قال ابن بشران:أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْآجُرِّيُّ بِمَكَّةَ، ثنا الْفِرْيَابِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«سَبْعَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَيَقُولُ: ادْخُلُوا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ: الْفَاعِلُ وَالْمَفْعُولُ بِهِ، وَالنَّاكِحُ يَدَهُ، وَنَاكِحُ الْبَهِيمَةِ، وَنَاكِحُ الْمَرْأَةِ فِي دُبُرِهَا، وَجَامِعٌ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَابْنَتِهَا، وَالزَّانِي بِحَلِيلَةِ جَارِهِ، وَالْمُؤْذِي لِجَارِهِ حَتَّى يَلْعَنَهُ»
ترجمہ: سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کو اللّٰہ نہ قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ ہی ان کا تزکیہ کرے گا اور ان سے کہے گا جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ عملِ قومِ لوط کا فاعل اور مفعول، اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا ( یعنی مشت زنی کرنے والا)، جانور کے ساتھ بے حیائی کرنے والا، عورت سے دبر (مقعد) میں جماع کرنے والا، ماں اور اس کی بیٹی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے والا، اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا، اور اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والا حتی کہ وہ اس پر لعنت کرے۔
۩تخريج: مجلس من حديث أبو الشيخ ابن حيان؛ أمالي ابن بشران(477) (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ الضعيفة (4851)؛ (ضعيف)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے کیوں کہ اس کا راوی عبد الرحمن بن زياد الإفريقي ضعیف ہے، اور یہ حدیث انس رضی اللّٰہ عنہ سے بھی مروی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہی ہے۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ سورہ مؤمنون کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند میں ایک راوی کو میں نہیں جانتا۔
ہم کو اس ضعیف حدیث سے مشت زنی کی تحریم کے استدلال کے لیے اللّٰہ تعالٰی کا وہ عمومی قول بے نیاز کردیتا ہے جو سورہ مؤمنون (آيت: 5-7) میں ہے
وَٱلَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَـٰفِظُونَ.
إِلَّا عَلَىٰٓ أَزْوَٲجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٲلِكَ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ.
جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنے والے ہیں(5) بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں(6) جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں(7)
ان آیات سے امام شافعی اور ان کی موافقت کرنے والوں نے اس کی تحریم پر استدلال کیا ہے جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے اور یہی قول اکثر علماء کا ہے جیسا کہ بغوی رحمہ اللّٰہ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے اور علامہ آلوسی نے کہا ہے کہ یہی جمہور علماء کا قول ہے اور کہا کہ اس کی تحریم (وراء ذلك- جو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ چاہے) سے ثابت ہوتی ہے۔
اور جو حدیث مصنف عبدالرزاق(حدیث نمبر: ١٣٥٩٠) مصنف ابن ابی شیبہ(حدیث نمبر: ١٧٤٩٨) اور السنن الكبرى للبيهقي (حديث نمبر: ١٤١٣٢) میں ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے موقوفا مروی ہے وہ بھی ضعیف ہے۔
وہ روایت یہ ہے
عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ مُسْلِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، لَقِيَ أَبَا يَحْيَى فَتَذَاكَرَا حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو يَحْيَى: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ يَعْبَثُ بِذَكَرِهِ حَتَّى يُنْزِلَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «إِنَّ نِكَاحَ الْأَمَةِ خَيْرٌ مِنْ هَذَا، وَهَذَا خَيْرٌ مِنَ الزِّنَا»
ترجمہ: ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو اپنی شرم گاہ کو اس وقت تک رگڑتا ہے جب تک انزال نہ ہو جائے؟ تو ابن عباس رضی ﷲ عنہ نے کہا: بےشک لونڈی سے نکاح کرنا اس سے اچھا ہے اور یہ زنا کرنے سے بہتر ہے۔
اس سند کی علت ابو یحییٰ ہے جس کا نام مصدع المعرقب ہے( شیخ البانی نے الصحيحة (٣٢٠٩) میں مصدع کو حسن کہا ہے اور وہ متابعت کے لیے امام مسلم کے رجال میں سے ہے-الضعيفة کے ناشر ) ۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ "الضعفاء" میں کہتے ہیں کہ وہ روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اور ثقہ راویوں سے زائد الفاظ کے ساتھ اکیلا ہی (منفرد) روایت کرتا ہے اور اس کی روایات کے زائد الفاظ کو ترک کردینا واجب ہے اور اس پر ثقات کی موافقت میں اعتبار کیا جائے گا۔ اور سند کے باقی تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
بیہقی کی روایت میں بعض رواۃ ساقط ہیں اس لیے اس پر بیہقی رحمہ اللّٰہ نے انقطاع کا حکم لگایا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل اور موقوف ہے۔
اسی طرح سنن کبری بیہقی (حديث نمبر: ١٤١٣٣) کی اگلی روایت ہے
قال البيهقي: أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، أنبأ أَبُو عَبْدِ اللهِ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنبأ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أنبأ الْأَجْلَحُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ غُلَامًا أَتَاهُ فَجَعَلَ الْقَوْمُ يَقُومُونَ وَالْغُلَامُ جَالِسٌ , فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: قُمْ يَا غُلَامُ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: دَعُوهُ شَيْءٌ مَا أَجْلَسَهُ، فَلَمَّا خَلَا قَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ إِنِّي غُلَامٌ شَابٌّ أَجِدُ غِلْمَةً شَدِيدَةً فَأَدْلُكُ ذَكَرِي حَتَّى أُنْزِلَ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " خَيْرٌ مِنَ الزِّنَا , وَنِكَاحُ الْأَمَةِ خَيْرٌ مِنْهُ "
شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابو زبیر مدلس ہے اور روایت عنعنہ سے کی ہے اور اجلح مختلف فیہ راوی ہے۔
اور ایک روایت مصنف عبدالرزاق (حدیث نمبر: ١٣٥٩٢) میں یہ ہے۔
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: «وَمَا هُوَ إِلَّا أَن ْيَعْرُكَ أَحَدُكُمْ زُبَّهُ حَتَّى يُنْزِلَ مَاءً»
ترجمہ: ابن عباس رضی ﷲ عنہ نے کہا کہ وہ صرف یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی شرمگاہ کو رگڑے یہاں تک کہ انزال ہو جائے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ بھی ضعیف ہے اس کا ضعف ظاہر ہے کیونکہ ایک راوی کا نام نہیں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي بَكْر کا حال بھی ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ مستور ہے
یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ابن عباس رضی ﷲ عنہ کا قول صحیح بھی ثابت ہو جائے تو اس سے شہوت کے غلبے کے وقت زنا کے ڈر کی وجہ سے مشت زنی کا صرف جواز ثابت ہوگا
اور میں ان نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں جو اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنا علاج روزے کے ذریعے کریں جیسا کہ نبی ﷺ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