محمد طارق عبداللہ
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 21، 2015
- پیغامات
- 2,697
- ری ایکشن اسکور
- 762
- پوائنٹ
- 290
اس شخص کو شافعیہ اور حنفیہ کے مابین نماز کی ادائیگی کے اختلافات کا بالکل علم ہی نہیں۔
محترم اشماریہ بهائی نے حالانکہ انہیں چند بنیادی اختلافات سے روشناس بهی فرمایا جو مابین الاحناف والشوافع ہیں ۔ اب چونکہ شوری کے ذریعہ مدون کیئے مسلک کے وقت سے ہی ہیں تو یہ شخص بہت بری طرح پنس گیا ۔ اشماریہ بهائی نے ان سے یہ بهی کہا کہ "کوئی جهگڑا ہی کرنا چاہے تو ۔۔۔"
دراصل اس شخص کے ساتہ کئی مسائل ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ کسی کی پوسٹ کو پڑهتا ہی نہیں ، بلکہ میں تو کہونگا یہ خود کی پوسٹ بهی نہیں پڑهتا ۔ هر اگلی پوسٹ میں پچهلا دیا قول فراموش کردیتا هے ۔ دانستہ ۔ ورنہ نیا الزام کس طرح تراشے گا ؟
یہ گهونسلہ کا وہ ننها سا پرندہ هے جس نے دیگر پرندوں کی بلند پروازی دیکهی ضرور هے لیکن خود اڑا نہیں۔
اختلاف نماز کی ادائیگی کے احناف کے طریقوں پر سب سے بڑا شوافع کا هے ۔
هاں اس شخص کو یہ کہنا چاہیئے تها کہ لامذهبوں کی تحریکوں سے اشعریہ اور ماتریدیہ عقائد رکهنے والوں پڑی ۔ اسی لیئے میں نے کہا کہ یہ تو پردہ ڈالنا هو ، اولا احناف و شوافع کے ما بین برصغیر میں موجود اختلافات پر جو واقعتا انگریزوں کے پہلے سے ہی ہیں ۔ اب یہ گهونسلہ والے کو پتہ ہی نہیں تها ۔
ثانیا اہل حدیث کی تحریکوں پر پردہ ڈالنے کی سازش کی ۔ وہ تمام تحریریکیں عقائد اور اصول کی ہیں ۔
اس میں مقتدی کا فائدہ یا اس کی رعایت کہاں ہے؟ یہ کام تو وہ تب بھی کر سکتا ہے جب امام نہ کرے۔ مثلاً امام کھڑا ہو جائے اور وہ جلسہ استراحت کر کے کھڑا ہو، امام رفع الیدین نہ کرے اور وہ کرے اور امام آمین سرا کہے اور وہ جہراً کہے۔ رہی بات جہر بسملہ کی تو وہ شافعیہ کے یہاں امام پر ہے مقتدی پر نہیں۔ لہذا مقتدی کو اس پر اعتراض کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
میں صحیح رعایت کا کہہ رہا ہوں۔ باقی اگر کسی نے جھگڑا کرنا ہو تو وہ کہیں بھی کر سکتا ہے۔
باقی عرض یہ ہے کہ اگر اکثر مقتدی اس محلے کے شوافع ہیں اور ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو قراءت بھی جانتے ہیں اور مسائل کا علم بھی رکھتے ہیں تو انہیں اس بات کا اختیار ہے کہ وہ کسی شافعی امام کو نماز پڑھانے پر مقرر کر دیں۔ حنفی کو ہی امام بنانا ان پر لازم نہیں ہے۔
مسجد محلے کے مقتدیوں کی ہوتی ہے۔
اگر کسی محلے میں اکثر مقتدی حنفی ہیں تو امام بھی ان کا ہوگا۔ اور اگر اکثر مقتدی شافعی ہیں تو امام بھی ان کا ہوگا۔ اکثر سے مطلب آج کل کی جمہوریت والا اکیاون فیصد نہیں بلکہ واقعی اکثر مراد ہے۔
یہ امام محلے والوں کا ہونا کوئی لازمی مسئلہ نہیں اور غالباً آپ کو کسی فقہ کی کتاب میں ملے بھی نہیں لیکن اس میں بہت سی پریشانیوں اور تنگیوں سے نجات ہے۔ مثلاً شوافع کے یہاں عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے احناف کے یہاں نہیں۔ اسی طرح احناف کے یہاں قے سے اور خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن شوافع کے یہاں نہیں۔ تو اگر امام دوسرے مسلک کا ہوگا تو کسی نہ کسی مسئلے میں خلجان پیدا ہوتا رہے گا۔
اب دعوی کر کے پهنس گیا هے کہ ملکہ وکٹوریہ نے جس فرقہ کی تخلیق کی اس نے "نماز کی ادئیگی کے طریقوں" میں برصغیر میں فساد پیدا کیا ۔ اب قول دے کر پهنس گیا تو شوافع کے وجود سے ہی انکار کر بیٹها برصغیر میں ۔یعنی بر صغیر پاک و ہند میں جب صرف حنفی ہی تھے تو ملکہ وکتوریہ نے ’’خلجان‘‘ پیدا کرنے والے ’’لامذہب‘‘ پیدا کیئے۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہر جگہ تم ہی امامت کراؤ کہ یہ سب مشرک و بدعتی ہیں۔
محترم اشماریہ بهائی نے حالانکہ انہیں چند بنیادی اختلافات سے روشناس بهی فرمایا جو مابین الاحناف والشوافع ہیں ۔ اب چونکہ شوری کے ذریعہ مدون کیئے مسلک کے وقت سے ہی ہیں تو یہ شخص بہت بری طرح پنس گیا ۔ اشماریہ بهائی نے ان سے یہ بهی کہا کہ "کوئی جهگڑا ہی کرنا چاہے تو ۔۔۔"
دراصل اس شخص کے ساتہ کئی مسائل ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ کسی کی پوسٹ کو پڑهتا ہی نہیں ، بلکہ میں تو کہونگا یہ خود کی پوسٹ بهی نہیں پڑهتا ۔ هر اگلی پوسٹ میں پچهلا دیا قول فراموش کردیتا هے ۔ دانستہ ۔ ورنہ نیا الزام کس طرح تراشے گا ؟
یہ گهونسلہ کا وہ ننها سا پرندہ هے جس نے دیگر پرندوں کی بلند پروازی دیکهی ضرور هے لیکن خود اڑا نہیں۔
اختلاف نماز کی ادائیگی کے احناف کے طریقوں پر سب سے بڑا شوافع کا هے ۔
هاں اس شخص کو یہ کہنا چاہیئے تها کہ لامذهبوں کی تحریکوں سے اشعریہ اور ماتریدیہ عقائد رکهنے والوں پڑی ۔ اسی لیئے میں نے کہا کہ یہ تو پردہ ڈالنا هو ، اولا احناف و شوافع کے ما بین برصغیر میں موجود اختلافات پر جو واقعتا انگریزوں کے پہلے سے ہی ہیں ۔ اب یہ گهونسلہ والے کو پتہ ہی نہیں تها ۔
ثانیا اہل حدیث کی تحریکوں پر پردہ ڈالنے کی سازش کی ۔ وہ تمام تحریریکیں عقائد اور اصول کی ہیں ۔