• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/فتنہ-دہشت-گردی-و-فتنہ-خوارج-۔۔-قرآن-و-حدیث-کی-روشنی-میں.25121/
اسی مضمون کا ایک حصہ یہ ہے
احادیث کی روشنی میں دہشت گرد (خارجیوں) کی علامات
1. أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ. ’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے۔‘‘
(بخاری، الصحيح، کتاب ، 6 : 2539، رقم : 6531۔۔مسلم، الصحيح، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 746، رقم : 1066)
.2. سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ. ’’دماغی طور پر ناپختہ ہوں گے۔‘‘
3. کَثُّ اللِّحْيَةِ. ’’ گھنی ڈاڑھی رکھیں گے۔‘‘
4. مُشَمَّرُ الْإِزَارِ. ’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے۔‘‘
5. يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ. ’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے۔‘‘
6. لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.۔۔ ’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘
7. لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ. ’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔‘‘
8. يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ. ’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے۔‘
( عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673)
9. يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ. (بخاری)
’’تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا۔‘‘
10. لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ. ’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066)
11. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ.
’’وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی۔‘‘
12. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. ’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘
13. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ. ’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا۔‘‘
14. يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ. (ابوداود باب فی قتل الخوارج)
’’وہ لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
15. يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ. ’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے۔‘‘ (بخاری)
16. يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا. ’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی۔‘‘ (طبرانی)
17. يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ. ’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘ (أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765)
18. هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے۔‘‘ (مسلم)
19. يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ. ’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے۔‘‘
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال الصحيح.
20. يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ. ’’وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘ (متفق علیہ)
21. يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ. ’’وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔‘‘ (متفق علیہ)
22. يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ. ’’وہ ناحق خون بہائیں گے۔‘‘ (مسلم)
23. يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ. (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها)
’’وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔)
(حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657 )
24. يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه).
’’وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے۔‘‘ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ) (امام طبری۔عسقلانی)
25. يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه) ’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (قولِ علی رضی اللہ عنہ) (مسلم)
26. ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. (من قول ابن عمر رضی الله عنه) (بخاری)
’وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں۔‘‘ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)
27. يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. ’’وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
28. اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ. ’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا۔‘‘ مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
29. ’’وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے۔‘‘ (ترمذی)
30۔ کلاب النار ۔۔ جہنم کے کتے (السنن ابن ماجہ۔ باب فی الذکر الخوارج ۔ ۱: ۶۲، رقم۔۱۷۶
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خوارج کے عقائد
مذہب خوارج کی بنیادچندفاسدعقائدپرہے ‏،گرچہ ابتداءمیں انہوں نے اپنےزعم کے مطابق اس کی بنیادحق پررکھی تھی ،اوراس کابنیادی سبب قرآن فہمی سے ناواقفیت اورسوءفہم تھا، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :"خوارج جان بوجھ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں تھے یہاں تک کہاجاتاہے کہ ان کی حدیثیں صحیح ترین ہواکرتیں تھیں لیکن یہ جہالت کی وجہ ہے اپنی بدعت میں گمراہ ہوگئے ، اوران کی بدعت الحادوزندقیت کی بنیادپرنہیں تھی قرآن کریم کے فہم سے جہالت وگمراہی کی بنیاد پر تھی "۔(منہاج السنہ النبویہ :1/68) ۔
ذیل میں خوارج کے باطل عقائدمیں سے چند کاخلاصہ پیش کیاجارہاہے :
1- مرتکب کبیرہ کی تکفیر : خوارج کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا مطلق کافرہوتاہے جو ہمیشہ ہمیش جہنم میں رہےگا، کیونکہ ایمان ان کے نزدیک ایسی حقیقت ہے جس کی تقسیم وتجزء نہیں ہو سکتی ، لہذاجب اس کا کچھ حصہ زا‏ئل ہوگیاتو پوراکاپوراختم ہوگیا،شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےبقول :"خوارج ، مرجئہ ،معتزلہ اورجہمیہ وغیرہ جیسےفرقوں کاایمان سےمتعلق اصلی نزاع یہ ہے کہ ان کے نزدیک ایمان ایک (منجمد) چیز ہے اگراس میں کچھ بھی زائل ہوگیا توپوراکا پورا بربادہوگيا،اوراگرتھوڑابھی ثابت ہوگیاتوپوراکاپوراثابت ہوگيا۔۔۔"
(مجموع فتاوی ابن تیمیہ :7/510)
2 - ان کے مخالف تمام مسلمان مشرک ہیں : خوارج میں سے ایک غالی فرقہ ازارقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ان کے مخالف تمام مسلمان مشرک ہیں ،جوان کی دعوت قبول نہیں کریگااوران کے مذہب کو نہیں اپنائےگااس کا خون ، اس کی عورت ،اس کی اولاد حلال ہیں ، ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کو کافراور ان کے قاتل عبدالرحمن بن ملجم کو بہادرشہید گرداناہے (إسلام بلا مذاهب للدكتور مصطفى الشكعة : ص133)
3 - جب لوگ واپس میں انصاف قائم کرسکتےہوں تو امام کی ضرورت باقی نہیں رہتی: خارجی فرقہ نجدات کے بقول جب لوگ واپس میں انصاف قائم کرسکتےہوں تو امام کی ضرورت باقی نہیں رہتی ، اوراگروہ سمجھتےہیں کہ امام کے بغیر انصاف نہیں ہوسکتا ہے اوروہ امام بنالیتےہیں تو یہ جائزہے ۔ چنانچہ ان کے نزدیک امام کا انتخاب شریعت کے واجب کرنےکی وجہ سے واجب نہیں ہے ، بلکہ جائزہے اور اگرواجب ہے تو مصلحت و ضرورت کے تقاضے کی بنیادپر۔( تاريخ المذاهب الإسلاميۃ لأبي زهرة: )
4 – خلافت کسی خاص قوم میں منحصرنہیں ہے: یہ کہتے ہیں کہ خلافت کسی خاص قوم میں منحصرنہیں ہے بلکہ ہر مسلمان جس کے اندرایمان ، علم اوراستقامت کی شرطیں پائی جائیں اس کااہل ہے ، اگراس سے بیعت کی جاتی ہے ۔(إسلام بلا مذاهب للدكتور مصطفى الشكعة : ص130) اسی بناپر ان لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ سے جدال کیا،ائمہ مسلمین کے خلاف بغاوت کی،خونریز ی کی،مسلمانو ں کاقتل عام کیا اور مسلمانوں کی طاقت کو کمزورکرنےکی کوششیں کیں یہاں تک کہ اعداء اسلام ہرچہارجانب سے مسلمانوں پر پل پڑے۔
ان کے اس نظریہ سے صاف ظاہرہے کہ خلافت کے لئے قریشی نسب کےاشتراط کے جمہورکے اجماع کے خلاف ان کا عقیدہ ہے ۔(مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين/أبو الحسن الأشعري:1/204،الفصل في الملل والأهواء والنحل /ابن حزم:4/89، فكر الخوارج والشيعة /د.الصلابي:ص55، 56)
5 – ائمہ جورکے خلاف بغاوت : ظالم ، فاسق اورکمزورائمہ کے خلاف خروج و بغاوت کے وجوب پرتمام خوارج کا اجماع ہے ، کہتے ہیں کہ مذکورہ ائمہ کے خلاف اگرچالیس افرادہوجاتےہیں تو ان کے اوپربغاوت اور ان کے خلاف خروج ان پر واجب ہوجاتی ہے ، اوراس حدکو "حدالشراء" کانام دیتےہیں ، جس کا مطلب ان کے نزدیک یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں کے بدلے جنت خریدلیاہے، ان کے نزدیک ایسی صورت میں چپ بیٹھناجائزنہیں ہے الا یہ کہ انکی تعداد تین سے کم ہو۔ (تيارات الفكرالإسلامي/د.محمدعمارة:ص22,مقالات الإسلاميين/الأشعري :1/32)
6 – ابوبکروعمررضی اللہ عنہما کی امامت کا اثبات اورعثما ن وعلی رضی اللہ عنہما کی تکفیر: یہ لوگ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کی امامت وخلافت کو صحیح مانتے ہیں جبکہ عثمان وعلی رضی اللہ عنہماکی خلافت کو غیرصحیح یہاں تک کہ ان لوگوں ان دونوں خلفاء کے ساتھ ساتھ طلحہ،زبیر،معاویہ ،عمروبن العاص،ابوموسی اشعری،عبداللہ بن عباس اور اصحاب جمل وصفین کی تکفیرکی ہے ۔( عقيدة أهل السنۃوالجماعۃ في الصحابۃ الكرام/ د. ناصر علي عائض حسن الشيخ: /1157،فكر الخوارج والشيعة /د.الصلابي: ص61،مقالات الإسلاميين/ الأشعري: 1/204)
7 – سنت کی حجیت کاانکار : قرآن کریم پرغایت درجہ تمسک کے باوجود ان کے یہاں سنت کی حجیت میںتمہل پایا جاتاہے ، یہاں تک کہ ان کے نزدیک ظاہرقرآن سے مخالفت کی وجہ سے متواترروایتیں بھی ناقابل احتجاج ہیں ، یہ سنت کا اتناہی حصہ لیتےہیں جومجمل ہو اورقرآن نے اس کی تفسیرکی ہو ۔
( دیکھئے : مجموع فتاوی ابن تیمیہ :13/48،49) ۔
8 – صفات باری تعالی میں معتزلہ کی موافقت : صفات باری تعالی میں ان کا موقف کچھ حدتک معتزلہ سے ملتاجلتا ہے ، لہذامن جملہ یہ نفاۃ معطلہ میں سے ہیں کیونکہ یہ قیامت کے روزرؤیت باری تعالی کے منکرہیں نیزخلق قرآن کے قائل بھی ، بقول امام ابوالحسن اشعری :"خوارج تمام کے تمام خلق قرآن کےقائل ہیں "۔
( دیکھئے: مقالات الاسلامیین :ص 203)
http://abuzahraabdulaleemsalafi.blogspot.com/2012/05/blog-post.html
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کچھ اور ویب سائٹس کا ترجمہ کر لوں پھر اس کا خلاصہ درج کر دوں گا یا کوئی اور بھائی اس کا خلاصہ یا اس میں کوئی اضافہ یا تصحیح کرنا چاہے
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مختصراً یہ ہے کہ دور قدیم کے خوارج مرتد تھے - جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ دین سے خارج لوگ- حضرت علی رضی الله عنہ نے ان سے نہروان کے مقام پر قتال کیا تھا - اس سے پہلے حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کا ان سے مناظرہ بھی ہوا تھا لیکن یہ لوگ اپنے باطل نظریات سے باز نہیں آے- قرآن کی اپنی من معنی تفسیر کرتے رہے-
صرف لغت کی بناء پر حکم اخذ کرنا ، جیسا کہ منکر حدیث کیا کرتے ہیں، بلکل باطل ہے! ویسے یہ انکار حدیث کا ایک نوع میں آغاز خوارج نے ہی کیا تھا!! خوارج کے نقش قدم پر چلنے والے آج بھی یہ کام کر رہے ہیں۔

