• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دلیل کیا ہے ؟

شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
ماشاء اللہ میری طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو کوٹ تو ایسے کرتے گئے کہ جس طرح آپ نے ان سب سوالات کا جواب دےدیا ہو۔
گڈ مسلم بھائی آپ نے نمبروار کچھ سوال کھڑے کئے جن کے جوابات دینے کی میں نے کو شش کی۔ اب آپ نے پھر نئے سوال کر ڈالے۔ چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ آپکے سوالات موضوع سے غیر متعلق ہیں اس لیے ان کے جوابات ضمنی سوالات کے تحت دینے کی آخری کو شش کرتا ہوں۔ اس امید پر کہ آیندہ آپ غیر متعلق نئے سوالات سے اجتناب کریں گے۔ اور اگر کر بھی دیئے تو جواب نہ پا نے کی صورت میں کم از کم مجھ سے گلہ نہ کریں۔ امید ہے بھائی مائنڈ نہیں کریگا۔:) ضمنی سوالات کے بعد اصل موضوع سے متعلقہ امور پر بات کرنے کی کوشش کرونگا۔ میں بھی سمجھنا چاہہتا ہوں اور آپ بھی۔ اللہ ہماری مدد کرے۔
ضمنی سوالات

چلیں یہ تو سمجھ آئی کہ اس کا عمومی تعلق فقہ حنفی سے نہیں ٹوٹے گا۔اچھا یہ بتائیں کہ جن جن مسئلوں میں وہ فقہ حنفی کے خلاف عمل کررہا ہے ان مسائل میں ہم اس کو کیا نام دیں ؟ کیونکہ ان جزوی مسائل میں تو فقہ حنفی سے تعلق ٹوٹ کر ایک مولوی کے کھاتے لگ رہا ہے۔تو کیا ان جزوی مسائل میں ہم اس کو مولوی مقلد کا نام دے سکتے ہیں ؟
ہمارے نزدیک عمومی نسبت ہی کافی ہے۔ آپ نام دینا چاہیں تو آزاد ہیں۔ :)
گڈ یعنی امام شارح ہے شارع نہیں۔تو پھر شارح کی بات کی رو سے مسئلہ پوچھنا ہی غلطی ٹھہری ناں ؟ کیا آپ اس سے متفق ہیں ؟
شارح کی بات جب شرع کی شرح ہے تو معتبر ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن (شارع) کی شرح فرمائی ہے۔ اس لئے آپکی بات معتبر ہے۔
صحیح بھی ہیں کچھ اور بھی ۔بھائی ایک بات کریں گھماؤ پھراؤ کو فی الحال جانے دیں دوبارہ سوال کرتا ہوں کہ ’’بخاری ومسلم کی حدیثیں صحیح ہیں ؟ ‘‘
اسکا جوان انس بھائی کو اس طرح دیا۔ آپ بھی دیکھ لیں۔
انس بھائی یہ مشہور غیر مقلد اہل حدیث عالم اور محقق جناب حکیم فیض عالم صدیقی صاحب اپنی کتاب صدیقہ کائنات میں لکھتا ہے۔
صفحہ ٨٨ پر لکھتے ہیں
بخاری میں موضوع اور من گھڑت اقوال ہیں

صفحہ ۱۱۳ پر لکھتے ہیں
جو بخاری کی تمام روایات کو صحیح مانتے ہیں ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اسکے علاوہ البانی صاحب بھی بخاری کی صحیح و دیگر اقسام کی چھانٹی کرچکے ہیں۔ حدیث کی حدمت یہ حضرات کر چکے ہیں۔
یہ آپ نے دوبارہ پوچھا
بھائی جان آپ سے ایک بار گزارش ہے کہ اس سوال پر پھر غور کریں جس سابقہ لاحقہ میں یا جس صورت میں سوال کیا گیا ہے۔اسی صورت میں جوا ب دیں۔سوال نمبر6 پوسٹ نمبر24 میں دیکھ لیں
سوال میں پیش صورت کو محال سمجھا گیا ہے۔ جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
اور ہاں آپ ہمارا کوئی ایک عمل جس کو شریعت سمجھ کر ہم کرتےہیں۔صریح صحیح حدیث کےخلاف پیش کردیں کہ آپ کا یہ عمل اس صریح صحیح حدیث کےخلاف ہے۔اور اصل مسئلہ اس حدیث سے ثابت ہے۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے آپ کے پیش کردہ حدیث میرے جاری کردہ عمل کے خلاف ہوئی تو واضح اعلان برات کردونگا۔جی جلدی سے ذرا پیش فرمائیں۔میں انتظار کرونگا۔
صحیح صریح کی شرط پر آپکے اعمال بھی ہیں یا صرف خلاف پیش کرنے کیلئے یہ شرائط ہیں؟ :)
ٓآ پ خود دیکھ لیں آپکے کتنے اعمال صحیح صریح پر ہیں۔نماز میں ٹخنے ملانا۔ سینہ پر پھر ہاتھ باندھنا وغیرہ دیکھ لیں :) ہم کیوں معترض ہوں!!
اچھا مجھے یہ بتائیں کہ اگر آپ ضعیف حدیث پیش کردیتے ہیں تو کیا پھر بھی آپ اس کو دلیل کا نام دوگے یا کوئی اور نام؟
ہمارے ہاں دلائل معلوم ہیں۔ وہ ۴ ہیں جو آپکو بھی معلوم ہونگی۔
اور جاہل کیلئے ہمارےہاں تقلید ہے۔
بھائی ہونگی مونگی یا شاید ماید کے لفظوں کو فی الحال ایک سائٹ پہ رکھ دیں یقینی صورت بتائیں ۔آپ کیوں نہیں عمل کرتے ؟
یا ایک مثال پیش فرمادیں کہ بخاری میں یہ حدیث ہے میں اس پر عمل اس وجہ سے نہیں کرتا کیونکہ یہ حدیث فلاں صحیح صریح حدیث کے مخالف ہے؟
مثالیں
۱۔ بخاری میں حدیث ہے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی۔ جلد ١ صفحہ ٣٥،٣٦ پر
میں اس پر عمل نہیں کرتا کیونکہ سنت کے خلاف ہے۔
٢۔ جلد ۱ صفحہ ۷۴ پر بچی اٹھا کر نماز پڑھنے کی حدیث ہے۔
خلاف سنت متواترہ کی وجہ سے میرا اس پر عمل نہیں۔
۳۔ جلد ۱ صفحہ ٥٦ پر جوتے سمیت نماز کی حدیث ہے۔
مذکورہ بالا وجہ
٤۔ لا صلِوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب۔ بخاری ج ۱ ص ۔۱۰۴
قرآن کی اس آیت کی وجہ سے جبکہ میں مقتدی ہوتا ہوں
وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون ، سورة الأعراف

اصل موضوع سے متعلق سوالات

بہت خوب۔پانی کو خود کہتےبھی ہیں کہ یہ پانی ہے اور پھر دوسروں سے پوچھتے بھی ہیں کہ پانی کیا ہوتا ہے۔جب خود جانتے ہیں کہ کسی مسئلہ کی تحقیق وثبوت پر جو بات پیش کی جاتی ہے چاہےوہ صحیح ہو یا ضعیف اس کو دلیل ہی کا نام دیا جاتا ہے۔تو پھر شروع سے لے کر ابھی تک جس بات کو جانتے تھے اسی کو جاننے کےلیے مزید کیا ڈھونڈنا چاہتے ہو؟ جب آپ اس کو دلیل کا نام دیتے ہو تو ہم بھی دلیل کا نام دیتے ہیں۔
اور
آپ کی طرف سے بار بار یہ سوال کیا جارہا ہے تھا کہ اگر مولوی ضعیف حدیث بیان کرکے عامی کو مطمئن کرا دیتا ہے تو کیا عامی پھر بھی دلیل پر عمل کررہا ہے۔اس کا جواب دیا تھا۔اگر جواب پر تحفظ ہےتو پیش کریں ورنہ لو مو اور شور مور جیسے الفاظ لگا کر اپنی پوسٹ سے اپنی حالت کا اظہار مت کروائیں۔
اس کے جواب میں تلمیذ بھائی جان کے الفاظ کوٹ کرونگا۔
احناف کہتے ہیں کہ عامی بغیر دلیل کے عمل کرے
آپ کہ رہے ہیں عامی دلیل تو مانگے بھلے دلیل کو پہچاننے کی طاقت نہ رکھتا ہو ۔ ایسی دلیل مانگنے کا فائدہ ۔ صرف احناف کی مخالفت میں عامی کے لئیے دلیل مانگنے کی شرط رکھ لی ۔ بھلے وہ اسے نہ پہچان پائے

اپ کی بات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر عالم عامی سے کہ دے کہ حدیث ضعیف ہے تو چوں کہ عامی دلائل سمجھنے سے قاصر ہے اس لئیے عامی عالم کی بات پر عمل کرے اور اس حدیث عمل نہ کرے ۔ تو ایک بات مذید کہی جاسکتی ہے چون کہ عامی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے توکوئی حدیث ملنے پر عالم کے پاس نا جائے ویسے ہی عالم کی بات پر عمل کرلیے ۔ کیوں کہ وہاں جاکر بھی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو جانے کا کیا فائدہ ۔ آخر اس عامی کو عالم کے پاس جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
میں نے بخاری سے حدیث پیش کی اور اس شخص کا طرز عمل پیس کیا جو اسے مانتے ہوئے عالم کا قول چھوڑ کر حدیث پر عمل کرتا ہے ۔ آپ نے اب تک اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا تو کیا آپ اس طرز عمل کے قائل ہیں ؟
بھائی نے یہ حدیث اور ساتھ کچھ باتیں پیش کی تھی
اب اس شخص نے عالم سے سنا تھا کہ غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی منع ہے ۔ لیکن ایک دن اس نے بخاری میں حدیث پڑھی
حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة عن هشام قال سمعت أنس بن مالك رضي الله عنه قال جاءت امرأة من الأنصار إلى النبي صلى الله عليه وسلم فخلا بها فقال والله إنكن لأحب الناس إلي
اب اس نے بخاری میں حدیث آنے پر اور اس کو دلیل مانتے ہوئے آنکھیں بند کرکے اس حدیث کو مان لیا اور عالم کا قول ترک کردیا ۔
اور پھر میں نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا میرے تبصرہ نہ کرنے کی وجہ سے بھائی نے دوبارہ کچھ یوں کہہ دیا
آپ نے اب تک اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا تو کیا آپ اس طرز عمل کے قائل ہیں ؟
میں تو سمجھ رہا تھا کہ بھائی نے شاید انجانے اور لاعلمی میں حدیث کوٹ کرکے غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی کو حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہوگی۔پر دوبارہ اصرار پر لگتا ہے کہ یہ سوچی سمجھی سازش تھی۔چلیں خیر پھر لب کشائی کیے ہی دیتے ہیں۔
یہ حدیث اس بات کی تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی ہے
بَابُ مَا يَجُوزُ أَنْ يَخْلُوَ الرَّجُلُ بِالْمَرْأَةِ عِنْدَ النَّاسِ
5234 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَلاَ بِهَا، فَقَالَ: «وَاللَّهِ إِنَّكُنَّ لَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ»
معزز بھائی سے میری ریکوائسٹ ہے کہ ایک بار اپنی زبان سے باب سمیت ترجمہ پیش فرمادیں۔تاکہ بھائی کے لیے اپنا جوتا اپنا سر والی مثال قابل عمل ہوجائے۔جی ترجمہ ضرور پیش کرنا ورنہ پھر یہ تکلیف ہم ہی کرلیں گےاور مثال میں کچھ ردوبدل کرنا بھی جانتے ہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
پہلی بات میں نے جب آپ سے دلیل کے متعلق کے متعلق پوچھا تو ایک دلیل یہ بتلائی تھی
آپ ضرور ان حدیثوں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا شروع کردیتے جو بخاری ومسلم میں موجود ہیں ۔کیونکہ یہ بات متفق ہے کہ بخاری ومسلم کی تمام احادیث صحیح ہیں۔
کیوں کہ آنکھیں بند کر کے عمل اس وقت ہوتا ہے جب دلیل سامنے ہو
خدا خوفی کریں بھائی اپنی مطلب کی عبارت کوٹ کرکے پیسٹ نہ کیا کریں۔اور پھر مراقبہ کی حالت میں بھی نہ لکھا کریں۔میری مکمل بات کچھ یوں تھی
’’اور میں سمجھتا ہوں کہ اس فرق کا آپ کو بھی معلوم نہیں ہوگا۔اگر معلوم ہوتا تو میرے بھائی آپ ضرور ان حدیثوں پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا شروع کردیتے جو بخاری ومسلم میں موجود ہیں ۔کیونکہ یہ بات متفق ہے کہ بخاری ومسلم کی تمام احادیث صحیح ہیں۔‘‘
میری اس بات کوبطور دلیل آپ اپنے تئیں پیش فرمارہےہیں؟ یا کسی پوسٹ میں ایزاے دلیل اس بات کو میں نے بیان کیا ہے؟ فرق بتاتے ہوئے آپ کو ایک بات کہی گئی اور آپ نے اس کو دلیل سمجھ لیا۔ایک ضمناً کی جانے والی بات کو دلیل بناکر پیش کردینا.........؟؟؟
میں نے بخاری سے حدیث پیش کی اور اس شخص کا طرز عمل پیس کیا جو اسے مانتے ہوئے عالم کا قول چھوڑ کر حدیث پر عمل کرتا ہے ۔ آپ نے اب تک اس پر کوئی تبصرہ نہ کیا تو کیا آپ اس طرز عمل کے قائل ہیں ؟
اس بات کا جواب آپ نے کس پوسٹ میں دیا تھا ۔ صرف پوسٹ نمبر بتادیںکیوں کہ آنکھیں بند کر کے عمل اس وقت ہوتا ہے جب دلیل سامنے ہو
اس کا جواب لینے دینے کےلیے اس پوسٹ کا وزٹ کریں۔معذرت کے ساتھ جان بوجھ کر ہی جواب نہیں دے پارہا تھا وجہ پوسٹ میں بتا دی گئی ہے۔
احناف کہتے ہیں کہ عامی بغیر دلیل کے عمل کرے
آپ کہ رہے ہیں عامی دلیل تو مانگے بھلے دلیل کو پہچاننے کی طاقت نہ رکھتا ہو ۔ ایسی دلیل مانگنے کا فائدہ ۔ صرف احناف کی مخالفت میں عامی کے لئیے دلیل مانگنے کی شرط رکھ لی ۔ بھلے وہ اسے نہ پہچان پائے
گزارشات مؤخر
اپ کی بات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر عالم عامی سے کہ دے کہ حدیث ضعیف ہے تو چوں کہ عامی دلائل سمجھنے سے قاصر ہے اس لئیے عامی عالم کی بات پر عمل کرے اور اس حدیث عمل نہ کرے ۔ تو ایک بات مذید کہی جاسکتی ہے چون کہ عامی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے توکوئی حدیث ملنے پر عالم کے پاس نا جائے ویسے ہی عالم کی بات پر عمل کرلیے ۔ کیوں کہ وہاں جاکر بھی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو جانے کا کیا فائدہ ۔ آخر اس عامی کو عالم کے پاس جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔
واضح جواب دیں ۔ اگر میں نے نتیجہ غلط اخذ کیا ہے تو بتائیں کیا غلطی ہے اور کہاں پر۔
اور اگر جواب دے چکے ہیں تو صرف پوسٹ نمبر لکھ دیں
گزارشات مؤخر
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
احناف کہتے ہیں کہ عامی بغیر دلیل کے عمل کرے
آپ کہ رہے ہیں عامی دلیل تو مانگے بھلے دلیل کو پہچاننے کی طاقت نہ رکھتا ہو ۔ ایسی دلیل مانگنے کا فائدہ ۔ صرف احناف کی مخالفت میں عامی کے لئیے دلیل مانگنے کی شرط رکھ لی ۔ بھلے وہ اسے نہ پہچان پائے
بھائی جان دلیل کے مطابق عمل کرنا ہر عام وخاص پر ضروری ہے۔کیونکہ یہ ایک دینی امر ہے اور دینی امر پر ’’من عمل عملا ليس عليه امرنا فهو رد‘‘ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے۔اور دلیل کو نہ پہنچاننا ہر عامی کے ساتھ خاص نہیں ہے۔مثال کے طور پر عامی مولانا صاحب کے پاس جاکر یہ سوال پوچھتا ہے کہ نماز تراویح آٹھ رکعات سنت ہیں یا بیس رکعات۔؟
تو مولانا صاحب جواب دیتے ہیں کہ آٹھ رکعات اور رہی بیس رکعات والی احادیث تو وہ ان احادیث صحیح کے درجہ تک نہیں پہنچتی۔ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیس رکعات کی ہےاس میں ابراہیم بن عثمان راوی ضعیف ہے اور وہ روایت بخاری کی روایت کے بھی خلاف ہے۔تو اب مجھے بتاؤ کہ یہاں عامی کو کون سی بات سمجھ نہیں آئے گی ؟ دوبارہ ہم اپنی بات بیان کردیتے ہیں کہ
عام آدمی ہو(ان پڑھ،گوار) یا خاص آدمی (صاحب علم) سبھی "دلیل پر عمل کریں گے" !
اپ کی بات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر عالم عامی سے کہ دے کہ حدیث ضعیف ہے تو چوں کہ عامی دلائل سمجھنے سے قاصر ہے اس لئیے عامی عالم کی بات پر عمل کرے اور اس حدیث عمل نہ کرے ۔ تو ایک بات مذید کہی جاسکتی ہے چون کہ عامی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے توکوئی حدیث ملنے پر عالم کے پاس نا جائے ویسے ہی عالم کی بات پر عمل کرلیے ۔ کیوں کہ وہاں جاکر بھی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو جانے کا کیا فائدہ ۔ آخر اس عامی کو عالم کے پاس جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔
واضح جواب دیں ۔ اگر میں نے نتیجہ غلط اخذ کیا ہے تو بتائیں کیا غلطی ہے اور کہاں پر۔
اور اگر جواب دے چکے ہیں تو صرف پوسٹ نمبر لکھ دیں
پہلی تو بات یہ ہے کہ آپ اس بات کا ثبوت لائیں کہ ہر عامی دلائل سمجھنے سے قاصر ہی ہوتا ہے۔؟ اور کوئی مثال بھی پیش فرمادیں۔تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوجائے کہ اس مثال میں عامی دلیل سمجھنے سے قاصر ہی ہے۔
دوسری بات عالم عامی کو حدیث بیان کرتا ہے چاہے وہ صحیح ہے یا ضعیف لیکن عامی کی نظر میں وہ دلیل ہی ہے جس کی تفصیل کےلیے ماقبل پوسٹ ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
تیسری بات جو آپ نے مزید کہہ کر بیان کی ہے کہ عالم کے پاس جائے ہی ناں بلکہ ویسے ہی عالم کی بات پر عمل کرلے۔جس کو آپ نے کچھ یوں لکھا ہے
تو ایک بات مذید کہی جاسکتی ہے چون کہ عامی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے توکوئی حدیث ملنے پر عالم کے پاس نا جائے ویسے ہی عالم کی بات پر عمل کرلیے ۔ کیوں کہ وہاں جاکر بھی دلیل سمجھنے سے قاصر ہے تو جانے کا کیا فائدہ
بھائی میرے ایک بار لکھ کر پھر دوبارہ پڑھ بھی لیا کرو کہ لکھا کیا ہے۔بہت بڑھیا لطیفہ بیان کیا ہے۔ارے بھائی جب تک عالم کے پاس جائے گا ہی نہیں تو اس کو کیسے معلوم ہوگا کہ عالم نے کیا کہا ہے؟ عالم کے پاس جائے گا عالم کے سامنے مسئلہ رکھے گا تب ہی جاکر عالم کچھ کہے گا ناں ۔عالم کے پاس تو جانا ہی جانا ہے۔آگے رہا عالم کا مسئلہ وہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا ہے۔وہ عالم کی مرضی۔آپ کا یہ لطیفہ کے عالم کے پاس جائے نا جائے ویسے ہی عالم کی بات پر عمل کرلے۔مجھے بتاؤ عالم کے پاس جائے بغیر کیسے حل ہوگا ؟ کیا یہاں اس پر کوئی کشف مشف کا دروازہ تو نہیں کھل جائے گا۔؟
پھر آپ نے لکھتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ آپ کے یہ الفاظ قرآنی نص کے خلاف ہیں آپ نے کہا ’’عالم کے پاس نا جائے‘‘ اللہ تعالی کہہ رہے ہیں کہ ’’ اگر تم نہیں جانتے تو اہل الذکر سے پوچھ لو‘‘ اور تم کہہ رہے ہو کہ عامی کو تو جانا ہی نہیں چاہیے کیونکہ وہ دلائل کو تو سمجھ ہی نہیں سکتا؟ فیا للعجب۔وا رے تقلید تیڑا بیڑا غرق
بھائی جان
ہم کہتے ہیں کہ کوئی بھی عامی دلیل سمجھنے سے قاصر نہیں ہوتا ! ہاں عامی کے لیے دلیل کے مراجع عالم کے دلیل کے مراجع سے جدا ہوتے ہیں ! اور عامی عالم کے پاس اس لیے جائے کہ یہ اس کے لیے دلیل کا مرجع ہے !
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
پوسٹ نمبر31
بھائی جان دران بحث کی جانے والی باتوں پر اٹھنے والے سوالات کا جواب طلب کرنا یہ بحث کو نکھارنے کے ساتھ موضوع کو مستحکم بھی کرتا ہے۔تاکہ بیچ میں جتنے بھی اشکالات پیدا ہورہے ہوں سب کو دور کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچا جا سکے۔اس لیے جہاں اشکال ہوتا ہے یا عبارت واضح نہیں ہوتی وہاں پر سوال کرڈالتا ہوں۔باقی آپ کی مرضی آپ ان سوالات کا جواب دیا کریں یا ناں۔لیکن پڑھنے والے کو ضرور احساس ہوجائے گا۔ان شاءاللہ
ہمارے نزدیک عمومی نسبت ہی کافی ہے۔ آپ نام دینا چاہیں تو آزاد ہیں۔ :)
آپ کے اس مایوس کن جواب سے اب میں تو اس کو نام دوں گا۔مقلدغیر مقلد۔غیر مقلد مقلد۔رلا ملا حنفی۔ملا جلا حنفی وغیرہ وغیرہ اور ہاں اب اگر آپ کی اس پوسٹ سے کسی بھی موقع کچھ پیش کیا جائے تو برا نہ منائیے گا۔
شارح کی بات جب شرع کی شرح ہے تو معتبر ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن (شارع) کی شرح فرمائی ہے۔ اس لئے آپکی بات معتبر ہے۔
آپ کے اس جواب سے تو واضح سے بھی واضح ہورہا ہے کہ اتباع کرنی چاہیے۔اور تقلید کا نام تک ہی نہیں لینا چاہیے۔کیونکہ آپ نے خود ہی کہہ دیا کہ ’’اس لئے آپ کی(ﷺ) بات معتبر ہے‘‘ تو جس کی بات معتبر ہو اسی کی اتباع کی جاتی ہے۔نہ کی تقلید کو اتباع کا اور کسی اور کو امام اعظم کا نام دے کر اس کے پیچھے چلا جائے ؟
اسکا جوان انس بھائی کو اس طرح دیا۔ آپ بھی دیکھ لیں۔
جی بالکل جواب کا جواب بھی آپ اس پوسٹ سے ملاحظہ فرمالیں۔اور آئندہ ہمیشہ اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ اہل حدیث کے کیا اصول ہیں۔؟
میرے خیال میں بخاری ومسلم کی احادیث کے حوالے سے کچھ اس نام سے الگ ہی تھریڈ قائم کرلیتے ہیں۔’’بخاری ومسلم کی احادیث مقلدین کی نظر میں‘‘ اور پھر اسی پر ہی بحث کرلیتے ہیں۔
صحیح صریح کی شرط پر آپکے اعمال بھی ہیں یا صرف خلاف پیش کرنے کیلئے یہ شرائط ہیں؟ :)
شاید آپ کو میرے الفاظ پر ہی تحفظات ہوناشرو ع ہوگئے میں دوبارہ پیش کردیتا ہوں۔کچھ الفاظ میں تبدیلی کے ساتھ
’’اور ہاں آپ ہمارا کوئی ایک عمل جس کو شریعت سمجھ کر ہم کرتے ہیں۔صحیح حدیث کےخلاف پیش کردیں کہ آپ کا یہ عمل اس صحیح حدیث کےخلاف ہے۔اور اصل مسئلہ اس حدیث سے ثابت ہے۔اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے آپ کے پیش کردہ حدیث میرے جاری کردہ عمل کے خلاف ہوئی تو واضح اعلان برات کردونگا۔جی جلدی سے ذرا پیش فرمائیں۔میں انتظار کرونگا۔ ‘‘
لیکن اب ایک بات کا خاص خیال رکھنا کہ اس حدیث سے اوثق حدیث اس کے مخالف نہ ہو۔یعنی حدیثیں تو دونوں صحیح ہوں لیکن ایک صحیح اور دوسری اصح۔ہمارا عمل اصح پر ہی ہوگا۔چلیں آپ اب ثابت کریں کوئی ایک مسئلہ۔کہ بھائی گڈ مسلم آپ یوں عمل کرتےہیں جب کہ اس حدیث سے بھی اصح حدیث میں یوں ہے۔چلیں شاباش
ہمارے ہاں دلائل معلوم ہیں۔ وہ ۴ ہیں جو آپکو بھی معلوم ہونگی۔
سوال آپ سمجھ ہی نہیں پائے پہلے سوال تھا کہ آپ پیش کی جانے والی بات کو کیا نام دوگے۔آپ نے کہا دلیل ۔پھر اس دلیل پر سوال کیا کہ یہ دلیل ضعیف بھی ہوسکتی ہے صحیح بھی اگر ضعیف ہو تب اس کوکیا نام دو گے؟ اور یہ سوال تو موضوع سے متعلقہ ہی تھا آپ نے ضمناً کہا چلو خیر ۔ہم یہ ناانصافی ہی برداشت کرلیتے ہیں۔
اور جاہل کیلئے ہمارےہاں تقلید ہے۔
اس کی دلیل پیش فرمادیں۔مجھے بھی معلوم ہے کہ آپ جو دلیل پیش فرمائیں گے ۔پر آپ سے بولوانا چاہتا ہوں۔تاکہ بعد میں بات ہوسکے۔
۱۔ بخاری میں حدیث ہے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی۔ جلد ١ صفحہ ٣٥،٣٦ پر
میں اس پر عمل نہیں کرتا کیونکہ سنت کے خلاف ہے۔
٢۔ جلد ۱ صفحہ ۷۴ پر بچی اٹھا کر نماز پڑھنے کی حدیث ہے۔
خلاف سنت متواترہ کی وجہ سے میرا اس پر عمل نہیں۔
۳۔ جلد ۱ صفحہ ٥٦ پر جوتے سمیت نماز کی حدیث ہے۔
مذکورہ بالا وجہ
٤۔ لا صلِوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب۔ بخاری ج ۱ ص ۔۱۰۴
قرآن کی اس آیت کی وجہ سے جبکہ میں مقتدی ہوتا ہوں
وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون ، سورة الأعراف
ان سب باتوں کو ہم اس تھریڈ پر گفتگو تک محدود رکھتےہیں ’’بخاری ومسلم کی احادیث مقلدین کی نظر میں‘‘
اس کے جواب میں تلمیذ بھائی جان کے الفاظ کوٹ کرونگا۔
اس کا جواب اس پوسٹ سے ملاحظہ فرمائیں
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
انس بھائی یہ مشہور غیر مقلد اہل حدیث عالم اور محقق جناب حکیم فیض عالم صدیقی صاحب اپنی کتاب صدیقہ کائنات میں لکھتا ہے۔
صفحہ ٨٨ پر لکھتے ہیں
بخاری میں موضوع اور من گھڑت اقوال ہیں

صفحہ ۱۱۳ پر لکھتے ہیں
جو بخاری کی تمام روایات کو صحیح مانتے ہیں ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اسکے علاوہ البانی صاحب بھی بخاری کی صحیح و دیگر اقسام کی چھانٹی کرچکے ہیں۔ حدیث کی حدمت یہ حضرات کر چکے ہیں۔
بھائی! میں نے پوچھا تھا کہ صحیح بخاری میں موضوع روایات کی موجودگی کا موقف آپ کا ذاتی ہے یا حنفی مسلک کی ترجمانی؟
جواب میں آپ نے فیض عالم صدیقی کے اقتباسات پیش کر دئیے۔

فیض عالم صدیقی کے بارے میں اہل الحدیث کی رائے جاننے کیلئے یہ لنک ملاحظہ کریں!!
ویسے بھی شخصیات کی اندھا دھند تقلید خواہ وہ کتاب وسنت کے صریح خلاف ہی ہو مقلدین کا شیوہ ہے، اہل الحدیث کو اس کا پابند کیسے کیا جا سکتا ہے؟؟؟

تو میرا سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ

کیا واقعی ہی صحیح بخاری میں موضوع احادیث بھی ہیں؟؟؟
یہ آپ کا ذاتی موقف ہے یا حنفی مسلک کی ترجمانی؟
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
بھائی! میں نے پوچھا تھا کہ صحیح بخاری میں موضوع روایات کی موجودگی کا موقف آپ کا ذاتی ہے یا حنفی مسلک کی ترجمانی؟
جواب میں آپ نے فیض عالم صدیقی کے اقتباسات پیش کر دئیے۔
میرا موقف

صحیح ترین کتاب صرف اور صرف کتاب اللہ ہے۔ کتاب اللہ غلطی سے پاک ہے۔ کتاب اللہ کے سوا ہر کتاب میں غلطی کی گنجائش ہے۔ لیکن امت کا اجماع بخاری کی تالیف کے کئی سو سال بعد اس کی صحت پر ہوا۔ اس لیے میرے نزدیک بخاری کی کثیر روایات صحیح ہیں اور قلیل روایات حسن و ضعیف وغیرہ ہیں۔
غیر مقلد علماء میں فیض عالم صدیقی کے حوالے دے چکا ہوں۔ اور البانی صاحب بھی صحیح روایات کو دوسری روایات سے الگ کر چکے ہیں۔
شیعہ حضرات بھی بخاری کو صحیح نہیں مانتے۔
اہل قرآن فرقہ بھی اسکا منکر ہے لہذا یہ خیال کہ بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔
اسکی مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں
صحیح بخاری میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی‘ بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے‘ اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے‘ اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵) میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
”قال ابو زرعة منکر الحدیث‘ واورد لہ ابن عدی عدة احادیث‘ قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث‘ لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی ․․․ ثالثہا فی الرقاق ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ وہذا تفرد بہ الطفاوی‘ وہو من غرائب الصحیح‘ وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب“۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے‘ حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲- عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد‘ عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف“
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظ نے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاری سے تضعیف کے جملے نقل کئے‘ عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظ نے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے‘ لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
”وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام‘ فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ“ انتہی۔
ابی بن عباس کے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے‘ اس لئے چل جائے گی۔
۳- محمد بن طلحة‘ عن طلحة‘ عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ‘ فقال النبی ا” تنصرون وترزقون الا بضعفائکم“۔(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعد وغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام‘ وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
”صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں‘ دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے‘ تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے‘ اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں‘ مگر یہ ”فضائل اعمال“ سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔“
 
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
420
پوائنٹ
57
پوسٹ نمبر31
بھائی جان دران بحث کی جانے والی باتوں پر اٹھنے والے سوالات کا جواب طلب کرنا یہ بحث کو نکھارنے کے ساتھ موضوع کو مستحکم بھی کرتا ہے۔تاکہ بیچ میں جتنے بھی اشکالات پیدا ہورہے ہوں سب کو دور کرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچا جا سکے۔اس لیے جہاں اشکال ہوتا ہے یا عبارت واضح نہیں ہوتی وہاں پر سوال کرڈالتا ہوں۔باقی آپ کی مرضی آپ ان سوالات کا جواب دیا کریں یا ناں۔لیکن پڑھنے والے کو ضرور احساس ہوجائے گا۔ان شاءاللہ
اس تھریڈ پر اشکال تلمیذ بھائی نے پیش کیا تھا اور آپ بھائی نے اسکے اشکال کو دور کرنے کی کوشش کی اور اس دوران خود شدید اشکالات کا شکار ہوگئے۔اور اپنے اشکالات کا جواب صاحبان اشکال سے مانگنے لگے۔ خیر موضوع سے متعلق باتوں کو جواب دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
سوال آپ سمجھ ہی نہیں پائے پہلے سوال تھا کہ آپ پیش کی جانے والی بات کو کیا نام دوگے۔آپ نے کہا دلیل ۔پھر اس دلیل پر سوال کیا کہ یہ دلیل ضعیف بھی ہوسکتی ہے صحیح بھی اگر ضعیف ہو تب اس کوکیا نام دو گے؟ اور یہ سوال تو موضوع سے متعلقہ ہی تھا آپ نے ضمناً کہا چلو خیر ۔ہم یہ ناانصافی ہی برداشت کرلیتے ہیں۔
بجا
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
”الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس‘ ولایحل القیاس مع وجودہ“۔ (المحلیٰ لابن حزم ۳/۱۶۱)
یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا۔
لیکن اب ایک بات کا خاص خیال رکھنا کہ اس حدیث سے اوثق حدیث اس کے مخالف نہ ہو۔یعنی حدیثیں تو دونوں صحیح ہوں لیکن ایک صحیح اور دوسری اصح۔ہمارا عمل اصح پر ہی ہوگا۔چلیں آپ اب ثابت کریں کوئی ایک مسئلہ۔کہ بھائی گڈ مسلم آپ یوں عمل کرتےہیں جب کہ اس حدیث سے بھی اصح حدیث میں یوں ہے۔چلیں شاباش
بھائی پہلے آپ نے صریح کی شرط لگائی تھی اور مجھے ہدایت کردی تھی کہ جلدی کروں اور انتظار کا فرما گئے تھے۔ خیر میرے جواب نے آپکو پہلے تو صریح والے شرط سے دستبردار کیا اور دوسری جگہ چند مثالیں دیں جنکو آپ نے کسی اور پوسٹ پر ٹال دیا۔ خیر میں اس بات کو بحث سے خارج سمجھتا تھا۔ لیکن آپکے پر زور اصرار اورچلیں شاباش جیسے الفاظ نے مجبور کیا کہ شائد آپ جس کو دلیل سمجھ رہے اور ہمیں سمجھانا چاہ رہے ہو وہ معمہ یہاں حل ہو جائے۔
آپ نے معیار مقرر کیا کہ صحیح کے مقابل اصح قابل ترجیح ہے علیٰ ھذالقیاس ضعیف سے حسن، حسن سے صحیح
میں کہتا ہوں آپکا یہ معیار ہی غلظ ہے
صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ٣٥ اور ٣٦
صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ٣٣٦
صحیح مسلم جلد ١ صفحہ ١٣٣
یعنی متفق علیہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
اسکے مقابل ترمذی کی ضیعف حدیث( جس میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کا ذکر ہے ترمذی جلد ۱ صفحہ ۴ اور جلد ۳ صفحہ ۹)
پر آپ کیا آپ کے تمام شیخ الحدیث بھی عمل کرتے ہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ!
میرا موقف

صحیح ترین کتاب صرف اور صرف کتاب اللہ ہے۔ کتاب اللہ غلطی سے پاک ہے۔ کتاب اللہ کے سوا ہر کتاب میں غلطی کی گنجائش ہے۔ لیکن امت کا اجماع بخاری کی تالیف کے کئی سو سال بعد اس کی صحت پر ہوا۔ اس لیے میرے نزدیک بخاری کی کثیر روایات صحیح ہیں اور قلیل روایات حسن و ضعیف وغیرہ ہیں۔
غیر مقلد علماء میں فیض عالم صدیقی کے حوالے دے چکا ہوں۔ اور البانی صاحب بھی صحیح روایات کو دوسری روایات سے الگ کر چکے ہیں۔
شیعہ حضرات بھی بخاری کو صحیح نہیں مانتے۔
اہل قرآن فرقہ بھی اسکا منکر ہے لہذا یہ خیال کہ بخاری کی تمام احادیث صحیح ہیں ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔
اسکی مثالیں ملاحظہ کرتے ہیں
صحیح بخاری میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے، جس کی حدیثیں ،محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی‘ بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے‘ اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہے‘ اور شارحین نے یہی تاویل کی بھی ہے۔ ملاحظہ ہوں چند مثالیں:۱- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مقدمہ فتح الباری (ص:۶۱۵) میں محمد بن عبد الرحمن الطُفاوی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:
”قال ابو زرعة منکر الحدیث‘ واورد لہ ابن عدی عدة احادیث‘ قلت: لہ فی البخاری ثلاثة احادیث‘ لیس فیہا شئ مما استکرہ ابن عدی ․․․ ثالثہا فی الرقاق ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ وہذا تفرد بہ الطفاوی‘ وہو من غرائب الصحیح‘ وکان البخاری لم یشدد فیہ، لکونہ من احادیث الترغیب والترہیب“۔
یہ حدیث صحیح بخاری کی غریب حدیثوں میں سے ہے۔
یعنی ”کن فی الدنیا کأنک غریب“ (بخاری کتاب الرقاق) حدیث کی روایت میں محمد بن عبد الرحمن الطفاوی منفرد ہے‘ حافظ فرماتے ہیں: شاید کہ امام بخاری نے اس کے ساتھ تساہل کا معاملہ صرف اس وجہ سے کیا ہے کہ یہ ترغیب وترہیب کی حدیثوں میں سے ہے۔
۲- عن ابی بن عباس بن سہل بن سعد‘ عن ابیہ عن جدہ قال: کان للنبی ا فی حائطنا فرس یقال لہ اللحیف“
(کتاب الجہاد باب اسم الفرس والحمار)
حافظ نے تہذیب التہذیب میں ابی بن عباس بن سہل کی بابت امام احمد، نسائی، ابن معیناور امام بخاری سے تضعیف کے جملے نقل کئے‘ عقیلی نے کہا :اس کی کئی حدیثیں ہیں اور کسی پر اس کی متابعت نہیں کی گئی ہے۔ پھر حافظ نے فرمایا کہ :مذکورہ حدیث پر اس کے بھائی عبد المہیمن بن عباس نے متابعت کی ہے‘ لیکن وہ بھی ضعیف ہے، ملاحظہ ہوں یہ الفاظ:
”وعبد المہیمن ایضاً فیہ ضعف‘ فاعتضد‘ وانضاف الی ذلک انہ لیس من احادیث الاحکام‘ فلہذہ الصورة المجموعة حکم البخاری بصحتہ“ انتہی۔
ابی بن عباس کے ضعف کی تلافی اس کے بھائی سے اس قدر نہیں ہوسکی کہ حدیث کو صحیح کا درجہ دیا جائے تو اس خلل کو اس پہلو سے پر کیا گیا کہ حدیث احکام سے متعلق نہیں ہے‘ اس لئے چل جائے گی۔
۳- محمد بن طلحة‘ عن طلحة‘ عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلاً علی من دونہ‘ فقال النبی ا” تنصرون وترزقون الا بضعفائکم“۔(کتاب الجہاد وباب من استعان بالضعفاء والصالحین فی الحرب)
محمد بن طلحة بن مصرف الکوفی ان کا سماع اپنے والد سے کم سنی میں ہوا تھا، امام نسائی، ابن معین، ابن سعد وغیرہ نے ان کو ضعیف کہاہے ،تقریب میں ہے: صدوق لہ اوہام‘ وانکروا سماعہ من ابیہ لصغرہ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مقدمہ (ص:۶۱۳) میں فرماتے ہیں۔
”صحیح بخاری میں ان کی تین حدیثیں ہیں‘ دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہے‘ تیسری (مذکورہ بالا حدیث) ہے‘ اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں‘ مگر یہ ”فضائل اعمال“ سے متعلق ہے یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔“
مبارک ہو ! مبارک ہو ! ارے حنفیوں تمہیں مبارک ہو!!
حنفیوں میں ایک مجتہد پیدا ہو چکے ہیں، جو قبل گذرے احناف کے موقف سے جدا اپنا ایک نرالہ موقف رکھتے ہیں!!
یہ الگ بات ہے کہ یہ دور حاضر کے یہ حنفی مجتہد:
اجماع امت کے منکر ہیں!!!
فیض عالم ناصبی کے پیروکار ہیں!!
شعیہ کے پیروکار ہیں!!
منکرین حدیث کے پیروکار ہیں!!

جناب منکر حدیث، ناصبی ، رافضی، مجتہد حنفیہ صاحب!! اس کتاب کا نام تو بتلائیے گا جس کا آپ نے دعوی کر دیا ہے!!! کہ الجامع الصحیح البخاری کی مسنداحادیث کو،
البانی صاحب بھی صحیح روایات کو دوسری روایات سے الگ کر چکے ہیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
Top