• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حکمران بیورو کریسی اور عوام ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی کتاب السیاسۃ الشرعیہ کی تفہیم

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
پس اگر امانت وغیرہ کی ولایت اور امارت ہے، اور شدید و سخت آدمی کو مقدم رکھا جائے، مثلاً ما ل کی حفاظت وغیرہ میں سخت آدمی کی ضرورت ہے لیکن مال نکلوانا اور اس کی حفاظت کے لیے قوت اور امانت کی ضرورت ہے اور اس لیے قوی اور سخت امیر و حاکم کی ضرورت ہے کہ اس کی طاقت سے مال وصول کیا جا سکے۔ اور امین کاتب ومنشی (یعنی اکاؤنٹینٹ، آڈیٹر) کی ضرورت ہے کہ ان کی قابلیت سے مال محفوظ رہے، اور مال کی حفاظت ہو سکے اور یہی حال و حکم ہے امارتِ جنگ کا، صاحب علم و دین کے مشورے سے امیر جنگ سپہ سالار قائم کیا جائے، اور یہ ہر دو مصلحتیں ملحوظ رکھی جائیں اور یہی حال و حکم تمام ولایتوں {حکومتوں} ، اور ہمہ قسم کی امارتو ں {وزارتوں} کا ہے۔

اگر ایک آدمی سے مصلحت امارت پوری نہ ہو سکے تو دو یا تین یا زیادہ آدمی رکھے جائیں۔ اور ترجیح اصلح {بہتر} کو دی جائے۔اور متعدد والی، گورنر اور سردار مقرر کئے جا ئیں، جب ایک سے کام انجام نہ پاتا ہو، بہرحال اصلح {بہتر} کو مقدم رکھا جائے۔

اور ولایت قضاء (عدلیہ کے ججوں) کے لیے اعلم {قرآن و حدیث کا سب سے بڑا عالم} اورع {بہت زیادہ عبادت کرنے والا} اور اکفاء {قانع و صابر} کو مقدم رکھا جائے، اور اگر ایک اعلم ہے اور دوسرا اورع صاحب تقویٰ ہو تو غور کیا جائے کہ اورع کی خواہش اور اعلم کا اشتباہ حکم {فیصلے} کے ظہور اور حکم کے اشتباہ میں خلل انداز تو نہیں ہے کیونکہ حدیث شریف میں واردہے:

اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْبَصِیْرَ النَّاقِدَ عِنْدَ وُرُوْدِ الشُّبُھَاتِ وَ یُحِبُّ الْعَقْلَ عِنْدَ حُلُوْلِ الشَّھَوَاتِ
اللہ تعالیٰ بصیر و ناقد کو دوست رکھتا ہے شبہات واقع ہونے کے وقت اور شہوات کے آڑے آنے کے وقت عقل کو محبوب رکھتا ہے۔

اور اکفاء کے مقابلہ میں رکھا جائے گا۔ اگر قاضی کو والی حرب، امیر جنگ یا والی عامہ {یعنی گورنر} کی تائید حاصل ہے تو قضاء {فیصلے} کے لیے اعلم {زیادہ علم والے} اور اورع { یعنی صاحب ِ تقویٰ} کو ترجیح دی جائے گی۔ قاضی اعلم اور قاضی اورع کو مقدم رکھا جائے گا۔ اور اگر علم و ورع کے مقابلہ میں قوت و اعانت کی ضرورت زیادہ ہے تو اکفاء کو مقدم رکھا جائے کیونکہ قاضی مطلق کی شرط یہی ہے کہ وہ عالم، عادل اور نفادِ حکم پر قادر ہو، اور قضاء پر یہ موقوف نہیں۔ بلکہ مسلمانوں کے ہر والی کے لیے ایسا ہی ہونا چاہئے۔ پس مذکورہ صفات و اوصاف میں سے کسی صفت کسی وصف میں بھی نقصان ہوگا تو اس کی وجہ سے خلل واقع ہونا ضروری ہے، اور کفایت جس قسم اور جس طرح کی بھی ہو، قہر و غضب کی ہو، یا احسان و ر غبت کی، بہرحال کفایت کی ضرورت ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بعض علماء سے پوچھا گیا کہ قضاء {عدلیہ} کے لیے کوئی آدمی { یعنی جج} نہیں ملتا۔ اور ملتا ہے تو ایسا کہ عالم فاسق ہے یا جاہل دیندار، ان دونوں میں سے کسے ترجیح دی جائے؟ انہوں نے جواب دیا اگر غلبہ فساد کی وجہ سے دین میں خلل واقع ہو رہا ہے تو جاہل دیندار کو مقدم رکھا جائے۔ اور اگر غفلت حکام کی وجہ سے دین میں خلل واقع ہو رہا ہے تو عالم فاسق کو مقدم رکھا جائے اور اکثر علماء جاہل دیندار کو مقدم رکھتے ہیں کیونکہ تمام ائمہ دین کا اس پر اتفاق ہے کہ متولی، امیر ایسا شخص ہو جو عادل اور شہادت کا اہل ہو۔

