محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
شہباز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ ممتاز قادری کو پھانسی نہیں دی جائے گی۔ مفتی منیب الرحمن کا انکشاف
http://www.dailyurdunews.com/shahbaz-sharif-ki-wada-khilafi/
امام اہل سنت والجماعت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے ـ
"ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک قول ایک خاص واقعہ کی نسبت سے آج کل کافی معروف ہے کہ "ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے حق پر کون تھا، اصل میں یہ قول اہل بدعت و ملحدین سے مخاطب کرکے کہا گیا تھا ـ اور سب جانتے ہیں کہ اہل بدعت و معتزلہ عباسی خلفاء کی دربارتک رسائی تھی ـ جنہوں نے اپنے اثرورسوخ سے خلق قرآن کے مسئلے پر امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کئی سال تک تکلیفیں پہنچائی ـ بالاخر نے اللہ عزوجل نے ان کوثابت قدمی پر وہ مقام عطا فرمایا جو قیامت تک کسی کو حاصل ناہوسکے گا ـ
ذیل میں وہ قول نقل کیا جارہا ہے ـ
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ البدایہ و النہایہ ‘‘ میں امام اہل سنت احمد بن حنبل کے حالات میں لکھتے ہیں :
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا سَهْلِ بْنَ زِيَادٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم الجنائز حين تمر.
وَكَذَلِكَ الْحَارِثُ بْنُ أَسَدٍ الْمُحَاسِبِيُّ مَعَ زُهْدِهِ وَوَرَعِهِ وَتَنْقِيرِهِ وَمُحَاسَبَتِهِ نَفْسَهُ فِي خِطْرَاتِهِ وَحَرَكَاتِهِ، لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ من الناس.
وكذلك بشر بن غياث المريسي لم يصل عليه إلا طائفة يسيرة جِدًّا، فَلِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ.
میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے ،اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
(یعنی تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اہل اسلام کی حمایت اور ساتھ حاصل نہیں ،یا اللہ کی طرف سے قبولیت کا شرف حاصل نہیں تو )
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :اللہ تعالی نے امام احمد ؒ کا یہ قول سچ کر دکھایا ۔کیونکہ وہ اپنے دور میں اہل سنت کے امام تھے ۔
اور انکے چوٹی کے مخالف
جو چیف جسٹس بھی تھا ،اس کو جب موت آئی تو کسی نے ادھر توجہ نہ دی ۔اور اس کے جنازے کے ساتھ چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی نہ تھا ۔
اور مشہور صوفی حارث بن اسد المحاسبی باوجود اس کے کہ بڑے زاہد ، پار سا ،اور اپنے نفس کا شدید محاسبہ کرنے والے تھے ،ان کے جنازے پر بھی تین چار افراد ہی آئے ۔
اسی طرح بشر بن غیاث المریسی (جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد اور جہمیہ کا نمائندہ داعی تھا ) جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔
اس قول کی بنیا د حق و باطل کا فرق ہے ـ اور حق وہی ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ لے کرآئے ـ جو کہ صحابہ کرامؓ کے واسطے ہم تک پہنچا ـ کسی بدعتی ،ملحد ،مشرک کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس قول کواپنے جنازے کے لئے مثال بنائے ـکیونکہ ان کے عقیدے ،مذہب کی بنیاد قرآن اور نبی ﷺکے فرمان پر نہیں ہوتی ـ
شیخ محترم @خضر حیات بھائی منیب الرحمن کا کالم اور نیچے ایک تحریر ہے جو میں نے شیئر کی ہے - اس پر آپ کچھ روشنی ڈال دے -
ایک بات اور پوچھنا چاہوں گا اگر کسی کے عقیدے میں شرک ہو کیا کیا اس کی اتنی بڑی نیکی اس کو فائدہ دے سکتی ہے ؟؟
کیا ایک شخص جو جہالت کی بنا پر شرک کرتا ہو اس کے لئے یہ عمل راہے نجات بن سکتا ہے ؟؟؟
http://www.dailyurdunews.com/shahbaz-sharif-ki-wada-khilafi/
امام اہل سنت والجماعت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے ـ
"ہمارے بعد ہمارے جنازے فیصلہ کریں گے کہ حق پر کون تھا."
