• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندیوں اور بریلویوں کا عقائد میں اختلاف مسلک اہل حدیث کے افراد کو کیوں نظر نہیں آتا

شمولیت
نومبر 21، 2013
پیغامات
105
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
56
آپ
محترم بہتر ہے کہ احسن انداز میں گفتگو کیجئے اور یا پھر خاموش رہئے۔ یہ انداز نفرت کو فروغ دینے والا ہے، اصلاح یا تبلیغ کرنے والوں کا یہ انداز نہیں ہوتا اور خصوصاً جب کہ وہ نبوی منہج کے دعوے دار بھی ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
آپ نے شائد شادی کی پہلی دس راتیں نہیں پڑھی اگر نہیں پڑھی تو ابھی کلک کریں
شائد پھر آپ کو اس تلخی کی وجہ سمجھ آ جائے۔کوئی انکو بھی ادب سمجھائے گا کہ یہ آپ کا عالمانہ پن ہمارے لئے ہی ہے؟
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
شائد پھر آپ کو اس تلخی کی وجہ سمجھ آ جائے۔کوئی انکو بھی ادب سمجھائے گا کہ یہ آپ کا عالمانہ پن ہمارے لئے ہی ہے؟

بھائی نوائے دل آپ اپنے لہجے کی تلخی پر حق بجانب ہیں لیکن میرا خیال ہے شاکر بھائی نے بہت ہی مناسب بات کی ہے۔

Self Reminder: گو ہمارے لہجے میں بھی تلخی آجاتی ہے لیکن جہاں تک ادب کی بات ہے تو میرا خیال ہے کہ جو شخص محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہونا چاہتا ہے یہ اس کے لیے زیادہ ضروری ہے۔ جزاک اللہ خیر
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آپ

آپ نے شائد شادی کی پہلی دس راتیں نہیں پڑھی اگر نہیں پڑھی تو ابھی کلک کریں
شائد پھر آپ کو اس تلخی کی وجہ سمجھ آ جائے۔کوئی انکو بھی ادب سمجھائے گا کہ یہ آپ کا عالمانہ پن ہمارے لئے ہی ہے؟
جی میں نے یہ کتاب پڑھ رکھی ہے۔
لیکن ہمارے دین نے ہمیں گالی کا جواب گالی سے دینا نہیں سکھایا۔
بہرحال، یہ علیحدہ بحث شروع ہو جائے گی۔ بہتر ہے کہ موضوع پر ہی بات کی جائے۔
تلمیذ بھائی شاید کہیں مصروف ہو گئے ہیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم
عبدہ بھائی (ایک تو مجھے ٹیگ کرنا نہیں آتا (ابتسامہ))

میں نے اس پورے دھاگے کو دیکھا ہے کہیں سرسری اور کہیں غور سے۔ اس میں کئی معاملات پر ایک ہی وقت میں بحث ہو گئی ہے۔
امداد اللہ مہاجر مکی رح والے واقعے کو چھیڑتا ہوں۔

اس میں آپ کا موقف یہ معلوم ہوا کہ اس بات کا رد کرنا چاہیے اس طرح کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔
تلمیذ بھائی کا موقف یہ معلوم ہوا کہ چوں کہ اس کا صدور ایک متبع سنت و شریعت شخص سے ہوا ہے جس کی باقی زندگی درست ہے تو اس ایک بات کی تاویل کرنی چاہیے یعنی کسی بھی درست محمل پر محمول کرنا چاہیے۔

اصولا آپ کی بات بھی درست ہے اور ان کی بھی۔ دونوں طریقے اسلاف و علماء سے منقول ہیں۔ اس لیے دونوں کو اپنے موقف کے مطابق کہنا چاہیے۔ نہ حضرت امداد اللہ کی تقصیر آپ کی بات میں ہے نہ ان کی۔
ابن تیمیہ اور امام اعظم رحمہما اللہ کے بارے میں دونوں طرح کے موقف ہمیں نظر آتے ہیں۔

