• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابو يعلى: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَحْرٍ، قَالَا: [حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ الْكَلْبِيُّ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَتَتِ النِّسَاءُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ الرِّجَالُ بِالْفَضْلِ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَمَا لَنَا عَمَلٌ نُدْرِكُ بِهِ عَمَلَ الْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ. قَالَ: «مِهْنَةُ إِحْدَاكُنَّ فِي بَيْتِهَا تُدْرِكُ عَمَلَ الْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ»

ترجمہ: نبی ﷺ کے پاس عورتیں آئی اور کہا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم جہاد فی سبیل اللّٰہ کی وجہ سے مرد ہم سے فضیلت میں آگے بڑھ گئے، ہمارے لیے کونسا عمل ہے جس کے ذریعے ہم مجاہد فی سبیل اللّٰہ کا اجر پا سکتے ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: تمہارا اپنے گھر کے کام میں مصروف رہنے سے تمہیں مجاہد فی سبیل اللّٰہ کا اجر ملے گا۔

۩تخريج: مسند البزار (٦٩٦٢)(المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (٣٤١٥، ٣٤١٦)(المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (ترجمة ٣٤٥) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ المعجم الأوسط للطبراني (٢٨٠٧) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (ترجمة ٦٦٤ روح بن المسيب الكلبى البصرى) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الترغيب في فضائل الأعمال لابن شاهين (٤٥٢)(المتوفى: ٣٨٥هـ)؛ الفوائد المنتقاة عن الشيوخ العوالي للحربي (٧٥)(المتوفى: ٣٨٦هـ)؛ الضعيفة (٢٧٤٤)؛ (ضعيف)

بزار رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ ہم کسی کو نہیں جانتے جو ثَابِتٌ الْبُنَانِي سے اس حدیث کو روایت کرتا ہے سوائے أَبُو رَجَاءٍ رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ الْكَلْبِيُّ کے، اور وہ مشہور بصری ہے۔

ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے، اسانید تبدیل کرتا ہے، موقوف احادیث کو مرفوع بیان کرتا ہے اس سے نہ روایت کرنا جائز ہے اور نہ اس کی حدیث لکھنا جائز ہے۔

ابن معین رحمہ اللّٰہ نے " صويلح " کہا ہے اور ابو حاتم نے " صالح، ليس بالقوي " کہا ہے.

ابن عدی کہتے ہیں رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّب کی احادیث محفوظ نہیں ہیں۔

اور ابن کثیر رحمہ اللّٰہ نے اپنی تفسیر میں اس پر سکوت اختیار کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قَالَ أَبُو دَاوُدَ الطيالسي : حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:

«كَانَ الَّذِي تَزَوَّجَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ سَلَمَةَ عَلَى شَيْءٍ قِيمَتُهُ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ»

ترجمہ: جس چیز کے بدلے نبی ﷺ نے ام سلمہ رضی ﷲ عنہا سے نکاح کیا اس کی قیمت دس درہم تھی۔

۩تخريج: مسند أبي داود الطيالسي (2134)(المتوفى: ٢٠٤هـ)؛ مسند البزار( 6897) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (3385) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (498) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي(في ترجمة ٣٩٠- الحكم بْن عطية العيشي البصري ) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛الضعيفة ( 6469)؛(منكر)

الْحَكَمُ بْنُ عَطِيَّة مختلف فیہ راوی ہے۔ ابن معین رحمہ اللّٰہ نے اس کی توثیق کی ہے اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابوالولید اس کو ضعیف کہتے تھے۔ امام نسائی اور ابن ابی داود نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں اسے اس وقت تک صالح الحدیث سمجھتا تھا جب تک میرے پاس اس کی وہ حدیث نہیں آئی تھی جس میں اس نے غلطی کی ہے۔ ایک اور روایت میں امام احمد بن حنبل کا قول ہے کہ حکم بن عطیہ سے روایت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے سوائے اس کے کہ ابو داود طیالسی اس سے منکر احادیث روایت کرتے ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث انہی منکر روایات میں سے ایک ہے۔
اس لیے کہ اس کو ابو داود طیالسی نے حکم بن عطیہ سے روایت کیا ہے۔

