السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پہلی بات تو یہ کہ آپ متن کو چھوڑ کر حاشیہ پر نقد کر رہے ہیں! فیس بک پر موجود جو بھی شخص تھا وہ اس پر بات کر سکتا ہے یا نہیں، اس سے شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر پر کوئی فرق نہیں پڑتا! آپ اس حواشی کو چھوڑ کر متن کو موضوع بحث بنائیں!!
محترم بھائی اللہ آپ کو جزائے خیر دے میں نے حاشیہ کی بات اس لئے کی تھی کہ جس بھائی نے یہ رجوع عوام مین پہلی دفعہ پیش کیا وہ خود انکے شاگرد ہیں اور وہ خود رجوع پیش کرنے سے پہلے لکھتے ہیں کہ فتوی دین الخالص میں جا بجا مسلمان حکمرانوں اور حتی کہ پاکستان اور عراق کے ھکمرانوں کا نام لے کر واضح معین تکفیر موجود ہے پس وہ بھائی اس پر کڑھتے تھے کہ کسی طرح شیخ صاحب اس سے رجوع کر لیں اور آخر کار شیخ نے ان حکمرانوں کی واضح طور پر کی گئی تکفیر معین سے رجوع کر لیا
پس یہ حاشیہ کا ذکر اس لئے کیا تھا کہ یہ بھی واضح کر رہا ہے کہ انکے فتاوی میں حکمرانوں کی واضح تکفیر معین موجود ہے اور اگر کوئی ان بھائی کی بات کا بھی اعتبار نہ کرے تو اس بھائی نے اپنے پاس سے یہ بات نہیں لکھی بلکہ اس رجوع سے پہلے انہوں نے وہ فتوینقل کیے ہیں مع ترجمہ جن میں ایسی تکفیر کی گئی ہے
پس امید ہے کہ میرا حاشیہ کا ذکر کرنے کی وجہ آپ کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ
شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ کے اس رجوع سے پہلے انہوں نے اپنے فتاوی دین الخالص میں ان حکمرانوں کی واضح تکفیر معین کی ہوئی ہے جو شبہات گمانات یا تاویلات کی بجائے دلائل سے مزین ہے
اب اس کے بعد آگے ہم اس کا تجزیہ کریں گے کہ کیا ایسے تکفیر معین کے اتنے خطرناک فتوی کا رجوع اس طرح ہوتا ہے اور کیا فتوی کے الفاظ سے وہ مفہوم درست نکلتا ہے جو آپ کہنا چاہ رہے ہیں یا وہ مفہوم درست نکلتا ہے جو میں کہنا چاہ رہا ہوں
بھائی جان جب مسئلہ تکفیر کی بات ہوتی ہے تو کبھی بھی اس سے مراد ہندو ، سکھ ، عیسائی، یہود کی تکفیر کی بات نہیں ہوتی!! ہمیشہ مراد من قال لا إله إلا الله، محمد رسول الله کی ہوتی ہے، یعنی جو خود کو اسلام سے منسوب کر کے مسلمان کہلواتا ہے!! لہٰذا شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کی آپ کی پیش کردہ تاویل بالکل بے بنیاد ہے!
محترم بھائی شیخ امین اللہ کی بات کی میری تاویل میرے علم کے مطابق بالکل درست ہے البتہ شاید میں آپ کو سمجھا نہیں سکا اور آپ کو مغالطہ لگا جس میں معذرت خواہ ہوں
میں نے اوپر کہیں ہندو اور سکھ کووغیرہ کی تکفیر کا نہیں کہا بلکہ کہا ہے کہ جب کسی کی تکفیر کی جاتی ہے تو وہ تب کی جاتی ہے جب وہ کافر ہو چکا ہوتا ہے یعنی مسلمان نہیں رہتا لوگ اسکو اہل اسلام (اسلام کی طرف منسوب) میں سے کہتے ہوں تو کہتے رہیں مگر وہ مسلمان نہیں ہوتا مثلا سلمان رشدی اہل اسلام (اسلام کی طرف منسوب) تو کہا جا سکتا ہے مگر وہ مسلمان نہیں پس اسکی جب تکفیر کی گئی تھی وہ مسلمان نہیں تھا ہاں اہل اسلام یا اسلام کی طرف منسوب کوئی کہنا چاہے تو کیا اعتراض کیا جا سکتا ہے
یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ تکفیر کامطلب ہے کسی کو کافر کہنا یعنی یہ ایک حکم ہے جو عمل پر لگتا ہے اور لازما عمل کے بعد لگتا ہے یعنی نواقض اسلام کا عمل۔ پس جب نواقض اسلام کا کوئی مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت وہ مسلمان نہیں رہتا بلکہ کافر ہو چکا ہوتا ہے تو تب ہی اسکو کافر کہ سکتے ہیں مثلا جب کوئی چور چوری کرے گا تو تب ہی اسکو چور کا فتوی لگائیں گے چوری سے پہلے تو کوئی لگا ہی نہیں سکتا
پس فتوی کے عربی الفاظ میں ہر جگہ خالی مسلم کا لفظ موجود ہے اور اردو ترجمہ میں جا بجا مسلم کی بجائے اسلام کی طرف منسوب یا اہل اسلام کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اصل میں غلط فہمی کا سبب بنا ہے آگے میں فتوی کے الفاظ پر بات کروں گا ان شاءاللہ
اب میں آپ کو شیخ امین اللہ پشاوری کی تحریر کے وہ الفاظ پیش کرتا ہوں جس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے گزشتہ فتاویٰ سے رجوع کر لیا!!
أقول نحن لا نكفر أحدا من المسلمين الذي يقول ( لا إله إلا الله، محمد رسول الله). ولم يأت بكفر بواح فيه برهان من الله.كما قال النبي صلی الله عليه وسلم (إلا تروا كفر بواحا عندكم فيه برهان من الله)والذين يكفرون المسلمين بالظنون أو بالشبهات أو بالتسلسلات أو التأويلات: فنحن برآء عنهم. ونحن لا نكفر المسلمين حكاما كانو أو عواما، علماء كانوا أو غير علماء.فمن استدل بكلامنا بعد هذا في تكفير المسلمين فهو كاذب ومفتر علي.وأنا أستغفر الله تعالی وأتوب إليه إن كان صدر تكفير المسلمين مني علی خطا، فإني لم أتعمد ذلك. وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم. (امين الله پشاوري)
میں بھی کہتا ہوں: ہم بھی اہل اسلام میں سے کسی کو کافر قرار نہیں دیتے جو(لا إله إلا الله محمد رسول الله)کا اقرار کرتا ہو اور کسی اعلانیہ کفر کا ارتکاب نہ کرے جس (کے کفر ہونے)کی کھلی دلیل اللہ کی طرف سے موجود ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: إلا یہ کے تمہیں ایسا کفر نظر آ جائے جس پر اللہ کی طرف سے کھلی دلیل موجود ہو۔جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔ ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے اور ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر موجود نہیں۔ ولله الحمد!! (امين اللہ پشاوری)
اب یہ بات تو پہلے اوپر واضح ثابت ہو چکی ہے اور رجوع چھاپنے والے نے بھی لکھ دیا ہے کہ ان کے فتاوی میں جا بجا واضح حکمرانوں کی تکفیر معین موجود ہے اور اس پر انہوں نے وہ عبارات بھی نقل کی ہے جن پر اگر کوئی اشکال ہو تو انکو نقل کر کے یہاں بات کی جا سکتی ہے
پس میرا پہلا سوال ہے کہ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ انکے فتاوی میں حکمرانوں کی واضح تکفیر معین موجود ہے اگر آپ اتفاق نہیں کرتے تو پہلے اس پر وہ عبارات نقل کر کے بات ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ آپ سمیت کسی کو اس پر اختلاف نہیں ہو گا ااور پھر ظاہر ہے رجوع بھی تب ہو گا جب تکفیر معین ہو گی ورنہ پھر رجوع کس چیز کا
اب جب اتفاق ہے تو پھر ذرا یہ بتائیں کہ ایک اتنی واضح چیز جو ہم سب کو نظر آ رہی ہے وہ انکو نظر نہیں آ رہی کہ وہ کہ رہے ہیں کہ
وليس في فتاوينا تكفر أي مسلم
کہ ہمارے فتاوی میں کسی مسلمان کی تکفیر نہیں
پس یہ بات واضح ہے کہ انکی مراد یہ ہے کہ میں نے جو تکفیر کی ہوئی جو سب کو نظر آ رہی ہے اور جس پر سب میرا رجوع چھاپ کر پیش کر رہے ہیں تو وہ تکفیر مسلمان کی تکفیر نہیں بلکہ اسلام سے نکل جانے والے کافر کی تکفیر ہے اور تکفیر ایک فتوی ہوتا ہے اور ہمیشہ فتوی کسی کے عمل کے بعد دیا جاتا ہے
اور سوال میں بھی دیکھیں تو کسی ایسے رجوع کا تذکرہ ہی نہیں
اب اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
جو لوگ محض گمانات، شبہات یا تاویلات کی بناء پر اہل اسلام کی تکفیر کرتے ہیں، ہم ان سے برئ الذمہ اور بیزار ہیں
اور ہم اہل اسلام میں سے حکام اور عوام اور علماء و جہلاء، کسی کی بھی قطعا تکفیر نہیں کرتے۔
ہماری اس وضاحت کے بعد، جو کوئی بھی ہماری سابقہ تحریرات سے استدلال کرتے ہوئے اہل اسلام کو کافر کہے تو وہ جھوٹا اور افتراء پرداز ہو گا۔
اور میں اس بات پر اللہ سے استغفار کرتا ہوں اور تائب ہوتا ہوں کہ ماضی میں اگر مجھ سے مسلمانوں کی تکفیر ہوئی ہو تو وہ جان بوجھ کر نہیں، بربناء خطاء ہے
مھترم بھائی اس بات سے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں کہ خالی محض گمان تاویلات کی وجہ سے تکفیر کرنی ہی نہیں چاہئے مگر شیخ نے تو جہاں تکفیر کی ہے اور رجوع چھاپنے والے نے جہاں اس تکفیر کے حوالے نقل کیے ہیں وہاں شیخ نے کئی کئی پوانٹس میں قرآن و سنت کے دلائل دے کر ایسا ذکر کیا ہے پس شیخ نے جس کی تردید کی ہے وہ وہم اور گمان پر تکفیر والی بات کی تردید کی ہے اور یہ بالکل درست ہے
اب اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
اب ہمارے ان خود کو مجاہدین کہلوانے والوں کا حال یہ ہی ہے کہ وہ محض گمان، شبہ اور تاویل کی بناء پر حکمرانوں اور دیگر کی تکفیر کرتے ہیں۔
مھترم بھائی اگر اس سے مراد آپ کی وہ نام نہاد مجاہدین ہیں جو قرآن و حدیث کو سمجھے بغیر محض تکفیر کی بنیاد پر پاکستان یا مسلم ممالک میں جہاد یا لڑائی شروع کر کے فساد اور جہاد کو بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں اور اس میں انکو شرعی دلائل دے کر انکو منع کرنے والے علماء یا عوام کی ہی تکفیر شروع کر دیتے ہیں اور انکا قتل شروع کر دیتے ہیں تو انکے خارجی ہونے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے البتہ جہاں علماء کے ٹھوس دلائل موجود ہوں اس کے مطابق تکفیر کرنے والے کو خارجی کہنا درست نہیں اگرچہ دوسری طرف بھی کثیر علماء ہوں
امید کرتا ہوں کہ شیخ امین اللہ پشاوری کے حوالے سے بات طوالت اختیار نہیں کرے گے، پھر ہم دوسری بات کا آغاز کریں گے!!
محترم بھائی اس کے لئے میں اپنے محترم
@خضر حیات بھائی یا محترم
@محمد فیض الابرار بھائی یا باقی اہل علم کو درخواست کروں گا کہ وہ اوپر فتوی کو دیکھ کر میرے اور محترم ابن داود بھائی کے کمنٹس کو پڑھ کر رائے دیں کہ کیا یہ واقعی وہ رجوع ہے جس کا دعوی کیا گیا تاکہ بات لمبی نہ ہو جزاکم اللہ خیرا