اور شرطِ علم میں اختلاف ہے کہ کس قسم کا متولی امر {جج} ہونا چاہئے! آیا وہ مجتہد ہو یا مقلد! یا امثل فالامثل کہ جیسا آدمی مل جائے مقرر کر لیا جائے۔ اس مسئلہ میں بحث و کلام کے لیے دوسری جگہ ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں ہے۔ بہر حال غیر اہل کو متولی امر {ذمہ داری} بنانا ضرورت کے لیے جائز ہے اور اصلح {یعنی بہتر} کے موجود ہوتے ہوئے بھی جائز ہے، حالات کی اصلاح کا خیا ل رکھنا فرض ہے تاکہ ولایت امر اور امارت {حکومت} کی رعایا اور عامتہ الناس کو ضرورت ہے وہ پوری ہو جائے، جس طرح کہ معسروتنگ دست کے لیے یہ ضروری ہے کہ قرض اور دین {یعنی جرمانہ} ادا کرنے کے لیے کوشش کرے، لیکن فی الحال اس سے اسی قدر {مالیت} کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے جس قدر {مالیت} کے ادا کرنے کی توفیق ہو، اور جس طرح کہ جہاد کی تیاری کے لیے قوت اور گھوڑے باندھنے کا حکم ہے لیکن عجز و بے بسی کے وقت ساقط ہو جاتا ہے اور حسب استطاعت جو کچھ میسر آئے کرنا فرض ہے، اور ضروری ہے کہ جس قدر واجب و فرض ہے اُسے پورا کیا جائے بخلاف حج اور دوسری عبادتیں کہ ان میں یہ حکم نہیں ہے۔ بلکہ حج وغیرہ اس پر فرض ہے جو۔

مَنِ اسْتَطَا عَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (آل عمران:97)
جس کو اس تک پہنچنے کا مقدور (یعنی اسباب و قوت) ہو۔

یہ فرض ہے کہ وہ استطاعت و قدرت پیدا کرے، کیونکہ حج واجب ہی اس وقت ہوتا ہے جب استطاعت موجود ہو۔ استطاعت پیدا کر نا اس پر فرض نہیں ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
باب:4۔

زیادہ قابل اور بہترین مصلح کی پہچان۔
اصلح {بہتر} کی پہچان، مقصود ولایت{حکومت کے اہداف}، مقاصد و وسائل کی معرفت، مقصد {حکومت و} ولایت، دین کی اصلاح، جمعہ اور جماعت کا قیام، اور مخلوق کی دینی اصلاح۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے میں تمہارے پاس عُمال {گورنر و افسر} اس لیے بھیجتا ہوں کہ وہ تمہیں تمہارے رب کی کتاب اور نبی کی سنت سکھائیں اور دین کو جاری اور باقی رکھیں۔

اس باب میں اہم ترین چیز اصلح {بہتر لائق اور اہل شخص} کی پہچان ہے، اور مقصد ِولایت و حکومت اور طریق مقصود کی پہچان سے اصلح کی پہچان ہوتی ہے {یعنی مقصد حاصل کرنے کے لیے جو طریقہ اپنایا جائے اس کی بناء پر بہتر، لائق، اہل اور اصلح شخص کی پہچان ہوتی ہے لہٰذا}، جب تمہیں مقاصد و وسائل کی پہچان ہو جائے گی تو سمجھ لو اس کام کو تم نے پوری طرح سمجھ لیا۔

جب بادشاہوں اور سلاطین پر دنیا غالب آگئی اور دین چھوڑ دیا تو ان کی ولایت {یعنی حکومت} و سلطنت میں ایسے لوگوں {کو بیورو کریسی کے طور پر} کو مقدم رکھا گیا جو اُن کے مقاصد کو پورا کریں۔ جو شخص اپنی ذات کے لیے ریاست کا طالب تھا اس نے اس کو مقدم رکھا جو اس کی ریاست کو قائم رکھے اور سنت نبوی ﷺ یہ تھی کہ امراء حرب {یعنی وزیر جنگ} جو سلطان کے نائب اور فوج و لشکر کے سپہ سالار ہیں وہ مسلمانوں کی نماز جمعہ اور نماز باجماعت پڑھائیں اور انہیں خطبہ دیں۔ اور اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیقص کو نماز کے لیے آگے کھڑا کیا تھا اور اسی لیے مسلمانوں کی امارتِ حرب اور سپہ سالاری وغیرہ میں انہیں کو مقدم رکھا گیا۔

جب رسول اللہ ﷺ کسی کو امیر حرب {یعنی} سپہ سالارِ لشکر بنا کر بھیجتے تھے، {تو} سب سے پہلے اُسے نماز باجماعت پڑھانے کا حکم فرماتے تھے۔ اسی طرح جب کسی کو کسی شہر کا عامل {یعنی گورنر یا افسر} بنا کر بھیجتے تھے تو اُسے جماعت سے نماز پڑھانے کا حکم فرماتے مثلاً سیدنا عتاب بن اسیدص کو مکہ معظمہ کا حاکم {گورنر} بنا کر بھیجا اور سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو طائف کا حاکم بنا کر بھیجا اور سیدنا علی معاذ اور ابو موسیٰ ث کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا اور سیدنا عمرو ابن حزم رضی اللہ عنہ کو نجران کا حاکم بنا کر بھیجا تو یہ آپ ﷺ کے نائب ہی باجماعت نماز پڑھایا کرتے تھے اور حدود وغیرہ بھی یہی لوگ قائم کرتے تھے اور امیر الحرب {یعنی سپہ سالار اور وزیر جنگ} جو {کچھ} کیا کرتے تھے یہ {گورنر و افسر} بھی کرتے تھے {یعنی ان کے اختیارات میں جنگ و انتظامِ جنگ اور سپہ سالاری کے اُمور بھی ہوا کرتے تھے}۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے خلفاء نے بھی یہی کیا۔ بنو امیہ کے بادشاہوں اور بعض عباسیوں نے بھی یہی کیا اور اس لیے کیا کہ سب سے زیادہ اہم دین کے بارے میں نماز اور جہاد ہے اور یہی وجہ ہے جو اکثر احادیث نبویہ میں نماز اور جہاد کو ساتھ ہی ساتھ بیان کیا گیا ہے چنانچہ جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو کہا کرتے تھے:۔

اَللّٰھُمَّ اشْفِ عَبْدَکَ لِیَشْھَدَ لَکَ صَلٰوۃً وَ یَنْکَاء لَکَ عَدُوًّا
اے اللہ تو اس بندے کو شفاء دے تاکہ تیری نماز میں حاضری دے اور تیرے دشمن کا مقابلہ کرے۔

جب نبی کریم ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو آپ نے فرمایا:

یَا مَعَاذُ اِنَّ اَھَمَّ اَمْرٍ عِنْدِی الصَّلٰوۃُ
اے معاذ! سب سے اہم کام تمہارے لیے میر ے نزدیک نماز ہے۔

اور سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے عُمال {تحصیلداروں} اور گورنروں کو لکھا کرتے تھے:

اِنَّ اَ ھَمَّ اُمُورِکُمْ عِنْدِی الصَّلٰوۃُ فَمَنْ حَافَظَ عَلَیْھَا وَ حَفِظَھَا حَفِظَ دِیْنَہٗ وَ مَنْ ضَیَّعَھَا کَانَ سِوَاھَا مِنْ عَمَلِہٖ اَشَدُّ اِضَاعَۃً
میرے نزدیک تمہارے لیے اہم ترین کام نماز ہے جو شخص اس کی محافظت اور پابندی کرتا ہے اس نے اپنے دین کی حفاظت کر لی اور جس نے نماز کو ضائع کیا تو نماز کے سوا دوسرے اعمال کو لازماً ضائع کرے گا۔

اور یہ اس لیے آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُالدِّیْنِ
نماز دین کا ستون ہے۔

جب متولی امر {حاکم وقت، گورنر اور تمام افسر} اس ستون کی حفاظت کریں گے تو نماز اُنہیں فحش اور منکرات سے بچا لے گی۔ اور دوسری طاعات و عبادات میں معین ومددگار ہو گی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَاسْتَعِینُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخَا شِعِیْنَ
اور صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرو اور البتہ نماز {قائم کرنا بہت} شاق {بھاری اور مشکل} ہے مگر ان پر نہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں۔ (بقرہ:49)

اور فرما تا ہے:۔

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوااسْتَعِیْنُوْابِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ
ایمان والو! تم کو کسی طرح کی مشکل پیش آئے تو اس کے مقابلہ کے لیے صبر اور نماز کے ذریعے اللہ کی مدد حاصل کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے۔(بقرہ:153)۔

اور رسول اللہ ﷺ کو خطاب کر تے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَا نَسْئَلُکَ رِزْقًاط نَحْنُ نُرْزُقُکَ ط وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی (طہ:132)
اے نبی! اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی اس کے پابند رہو، ہم آپ سے کچھ روزی تو طلب کرتے نہیں بلکہ ہم روزی دیتے ہیں اور اچھا انجام تو پرہیزگاروں ہی کا ہے

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ مَـٓا اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَـا اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنَ اِنَّ اللہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِالْمَتِیْنُ (ذاریات:57-56)
اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ ہماری عبادت کیا کریں، ہم ان سے کچھ روزی کے تو خواہاں نہیں ہیں اور نہ اس کے خواہاں ہیں کہ ہمیں کھلائیں۔ اللہ خود بڑا روزی دینے والا، قوت والا زبردست ہے۔

پس معلوم ہوا کہ ولایات و امارات {حکومت و اقتدار کا} اصل مقصود اللہ کی مخلوق کی خدمت و اصلاح ہے۔ اور جب دین کو لوگ چھوڑدیں گے تو سخت ترین گھاٹا اٹھائیں گے اور جو دنیوی نعمتیں ان کو دی گئی ہیں ان کو قطعاً مفید اور نفع بخش نہ ہوں گی اور جس دنیا سے ن کو دینی اصلاح حاصل ہوتی ہے وہ نہ ہو گی۔

جس دنیا سے ان کو دینی اصلاح ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے۔ ایک یہ کہ مال کو مستحق لوگوں میں تقسیم کر لیا جائے۔ دوسری یہ کہ زیادتی اور ناحق لینے والوں کو عقوبت {قید} اور سزا دی جائے، پس جو آدمی ظلم و زیادتی نہیں کرتا تو سمجھ لو اُس نے اپنے دین کی اصلاح کر لی۔ اسی لیے خلیفہ دوم سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:

اِنَّمَا بَعَثْتُ عُمَّالِیْ اِلَیْکُمْ لِیُعَلِّمُوْکُمْ کِتَابَ رَبِّکُمْ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّّکُمْ وَیُقِیْمُوا بَیْنکُمْ دِیْنَکُمْ
میں اپنے عمال {زکوٰۃ اور جزیہ لینے والے افسران} اور گورنر تمہاری طرف اس لیے بھیجتا ہوں کہ وہ تم کو تمہارے رب کی کتاب اور تمہارے نبی ﷺکی سنت سکھائیں اور تم میں تمہارا دین باقی اور قائم رکھیں۔