میمونی کہتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللّٰہ سے حکم بن عطیہ کے متعلق سوال کیا گیا کہ تو انہوں نے کہا: میں ان کے متعلق اچھا ہی جانتا ہوں، تو کسی نے امام احمد سے حکم بن عطیہ کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے بہت زیادہ تعجب کیا اور کیا کہ یہ لوگ حدیث لکھتے نہیں تھے بلکہ یاداشت پر ہی بھروسہ کرتے اور گمان سے کام لیتے، ان میں سے کوئی ایک بات سنتا اور اس میں وہم کرتا، یہ سب باتیں تہذیب التہذیب میں ہیں ۔
عقیلی رحمہ اللّٰہ نے بھی "الضعفاء" میں امام احمد سے ایسا ہی قول نقل کیا ہے ۔

بزار رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم حکم بن عطیہ کی روایت سے ہی جانتے ہیں اور ایک جگہ اس کی روایت کے یہ الفاظ ہیں "تَزَوَّجَهَا عَلَى مَتَاعٍ وَرَحًى قِيمَتُهُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا" یعنی نبی ﷺ نے ام سلمہ رضی ﷲ عنہا سے چالیس درہم مہر دے کر نکاح کیا ۔

شیخ البانی: یہ الفاظ دوسری کسی کتاب میں ام سلمہ رضی ﷲ عنہا سے متعلق نہیں ہیں، بلکہ یہ عائشہ رضی ﷲ عنہا کے متعلق روایت ہے ۔

ابن حبان رحمہ اللّٰہ "الضعفاء" میں حکم بن عطیہ کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ " ابو الولید حکم پر بہت سخت تنقید کرتے تھے اور اسے بہت زیادہ ضعیف کہتے تھے، حکم ان لوگوں میں سے تھا جو یہ نہیں جانتا کہ وہ کیا بیان کر رہا ہے اور بعض اوقات حدیث بیان کرنے میں شک کا شکار ہوتا تھا اور موضوع حدیث لگتی ہے، اس لیے اس سے روایت ترک کرنا ہی بہتر ہے"۔
بعض کذابین نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے حکم بن عطیہ سے یہ حدیث چوری کی ہے ۔وہ روایت یہ ہے ۔

قال ابن عدي: حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ الضَّحَّاكِ بْنِ عُمَر بْنِ أَبِي عَاصِمٍ، حَدَّثَنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمد بْنِ الْحَارِثِ الْمُكَتِّبُ، حَدَّثَنا إِسْمَاعِيلُ بن عَمْرو، [حَدَّثَنا عَمْرو بن الأزهر، حَدَّثَنا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَن أَبِي نَضْرَةَ، عَن أَبِي سَعِيد الْخُدْرِيِّ قَالَ «تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ سَلَمَةَ وَأَصْدَقَهَا عَشْرَةَ دَرَاهِمَ».

تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي(في ترجمة ١٢٩٦- عَمْرو بْن الأزهر العتكي بصري) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ المعجم الأوسط للطبراني (٤٦٤) (المتوفى: ٣٦٠هـ)

طبرانی رحمہ اللّٰہ اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حُمَيْدٌ الطَّوِيل سے صرف عَمْرو بن الأزهر نے روایت کیا ہے ۔
ذہبی رحمہ اللّٰہ "المغني" میں کہتے ہیں عَمْرو بن الأزهر کذاب راوی ہے، اور امام احمد رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ احادیث گھڑتا تھا ۔اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ عَمْرو بن الأزهر متروک ہے ۔

ایسی ہی ایک حدیث عائشہ رضی ﷲ عنہا سے بھی مروی ہے

قال الطبراني: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ نا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: نا وَكِيعٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَتَاعٍ يَسْوَى أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا»
لَمْ يَرْوِهِ عَنْ فُضَيْلٍ إِلَّا وَكِيعٌ "

تخريج: المعجم الأوسط للطبراني (٢٠٧٦)
عَطِيَّةَ مدلس ضعیف راوی ہیں، فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوق میں ضعف ہے، ذہبی رحمہ اللّٰہ "المغني" میں کہتے کہ بعض نے اس کی توثیق کی ہے، نسائی اور ابن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُثْمَانَ بْنِ صَالِحٍ، ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ طَلْحَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ يَقُولُ:

«النَّاكِحُ فِي قَوْمِهِ كَالمُعْشِبِ فِي دَارِهِ»

ترجمہ: اپنی قوم میں نکاح کرنے والے کی مثال اس جانور کی طرح ہے جس کو سبز گھاس اس کے گھر میں ملے ۔

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٢٠٦)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ أصبهان (في ترجمة ١٧٨ - أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ زِيَادٍ أَبُو عُمَرَ الشُّرُوطِي)ُّ و معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلميّ (٦٩١٩) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الأحاديث المختارة لضياء الدين المقدسي (٨٤٢) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛ الضعيفة (١٥٣٩)؛ (ضعيف)

سُلَيْمَانُ بْنُ أَيُّوب: ذہنی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ مناکیر روایت کرتا ہے اور اس کی توثیق کی گئی ہے ۔
سُلَيْمَانُ بْنُ أَيُّوب کے والد اور دادا کو میں نہیں جانتا ، اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس سند میں بعض کو میں نہیں جانتا (سلیمان کے والد اور دادا کی طرف اشارہ ہے)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البيهقي: أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، وَأَبُو بَكْرٍ الْقَاضِي قَالَا: ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ، ثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَسَنِ بْنِ صَالِحٍ، وَشَرِيكٌ، عَنْ أَبِي هَارُونَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ شَرِيكٌ: رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«لَيْسَ عَلَى الرَّجُلِ جُنَاحٌ أَنْ يَتَزَوَّجَ بِقَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ مِنْ مَالِهِ إِذَا تَرَاضَوْا وَأَشْهِدُوا»

ترجمہ: جب وہ آپس میں راضی ہوں اور گواہ موجود ہوں تو آدمی پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کم کے بدلے نکاح کرے یا زیادہ کے بدلے۔

۩تخريج: السنن الكبرى للبيهقي (١٤٣٨١) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الضعيفة (٤٣٧٦)؛ (ضعيف جداً)

بیہقی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِي سے دلیل نہیں لی جاتی ۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ وہ متروک ہے اور بعض نے اسے کذاب بھی کہا ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے کہا ہے ۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أحمد بن حنبل: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، - قَالَ عَبْدُ اللهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ هَارُونَ - أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْجُهَنِيُّ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«ثَلاثَةٌ يَا عَلِيُّ لَا تُؤَخِّرْهُنَّ: الصَّلاةُ إِذَا أَتَتْ (آنَتْ) ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدَتْ كُفُؤًا»

ترجمہ: اے علی! تین چیزوں میں تاخیر مت کرو: نماز میں جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ ( کی نماز اور تدفین میں) جب وہ حاضر ہو، اور لڑکی کی شادی میں جب اس کے برابر کا رشتہ مل جائے۔

تخريج: مسند أحمد (828)(المتوفى: ٢٤١ھ)؛التاريخ الكبير للبخاري (المتوفي ٢٥٦ھ)؛ سنن ابن ماجه (مختصرة بذكر الجنازة فقط) (1486)(المتوفى ٢٧٣ھ)؛سنن الترمذي(1075،171)(المتوفى: ٢٧٩ھ)؛ المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (المتوفى: ٣٥٤ھ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (2686)(المتوفى: ٤٠٥ھ)؛ السنن الكبرى للبيهقي(13757)(المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى:٥٧١ھ)؛الضعيفة (5751)؛ (ضعيف)