اگر خوارج سے متعلق احادیث نبوی کو غور سے پڑھا جائے تو دور حاضر میں کسی گروہ کو خوارج پکارنا سراسر غلط بیانی ہے-
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
میری امت میں سے مشرقی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اسے ختم کردیا جائے گا یہ جملہ دس مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ ان کے آخری حصے میں دجال نکل آئے گا۔
أَخْبَرَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الصَّنْعَانِيُّ، بِمَكَّةَ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: لَمَّا جَاءَتْ بَيْعَةُ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قُلْتُ: لَوْ خَرَجْتُ إِلَى الشَّامِ فَتَنَحَّيْتُ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الْبَيْعَةِ، فَخَرَجْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَأَخْبَرْتُ بِمَقَامٍ يَقُومُهُ نَوْفٌ، فَجِئْتُهُ فَإِذَا رَجُلٌ فَاسِدُ الْعَيْنَيْنِ، عَلَيْهِ خَمِيصَةٌ وَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا رَآهُ نَوْفٌ أَمْسَكَ عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: حَدِّثْ بِمَا كُنْتَ تُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِالْحَدِيثِ مِنِّي أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ مَنَعُونَا عَنِ الْحَدِيثِ - يَعْنِي الْأُمَرَاءَ - قَالَ: أَعْزِمُ عَلَيْكَ إِلَّا مَا حَدَّثْتَنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ يَجْتَازُ النَّاسُ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، لَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ أَرْضُهُمْ، وَتَقْذَرُهُمْ أَنْفُسُهُمْ، وَاللَّهُ يَحْشُرُهُمْ إِلَى النَّارِ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا، وَتَأْكُلُ مَنْ تَخَلَّفَ» قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِهِمْ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] سكت عنه الذهبي في التلخيص

صفحه 533 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 533 جلد 04 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 655 - 656 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 655 - 656 جلد 04 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، ثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: خَرَجْتُ حَاجًّا، فَقَالَ لِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَنَزٍ قَاضِي أَهْلِ مِصْرَ: أَبْلِغْ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَعْلِمْهُ أَنِّي قَدِ اسْتَغْفَرْتُ الْغَدَاةَ لَهُ وَلِأُمِّهِ، فَلَقِيتُهُ فَأَبْلَغْتُهُ، قَالَ: وَأَنَا قَدِ اسْتَغْفَرْتُ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ أُمَّ حَنْوٍ - يَعْنِي مِصْرَ -؟ قَالَ: فَذَكَرْتُ لَهُ مِنْ رَفَاهِيَتِهَا وَعَيْشِهَا، قَالَ: أَمَا إِنَّهَا أَوَّلُ الْأَرْضِ خَرَابًا، ثُمَّ أَرْمِينِيَةُ، قُلْتُ: سَمِعْتَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّهَا تَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، فَخِيَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، وَيَبْقَى فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ، وَتُقَذِّرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ فَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ» وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا قُطِعَ قَرْنٌ نَشَأَ قَرْنٌ، حَتَّى يَخْرُجَ فِي بَقِيَّتِهِمُ الدَّجَّالُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ فَقَدِ اتَّفَقَا جَمِيعًا عَلَى أَحَادِيثِ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرط البخاري ومسلم
صفحه 556 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 556 جلد 04 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 681 - 682 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 681 - 682 جلد 04 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

