• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خوارج کے بارے میں حکم؟

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم بھائی آپ کی باقی باتیں تو درست ہیں مگر تکفیر کے حوالے جو آپ تاتاریوں اور موجودہ حکمرانوں میں اعتقادی اور غیر اعتقادی کفر کا فرق کر رہے ہیں میرے اور میرے شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے اجتہاد کے مطابق وہ درست نہیں کیونکہ یہ ساری اعتقادی کفر کی خوبیاں یہاں اسی طرح موجود ہیں جو اوپر آپ نے بیان کی ہیں واللہ اعلم
متفق
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تاتاریوں کے مذکورہ کفریہ عقائد خواہ وہ کسی حاکم میں ہو یا عوام میں، حکم وہی ہو گا جو تاتاریوں پر تھا!
اب دو مسائل ہیں اول تو یہ کہ آیا وقعی موجودہ حکمرانوں میں یہ کفر ہے بھی؟، دوم کہ تکفیر معین کے شروط پورے ہوتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی میری اصلاح پر حریص ہونے پر اللہ آپ کو خلوص اور اجر عظیم عطا فرمائے امین
یہاں آپ میں اور مجھ میں چند باتوں پر اتفاق ہے اور چند میں اختلاف ہے
1-پہلی بات کہ تحکیم بغیر ما انزل اللہ کو بعض سلفی علماء کفر اعتقادی کہتے ہیں اور بعض غیر اعتقادی پس ایک عالم دوسرے کو اجتہادی غلطی پر تو کہ سکتا ہے مگر گمراہ یا تکفیری اور مرجیئہ نہیں کہ سکتا اس پر ہمارا اتفاق ہے
2-تاتاری حکمرانوں کے کافر ہونے پر ہمارا اتفاق ہے البتہ اسکی علت پر اختلاف ہو سکتا ہے
3-بعض مسلمان حکمرانوں میں تاتاری حکمرانوں والے کفریہ عقائد سب یا کچھ کے موجود ہونے پر سلفی علماء میں اختلاف ہے کچھ کے ہاں وہ موجود ہیں اور کچھ کے ہاں نہیں ہیں پس اگر کوئی تاتاری حکمرانوں کے اوپر مذکورہ کفریہ عقائد کو آج کے بعض مسلم حکمرانوں میں موجود سمجھتا ہے تو وہ اسکا اجتہاد ہے اور کوئی نہیں سمجھتا تو وہ اسکا اجتہاد ہے البتہ کوئی سلفی عالم دوسرے گروہ کو اس سلسلے میں گمراہ یا خارجی و مرجیئہ کہنے میں درست نہیں ہو گا

اب جن دو مسائل کا آپ نے ذکر کیا ہے اس میں پہلے پر آپ اور میں اپنے دلائل یہاں دے کر بحث کر سکتے ہیں البتہ یہاں حالات کے تقاضے کے مطابق شاید ایسا کرنا درست نہ ہو
اور دوسرا جو تکفیر معین کا آپ نے کہا ہے تو وہ اشکال پھر خود تاتاریوں کی تکفیر میں پھر کیوں نہیں کیا جاتا یعنی تاتاریوں کی تو ہم اوپر مذکورہ کفریہ عقائد کی وجہ سے تکفیر معین کے قانون کو نظر انداز کر جاتے ہیں مگر یہاں اس کی بات چھیڑنا چاہتے ہیں اگر کوئی کہے کہ انکی تکفیر معین تو علماء نے کی ہے تو یہی صورتحال تو آج بھی موجود ہے پھر فرق کیا ہے

وضاحت:
محترم بھائی کچھ تکفیر تو جائز ہوتی ہے اور کچھ نا جائز ہوتی ہے اور جو یہ جائز تکفیر بھی ہے یہ بھی سب علماء کے ہاں نہیں بلکہ کچھ کے ہاں جائز ہوتی ہے البتہ آج کل جو پاکستان میں پاکستانی طالبان (جن کے عقائد میں ہی خرابیاں ہیں) وہ دجہاد کو غلط طریقے سے کر کے اسکو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں تو ان کو کچھ نہ کچھ سپورٹ اس جائز اور نا جائز تکفیر دونوں سے ملتی ہے اس میں کوئی انکار نہیں کر سکتا یعنی جائز تکفیر بھی انکے غلط کام کو پھیلانے کا سبب بنتی ہے پس سد ذرائع کو دیکھتے ہوئے ہم جائز تکفیر (بعض کے ہاں جائز) پر بھی توقف کر سکتے ہیں البتہ میرے خیال میں یہ بات توقف کی حد تک ہو تو بہتر ہے کیونکہ میرے خیال میں دوسری طرف اگر جائز تکفیر کو مطلقا حرام کہ کر اس کا ارتکاب کرنے والوں کو تکفیری اور خارجی جیسے الفاظ سے نوازیں گے تو وہ جب اپنے پاس دلائل بھی رکھتے ہوں گے اور علماء کی تائید بھی تو وہ لازمی شدید ردعمل دکھائیں گے اور اس کا نتیجہ وہ بھی ہو سکتا ہے جو نماز میں پاوں سے پاوں ملانے والے حنفی اور اہل حدیث کا بعض دفعہ ہوتا ہے یعنی دونوں ہی حجم سے کم یا زیادہ کھول کر شریعت کے خلاف کر رہے ہوتے ہیں پس میرے خیال میں جب ہم انکو جائز اجتہاد کی اجازت دیں گے تو وہ ہماری بات کو سنیں گے ورنہ شیر آ گیا شیر آ گیا کی طرح کہیں وہ ہمارے دلائل پر توجہ دینا ہی نہ چھوڑ دیں اور پھر وہ گمراہی کی گہراہیوں میں گرتے ہی نہ چلے جائیں اور یہی کچھ آج ہو رہا ہے یہ میری رائے ہے اور فوق کل ذی علم علیم والی بات تو آپ جانتے ہیں