میں ایک تیسری رائے رکھتا ہوں جس میں دونوں آراء ترتیب وار آ جاتی ہیں۔
جب اس کا صدور متبع سنت و شریعت شخص سے مروی ہے تو:
اول تو ہم اس قصے کو مکمل درست قرار نہیں دے سکتے۔ ممکن ہے کسی نے غلط بیانی کی ہو۔ دو راوی مجہول ہیں اور خادم کی بات کی پوری سند محذوف۔ اور اگر سب ثقہ ہوں تب بھی ممکن ہے سننے میں یا سمجھنے میں کسی کو غلطی ہوئی ہو۔
ثانی اگر یہ قصہ درست بھی ہے تب بھی صاحب قصہ کی غیر موجودگی میں ان پر حکم نہیں لگا سکتے کیوں کہ اس قصہ میں تاویل ممکن ہے۔
ثالث اگر تاویل کا امکان بھی نہ ہو اور قصہ بھی ایسے ہی ثابت ہو جائے تو ہم اسے ان کے مرید کی غلطی قرار دیں گے۔ امداد رح نے اس غلطی پر اسے تنبیہ فرمائی یا نہیں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح (غالبا) تفسیر طبری میں صحیح سند سے ابن عباس رض کا صریح قول نقل ہے کہ آیت استمتاع متعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ میں اس پر بہت چکرایا تھا اور آخر اس اصول پر مطلع ہوا کہ صحیح و ثقہ راوی سے بھی غلطی اور بھول ممکن ہے۔ ہمیں اس کی روایت کو دیگر دلائل کی روشنی میں دیکھنا ہوگا۔
یہاں بھی ہمیں ان کی زندگی کے باقی پہلؤوں کو دیکھنا ہوگا۔
میں اگر غلطی پر ہوں تو اہل علم حضرات میری اصلاح فرما دیں۔

آپ نے شائد شادی کی پہلی دس راتیں نہیں پڑھی اگر نہیں پڑھی تو ابھی کلک کریں
اس بات سے قطع نظر کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے یہ کتاب واقعی بہت غلط طریقے سے لکھی گئی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ دین کو ہم نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے کہ میری بات، میرا مسلک اور میرا عالم نیچا نہ ہو۔ حالاں کہ یہ فقہی اختلاف ہے۔ اور یہ طبعاً نا ممکن ہے کہ فقہی اختلاف نہ ہو۔ دونوں جانب کے علماء میں سے کثیر کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔

شاکر بھائی آپ علمائے احناف اور ان کے مسلک سے کافی نالاں لگتے ہیں۔ خیریت؟
ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو ہمیشہ ملے ہی ایسے لوگ ہوں جو تعصب میں آگے ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
اشماریہ بھائی @ لکھ کر بغیر کسی فاصلے کے اس رکن کا نام لکھیں جس کو اشارہ ( ٹیگ ) کرنا چاہتے ہیں ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
السلام علیکم
عبدہ بھائی (ایک تو مجھے ٹیگ کرنا نہیں آتا (ابتسامہ))

میں نے اس پورے دھاگے کو دیکھا ہے کہیں سرسری اور کہیں غور سے۔ اس میں کئی معاملات پر ایک ہی وقت میں بحث ہو گئی ہے۔
امداد اللہ مہاجر مکی رح والے واقعے کو چھیڑتا ہوں۔

اس میں آپ کا موقف یہ معلوم ہوا کہ اس بات کا رد کرنا چاہیے اس طرح کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔
تلمیذ بھائی کا موقف یہ معلوم ہوا کہ چوں کہ اس کا صدور ایک متبع سنت و شریعت شخص سے ہوا ہے جس کی باقی زندگی درست ہے تو اس ایک بات کی تاویل کرنی چاہیے یعنی کسی بھی درست محمل پر محمول کرنا چاہیے۔

اصولا آپ کی بات بھی درست ہے اور ان کی بھی۔ دونوں طریقے اسلاف و علماء سے منقول ہیں۔ اس لیے دونوں کو اپنے موقف کے مطابق کہنا چاہیے۔ نہ حضرت امداد اللہ کی تقصیر آپ کی بات میں ہے نہ ان کی۔
محترم اشماریہ بھائی میں نے آپ کے امتحانات کی وجہ سے چھوڑا ہوا تھا آج اچانک تازہ پوسٹوں میں اسکو دیکھا

آپ نے لکھا کہ
1-عبدہ کا موقف ایسے واقعے کا فوری رد اور اصلاح
2-تلمیذ بھائی کا موقف اسکی تاویل کرنی چاہئے یعنی درست معنی پر محمول کرنا

آپ سے سوال



اوپر آپ نے ہم دونوں کے موقف ٹھیک لکھیں ہیں مگر آپ سے التجا ہے کہ کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط کا لحاظ رکھتے ہوئے اوپر والی پوسٹوں کو تفصیل سے پڑھیں اور بتائیں کہ اپنی جماعت کے لئے اپنے موقف کو کس نے چھوڑا ہے
میں نے جب رد لکھا ہے تو اپنے اہل حدیثوں کی ایسی غلط کرامات کو بھی رد لکھا ہے
اور تلمیذ بھائی نے امداد اللہ مکی کے واقعے پر تاویل کی ہے اور سو فیصد اسی جیسے واقعے میں کسی اور نے جب اس طرح جب پکارا ہے جس کا متبع سنت نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور تلمیذ بھائی کل مولود یولد علی الفطرۃ کے ہوتے ہوئے اسکو شرک سے بچنے کی تلقین کر رہے ہیں اسکی وضاحت آپ پوسٹ نمبر 63 میں دیکھ سکتے ہیں جسکو آپ نے پسند کیا ہے مگر شاہد پورا پڑھا نہیں مختصرا یہاں لگا رہا ہوں

اب اگر آپ کہیں کہ امداد اللہ کا مرید تو متبع سنت تھا اس لئے آپ اس کو دعوت نہیں دے سکتے مگر یہ ڈوبنے والا بریلوی متبع سنت نہیں تھا اسلئے اسکو میں شرک سے بچاؤں گا تو محترم بھائی میرے خیال میں اس کو سمجھانے سے آپ کی جماعت پر حرف نہیں آتا تھا مگر اس دیوبندی کو سمجھانے میں آپ کی جماعت پر حرف آتا ہے پس محترم بھائی آپ اس امداد اللہ مکی کے پیر کو نہ سمجھائیں مگر ہمیں تو سمجھانے دیں اس سے ہماری جماعت پر تو کوئی حرف نہیں آئے گا
ویسے آپ کو بتا دوں کہ ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو بھی سمجھاتے ہیں اور اس سے جماعت کی بے عزتی محسوس نہیں کرتے بلکہ الحمد للہ عزت ہوتی ہے
البتہ محترم بھائی آپ اللہ کو گواہ بنا کر اپنے دو نمبر پوائنٹ پر غور کریں کہ اسکو آپ نے میری اوپر کی مثال میں ایسی تاویل قبول نہیں کی جو بالکل آگبوٹ واقعے کی طرح تھی- بلکہ ڈونبے والے کو شرک سے بچنے کی تلقین کی اب آپ بتائیں کہ اپنے امداد اللہ مکی کے مرید کو بھی کبھی آپ نے اپنی کسی کتاب میں اس واقعہ کا حوالہ دے کر کی جیسا کہ آپ نے 3 نمبر پوائنٹ میں لکھا ہے کہ انکو روکا جائے گا
محترم بھائی آپ کے ماہانہ تجلی کے مدیر کے علاوہ سیکڑوں حیاتیوں نے بھی غلطی کہا ہے تو بھائی ہم امداد اللہ کی بات نہیں کر رہے ہم تو انکے مرید کی غلطی کی بات کر رہے ہیں جو جان بوجھ کے نہیں تھی میں تو آپ کو بھی نہیں کہ رہا کہ جان بوجھ کہ آپکی باتوں میں تضاد ہے بلکہ آپ تو واقعی اپنے بزرگوں سے محبت ہے مگر لا شعوری طور پر اس محبت کی حد بھی ہے اللہ مجھے اور آپ کو بخش دے امین

میں ایک تیسری رائے رکھتا ہوں جس میں دونوں آراء ترتیب وار آ جاتی ہیں۔
جب اس کا صدور متبع سنت و شریعت شخص سے مروی ہے تو:
یہاں بھی ہمیں ان کی زندگی کے باقی پہلؤوں کو دیکھنا ہوگا۔
میں اگر غلطی پر ہوں تو اہل علم حضرات میری اصلاح فرما دیں۔
محترم بھائی آپ کی تیسری رائے مجھے سمجھ نہیں آئی اس رائے کو ذرا اوپر میرے فرضی ڈوبنے والے واقعے پر فٹ کر کے سمجھا دیں جس کے متبع سنت نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملی اور دوسرے پہلو بھی ہمیں نہیں پتا تاکہ مثال پر اطلاق کرنے سے جو سمجھ آتی ہے وہ زیادہ آسان ہو تی ہے

اس بات سے قطع نظر کہ اس کتاب کا موضوع کیا ہے یہ کتاب واقعی بہت غلط طریقے سے لکھی گئی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت عطا فرمائیں۔ دین کو ہم نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے کہ میری بات، میرا مسلک اور میرا عالم نیچا نہ ہو۔ حالاں کہ یہ فقہی اختلاف ہے۔ اور یہ طبعاً نا ممکن ہے کہ فقہی اختلاف نہ ہو۔ دونوں جانب کے علماء میں سے کثیر کے ساتھ یہ مسئلہ ہے۔
شاکر بھائی آپ علمائے احناف اور ان کے مسلک سے کافی نالاں لگتے ہیں۔ خیریت؟
ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ کو ہمیشہ ملے ہی ایسے لوگ ہوں جو تعصب میں آگے ہوں۔
محترم بھائی اس میں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں
ویسے اس کے لئے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سائنس میں اصول ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے جو اس سے سمت میں مخالف ہوتا ہے اور وہ ردعمل سائینس میں تو اس کے برابر ہوتا ہے مگر دین میں مجھے اس عمل سے بھی زیادہ لگتا ہے
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ بھائی میں نے آپ کے امتحانات کی وجہ سے چھوڑا ہوا تھا آج اچانک تازہ پوسٹوں میں اسکو دیکھا
آپ نے لکھا کہ
1-عبدہ کا موقف ایسے واقعے کا فوری رد اور اصلاح
2-تلمیذ بھائی کا موقف اسکی تاویل کرنی چاہئے یعنی درست معنی پر محمول کرنا

آپ سے سوال



اوپر آپ نے ہم دونوں کے موقف ٹھیک لکھیں ہیں مگر آپ سے التجا ہے کہ کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط کا لحاظ رکھتے ہوئے اوپر والی پوسٹوں کو تفصیل سے پڑھیں اور بتائیں کہ اپنی جماعت کے لئے اپنے موقف کو کس نے چھوڑا ہے
میں نے جب رد لکھا ہے تو اپنے اہل حدیثوں کی ایسی غلط کرامات کو بھی رد لکھا ہے
اور تلمیذ بھائی نے امداد اللہ مکی کے واقعے پر تاویل کی ہے اور سو فیصد اسی جیسے واقعے میں کسی اور نے جب اس طرح جب پکارا ہے جس کا متبع سنت نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور تلمیذ بھائی کل مولود یولد علی الفطرۃ کے ہوتے ہوئے اسکو شرک سے بچنے کی تلقین کر رہے ہیں اسکی وضاحت آپ پوسٹ نمبر 63 میں دیکھ سکتے ہیں جسکو آپ نے پسند کیا ہے مگر شاہد پورا پڑھا نہیں مختصرا یہاں لگا رہا ہوں

جی میں نے ملاحظہ اسی وقت مکمل کیا تھا۔ اگر تھانوی رح کے مرید کو بھی میں یا تلمیذ بھائی بچاتے تو اس کو بھی اسی کی تلقین کرتے یا اس سے درست مطلب پوچھ لیتے۔
میرے محترم بھائی وہ ماضی کا وقعہ ہے جس پر ہمیں حکم لگانا ہے۔ رد کا یا تاویل محتمَل کا۔
جب کہ یہ حال میں ڈوب رہا ہے اور ہم نے خود بچایا ہے۔ اگر یہ بھی گذر جاتا اور بعد میں یہ واقعہ روایت ہوتا تو یہی فیصلہ ہوتا کہ رد یا تاویل محتمل۔

محترم بھائی آپ کی تیسری رائے مجھے سمجھ نہیں آئی اس رائے کو ذرا اوپر میرے فرضی ڈوبنے والے واقعے پر فٹ کر کے سمجھا دیں جس کے متبع سنت نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ملی اور دوسرے پہلو بھی ہمیں نہیں پتا تاکہ مثال پر اطلاق کرنے سے جو سمجھ آتی ہے وہ زیادہ آسان ہو تی ہے
اس بے چارے کی قسمت کہ یہ ابھی زندہ ہے۔ دنیا سے جا چکا ہوتا تو پھر ہم اس رائے کا اطلاق کر سکتے نا۔
اگر وہ مرید یا حاجی صاحب حیات ہوتے تو ہم ان سے جا کر پوچھ لیتے۔ تاویل نہیں کرتے۔ دونوں چیزوں میں فرق ہے۔
تلمیذ بھائی نے حکم تو لگا دیا اپنی خدا داد صلاحیت سے لیکن شاید فرق نہیں ڈھونڈ کر بیان کر سکے۔

محترم بھائی اس میں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں
ویسے اس کے لئے میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ سائنس میں اصول ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے جو اس سے سمت میں مخالف ہوتا ہے اور وہ ردعمل سائینس میں تو اس کے برابر ہوتا ہے مگر دین میں مجھے اس عمل سے بھی زیادہ لگتا ہے

ابتسامہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
محترم بھائی میں نے جہاں بھی انصاف کے ساتھ آپ کا ساتھ دینا پڑا میں نے اپنی جماعت کے ساتھیوں کو چھوڑ کے آپ کا ساتھ دیا آپ دیکھ سکتے ہیں مگر آپ نے اپنی پہلی تعارف کی پوسٹ میں جو انصاف کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا میں نے اسکو بہت پسند کیا تھا کیونکہ وہ عین میرے دل کی آواز تھی آپ میری تمام پوسٹیں میرے آئی ڈی کو کھول کر ایک دفعہ دیکھ لیں کہ اس پر میرا عمل کتنا ہے اور جہاں آپ کو لگے کہ میں نے اپنی اہل حدیث جماعت کی یا جماعۃ الدعوہ کی بے جا سائیڈ لی ہے وہ یہاں یا علیحدہ تھریڈ میں لکھ دیں یا تو میں اسکا جواب دے دوں گا یا ولم یصروا علی ما فعلوا کے تحت غلطی مان کر نظریہ تبدیل کر دوں گا آپ سے بھی ایسے ہی انصاف کی درخواست ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ
ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی

اگر تھانوی رح کے مرید کو بھی میں یا تلمیذ بھائی بچاتے تو اس کو بھی اسی کی تلقین کرتے یا اس سے درست مطلب پوچھ لیتے۔
میرے محترم بھائی وہ ماضی کا وقعہ ہے جس پر ہمیں حکم لگانا ہے۔ رد کا یا تاویل محتمَل کا۔
جب کہ یہ حال میں ڈوب رہا ہے اور ہم نے خود بچایا ہے۔ اگر یہ بھی گذر جاتا اور بعد میں یہ واقعہ روایت ہوتا تو یہی فیصلہ ہوتا کہ رد یا تاویل محتمل۔
اس بے چارے کی قسمت کہ یہ ابھی زندہ ہے۔ دنیا سے جا چکا ہوتا تو پھر ہم اس رائے کا اطلاق کر سکتے نا۔
اگر وہ مرید یا حاجی صاحب حیات ہوتے تو ہم ان سے جا کر پوچھ لیتے۔ تاویل نہیں کرتے۔ دونوں چیزوں میں فرق ہے۔
تلمیذ بھائی نے حکم تو لگا دیا اپنی خدا داد صلاحیت سے لیکن شاید فرق نہیں ڈھونڈ کر بیان کر سکے۔
ابتسامہ
آپ کی پوسٹ کے پوانٹس کو نمبر وار مع جوابات لکھ رہا ہوں یہاں محل نزاع متبع سنت (یعنی غیر متبع سنت کا علم نہ ہو) کی بات پر ہے

1-اشماریہ بھائی-ماضی کے واقعے پر رد یا تاویل کی جا سکتی ہے مگر ہمیں رد کی بجائے تاویل کرنی چاہئے
میرا اعتراض