حدثنا عبد الرزَّاق أخبرنا مَعْمَر عن قَتادة عن شَهْرِ بن حَوْشَب قال: لما جاءتْنا بيعَة يزيدَ بن معاوية، قَدمْتُ الشأم، فأُخْبرتُ بمَقَامٍ يقومُه نَوْفٌ، فجئْتُه، إذ جاء رجل، فاشتدَّ الناسُ، عليه خميصةٌ، وإذا هو عبدُ الله بن عمرو بن العاصي، فلما رآه نَوْف أَمْسك عن الحَديث، فقال عبد الله: سمعتُ رسول الله -صلي الله عليه وسلم - يقوِل: "إنها ستكون هجرةٌ بعدَ هجرة، ينحازُ الناس إلى مُهِاجَر إبراهيم، لا يبقَي في الأرض إلا شرار أهلِها، يلْفظُهُمْ أَرَضُوهُم، تَقْذرُهُم نَفْس الله، تَحْشُرُهم النارُ مع القرَدة وَالخنازير، تَبيتُ معهم إذا باُتوا، وتَقيل معهم إذا قالوا، وتأكل مَنْ تخلَّف"، قال: وسمعت رسول الله -صلي الله عليه وسلم -يقول: "سيخرجُ أناسٌ من أمتي من قبَل المَشْرق، يقرؤون القرآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقيَهُم، كلّما خرج منهم قَرْنٌ قُطِعَ، كَلّما خرج منهم قرن قُطع، حتى عَدَّهاَ زيادة على عَشرة (1) مرَّاتٍ: كلما خرج منهم قرن قطع، حتى يَخْرج الدجّال في بقيَّتِهم".
إسناده صحيح
صفحه 348 – 349 جلد 06
الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 348 – 349 جلد 06 مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔ تحقيق أحمد محمد شاكر

حدثنا أبو داود وعبد الصمد، المعنى، قالا حدثنا هشام عن قتادة عن شَهْر، قال: أتَى عبدُ الله بن عَمْرو على نَوْفٍ البكَالى وهوِ يحدث، فقال: حدِّثْ، فإنَّا قد نُهينا عن الحديث، قال: ما كنتُ لأحدِّث وعندي رجل من أصحاب رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم من قريش، فقال عبد الله بني عمرو: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "ستكونُ هجْرة بعدَ هجرة، فخِيَارُ الأرض"، قال عبد الصمد: لخيار الأرض، إلىِ مُهَاجَر إبراهيم، فيبَقى في الأرض شرَارُ أهلها، تَلْفظُهُم الأرض، وتَقْذرُهم نَفس الله عز وجل، وتَحشرهَم النارُ مع القرَدةَ والخنازير، ثم قال: حدِّثْ، فإنا قد نُهينا عن الحديث، فقال: ما كنتُ لأحدِّث وعندي رجل من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم من قريش، فقال عبد الله بن عمرو: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "يخرج قوم من قِبَل المَشرِق، يقرؤُون القرآنَ لا يُجاوز تَرَاقيَهم، كلما قطِع قرنٌ نَشأ قرن، حتى يخرج في بقيتهم الدجَّال".
إسناده صحيح
صفحه 413 – 416 جلد 06
الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 413 – 416 جلد 06 مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔ تحقيق أحمد محمد شاكر

نوٹ: شهر بن حوشب الأشعري مختلف فیہ راوی ہیں ، امام الذہبی نے انہیں اپنی کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں شمار کیا ہے۔
صفحه 100
الكتاب: ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
المحقق: محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني
الناشر: مكتبة المنار – الزرقاء

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق ۔ تحقيق محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني

صفحه 265
الكتاب: من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
المحقق: عبد الله بن ضيف الله الرحيلي

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث ۔ تحقيق عبد الله بن ضيف الله الرحيلي

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف :
وَهَذِهِ الْعَلَامَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيَ عَلَامَةُ أَوَّلِ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهُمْ لَيْسُوا مَخْصُوصِينَ بِأُولَئِكَ الْقَوْمِ. فَإِنَّهُ قَدْ أَخْبَرَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ إلَى زَمَنِ الدَّجَّالِ. وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْخَوَارِجَ لَيْسُوا مُخْتَصِّينَ بِذَلِكَ الْعَسْكَرِ. وَأَيْضًا فَالصِّفَاتُ الَّتِي وَصَفَهَا تَعُمُّ غَيْرَ ذَلِكَ الْعَسْكَرِ؛ وَلِهَذَا كَانَ الصَّحَابَةُ يَرْوُونَ الْحَدِيثَ مُطْلَقً
اور یہ علامات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیں ہیں، یہ علامات اس پہلے نکلنے والی لوگوں کی ہیں ان کے ساتھ خاص نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ دجال کے زمانے تک نکلتے رہیں گے۔ اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خوارج صرف اسی عسکر ( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے والے ) کے ساتھ خاص نہیں۔ اور اسی طرح اس پہلے عسکر (عسکر خوارج) اسے علاوہ دوسروں عسکر پر بھی پوری اترتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ ان احادیث کو مطلقاً روایت کیا کرتے تھے۔
نوٹ : نیلے رنگ میں ملون فقرے میں ترجمہ کی تصحیح درکار ہے
صفحه 495 – 496 جلد 28
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
المحقق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 – 496 جلد 28 مجموع الفتاوى ۔ تحقيق عبد الرحمن بن محمد بن قاسم

صفحه 271 جلد 28
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
المحقق: عامر الجزار - أنور الباز
الناشر: دار الوفاء

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 271 جلد 28 مجموع الفتاوى ۔ تحقيق عامر الجزار - أنور الباز

وَقَالَ تَعَالَى: {فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [سُورَةُ النِّسَاءِ 65] فَمَنْ لَمْ يَلْتَزِمْ تَحْكِيمَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ فَقَدْ أَقْسَمَ اللَّهُ بِنَفْسِهِ أَنَّهُ لَا يُؤْمِنُ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مُلْتَزِمًا لِحُكْمِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ بَاطِنًا وَظَاهِرًا، لَكِنْ عَصَى وَاتَّبَعَ هَوَاهُ، فَهَذَا بِمَنْزِلَةِ أَمْثَالِهِ مِنَ الْعُصَاةِ.
وَهَذِهِ الْآيَةُ مِمَّا يَحْتَجُّ بِهَا الْخَوَارِجُ عَلَى تَكْفِيرِ وُلَاةِ الْأَمْرِ الَّذِينَ لَا يَحْكُمُونَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ، ثُمَّ يَزْعُمُونَ أَنَّ اعْتِقَادَهُمْ هُوَ حُكْمُ اللَّهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ النَّاسُ بِمَا يَطُولُ ذِكْرُهُ هُنَا، وَمَا ذَكَرْتُهُ يَدُلُّ عَلَيْهِ سِيَاقُ الْآيَةِ.