پس اس وقت جبکہ رعیت {عوام الناس} کسی بھی وجہ سے بگڑ گئی ہے اور راعی {حاکم وقت، صدر، وزیر اعظم، گورنر، وزیر، مشیر، ساری کی ساری بیورو کریسی، جج، پولیس اور فوجی افسران} بھی کسی وجہ سے بگڑ چکے ہیں اور اس کی وجہ سے تمام اُمور درہم برہم ہو گئے تو ان کی اصلاح بھی دشوار ہے۔ پس جو ’’راعی‘‘ حسب امکان لوگوں کے دین اور دنیا کی اصلاح کرے گا، وہ اپنے زمانے میں سب سے بہتر و افضل اور افضل المجاہدین ہو گا۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے:

یَوْمُ اِمَامٍ عَادِلٍ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَۃِ سِتِّیْنَ سَنَۃً
امام عادل {یعنی عادل حکمران} کا ایک دن ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور مسند امام احمد a میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، آپ نے فرمایا:

اَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللہِ اِمَا مٌ عَادِلٌ وَاَبْغَضُھُمْ اِلَیْہِ اِمَامٌ جَائِرٌ (مسند احمد)
مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب عادل حاکم ہے اور اللہ کے نزدیک مبغوض ترین {یعنی جس پر سب سے زیادہ اللہ کا غضب نازل ہو وہ} آدمی ظالم حکمران ہے۔

اور صحیحین میں سیدنا ابو ہریرہص سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَاظِلَّ اِلَّاظِلُّہٗ اِمَامٌ عَادِلٌ وَ شَابٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللہِ وَرَ جُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ اِذا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی یَعُوْدَ اِلَیْہِ وَ رَجُلَانِ تَحَابَّا فِی اللہِ اِجْتَمَعَا عَلٰی ذَالِکَ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ وَ رَجُلٌ ذَکَرَ اللہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ اِمْرَأَۃٌ ذَاتَ مَنْصَبٍ وَ جَمَالٍ اِلٰی نَفْسِھَا قَالَ اِنِّیْ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعَالَمِیْنَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمُ شِمَالُہ‘ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہ‘ (متفق علیہ)
سات آدمی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سایہ میں رکھے گا، جبکہ اللہ کے سواکسی کا سایہ نہیں ہو گا، عادل حکمران، اور جوان آدمی جو عبادت میں اپنا وقت گزارتا ہے، اور وہ آدمی جس کا دل مسجد سے لگا ہوا ہے جب مسجد سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ پھر لوٹ کر مسجد میں پہنچے، اور وہ دو آدمی جن کی دوستی محض اللہ کے واسطے ہو، اور اسی دوستی کی وجہ سے وہ ملتے ہیں اور اسی دوستی پر رخصت ہوتے ہیں۔ وہ آدمی جو خالص اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور آنکھوں سے آنسو بہاتا ہے، اور وہ آدمی جس کو کسی صاحب منصب و جمال عورت نے نفس پرستی (یعنی زنا) کے لیے بلایا اور اس نے کہہ دیا میں اللہ! رب العالمین سے ڈرتا ہوں اور وہ آدمی جو خیرات دے اور اِس کو چھپائے یہاں تک کہ اس کا داہنا ہا تھ خرچ کرتا ہے تو اِس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا۔

صحیح مسلم میں سیدنا عیاض بن حمادص سے مروی ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اَھْلُ الْجَنَّۃِ ثَلَاثَۃٌ سُلْطَانٌ مُقْسِطٌ وَرَجُلٌ رَحِیْمٌ رَ قِیْقُ الْقَلْبِ لِکُلِّ ذِیْ قُرْبٰی وَمُسْلِمٍ وَرَجُلٌ غَنِیٌّ عَفِیْفٌ مُتَصَدِّقٌ
تین قسم کے لوگ جنتی ہیں، عادل حکمران، اور وہ آدمی جو رحمدل رقیق القلب ہے ہر قرابتدار اور ہر مسلمان پر رحم کرتا ہے، اور وہ آدمی جو غنی اور با عفت (یعنی لوگوں سے نہ مانگنے والا) ہے اور خیرات کرتا ہے۔

اور سنن میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے:

اَلسَّامِیْ عَلَی الصَّدَقَۃِ بِالْحَقِّ کَالْمُجَاھِدِ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ
اللہ کے لیے جو صدقہ و خیرات کی کوشش کرتا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی ما نند ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہاد کا حکم فرمایا تو فرمایا:

وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَاتَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ للہِ (بقرہ:193)
اور وہاں تک ان سے لڑو کہ ملک میں فساد باقی نہ رہے اور ایک اللہ کادین چلے۔

رسول اللہ ﷺ کی جناب میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ آدمی کبھی شجاعت دکھانے کو جنگ کرتا ہے، کبھی حمیّت {و غیرت} کی وجہ سے، اور کبھی ریاء اور دکھاوے کے لیے، تو ان میں سے کونسا فی سبیل اللہ ہو گا؟ آپ نے فرما یا:

مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سِبِیْلِ اللہِ (اخرجاہ فی الصحیحین)
جو اس لیے جنگ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین بلند ہو، وہ فی سبیل اللہ ہے۔

پس معلوم ہوا کہ جہاد کا مقصد بھی یہ ہے کہ سب کا سب اللہ کا دین ہو اور اللہ کا دین بلند ہو اور ’’کلمۃ اللہ‘‘ ایسا جامع اسم ہے جو کتاب اللہ پر بھی مشتمل اور متضمن ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَقَدْ اَرَسَلْنَا رُسُلَنَا بِا لْبَیِّنَاتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ط (حدید:25)
البتہ تحقیق ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے معجزے دے کر بھیجا ہے اور انکی معرفت کتابیں اُتاریں اور نیز ترازو تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
رسولوں، پیغمبروں کو بھیجنے اور کتاب نازل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد میں عدل و انصاف قائم کریں، اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلُہٗ بَالْغَیْبِ (حدید:25)
اور ہم نے لوہا نازل کیا، اس میں بڑا خطرہ ہے اور اس میں لوگوں کے فائدے بھی ہیں، اور ایک غرض یہ بھی ہے کہ اللہ ان لوگوں کو معلوم کرے جنہوں نے اللہ کو دیکھا نہیں، اور پھر بھی اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کو کھڑے ہو جاتے ہیں۔

