• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي الْحُسَيْنِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«تَيَاسَرُوا فِي الصَّدَاقِ، إِنَّ الرَّجُلَ يُعْطِي الْمَرْأَةَ حَتَّى يَبْقَى ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ عَلَيْهَا حَسِيكَةً، وَحَتَّى يَقُولَ: مَا جِئْتُكِ حَتَّى سُقْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ»

مہر میں (کمی کر کے) آسانی پیدا کرو کیونکہ کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت کو مہر تو دے دیتا ہے لیکن عورت کے لیے اس کے دل میں دشمنی باقی رہ جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اس سے کہتا ہے: میں تیرے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ میں نے بہت زیادہ تکلیف نہ اٹھا لی( یعنی مجھے تیرے پاس آنے کے لیے بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے)

[حَسِيكَةٌ: عداوت، دشمنی؛ عَلَقُ الْقِرْبَةِ: مشک باندھنے کی رسی؛ سُقْتُ إِلَيْكِ عَلَقَ الْقِرْبَةِ: یہ ایک مثل ہے جس کا معنی ہے مجھے تیرے پاس آنے کے لیے بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑا]۔

۩تخريج: المصنف عبد الرزاق الصنعاني (١٠٣٩٨) (المتوفى: ٢١١ھ)؛ غريب الحديث للخطابي (المتوفى: ٣٨٨ھ)؛ الضعيفة (٤٨٥٧)؛(ضعيف) ٤٤٧٣١

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند ضعیف ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں شیخین کے راوی ہیں لیکن یہ سند معضل یا مرسل ہے؛ اس لیے کہ ابن أبي الحسين کا نام عبد الله بن عبد الرحمن المكی ہے اور وہ تابعین سے روایت کرنے میں مشہور ہے جیسے نافع بن جبير بن مطعم، مجاهد، عكرمة وغيرهم۔ اور اس کی کوئی بھی روایت کسی بھی صحابی سے نہیں ہے سوائے ابو الطفيل عامر بن واثلة کے، کیونکہ وہ صغار صحابہ میں سے تھے، احد کی جنگ کے سال پیدا ہوئے اور صحابہ میں سب سے آخر میں وفات پائی۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البزار: حَدَّثنا الفضل بن يعقوب الرخامي، حَدَّثَنا رَوَّادُ بْن الجراح أبو عصام العسقلاني، حَدَّثني سفيان الثَّوْريّ عَنِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَدِيٍّ، عَن أَنَس عَنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وسَلَّم قَال:

«مَنِ اجْتَنَبَ أَرْبَعًا دَخَلَ الْجَنَّةَ الدِّمَاءُ وَالأَمْوَالُ وَالأَشْرِبَةُ وَالْفُرُوجُ، (و بإسناده) إِذَاصَلَّتِ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا وَصَامَتْ شَهْرَهَا وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا دَخَلَتِ الْجَنَّةِ»

ترجمہ: جو آدمی چار چیزوں سے اجتناب کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا، ناحق خون بہانے سے ، ناحق مال کھانے سے ، شراب پینے سے اور ناحق شرمگاہوں کو حلال کرنے سے ( اجتناب کرے) اور اسی سند سے روایت ہے کہ: جب عورت پانچ نمازیں ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگی( جنت کے جس دروازے سے چاہے گی داخل ہوگی۔ الکامل)

۩تخريج: مسند البزار (٧٤٨٠ ، ٧٤٨١) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي(المتوفى: ٣٦٥ھ)؛تاريخ جرجان لحمزة بن يوسف السهمي (٢٩١) (المتوفى: ٤٢٧ھ)؛ الضعيفة (٤٥٣٤)؛(ضعيف جداً)

(مسند بزار اور الكامل في ضعفاء میں اس حدیث کے دونوں حصے ایک ہی سند سے الگ الگ روایت ہیں، شیخ البانی نے دونوں حصوں کو ایک ساتھ بیان کیا ہے۔ مترجم)

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ وہی حدیث ہے جس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ روّاد سفيان الثَّوْريّ سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں جو منکر ہے، اور ابن زنجويه نے اس سے روایت کرنے سے روکا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث روّاد بن الجراح کی منکر روایات میں سے ہے، حافظ ابن حجر تقریب التھذیب میں کہتے ہیں کہ روّاد صدوق راوی ہے، عمر کے آخری حصے میں اختلاط ہو گیا اس لیے ان سے روایت ترک کی گئی، اور ان کی سفیان ثوری سے روایت میں شدید ضعیف ہے.
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن ابي شيبة: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَة ٍ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنِ اسْتَحَلَّ بِدِرْهَمٍ فَقَدْ اسْتَحَلَّ»

ترجمہ: جس نے ایک درہم کے بدلے حلال کیا تو اس نے صحیح کیا (یعنی جس نے ایک درہم کے بدلے نکاح کیا اس کا نکاح ہو گیا)