جہاں تک بات ہے شیخ امین اللہ پشاوری کی تو ان کا ایک تحریر مجھے ملی تھی، وہ شئیر کر دیتا ہوں!
حق کی طرف رجوع ۔ شیخ امین اللہ پشاوری
محترم بھائی یہ تحریر جس بھائی نے لکھی تھی اسکے بعد اسنے اسکو شیئر کرنے کی بجائے پس پردہ ڈال دی کیونکہ اس میں تو خؤد اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے والی بات تھی کیونکہ اس میں انہوں نے اپنے تکفیر کے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے انکی تثبیت کی ہے پس فیس بک بھی جو یہ شیئر کرتا تھا وہ اس پر بات نہیں کر سکتا تھا پس آپ پہلے اسکو پڑھیں اور بتائیں کہ اس میں اپنے فتووں سے رجوع ہے یا انکی تثبیت ہے جیسا کہ شائع کرنے والے نے پہلے خود لکھا کہ انکے واضح حکمرانوں کی تکفیر معین کے فلاں فلاں فتوے دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا تھا مگر ان انہوں نے ان فتووں سے رجوع کر لیا لیکن سوال کو دیکھیں تو اس میں انکے اپنے رجوع کے بارے یہ سوال ہی نہیں اور وہ آگے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے فتووں میں کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی یعنی انہوں نے اپنے پرانے تمام فتووں کو درست قرار دیا کیونکہ مسلمان کی تو کوئی تکفیر کرتا ہی نہیں تکفیر تو کی ہی کافر کی جاتی ہے واللہ اعلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہاں اب دو باتیں جمع ہیں ایک شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر، اور دوسری اس سے قبل کی بحث! اگر ہم ان دونوں بحث کو اسی طرح الگ الگ رکھ کر گفتگو کریں گے تو بات سلجھی رہے گی ان شاء اللہ!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی یہ تحریر جس بھائی نے لکھی تھی اسکے بعد اسنے اسکو شیئر کرنے کی بجائے پس پردہ ڈال دی کیونکہ اس میں تو خؤد اپنے پاوں پر کلہاڑی مارنے والی بات تھی کیونکہ اس میں انہوں نے اپنے تکفیر کے فتووں سے رجوع کرنے کی بجائے انکی تثبیت کی ہے پس فیس بک بھی جو یہ شیئر کرتا تھا وہ اس پر بات نہیں کر سکتا تھا پس آپ پہلے اسکو پڑھیں اور بتائیں کہ اس میں اپنے فتووں سے رجوع ہے یا انکی تثبیت ہے جیسا کہ شائع کرنے والے نے پہلے خود لکھا کہ انکے واضح حکمرانوں کی تکفیر معین کے فلاں فلاں فتوے دیکھ کر مجھے دکھ ہوتا تھا مگر ان انہوں نے ان فتووں سے رجوع کر لیا
پہلی بات تو یہ کہ آپ متن کو چھوڑ کر حاشیہ پر نقد کر رہے ہیں! فیس بک پر موجود جو بھی شخص تھا وہ اس پر بات کر سکتا ہے یا نہیں، اس سے شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر پر کوئی فرق نہیں پڑتا! آپ اس حواشی کو چھوڑ کر متن کو موضوع بحث بنائیں!!
لیکن سوال کو دیکھیں تو اس میں انکے اپنے رجوع کے بارے یہ سوال ہی نہیں اور وہ آگے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے فتووں میں کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کی یعنی انہوں نے اپنے پرانے تمام فتووں کو درست قرار دیا کیونکہ مسلمان کی تو کوئی تکفیر کرتا ہی نہیں تکفیر تو کی ہی کافر کی جاتی ہے واللہ اعلم
بھائی جان جب مسئلہ تکفیر کی بات ہوتی ہے تو کبھی بھی اس سے مراد ہندو ، سکھ ، عیسائی، یہود کی تکفیر کی بات نہیں ہوتی!! ہمیشہ مراد من قال لا إله إلا الله، محمد رسول الله کی ہوتی ہے، یعنی جو خود کو اسلام سے منسوب کر کے مسلمان کہلواتا ہے!! لہٰذا شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کی آپ کی پیش کردہ تاویل بالکل بے بنیاد ہے!

