بھائی میں نے محدث فتوی سائٹ پر یہ سوال پوچا تھا جس کا جواب آ گیا ہے۔
الحمدللہ
ملاحظہ کریں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال: مسلمانوں کے خلاف کفار کی معاونت کرنے والے کا شرعی حکم کیا ہے۔؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرنا ہر گز جائز نہيں ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کا یہ عمل کفر اور ارتداد پر مبنی ہے۔
کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
’’
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ‘‘ (الآية المائدة / 51)
فقہاء اسلام جن میں آئمہ حنفیہ ، مالکیہ ، شافعیہ ، اورحنابلہ اور ان کے علاوہ باقی سب شامل ہیں نے بالنص یہ بات کہی ہے کہ کفار کو ايسی چيز بیچنا حرام ہے جس سے وہ مسلمانوں کے خلاف طاقت حاصل کریں چاہے وہ اسلحہ ہو یا کوئي جانور اورآلات وغیرہ ۔ لہذا انہيں غلہ دینا اورانہيں کھانا یا پینے کے لیے پانی وغیرہ یا کوئي دوسرا پانی اورخیمے اورگاڑیاں اور ٹرک فروخت کرنا جائز نہيں ، اورنہ ہی ان کی نقل وحمل کرنا ، اوراسی طرح ان کےنقل وحمل اورمرمت وغیرہ کے ٹھیکے حاصل کرنا بھی جائز نہيں بلکہ یہ سب کچھ حرام میں بھی حرام ہے ، اور اس کا کھانے والا حرام کھا رہا ہے اورحرام کھانے والے کے لیے آگ یعنی جہنم زيادہ بہتر ہے ۔ گویا انہیں کوئي ادنیٰ سی بھی ایسی چيز دینی جائز نہيں جس سے وہ مسلمانوں کے خلاف مدد حاصل کرسکتے ہوں ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب " المجموع " میں کہتے ہیں :
’’ وَأَمَّا بَيْعُ السِّلاحِ لأَهْلِ الْحَرْبِ فَحَرَامٌ بِالإِجْمَاعِ ..اهـ . ‘‘
اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب " اعلام الموقعین میں کہا ہے :
امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
’’ قَالَ الإِمَامُ أَحْمَدُ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ بَيْعِ السِّلاحِ فِي الْفِتْنَةِ . . . وَمِنْ الْمَعْلُومِ أَنَّ هَذَا الْبَيْعَ يَتَضَمَّنُ الإِعَانَةَ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ , وَفِي مَعْنَى هَذَا كُلُّ بَيْعٍ أَوْ إجَارَةٍ أَوْ مُعَاوَضَةٍ تُعِينُ عَلَى مَعْصِيَةِ اللَّهِ كَبَيْعِ السِّلاحِ لِلْكُفَّارِ وَالْبُغَاةِ وَقُطَّاعِ الطَّرِيقِ . . . أَوْ إجَارَةُ دَارِهِ لِمَنْ يُقِيمُ فِيهَا سُوقَ الْمَعْصِيَةِ , وَبَيْعِ الشَّمْعِ أَوْ إجَارَتِهِ لِمَنْ يَعْصِي اللَّهَ عَلَيْهِ , وَنَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا هُوَ إعَانَةٌ عَلَى مَا يُبْغِضُهُ اللَّهُ وَيُسْخِطُهُ اهـ‘‘
اورموسوعہ فقہیہ25/153 میں مکتوب ہے کہ :
’’ يَحْرُمُ بَيْعُ السِّلاحِ لأَهْلِ الْحَرْبِ وَلِمَنْ يَعْلَمُ أَنَّهُ يُرِيدُ قَطْعَ الطَّرِيقِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَوْ إثَارَةَ الْفِتْنَةِ بَيْنَهُمْ , وَقَالَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ : لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَحْمِلَ إلَى عَدُوِّ الْمُسْلِمِينَ سِلَاحًا يُقَوِّيهِمْ بِهِ عَلَى الْمُسْلِمِينَ , وَلا كُرَاعًا , وَلا مَا يُسْتَعَانُ بِهِ عَلَى السِّلاحِ وَالْكُرَاعِ (الكراع هي الخيل) ; لأَنَّ فِي بَيْعِ السِّلاحِ لأَهْلِ الْحَرْبِ تَقْوِيَةً لَهُمْ عَلَى قِتَالِ الْمُسْلِمِينَ , وَبَاعِثًا لَهُمْ عَلَى شَنِّ الْحُرُوبِ وَمُوَاصَلَةِ الْقِتَالِ , لاسْتِعَانَتِهِمْ بِهِ وَذَلِكَ يَقْتَضِي الْمَنْعَ اهـ . ‘‘
یہ مسئلہ کوئی عادی اورعام یا پھر چھوٹا ساگناہ و معصیت نہيں بلکہ یہ مسئلہ توعقیدہ توحید اورمسلمان کی اللہ تعالی کے دین سے محبت اوراللہ کے دشمنوں سے برات و لاتعلقی سے تعلق رکھتا ہے ، آئمہ کرام نے اپنی کتب میں اس کے بارہ میں اسی طرح لکھا ہے ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے اپنے فتوی میں کہا ہے :
"
وقد أجمع علماء الإسلام على أن من ظاهر الكفار على المسلمين وساعدهم بأي نوع من المساعدة فهو كافر مثلهم ، كما قال الله سبحانه (
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) المائدة / 51 "
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