امام ترمذی نے كتاب الصلاة میں اس حدیث کو حسن اور "کتاب الجنائز " میں غریب کہا ہے اور کہا ہے کہ اس کی سند مجھے متصل نہیں لگتی۔ ان کی متابعت عراقی نے " تخريج الإحياء " میں کرتے ہوئے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور عراقی کا تعقب زبیدی نے " شرح الإحياء " میں کیا ہے۔

حاکم رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے اور شیخین نے اس کی تخریج نہیں کی۔ اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے اور ان کی متابعت أحمد شاكر رحمہ اللّٰہ نے مسند احمد کی تعلیق میں کی ہے اور کہا کہ "اس کی سند صحیح ہے سعيد بن عبد الله الجهني؛ مصري ثقہ راوی ہے ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کو ثقات میں ذکر کیا ہے"۔

شیخ البانی: ہاں ابن حبان نے اس کا ذکر ثقات میں کیا ہے لیکن ان کی مخالفت ابو حاتم رازی رحمہ اللّٰہ نے کی ہے جو ان سے زیادہ رجال کا علم رکھنے والے تھے، ابو حاتم کے بیٹے نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ سعيد بن عبد الله الجهني مجہول ہے۔ ابو حاتم رحمہ اللّٰہ کی متابعت ذہبی نے "میزان الاعتدال" اور " المغني " میں اور ابن حجر نے "التلخيص" میں کی ہے اور یہی بات صحیح ہے۔ کیونکہ اس سے صرف ابن وھب نے روایت کیا ہے اس لیے وہ مجہول العین ہے۔

ابن حبان رحمہ اللّٰہ مجہول راویوں کی توثیق میں تساہل سے کام لینے میں مشہور ہیں، یہ بات ان لوگوں پر بلکل واضح ہے جس نے ان کی کتاب "الثقات " کا مطالعہ کیا ہے کیونکہ اس میں انہوں نے سیکڑوں مجہول راویوں کی توثیق کی ہے اور اس میں بہت سارے راوی ایسے ہیں جن سے انہی کی طرح مجہول راویوں نے روایت کی ہے یا ایسے ضعیف رواۃ سے روایت کی وجہ سے جن کا ضعف حفاظ کے نزدیک معروف ہے۔

بیہقی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو "کتاب النکاح" میں بیان کرنے سے پہلے کہا ہے کہ نکاح میں برابری دیکھنے کے متعلق اکثر احادیث (ضعف کی وجہ سے) حجت کے قابل نہیں ہے۔پھر یہ حدیث بیان کی ہے۔ نووی رحمہ اللّٰہ نے " المجموع " میں اسی کی تصدیق کی ہے۔

شیخ البانی: زیلعی کا "نصب الراية " میں اور حافظ ابن حجر کا " الدراية " میں سند میں انقطاع کا اقرار کرنے کے باوجود مجھے معلوم نہیں کہ انقطاع کہا ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے " الدراية " میں دوسری جگہ قطعی طور پر ضعیف کہا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کو ترمذی اور حاکم نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔اور " التلخيص الحبير " میں کہا ہے کہ "سعید" مجہول ہے، ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے " الضعفاء " میں اس کا نام سعيد بن عبد الرحمن بن عبد الله بتایا ہے اور اور مستدرک حاکم کی سند میں ان کا نام سعيد ابن عبد الرحمن الجمحي ہے اور یہ حاکم رحمہ اللّٰہ کی واضح غلطیوں میں سے ہے ۔

شیخ البانی: حافظ ابن حجر نے اس کا سبب بیان نہیں کیا، لیکن میرے لیے اس کا بیان کرنا ضروری ہے ۔اس میں دو باتیں ہیں ۔
پہلی بات جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ حاکم نے اس حدیث کو امام احمد اور ان کے بیٹے کی سند سے روایت کیا ہے، ان دونوں نے اپنے شیخ هارون بن معروف جو ثقہ راوی ہیں اور شیخین کے راویوں میں سے ہے، عن ابن وهب عن "سعيد بن عبد الله الجهني"، اور یہی صحیح ہے یعنی راوی کا نام "سعيد بن عبد الله الجهني" ہے اور حاکم کا امام احمد اور ان کے بیٹے سے انہی کے خلاف روایت کرنا بغیر کسی شک کے غلط ہے ۔
دوسری بات یہ کہ حاکم هارون بن معروف کی متابعت کرنے والے تمام راویوں کے مخالف ہیں، یعنی بخاری اور ترمذی کے پاس قتيبة بن سعيد، ابن ماجہ کے پاس حرملة بن يحيى اور خطیب بغدادی کے پاس عيسى بن أحمد العسقلاني کے خلاف ہیں اور یہ تمام راوی ثقہ ہیں، تو یہ بات بہت زیادہ مشکل ہے کہ یہ تمام حفاظ غلطی کریں اور حاکم صحیح ہوں ۔اور یہی بات ابن حبان رحمہ اللّٰہ پر بھی صادق آتی ہے اس لیے کہ انہوں نے کہا ہے:

حدثنا ابن خزيمة: ثنا محمد بن يحيى الأهلي قال: ثنا هارون ين معروف: ثنا ابن وهب عن سعيد بن عبد الرحمن الجمحي. . . إلي آخر الإسناد.

اور اسی طرح ابن حبان نے اس حدیث کو سعيد بن عبد الرحمن بن عبد الله الجمحي کے تعارف میں بیان کیا ہے

اس سے معلوم ہوا کہ ابن حبان رحمہ اللّٰہ کی غلطی حاکم کی غلطی سے بڑھ کر ہے وہ اس لیے کہ ابن حبان نے سند میں اپنی غلطی کی تائید کرتے ہوئے اس حدیث کو "الجمحي" کے تعارف میں بھی بیان کیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ "الجمحي" عبيد الله بن عمرو وغيره ثقہ رواۃ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے! ۔
حالانکہ "الجمحي" معروف راوی ہیں، انکی توثیق کئی ایک نے کی ہے، اور انکی احادیث امام مسلم نے بھی روایت کی ہیں، اس لیے ذہبی رحمہ اللّٰہ نے "الجمحي" کی ابن معين سے توثیق بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ ابن حبان «خساف قصاب» ہیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کی علت سعيد بن عبد الله الجهني کا مجہول ہونا ہے اور جس نے سعيد بن عبد الله الجهني کی جگہ سعيد بن عبد الرحمن الجمحي کا نام ذکر کیا ہے اس کو وہم ہوا ہے، اور اگر یہ حدیث سعيد بن عبد الرحمن الجمحي کی روایت ہوتی تو یہ کم سے کم حسن درجہ کی حدیث ہوتی ۔و اللّٰہ اعلم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال القضاعي: أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَيْمُونٍ النَّصِيبِيُّ، قَالَ: ثنا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ عُمَرَ الدَّارَقُطْنِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الدِّيبَاجِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الدَّانَاجُ، ثنا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْفَارِسِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«لَيْسَ مِنَّا مَنْ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ ثُمَّ قَتَّرَ عَلَى عِيَالِهِ» «وَهُمْ يَجِدُوْنَ رِيحَ الْقُتَارِ مِنَ الْجِيرَانِ، وَيَرَوْنَهُمْ يُكْسَوْنَ وَلَا يُكْسَوْنَ»

ترجمہ: وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کو اللّٰہ تعالی نے مالدار بنایا ہو پھر بھی وہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنے میں کنجوسی کرے، (وہ لوگ پڑوس سے پکی ہوئی چیزوں کی خوشبو برابر محسوس کر رہے ہوں، اور وہ پڑوسیوں کو دیکھ رہے ہوں کہ ان کو کپڑے بھی پہنائے جاتے ہیں لیکن وہ خود کپڑوں سے محروم ہیں)۔

