احقر کو اتنی دسترس تو نہیں ہے اور نہ ہی میں مکالمے بازی کا کھلاڑی ہوں اور نہ ہی کسی ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں ڈائلاگ بازی سکھائی جاتی ہو یہ بھی جو کچھ تھوڑا بہت الجھنا سیکھ گیا ہوں وہ اسی فورم کے اراکین کی مرہون منت ہے،یہ سارے گُر یہیں سیکھنے کو ملے ہیں،
( ہائے میری قسمت ساری محنت بیکار گئی اتنا بہترین جواب لکھدیا تھا شاید دوبارہ نہ لکھ سکوں مضمون کو سینٹ کرتے وقت سب کچھ بیکا رہوگیا بس اتنا ہی آٹو سیو رہ گیا ایک گھنٹے کی محنت بیکا ر گئی چلیے دیکھتا ہوں کتنا ریمائنڈ ہوتا ہے)
اس کے لیے میں فورم کے ارکین کامشکور ہوں کہ ان کے طفیل میں کچھ ڈائلاگ بازی آگئی ہے اس لیے کہ میری دینا کچھ الگ ہی ہے ۔طالب علمی کے زمانے میں میں نے صرف اور صرف انبیاء ورسل علیہم الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرام رضون اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تابعین یا تبع تابین وغیرہم اورائمہ اربعہ یا دیگر علماء و مجتھیدین ومحدیثن کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں پڑھا تھا لیکن یہ فرقہ اہل حدیث کے بارے میں با لکل نہیں پڑھا تھا جن کا بچہ بچہ محدث ہوتا ہے زمانہ رسالت ماٰب صلی اللہ علیہ وسلم میں محدث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی ہوا کرتے تھے کوئی بچہ نہیں ہوا کرتا تھا اور یہ فرقہ دعویٰ کرتا ہے ہمارا بچہ بچہ محدث ہے (سبحان اللہ) جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ فرقہ (مروجہ اہل حدیث ) حدیث کو مانتے ہیں جانتے نہیں ہیں اگر جانتے تو ،ان کا یہ دعویٰ کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل کرتے ہیں غلط ہے اس لیے کہ اس حدیث کے بارے میں یہ حضرات کیا فرمائیں گے
ما انا علیہ واصحابی یا
ما أنا عليہ اليوم وأصحابي اس سے یہ واضح ہوتی ہے کہ یہ حضرات صحابی کے منکرین ہیں جیسا کہ فرمان رسالت ماٰب ﷺ
ما انا علیہ واصحابی یا
ما أنا عليہ اليوم وأصحابي سے وضح ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام نام ہے قرآن و حدیث اور آثار صحابہ (جب کہ تابعین اور تبع تا بعین بھی حدیث کے مصداق اس جماعت میں داخل ہیں) تو صرف دو کو ماننا اور باقی کا انکار کرنا یا ان کو نظر انداز کرنا یہ کون سا حدیث پر عمل ہے ۔جب کہ ائمہ اربعہ و دیگر اہل حق علماء ومجتھیدین قرآن وحدیث و آثار الصحابہ سے استفادہ کرتے ہیں اور یہ تینوں ہی دین کے اصل ماٰخذ ہیں تو معلوم یہ ہوا اہل حق کی جماعت وہ ہے جن کا ماٰخذ یہ تینوں ذرائع علم ہوں، اس کے علاوہ جو جماعت بھی آثار الصحابہ کی منکر ہو وہ باطل ہے۔ کیوں کہ ماانا علیہ واصحابی( جس پر میں اور میرے صحابی ہیں،) وہ جماعت برحق ہے اور جو ان تینوں ذرئع سے استفادہ کرے وہ برحق ہیں۔
