محترم بھائی میں نے جہاں بھی انصاف کے ساتھ آپ کا ساتھ دینا پڑا میں نے اپنی جماعت کے ساتھیوں کو چھوڑ کے آپ کا ساتھ دیا آپ دیکھ سکتے ہیں مگر آپ نے اپنی پہلی تعارف کی پوسٹ میں جو انصاف کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا میں نے اسکو بہت پسند کیا تھا کیونکہ وہ عین میرے دل کی آواز تھی آپ میری تمام پوسٹیں میرے آئی ڈی کو کھول کر ایک دفعہ دیکھ لیں کہ اس پر میرا عمل کتنا ہے اور جہاں آپ کو لگے کہ میں نے اپنی اہل حدیث جماعت کی یا جماعۃ الدعوہ کی بے جا سائیڈ لی ہے وہ یہاں یا علیحدہ تھریڈ میں لکھ دیں یا تو میں اسکا جواب دے دوں گا یا ولم یصروا علی ما فعلوا کے تحت غلطی مان کر نظریہ تبدیل کر دوں گا آپ سے بھی ایسے ہی انصاف کی درخواست ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ
ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی
اگر تھانوی رح کے مرید کو بھی میں یا تلمیذ بھائی بچاتے تو اس کو بھی اسی کی تلقین کرتے یا اس سے درست مطلب پوچھ لیتے۔
میرے محترم بھائی وہ ماضی کا وقعہ ہے جس پر ہمیں حکم لگانا ہے۔ رد کا یا تاویل محتمَل کا۔
جب کہ یہ حال میں ڈوب رہا ہے اور ہم نے خود بچایا ہے۔ اگر یہ بھی گذر جاتا اور بعد میں یہ واقعہ روایت ہوتا تو یہی فیصلہ ہوتا کہ رد یا تاویل محتمل۔
اس بے چارے کی قسمت کہ یہ ابھی زندہ ہے۔ دنیا سے جا چکا ہوتا تو پھر ہم اس رائے کا اطلاق کر سکتے نا۔
اگر وہ مرید یا حاجی صاحب حیات ہوتے تو ہم ان سے جا کر پوچھ لیتے۔ تاویل نہیں کرتے۔ دونوں چیزوں میں فرق ہے۔
تلمیذ بھائی نے حکم تو لگا دیا اپنی خدا داد صلاحیت سے لیکن شاید فرق نہیں ڈھونڈ کر بیان کر سکے۔
ابتسامہ
آپ کی پوسٹ کے پوانٹس کو نمبر وار مع جوابات لکھ رہا ہوں یہاں محل نزاع متبع سنت (یعنی غیر متبع سنت کا علم نہ ہو) کی بات پر ہے
1-اشماریہ بھائی-ماضی کے واقعے پر رد یا تاویل کی جا سکتی ہے مگر ہمیں رد کی بجائے تاویل کرنی چاہئے
میرا اعتراض
یہ اصول مطلقا ہے یا کوئی شرائط بھی ہیں کیونکہ ماضی کے انسان کے متبع سنت نہ ہونے کا پتا ہی اسکے واقعات سے چل سکتا ہے تو جب اسکے تمام واقعات کی تاویل کر لیں گے چاہے وہ کھلا شرک ہی کیوں نہ ہو تو پھر تو ہر کوئی متبع سنت بن جائے گا پس جب میں نے امداد اللہ مکی کی طرح کا واقعہ پیش کیا تھا تو فورا تلمیذ بھائی نے اس سے پوچھے بغیر اسکو شرک ہی سمجھا مگر جب وہی واقعہ امداد للہ مکی کے لیا آیا تو دلیل یہ بنائی کہ چونکہ ہم پوچھ نہیں سکتے پس کھلے شرک کی بھی ہم تاویل کریں گے
اگر آپ یہ کہتے تو ٹھیک تھا کہ کسی کے زیادہ واقعات کو دیکھیں گے کہ زیادہ اگر بغیر تاویل کے ٹھیک ہیں تو پھر ایک آدھ واقعہ میں ہم تاویل بھی کر لیتے ہیں اور اسکی تاویل کو اسکے واقعے کے ساتھ لازمی لکھتے ہیں تاکہ کوئی اس سے گمراہ نہ ہو جائے مگر آپ نے تو مطلق ہی ماضی کے تمام واقعات کو قابل تاویل بنا دیا مگر پھر اس پر ایک اور جانبداری کا سوال ہوتا ہے کہ جب ماضی کے واقعات کی تاویل ہی کرنی ہے تو پھر میں ایک واقعہ ماضی کا بھی لکھ دیتا ہوں جس میں کرامات غوث الاعظم میں اسی طرح کا ماضی کا واقعہ لکھا ہوتا ہے تو پھر آپ وہاں فورا بریلوی کی تردید کرتے نظر آتے ہیں جس پر ارشد القادری نے زلزلہ اور زیرو زبر میں دلیل کے ساتھ اعتراض بھی کیا ہے اگر وہ چاہیے تو کچھ یہاں لگا سکتا ہوں
2-اشماریہ بھائی-حال کے واقعے پر پوچھنا ہے تاویل نہیں کرنی
میرا اعتراض
محترم بھائی مشرکین ہمیشہ ماضی کی کرامات لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کیونکہ کرامت کیونکہ جھوٹی ہوتی ہے اس لئے ماضی کی کرامات دکھانی نہیں پڑتیں پس انکی موج ہو جاتی ہے حال کی کرامات دکھانے والے اگر ہوں بھی تو وہ ان پڑھوں کو صرف دکھاتے ہیں جیسے طاہر القادری کا مردہ سے بات کرنا تاکہ کوئی لاجواب نہ کرے تو بھائی مشرکین جب ماضی کے واقعات کا ہی سہارا لیتے ہیں تو پھر ذرا بتائیں کہ جب انکی بھی تاویل کر دیں گے تو پھر اتخذوا احبارھم و رحبانھم کن کے لئے ہو گا
3-اشماریہ بھائی-محترم تلمیذ بھائی نے حال کے واقعے پر حکم تو لگا دیا مگر ماضی اور حال والا فرق نہیں ڈھونڈ سکے
محترم تلمیذ بھائی نے حال کے واقعے پر جو حکم لگایا تھا وہ آپ کے دوسرے حال والے پوائنٹ سے مختلف تھا آپ کہ رہے ہیں کہ پوچھنا چاہئے مگر انہوں نے پوچھنے کی بجائے شرک سے بچنے کی تلقین کی تھی یعنی ان کو بھی یہ بات واضح شرک نظر آ رہی تھی اسی وجہ سے وہ آپ والا فرق شاہد نہیں ڈھونڈ سکے
اللہ آپ کا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
اشماریہ بھائی
محمد ارسلان بھائی
یوسف ثانی بھائی