۩تخريج: مسند الشهاب للقضاعي (١١٩٢) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلميّ (٥٢٧١) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الضعيفة (٤٣٩٣)؛ (ضعيف)

(شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے ضعیفہ میں حدیث کا صرف پہلا حصہ بیان کیا ہے-مترجم)

شیخ البانی: یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْفَارِسِي کے متعلق ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں سے باطل احادیث روایت کرتا ہے ۔

أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَان (أبو اليسع) کے متعلق ازدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ حجت نہیں ہے، اور ابن القطان نے اسے مجہول کہا ہے ۔

اس حدیث کو سیوطی نے دیلمی کی "مسند الفردوس" کی طرف منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ دیلمی نے جبير بن مطعم کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے. مناوی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عمرو بن دينار قهرمان آل الزبير ہے اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے ۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال امام أحمد: حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ ( أَبُو السَّمْحِ )، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«السِّبَاعُ حَرَامٌ»

ترجمہ: کثرت جماع پر فخر کرنا حرام ہے۔

۩تخريج: مسند أحمد (١١٢٣٥) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (١٣٩٦) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛الكنى والأسماء للدولابي (٢٠٢٠) (المتوفى: ٣١٠هـ)؛الضعفاء االكبير للعقيلي (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)(في ترجمة ٦٤٧- دَرَّاجٌ يقال هو بن سمعان أبو السمح المصري)؛ شعب الإيمان (٤٨٦١) و السنن الكبرى للبيهقي (١٤٠٩٩) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الضعيفة (٣٧٣٠)؛ (منكر)

عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف اسی سند سے روایت ہے اور صرف دَرَّاجٌ کی سند سے روایت ہے۔ اور احمد رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی احادیث منکر ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن لهيعة بھی ضعیف ہے لیکن ان کی متابعت الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نے مسند أبي يعلى میں، مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَد نے الكنى والأسماء للدولابي میں اور عَمْرِو بْنِ الْحَارِث نے السنن الكبرى میں دَرَّاجٌ سے روایت کر کے کی ہے۔

اس لیے اس حدیث کی علت صرف دَرَّاجٌ ہے

(تنبيہ ): الدولابي کی الكنى والأسماء میں لفظ السِّبَاعُ ہے اور باقی تمام کتب میں لفظ الشِّيَاعُ ہے۔

ابن الأثير (المتوفى: ٦٠٦هـ) "النهاية في غريب الحديث والأثر" میں کہتے ہیں کہ ابو عمر نے کہا ہے کہ الشِّيَاعُ صحیح نہیں ہے بلکہ السِّبَاعُ صحیح ہے، جس کا معنی ہے "المفاخرة بكثرة الجماع".
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال النسائي: أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ ابْنِ عَيَّاشٍ -وَهُوَ أَبُو بَكْرٍ - [عَنْ صَدَقَةَ بْنِ سَعِيدٍ، ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا: حَدَّثنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ مَعَ أُمِّي وَخَالَتِي، فَسَأَلَتَاهَا: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا حَاضَتْ إِحْدَاكُنَّ؟ قَالَتْ: كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا حَاضَتْ إِحْدَانَا أَنْ تَتَّزِرَ بِإِزَارٍ وَاسِعٍ، ثُمَّ يَلْتَزِمُ صَدْرَهَا وَثَدْيَيْهَا۔

ترجمہ: جمیع بن عمیر کہتے ہیں: میں اپنی ماں اور خالہ کے ساتھ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، تو ان دونوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: جب آپ میں سے کوئی حائضہ ہو جاتی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کیا کرتے تھے؟ عائشہ رضی ﷲ عنہا نے کہا: جب ہم میں سے کوئی حائضہ ہوتی تو آپ اسے کشادہ تہبند باندھنے کا حکم دیتے، پھر آپ اس کے سینہ اور چھاتی سے چمٹتے۔