{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [سُورَةُ النِّسَاءِ 65]پس جو اپنے تنازعات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا التزام نہیں کرتا اللہ تعالی نے ایسے شخص کے بارے میں اپنی ذات کی قسم اٹھا کر کہا کہ وہ مومن نہیں، البتہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا ظاہراً و باطناً التزام کرتا ہے، لیکن اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے گناہ کر بیٹھتا ہے، تو اس کا حکم وہی ہے جو اس جیسے دیگر گنہگاروں کا ہے۔ اور یہ وہ آیت ہے جس سے خوارج ان حکام کی تکفیر پر استدلال کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنے اس اعتقاد کو اللہ کا حکم گمان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ بہت سی باتیں کرتے ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا طوالت کا سبب ہوگا، تاہم جتنا کچھ بیان کر چکا ہوں سیاق آیت اسی پر دلالت کرتا ہے۔
مجلد 05 صفحه 131
الكتاب: منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
المحقق: محمد رشاد سالم
الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

ملاحظہ فرمائیں: مجلد 05 صفحه 131 منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۔ محمد رشاد سالم

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مذکورہ عبارات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ وہ بھی خوارج کے وجود کو کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص قرار نہیں دیتے، بلکہ اس کے برخلاف ہر زمانے میں خوارج کے ممکنہ وجود کا اثبات کر رہے ہیں!!

ایک سوال ہے کہ جو حضرات دور حاضر میں خوارج کے وجود کے انکاری ہیں، ان کافرقہ اباضیہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

احادیث نبوی میں ان کی سب سے خاص نشانی یہ بیان ہوئی ہے کہ یہ قرآن پڑھیں گے لیکن یہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا - یعنی اس کی غلط توجیہات بیان کریں گے - اول تو دور حاضر میں ٩٠ فیصد مسلمان قرآن کریم پڑھتے ہی نہیں تو حلق سے اترنا تو دور کی بات (یعنی یہ خوارج سے بھی گئے گزرے ہیں) - پھر جو لوگ قرآن پڑھتے ہیں ان میں سے بھی ٨٠فیصد ایسے ہیں جن کے حلق سے قرآن نہیں اترتا –
آپ کے کیا کہنے! مگر ذرا خیال کیجئے گا! کہیں آپ یہ حکم صحابہ کرام پر بھی نہ لگا دیں!! کیونکہ حدیث میں آتا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الشَّيْبَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْفَرَّاءُ، أَنْبَأَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ مِسْعَرٌ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنْبَأَ بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي شَيْئًا يُجْزِئُنِي مِنَ الْقُرْآنِ فَإِنِّي لَا أَقْرَأُ، قَالَ: " قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ " قَالَ: فَضَمَّ عَلَيْهَا الرَّجُلُ بِيَدِهِ وَقَالَ: هَذَا لِرَبِّي فَمَاذَا إِلَيَّ؟ قَالَ: " قُلِ: اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي " قَالَ: فَضَمَّ عَلَيْهَا بِيَدِهِ الْأُخْرَى وَقَامَ. " زَادَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ مِسْعَرٌ: كُنْتُ عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ فَاسْتَثْبَتُّهُ مِنْ غَيْرِهِ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کچھ سکھا دیجئے جو میرے لئے کفایت کرے، کیونکہ میں قرآن کی قراءت نہیں کرسکتا۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم یہ پڑھا کرو سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ، اس شخص نے ان کلمات کے ساتھ اپنا ایک ہاتھ بند کیا ، اور کہا: یہ میرے رب کے لئے، میرے لئے کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو: اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي ۔ تو اس شخص نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی بند کیا اور کھڑا ہو گیا۔
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 880 - على شرط البخاري
صفحه 367 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 367 جلد 01 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 356 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 356 جلد 01 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

جو اپنے اپنے مسالک سے چمٹے ہوے ہیں -جب کہ اسلام میں فرقہ بنانا کفر ہے - تو اس لحاظ سے تو خود یہ سب کے سب اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں-
دانستہ فرقہ بنانے والے کے دارے میں تو یہ حکم صادق آتا ہے، لیکن کیا جن کے نام سے مختلف فرقہ موسوم ہیں انہوں نے دانستہ کوئی فرقہ بنایا ہے؟
رہی بات مسلک سے چمٹے رہنے والوں کی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انہیں اسلام سے خارج قرار نہیں دیا!
حدیث میں آتا ہے کہ:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، وَوَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيَّانِ، قَالَا: ثنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً» . «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَلَهُ شَوَاهِدُ فَمِنْهَا»
یہودی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور عیسائی بھی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی۔
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 441 - على شرط مسلم
صفحه 217 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 217 جلد 01 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 206 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 206 جلد 01 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

اور جن جہادیوں کو یہ خوارج گردانتے ہیں ان پر بھی یہ یہود و نصاریٰ کے پروپوگنڈے کی بنا پر اندھا دھند اعتماد کرکے فتویٰ لگاتے ہیں کہ یہ خوارج ہیں وغیرہ –
یہ آپ کو کس نے کہا کہ فتاوی یہود و نصایٰ کے پروپگنڈے کی بناء پر لگائے جاتے ہیں؟
ویسے یہ جو خود کو "مجاہدین" کہلوانے والے ایک دوسرے پر فتوی لگاتے ہیں، یہ کس بنیاد پر لگاتے ہیں؟ کچھ پیش خدمت ہے:
http://justpaste.it/fitnatakfeer
اب القاعدہ والے داعش والوں کو خوارج قرار دے ہیں۔
آپ تو فرماتے ہیں کہ:
اگر خوارج سے متعلق احادیث نبوی کو غور سے پڑھا جائے تو دور حاضر میں کسی گروہ کو خوارج پکارنا سراسر غلط بیانی ہے-
لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا!!

خود یہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہتے ہیں - اور کبھی جہاد بالسیف پرعمل تو دور کی بات اس کی نیت بھی نہیں کرتے-
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنا کس شریعت میں ممنوع ہے؟ اب ان کے دل کی نیت کا آپ کو کیسے علم ہوا!!

ایک حدیث کے مطابق دورحاضر کے خوارج کا گروہ دجال اکبر کے زمانے میں اس کی ہمنوائی میں نکلے گا - اوردجال کے خروج میں ابھی کافی عرصہ و سال باقی ہیں-
اس جملہ میں دور حاضر بھی کہا جا رہا ہے اور دجال کے خروج کے زمانے کا بھی ذکر!! بیان کچھ غلط ہو گیا ہے!!
ویسے ان خود کو م"مجاہدین" کہلوانے والوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ کبھی کالے پیلے، ہرے جھنڈوں اور خراسانی لشکر والی احادیث کو بیان کرتے وقت صحت حدیث کے ساتھ آپ کے بیان کردہ نکتہ کا بھی خیال کیا کریں!! فتدبر!!
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
کچھ اور ویب سائٹس کا ترجمہ کر لوں پھر اس کا خلاصہ درج کر دوں گا یا کوئی اور بھائی اس کا خلاصہ یا اس میں کوئی اضافہ یا تصحیح کرنا چاہے
جزاکم اللہ خیرا محترم بھائی
آپ نے کافی زیادہ خؤارج کی نشانیاں بیان کر دی ہیں اب کیونکہ آپ اس موضؤع پر کتاب بھی لکھ رہے ہیں اور کافی معلومات لے چکے ہوں گے تو اگر آپ ہی اسکا پہلے خلاصہ بیان کر دیں تو زیادہ بہتر ہو جائے گا تاکہ پھر اس خلاصہ کی روشنی میں سابقہ اور موجودہ خؤارج کے فرق اور پھر انکے حکم پر آپ سے رہنمائی لی جا سکے
آپ سے ایک اور بھی گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ جب نشانیوں کا خلاصہ بیان کریں تو موجودہ خوارجیوں کی پہچان آسان کروانے کے لئے آپ ان نشانیوں کی دو کیٹیگریز بنا دیں
1۔ایسی واضح نشانیاں جن کا آج کے خوارجیوں پر اطلاق کرنا آسان ہو مثلا طیش بے وقوفی وغیرہ
2۔ایسی نشانیاں جن کا اطلاق مخلص جماعتوں یا حکمرانوں پر بھی ہو سکتا ہو مثلا سر منڈوانا، مشرکوں کو چھوڑ کر اہل اسلام کو قتل کرنا، نمازیں لمبی پڑھنا، قرآن بہترین پڑھنا، سر منڈوانا، تہبند اونچا رکھنا (کیونکہ ان میں سے چند تو ہماری جماعۃ الدعوہ میں یا حکمرانوں میں بھی لوگ دکھا دیں گے)
یہ یاد رہے کہ یہاں علمی پہلو پر بات کرنی ہے عملی پہلو کو بالکل نہیں چھیڑنا
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
سر منڈوانا
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تو مونچھیں بھی بالکل کتر کر رکھتے ہیں اور سر بھی منڈوا کر رکھتے ہیں۔واللہ اعلم
کیا سرمنڈوانا خوارج کی نشانی ہے؟جبکہ متقدمین میں سرمنڈوانے کا عمل موجود ہے۔۔۔
@عبدہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تو مونچھیں بھی بالکل کتر کر رکھتے ہیں اور سر بھی منڈوا کر رکھتے ہیں۔واللہ اعلم
کیا سرمنڈوانا خوارج کی نشانی ہے؟جبکہ متقدمین میں سرمنڈوانے کا عمل موجود ہے۔۔۔
@عبدہ
جی محترم بھائی اسی لئے اوپر درخواست کی تھی کہ محترم فیض الابرار بھائی واضح اور غیر واضح نشانیوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیں کیونکہ اس میں خالی شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ ہی نہیں آتے بلکہ اور بھی بیت آتے ہیں اور ہماری جماعۃ الدعوہ بھی آتی ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

صرف لغت کی بناء پر حکم اخذ کرنا ، جیسا کہ منکر حدیث کیا کرتے ہیں، بلکل باطل ہے! ویسے یہ انکار حدیث کا ایک نوع میں آغاز خوارج نے ہی کیا تھا!! خوارج کے نقش قدم پر چلنے والے آج بھی یہ کام کر رہے ہیں۔


اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
میری امت میں سے مشرقی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اسے ختم کردیا جائے گا یہ جملہ دس مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ ان کے آخری حصے میں دجال نکل آئے گا۔
أَخْبَرَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الصَّنْعَانِيُّ، بِمَكَّةَ، ثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَنْبَأَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَ مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: لَمَّا جَاءَتْ بَيْعَةُ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ قُلْتُ: لَوْ خَرَجْتُ إِلَى الشَّامِ فَتَنَحَّيْتُ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الْبَيْعَةِ، فَخَرَجْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَأَخْبَرْتُ بِمَقَامٍ يَقُومُهُ نَوْفٌ، فَجِئْتُهُ فَإِذَا رَجُلٌ فَاسِدُ الْعَيْنَيْنِ، عَلَيْهِ خَمِيصَةٌ وَإِذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا رَآهُ نَوْفٌ أَمْسَكَ عَنِ الْحَدِيثِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: حَدِّثْ بِمَا كُنْتَ تُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: أَنْتَ أَحَقُّ بِالْحَدِيثِ مِنِّي أَنْتَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ قَدْ مَنَعُونَا عَنِ الْحَدِيثِ - يَعْنِي الْأُمَرَاءَ - قَالَ: أَعْزِمُ عَلَيْكَ إِلَّا مَا حَدَّثْتَنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «إِنَّهَا سَتَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ يَجْتَازُ النَّاسُ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، لَا يَبْقَى فِي الْأَرْضِ إِلَّا شِرَارُ أَهْلِهَا، تَلْفِظُهُمْ أَرْضُهُمْ، وَتَقْذَرُهُمْ أَنْفُسُهُمْ، وَاللَّهُ يَحْشُرُهُمْ إِلَى النَّارِ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، تَبِيتُ مَعَهُمْ إِذَا بَاتُوا، وَتَقِيلُ مَعَهُمْ إِذَا قَالُوا، وَتَأْكُلُ مَنْ تَخَلَّفَ» قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ، يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّى يَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِهِمْ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] سكت عنه الذهبي في التلخيص

صفحه 533 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 533 جلد 04 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 655 - 656 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 655 - 656 جلد 04 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، ثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: خَرَجْتُ حَاجًّا، فَقَالَ لِي سُلَيْمَانُ بْنُ عَنَزٍ قَاضِي أَهْلِ مِصْرَ: أَبْلِغْ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنِّي السَّلَامَ، وَأَعْلِمْهُ أَنِّي قَدِ اسْتَغْفَرْتُ الْغَدَاةَ لَهُ وَلِأُمِّهِ، فَلَقِيتُهُ فَأَبْلَغْتُهُ، قَالَ: وَأَنَا قَدِ اسْتَغْفَرْتُ لَهُ، ثُمَّ قَالَ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ أُمَّ حَنْوٍ - يَعْنِي مِصْرَ -؟ قَالَ: فَذَكَرْتُ لَهُ مِنْ رَفَاهِيَتِهَا وَعَيْشِهَا، قَالَ: أَمَا إِنَّهَا أَوَّلُ الْأَرْضِ خَرَابًا، ثُمَّ أَرْمِينِيَةُ، قُلْتُ: سَمِعْتَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنْ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «إِنَّهَا تَكُونُ هِجْرَةٌ بَعْدَ هِجْرَةٍ، فَخِيَارُ أَهْلِ الْأَرْضِ أَلْزَمُهُمْ إِلَى مُهَاجَرِ إِبْرَاهِيمَ، وَيَبْقَى فِي الْأَرْضِ شِرَارُ أَهْلِهَا تَلْفِظُهُمْ أَرْضُوهُمْ، وَتُقَذِّرُهُمْ نَفْسُ اللَّهِ فَتَحْشُرُهُمُ النَّارُ مَعَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ» وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَأُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، كُلَّمَا قُطِعَ قَرْنٌ نَشَأَ قَرْنٌ، حَتَّى يَخْرُجَ فِي بَقِيَّتِهِمُ الدَّجَّالُ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ فَقَدِ اتَّفَقَا جَمِيعًا عَلَى أَحَادِيثِ مُوسَى بْنِ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ اللَّخْمِيِّ، وَلَمْ يُخْرِجَاهُ "
[التعليق - من تلخيص الذهبي] على شرط البخاري ومسلم
صفحه 556 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 556 جلد 04 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 681 - 682 جلد 04
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 681 - 682 جلد 04 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي

حدثنا عبد الرزَّاق أخبرنا مَعْمَر عن قَتادة عن شَهْرِ بن حَوْشَب قال: لما جاءتْنا بيعَة يزيدَ بن معاوية، قَدمْتُ الشأم، فأُخْبرتُ بمَقَامٍ يقومُه نَوْفٌ، فجئْتُه، إذ جاء رجل، فاشتدَّ الناسُ، عليه خميصةٌ، وإذا هو عبدُ الله بن عمرو بن العاصي، فلما رآه نَوْف أَمْسك عن الحَديث، فقال عبد الله: سمعتُ رسول الله -صلي الله عليه وسلم - يقوِل: "إنها ستكون هجرةٌ بعدَ هجرة، ينحازُ الناس إلى مُهِاجَر إبراهيم، لا يبقَي في الأرض إلا شرار أهلِها، يلْفظُهُمْ أَرَضُوهُم، تَقْذرُهُم نَفْس الله، تَحْشُرُهم النارُ مع القرَدة وَالخنازير، تَبيتُ معهم إذا باُتوا، وتَقيل معهم إذا قالوا، وتأكل مَنْ تخلَّف"، قال: وسمعت رسول الله -صلي الله عليه وسلم -يقول: "سيخرجُ أناسٌ من أمتي من قبَل المَشْرق، يقرؤون القرآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقيَهُم، كلّما خرج منهم قَرْنٌ قُطِعَ، كَلّما خرج منهم قرن قُطع، حتى عَدَّهاَ زيادة على عَشرة (1) مرَّاتٍ: كلما خرج منهم قرن قطع، حتى يَخْرج الدجّال في بقيَّتِهم".
إسناده صحيح
صفحه 348 – 349 جلد 06
الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 348 – 349 جلد 06 مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔ تحقيق أحمد محمد شاكر

حدثنا أبو داود وعبد الصمد، المعنى، قالا حدثنا هشام عن قتادة عن شَهْر، قال: أتَى عبدُ الله بن عَمْرو على نَوْفٍ البكَالى وهوِ يحدث، فقال: حدِّثْ، فإنَّا قد نُهينا عن الحديث، قال: ما كنتُ لأحدِّث وعندي رجل من أصحاب رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم من قريش، فقال عبد الله بني عمرو: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "ستكونُ هجْرة بعدَ هجرة، فخِيَارُ الأرض"، قال عبد الصمد: لخيار الأرض، إلىِ مُهَاجَر إبراهيم، فيبَقى في الأرض شرَارُ أهلها، تَلْفظُهُم الأرض، وتَقْذرُهم نَفس الله عز وجل، وتَحشرهَم النارُ مع القرَدةَ والخنازير، ثم قال: حدِّثْ، فإنا قد نُهينا عن الحديث، فقال: ما كنتُ لأحدِّث وعندي رجل من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -، ثم من قريش، فقال عبد الله بن عمرو: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "يخرج قوم من قِبَل المَشرِق، يقرؤُون القرآنَ لا يُجاوز تَرَاقيَهم، كلما قطِع قرنٌ نَشأ قرن، حتى يخرج في بقيتهم الدجَّال".
إسناده صحيح
صفحه 413 – 416 جلد 06
الكتاب: مسند الإمام أحمد بن حنبل
المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)
المحقق: أحمد محمد شاكر
الناشر: دار الحديث – القاهرة

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 413 – 416 جلد 06 مسند الإمام أحمد بن حنبل ۔ تحقيق أحمد محمد شاكر

نوٹ: شهر بن حوشب الأشعري مختلف فیہ راوی ہیں ، امام الذہبی نے انہیں اپنی کتاب ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق میں شمار کیا ہے۔
صفحه 100
الكتاب: ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
المحقق: محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني
الناشر: مكتبة المنار – الزرقاء

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 100 ذكر أسماء من تكلم فيه وهو موثق ۔ تحقيق محمد شكور بن محمود الحاجي أمرير المياديني

صفحه 265
الكتاب: من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث
المؤلف: شمس الدين أبو عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قَايْماز الذهبي (المتوفى: 748هـ)
المحقق: عبد الله بن ضيف الله الرحيلي

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 265 من تكلم فيه وهو موثوق أو صالح الحديث ۔ تحقيق عبد الله بن ضيف الله الرحيلي

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف :
وَهَذِهِ الْعَلَامَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيَ عَلَامَةُ أَوَّلِ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهُمْ لَيْسُوا مَخْصُوصِينَ بِأُولَئِكَ الْقَوْمِ. فَإِنَّهُ قَدْ أَخْبَرَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ إلَى زَمَنِ الدَّجَّالِ. وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْخَوَارِجَ لَيْسُوا مُخْتَصِّينَ بِذَلِكَ الْعَسْكَرِ. وَأَيْضًا فَالصِّفَاتُ الَّتِي وَصَفَهَا تَعُمُّ غَيْرَ ذَلِكَ الْعَسْكَرِ؛ وَلِهَذَا كَانَ الصَّحَابَةُ يَرْوُونَ الْحَدِيثَ مُطْلَقً
اور یہ علامات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیں ہیں، یہ علامات اس پہلے نکلنے والی لوگوں کی ہیں ان کے ساتھ خاص نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ دجال کے زمانے تک نکلتے رہیں گے۔ اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خوارج صرف اسی عسکر ( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے والے ) کے ساتھ خاص نہیں۔ اور اسی طرح اس پہلے عسکر (عسکر خوارج) اسے علاوہ دوسروں عسکر پر بھی پوری اترتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ ان احادیث کو مطلقاً روایت کیا کرتے تھے۔
نوٹ : نیلے رنگ میں ملون فقرے میں ترجمہ کی تصحیح درکار ہے
صفحه 495 – 496 جلد 28
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
المحقق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم
الناشر: مجمع الملك فهد لطباعة المصحف الشريف، المدينة النبوية، المملكة العربية السعودية

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 495 – 496 جلد 28 مجموع الفتاوى ۔ تحقيق عبد الرحمن بن محمد بن قاسم

صفحه 271 جلد 28
الكتاب: مجموع الفتاوى
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
المحقق: عامر الجزار - أنور الباز
الناشر: دار الوفاء

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 271 جلد 28 مجموع الفتاوى ۔ تحقيق عامر الجزار - أنور الباز

وَقَالَ تَعَالَى: {فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [سُورَةُ النِّسَاءِ 65] فَمَنْ لَمْ يَلْتَزِمْ تَحْكِيمَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ فَقَدْ أَقْسَمَ اللَّهُ بِنَفْسِهِ أَنَّهُ لَا يُؤْمِنُ، وَأَمَّا مَنْ كَانَ مُلْتَزِمًا لِحُكْمِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ بَاطِنًا وَظَاهِرًا، لَكِنْ عَصَى وَاتَّبَعَ هَوَاهُ، فَهَذَا بِمَنْزِلَةِ أَمْثَالِهِ مِنَ الْعُصَاةِ.
وَهَذِهِ الْآيَةُ مِمَّا يَحْتَجُّ بِهَا الْخَوَارِجُ عَلَى تَكْفِيرِ وُلَاةِ الْأَمْرِ الَّذِينَ لَا يَحْكُمُونَ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ، ثُمَّ يَزْعُمُونَ أَنَّ اعْتِقَادَهُمْ هُوَ حُكْمُ اللَّهِ. وَقَدْ تَكَلَّمَ النَّاسُ بِمَا يَطُولُ ذِكْرُهُ هُنَا، وَمَا ذَكَرْتُهُ يَدُلُّ عَلَيْهِ سِيَاقُ الْآيَةِ.


{فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [سُورَةُ النِّسَاءِ 65]پس جو اپنے تنازعات میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا التزام نہیں کرتا اللہ تعالی نے ایسے شخص کے بارے میں اپنی ذات کی قسم اٹھا کر کہا کہ وہ مومن نہیں، البتہ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا ظاہراً و باطناً التزام کرتا ہے، لیکن اپنے نفس کی پیروی کرتے ہوئے گناہ کر بیٹھتا ہے، تو اس کا حکم وہی ہے جو اس جیسے دیگر گنہگاروں کا ہے۔ اور یہ وہ آیت ہے جس سے خوارج ان حکام کی تکفیر پر استدلال کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی نازل کی ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، اور اس پر مستزاد یہ کہ اپنے اس اعتقاد کو اللہ کا حکم گمان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی لوگ بہت سی باتیں کرتے ہیں جن کا یہاں ذکر کرنا طوالت کا سبب ہوگا، تاہم جتنا کچھ بیان کر چکا ہوں سیاق آیت اسی پر دلالت کرتا ہے۔
مجلد 05 صفحه 131
الكتاب: منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية
المؤلف: تقي الدين أبو العباس أحمد بن عبد الحليم بن تيمية الحراني (المتوفى: 728هـ)
المحقق: محمد رشاد سالم
الناشر: جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

ملاحظہ فرمائیں: مجلد 05 صفحه 131 منهاج السنة النبوية في نقض كلام الشيعة القدرية ۔ محمد رشاد سالم

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مذکورہ عبارات اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ وہ بھی خوارج کے وجود کو کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص قرار نہیں دیتے، بلکہ اس کے برخلاف ہر زمانے میں خوارج کے ممکنہ وجود کا اثبات کر رہے ہیں!!

ایک سوال ہے کہ جو حضرات دور حاضر میں خوارج کے وجود کے انکاری ہیں، ان کافرقہ اباضیہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟


آپ کے کیا کہنے! مگر ذرا خیال کیجئے گا! کہیں آپ یہ حکم صحابہ کرام پر بھی نہ لگا دیں!! کیونکہ حدیث میں آتا ہے:
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الشَّيْبَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْفَرَّاءُ، أَنْبَأَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أَنْبَأَ مِسْعَرٌ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنْبَأَ بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي شَيْئًا يُجْزِئُنِي مِنَ الْقُرْآنِ فَإِنِّي لَا أَقْرَأُ، قَالَ: " قُلْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ " قَالَ: فَضَمَّ عَلَيْهَا الرَّجُلُ بِيَدِهِ وَقَالَ: هَذَا لِرَبِّي فَمَاذَا إِلَيَّ؟ قَالَ: " قُلِ: اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي " قَالَ: فَضَمَّ عَلَيْهَا بِيَدِهِ الْأُخْرَى وَقَامَ. " زَادَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ مِسْعَرٌ: كُنْتُ عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ فَاسْتَثْبَتُّهُ مِنْ غَيْرِهِ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ "
ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے کچھ سکھا دیجئے جو میرے لئے کفایت کرے، کیونکہ میں قرآن کی قراءت نہیں کرسکتا۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم یہ پڑھا کرو سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ، اس شخص نے ان کلمات کے ساتھ اپنا ایک ہاتھ بند کیا ، اور کہا: یہ میرے رب کے لئے، میرے لئے کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو: اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاهْدِنِي، وَارْزُقْنِي، وَعَافِنِي ۔ تو اس شخص نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی بند کیا اور کھڑا ہو گیا۔
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 880 - على شرط البخاري
صفحه 367 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 367 جلد 01 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 356 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 356 جلد 01 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي


دانستہ فرقہ بنانے والے کے دارے میں تو یہ حکم صادق آتا ہے، لیکن کیا جن کے نام سے مختلف فرقہ موسوم ہیں انہوں نے دانستہ کوئی فرقہ بنایا ہے؟
رہی بات مسلک سے چمٹے رہنے والوں کی تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انہیں اسلام سے خارج قرار نہیں دیا!
حدیث میں آتا ہے کہ:
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثنا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، وَوَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ الْوَاسِطِيَّانِ، قَالَا: ثنا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «افْتَرَقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَافْتَرَقَتِ النَّصَارَى عَلَى إِحْدَى أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً» . «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَلَهُ شَوَاهِدُ فَمِنْهَا»
یہودی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور عیسائی بھی اکہتر یا بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئے، اور میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہو گی۔
[التعليق - من تلخيص الذهبي] 441 - على شرط مسلم
صفحه 217 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله النيسابوري (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا
الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 217 جلد 01 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا

صفحه 206 جلد 01
الكتاب: المستدرك على الصحيحين
المؤلف: أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ)
تحقيق: مقبل بن هادي الوادعي
الناشر: دار الحرمين

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 206 جلد 01 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي


یہ آپ کو کس نے کہا کہ فتاوی یہود و نصایٰ کے پروپگنڈے کی بناء پر لگائے جاتے ہیں؟
ویسے یہ جو خود کو "مجاہدین" کہلوانے والے ایک دوسرے پر فتوی لگاتے ہیں، یہ کس بنیاد پر لگاتے ہیں؟ کچھ پیش خدمت ہے:
http://justpaste.it/fitnatakfeer
اب القاعدہ والے داعش والوں کو خوارج قرار دے ہیں۔
آپ تو فرماتے ہیں کہ:

لو آپ اپنے دام میں‌ صیّاد آگیا!!


ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنا کس شریعت میں ممنوع ہے؟ اب ان کے دل کی نیت کا آپ کو کیسے علم ہوا!!


اس جملہ میں دور حاضر بھی کہا جا رہا ہے اور دجال کے خروج کے زمانے کا بھی ذکر!! بیان کچھ غلط ہو گیا ہے!!
ویسے ان خود کو م"مجاہدین" کہلوانے والوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ کبھی کالے پیلے، ہرے جھنڈوں اور خراسانی لشکر والی احادیث کو بیان کرتے وقت صحت حدیث کے ساتھ آپ کے بیان کردہ نکتہ کا بھی خیال کیا کریں!! فتدبر!!
محترم اس حدیث کو غور سے پڑھیے-