اب میں آپ کو شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کے وہ الفاظ پیش کرتا ہوں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ فتاویٰ سے رجوع کر لیا!!
أقول نحن لا نكفر أحدا من المسلمين الذي يقول ( لا إله إلا الله، محمد رسول الله). ولم يأت بكفر بواح فيه برهان من الله.كما قال النبي صلی الله عليه وسلم (إلا تروا كفر بواحا عندكم فيه برهان من الله)والذين يكفرون المسلمين بالظنون أو بالشبهات أو بالتسلسلات أو التأويلات: فنحن برآء عنهم. ونحن لا نكفر المسلمين حكاما كانو أو عواما، علماء كانوا أو غير علماء.فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب ومفتر علي.وأنا أستغفر الله تعالی وأتوب إليه إن كان صدر تكفير المسلمين مني علی خطا، فإني لم أتعمد ذلك. وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم. والله الحمد!!هذا ما قوله. والله علی كل شئ شهيد.وأنا أقول: إن المسلم يجب عليه أن يحتاط في مسألة التكفير، والعوم الذين لاعلم عندهم يجب عليهم الكف من هذه المسألة.وصلی الله علی نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين. (امين الله پشاوري)

میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو(لا إله إلا الله محمد رسول الله)کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے اور ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر موجود نہیں۔ ولله الحمد!! (امين اللہ پشاوری)

اب اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں
اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔
ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے

اب ہمارے ان خود کو مجاہدین کہلوانے والوں کا حال یہ ہی ہے کہ وہ محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر حکمرانوں اور دیگر کی تکفیر کرتے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری کے حوالے سے بات طوالت اختیار نہیں کرے گے، پھر ہم دوسری بات کا آغاز کریں گے!!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلی بات تو یہ کہ آپ متن کو چھوڑ کر حاشیہ پر نقد کر رہے ہیں! فیس بک پر موجود جو بھی شخص تھا وہ اس پر بات کر سکتا ہے یا نہیں، اس سے شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر پر کوئی فرق نہیں پڑتا! آپ اس حواشی کو چھوڑ کر متن کو موضوع بحث بنائیں!!
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے میں نے حاشیہ کی بات اس لئے کی تھی کہ جس بھائی نے یہ رجوع عوام مین پہلی دفعہ پیش کیا وہ خود انکے شاگرد ہیں اور وہ خود رجوع پیش کرنے سے پہلے لکھتے ہیں کہ فتوی دین الخالص میں جا بجا مسلمان حکمرانوں اور حتی کہ پاکستان اور عراق کے ھکمرانوں کا نام لے کر واضح معین تکفیر موجود ہے پس وہ بھائی اس پر کڑھتے تھے کہ کسی طرح شیخ صاحب اس سے رجوع کر لیں اور آخر کار شیخ نے ان حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع کر لیا
پس یہ حاشیہ کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ انکے فتاوی میں حکمرانوں کی واضح تکفیر معین موجود ہے اور اگر کوئی ان بھائی کی بات کا بھی اعتبار نہ کرے تو اس بھائی نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں لکھی بلکہ اس رجوع سے پہلے انہوں نے وہ فتوینقل کیے ہیں مع ترجمہ جن میں ایسی تکفیر کی گئی ہے
پس امید ہے کہ میرا حاشیہ کا ذکر کرنے کی وجہ آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے اس رجوع سے پہلے انہوں نے اپنے فتاوی دین الخالص میں ان حکمرانوں کی واضح تکفیر معین کی ہوئی ہے جو شبہات گمانات یا تاویلات کی بجائے دلائل سے مزین ہے

اب اس کے بعد آگے ہم اس کا تجزیہ کریں گے کہ کیا ایسے تکفیر معین کے اتنے خطرناک فتوی کا رجوع اس طرح ہوتا ہے اور کیا فتوی کے الفاظ سے وہ مفہوم درست نکلتا ہے جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں یا وہ مفہوم درست نکلتا ہے جو میں کہنا چاہ رہا ہوں