اور یاد رہے اہل حق ہی ہمیشہ غالب رہے ہیں اور الحمد للہ احناف اہل حق ہیں اور غالب ہیں یعنی اکثریت میں ہیں تب بھی اور اب بھی احناف کی اکثریت ہے ۔جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمام امتوں میں غالب ہے اکثریت میں ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فخر ہے اور یہ فرقہ (مروجہ اہل حدیث) اس کو امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کم کرنے کا شوق ہے ان کے نزدیک مسلمانوں کی اکثریت ( سوائےفرقہ اہل حدیث کے) مشرک مرتد کافر زندیق ہیں تو بتائے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثریت میں ہوئی یا اقلیت میں۔ جب کہ امت کی اکثریت مقلدین کی ہے تو خود فیصلہ کر لیجئے کون حق پر ہیں وہ جو مکمل قرآن وحدیث وآثار پر عمل کرتے ہیں یا وہ جو صرف دو کو مانتے ہیں (قرآن وحدیث) اور قلیل تعداد میں ہیں اور اپنی اکثریت بڑھانے کی فکر میں ہیں جس طرح عیسائی مشنریاں عیسائیوں کی تعداد بڑھانے کی فکر میں ہیں ، اور ہر ہتھکنڈے کو استعمال میں لاتی ہیں اسی طرح یہ غیر مقلدین اپنی اکثریت ثابت کرنے کے چکر میں جو ان کی بات قبول نہیں کرتا اس کو یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں
ہم مقلدین حضرات اتنے فرخ دل ہیں کہ کسی کو جلدی مشرک کافر نہیں کہتے جب تک کہ کھلا شرک اور کفر نہ ہو ۔دوسرے ہماری نیک نیتی کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے ہماری نماز کسی بھی فرقے کے پیچھے ہوجاتی ہے یہ نہیں پوچھتے کہ یہ غیر مقلد تھا اس کے پیچھے نماز ہوئی کہ نہیں، (اس وجہ سے کہ یہ امت انتشار پھیلانے والی نہیں یا فسادی نہیں۔) مقلدین کی نماز سب کے پیچھے ہوجاتی ہے
خضر صاحب یہ مضمون دوبارہ لکھا ہے نہیں تو اس کا رنگ کچھ اور ہی تھا
اس لیے خضر صاحب سنئے
جب مسیحا دشمن جاں ہو تو کب ہے زندگی
کون رہبر بن سکے جب خضر بہکانے لگے
آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے حق میں کوئی دلیل دینا چاہتے ہیں تو قرآن یا سنت سے دیں یا ابن تیمیہ ، ابن قیم ، لجنہ دائمہ ، اور وہبہ زحیلی کو پیش کرنے کا کیا مقصد ہے آ پکا ؟
دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو آ پکے نزدیک یہ بطور ماخذ شریعت ہیں یا ہم ان کے مقلد ہیں دوسری بات کا اہل حدیث کا بچہ بچہ بھی جواب دے سکتا ہے کہ ہم قرآن وسنت کے خلاف کسی کی بات کو نہیں مانتے ۔
پہلی بات کی وضاحت آپ کے ذمے ہے کہ کہیں آپ ترقی تو نہیں کر چکے ؟
مذکورہ علماء آپ حضرات کے چشم و چراغ ہیں ارسلان بھائی نے ایک مثال دی تو ان کا جواب آپ ہی کے ستون سے دیا ہے اس میں چراغ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے
اور جہاں بچے بچے محدثین ہوں تو اسلام کا تو اللہ ہی مالک ہے جہاں بچے دلائل دیتے ہوں ، بچوں کی بات کا تو ویسے بھی اعتبار نہیں ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت چالیس سال کی عمر میں ملی یہاں بچوں کو محدث ہونے لی ڈگریاں ملتی ہیں ۔ہم مقلدین کے یہاں تو کم از کم بیس سال کی عمر تک پڑھنا پڑتا ہے اس کے بعد بھی پختگی کا دعویٰ نہیں کرتے اور آپ کے یہاں بچے ہی بچپن میں محدث ہوجاتے ہیں (سبحان اللہ)
پہلی بات کی وضاحت آپ کے ذمے ہے کہ کہیں آپ ترقی تو نہیں کر چکے ؟
جی آپ کے ہوتے ہوئے ترقی کا تصور ہی بیکار ہے تنزلی تو ہوسکتی ہے اس پوسٹ کے بعد اندازہ ہوجائےگا کتنی ترقی عنایت فرماتے ہیں اور کون کون نکل کر آتا ہے کیوں کہ آپ حضرات کا تو یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اسلام سے نکال کر مرتد بنانا مشرک بنانا آپ کے یہاں اس طرح کی فیکٹریاں ہیں،
ایسی باتیں آپ کے منصب افتاء کو زیب نہیں دیتیں ۔
میں تو پہلے ہی قائل ہوں کہ طعن تشنیع کرنا آپ حضرات کا مرغوب مشغلہ ہے
جس فتوی کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے اس کی بنیاد قرآن وسنت ہے کہ کسی کی من پسندی ہے
یعنی امام ابوحنفیہؒ نے ڈھائی سال مدت رضاعت قرار دی وہ خلاف قرآن وحدیث اور آپ کے علماء وہی بات کہیں اس کی بنیاد قرآن و سنت (سبحا ن اللہ مبروک)
سنت کے مطابق نہیں تو کیا اہل حدیث اس کا اندھا دھند دفاع کریں گے جیسے آپ لوگوں کا وطیرہ ہے ؟
اندھا دھند دفاع کرنا آپ حضرات کا وطیرہ ہے ایک تو یہی مذکورہ فتوے جس کو آپ کے علماء نے صادر فرمایا ہے اس کا کس طرح دفاع فرما رہے ہیں۔ اور سنئے آپ حضرات اپنے لوگوں کا کس دفاع فرماتے ہیں اور کس طرح اپنی تا ئید میں دوسرے لوگوں سے مضامین لکھواتے ہیں اس کا بین ثبوت یہاں ملاحظہ فرمائیں شرمائیں نہیں:
مسئلہ تدلیس ہو یا کوئی اور مسئلہ جس میں علمائ کے مابین اختلاف ہوجائے توضرری بات ہے کہ علمائ میں سے کوئی کسی کا قائل ہوتا ہے اور کوئی کسی کا ۔
بلکہ بعض دفعہ اپنی تائید میں مضمون خودلکھوائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اور مزید تعجب اس بات پر ہے کہ جن معاصرین اور ماضی قریب کے جن علمائے کرام کو اپنی تائید میں پیش کیا ہے ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کا یہ فن ہی نہیں اور نہ ان کی کوئی اس فن میں کتاب ہی دستیاب ہے۔۔۔۔
تو علمائ کے نام یا ان کی تائید اس بات کی دلیل نہیں ہوتی کہ یہی مسئلہ حق ہے !!مثلا اگر یہی مسئلہ تدلیس ہی لیا جائے تو استاد محترم فضیلۃ الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے جس موقف کو اپنا رکھا ہے صرف پاکستان میں بے شمار کبار محدثین کا موقف ان کے موقف کے خلاف ہے
http://www.kitabosunnat.com/forum/اصول-حدیث-47/مسئلہ-تدلیس-اور-علمائے-اہلحدیث-پاکستان-11457/
لیکن اس سے پہلے اس بات کا ثبوت پیش کردیں کہ ہم امام بخاری رحمہ اللہ کے مقلد ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ آپ کی محنت کارگر ثابت ہو سکے
آپ حضرات تو کسی کے بھی مقلد نہیں صرف اپنے من کی تقلید کرتے ہیں جہاں سے کو اچھا لگا لے لیا یا الٹی سیدھی تاویلات کرلیں چاہے جس بات کو صحیح قرار دے لیں چاہے جس کو رد کردیں اس میں تو آپ حضرات ایکسپرٹ ہیں
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کبھی بھی قرآن وسنت کے خلاف بات کر ہی نہیں سکتے
بیشک قرآن وحدیث ہیں بلکہ آثار بھی کہئے اس کو کیوں نظر انداز فرمارہے ہیں کیا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل قابل حجت نہیں، مقلدین کے یہاں حدیث شریف کے مطابق آثار صحابہ بھی قابل حجت ہیں۔
ایک اشکال اور اس کا حل : جن لوگوں کو قرآن وسنت کی ایسی نصوص ملتی ہیں جو امام ابو حنیفہ کی مخالفت میں ہیں ان کے لیےآسان نسخہ ہے کہ دار العلوم دیوبند وغیرہ سے مذہب حنفی کی ایک عینک لے کر پہن لیں ۔۔۔۔۔ مسئلہ حل ہو جائے گا ۔
بیشک ہم تو اپنی ہی عینک سے کام چلالیتے ہیں کہیں سے امپورٹ نہیں کرنی پڑتی اور نہ ہی کرایہ کی ہوتی ہے اور یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ صرف چشمہ سے ہی کام چل جاتا ہے دوربین لگانی نہیں پڑتی آپ حضرات کا دور بین سے بھی کام نہیں چلے گا کیوں خداداد بصیرت اور بصارت کافی کمزور پڑگئی ہے ہوسکتا ہے آپریشن ہی کرانا پڑجائے وہ بھی
فورین میں جاکر ۔
امید ہے آئندہ آپ کے ذہن میں یہ بےتکے سوال نہیں آئیں گے کہ فقہ حنفی قرآن وسنت کے مطابق ہے کہ نہیں ؟
اللہ کا شکر ہے ہمارا ذہن منفی نہیں ہے اور نہ ہی خرافاتی ،منفی سوچ تو شیطان کی ہوتی ہے مومن کی سوچ منفی اور بے تکی نہیں ہوتی ۔اور فقہ حنفی کی اساس کیا ہےاس کا ماقبل میں ذکر کیا جا چکا ہے
اگر آپ نے یہ غلطی دہرائی تو ہم بھی یہی جواب دہرانے میں کوئی شرم نہیں کریں گے
یعنی آپ نے اب تک جو بیان کیا ہے وہ شرم کے ساتھ بیان کیا ہے ، اور جب بے شرمی کا مظاہرہ فرمائیں گے تو
الحفظ والامان سارے رکارڈ آپ کے نام چڑھ جائیں گے اور آپ رکارڈ ہولڈر ہوجائیں گے ۔
امام کی یہ بات اگر مقلدین کو سمجھ آجائے تو سارے بحث و مباحثے ہی ختم ہو جائیں ۔ لیکن مقلدین بھی کہتے ہیں کہ ہمارا نام مقلد نہیں أگر ہم اپنے امام صاحب سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر غلط کو سچ ثابت نہ کرکے دکھائیں ۔
بہر صورت امام صاحب تو غلطیوں کا اعتراف کرکے سرخرو ہوگئے لیکن یہ مقلدین اللہ کو کیا جواب دیں گے کہ کس بنیاد پر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ بنانے کی سعی لا حاصل جاری رہی ؟
امام صاحب کے متعلق نامناسب گفتگو کا سبب سب سے زیادہ یہ مقلدین ہی بنتے ہیں ۔ کسی آدمی سے خطاء سرزد ہونے کے جتنے بہانے تلاش کیے جاسکتےہیں یہ ان سب کا امام صاحب کے حق میں رد کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا ناممکن ہے ۔ آخر کار ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ امام صاحب نے جان بوجھ شریعت کی مخالفت کی ہے ( نعوذ باللہ من ذلک
امام صاحب نے کون سی غلطیاں کیں اور کس غلطی کا اعتراف کیا ہمارے علم میں بھی تو آنا چاہیئے
اس سے زیادہ میں نہیں لکھ پاؤں گا کیوں کہ میں شرم دار ہوں