• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حنفی امام بہت تیز نماز پڑھاتا ھےکیا اسکے پیچھے نماز جائز ھے??

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس تھریڈ کی مناسبت سے میں کل کی ایک مثال دینا چاہتا ہوں. کل عصر پڑھنے محلے کی ایک حنفی مسجد میں گیا میں وضو شروع کررہا تھا تو اقامت شروع ہوئی اور جب میں بایاں بازو دھوچکا تو امام صاحب نے تکبیر کہی میں مسح کرکے اور پاؤں دھوکر نارمل انداز میں تقریبا 26-27 قدم چل کر صف میں پہنچا ہوں اور امام صاحب رکوع میں.... یہ پتا نہیں 4G ہے یا 5G.

میرا رب اللہ ہے.
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
صاحب " ھدایہ " لکھتے ہیں :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ اطمینان کے ساتھ ضروری نہیں ،
میرے بھائی اسحاق سلفی صاحب آپ نے ہدایہ سے جو تحریر لکھی ہے اس سے جو بات اخذ کی وہ غلط ہے۔ آپ اس فقرہ کا صحیح ترجمہ ہی کر لیتے تو بات واضح تھی۔ مگر معذرت کے ساتھ آپ حضرات کا وطیرہ یہ بن چکا ہے کہ دوسروں کے نقطۂ نظر کو غلط معنیٰ پہناتے ہو۔
میں کوئی اتنی زیاد عربی نہیں جانتا مگر اتنا سمجھتا ہوں کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ رکوع اور سجود کو طویل کرنا لازم نہیں بلکہ ان کا ادا ہوجانا لازم ہے۔
آپ کی پیش کردہ عبارت جہاں سے لی گئی ہے اس کا مکمل متن یوں ہے؛
الهداية في شرح بداية المبتدي (1 / 51):
قال: " ثم إذا استوى قائما كبر وسجد " أما التكبير والسجود فلما بينا وأما الاستواء قائما فليس بفرض وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى وقال أبو يوسف يفترض ذلك كله وهو قول الشافعي رحمه الله تعالى لقوله عليه الصلاة والسلام " قم فصل فإنك لم تصل " قاله لأعرابي حين أخف الصلاة ولهما أن الركوع هو الانحناء والسجود هو الانخفاض لغة فتتعلق الركنية بالأدنى فيهما وكذا في الانتقال إذ هو غير مقصود وفي آخر ما روي تسميته إياه صلاة حيث قال " وما نقصت من هذا شيئا فقد نقصت من صلاتك " ثم القومة والجلسة سنة عندهما
میں نے اوپر جو دوسرا فقرہ ہائی لائٹ کیا ہے وہ آپ کے پیش کردہ فقرہ کی نفی کر رہا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ ہدایہ فقہ کی کتاب ہے اس میں مسائل سمجھائے جاتے ہیں تاکہ انسان مختلف حالات میں صحیح نماز ادا کر سکے۔ یعنی اگر اس کو مجبوری ہو تعجیل کی تو اس کی صورت کیا ہوگی کہ نماز صحیح ہو جائے۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
یہ باتیں آپ قاضی ابو یوسف کو سمجھا دیتے !
اب قاضی ابو یوسف نے بلا سوچے سمجھے سفاہت میں ہانکی ہے تو یہ بے سمجھ ، سفاہت میں ہانکنے والے، آپ کے امام اعظم کے شاگرد رشید، امام صاحب کی قانون ساز کمیٹی کے رکن خاص، آپ کے امام محمد الحسن الشیبانی کے استاد، ہیں، اور انہیں اخبار ابوحنیفہ کہا جاتا ہے۔
یعنی کہ فقہ حنفیہ ایسے بے سمجھ، اور سفاہت کے حامل قاضی ابو یوسف کی ہانکی ہوئی باتوں پر مشتمل ہے!
اس جاہل کے انداز تحریر پر ایڈمن متوجہ ہو۔
ایسے ہی لوگوں کی ایسی ہی تحریروں نے امت مسلمہ میں نفرت کے بیج بوئے ہیں۔
اس زمانہ کا کوئی بھی بے وقوف جاہل یہ تو حق رکھتا ہے کہ کسی مسلک سے اختلاف رکھے لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ خیر القرون کے جید اور تسلیم شدہ فقہاء پر بھونکے۔
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
اس جاہل کے انداز تحریر پر ایڈمن متوجہ ہو۔
ایسے ہی لوگوں کی ایسی ہی تحریروں نے امت مسلمہ میں نفرت کے بیج بوئے ہیں۔
اس زمانہ کا کوئی بھی بے وقوف جاہل یہ تو حق رکھتا ہے کہ کسی مسلک سے اختلاف رکھے لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ وہ خیر القرون کے جید اور تسلیم شدہ فقہاء پر بھونکے۔
یا للعجب