۩تخريج: مسند أحمد( ٢٤٩٢٣)(المتوفى: ٢٤١هـ)؛ السنن الصغرى للنسائي (٣٧٥)(المتوفى: ٣٠٣هـ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (٤٨٦٥) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ الضعيفة (٥٧٠٥)؛ (منکر)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کی تین علتیں ہیں۔

1) جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْر( التيمي الكوفي) مختلف فیہ راوی ہے۔ ذہبی الضعفاء میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس سے روایت کی ہے بعض نے سچا سمجھا اور بعض نے جھوٹ کا الزام لگایا ہے۔ اللّٰہ اعلم
اور الکاشف میں ذہبی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ "واہ " (بہت زیادہ ضعیف ہے)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تقریب التھذیب میں کہتے ہیں کہ صدوق راوی ہے، غلطی کرتا ہے اور اس میں تشیع بھی تھا " صدوق يخطئ ويتشيع "

2) صَدَقَةَ بْنِ سَعِيد بھی مختلف فیہ راوی ہے۔ بخاری رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی احادیث عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ ابن وضاح نے ضعیف کہا ہے، ساجی کہتے ہیں " ليس بشيء "۔
ابو حاتم کہتے ہیں شیخ ہے، ابن حبان نے "الثقات" میں ذکر کیا ہے، ذہبی الکاشف میں کہتے ہیں صدوق راوی ہے، حافظ ابن حجر تقریب التھذیب میں کہتے ہیں مقبول راوی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ زیادہ راجح بات ہے کہ اس کی حدیث متابعت کےلیے مقبول ہے اور اگر کسی راوی کی مخالفت میں منفرد ہوتو ضعیف ہے۔اور یہ حدیث اسی طرح کی ہے۔

3) حدیث کے متن میں اضطراب ہے، ابو بکر بن عیاش کی روایت کا یہی متن ہے۔ اس کی مخالفت عبد الواحد بن زياد نے کی ہے ان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں " كَانَ إِذَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ إِحْدَانَا ائْتَزَرَتْ بِالْإِزَارِ الْوَاسِعِ، ثُمَّالْتَزَمَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهَا وَنَحْرِهَا " (أخرجه أحمد)

اگر یہ حدیث ثابت ہوتی تو عبد الواحد بن زياد کی روایت کے الفاظ زیادہ صحیح ہوتے کیونکہ وہ ابو بکر بن عیاش سے زیادہ ثقہ راوی ہیں۔

حافظ ابن حجر نے عبد الواحد بن زياد کے متعلق کہا ہے کہ وہ ثقہ ہے، ان کی روایات میں صرف ان روایات پر کلام ہے جو انہوں نے اعمش سے روایت کی ہیں، اور ان کی روایات شیخین نے صحیحین میں روایت کی ہیں۔

اور ابو بکر بن عیاش کے متعلق کہا ہے کہ ثقہ عابد ہے مگر جب ان کی عمر زیادہ ہو گی تو حافظہ کمزور ہوگیا اور ان کی لکھی ہوئی احادیث صحیح ہے۔ ان کی روایات بخاری رحمہ اللّٰہ نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے امام مسلم نے نہیں۔

