گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
پوسٹ نمبر38
آپ نے جو بخاری سے حدیث پیش کی وہ کچھ یوں ہے
’’ حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ «أَتَى النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَجِئْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ»‘‘
آپ مجھے بس اس سوال کا جواب عنایت فرمادیں تونوازش ہوگی
1۔کیا نبی کریمﷺ کایہ عمل پوری زندگی کےلیے ہے ؟ نعوذباللہ نبی کریمﷺ پوری زندگی کھڑے ہوکر پیشاب کرتے رہے؟
2۔آپ نے فبال قائما کو تو پکڑ لیا لیکن موجود وجہ کو صرف نظرکردیا۔کیوں ؟
3۔آپ کا کہنا کہ آپ اور آپ کے تمام شیوخ الحدیث ضعیف پر عمل کرتے ہیں تو کیا آپ بخاری کی اس حدیث کو نہیں مانتے ؟
4۔میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی ایسا مسئلہ ہوجائے کہ آپ بیٹھ کر پیشاب نہ کرسکتے ہوں تو آپ پھر کیسے کریں گے ؟ کیا لیٹ کر؟
بھائی جان بات بدلنے کی کوشش میں کیوں لگے ہوئے ہیں اور سوال سے جان چھڑانے سے کیا فائدہ؟ تسلی سے سوال پڑھا کریں اور پھر اس کا جواب دیا کریں۔سوال تھا کہ مخالف کو جو چیز پیش کرو گے ا س کو کس نام سے پکاروگے آپ نے کہا ’’دلیل‘‘ پھر سوال ہوا کہ دلیل دو حال سے خالی نہیں ہوتی صحیح ہوگی یا ضعیف آپ نے کچھ یوں جواب دیا تھا ’’ ہمارے ہاں دلائل معلوم ہیں۔ وہ ۴ ہیں جو آپکو بھی معلوم ہونگی۔‘‘ پھر آپ کی کھینچا تانی کی گئی تو آپ نے ابوحنیفہ کا قول پیش کردیا۔(قول کی حیثیت کیا ہے اس کو نہیں چھیڑتے) آپ مجھے سوال کا ہی جواب دیں۔کہ اگر وہ جس کو آپ دلیل کا نام دےرہو ضعیف ہو تو پھر وہ کس نام کی مستحق ہوگی؟امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:
”الخبر الضعیف عن رسول اللہ ا اولیٰ من القیاس‘ ولایحل القیاس مع وجودہ“۔ (المحلیٰ لابن حزم ۳/۱۶۱)
یعنی باب میں اگر ضعیف حدیث بھی موجود ہو تو قیاس نہ کرکے اس سے استدلال کیا جائے گا۔
وہ کیسے بھائی جان۔اس بات سے تو کسی عامی وخاصی وغیرہ کو بھی تذبذب نہیں ہوگا ۔اور پھر ہے بھی یہ دین کامسئلہ۔تو دین کے مسئلے میں اس طرح کا معیار قائم کرنا کیسے غلط ہوگا؟آپ نے معیار مقرر کیا کہ صحیح کے مقابل اصح قابل ترجیح ہے علیٰ ھذالقیاس ضعیف سے حسن، حسن سے صحیح میں کہتا ہوں آپکا یہ معیار ہی غلظ ہے
آپ کے ان الفاظ پر دل تو کررہا ہے کہ فیاللعجب پر ہی اکتفاء کردوں۔لیکن چلو کچھ عرض کرہی دیتا ہوںصحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ٣٥ اور ٣٦
صحیح بخاری جلد ۱ صفحہ ٣٣٦
صحیح مسلم جلد ١ صفحہ ١٣٣
یعنی متفق علیہ حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
اسکے مقابل ترمذی کی ضیعف حدیث( جس میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کا ذکر ہے ترمذی جلد ۱ صفحہ ۴ اور جلد ۳ صفحہ ۹)
پر آپ کیا آپ کے تمام شیخ الحدیث بھی عمل کرتے ہیں۔
آپ نے جو بخاری سے حدیث پیش کی وہ کچھ یوں ہے
’’ حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ «أَتَى النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ فَجِئْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ»‘‘
آپ مجھے بس اس سوال کا جواب عنایت فرمادیں تونوازش ہوگی
1۔کیا نبی کریمﷺ کایہ عمل پوری زندگی کےلیے ہے ؟ نعوذباللہ نبی کریمﷺ پوری زندگی کھڑے ہوکر پیشاب کرتے رہے؟
2۔آپ نے فبال قائما کو تو پکڑ لیا لیکن موجود وجہ کو صرف نظرکردیا۔کیوں ؟
3۔آپ کا کہنا کہ آپ اور آپ کے تمام شیوخ الحدیث ضعیف پر عمل کرتے ہیں تو کیا آپ بخاری کی اس حدیث کو نہیں مانتے ؟
4۔میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی ایسا مسئلہ ہوجائے کہ آپ بیٹھ کر پیشاب نہ کرسکتے ہوں تو آپ پھر کیسے کریں گے ؟ کیا لیٹ کر؟
نوٹ
بخاری ومسلم کے حدیث پر عمل کے حوالےسے اگر بات کرنی ہوتو بخاری ومسلم کی احادیث اور مقلدین ابی حنیفہ پر کریں۔والسلام