حنفی صاحب، انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا، صرف ان کی دی ہوئی مثال کے جواب میں آپ کی استعمال کردہ "اصطلاحات" کو اپنی دی ہوئی مثال کے کرداروں پر فٹ کیا ہے.
اب اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کاموں میں
بقول ابن داؤد بھائی کے

~~ ہے یہ گنبد کی صدا، جیسی کہے ویسی سنے

میرا رب اللہ ہے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
آپ نے ہدایہ سے جو تحریر لکھی ہے اس سے جو بات اخذ کی وہ غلط ہے۔ آپ اس فقرہ کا صحیح ترجمہ ہی کر لیتے تو بات واضح تھی۔ مگر معذرت کے ساتھ آپ حضرات کا وطیرہ یہ بن چکا ہے کہ دوسروں کے نقطۂ نظر کو غلط معنیٰ پہناتے ہو۔
عجیب بات ہے آپ کو عربی بھی نہیں آتی ، جیسا کہ خود آپ کو اس کا اقرار ہے ،
لیکن اس کے باوجود ترجمہ و مفہوم میں دوسروں کی غلطیاں نکالنے کا ۔۔ شوق پورا ۔۔ فرماتے ہیں ،
میں نے لکھا تھا کہ :
امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہنا ہے کہ :
تعدیل ارکان بالکل ضروری نہیں ،
صاحب " ھدایہ " لکھتے ہیں :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ اطمینان کے ساتھ ضروری نہیں ‘‘۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھدایہ کی اس عبارت میں صاف اور سیدھے لفظوں میں اعلان فرمایا گیا کہ :
نماز ۔۔سکون و اطمینان سے ۔۔ اور۔۔ تعدیل ارکان ضروری نہیں ، یعنی تعدیل ارکان کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی ۔
جبکہ آپ اس کا ۔۔ جان چھڑاؤ ۔۔ قسم کا خود ساختہ مطلب پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

میں کوئی اتنی زیاد عربی نہیں جانتا مگر اتنا سمجھتا ہوں کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ رکوع اور سجود کو طویل کرنا لازم نہیں بلکہ ان کا ادا ہوجانا لازم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ ھدایہ کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ عینیؒ حنفی (المتوفى: 855 ھ)
فرماتے ہیں :
م: (وأما الاستواء قائما فليس بفرض) ش: وهو الذي يسمى القومة (وكذا الجلسة بين السجدتين) ش: أي ليست بفرض (والطمأنينة في الركوع والسجود) ش: أي وكذا الطمأنينة في الركوع ليس بفرض في نفس الركوع ونفس السجود، ( البناية شرح الهداية )
یعنی صاحب ھدایہ نے جو لکھا ہے کہ (وأما الاستواء قائما ۔۔ سیدھا کھڑا ہونا ) اس کو قومہ کہا جاتا ہے ، یہ فرض نہیں ،(یعنی سیدھا کھڑا ہونا ضروری نہیں ) اسی طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا بھی فرض نہیں ، اور رکوع و سجود میں اطمینان و سکون ضروری نہیں ‘‘
اب فقہ کی اہم عبارت کا مفہوم اور مراد معروف عالم متعین کرے گا یا ایسا آدمی جو عربی تک نہیں جانتا وہ متعین کرے گا ۔؟
 
