- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ) سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالی اپنا ملک جسے چاہے گا عنائت کرے گا۔ سعید بن جمہان نے کہا کہ حضرت سفینہ نے مجھے کہا حساب لگا لو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو سال حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دس سال اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور اسی طرح کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنومروان سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے تو انھوں نے کہا بنی زرقاء کے پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ- أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ-<.
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ
سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبوت کی خلافت تیس سال تک رہے گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ملک جسے چاہے گا دیدے گا ۔ “
اس حدیث کو شیخ البانی و زبیر علی زئی نے صحیح و حسن قرار دیا ہے! لیکن میں آپ کو ان کی تصحیح پیش نہیں کرتا! میں آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتا ہوں:
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا}
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 406 جلد 03 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
فَإِنْ قَالَ: أَرَدْتُ بِقَوْلِي أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ انْعَقَدَتْ بِمُبَايَعَةِ الْخَلْقِ لَهُ لَا بِالنَّصِّ.
فَلَا رَيْبَ أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ وَإِنْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ النَّصَّ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، لِقَوْلِهِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً» "، فَهُمْ يَرْوُونَ النُّصُوصَ الْكَثِيرَةَ فِي صِحَّةِ خِلَافَةِ غَيْرِهِ.
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 454 جلد 01 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
وَأَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 522 جلد 04 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
دوسری بات پالیمانی نظام حکومت کو قانون یاسق کا پیش خیمہ قرار دینے کے دلائل ؟
دوم کہ کسی عمل کا کفر ہونا اور کسی شخص کا کافر ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں!! فتدبر!
لیکن آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ :
اور دوسری حدیث خوارج ہر دور میں نکلتے رہیں گے!!
اب ان دو احادیث سے آپ کا مدعا غلط ثابت ہوتا ہے کہ خوارج اسی وقت ہو سکتے ہیں کہ جب امامت (خلافت) موجود ہو گی!! فتدبر!!
لیکن یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں اباضیہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں وہ بھی خوارج نہیں؟؟
ایک التماس: عبدہ بھائی سے گفتگو کے دوران صارفین کوئی نئی بحث شروع نہ کریں تو تھریڈ کی بحث بے ترتیب نہیں ہوگی!!
یعنی کہ اس حدیث سے تو آپ کا مؤقف ثابت نہیں ہوتا مگر آپ نے نے تو بہت واشگاف الفاظ میں کہا تھا:خوارج تکفیرو خروج علی الإمام کی بنا خوارج کہلاے - مختصراً میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دور حاضرمیں پہلے آپ امامت (یعنی خلافت ) ثابت کریں پھراس امام کی خلافت کے خلاف کھڑے ہونے والے باغی کو خوارج قرار دینا جائزہوگا-
اب آپ الگ مدعا پیش کر ہے ہیں!!یہ روایت صاف ظاہر کرتی ہے کہ خوارج حقیقی طور پر دور قدیم میں حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہی نمودار ہوے تھے - اس کے بعد کسی خاص گروہ پر خوارج کا الزام لگانا دانشمندی نہیں- اور اسلامی تاریخ کے مطابق عباسی دور کے وسط تک شورشیں جاری رہیں-
خلافت علی منہاج النبوہ تو صرف تیس سال رہی، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:دور حاضر میں خوارج خوارج کی رٹ لگانے والے حقیقت میں مسلم ممالک میں کفریہ جمہوری نظام کو جائز سمجھتے ہیں -اسی بنا پر انھیں خلافت علی منہاج النبوہ اور دورحاضر کے کفریہ جمہوری نظام میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا اور وہ حکومت وقت کی خللاف ادنی سازش کو بھی خوارجی تحریک سمجھنے لگتے ہیں- اسی بنا پر وہ علماء وقت جو کسی پر تکفیر کے مجاز ہیں- جن کے مدارس حکومت وقت کی تنخواہ اور اس کے اخراجات کے مرہون منّت ہیں وہ ان پر کفر کے فتویٰ لگانے میں تساہل سے کام لیتے ہیں - اور اس کے نتیجے میں حکومت وقت کی خلاف ہر تحریک خوارجی تحریک کہلانے لگتی ہے -
حَدَّثَنَا سَوَّارُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ، مَنْ يَشَاءُ<. قَالَ سَعِيدٌ: قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ عَلَيْكَ أَبَا بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، وَعُمَرُ عَشْرًا، وَعُثْمَانُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ، وَعَلِيٌّ كَذَا، قَالَ سَعِيدٌ: قُلْتُ لِسَفِينَةَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّ عَلِيًّا- عَلَيْهِ السَّلَام- لَمْ يَكُنْ بِخَلِيفَةٍ؟ قَالَ: كَذَبَتْ أَسْتَاهُ بَنِي الزَّرْقَاءِ.- يَعْنِي: بَنِي مَرْوَانَ
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ) سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت کی خلافت تیس سال رہے گی پھر اللہ تعالی اپنا ملک جسے چاہے گا عنائت کرے گا۔ سعید بن جمہان نے کہا کہ حضرت سفینہ نے مجھے کہا حساب لگا لو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دو سال حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دس سال اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارہ سال اور اسی طرح کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ۔سعید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سفینہ سے کہا کہ یہ بنومروان سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ نہ تھے تو انھوں نے کہا بنی زرقاء کے پچھلے حصوں نے جھوٹ بولا ہے ۔
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ مَنْ يَشَاءُ- أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ-<.