یہ حدیث صحیحین وغیرہما میں ام المومنین عائشہ، میمونہ اور ام حبیبہ رضی اللّٰہ عنہم کی روایت سے بھی موجود ہے لیکن ان میں آخیر کا جملہ نہیں ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ آخیر کا اضافی جملہ میرے نزدیک سند اور متن دونوں لحاظ سے منکر ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قَالَ ابن سعد في الطبقات : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ وَيَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ قَالا: أَخْبَرَنَا الإِفْرِيقِيُّ (عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُم) عَنْ سَعْدِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعُمَارَةَ بْنِ غُرَابٍ الْيَحْصِبِيِّ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ أَتَى النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لا أُحِبُّ أَنْ تَرَى امْرَأَتِي. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ: عُرْيَتِي. وَقَالَ يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ: عَوْرَتِي. قال رسول الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : وَلِمَ؟ قَالَ: أَسْتَحْيِي مِنْ ذَلِكَ وَأَكْرَهُهُ. قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَعَلَهَا لَكَ لِبَاسًا وَجَعَلَكَ لَهَا لِبَاسًا وَأَهْلِي يَرَوْنَ عُرْيَتِي. فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ. وَفِي حَدِيثِ يَعْلَى: عَوْرَتِي. وَأَنَا أَرَى ذَلِكَ مِنْهُمْ. قَالَ: أَنْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَمَنْ بَعْدَكَ، فَلَمَّا أَدْبَرَ قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ ابْنَ مَظْعُونٍ لَحَيِيٌّ سِتِّيرٌ.

ترجمہ: عثمان بن مظعون رضی ﷲ عنہ نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میری بیوی میری شرمگاہ دیکھے، نبی ﷺ نے پوچھا ایسا کیوں؟ تو عثمان بن مظعون رضی اللّٰہ عنہ نے کہا مجھے شرم آتی ہے اور میں اسے ناپسند کرتا ہوں۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: اللّٰہ نے اسے تیرے لیے اور تجھے اس کے لیے لباس بنایا ہے اور میرے گھر والے (یعنی بیویاں) میری شرمگاہ دیکھتے ہیں اور میں ان کی۔ عثمان بن مظعون رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا کیا آپ دیکھتے ہیں اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم؟ نبی ﷺ نے کہا: ہاں۔ عثمان رضی ﷲ عنہ نے کہا پھر آپ کے بعد کون ہے ( یعنی آپ سے بہتر کون ہے) اور جب پلٹے تو نبی ﷺ نے کہا: ابن مظعون حیا کرنے والے اور بہت زیادہ پردہ کرنے والے ہیں۔

۩تخريج: الطبقات الكبرى (المتوفى: ٢٣٠هـ)؛زوائد مسند الحارث (٤٩٢) (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛ الضعيفة (٣٠٦٦) (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ سند مرسل ضعیف ہے، سعد بن مسعود (التجيبي المصري ہے) کا ذکر ابن ابی حاتم نے کیا ہے لیکن جرح و تعدیل بیان نہیں کی، سعد بن مسعود نے عبد الرحمن بن حيويل تابعی سے روایت کی ہے۔

عُمَارَةَ بْنِ غُرَابٍ الْيَحْصِبِي کے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں "یہ مجہول تابعی ہیں، اور جن لوگوں نے ان کو صحابی کہا ہے انہوں غلطی کی ہے"۔

إفريقي کا نام عبد الرحمن بن زياد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أحمد: حَدَّثَنَا حَسَنٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«انْكِحُوا أُمَّهَاتِ الْأَوْلَادِ فَإِنِّي أُبَاهِي بِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»

ترجمہ: بچوں والی عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ میں قیامت کے دن ان (بچوں) کی وجہ سے فخر کروں گا۔

۩تخريج: مسند أحمد (٦٥٩٨) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الضعيفة (٢٩٦٠)؛ (ضعيف)

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سند (حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمد المديني، حَدَّثَنا يَحْيى بْنِ بُكَير، حَدَّثَنا ابْنُ لَهِيعَة) سے دس سے زیادہ احادیث روایت ہیں اور ان میں اکثر منکر ہیں۔

شیخ البانی: یہ سند ابن لھیعہ کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے ۔

شیخ البانی: یہ حدیث " أمهات الأولاد " کے الفاظ کے بغیر صحیح ہے، میں نے ان احادیث کا ذکر " آداب الزفاف " (ص ١٣٢ - ١٣٤ / طبعة المعارف) میں کیا ہے۔
 
Top