بھائی جان جب مسئلہ تکفیر کی بات ہوتی ہے تو کبھی بھی اس سے مراد ہندو ، سکھ ، عیسائی، یہود کی تکفیر کی بات نہیں ہوتی!! ہمیشہ مراد من قال لا إله إلا الله، محمد رسول الله کی ہوتی ہے، یعنی جو خود کو اسلام سے منسوب کر کے مسلمان کہلواتا ہے!! لہٰذا شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کی آپ کی پیش کردہ تاویل بالکل بے بنیاد ہے!
محترم بھائی شیخ امین اللہ کی بات کی میری تاویل میرے علم کے مطابق بالکل درست ہے البتہ شاید میں آپ کو سمجھا نہیں سکا اور آپ کو مغالطہ لگا جس میں معذرت خواہ ہوں
میں نے اوپر کہیں ہندو اور سکھ کووغیرہ کی تکفیر کا نہیں کہا بلکہ کہا ہے کہ جب کسی کی تکفیر کی جاتی ہے تو وہ تب کی جاتی ہے جب وہ کافر ہو چکا ہوتا ہے یعنی مسلمان نہیں رہتا لوگ اسکو اہل اسلام (اسلام کی طرف منسوب) میں سے کہتے ہوں تو کہتے رہیں مگر وہ مسلمان نہیں ہوتا مثلا سلمان رشدی اہل اسلام (اسلام کی طرف منسوب) تو کہا جا سکتا ہے مگر وہ مسلمان نہیں پس اسکی جب تکفیر کی گئی تھی وہ مسلمان نہیں تھا ہاں اہل اسلام یا اسلام کی طرف منسوب کوئی کہنا چاہے تو کیا اعتراض کیا جا سکتا ہے
یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ تکفیر کامطلب ہے کسی کو کافر کہنا یعنی یہ ایک حکم ہے جو عمل پر لگتا ہے اور لازما عمل کے بعد لگتا ہے یعنی نواقض اسلام کا عمل۔ پس جب نواقض اسلام کا کوئی مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت وہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر ہو چکا ہوتا ہے تو تب ہی اسکو کافر کہ سکتے ہیں مثلا جب کوئی چور چوری کرے گا تو تب ہی اسکو چور کا فتوی لگائیں گے چوری سے پہلے تو کوئی لگا ہی نہیں سکتا
پس فتوی کے عربی الفاظ میں ہر جگہ خالی مسلم کا لفظ موجود ہے اور اردو ترجمہ میں جا بجا مسلم کی بجائے اسلام کی طرف منسوب یا اہل اسلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اصل میں غلط فہمی کا سبب بنا ہے آگے میں فتوی کے الفاظ پر بات کروں گا ان شاءاللہ
اب میں آپ کو شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کے وہ الفاظ پیش کرتا ہوں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ فتاویٰ سے رجوع کر لیا!!
أقول نحن لا نكفر أحدا من المسلمين الذي يقول ( لا إله إلا الله، محمد رسول الله). ولم يأت بكفر بواح فيه برهان من الله.كما قال النبي صلی الله عليه وسلم (إلا تروا كفر بواحا عندكم فيه برهان من الله)والذين يكفرون المسلمين بالظنون أو بالشبهات أو بالتسلسلات أو التأويلات: فنحن برآء عنهم. ونحن لا نكفر المسلمين حكاما كانو أو عواما، علماء كانوا أو غير علماء.فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب ومفتر علي.وأنا أستغفر الله تعالی وأتوب إليه إن كان صدر تكفير المسلمين مني علی خطا، فإني لم أتعمد ذلك. وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم. (امين الله پشاوري)
میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو(لا إله إلا الله محمد رسول الله)کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے اور ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر موجود نہیں۔ ولله الحمد!! (امين اللہ پشاوری)
اب یہ بات تو پہلے اوپر واضح ثابت ہو چکی ہے اور رجوع چھاپنے والے نے بھی لکھ دیا ہے کہ ان کے فتاوی میں جا بجا واضح حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے اور اس پر انہوں نے وہ عبارات بھی نقل کی ہے جن پر اگر کوئی اشکال ہو تو انکو نقل کر کے یہاں بات کی جا سکتی ہے
پس میرا پہلا سوال ہے کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انکے فتاوی میں حکمرانوں کی واضح تکفیر معین موجود ہے اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو پہلے اس پر وہ عبارات نقل کر کے بات ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ آپ سمیت کسی کو اس پر اختلاف نہیں ہو گا ااور پھر ظاہر ہے رجوع بھی تب ہو گا جب تکفیر معین ہو گی ورنہ پھر رجوع کس چیز کا
اب جب اتفاق ہے تو پھر ذرا یہ بتائیں کہ ایک اتنی واضح چیز جو ہم سب کو نظر آ رہی ہے وہ انکو نظر نہیں آ رہی کہ وہ کہ رہے ہیں کہ

وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم

کہ ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر نہیں
پس یہ بات واضح ہے کہ انکی مراد یہ ہے کہ میں نے جو تکفیر کی ہوئی جو سب کو نظر آ رہی ہے اور جس پر سب میرا رجوع چھاپ کر پیش کر رہے ہیں تو وہ تکفیر مسلمان کی تکفیر نہیں بلکہ اسلام سے نکل جانے والے کافر کی تکفیر ہے اور تکفیر ایک فتوی ہوتا ہے اور ہمیشہ فتوی کسی کے عمل کے بعد دیا جاتا ہے
اور سوال میں بھی دیکھیں تو کسی ایسے رجوع کا تذکرہ ہی نہیں

اب اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں
اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔
ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے
مھترم بھائی اس بات سے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ خالی محض گمان تاویلات کی وجہ سے تکفیر کرنی ہی نہیں چاہئے مگر شیخ نے تو جہاں تکفیر کی ہے اور رجوع چھاپنے والے نے جہاں اس تکفیر کے حوالے نقل کیے ہیں وہاں شیخ نے کئی کئی پوانٹس میں قرآن و سنت کے دلائل دے کر ایسا ذکر کیا ہے پس شیخ نے جس کی تردید کی ہے وہ وہم اور گمان پر تکفیر والی بات کی تردید کی ہے اور یہ بالکل درست ہے

اب اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
اب ہمارے ان خود کو مجاہدین کہلوانے والوں کا حال یہ ہی ہے کہ وہ محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر حکمرانوں اور دیگر کی تکفیر کرتے ہیں۔
مھترم بھائی اگر اس سے مراد آپ کی وہ نام نہاد مجاہدین ہیں جو قرآن و حدیث کو سمجھے بغیر محض تکفیر کی بنیاد پر پاکستان یا مسلم ممالک میں جہاد یا لڑائی شروع کر کے فساد اور جہاد کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور اس میں انکو شرعی دلائل دے کر انکو منع کرنے والے علماء یا عوام کی ہی تکفیر شروع کر دیتے ہیں اور انکا قتل شروع کر دیتے ہیں تو انکے خارجی ہونے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے البتہ جہاں علماء کے ٹھوس دلائل موجود ہوں اس کے مطابق تکفیر کرنے والے کو خارجی کہنا درست نہیں اگرچہ دوسری طرف بھی کثیر علماء ہوں

امید کرتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری کے حوالے سے بات طوالت اختیار نہیں کرے گے، پھر ہم دوسری بات کا آغاز کریں گے!!
محترم بھائی اس کے لئے میں اپنے محترم @خضر حیات بھائی یا محترم @محمد فیض الابرار بھائی یا باقی اہل علم کو درخواست کروں گا کہ وہ اوپر فتوی کو دیکھ کر میرے اور محترم ابن داود بھائی کے کمنٹس کو پڑھ کر رائے دیں کہ کیا یہ واقعی وہ رجوع ہے جس کا دعوی کیا گیا تاکہ بات لمبی نہ ہو جزاکم اللہ خیرا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عبدہ بھائی ! اس لمبی چوڑی بحث میں بلا وجہ الجھ کر اصل موضوع پیچھے رہ جائے گا! آپ کا ایک جملہ ہی میرے لئے کافی ہے!
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے میں نے حاشیہ کی بات اس لئے کی تھی کہ جس بھائی نے یہ رجوع عوام مین پہلی دفعہ پیش کیا وہ خود انکے شاگرد ہیں اور وہ خود رجوع پیش کرنے سے پہلے لکھتے ہیں کہ فتوی دین الخالص میں جا بجا مسلمان حکمرانوں اور حتی کہ پاکستان اور عراق کے ھکمرانوں کا نام لے کر واضح معین تکفیر موجود ہے پس وہ بھائی اس پر کڑھتے تھے کہ کسی طرح شیخ صاحب اس سے رجوع کر لیں اور آخر کار شیخ نے ان حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع کر لیا
ملون الفاظ میں جب آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ نے تکفیر معین سے رجوع کر لیا۔ تو بات ختم!! یہی میرا مدعا ہے!!
اب آپ کو اگر آپ کی خواہش ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری ٹیلی وزن پر آکر یا لائیو پریس کانفرینس کر کے اپنے رجوع کا اعلان کریں ! تو یہ آپ کا اور شیخ امین اللہ پشاوری کا معاملہ!!

غالباً شيخ امین اللہ پشاوری کا مدعا تو اب ختم ہو جانا چاہئے!!
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عبدہ بھائی ! اس لمبی چوڑی بحث میں بلا وجہ الجھ کر اصل موضوع پیچھے رہ جائے گا! آپ کا ایک جملہ ہی میرے لئے کافی ہے!