ذیل میں وہ قول نقل کیا جارہا ہے ـ
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ ’’ البدایہ و النہایہ ‘‘ میں امام اہل سنت احمد بن حنبل کے حالات میں لکھتے ہیں :
وَقَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا سَهْلِ بْنَ زِيَادٍ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: قولوا لأهل البدع بيننا وبينكم الجنائز حين تمر.
وقد صدق الله قول أحمد في هذا، فإنه كَانَ إِمَامَ السُّنَّةِ فِي زَمَانِهِ، وَعُيُونُ مُخَالِفِيهِ أحمد بن أبي دؤاد وهو قاضي قضاة الدنيا لم يحتفل أحد بموته، ولم يتلفت إليه.ولما مات ما شيعه إلا قليل من أعوان السلطان.وَكَذَلِكَ الْحَارِثُ بْنُ أَسَدٍ الْمُحَاسِبِيُّ مَعَ زُهْدِهِ وَوَرَعِهِ وَتَنْقِيرِهِ وَمُحَاسَبَتِهِ نَفْسَهُ فِي خِطْرَاتِهِ وَحَرَكَاتِهِ، لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ إِلَّا ثَلَاثَةٌ أَوْ أَرْبَعَةٌ من الناس.
وكذلك بشر بن غياث المريسي لم يصل عليه إلا طائفة يسيرة جِدًّا، فَلِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ.
کہ امام الدارقطنی نے امام احمد کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ :میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے ،اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے ۔‘‘
(یعنی تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اہل اسلام کی حمایت اور ساتھ حاصل نہیں ،یا اللہ کی طرف سے قبولیت کا شرف حاصل نہیں تو )
امام ابن کثیر فرماتے ہیں :اللہ تعالی نے امام احمد ؒ کا یہ قول سچ کر دکھایا ۔کیونکہ وہ اپنے دور میں اہل سنت کے امام تھے ۔
اور انکے چوٹی کے مخالف
جو چیف جسٹس بھی تھا ،اس کو جب موت آئی تو کسی نے ادھر توجہ نہ دی ۔اور اس کے جنازے کے ساتھ چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی نہ تھا ۔
اور مشہور صوفی حارث بن اسد المحاسبی باوجود اس کے کہ بڑے زاہد ، پار سا ،اور اپنے نفس کا شدید محاسبہ کرنے والے تھے ،ان کے جنازے پر بھی تین چار افراد ہی آئے ۔
اسی طرح بشر بن غیاث المریسی (جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد اور جہمیہ کا نمائندہ داعی تھا ) جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔
(البداية والنهاية۔ج ۔۱۰۔۔ص ۳۷۵ )اس قول کی بنیا د حق و باطل کا فرق ہے ـ اور حق وہی ہے جو کہ اللہ کے رسولﷺ لے کرآئے ـ جو کہ صحابہ کرامؓ کے واسطے ہم تک پہنچا ـ کسی بدعتی ،ملحد ،مشرک کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اس قول کواپنے جنازے کے لئے مثال بنائے ـکیونکہ ان کے عقیدے ،مذہب کی بنیاد قرآن اور نبی ﷺکے فرمان پر نہیں ہوتی ـ
لنک
السلام عیلکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
شیخ محترم @خضر حیات بھائی منیب الرحمن کا کالم اور نیچے ایک تحریر ہے جو میں نے شیئر کی ہے - اس پر آپ کچھ روشنی ڈال دے -
ایک بات اور پوچھنا چاہوں گا اگر کسی کے عقیدے میں شرک ہو کیا کیا اس کی اتنی بڑی نیکی اس کو فائدہ دے سکتی ہے ؟؟
کیا ایک شخص جو جہالت کی بنا پر شرک کرتا ہو اس کے لئے یہ عمل راہے نجات بن سکتا ہے ؟؟؟
Last edited: