قال أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِيُّ، عَنْ كَرِيمِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ جَدَّتِهِ سَلْمَى بِنْتِ جَابِرٍ، أَنَّ زَوْجَهَا اسْتُشْهِدَ، فَأَتَتْ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ قَدِ اسْتُشْهِدَ زَوْجِي، وَقَدْ خَطَبَنِي الرِّجَالُ، فَأَبَيْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ حَتَّى أَلْقَاهُ، فَتَرْجُو لِي إِنِ اجْتَمَعْتُ أَنَا وَهُوَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَزْوَاجِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : مَا رَأَيْنَاكَ فَعَلْتَ هَذَا مُذْ قَاعَدْنَاكَ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«إِنَّ أَسْرَع َأُمَّتِي بِي لُحُوقًا فِي الْجَنَّةِ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْمَسَ»
ترجمہ: سلمی بنت جابر کہتی ہیں کہ ان کے شوہر شہید ہوگئے، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ میرے شوہر شہید ہوگئے ہیں، مجھے کئی لوگوں نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے لیکن میں نے اب مرنے تک شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیا آپ کو امید ہے کہ اگر میں اور وہ جنت میں اکٹھے ہو گئے تو میں ان کی بیویوں میں شمار ہوں گی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک آدمی یہ سن کر کہنے لگا کہ ہم نے جب سے آپ کو یہاں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے، کبھی اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ (کہ کسی کو آپ نے اس طرح یقین دلایا ہو) ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ «جنت میں میری امت میں سے مجھے سب سے پہلے ملنے والی ایک عورت ہوگی جس کا تعلق احمس سے ہوگا»۔
۩تخريج: مسند أحمد (٣٨٢٢) (المتوفى: ٢٤١هـ) مسند أبي يعلى الموصلي (٥٣٢٨) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ الضعيفة (٢٩٧٧)؛ (ضعيف)
شیخ البانی: یہ سند ضعیف ہے، اس میں درج ذیل علتیں ہیں:
۱) أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِي: کے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں صدوق راوی ہے، اس کے حافظے میں کمزوری ہے، اور ذہبی رحمہ اللّٰہ نے اسے حسن الحدیث کہا ہے ۔
۲) كَرِيمِ بْنِ أَبِي حَازِم: کو صرف ابان کی روایت سے ہی جانا جاتا ہے، اور بخاری رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی حدیث صحیح نہیں ہے ۔
۳) سَلْمَى بِنْتِ جَابِر کو بھی صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے، بعض نے ان کا ذکر صحابہ میں کیا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کی صحبت ثابت ہے۔
«إِنَّ أَسْرَع َأُمَّتِي بِي لُحُوقًا فِي الْجَنَّةِ امْرَأَةٌ مِنْ أَحْمَسَ»
ترجمہ: سلمی بنت جابر کہتی ہیں کہ ان کے شوہر شہید ہوگئے، وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ میرے شوہر شہید ہوگئے ہیں، مجھے کئی لوگوں نے نکاح کا پیغام بھیجا ہے لیکن میں نے اب مرنے تک شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیا آپ کو امید ہے کہ اگر میں اور وہ جنت میں اکٹھے ہو گئے تو میں ان کی بیویوں میں شمار ہوں گی؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک آدمی یہ سن کر کہنے لگا کہ ہم نے جب سے آپ کو یہاں بیٹھے ہوئے دیکھا ہے، کبھی اس طرح کرتے ہوئے نہیں دیکھا کہ (کہ کسی کو آپ نے اس طرح یقین دلایا ہو) ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ «جنت میں میری امت میں سے مجھے سب سے پہلے ملنے والی ایک عورت ہوگی جس کا تعلق احمس سے ہوگا»۔
۩تخريج: مسند أحمد (٣٨٢٢) (المتوفى: ٢٤١هـ) مسند أبي يعلى الموصلي (٥٣٢٨) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ الضعيفة (٢٩٧٧)؛ (ضعيف)
شیخ البانی: یہ سند ضعیف ہے، اس میں درج ذیل علتیں ہیں:
۱) أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْبَجَلِي: کے متعلق حافظ ابن حجر کہتے ہیں صدوق راوی ہے، اس کے حافظے میں کمزوری ہے، اور ذہبی رحمہ اللّٰہ نے اسے حسن الحدیث کہا ہے ۔
۲) كَرِيمِ بْنِ أَبِي حَازِم: کو صرف ابان کی روایت سے ہی جانا جاتا ہے، اور بخاری رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی حدیث صحیح نہیں ہے ۔
۳) سَلْمَى بِنْتِ جَابِر کو بھی صرف اسی روایت سے جانا جاتا ہے، بعض نے ان کا ذکر صحابہ میں کیا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان کی صحبت ثابت ہے۔