پس جو شخص کتاب اللہ کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے اُسے لوہے {یعنی تلوار، گولی اور بم وغیرہ} سے سیدھا کیا جائے، اس لیے کہ دین کا {قیام و} قوام، دین کی مضبوطی اور پائیداری کتاب اللہ {قرآن و سنت} اور شمشیر و بندوق ہوتی ہے۔

سیدنا جابر بن عبداللہ صسے مروی ہے، وہ کہتے ہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا ہے: اَنْ نَضْرِبَ بِھٰذَا۔ یعنی ہم تلوار سے اُسے ماریں جو قرآن سے منہ موڑے۔

پس جبکہ مقصود یہ ہے تو اقرب فالاقرب طریقے سے مقصود حاصل کیا جائے، اور ایسے دو آدمیوں کو دیکھا اور جانچا جائے کہ اقرب الی المقصود (Near to requirement) دونوں میں سے کون ہے؟ جو دونوں میں اقرب الی المقصود ہو اُسے والئ امر{حاکم، گورنر، مجاز افسر، جج، سپہ سالار، زکوٰۃ و صدقات اور جزیہ اکٹھا کرنے والے تحصیلدار}، اور {چھوٹا بڑا} امیر مقرر کیا جائے۔

پس اگر صرف ولایت و امامت {حکومت و حکمرانی} ہے تو ایسے شخص کو مقدم رکھنا چاہئے جسے رسول اللہﷺ نے مقدم رکھا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:

یَؤُمُّ الْقَوْمَ اَقْرَئُ ھُمْ لِکِتَابِ اللہِ فَاِنْ کَانُوْا فِی قِرَائَ ۃٍ سَوَائً فَاَعْلَمُھُمْ بِالسُّنَّۃِ فَاِنْ کَانُوْا فِی السُّنَّۃِ سَوَائً فَاقْدَمُھُمْ ھِجْرَۃً فَاِنْ کَانُوْا فِی الْھِجْرَۃِ سَوْائً فَاَقْدَمُھُمْ سَنًّا وَلَا یَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِیْ سُلْطَانِہٖ وَلَا یَجْلِسُ عَلٰی تَکْرِمَتِہٖ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (رواہ مسلم)
قوم کی {نمازِ باجماعت کی} امامت وہ کرے جو زیادہ قرأۃ یعنی عالمِ قرآن ہو، اگر قرأۃ (و علم) میں سب برابر ہیں تو سنت کو جاننے والا امامت کرے، اگر سنت جاننے میں سب برابر ہیں تو امامت وہ کرے جو ہجرت میں مقدم ہے، اگر ہجرت میں تمام برابر ہیں تو زیادہ عمر والے کو امام مقرر کرنا چاہئے اور کوئی آدمی اس کی حکومت میں امامت نہ کرے، اور اس کی عزت کی جگہ اس کی اجازت کے بغیر نہ بیٹھے۔

جب دو آدمی برابر ہیں، اور دونوں میں سے کسی ایک کا اصلح {بہتر} ہونا معلوم نہ ہو سکے تو قرعہ ڈالنا چاہئے، جس طرح کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جنگ قادسیہ کے مو قع پر کیا تھا، لوگ باہم مشاجرۃ (یعنی لڑنے) اور جنگ کے لیے تیا ہو گئے کہ اذان ہم کہیں گے اور بہت سے آدمی اپنا استحقاق جتانے لگے، اس وقت رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی اتباع {پیروی} کی گئی کہ:

لَوْ یَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِی النِّدَائِ وَالصَّفِّ الْاَوَّلِ ثُمَّ لَمْ یَجِدُوْا اِلَّا اَنْ یَسْتَھِمُوْا عَلَیْہِ لَا سْتَھَمُوْا
اور لوگ اذان کی حقیقت اور صف اوّل کا ثواب سمجھ لیں تو اذان اور صف اوّل کے لیے قرعہ ڈالنے کی ضرورت پڑے تو قرعہ ڈالیں مگر ہا تھ سے نہ جانے دیں۔

جب وجہ ترجیح مخفی ہو تو قرعہ ڈالے، ایسا کر لیا تو متولی امر {یعنی حاکم} نے امامت کا حق ادا کر دیا، اور اس کی ولایت مستحق و حقدار کو پہنچا دی۔




نوٹ:امانتوں کی ایک قسم یعنی حکومت و اقتدار اور اختیار حقدار، اہل اور ’’اصلح‘‘ شخص کو دینے {یعنی ٹرانسفر آف پاور Transfer of Power} کے متعلق بحث مکمل ہوئی۔ اب امانت کی دوسری قسم ’’مال و دولت کی تقسیم‘‘ کے متعلق گذارشات پیش کی جائیں گی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436