Last edited:
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
امام ابوحنیفہ اور امام محمد کہنا ہے کہ :
تعدیل ارکان بالکل ضروری نہیں ،
یہ فقرہ ایسا ہی ہے کہ کسی کی بات کو اپنا معنیٰ پہنا دیا جائے۔

وأما الاستواء قائما فليس بفرض، وكذا الجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله
(یعنی امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں ، اسی طرح دو سجدوں کے درمیان جلسہ ،اور رکوع ،سجدہ اطمینان کے ساتھ ضروری نہیں ‘‘۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھدایہ کی اس عبارت میں صاف اور سیدھے لفظوں میں اعلان فرمایا گیا کہ :
نماز ۔۔سکون و اطمینان سے ۔۔ اور۔۔ تعدیل ارکان ضروری نہیں ، یعنی تعدیل ارکان کے بغیر بھی نماز ہوجائے گی ۔
جبکہ آپ اس کا ۔۔ جان چھڑاؤ ۔۔ قسم کا خود ساختہ مطلب پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
کسی کتاب کے کسی فقرہ کا مفہوم اس کے سیاق و سباق سے سمجھ میں آیا کرتا ہے۔ آپ سیاق و سباق چھوڑ کر تحریر لکھ رہے ہیں اور اسے معانی بھی اپنے مفید مطلب کر رہے ہیں۔
اہم بات
ہدایہ فقہ کی کتاب ہے جس میں مسائل کی تفہیم بیان ہوتی ہے۔ یہاں بھی صاحب ہدایہ نے نماز کے کس عمل کی کیا حثیت ہے اور کس قدر مقدار سے وہ ادا ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی عمل کی یہ کم سے کم مقدار بیان ہوئی ہے جس سے نماز میں نقص سے بچا جاسکتا ہے۔ ہدایہ میں اسی طرح نماز پڑھنے کی ترغیب ہرگز نہیں۔

جبکہ ھدایہ کی اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے علامہ عینیؒ حنفی (المتوفى: 855 ھ)
فرماتے ہیں :
م: (وأما الاستواء قائما فليس بفرض) ش: وهو الذي يسمى القومة (وكذا الجلسة بين السجدتين) ش: أي ليست بفرض (والطمأنينة في الركوع والسجود) ش: أي وكذا الطمأنينة في الركوع ليس بفرض في نفس الركوع ونفس السجود، ( البناية شرح الهداية )
یعنی صاحب ھدایہ نے جو لکھا ہے کہ (وأما الاستواء قائما ۔۔ سیدھا کھڑا ہونا ) اس کو قومہ کہا جاتا ہے ، یہ فرض نہیں ،(یعنی سیدھا کھڑا ہونا ضروری نہیں ) اسی طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا بھی فرض نہیں ، اور رکوع و سجود میں اطمینان و سکون ضروری نہیں ‘‘
اب فقہ کی اہم عبارت کا مفہوم اور مراد معروف عالم متعین کرے گا یا ایسا آدمی جو عربی تک نہیں جانتا وہ متعین کرے گا ۔؟
آپ کو وہ شرح جو اسی نسخہ میں لکھی ہوئی ہے وہ کیوں پسند نہیں؟
قاله لأعرابي حين أخف الصلاة ولهما أن الركوع هو الانحناء والسجود هو الانخفاض لغة فتتعلق الركنية بالأدنى فيهما
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہی ہم نے کہا ہے کہ فقہ حنفی میں طمانیت و تعدیل ارکان لازم نہیں، طمانیت و تعدیل ارکان کے بغیر نماز ادا ہو جانے کا سبق فقہ حنفی نے ہی پڑھایا ہے!
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
یہ فقرہ ایسا ہی ہے کہ کسی کی بات کو اپنا معنیٰ پہنا دیا جائے۔


کسی کتاب کے کسی فقرہ کا مفہوم اس کے سیاق و سباق سے سمجھ میں آیا کرتا ہے۔ آپ سیاق و سباق چھوڑ کر تحریر لکھ رہے ہیں اور اسے معانی بھی اپنے مفید مطلب کر رہے ہیں۔
اہم بات
ہدایہ فقہ کی کتاب ہے جس میں مسائل کی تفہیم بیان ہوتی ہے۔ یہاں بھی صاحب ہدایہ نے نماز کے کس عمل کی کیا حثیت ہے اور کس قدر مقدار سے وہ ادا ہو جاتا ہے۔ یعنی کسی بھی عمل کی یہ کم سے کم مقدار بیان ہوئی ہے جس سے نماز میں نقص سے بچا جاسکتا ہے۔ ہدایہ میں اسی طرح نماز پڑھنے کی ترغیب ہرگز نہیں۔


آپ کو وہ شرح جو اسی نسخہ میں لکھی ہوئی ہے وہ کیوں پسند نہیں؟
یعنی جب "کم سے کم مقدار" سے "بھی" نماز ہوجاتی ہے تو "تعدیل ارکان" کا درد سر مول لینے کی کیا ضرورت ہے.....
اور ہاں اس کم سے کم مقدار سے نماز ہوجانے والی فقہ کا "امت مسلمہ" کو پہنچنے والا فائدہ دیکھنا ہو تو حنفی مساجد میں فجر کی نماز ضرور دیکھنی چاہیے، جب امام اور مقتدیوں میں باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے.... امام نے پہلی رکعت "گھمانی" ہوتی ہے اور اسی وقفے میں مقتدیوں نے فجر کی سنتیں "نبیڑنی" ہوتی ہے.... ابتسامہ
اور ہاں سات منٹ میں بیس رکعت تراویح کا ورلڈ ریکارڈ بھی تو اسی فقہ کا امت مسلمہ پر احسان ہے ....

بہرحال suppose یہی کیا جائے گا کہ ترغیب ہرگز نہیں کیونکہ یہ ایک "آسمانی فقہ" ہے....



میرا رب اللہ ہے.
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
میں اپنے ہم مسلک بھائیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ زبان ہلکی سے ہلکی رکھیں ، تاکہ امت میں پھیلنے والے فتنہ کی وجہ اگر یہی رویہ تو وہ ختم ہوجائے ۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
یہی ہم نے کہا ہے کہ فقہ حنفی میں طمانیت و تعدیل ارکان لازم نہیں، طمانیت و تعدیل ارکان کے بغیر نماز ادا ہو جانے کا سبق فقہ حنفی نے ہی پڑھایا ہے!
آپ کے درج بالا چند الفاظ میں کمینگی کی حد تک فقہ حنفی سے بغض و عناد کی بو آرہی ہے۔ جس کا کام ہی شر پھیلانا ہو وہ مثبت سوچ کیسے رکھ سکتا ہے؟ جناب نے چند ایک الفظ میں جو گل کھلائے ہیں ان کا تجزیہ ملاحظہ فرمائین۔
اپنے فقرات میں لفط ’’لازم‘‘ اور ’’سبق‘‘ احناف کی کس تحریر سے اخذ کیا؟
فقہ نام ہے کسی فہیم کا کسی بات کی گہرائی کو جاننا۔ متعصب حاسد اور بے وقوف اس سے محروم رہتے ہیں۔

ایک صحابی نماز پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ جا نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ حالانکہ وہ نماز پڑھ کر آیا تھا۔ ایسا دو یا تین دفعہ ہؤا۔ اس کے بعد اس صحابی نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی اور اس میں نہ تو ثنا پڑھنی بتائی اور نہ ہی رکوع و سجود کی تسبیحات۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نماز پڑھنے کی ترغیب دی تھی؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ اسے سمجھایا تھا کہ اگر تعجیل کرنی ہی ہے تو اتنی کرسکتے ہو۔ یہ تفہیم ہے ترغیب ہرگز نہیں۔ مذکورہ حدیث درج ذیل ہے،
صحيح مسلم (1 / 298):
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ قَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» فَرَجَعَ الرَّجُلُ فَصَلَّى كَمَا كَانَ صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ السَّلَامُ» ثُمَّ قَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. فَقَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا عَلِّمْنِي، قَالَ: «إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا»
 
Top