یہ اصول مطلقا ہے یا کوئی شرائط بھی ہیں کیونکہ ماضی کے انسان کے متبع سنت نہ ہونے کا پتا ہی اسکے واقعات سے چل سکتا ہے تو جب اسکے تمام واقعات کی تاویل کر لیں گے چاہے وہ کھلا شرک ہی کیوں نہ ہو تو پھر تو ہر کوئی متبع سنت بن جائے گا پس جب میں نے امداد اللہ مکی کی طرح کا واقعہ پیش کیا تھا تو فورا تلمیذ بھائی نے اس سے پوچھے بغیر اسکو شرک ہی سمجھا مگر جب وہی واقعہ امداد للہ مکی کے لیا آیا تو دلیل یہ بنائی کہ چونکہ ہم پوچھ نہیں سکتے پس کھلے شرک کی بھی ہم تاویل کریں گے
اگر آپ یہ کہتے تو ٹھیک تھا کہ کسی کے زیادہ واقعات کو دیکھیں گے کہ زیادہ اگر بغیر تاویل کے ٹھیک ہیں تو پھر ایک آدھ واقعہ میں ہم تاویل بھی کر لیتے ہیں اور اسکی تاویل کو اسکے واقعے کے ساتھ لازمی لکھتے ہیں تاکہ کوئی اس سے گمراہ نہ ہو جائے مگر آپ نے تو مطلق ہی ماضی کے تمام واقعات کو قابل تاویل بنا دیا مگر پھر اس پر ایک اور جانبداری کا سوال ہوتا ہے کہ جب ماضی کے واقعات کی تاویل ہی کرنی ہے تو پھر میں ایک واقعہ ماضی کا بھی لکھ دیتا ہوں جس میں کرامات غوث الاعظم میں اسی طرح کا ماضی کا واقعہ لکھا ہوتا ہے تو پھر آپ وہاں فورا بریلوی کی تردید کرتے نظر آتے ہیں جس پر ارشد القادری نے زلزلہ اور زیرو زبر میں دلیل کے ساتھ اعتراض بھی کیا ہے اگر وہ چاہیے تو کچھ یہاں لگا سکتا ہوں

2-اشماریہ بھائی-حال کے واقعے پر پوچھنا ہے تاویل نہیں کرنی
میرا اعتراض

محترم بھائی مشرکین ہمیشہ ماضی کی کرامات لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کیونکہ کرامت کیونکہ جھوٹی ہوتی ہے اس لئے ماضی کی کرامات دکھانی نہیں پڑتیں پس انکی موج ہو جاتی ہے حال کی کرامات دکھانے والے اگر ہوں بھی تو وہ ان پڑھوں کو صرف دکھاتے ہیں جیسے طاہر القادری کا مردہ سے بات کرنا تاکہ کوئی لاجواب نہ کرے تو بھائی مشرکین جب ماضی کے واقعات کا ہی سہارا لیتے ہیں تو پھر ذرا بتائیں کہ جب انکی بھی تاویل کر دیں گے تو پھر اتخذوا احبارھم و رحبانھم کن کے لئے ہو گا

3-اشماریہ بھائی-محترم تلمیذ بھائی نے حال کے واقعے پر حکم تو لگا دیا مگر ماضی اور حال والا فرق نہیں ڈھونڈ سکے
محترم تلمیذ بھائی نے حال کے واقعے پر جو حکم لگایا تھا وہ آپ کے دوسرے حال والے پوائنٹ سے مختلف تھا آپ کہ رہے ہیں کہ پوچھنا چاہئے مگر انہوں نے پوچھنے کی بجائے شرک سے بچنے کی تلقین کی تھی یعنی ان کو بھی یہ بات واضح شرک نظر آ رہی تھی اسی وجہ سے وہ آپ والا فرق شاہد نہیں ڈھونڈ سکے
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
اشماریہ بھائی
محمد ارسلان بھائی
یوسف ثانی بھائی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جی میں نے ملاحظہ اسی وقت مکمل کیا تھا۔ اگر تھانوی رح کے مرید کو بھی میں یا تلمیذ بھائی بچاتے تو اس کو بھی اسی کی تلقین کرتے یا اس سے درست مطلب پوچھ لیتے۔
میرے محترم بھائی وہ ماضی کا وقعہ ہے جس پر ہمیں حکم لگانا ہے۔ رد کا یا تاویل محتمَل کا۔
جب کہ یہ حال میں ڈوب رہا ہے اور ہم نے خود بچایا ہے۔ اگر یہ بھی گذر جاتا اور بعد میں یہ واقعہ روایت ہوتا تو یہی فیصلہ ہوتا کہ رد یا تاویل محتمل۔


اس بے چارے کی قسمت کہ یہ ابھی زندہ ہے۔ دنیا سے جا چکا ہوتا تو پھر ہم اس رائے کا اطلاق کر سکتے نا۔
اگر وہ مرید یا حاجی صاحب حیات ہوتے تو ہم ان سے جا کر پوچھ لیتے۔ تاویل نہیں کرتے۔ دونوں چیزوں میں فرق ہے۔
تلمیذ بھائی نے حکم تو لگا دیا اپنی خدا داد صلاحیت سے لیکن شاید فرق نہیں ڈھونڈ کر بیان کر سکے۔


ابتسامہ
اشماریہ صاحب گزارش ہے کہ آپ کی بات بہت کمزور ہے اس پر کل بات ہو گی ان شاء اللہ العزیز
 
Top