• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک اور ترویح کے رکعات

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@nasim بھائی! آپ سے دو سوالات ہیں آپ اس بارے میں بتلادیں کہ آپ کیا سمجھیں ہیں! تا کہ آپ کی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کو صورت سمجھی جائے!
1: آپ کے مطابق ہم اہل الحدیث کے نزدیک شرعی بدعت کی تعریف کیا ہے؟ اور کسی عمل کو بدعت کہنے کے لئے اہل الحدیث کا پیمانہ کیا ہے؟
2: آپ کے نزدیک شرعی بدعت کی تعریف کیا ہے؟ اوت کسی عمل کو بدعت کہنے کے لئے آپ کا پیمانہ کیا ہے؟
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام
محترم داؤد بھائی
1- دین میں وہ عمل جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت نہ ملے اور نہ آپ نے ان کے کرنے کا حکم دیا ہو۔(عبادت کیلئے اپنی جانب سے ایسی تخصیص جس کا ثبوت نہ ہو۔)
آپ کا جو دوسرا سوال ہے وہ میرے لئے بہت مشکل ہے اس معاملے میں ،میں انتشار کا شکار ہوں۔یوں لگتا ہے سب ہی بدعتی ہیں کسی نہ کسی ضمن میں بدعات اعمال میں شامل ہوتی ہیں لیکن اس کی تاویل کرتے ہیں۔
( تیجہ ، چالیسواں،برسی، عرس، تبارک کی روٹی، سورہ المزمل کا ورد، صفر کے چنے، شب برات کا حلوہ ، گیارہویں وغیرہ ۔۔۔ ان سب کو بدعت ہی سمجھتا ہوں)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
- دین میں وہ عمل جن کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثبوت نہ ملے اور نہ آپ نے ان کے کرنے کا حکم دیا ہو۔(عبادت کیلئے اپنی جانب سے ایسی تخصیص جس کا ثبوت نہ ہو۔)
جی! آپ نے عوامی لحاظ سے درست کہا!
اس میں ایک بات اور شامل ہے کہ ایسا عمل جس کی حاجت تو ہو، لیکن اس کے کرنے سے کوئی بات مانع ہو!
جیسے کہ قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرنا!
اس کی حاجت تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھی، لیکن مانع یہ تھا کہہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں قرآن کا نزول جاری تھا، اور جب کوئی آیت نازل ہوتی، تو اللہ کے رسول بتلاتے کہ اسے کس سورة میں کس آیت کے پہلے یا بعد لکھنا ہے! یعنی اس وقت قرآن کو اس طرح ایک مصحف میں جمع کرنے کا مانع موجود تھا!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب یہ مانع نہ رہا، تو قرآن کو ایک مصحف میں جمع کرنا بدعت نہیں!

آپ کا جو دوسرا سوال ہے وہ میرے لئے بہت مشکل ہے اس معاملے میں ،میں انتشار کا شکار ہوں۔یوں لگتا ہے سب ہی بدعتی ہیں کسی نہ کسی ضمن میں بدعات اعمال میں شامل ہوتی ہیں لیکن اس کی تاویل کرتے ہیں۔
( تیجہ ، چالیسواں،برسی، عرس، تبارک کی روٹی، سورہ المزمل کا ورد، صفر کے چنے، شب برات کا حلوہ ، گیارہویں وغیرہ ۔۔۔ ان سب کو بدعت ہی سمجھتا ہوں)
جی ! یہ ایک مسئلہ ہے کہ آپ ان امور کو بھی بدعت گمان کرتے ہو، جو شرعی بدعت نہیں!
جیسے کہ تراویح!
تراویح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت بھی پڑھائی، اور اس کے علاوہ رمضان کے علاوہ بھی تہجد کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا ثبوت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے!
اس پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث موجود ہے ؛
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ.
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ( آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
‌صحيح البخاري: کِتَابُ الوِترِ (بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ)
صحیح بخاری: کتاب: نماز وتر کے مسائل کا بیان (باب: وتر کا بیان)
رہی بات تمام رمضان میں پڑھنے کی! تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کے فرض ہو جانے کے خدشہ و خوف کے خود اس کی امامت نہ کروائی لیکن تراویح پڑھنے سے منع نہ کیا، بلکہ یہ اس عمل کی مشروعت کو برقرار رکھا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی تراویح پڑھتے رہے، اکیلے بھی اور جماعت کے ساتھ بھی! یہاں تک کہ مسجد نبوی میں متعدد جماعتیں بھی ہوتی اور لوگ اکیلے بھی پڑھتے!
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اسی حدیث میں کہ جس میں یہ امر ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو ایک امام کے پیچھے جمع کردیا؛ اسی حدیث میں متعدد جماعتوں اور اکیلے تراویح کا بھی ذکر ہے!
اس کے علاوہ بھی احادیث موجود ہیں کہ جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں با جماعت تراویح کا ذکر موجود ہے، اور وہ بھی اس صراحت کے ساتھ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بتلایا گیا، تو آپ نے اس پر نکیر نہ کرکے رضا مندی کا اظہار کیا!
لہٰذا ایسی کوئی بات نہیں کہ جس میں پورے رمضان میں باجماعت تراویح کو بدعت سمجھا جائے!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام
محترم داؤد بھائی
میں نے بار بار بدعت کے ساتھ مروجہ تروایح کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ایک قران کو ختم کرنے کا التزام،دوران تراویح تفسیر و ترجمہ ، 6 روزہ 10 روزہ یہ چیزیں کیسے درست ہوں گی۔
پھر آپ کی فقہ حنفیہ سے رکعات کے معاملے پر بحث جس میں آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ تروایح کی رکعات 8 ہی ہیں۔ تو میں اس بات اور محترم اسحاق صاحب کی ایک پوسٹ میں کہی گئی بات کہ کسی عمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں بڑھ سکتے کے تحت بیس رکعات کو بدعت کہا ۔

پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ فقہ حنفیہ تراویح کو سنت مؤکدہ کا درجہ دیتےہیں یعنی نہ پڑھنے والے گناہ گار ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی خدشہ کے تحت تو موقوف کی تھی کہ فرض نہ ہوجائے ۔ اور نہ پڑھنے والا گناہ گار نہ ہو۔
محترم اسحاق صاحب کی تحریر کا اقتباس درج ذیل ہے۔
عبادت نفلی ہو یا فرضی اس میں اتباع رسول ﷺ لازمی ہے ،کیونکہ عبادت اللہ تعالی سے محبت کا اظہار ہے
اور محبت الہی کا مظہر سنت مطہرہ کے مطابق ہونا لازم ہے :
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (31)
ترجمہ :
آپ کہہ دیجئے : کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ؛

اس آیت کریمہ کی تشریح میں علامہ عبدالرحمن کیلانی ؒ فرماتے ہیں :
اس آیت میں مسلمانوں کے لیے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جس خوبصورت انداز سے اس آیت میں اتباع سنت پر زور دیا گیا ہے۔ شاید اس سے زیادہ ممکن بھی نہ تھا۔ اتباع کے مفہوم میں اطاعت کی نسبت بہت زیادہ وسعت ہے۔ اطاعت صرف اوامرو نواہی میں ہوتی ہے۔ جبکہ اتباع یہ ہے کہ جیسے تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کرتے دیکھو ویسے ہی تم بھی کرنے لگ جاؤ جس بات کو وہ پسند کریں اسے تم بھی پسند کرو اور جس بات سے نفرت کریں اس سے تم بھی نفرت کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے لیے اسوہ حسنہ ہیں اور تیسرا سبق اس آیت سے یہ ملتا ہے کہ مسلمانوں کو بدعات سے مکمل طور پر اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ بدعت سنت کی عین ضد ہے اور بدعت کی عام فہم تعریف یہ ہے کہ وہ ایسا نیا کام دین میں شامل کرنا جس کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو نیز وہ کام آپ کے بعد دین کا حصہ اور ثواب سمجھ کر بجا لایا جائے وہ مردود ہے اور بدعات کو رواج دینے والا شخص تو شدید مجرم ہے کیونکہ اس کی موت کے بعد بھی اس بدعت پر عمل کرنے والے لوگوں کے گناہ کا حصہ رسدی اس کے نامہ اعمال میں جمع ہوتا رہتا ہے اور وہ شدید مجرم اس لحاظ سے بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شارع کے مقام پر سمجھتا ہے اور اپنے وضع کردہ نئے کام کو دین کا حصہ بنا کر دین کو مکمل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ دین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔
(تیسیر القرآن )
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
یہ میرے اس سوال کے جواب میں تھا،

