السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آپ کے درج بالا چند الفاظ میں کمینگی کی حد تک فقہ حنفی سے بغض و عناد کی بو آرہی ہے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پر مردود فقہ حنفیہ کو مقدم رکھنے والوں کو میرے الفاظ میں ''کمینگی'' کی حد تک فقہ حنفی سے بغض و عناد کی بو آرہی ہوگی۔
مگر ہم تو الحب في الله والبغض في الله کے عقیدہ کے حامل ہیں!
ہماری فقہ حنفی سے عداوت اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے فقہ حنفی کی عداوت کی بنا پر ہے!
دارصل ''کمینگی'' تو فقہ حنفی اور فقہائے احناف کی ہے، جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ثابت احکام کا انکار کرتے ہیں!
جس کا کام ہی شر پھیلانا ہو وہ مثبت سوچ کیسے رکھ سکتا ہے؟ جناب نے چند ایک الفظ میں جو گل کھلائے ہیں ان کا تجزیہ ملاحظہ فرمائین۔
جی! فقہ حنفیہ اور فقہائے احناف نے عالم اسلام میں بہت بہت شر پھیلایا ہے، اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت احکام سے انکار بہت بڑا شر ہے۔ یہ آج تک اس شر کی تبلیغ کیئے جا رہے ہیں!
اپنے فقرات میں لفط ’’لازم‘‘ اور ’’سبق‘‘ احناف کی کس تحریر سے اخذ کیا؟
فقہ حنفی سے وہ عبارات پیش کی جا چکی ہیں!
فقہ نام ہے کسی فہیم کا کسی بات کی گہرائی کو جاننا۔ متعصب حاسد اور بے وقوف اس سے محروم رہتے ہیں۔
جی اسی لئے فقہائے احناف دین اسلام کی صحیح فہم سے محروم ہیں، اور ان کے مقلدین بھی!
ایک صحابی نماز پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا جواب دیتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ جا نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ حالانکہ وہ نماز پڑھ کر آیا تھا۔ ایسا دو یا تین دفعہ ہؤا۔ اس کے بعد اس صحابی نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سکھلائی اور اس میں نہ تو ثنا پڑھنی بتائی اور نہ ہی رکوع و سجود کی تسبیحات۔
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نماز پڑھنے کی ترغیب دی تھی؟ نہیں ہر گز نہیں بلکہ اسے سمجھایا تھا کہ اگر تعجیل کرنی ہی ہے تو اتنی کرسکتے ہو۔ یہ تفہیم ہے ترغیب ہرگز نہیں۔ مذکورہ حدیث درج ذیل ہے،
صحيح مسلم (1 / 298):
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّلَامَ قَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» فَرَجَعَ الرَّجُلُ فَصَلَّى كَمَا كَانَ صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ السَّلَامُ» ثُمَّ قَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» حَتَّى فَعَلَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. فَقَالَ الرَّجُلُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أُحْسِنُ غَيْرَ هَذَا عَلِّمْنِي، قَالَ: «إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا»
جی بالکل! صحیح حدیث ہے، اور فقہ حنفی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا انکار کرتی ہے، کہ تعدیل و طمانیت ارکان کے بغیر نماز نہیں ہوتی!
فقہ حنفی و فقہائے احناف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو رد کرتے ہوئے اپنی مردود فقہ میں کہتے ہیں کہ تعدیل و طمانیت ارکان کے بغیر نماز ہو جاتی ہے!
عوام الناس کے فعل کو فقہ کے سر نہ تھوپیں۔ کسی بھی حنفی فقہی کتاب میں اس عمل کی ترغیب آپ کو نہیں ملے گی۔ لہٰذا کسی کے غلط کام کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی ترغیب اس کے بڑے دیتے ہیں بعین کہ کسی مسلم کہلانے والے کے غلط کام کو اسلام کی تعلیم نہیں کہا جائے گا۔
جو غلط کر رہا ہے اسے پیار محبت سے سمجھائیں نہ کہ اس کا مذاق اڑانا شروع ہوجائیں کہ وہ اس سے بھی جائے۔
ہم نے عوام الناس کے اعمال نہیں، بلکہ فقہ حنفی اور فقہائے احناف کی عبارات پیش کی ہیں!