ملون الفاظ میں جب آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ شیخ نے تکفیر معین سے رجوع کر لیا۔ تو بات ختم!! یہی میرا مدعا ہے!!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم بھائی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پر کیا کمنٹ دوں یعنی میں ساری محنت کر کے کیا کہنا چاہ رہا ہوں اور آپ لاشعوری طور پر اسکو کیا سمجھے ہیں یہ تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ قرآن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا بار بار دلائل سے ثابت کرتا ہے اور اسکو بشر نہ ماننے والے پھر کہتے ہیں کہ دیکھیں اللہ خود ہی تو کہتا ہے کہ کافر یہ کہتے ہیں کہ آپ تو ایک بشر کے علاوہ کچھ نہیں ہم آپ کی پیروی کیوں کریں پس ثابت ہوا کہ بشر کہنا کفار کا کام ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے
محترم @خضر حیات بھائی اور محترم @محمد فیض الابرار بھائی آپ ہی اس بارے بھی اور اوپر کے بارے میں کچھ بیان کر دیں

اب آپ کو اگر آپ کی خواہش ہے کہ شیخ امین اللہ پشاوری ٹیلی وزن پر آکر یا لائیو پریس کانفرینس کر کے اپنے رجوع کا اعلان کریں ! تو یہ آپ کا اور شیخ امین اللہ پشاوری کا معاملہ!!

غالباً شيخ امین اللہ پشاوری کا مدعا تو اب ختم ہو جانا چاہئے!!
بھائی یہ بات بھی میرے اوپر کسی کمنٹ سے ثابت نہیں ہوتی کہ اگر وہ ٹی وی پر آ کر ایسا رجوع کریں تو میں مانوں گا بلکہ میرے اوپر کمنٹس کو پڑھ کر محترم خضر بھائی اور باقی بھی یہ کہیں گے کہ میرے نزدیک تو وہ یہ رجوع سی این این پر لائیو بھی دے کر کریں تو اس سے حکمرانوں کی تکفیر کا رجوع ثابت نہیں ہوتا
پس اب دوبارہ آپ پوسٹ نمبر 65 کو پڑھیں اور اس میں موجود باتوں کی روشنی میں بات کریں باقی بھائی اسکو دیکھ لیں گے

البتہ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لازمی میری بات مانیں آپ کو میرے دلائل کی سمجھ نہیں آ رہی تو ہو سکتا ہے میرے دلائل آپ کی نظر میں کمزور ہوں تو اس میں مجھے اختلاف نہیں پس آپ اپنے نظریے پر رہیں اور مجھے اپنے نظریے پر رہنے دیں لیکن اگر آپ مجھے اپنے نظریے پر قائل کرنا چاہتے ہیں تو مجھےل دلائل چاہئے وہ دلائل جو باقی فورم کے اہل علم بھی مانتے ہوں
اور یہی حال میرا حکمرانوں کی تکفیر کا ہے کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اکثر پاکستانی علماء انکی تکفیر نہیں کرتے پس نہ کرنے والوں کو میں غلط نہیں کہتا مگر مجھے اگر کوئی قائل کرنا چاہتا ہے تو پھر دلائل دینے ہوں گے جو باقی اہل علم بھی تسلیم کرتے ہوں

اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم بھائی مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس پر کیا کمنٹ دوں یعنی میں ساری محنت کر کے کیا کہنا چاہ رہا ہوں اور آپ لاشعوری طور پر اسکو کیا سمجھے ہیں یہ تو مجھے ایسے لگتا ہے کہ قرآن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا بار بار دلائل سے ثابت کرتا ہے اور اسکو بشر نہ ماننے والے پھر کہتے ہیں کہ دیکھیں اللہ خود ہی تو کہتا ہے کہ کافر یہ کہتے ہیں کہ آپ تو ایک بشر کے علاوہ کچھ نہیں ہم آپ کی پیروی کیوں کریں پس ثابت ہوا کہ بشر کہنا کفار کا کام ہے اور یہی ہمارا مدعا ہے
عبدہ بھائی! آپ کی دی ہوئی مثال کا یہاں اطلاق اس وقت صحیح ہوتا جب ان ملون الفاظ کو آپ نے حواشی سےمنسوب کیا ہوتا!!
عبدہ بھائی! اب میں تو وہی سمجھوں گا جو آپ دم تحریر میں لائیں گے!آپ اپنے مذکورہ بیان کو دیکھیں:
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے میں نے حاشیہ کی بات اس لئے کی تھی کہ جس بھائی نے یہ رجوع عوام مین پہلی دفعہ پیش کیا وہ خود انکے شاگرد ہیں اور وہ خود رجوع پیش کرنے سے پہلے لکھتے ہیں کہ فتوی دین الخالص میں جا بجا مسلمان حکمرانوں اور حتی کہ پاکستان اور عراق کے ھکمرانوں کا نام لے کر واضح معین تکفیر موجود ہے پس وہ بھائی اس پر کڑھتے تھے کہ کسی طرح شیخ صاحب اس سے رجوع کر لیں اور آخر کار شیخ نے ان حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع کر لیا
اس میں آخر کار شیخ نے ان حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع کرنے کی خبر آپ نے دی ہے، اسے آپ نے حواشی سے منسوب نہیں کیا ہے!!
عبدہ بھائی! آپ یہ فرما دیں کہ کیا آپ سے بیان میں غلطی ہو گئی ہے اور آپ کے مؤقف کے مطابق شیخ امین اللہ پشاوری نے حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع نہیں کیا؟ تا کہ شیخ امین اللہ پشاوری کی اس تحریر کی بحث کو سمیٹا جا سکے۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
عبدہ بھائی! آپ کی دی ہوئی مثال کا یہاں اطلاق اس وقت صحیح ہوتا جب ان ملون الفاظ کو آپ نے حواشی سےمنسوب کیا ہوتا!!
عبدہ بھائی! اب میں تو وہی سمجھوں گا جو آپ دم تحریر میں لائیں گے!آپ اپنے مذکورہ بیان کو دیکھیں:
اس میں آخر کار شیخ نے ان حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع کرنے کی خبر آپ نے دی ہے، اسے آپ نے حواشی سے منسوب نہیں کیا ہے!!
عبدہ بھائی! آپ یہ فرما دیں کہ کیا آپ سے بیان میں غلطی ہو گئی ہے اور آپ کے مؤقف کے مطابق شیخ امین اللہ پشاوری نے حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع نہیں کیا؟ تا کہ شیخ امین اللہ پشاوری کی اس تحریر کی بحث کو سمیٹا جا سکے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے آپ کی بات سو فیصد درست ہے کہ میرے کلام کو جو آپ نے کوٹ کیا ہے اس سے یہی لگ رہا ہے کہ مجھ سے واقعہ بیان میں غلطی ہو گئی ہے پس میں آپ سے معذرت چاہتا ہوں کہ مجھے علیحدہ علیحدہ کلام کرتے ہوئے بھی اسکو ٹھیک صیغوں سے بیان کرنا چاہئے جلدی نہیں کرنی چاہئے

البتہ جہاں تک حقیقی بات ہے تووہ یہ کہ کلام کو مجموعی طور پر دیکھا جاتا ہے اور جب کبھی کسی سے مجموعی کلام کے برعکس بات ہو جائے تو اس کو دلیل نہیں بنانا چاہئے بلکہ دوسرے کو متنبہ کر دینا چاہئے کہ آپ سے غلطی سے ایسی بات ہو گئی ہے مثلا عمران خان کی ایک ویڈیو نیٹ پر دیکھی ہو گی جس میں وہ غلطی سے شیر پر مہر لگانے کا کہ رہے ہوتے ہیں
اب میں آپ کو ایک اصول بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہ سب جانتے ہیں کہ میری اور آپ کی بات ہی اس بات سے شروع ہوئی کہ میں رجوع کو غلط ثابت کرنا چاہتا ہوں اور آپ اسکو درست کہنا چاہتے ہیں اور بار بار اسی پر دلائل موجود ہیں اور یہ اتنا زیادہ ہے کہ اس مذکورہ بیان میں جب پیچھے حاشیہ والا بیان موجود ہے تو اس مذکورہ بیان کا تعلق اس حاشیہ سے ہونے کا احتمال ہے اور اگر نہ بھی بنتا ہو تو حق یہی ہے کہ ہمیں زبردستی اسکا تعلق اس حاشیہ والے کلام سے ہی بنانا ہو گا کیونکہ میرا تو سارا زور ہی اسکے خلاف ہے اسکی دلیل میں میں قرآن کی آیت پیش کرتا ہوں
ویسے ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن بھلائی کے کام کرنے کی تلقین کرتا ہے نہ کہ اس سے روکنے کی تلقین کرتا ہے پس اگر کسی جگہ آپ کو یہ شبہ ہو کہ وہ بھلائی سے روکنے کی تلقین کر رہا ہے تو آپ کو لازما اسکو حقیقی الفاظ سے ہٹ کر پورے کلام سے مطابق کرنا ہو گا پس قرآن میں آتا ہے کہ
انتھوا خیرالکم
اب اس کا واضح لفظی ترجمہ میں خیر مفعول بن رہا ہے یعنی تم خیر یا بھلائی سے رک جاؤ اور لفظی طور پر آگے پیچھے دیکھنے سے کوئی اور احتمال ہو ہی نہیں سکتا مگر چونکہ یہ قرآن کے مجموعی اور اصل بیان سے یکسر مخالف ہے پس ہمیں یہاں محذوف ماننا پڑے گا یعنی اصل عبارت کچھ مختلف ہو گی مثلا
انتھوا عن التثلیث واقصدوا خیرا لکم
پس میرے کلام سے رجوع کی دلیل لینے میں لاشعوری غلطی ہو سکتی ہے
اب آپ میری طرف سے غلطی کے اقرار اور وضاحت کے بعد میری پوسٹ نمبر 65کے اشکالات پر بات کر لیں اللہ تعالی اس معاملہ میں میرا اور آپ کا حامی و ناصر ہو امین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

پہلی بات تو یہ کہ آپ متن کو چھوڑ کر حاشیہ پر نقد کر رہے ہیں! فیس بک پر موجود جو بھی شخص تھا وہ اس پر بات کر سکتا ہے یا نہیں، اس سے شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر پر کوئی فرق نہیں پڑتا! آپ اس حواشی کو چھوڑ کر متن کو موضوع بحث بنائیں!!

بھائی جان جب مسئلہ تکفیر کی بات ہوتی ہے تو کبھی بھی اس سے مراد ہندو ، سکھ ، عیسائی، یہود کی تکفیر کی بات نہیں ہوتی!! ہمیشہ مراد من قال لا إله إلا الله، محمد رسول الله کی ہوتی ہے، یعنی جو خود کو اسلام سے منسوب کر کے مسلمان کہلواتا ہے!! لہٰذا شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کی آپ کی پیش کردہ تاویل بالکل بے بنیاد ہے!

اب میں آپ کو شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کے وہ الفاظ پیش کرتا ہوں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ فتاویٰ سے رجوع کر لیا!!
أقول نحن لا نكفر أحدا من المسلمين الذي يقول ( لا إله إلا الله، محمد رسول الله). ولم يأت بكفر بواح فيه برهان من الله.كما قال النبي صلی الله عليه وسلم (إلا تروا كفر بواحا عندكم فيه برهان من الله)والذين يكفرون المسلمين بالظنون أو بالشبهات أو بالتسلسلات أو التأويلات: فنحن برآء عنهم. ونحن لا نكفر المسلمين حكاما كانو أو عواما، علماء كانوا أو غير علماء.فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب ومفتر علي.وأنا أستغفر الله تعالی وأتوب إليه إن كان صدر تكفير المسلمين مني علی خطا، فإني لم أتعمد ذلك. وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم. والله الحمد!!هذا ما قوله. والله علی كل شئ شهيد.وأنا أقول: إن المسلم يجب عليه أن يحتاط في مسألة التكفير، والعوم الذين لاعلم عندهم يجب عليهم الكف من هذه المسألة.وصلی الله علی نبينا محمد وآله وصحبه أجمعين. (امين الله پشاوري)

میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو(لا إله إلا الله محمد رسول الله)کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے اور ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر موجود نہیں۔ ولله الحمد!! (امين اللہ پشاوری)

اب اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں
اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔
ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے

اب ہمارے ان خود کو مجاہدین کہلوانے والوں کا حال یہ ہی ہے کہ وہ محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر حکمرانوں اور دیگر کی تکفیر کرتے ہیں۔ [/HL]
امید کرتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری کے حوالے سے بات طوالت اختیار نہیں کرے گے، پھر ہم دوسری بات کا آغاز کریں گے!!


السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - افسوس کہ ہمارے علماء ، عوام اور حکمران بھی تو محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر مجاہدین کو "خوارجی" گردانتے ہیں کیا یہ طرز عمل دینی اعتبارسے قابل ستائش ہے ؟؟؟؟-

دوسرے یہ کہ امین الله صاحب فرما رہے ہیں کہ "میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو(لا إله إلا الله محمد رسول الله)کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ "

یہاں وضاحت مطلوب ہے کہ اگر کفربواح (کھلے ہوے کفر) پر بھی کسی کو (چاہے وہ حکمران ہو عام آدمی یا کوئی گروہ ہو)- اس کو کافر قرار نہ دیا جائے اور اس کے کفر سے پہلو تہی کی جائے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے- تو کیا اس کا نتیجہ کبھی مثبت نکل سکتا ہے؟؟؟- اب ظاہر ہے جب ہمارے علماء اور ان کے مدارس حکومت وقت کے مرہون منّت ہوں اور علماء میں بیشتر خود اسمبلی ممبر ہوں تو کیا یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ حکمرانوں کو کفر بواح پر فتویٰ صادر کریں گے ؟؟؟

دوسری صورت میں علماء کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ کون سا عمل کفر بواح ہے اور کون سا نہیں ہے - تا کہ لوگوں کو رہنمائی ملے اور تکفیر کا فتنہ ختم ہو-

میرے خیال میں تو یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب امام احمد بن حنبل رح کی طرح کوئی عالم دیدہ دلیری سے اٹھے اورحکومت وقت سے ٹکرلے اور ان کے کفریہ اعمال پر فتویٰ لگاے - جیسا کہ امام صاحب نے خلق قرآن کے معاملے میں کیا تھا- لیکن فلوقت ایسا ممکن نظر نہیں آتا - ظاہر ہے کون عالم ایسا ہے جو ان کی طرح آزمائش برداشت کرسکے -
 
Top