nasim نے کہا ہے:
السلام علیکم
میرا بھی ایک سوال ایڈ کرلیجیے کیا نفلی عبادت کی بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مثلا کوئی اپنی مرضی سے ذکر الہی کرنا چاہتا ہے یا لمبی نفل نما ز پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے کیا سنت سے دلیل ضروری ہوگی۔ کہ صحابہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہوگا تو جائز ہوگا ورنہ بدعت ہوگا۔؟؟؟؟؟؟؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے بار بار بدعت کے ساتھ مروجہ تروایح کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ ایک قران کو ختم کرنے کا التزام،دوران تراویح تفسیر و ترجمہ ، 6 روزہ 10 روزہ یہ چیزیں کیسے درست ہوں گی۔
مروجہ کی بات بعد میں، پہلے یہ بات کہ قرآن کریم کو ختم کرنے میں کوئی قباحت نہیں! ایک کیا دو بار ختم کریں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں!
ہاں اسے اگر کوئی تراویح کی شرط قرار دے تو یہ مسئلہ ہو گا!
ہم تو اسے شرط نہیں کہتے!
رہی بات دوران تراویح تفسیر و ترجمہ کی، تو سمجھنا چاہئے کہ یہ تراویح کا جزء نہیں، بلکہ ایک مشغلہ ہے، جو تراویح کے درمیان کیا جاتا ہے، آپ چاہیں تو اس دوران پکوڑے ، تکہ بوٹی یا جو چاہیں کھا لیں! یا چائے ہی لیں، کوئی مضائقہ نہیں!
رہی بات 6 روزہ 10 روزہ کی! تو یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کوئی شخص 6 روز یا 10 روز تراویح پڑھے، ان ایام میں تراویح پڑھنے کا اس کو ثواب ہے، لیکن یہ گمان کہ یہ 6 روز یا 10 روز میں ترایح میں ایک قرآن ختم کرنا سے تمام رمضان کی تراویح کا قائم مقام ہو جاتا ہے، اس طرح لوگ اس سوچ کے ساتھ اس میں شرکت کرتے ہیں، درست نہیں!
پھر آپ کی فقہ حنفیہ سے رکعات کے معاملے پر بحث جس میں آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ تروایح کی رکعات 8 ہی ہیں۔ تو میں اس بات اور محترم اسحاق صاحب کی ایک پوسٹ میں کہی گئی بات کہ کسی عمل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہیں بڑھ سکتے کے تحت بیس رکعات کو بدعت کہا ۔
جی! تراویح کی 8 رکعت ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس سے زیادہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کہنا درست نہیں!
لیکن اس سے زیادہ رکعت پڑھنے کا جواز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے!
مسئلہ اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی 8 رکعت سے زیادہ جیسے 20 رکعت تراویح کی نسبت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم کے عمل سے کرتا ہے!
اور بلکل اولیٰ یہی ہے کہ 8 رکعت ترایح اسی کیفیت و طوالت سے ادا کرنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا!
لیکن اگر کوئی کوئی رکعت کی تعداد بڑھا کر قیام کا وقت طویل کرتا ہے، تو اس کی گنجائش ہے! کہ تراویح نوافل ہیں، اور نفل کی تعداد متعین نہیں!
پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ فقہ حنفیہ تراویح کو سنت مؤکدہ کا درجہ دیتےہیں یعنی نہ پڑھنے والے گناہ گار ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی خدشہ کے تحت تو موقوف کی تھی کہ فرض نہ ہوجائے ۔ اور نہ پڑھنے والا گناہ گار نہ ہو۔
جی! تراویح سنت مؤکدہ تو ہے، لیکن سنت مؤکہ نہ پڑھنے والے کو گناہ گار کہنا، یہ حنفیوں کا مسئلہ ہے، ہم اس سے بری ہیں!
لہٰذا آپ حنفیوں کی مروجہ تراویح کو بدعت کہتے ہیں، تو یہ مسئلہ تو آپ حنفیوں سے پوچھیں!
جب آپ مروجہ تراویح کہتے ہو میاں! تو ر اہل الحدیث میں بھی تراویح رائج و معمول ہے!
لہٰذا آپ کا ''مروجہ تراویح'' کو بدعت کہنا درست نہیں۔ ہاں! اگر آپ '' حنفیوں کی مروجہ تراویح'' یا '' مقلدین کی مروجہ تراویح'' کو بدعت کہیں، تو یہ آپ جانیں اور حنفیہ و مقلدین جانیں!
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ

ایک بات کی وضاحت کردیں آپ تروایح کو نفل کہہ رہے ہیں پھر سنت مؤکدہ بھی تو سمجھ نہیں آیا۔
رہی بات دوران تراویح تفسیر و ترجمہ کی، تو سمجھنا چاہئے کہ یہ تراویح کا جزء نہیں، بلکہ ایک مشغلہ ہے، جو تراویح کے درمیان کیا جاتا ہے، آپ چاہیں تو اس دوران پکوڑے ، تکہ بوٹی یا جو چاہیں کھا لیں! یا چائے ہی لیں، کوئی مضائقہ نہیں!
لیکن اس کو دین سمجھ کر کیا جارہا ہے یعنی اس کا ثواب ملے گا تو دوران تروایح اس طرح کا درس تو ثابت کرنا پڑے گا۔ باقی کھانے وغیرہ سے کوئی ثواب کی امید تو نہیں رکھتا اس لئے اس میں مجھے کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ اس سے زیادہ رکعات بطور تروایح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، پھر کہہ رہے ہیں کہ نفل ہے کوئی بڑھا لے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
تحتیہ الوضو دو رکعات ہیں اور کوئی چار ، چھ یا اور زائد پڑھ لے تو صحیح ہوگا؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میرا بھی ایک سوال ایڈ کرلیجیے کیا نفلی عبادت کی بھی اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ مثلا کوئی اپنی مرضی سے ذکر الہی کرنا چاہتا ہے یا لمبی نفل نما ز پڑھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے کیا سنت سے دلیل ضروری ہوگی۔
جی بلکل کر سکتا، لیکن عبادت کی اصل ثابت ہونا چاہیئے، یعنی کہ کوئی نئی عبادت نہ گڑھی گئی ہو، اور نوافل کا طویل قیام تو ویسے ہی سنت سے ثابت ہے!
ایک بات کی وضاحت کردیں آپ تروایح کو نفل کہہ رہے ہیں پھر سنت مؤکدہ بھی تو سمجھ نہیں آیا۔
آپ کو ہی مخاطب کرتے ہوئے ایک بار یہ مسئلہ بیان کیا تھا، شاید یہ آپ بھول رہے ہیں:
اس کی تھوڑی تفصیل بیان کر دیتا ہوں،(فقہ حنفی اور حنفیوں کے مؤقف سے قطع نظر)
نماز کی اصل میں دو اقسام ہیں، ایک صلاة مکتوبہ یعنی فرض نمازیں، دوسری صلاة غیر مكتوبہ یعنی وہ نمازیں کو فرض نہیں، یہ تمام نمازیں نفل ہی ہیں، اب ان میں جس نماز کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تاکید ثابت ہوتی ہے، وہ سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں، اور جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوتی ہیں، لیکن ان کی ایسی تاکید نہیں ہوتی، وہ سنت غیر مؤکدہ کہلاتی ہیں، اور ان کے علاوہ اگر کوئی شخص مزید بھی صلاة پڑھتا ہے تو انہیں نوافل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ فقہ کی اصطلاحیں ہیں،
وگرنہ یہ تمام نمازیں نوافل یعنی صلاة غیر مكتوبہ میں شامل ہیں!
اور دوسری جگہ اس کے دلائل یوں بیان کئے تھے:
حدیث میں وہ بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث میں خاص فجر کی سنت کو بھی نفل ہی کہا گیا ہے:
حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ.
ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءنے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پا بندی نہیں کرتے تھے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّهَجُّدِ (بَابُ تَعَاهُدِرَكعَتِي الفَجرِ وَمَن سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا)
صحیح بخاری: کتاب: تہجد کا بیان (باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا)

وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَطَاءٌ عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ عَلَى شَيْءٍ
مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مُعَاهَدَةً مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الصُّبْحِ.

حییٰ بن سعید نے ابن جریج سے روایت کی،انھوں نے کہا:مجھے عطاء بن عبید بن عمیر سے حدیث سنائی اور ا نھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سےروایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نوافل میں سے کسی اور (نماز) کی اتنی زیادہ پاسداری نہیں کرتے تھے جتنی آپ صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کی کرتے تھے۔
صحيح مسلم: كِتَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا (بَابُ اسْتِحْبَابِ رَكْعَتَيْ سُنَّةِ الْفَجْرِ، وَالْحَثِّ عَلَيْهِمَا وَتَخْفِيفِهِمَا، وَالْمُحَافَظَةِ عَلَيْهِمَا، وَبَيَانِ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقْرَأَ فِيهِمَا)
صحیح مسلم: کتاب: مسافرو ں کی نماز قصر کا بیان (باب: فجر کی دو سنتوں کا مستحب ہونا ‘ان کی ترغیب‘ان کو مختصر پڑھنا ‘ہمیشہ ان کی پابندی کرنا اور اس بات کا بیان کہ ان میں کون سی (سورتوں کی )قراءت مستحب ہے)

اور یہ حدیث کتب فقہ حنفیہ میں بھی منقول ہے:
(قَوْلُهُ وَالسُّنَّةُ قَبْلَ الْفَجْرِ وَبَعْدَ الظُّهْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ رَكْعَتَانِ وَقَبْلَ الظُّهْرِ وَالْجُمُعَةِ وَبَعْدَهَا أَرْبَعٌ) شَرَعَ فِي بَيَانِ النَّوَافِلِ بَعْدَ ذِكْرِ الْوَاجِبِ فَذَكَرَ أَنَّهَا نَوْعَانِ سُنَّةٌ وَمَنْدُوبٌ فَالْأَوَّلُ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَا عَدَا الْجُمُعَةِ ثَنَتَا عَشْرَةَ رَكْعَةً وَفِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ رَكْعَةً وَالْأَصْلُ فِيهِ مَا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْ السُّنَّةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ» وَذَكَرَهَا كَمَا فِي الْكِتَابِ وَرَوَى مُسْلِمٌ أَنَّهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - كَانَ يُصَلِّيهَا وَبَدَأَ الْمُصَنِّفُ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ بِاتِّفَاقِ الرِّوَايَاتِ لِمَا فِي الصَّحِيحَيْنِ عَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ «لَمْ يَكُنْ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَلَى شَيْءٍ مِنْ النَّوَافِلِ أَشَدَّ تَعَاهُدًا مِنْهُ عَلَى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ» وَفِي لَفْظٍ لِمُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» وَفِي أَوْسَطِ الطَّبَرَانِيِّ عَنْهَا أَيْضًا «لَمْ أَرَهُ تَرَكَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي سَفَرٍ وَلَا حَضَرٍ وَلَا صِحَّةٍ وَلَا سَقَمٍ» وَقَدْ ذَكَرُوا مَا يَدُلُّ عَلَى وُجُوبِهَا قَالَ فِي الْخُلَاصَةِ أَجْمَعُوا أَنَّ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ كَذَا رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ اهـ.
وَفِي النِّهَايَةِ قَالَ مَشَايِخُنَا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا فِي الْفَتَاوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَى فَتْوَاهُ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ اهـ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 83 جلد 02 - البحر الرائق شرح كنز الدقائق - زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري (المتوفى: 970هـ) - دار الكتب العلمية

باب النوافل
السنة في الصلاة أن يصلي ركعتين بعد طلوع الفجر وأربعا قبل الظهر وركعتين بعدها وأربعا قبل العصر وإن شاء ركعتين وركعتين بعد المغرب وأربعا قبل العشاء وأربعا بعدها وإن شاء ركعتين

ونوافل النهار إن شاء صلى ركعتين بتسليمة واحدة وإن شاء أربعا وتكره الزيادة على ذلك
فأما نافلة الليل

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 33 مختصر القدوري في الفقه الحنفي - أحمد بن محمد بن أحمد بن جعفر بن حمدان أبو الحسين القدوري (المتوفى: 428هـ) - دار الكتب العلمية

بَاب صَلَاة التَّطَوُّع
التَّطَوُّع نَوْعَانِ تطوع مُطلق وتطوع بِسَبَب
أماالمطلق فَيُسْتَحَب أَدَاؤُهُ فِي كل وَقت لم يكره فِيهِ التَّطَوُّع
وَيجوز أَدَاؤُهُ مَعَ الْكَرَاهَة فِي الْأَوْقَات الْمَكْرُوهَة
وَأما التَّطَوُّع بِسَبَب فوقته مَا ورد الشَّرْع بِهِ كالسنن الْمَعْهُودَة للصلوات الْمَكْتُوبَة

وَذكر أَبُو الْحسن الْكَرْخِي هَهُنَا وَقَالَ التَّطَوُّع قبل الْفجْر رَكْعَتَانِ أَي التَّطَوُّع الْمسنون قبل صَلَاة الْفجْر رَكْعَتَانِ وَأَرْبع قبل الظّهْر لَا يسلم إِلَّا فِي آخرهَا وركعتان بعد الظّهْر وَأَرْبع قبل الْعَصْر وركعتان بعد الْمغرب وَأَرْبع قبل الْعشَاء الْأَخِيرَة إِن أحب ذَلِك وَأَرْبع بعْدهَا

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 195 جلد 01 تحفة الفقهاء - محمد بن أحمد بن أبي أحمد، أبو بكر علاء الدين السمرقندي (المتوفى: نحو 540هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

[فَصْلٌ صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِي التطوع]
(فَصْلٌ):
وَأَمَّا صِفَةُ الْقِرَاءَةِ فِيهَا فَالْقِرَاءَةُ فِي السُّنَنِ فِي الرَّكَعَاتِ كُلِّهَا فَرْضٌ؛
لِأَنَّ السُّنَّةَ تَطَوُّعٌ وَكُلُّ شَفْعٍ مِنْ التَّطَوُّعِ صَلَاةٌ عَلَى حِدَةٍ؛ لِمَا نَذْكُرُ فِي صَلَاةِ التَّطَوُّعِ فَكَانَ كُلُّ شَفْعٍ مِنْهَا بِمَنْزِلَةِ الشَّفْعِ الْأَوَّلِ مِنْ الْفَرَائِضِ، وَقَدْ رَوَيْنَا فِي حَدِيثِ أَبِي أَيُّوبَ أَنَّهُ «سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ الْأَرْبَعِ قَبْلَ الظُّهْرِ أَفِي كُلِّهِنَّ قِرَاءَةٌ؟ قَالَ: نَعَمْ» وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 285 جلد 02 - بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - علاء الدين، أبو بكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى: 587هـ) - دار الكتب العلمية

(وَالسُّنَّةُ قَبْلَ) فَرْضِ (الْفَجْرِ) لَمَّا بَيَّنَ أَحْكَامَ الْوِتْرِ شَرَعَ فِي النَّوَافِلِ وَالنَّفَلُ أَعَمُّ مِنْ السُّنَّةِ مُؤَكَّدَةٍ وَغَيْرِ مُؤَكَّدَةٍ وَابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ الْإِمَامِ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا تَجُوزُ.
وَفِي لَفْظِ مُسْلِمٍ «رَكْعَتَا الْفَجْرِ خَيْرٌ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا» قَالُوا الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى يَجُوزُ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ وَتُقْضَى إذَا فَاتَتْ مَعَهُ بِخِلَافِ سَائِرِ السُّنَنِ وَفِي الْبَحْرِ مَنْ أَنْكَرَ سُنَّةَ الْفَجْرِ يُخْشَى عَلَيْهِ الْكُفْرُ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 193 - 194 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 130 جلد 01 مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر - عبد الرحمن بن محمد بن سليمان المدعو بشيخي زاده, يعرف بداماد أفندي (المتوفى: 1078هـ) - دار إحياء التراث العربي


[بَابُ النَّوَافِلِ]
ابْتَدَأَ بِسُنَّةِ الْفَجْرِ
لِأَنَّهَا أَقْوَى السُّنَنِ حَتَّى رَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ لَوْ صَلَّاهَا قَاعِدًا مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ لَا يَجُوزُ، وَقَالُوا: الْعَالِمُ إذَا صَارَ مَرْجِعًا لِلْفَتْوَى جَازَ لَهُ تَرْكُ سَائِرِ السُّنَنِ لِحَاجَةِ النَّاسِ إلَّا سُنَّةَ الْفَجْرِ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 455 جلد 01 - شرح فتح القدير شرح كتاب الهداية في شرح البداية - كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ) - دار الكتب العلمية

بَابُ النَّوَافِلِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «مَنْ ثَابَرَ عَلَى ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ: رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَأَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءَ». وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 65 جلد 01 - الاختيار لتعليل المختار - عبد الله بن محمود بن مودود الموصلي البلدحي، مجد الدين أبو الفضل الحنفي (المتوفى: 683هـ) - دار الكتب العلمية، بيروت

تو جناب! ہمارا مراسلہ بلکل بھی غیر متعلق نہیں!
کیونکہ مکتوبہ یعنی فرض نمازوں کے علاوہ تمام نمازیں غیر مکتوبہ یعنی صلاۃ التطوع یعنی نوافل ہی ہیں! اور سنت مؤکدہ وغیر مؤکدہ بھی اسی کی اقسام میں سے ہیں!
اور ویسے بھی جس حدیث کے حوالہ سے بحث کی گئی ہے، اس میں لا صلاة الا مکتوبہ کے االفاظ ہیں۔
بالفرض محال اب بھی کوئی بضد ہو تو معلوم ہونا چاہئے کہ سنت نماز بھی الا مکتوبہ میں شامل ہے، یعنی کہ سنت نماز بھی فرض و مکتوبہ نماز نہیں! اور یہ حدیث اس کے متعلق بھی ہے!
لیکن اس کو دین سمجھ کر کیا جارہا ہے یعنی اس کا ثواب ملے گا تو دوران تروایح اس طرح کا درس تو ثابت کرنا پڑے گا۔
جی! قرآن و حدیث کے درس کے لئے قرآن وحدیث میں کوئی خاص وقت متعین نہیں، بلکہ عام ہے، لہٰذا کسی بھی وقت درس کرنا جائز ہے!
جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ اس سے زیادہ رکعات بطور تروایح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، پھر کہہ رہے ہیں کہ نفل ہے کوئی بڑھا لے تو کوئی مضائقہ نہیں ۔
تحتیہ الوضو دو رکعات ہیں اور کوئی چار ، چھ یا اور زائد پڑھ لے تو صحیح ہوگا؟
ایک مقام پر یوں بیان کیا تھا:
فرض وہ اعمال ہیں کہ جس کی ادائیگی قرآن و سنت سے لازم قرار پاتی ہو، اور وہ اعمال کہ جس کی ادائیگی باعث ثواب تو ہو لیکن لازم قرار نہ پائے وہ مستحب و نوافل کہلاتے ہیں۔
اب ان مستحب نوافل میں بلحاظ تلقین و تاکید مزید تقسیم ہے، کہ جس عمل کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اعتبار سے مخصوص کرکے اختیار کیا اور اس پر ہمیشگی بھی اختیار کی اسے سنت مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس پر ہمیشگی اختیار نہ کی کہ کبھی ادا کیا کبھی چھوڑ دیا، اسے سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں۔ اور جس عمل و عبادت کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص کر کے اختیار نہ کیا اور بلکہ لوگوں کے لئے اختیار رکھا وہ نوافل کہلاتے ہیں۔
مثلاً فجر کی دو رکعت سنت؛ یہ وہ عمل ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو رکعت کے ساتھ خاص کر کے ادا کیا ہے۔ فجر سے قبل کوئی شخص کتنی ہی رکعت ادا کرے، سنت دو ہی ہوں گی، لیکن فجر ہو جانے کے بعد نماز فجر تک نوافل نماز پڑھنے ممانعت بھی نہیں، لہٰذا اگر کوئی شخص دو رکعت سنت کے علاوہ نماز فجر سے قبل کچھ نفل نماز بھی پڑھنا چاہے تو وہ بلا قید تعداد رکعت جائز ہے۔
یہی معاملہ تراویح و تہجد کی نماز کا ہے۔ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت تراویح یا تہجد ثابت ہے۔ لیکن اگر کوئی اس سے زیادہ رکعت ادا کرتا ہے، تو سنت تو آٹھ ہی ہوں گی، اور باقی مستحب و نفل ہوں گی! اور ان نوافل کی رکعت کی تعداد متعین نہیں!
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
تراویح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت بھی پڑھائی، اور اس کے علاوہ رمضان کے علاوہ بھی تہجد کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھنے کا ثبوت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے!
ایک ہے قیام رمضان اور ایک ہے قیام اللیل۔
قیام رمضان کی جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ادا کی اور قیام اللیل کی جماعت کبھی بھی مسجد میں ادا نہیں فرمائی ۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
جی! تراویح کی 8 رکعت ہی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اس سے زیادہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کہنا درست نہیں!
لیکن اس سے زیادہ رکعت پڑھنے کا جواز اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے!
تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ مسجد میں پڑھائی اور اول شب میں پڑھائی جب کہ تہجد کی جماعت کی نہ تو کبھی ترغیب دی اور نہ ہی کبھی مسجد میں پڑھائی۔
جس کا جواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ سنت کیونکر نہیں؟
 
Top