سنن أبي داؤد: كتاب السنة بَاب فِي الْخُلَفَاءِ
سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” نبوت کی خلافت تیس سال تک رہے گی ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ملک جسے چاہے گا دیدے گا ۔ “
اس حدیث کو شیخ البانی و زبیر علی زئی نے صحیح و حسن قرار دیا ہے! لیکن میں آپ کو ان کی تصحیح پیش نہیں کرتا! میں آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کلام پیش کرتا ہوں:
وَثَبَتَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا}
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 406 جلد 03 - مجموع فتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية - مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف
فَإِنْ قَالَ: أَرَدْتُ بِقَوْلِي أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ يَقُولُونَ: إِنَّ خِلَافَتَهُ انْعَقَدَتْ بِمُبَايَعَةِ الْخَلْقِ لَهُ لَا بِالنَّصِّ.
فَلَا رَيْبَ أَنَّ أَهْلَ السُّنَّةِ وَإِنْ كَانُوا يَقُولُونَ: إِنَّ النَّصَّ عَلَى أَنَّ عَلِيًّا مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ، لِقَوْلِهِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً» "، فَهُمْ يَرْوُونَ النُّصُوصَ الْكَثِيرَةَ فِي صِحَّةِ خِلَافَةِ غَيْرِهِ.
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 454 جلد 01 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
وَأَمَّا عُلَمَاءُ أَهْلِ السُّنَّةِ الَّذِينَ لَهُمْ قَوْلٌ [يُحْكَى] فَلَيْسَ فِيهِمْ مَنْ يَعْتَقِدُ أَنَّ يَزِيدَ وَأَمْثَالَهُ مِنَ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَالْأَئِمَّةِ الْمَهْدِيِّينَ ، كَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ وَعَلِيٍّ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - بَلْ أَهْلُ السُّنَّةِ يَقُولُونَ بِالْحَدِيثِ الَّذِي فِي السُّنَنِ: " «خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ تَصِيرُ مُلْكًا» " .
ملاحظہ فرمائیں عکس: صفحه 522 جلد 04 - منهاج السنة النبوية لشيخ الإسلام ابن تيمية - جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية
پیش خیمہ پر بھی کیا وہی حکم صادر ہوتا ہے جو نتیجہ پر ہو!!! فتدبر!آپ نے فرمایا ہے کہ :
اللہ کے رسول کو چنگیز خان کے برابر قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا بیٹا قرار دینا' چنگیز خان کو اللہ کا رسول قرار دینا اور اس کے دیے گئے قوانین کی تعظیم کرنا' مجموعہ قوانین 'الیاسق' کا انکار کرنے والے مسلمانوں کے خون کو حلال سمجھنا اور کھانے پینے کے بعد چنگیزخان کا شکر ادا کرنا وغیرہ ایسے صریح کفریہ عقائد ہیں کہ جن کے کفر اکبر ہونے میں دو بندوں کا بھی اختلاف ممکن نہیں ہے لہذا 'الیاسق' کے مجموعہ قوانین کے بارے تاتاریوں کا جو رویہ اور عقیدہ تھا وہ اعتقادی کفر کا تھا اور اعتقادی کفر کی بنیاد پر سلفی علماء تکفیر کے قائل ہیں۔
کیا دور حاضر میں پارلیمانی نظام حکومت بھی اسی قانون یاسق کا پیش خیمہ نہیں -
دوسری بات پالیمانی نظام حکومت کو قانون یاسق کا پیش خیمہ قرار دینے کے دلائل ؟
تو اگر مگر کی نہ بات کر، جوہوا ہے مجھے وہ بتا!!کسی مسلم ملک کی پارلیمنٹ اگر شریعت کا کوئی حکم ملک میں نافذ کرتی ہے مثال کے طور پر قاتل کو گردن زنی کی سزا دینا یا چور کے ہاتھ کاٹنا وغیرہ اور ساتھ ہی وہ ہم جنس پرستی کا قانون بھی نافذ العمل کرتی ہے- تو کیا یہ الله کے احکامات کے معاملے میں کفر نہیں-
دوم کہ کسی عمل کا کفر ہونا اور کسی شخص کا کافر ہونا دو الگ الگ باتیں ہیں!! فتدبر!
یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے!! کہ پارلیمنٹ صرف جمہور کی رائے کو دیکھتی ہے!!ارلیمنٹ تو صرف جمہور کی راے کو دیکھتی ہے وہ الله کے احکامات کو بھی صرف جمہور کی راے پر قانون بناتی ہے جو کہ صریح کفر ہے- اللہ کا قانون جمہورکا پابند نہیں ہے-
تخیلات میں تو آپ جو چاہئیں صورتیں بنا لیں!! لیکن پھر اللہ کے واسطے ! حکمرانوں کے خلاف یہ نام نہاد جہاد بھی تخیلات میں ہی کرتے رہیں!!اب اس صورت میں دور حاضر کے حکمرانوں کے خلاف جہاد کرنا کیا خوارجی سوچ کے کہلاے گا ؟؟؟
ایں خیال است و محال است و جنوں!!مجھے یقین ہے کہ امام ابن تیمیہ رح اگر آج زندہ ہوتے تو اس دور حاضر کے حکمرانوں کو تاتاریوں کی طرح ہی کافر ہی قرار دیتے-
بھائی جان! دجال کے ساتھ یقیناً آخری خوارج نکلیں گے!! اور وہ دور یقیناً خلافت علی منہاج النبوۃ کا ہوگا۔ اور مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے یقیناً اصلی خواری ہونگے!دجال کے ساتھ خوارج کے آخری گروہ کا نکلنا اس لئے بھی ممکن ہے کہ روایات کی رو سے دجال اور امام مہدی رح کا دور ایک ہی ہو گا وہ دونوں ایک دور میں موجود ہونگے - اور وہ خلافت علی منہاج النبوہ کا دورہو گا - مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ہی "اصلی خوارج" ہونگے - یہ ان لوگوں اورعلماء کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے جو مروجہ جمہوری اور بادشاہی نظام حکومت کو عین اسلامی سمجھتے ہیں-
لیکن آپ نے یہ جو لکھا ہے کہ :
آپ کی یہ بات گزشتہ پیش کی جانے والی احادیث کے خلاف ہے!! کہ وہی ایک گروہ اصلی خوارج کا ہوگا!! جبکہ آپ کو حدیث نبوی صلی اللہ علیہ پیش کی جا چکی ہے! فتدبر!مہدی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے ہی "اصلی خوارج" ہونگے -
بھائی جان آپ کو احادیث پیش کی گئی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلافت علی منہاج النبوہ تیس سال رہے گی، پھر مملکت قائم ہو جوئے گی!!لہذا دور حاضر میں خوارج کو ثابت کرنے کے لئے پہلے امامت (خلافت ) کو ثابت کرنا ضروری ہے -
اور دوسری حدیث خوارج ہر دور میں نکلتے رہیں گے!!
اب ان دو احادیث سے آپ کا مدعا غلط ثابت ہوتا ہے کہ خوارج اسی وقت ہو سکتے ہیں کہ جب امامت (خلافت) موجود ہو گی!! فتدبر!!
لیکن یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں اباضیہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا آپ کی نظر میں وہ بھی خوارج نہیں؟؟
ایک التماس: عبدہ بھائی سے گفتگو کے دوران صارفین کوئی نئی بحث شروع نہ کریں تو تھریڈ کی بحث بے ترتیب نہیں ہوگی!!
Last edited: