مقلدین میں کوئی رجل الرشید ہے جو ان کا رد کرے؟
تراویح نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
نا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ كُرَيْبٍ، نا مَالِكٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ، نا يَعْقُوبُ، ح وَثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعِجْلِيُّ، نا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، نا يَعْقُوبُ وهو ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْقُمِّيُّ، عَنْ عِيسَى بْنِ جَارِيَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ثَمَانِ رَكَعَاتٍ وَالْوِتْرَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابِلَةِ اجْتَمَعْنَا فِي الْمَسْجِدِ وَرَجَوْنَا أَنْ يَخْرُجَ إِلَيْنَا، فَلَمْ نَزَلْ فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى أَصْبَحْنَا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَوْنَا أَنْ تَخْرُجَ إِلَيْنَا فَتُصَلِّيَ بِنَا، فَقَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمُ الْوِتْرُ»
صحیح ابن خزیمة 2/ 138 رقم 1070
عہد نبوی میں ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تراویح پڑھاتے تھے
حدثنا الربيع بن سليمان ، ثنا ابن وهب ، أخبرنا مسلم بن خالد ، عن العلاء بن عبد الرحمن ، عن أبيه ، عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم وإذا ناس في رمضان يصلون في ناحية المسجد ، فقال : « ما هؤلاء ؟ » قيل : « هؤلاء ناس ليس معهم قرآن ، وأبي بن كعب رضي الله عنه يصلي بهم ، فهم يصلون بصلاته ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : » أصابوا أو نعم ما صنعوا «
الكتاب : قيام رمضان لمحمد بن نصر المروزي
مسجد نبوی میں باجماعت تراویح نبوی میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی شریک ہو تے تھے
7746 - عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَعَهُ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى الثَّانِيَةَ فَاجْتَمَعَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ أَكْثَرُ مِنَ الْأُولَى، فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ أَوِ الرَّابِعَةُ امْتَلَأَ الْمَسْجِدُ حَتَّى غَصَّ بِأَهْلِهِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَنَادُونَهُ الصَّلَاةُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا زَالَ النَّاسُ يَنْتَظِرُونَكَ الْبَارِحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ أَمْرُهُمْ، وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهِمْ»
مصنف عبد الرزاق الصنعاني
حضر ت عمر رضی ا للہ عنہ نے آٹھ رکعات تراویح پڑھنے کا حکم دیا
وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّهُ قَالَ: أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِيَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً
موطأ مالك كِتَابُ الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ بَابُ مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ
امام المغاذی محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ نے دور صحابہ اور دور تابعین پایا ہے
قال ابن إسحاق رحمه الله : وما سمعت في ذلك حديثا هو أثبت عندي ولا أحرى بأن يكون ، كان من حديث السائب ، وذلك « أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت له من الليل ثلاث عشرة ركعة »
الكتاب : قيام رمضان لمحمد بن نصر المروزي
یہ جتنی بھی روایات لکھی ہیں ان میں سے صرف ایک ابن خزیمہ والی ایسی ہے جس سے دھوکہ لگ سکتا ہے (جیسا کہ موصوف کو لگا) کہ شائد تراویح آٹھ ہی سنت ہو مگر ایسا نہیں۔ کیوں؟ اس کی وجہ یہ کہ اس روایت کو سرسری طور پر پڑھنے والا ہی اس سے دھوکہ کھائے گا بنظرِ عمیق پڑھنے والا نہیں۔ آئیے اس روات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
اس روایت میں دو راوی پے در پے ضعیف ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے متن میں سقم پایا گیا۔ اس حدیث کے متن میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے۔ اس کے بعد اگلے دن کا ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں نکلے یعنی تراویح نہیں پڑھائی۔
اہم نکات
صحیح احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں ساری ساری رات عبادت (نوافل پڑھنے) میں گزارتے تھے۔ پہلی دفعہ رمضان کے آخری عشرہ میں طاق رات میں تہائی رات تک تراویح پڑھائی اور اس کے بعد سوئے نہیں بلکہ نوافل پڑھتے رہے۔ دوسری طاق رات میں نصف شب تک تراویح پڑھائی اور اس کے بعد سوئے نہیں بلکہ نوافل پڑھتے رہے۔ تیسری طاق رات میں صبح صادق سے کچھ پہلے تک تراویح پڑھائی۔ اس دن بعد میں نوافل اور وتر کی گنجائش ہی نہ تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر بھی پڑھائے۔
صحیح احادیث سے یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نماز وتر ہوتی تھی۔
پہلے دو دن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح پڑھائی اس مین وتر نہیں پڑھائے وجہ یہ کہ بقیہ رات نوافل پڑھے ہیں تو وتر اس کے بعد ہی پڑھے۔
وضاحت
اس مذکورہ روایت میں راوی نے تین دن کی تراویح کا ذکر ایک ہی فقرہ میں کر دیا۔ پہلی دفعہ ممکن ہے آٹھ رکعات جماعت سے پڑھائی ہوں اور بقیہ اکیلے پڑھی۔ اسی طرح دوسری دفعہ کچھ رکعات جماعت سے پڑھائیں اور بقیہ انفراداً پڑھیں۔ تیسری رات میں تراویح اور تہجد آپس میں مل گئیں۔ پہلے تراویح اور ساتھ ہی تہجد بھی پڑھائی۔
نتیجہ
نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقور نہ ہی کسی صحابی یا کسی تابعی نے کبھی بھی بیس تراویح سے کم نہیں پڑھائیں۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انفراداً بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے
(سنن البيهقي الكبرى، مصنف ابن أبي شيبة اور المعجم الكللطبير براني)
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام صحابہ کرام کو انہی بیس تراویح پر جمع کیا۔ اب تک حرمین شریفین میں بیس ہی پڑھی جا رہی ہیں۔