محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
اس حدیث کی تخریج درکار ہے -لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا. شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. قَالَهَا ثَلَاثًا.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 421، رقم: 19798
2. ابن ابی شيبة، المصنف، 7: 559، رقم: 37917
3. رويانی، المسند، 2: 26، رقم: 766
’’یہ خوارج ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان کو دیکھو تو انہیں قتل کر دو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہیں۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔‘‘
امام حاکم کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ. قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا. وَقَالَ: قَالَ أَيْضًا: لَا يَرْجِعُوْنَ فِيْهِ.
1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 160، رقم: 2647
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 6: 229
’’خوارج کے یہ گروہ مسلسل پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا۔ جب تم (میدانِ جنگ میں) ان سے سامنا کرو تو انہیں قتل کر دو۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے: ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘ حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ اور حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے عقائد و نظریات سے رجوع نہیں کریں گے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تصریح فرما دی ہے کہ قیامت تک اِس طرح کے مسلح اور باغی گروہ مسلمانوں کی ریاستوں اور معاشروں میں نکلتے رہیں گے۔ لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ کا واضح معنی یہ ہے کہ وہ سارے گروہ خوارج ہی ہوں گے اور یہ بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ پیدا ہوتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ قیامت سے قبل دجال کے ساتھ نکلے گا۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ واضح کرتے ہیں کہ : خوارج کا وجود ہر دور میں رہا ہے اور یہ آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گےمگر لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے۔۔
ابن تيميہ، النبوات: 222
خوارج:
سیاہ رو اور دین سے نکل جانے والےہیں۔
اللہ تعالی سورۃ آل عمران میں فرماتے ہیں:
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ج فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْهُهُمْ قف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِکُمْ فَذُوقُوا العَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَo
آل عمران، 3 : 106
’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن کے چہرے سیاہ ہوں گے (ان سے کہا جائے گا ) کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ تو جو کفر تم کرتے رہے تھے سو اس کے عذاب (کا مزہ) چکھ لوo‘‘
امام ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ :
آیتِ مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594
’’سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘
2۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ :
آیت مذکورہ کے تحت اس سے خوارج ہی مراد لیتے ہیں.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 347
3۔ امام سیوطی رحمہ اللہ:
انہوں نے بھی اس آیت میں مذکور لوگوں سے ’’خوارج‘‘ ہی مراد لئے ہیں۔
سيوطی، الدر المنثور، 2 : 148
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا. شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. قَالَهَا ثَلَاثًا.
دوسری طرف امام تیمیہ فرما رہے ہیں کہ
شیخ الاسلام رحمہ اللہ واضح کرتے ہیں کہ : خوارج کا وجود ہر دور میں رہا ہے اور یہ آج بھی موجود ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے رہیں گے مگر لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے۔۔
ان تمام روایات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتی ہے خوارج وہ ہیں کہ جو اسلامی حکومت جو "خلافت "کے طور پر قائم ہوئی ہو جس میں امام جو کہ خلیفہ وقت کہلاتا ہے اس کے خلاف خروج کرنے بنا پراسلام سے خارج ہو جائیں گے -
جیسا کہ خضربھائی نے بھی وضاحت کی ہے کہ "خوارج ’’ خروج علی الإمام ‘‘ سے ہیں" اور اسلامی حکومت میں امام خلیفہ وقت کو کہا جاتا ہے- فلوقت دنیا میں صدیوں سے خلافت کا کوئی وجود نہیں ہے - اور نام نہاد مسلم ممالک میں کفریہ نظام جمہوریت قائم ہے - ایسی صورت میں ان کافر حکمرانوں کے خلاف جہاد یا خروج مسلمانوں میں اپنی استطاعت کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے -
اگر حدیث رسول خوارج کے قتل کو مباح قرار دیا گیا ہے تو اسی طرح حدیث رسول میں کافر حاکم کے قتل کی استثنائی حکم بھی ثابت ہے- ملاحظه فرمائیں یہ حدیث -
خِیَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُحِبُّوْنَھُمْ وَیُحِبُّوْنَکُمْ وَتُصَّلُّوْنَ عَلَیْھِمْ وَیُصَلُّوْنَ عَلَیْکُمْ وَشِرَارُ اَءِمَّتِکُمُ الَّذِیْنَ تُبْغِضُوْنَھُمْ وَیُبْغِضُوْنَکُمْ وَتَلْعَنُوْنَھُمْ وَیَلْعَنُوْنَکُمْ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَفَلَا نُنَابِذُھُمْ بِالسَّیْفِ عِنْدَ ذٰلِکَ قَالَ لَا مَا اَقَامُوْا فِیْکُمُ الصَّلٰوۃَ اَلَامَنْ وُلِّیَ عَلَیْہِ وَالٍ فَرَاٰہُ یَاْتِیْ شَیْءًا مِّنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ فَلْیَکْرَہْ مَا یَاْتِیْ مِنْ مَّعْصِیَۃِ اللّٰہِ وَلَا یَنْزَعَنَّ یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب خیار الائمہ وشرارھم) تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور جن کے لیے تم دعا کرو اور وہ تمھارے لیے دعا کریں، اور تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں اور تم ان پر لعنت بھیجو اور وہ تم پر لعنت بھیجیں۔ ہم نے پوچھا کہ یارسولؐ اللہ کیا ایسی حالت میں ہم تلوار کے ذریعے ان کا مقابلہ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک وہ تمھارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں اس وقت تک تم ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ سنو! جس شخص پر کوئی حکمران حکومت کر رہا ہو اور وہ اس میں اللہ کی نافرمانی دیکھے تو اللہ کی اس معصیت کو تو بُرا سمجھے (اور اس میں اس کی اطاعت بھی نہ کرے) لیکن معروف میں اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے''، ۔
دعانا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعناہ فقال فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرہنا و عسرنا ویسرنا واثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أہلہ إلا أن تروا کفرًا بواحًا عندکم من اللّٰہ فیہ برہان.(بخاری،رقم ۶۵۳۲)
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بلایا اور ہم سے جن باتوں پر بیعت لی، ان میں یہ بھی تھا کہ حالات نرم ہوں یا جابرانہ، تنگی ہو یا فراخی اور دوسروں کو ہم پر ترجیح ہی کیوں نہ دی جائے، ہم ہر حال میں (اپنے حکمران کی) سمع و طاعت پر قائم رہیں گے اور ان سے اقتدار چھیننے کی کوشش نہ کریں گے، الاّ یہ کہ تم ان کی طرف سے ایسا ’’کفر بواح‘‘ دیکھو جس کے خلاف تمھارے پاس اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘
نماز چونکہ مومن کی پہچان اور ایمان کی علامت ہے، اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ نماز قائم کرتے رہیں تو تم ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ جب تک تم ان کے اندر ایسا کھلا کفر نہ دیکھو جس کے کفر ہونے پر تمھارے پاس قطعی دلیل موجود ہو، اس وقت تک تم ان سے جھگڑا نہ کرو۔(بخاری ، کتاب الفتن، مسلم، کتاب الامارۃ)
جب کہ یہ جمہوری حکمران نہ تو ملک میں نماز قائم کرتے ہیں -اور کئی معاملات میں کفر بواح (کھلے کفر) کے مرتکب بھی ہیں -ان کفریہ امور میں سودی نظام کو قائم رکھنا یہود و نصاریٰ سے اپنے مذموم مفادات کی خاطر دوستی کرنا- ملک میں شرک و بدعت کے اڈے قائم کرنا- معصوم مسلمانوں کو قتل کروا کر الزام جہادی تنظیموں پر لگا دینا - کفریہ جمہوری نظام کی ترویج کرنا - شریعت کےاحکامات کا مذاق اڑانا وغیرہ شامل ہیں -
جیسا کہ آپ کی پیش کردہ حدیث میں ہے کہ
امام ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ :
آیتِ مذکورہ کے ذیل میں یہ حدیث روایت کرتے ہیں :
عَنْ أَبِی أُمَامَةَ عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُمُ الْخَوَارِجُ.
ابن أبي حاتم، تفسير القرآن العظيم، 2 : 594
’’سیدناابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس (آیت میں ایمان لانے کے بعد کافر ہو جانے والوں) سے ’’خوارج‘‘ مراد ہیں۔‘‘
تو کتنے ہی حکمران ایسے ہیں جو ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوتے ہیں کیا یہ "خوارج" کی صف میں شامل نہیں ؟؟؟
یہاں ایک اور بات کی وضاحت بھی کردوں کہ اہل سنّت کے وہ علماء جو ہمہ وقت امام مہدی کے ظہورکی باتیں کرتے ہیں اور ان روایات کو صحیح مانتے ہیں جن میں مہدی کے ظہورکا ذکرہے - اگر بالفرض اس بات کوصحیح تسلیم کرلیا جائے تو اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مہدی رح ایک خلیفہ وقت کے طورپردنیا پر ظاہر ہونگے - نا کہ کفریہ جمہوری نظام حکومت کے تحت کسی انتخابی مہم کے ذریے حکمران نامزد ہونگے -اور لوگ ان خلیفہ نامزد ہونے کے بعد ان کے ہاتھ پر خلافت کی بیت کریں گے- (کوئی ووٹنگ کا نظام نہیں ہو گا) اور نہ ہی بادشاہت کے طور پر ان کا خروج ہوگا - اس بنا پر جو لوگ دنیا میں نظام خلافت کے لئے کوشاں ہیں وہی امام مہدی کے حقیقی پیروکار ہیں نا کہ کفریہ جمہوری نظام کے علمبردار- بلکہ ان کفریہ جمہوری نظام کے علمبرداروں کے خلاف جہاد ہی آج کے دور میں حقیقی جہاد ہے -لیکن افسوس کہ خلافت کے لئے اپنا تن من قربان کرنے والوں کو آج کل "خوارج " کا نام سے موسوم کیا جاتا ہے-
الله ہم سب کو اپنی راہ کی طرف گامزن رکھے (آمین)-