عمرو بن یحیی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کا بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ ہم صبح کی نماز سے پہلے سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جب عبداللہ رضی اللہ عنہ باہر تشریف لاتے تو ہم ان کے ساتھ چلتے ہوئے مسجد تک آیا کرتے تھے اسی دوران سید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے آئے اور دریافت کیا کیا سید نا ابوعبدالرحمن (حضرت عبداللہ بن مسعود) رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے۔ ہم نے جواب دیا نہیں تو سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ ہمارے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے جب وہ آئے تو ہم سب اٹھ کران کے پاس آگئے سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن رضی اللہ عنہ آج میں نے مسجد میں ایک ایسی جماعت دیکھی ہے جو مجھے پسند نہیں آئی اور میرا مقصد ہر طرح کی حمد اللہ کے لیے مخصوص ہے صرف نیکی ہےسید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا وہ کیا بات ہے سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے جواب دیاشام تک آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ سید نا ابوموسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ حلقے بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز کا انتظار کر رہے ہیں ان میں سے ہر ایک حلقے میں ایک شخص ہے جس کے سامنے کنکریاں موجود ہیں اور وہ شخص یہ کہتا ہے سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو۔ تو لوگ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ شخص کہتا ہے سو مرتبہ لاالہ الا اللہ پڑھو تو لوگ سو مرتبہ یہ پڑھتے ہیں پھر وہ شخص کہتا ہے سومرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو لوگ سبحان اللہ پڑھتے ہیں سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا آپ نے ان سے کیا کہاسید نا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا آپ نے انہیں یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ اپنے گناہ شمار کریں اور آپ نے انہیں ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ (راوی بیان کرتے ہیں) پھر سید نا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ چل پڑے ان کے ہمراہ ہم بھی چل پڑے یہاں تک کہ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس تشریف لائے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا یہ میں تمہیں کیا کرتے ہوئے دیکھ رہاہوں انہوں نے جواب دیا اے ابوعبدالرحمن یہ کنکریان ہیں جن پر ہم لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ گن کر پڑھ رہے ہیں سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا تم اپنے گناہوں کو گنو میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہوگی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت تمہارا ستیاناس ہو تم کتنی تیزی سے ہلاکت کی طرف جا رہے ہو یہ تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ تمہارے درمیان بکثرت تعداد میں موجود ہیں اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کپڑے ہیں جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے برتن ہیں جو ابھی ٹوٹے نہیں ہیں اس ذات کی قسم جس کے یاتھ میں میری جان ہے تم ایسے طریقے پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے؟ یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہو۔ لوگوں نے عرض کی اللہ کی قسم اے ابوعبدالرحمن ہمارا ارادہ صرف نیکی کا ہے ۔ سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کتنے نیکی کے خواہش مند ایسے ہیں جو نیکی نہیں کرتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم مجھے نہیں معلوم ہوسکتا ہے ان میں سے اکثریت تم لوگوں کی ہو ۔ پھر سید نا عبداللہ رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے اٹھ کر آگئے۔ عمرو بن سلمہ بیان کرتے ہیں ہم نے اس بات کا جائزہ لیا ان حلقوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد وہ تھے جنہوں نے نہروان کی جنگ میں خوارج کے ساتھ مل کر ہمارے ساتھ مقابلہ کیا۔

یہ روایت صاف ظاہر کرتی ہے کہ خوارج حقیقی طور پر دور قدیم میں حضرت علی رضی الله عنہ کے دور خلافت میں ہی نمودار ہوے تھے - اس کے بعد کسی خاص گروہ پر خوارج کا الزام لگانا دانشمندی نہیں- اور اسلامی تاریخ کے مطابق عباسی دور کے وسط تک شورشیں جاری رہیں-

آپ کا یہ کہنا کہ
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا موقف :
وَهَذِهِ الْعَلَامَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيَ عَلَامَةُ أَوَّلِ مَنْ يَخْرُجُ مِنْهُمْ لَيْسُوا مَخْصُوصِينَ بِأُولَئِكَ الْقَوْمِ. فَإِنَّهُ قَدْ أَخْبَرَ فِي غَيْرِ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ إلَى زَمَنِ الدَّجَّالِ. وَقَدْ اتَّفَقَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى أَنَّ الْخَوَارِجَ لَيْسُوا مُخْتَصِّينَ بِذَلِكَ الْعَسْكَرِ. وَأَيْضًا فَالصِّفَاتُ الَّتِي وَصَفَهَا تَعُمُّ غَيْرَ ذَلِكَ الْعَسْكَرِ؛ وَلِهَذَا كَانَ الصَّحَابَةُ يَرْوُونَ الْحَدِيثَ مُطْلَقً

اور یہ علامات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیں ہیں، یہ علامات اس پہلے نکلنے والی لوگوں کی ہیں ان کے ساتھ خاص نہیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ دجال کے زمانے تک نکلتے رہیں گے۔ اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ خوارج صرف اسی عسکر ( علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے والے ) کے ساتھ خاص نہیں۔ اور اسی طرح اس پہلے عسکر (عسکر خوارج) اسے علاوہ دوسروں عسکر پر بھی پوری اترتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ صحابہ ان احادیث کو مطلقاً روایت کیا کرتے تھے۔

یہ صرف ایک امام کا موقف ہے حدیث رسول نہیں کہ اس پرایمان لایا جائے-

اور اگر ان کی بات ماننی ہے تو یہ بھی ذہن میں رہے کہ امام تیمیہ کے نزدیک تو تاتاری بھی کافر تھے جو اپنے قانون یاسق کو نافذ العمل رکھنے کا باوجود الله کے قوانین کی تنقیص نہیں کرتے تھے -تو پھرآ جکل کے نام نہاد مسلم حکمران کافر کیوں نہیں؟؟ جب کہ وہ بھی تا تاریوں کی طرح اسلامی شریعت کی تنقیص تو نہیں کرتے لیکن یہود کے قوانین کو ہی ملک میں نافذ العمل رکھتے ہیں؟؟

ویسے بھی خوارج کے آخری گروہ کا تعلق دجال اکبر کے زمانے سے متعلق ہے جو ابھی شروع نہیں ہوا - (یہ ذہن میں رہے کہ یہود و نصاریٰ اور سیکولر طبقے کے پروپوگنڈے سے کوئی گروہ خوارج قرار نہیں پا تا)-

الله ہمیں اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن رکھے -(آمین )-
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
یہ صرف ایک امام کا موقف ہے حدیث رسول نہیں کہ اس پرایمان لایا جائے-
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا. شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. قَالَهَا ثَلَاثًا.

1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 421، رقم: 19798
2. ابن ابی شيبة، المصنف، 7: 559، رقم: 37917
3. رويانی، المسند، 2: 26، رقم: 766

’’یہ خوارج ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان کو دیکھو تو انہیں قتل کر دو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہیں۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔‘‘

امام حاکم کی روایت کردہ حدیث میں ہے:

لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ. قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا. وَقَالَ: قَالَ أَيْضًا: لَا يَرْجِعُوْنَ فِيْهِ.

1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 160، رقم: 2647
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 6: 229

’’خوارج کے یہ گروہ مسلسل پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا۔ جب تم (میدانِ جنگ میں) ان سے سامنا کرو تو انہیں قتل کر دو۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے: ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘ حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ اور حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے عقائد و نظریات سے رجوع نہیں کریں گے۔‘‘

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تصریح فرما دی ہے کہ قیامت تک اِس طرح کے مسلح اور باغی گروہ مسلمانوں کی ریاستوں اور معاشروں میں نکلتے رہیں گے۔ لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ کا واضح معنی یہ ہے کہ وہ سارے گروہ خوارج ہی ہوں گے اور یہ بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ پیدا ہوتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ قیامت سے قبل دجال کے ساتھ نکلے گا۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ واضح کرتے ہیں کہ : خوارج کا وجود ہر دور میں رہا ہے اور یہ آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گےمگر لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے۔۔
ابن تيميہ، النبوات: 222
خوارج:
سیاہ رو اور دین سے نکل جانے والےہیں۔

اللہ تعالی سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں:
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ج فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo
آل عمران، 3 : 106
’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا ) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لوo‘‘

امام ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ :
آیتِ مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594

’’سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘

2۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ :
آیت مذکورہ کے تحت اس سے خوارج ہی مراد لیتے ہیں.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 347

3۔ امام سیوطی رحمہ اللہ:
انہوں نے بھی اس آیت میں مذکور لوگوں سے ’’خوارج‘‘ ہی مراد لئے ہیں۔
سيوطی، الدر المنثور، 2 : 148
 
Top