باب: 5 ۔

امانتوں کی دوسری قسم مال و دولت
امانتوں کی دوسری قسم مال ہے، اور یہ دیوان (یعنی رجسٹرار) خاصّہ و عامّہ، ودیعت {کوئی چیز تحفہ کی صورت میں دینا}، شرکت، توکل، مضاربت، یتیم کے مال، اور وقف وغیرہ پر مشتمل ہے، اور صدقہ، خیرات فقراء کو، مسکینوں کو، اور عاملین {زکوٰۃ و صدقات جزیہ وغیرہ اکٹھا کرنے والے تحصیلدار}، مؤلفۃ القلوب {کسی کا دل مائل بہ اسلام کرنے} کیلئے، غلام آزاد کرانے میں، قرضداروں کو دینا، اللہ کی راہ میں دینا اور مسافروں کی مدد کو شامل ہے۔(توبہ:60)۔

امانتوں کی دوسری قسم مال سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ قرض اور دین {وغیرہ} کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اوْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللہَ رَبَّہٗ
پس اگر تم میں سے ایک {شخص} دوسرے کا اعتبار کرے تو جس پر اعتبار کیا گیا ہے اُسے چاہئے کہ قرض دینے والے کی امانت کو ادا کر دے، اور اللہ سے، جو اس کا رب {اور پروردگار} ہے، ڈرے۔(بقرہ:283)

اس قسم میں اعیان {جن کی مدد کی جائے}، دیوان (رجسٹرار) خاصّہ و عامّہ، مثلاً ودیعتیں {تحفے} اور شریک (پارٹنر)، مؤکل، مضارب (کاشتکار)، یتیم کا مال، وقف (ٹرسٹ)، سامان کی قیمت ادا کرنا، قرض، عورتوں کے مہر، منافع کی اُجرتیں وغیرہ شامل ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًاo اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًاo وَّ اِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْنَo وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌo لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِo الی قولہ وَالَّذِیْنَ لِاَمَانَاتِھِمْ وَ عَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ (معارج:19 تا 32)۔
بیشک انسان جلدباز پیدا کیا گیا ہے، جب اس کو نقصان پہنچتا ہے تو گھبرا اٹھتا ہے، اور جب اس کو فائدہ پہنچتا ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر جو نماز گزار ہیں وہ اپنی نمازوں میں کبھی ناغہ نہیں ہونے دیتے اور جن کے مال و دولت میں ما نگنے والے اور نہ مانگنے والے دونوں کا حصہ معین ہے، … اللہ کے اس فرمان تک، … اور جو (اپنی تحویل کی) امانتوں کا، اپنے وعدے اور عہد کا پاس کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّا اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اَرَاکَ اللہُ وَلَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًاo (نساء:105)
اے پیغمبر ﷺ ہم نے کتابِ برحق تم پر نازل کی ہے کہ جیسا آپ کو اللہ نے دکھلا دیا ہے اسکے مطابق لوگوں کے باہمی جھگڑے چکا دیا کرو۔ اور دغابازوں (خیانت کرنے والوں) کے طرف دار نہ بنو۔

اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

اَدِّ الْاَمَانَۃَ اِلی مَنِ ائْتَمَنَکَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَکَ
تمہارے پاس جس نے امانت رکھی ہے تو اُسے تم دے دو، اور تمہارے ساتھ کوئی خیانت کرے تو تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
نبی کریم ﷺ کا ارشادہے:

اَلْمُوْمِنُ مَنْ اَمِنَہُ الْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی دِمَائِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مَنْ لِّسَانَہٖ وَیَدِہٖ وَالْمُھَاجِرُ مَنْ ھَجَرَ عَمَّا نَھَی اللہُ عَنْہُ وَالْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہَ فِیْ ذَاتِ اللہِ
مومن وہ ہے جس سے دیگر مسلمان اپنے خون اور مال کے بارے میں بے خوف ہوں۔ اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمانوں کو سلا متی ملے، اور مہاجر وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس سے رُک جائے اور مجاہد وہ ہے جو ذات الٰہی کے لیے اپنی جان سے جہاد کرے۔

یہ حدیث صحیح ہے، حدیث کے بعض حصے بخاری و مسلم میں ہیں اور بعض حصے سنن ترمذی میں بھی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا:

مَنْ اَخَذَ اَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ اَدَائَہَا اَدَاھَا اللہُ عَنْہُ وَمَنْ اَخَذَھَا یُرِیْدُ اِتْلَافَھَا اَتْلَفَہُ اللہُ (رواہ البخاری)
جو لوگوں کا مال اس ارادہ سے لیتا ہے کہ اُسے ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے ادا کرا دیتا ہے اور جو اس ارادہ سے لیتا ہے اُسے ضائع کر دے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے ضائع کرا دیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ان امانتوں کے متعلق فرض کیا ہے جن پر کسی حق سے فیصلہ کیا گیا ہے، اور تنبیہ فرماتا ہے کہ جب اس میں غصب یا دُوری کی گئی ہو، یا خیانت وغیرہ ہوئی ہو یا کسی قسم کا ظلم ہوا ہو، تو ان کا ادا کرنا فرض ہے، اسی طرح عاریتہ {مانگ کر لینا} اور مستعار (اُدھارلی ہوئی) چیزیں بھی واپس کرنا فرض ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃالوداع کے خطبہ میں فرما یا ہے:

اَلْعَارِیَۃُ مُؤَدَّاۃٌ وَالْمَنْحَۃُ مُرْدُوْدَۃٌ وَالدَّیْنُ مَقْضِیٌّ وَالْزَّعِیْمُ غَارِمٌ اِنَّ اللہَ قَدْ اَعْطٰی کُلَّ ذِیْ حَقِّ حَقَّہٗ فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ
عاریتہ {مانگ کر} لی ہوئی چیزواپس کی جائے اور اونٹ کا بچہ جس کے لیے مخصوص کیا گیا ہو اُسے دے دیا جائے، اور قرض ادا کر دیا جائے، اور زعیم و قائد پر جو لازم ہے ادا کر دے بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا۔ پس وارث کیلیے وصیت نہیں ہے۔

{امانتوں کی} اس قسم میں والیان امر {تمام بیورو کریٹ}، والیان ملک {حاکمِ وقت}، اور رعیت {عوام الناس} سب شامل ہیں، والیان امر، {تمام بیورو کریٹ}، والیان ملک {حاکمِ وقت}، اور رعیت {عوام الناس} سب کا فر ض ہے کہ ایک دوسرے پر جو واجب ہے اُسے ادا کریں، پس سلطان {حاکمین وقت} اور نائبین سلطان {گورنر و افسران} کا فرض ہے کہ وہ {لوگوں کو مال و دولت} عطاء {کرنے} میں کوتاہی نہ کریں، اور مستحقین، حقداروں کے حقوق پورے پورے دے دیں، اور اہل دیوان (رجسٹرار و آڈیٹر) کا فرض ہے کہ وہ سلطان { یعنی حکام} کو وہ دے دیں جس کا دینا ان پر {فرض} کیا گیا ہے، اسی طرح رعیت {عوام الناس} پر فرض ہے کہ ان پر جو حقوق لازم کئے گئے ہیں ادا کر دیں، اور رعیت کے لیے یہ جائز نہیں کہ والیان ملک {یعنی حکام} سے وہ ایسا مطالبہ کریں جس کا ان کو حق نہیں دیا گیا۔ اگر یہ مطالبہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے ماتحت آ جائیں گے:

وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّلْمزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ ط فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَارَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطُوْا مِنْھَآ اِذَا ھُمْ یَسْخَطُوْنَ o وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتَاھُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللہُ سَیُؤْتِیْنَا اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہ‘ اِنَّا اِلَی اللہِ رَاغِبُوْنَo اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسْاکِیْنَ وَ الْعَامِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَابْنِ السَّبِیْلِط فَرِیْضَۃً مِّنَ اللہِ وَاللہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌo (توبہ:58 تا 60)
اور ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ زکوٰۃ میں آپ ﷺ پر الزام لگاتے ہیں، پھر اگر ان کو اس میں سے دیا جائے تو خوش ہوتے ہیں، اور اگر اس میں سے ان کو نہ دیا جائے تو فوراً ہی بگڑ بیٹھتے ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول ﷺ نے ان کو دیا تھا اگر یہ اس کو خوشی سے لے لیتے اور کہتے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے، اور اب نہیں دیا تو کیا ہے، آئندہ اپنے کرم سے اللہ اور اس کا رسول ﷺہم کو دیں گے ہم تو اللہ ہی سے لو لگائے بیٹھے ہیں، زکوٰۃ تو بس فقیروں کا حق ہے اور محتاجوں کا، اور ان افسران کا جو زکوٰۃ وصول کرنے پر تعینات ہیں اور ان لوگوں کا جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا منظور ہے اور نیز قید و غلامی سے غلاموں کی گردنیں چھڑانے میں، اور قرضداروں کے قرض میں اور اللہ کی راہ میں، اور مسافروں کے زادِ راہ میں، یہ {مصارفِ زکوٰۃ} اللہ کے فرض کیے ہوئے ہیں، اور اللہ خوب جاننے والا بڑا با تدبیر ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اور انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ سلطان {حاکمِ وقت} کے وہ حقوق جو ان لوگوں پر واجب ہیں روک لیں۔ اور نہ دیں، اگر چہ سلطان ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے، اور یہ اس وقت ارشاد فرما یا تھا جب والیانِ ملک {حاکم و گورنرز} کے ظلم و جور کی شکایت کی گئی تھی فرمایا:

اَدُّوْا اِلَیْھِمُ الَّذِیْ لَھُمْ فَاِنَّ اللہَ سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاھُمْ
جو حق اُن کا تم پر ہے، ادا کر دیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ رعیت {عوام الناس} کے حقوق کا سوال اُن سے کرے گا۔

اور سیدنا ابوہریرہص سے مروی ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاء کُلَّّّّّمَا ھَلَکَ نَبِیَّ وَ سَیَکُوْنُوْا خُلَفَاء وَیُکْثِرُوْنَ قَالُوْا فَمَا تَاْمُرُنَا قَالَ اَوْفُوْا بَیْعَۃَ الْاَوَّلِ فَاِنَّ اللہَ سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرَعَاھُمْ (صحیح بخاری ومسلم)
بنی اسرائیل کی سیاست {یعنی حکومت} انبیاء کرام کیا کرتے تھے، جب کسی پیغمبر کی وفات ہوتی تھی دوسرے پیغمبر کو خلیفہ بنا لیتے، اور میرے بعد کوئی نبی و پیغمبر نہیں ہو گا، خلفاء ہونگے، اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا ایسے وقت میں آپ ﷺہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنی بیعت کو پوری دیانتداری سے پورا کرو، جس سے پہلے بیعت کی ہے اُسے پورا کرو، جو حقوق تم پر ہیں اُن کو دے دو، رعایا کے حقوق اللہ تعالیٰ ان سے پوچھ لے گا۔

اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابن مسعودص سے مروی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ بَعْدِیْ أَثْرَۃً وَ تُنْکِرُوْنَھَا قَالُوْا فَمَا تَاْمُرُنَا یَارَسُوْلَ اللہِ قَالَ اَدُّوْا اِلَیْھِمْ حَقَّھُمْ وَاسْئَلُوا اللہَ حَقَّکُمْ
میرے بعد تم دولت و ثروت بہت دیکھوگے اور ایسے اُمور اور ایسی باتیں بھی دیکھو گے جنہیں تم بُرا سمجھو گے۔ صحابہ ث نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسے وقت آپ ﷺ میں ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ان کے حقوق جو تم پر ہیں تم ادا کر دیا کرو، اور اپنے حقوق تم اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو۔

پس و الیانِ مال {یعنی وزیر خزانہ اور اس کے ماتحت تمام چھوٹے بڑے بیوروکریٹ اور کلریکل اسٹاف} کو کسی طرح حق نہیں پہنچتا کہ وہ مال کو اپنی خواہشات کے مطابق تقسیم کریں۔ جس طرح کہ مال کے مالک اپنا مال تقسیم کر لیتے ہیں اور جس طرح چاہتے ہیں لیتے دیتے ہیں، کیونکہ والیان مال اس مال کے مالک نہیں ہیں بلکہ امین {امانت دار}، نائب ِ {سلطان} اور وکیل ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

اِنِّیْ وَاللہِ لَا اُعْطِیْ اَحَدًا وَّ لَا اَمْنَعُ اَحَدًا اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ اَضَعُ حَیْثُ اُمِرْتُ
اللہ کی قسم! میں نہ کسی کو دیتا ہوں، نہ کسی سے مال کو روکتا ہوں، میں تو حقداروں پر اسی طرح تقسیم کرتا ہوں جیسا کہ مجھے حکم کیا گیا ہے۔ (رواہ البخاری) ۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
غور کیجئے نبی کریم ﷺ رب العالمین کے رسول اور پیغمبر ہیں، لیکن فرماتے ہیں: دینے اور نہ دینے میں اپنے ارادہ کو کوئی دخل نہیں، اور تقسیم کرنے میں کسی قسم کا اختیار نہیں، جس طرح کہ مال کے مالکوں کو حق اور اختیار ہوا کرتا ہے، {یعنی وہ} ہر طرح اس میں تصرف کرسکتے ہیں۔ اور سلاطین شاہانِ دنیا بغیر کسی حق اور بغیر اِستحقاق کے جس سے محبت کرتے ہیں اُنہیں دیتے ہیں، اور جس سے ناراض ہوتے ہیں اُسے محروم کر دیتے ہیں{جیسا کہ آجکل پاک سرزمین میں بھی ہو رہا ہے}، لیکن اللہ کے پیغمبر ﷺ، اللہ کے بندے ہیں، اور جہاں اللہ کا حکم ہوتا ہے وہاں خرچ کرتے ہیں۔

اسی طرح سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی کیا کرتے تھے۔ کسی نے سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے کہا: اگر آپ کچھ اپنے لیے وسعت کر لیا کریں تو بہتر ہے، اللہ تعالیٰ کے مال میں سے کچھ زیادہ لے لیا کریں تو اچھا ہے۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا میری اور ان لوگوں کی مثال تمہیں معلوم نہیں ہے، ان کی مثال ایسی ہے کہ کچھ لوگ سفر کر رہے ہیں، ان لوگوں نے اپنا مال جمع کر کے ایک {شخص} کے سپرد کیا کہ یہ مال ہمارے لیے مناسب طریقہ سے خرچ کرنا، تو کیا اس کے لیے جائز ہو گا کہ وہ اپنے لیے اس مال میں سے لے لے اور جس طرح چاہے خرچ کرے؟

ایک مرتبہ خمس میں {یعنی مالِ غنیمت کے پانچویں حصے سے} بہت سا مال {و دولت} سیدنا عمرص کے پاس آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مال دیکھ کر بولے اُنھوں نے امانتیں دے دیں خوب کیا، بعض حاضرین بولے آپ امانت کو اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں تو لوگو ںنے امانتیں آپ کو دے دیں، اگر آپ اس میں خرد برد کرتے تو یہ لوگ بھی خرد برد کرتے۔

اور سزاوار اور لائق یہ ہے کہ لوگ اس حقیقت کو سمجھیں کہ اولی الامر {حاکم} کیا ہے اور اسکی حیثیت کیا ہے؟ اولی الامر کی مثال بازار کی سی ہے، بازار میں جیسا کرو ویسا لے لو، جیسے دام ویسا مال۔

چنانچہ جناب عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: اگر تم صدق و صداقت، برّو نیکی، عدل و انصاف اور امانتداری کرو گے تو تمہیں اس کے بدلہ میں یہی چیزیں ملیں گی۔ اگر تم کذب وجھوٹ، ظلم و جور، خیانت و بددیانتی کروگے تو تمہیں اس کے جواب میں یہی ملے گا، اسی لیے ولی امر {بیورو کریٹ افسر اور} سلطان {حاکمِ وقت، گورنر، وزیر، مال و دولت پر متعین شخص} کا فرض ہے کہ حلال و طیب طریقہ سے حاصل کرے، اور جہاں حق ہو وہاں خرچ کرے، اور مستحق، حقداروں کو محروم نہ کرے۔

امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ایک مر تبہ اطلاع ہوئی کہ آپ کے بعض نائب رعایا پر ظلم و جور کر رہے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ لَمْ اٰمُرْھُمْ اَنْ یَّظْلِمُوْا خَلْقَکَ وَلَا یَتْرُکُوْا حَقَّکَ
اے اللہ میں نے ان کو ظلم وجور کا حکم نہیں دیا اور نہ تیرا حق چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
 
Top