۩تخريج: المصنف لابن ابي شيبة (١٦٣٦٢) (المتوفى: ٢٣٥ھ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (٩٤٣) (المتوفى: ٣٠٧ھ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٤٣٧٢) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ الضعيفة (٤٥٤٣)؛ (ضعيف)

(مصنف ابن أبي شيبة اور مسند ابو يعلى کی سند میں يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَةَ، عَنْ جَدِّه ہے اور سنن کبری بیہقی کی سند میں عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَبِي لَبِيبَة ہے) ۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے، ابن معین رحمہ اللّٰہ: یحییٰ "ليس بشيء" کچھ بھی نہیں ہے، ابو حاتم: "ليس بقوي"، اس کا باپ عبد الرحمن بن أبي لبيبة اور دادا أبو لبيبة کا تعارف مجھے نہيں ملا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن حبان في الضعفاء: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ ثَنَا وَارِثُ بْنُ الْفَضْلِ ثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَلْخِيُّ حَدَّثَنَا عَوْفٌ الْأَعرَابِي عَن بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

«إِذَا حَمَلَتِ الْمَرْأَةَ فَلَهَا أَجْرُ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ الْمُخْبِتِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَإِذَا ضَرَبَهَا الطَّلْقُ فَلَا يَدْرِي أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ مَالَهَا مِنَ الأَجْرِ فَإِذَا وَضَعَتْ فَلَهَا بِكُلِّ وَضْعَةٍ عِتْقُ نَسَمَةٍ»

ترجمہ: جب عورت حاملہ ہوتی ہے تو اس کو روزہ رکھنے والے ، صلاۃ قائم کرنے والے ،فرماں بردار ، اللّٰہ کے لیے عاجزی اختیار کرنے والے اور مجاہد فی سبیل اللّٰہ کا اجر ملتا ہے اور جب اسے دردِ زہ ہوتا ہے تو تمام مخلوقات میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کو کیا اجر دیا جاتا ہے اور جب حمل وضع ہوتا ہے تو اس کو ہر در کے بدلے غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے۔

۩تخريج: المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (214) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي(المتوفى: ٣٦٥هـ)؛الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (5085)؛ (موضوع)

ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے اور َالْحَسَنُ بْنُ مُحَمد الْبَلْخِيُّ پر اس حدیث کو گھڑنے کا الزام لگایا ہے۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور الْحَسَنُ بْنُ مُحَمد الْبَلْخِي معروف نہیں ہے، ثقہ راویوں سے منکر احادیث روایت کرتا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الحاكم: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْفَضْلِ الْبَجَلِيُّ، ثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، ثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُسْلِيِّ ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: تَضَيَّفْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَامَ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ فَتَنَاوَلَ امْرَأَتَهُ فَضَرَبَهَا ثُمَّ نَادَانِي: يَا أَشْعَثُ. قُلْتُ: لَبَّيْكَ، قَالَ: احْفَظْ عَنِّي ثَلَاثًا حَفِظْتُهُنَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«لَا تَسْأَلِ الرَّجُلَ فِيمَ يَضْرِبُ امْرَأَتَهُ، وَلَاتَسْأَلْهُ عَمَنْ يَعْتَمِدُ مِنْ إِخْوَانِهِ وَلَا يَعْتَمِدُهُمْ، وَلَا تَنَمْ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ»

ترجمہ: اشعث بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللّٰہ عنہ کو مہمان بنایا تو وہ رات کے کسی حصے میں بیدار ہوئے اور اپنی بیوی سے مار پیٹ کی پھر مجھے بلایا اے اشعث، میں نے کہا حاضر ہوں عمر رضی ﷲ عنہ نے کہا مجھے سے تین باتیں یاد کرلو جو میں نے نبی ﷺ سے یاد کی تھی، آدمی سے نہیں پوچھا جائے کہ اس نے اپنی بیوی کو کیوں مارا، اور نہ یہ پوچھا جائے گا کہ وہ اپنے بھائیوں میں سے کس پر بھروسہ کرتا ہے اور کس پر نہیں، اور اس وقت تک مت سونا جب تک وتر نہ پڑھ لو۔

۩تخريج: مسند أبي داود الطيالسي(47) (المتوفى: ٢٠٤هـ)؛ مسند أحمد (122)(المتوفى: ٢٤١هـ)؛ المنتخب من مسند عبد بن حميد(37) (المتوفى: ٢٤٩هـ)؛ سنن ابن ماجه (1986)(المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ سنن أبي داود(2147)(المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ مسند البزار (239)(المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ السنن الكبرى للنسائي (9123) (المتوفى: ٣٠٣هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (7342) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ابنِ نَصْرِ(المتوفى: ٤١٠هـ)؛السنن الكبرى للبيهقي(14778) (المتوفى: ٤٥٨هـ) ؛ الأحاديث المختارة لضياء الدين المقدسي (٩٤، ٩٥) (المتوفى: ٦٤٣هـ)؛الضعيفة (4776)؛ (ضعيف)

مسند ابو داود الطيالسي، مسند أحمد، مسند عبد بن حميد، سنن ابن ماجه، ابنِ نَصْر،اور السنن الكبرى للبيهقي کے الفاظ یہ ہیں۔
«لَا تَسْأَلِ الرَّجُلَ فِيمَا ضَرَبَ امْرَأَتَهُ، وَلَا تَنَامَنَّ إِلَّا عَلَى وِتْرٍ» وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ

سنن أبي داود ، مسند البزار،اور السنن الكبرى للنسائي کے الفاظ یہ ہیں۔
«لَا يُسْأَلُ الرَّجُلُ فِيمَا ضَرَبَ امْرَأَتَهُ»

حاکم رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
حالانکہ ذہبی رحمہ اللّٰہ نے میزان الاعتدال میں مسلی کے تعارف میں کہا ہے کہ اس کو صرف اسی ایک حدیث سے جانا جاتا ہے اور اس سے صرف داود بن عبد الله الأودي نے ہی روایت کیا ہے۔

(حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں کہ أبو الفتح الأزدي نے عبد الرحمن الْمُسْلِيِّ کو ضعيف رواۃ میں ذکر کیا ہے اور کہا"فيه نظر" پھر یہ حدیث بیان کی ہے۔ مترجم)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن بشران:أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْآجُرِّيُّ بِمَكَّةَ، ثنا الْفِرْيَابِيُّ، ثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«سَبْعَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَيَقُولُ: ادْخُلُوا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ: الْفَاعِلُ وَالْمَفْعُولُ بِهِ، وَالنَّاكِحُ يَدَهُ، وَنَاكِحُ الْبَهِيمَةِ، وَنَاكِحُ الْمَرْأَةِ فِي دُبُرِهَا، وَجَامِعٌ بَيْنَ الْمَرْأَةِ وَابْنَتِهَا، وَالزَّانِي بِحَلِيلَةِ جَارِهِ، وَالْمُؤْذِي لِجَارِهِ حَتَّى يَلْعَنَهُ»

ترجمہ: سات قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کو اللّٰہ نہ قیامت کے دن دیکھے گا اور نہ ہی ان کا تزکیہ کرے گا اور ان سے کہے گا جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ عملِ قومِ لوط کا فاعل اور مفعول، اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا ( یعنی مشت زنی کرنے والا)، جانور کے ساتھ بے حیائی کرنے والا، عورت سے دبر (مقعد) میں جماع کرنے والا، ماں اور اس کی بیٹی کو ایک ساتھ نکاح میں رکھنے والا، اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے والا، اور اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والا حتی کہ وہ اس پر لعنت کرے۔

۩تخريج: مجلس من حديث أبو الشيخ ابن حيان؛ أمالي ابن بشران(477) (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ الضعيفة (4851)؛ (ضعيف)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے کیوں کہ اس کا راوی عبد الرحمن بن زياد الإفريقي ضعیف ہے، اور یہ حدیث انس رضی اللّٰہ عنہ سے بھی مروی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہی ہے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ سورہ مؤمنون کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، اس کی سند میں ایک راوی کو میں نہیں جانتا۔

ہم کو اس ضعیف حدیث سے مشت زنی کی تحریم کے استدلال کے لیے اللّٰہ تعالٰی کا وہ عمومی قول بے نیاز کردیتا ہے جو سورہ مؤمنون (آيت: 5-7) میں ہے

وَٱلَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَـٰفِظُونَ.
إِلَّا عَلَىٰٓ أَزْوَٲجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ. فَمَنِ ٱبْتَغَىٰ وَرَآءَ ذَٲلِكَ فَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ هُمُ ٱلْعَادُونَ.

جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنے والے ہیں(5) بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں(6) جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرجانے والے ہیں(7)

ان آیات سے امام شافعی اور ان کی موافقت کرنے والوں نے اس کی تحریم پر استدلال کیا ہے جیسا کہ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے اور یہی قول اکثر علماء کا ہے جیسا کہ بغوی رحمہ اللّٰہ نے اپنی تفسیر میں کہا ہے اور علامہ آلوسی نے کہا ہے کہ یہی جمہور علماء کا قول ہے اور کہا کہ اس کی تحریم (وراء ذلك- جو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ چاہے) سے ثابت ہوتی ہے۔

اور جو حدیث مصنف عبدالرزاق(حدیث نمبر: ١٣٥٩٠) مصنف ابن ابی شیبہ(حدیث نمبر: ١٧٤٩٨) اور السنن الكبرى للبيهقي (حديث نمبر: ١٤١٣٢) میں ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے موقوفا مروی ہے وہ بھی ضعیف ہے۔
وہ روایت یہ ہے

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ، عَنْ مُسْلِمٍ قَالَ: رَأَيْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، لَقِيَ أَبَا يَحْيَى فَتَذَاكَرَا حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ لَهُ أَبُو يَحْيَى: سُئِلَ ابْنُ عَبَّاسٍ عَنْ رَجُلٍ يَعْبَثُ بِذَكَرِهِ حَتَّى يُنْزِلَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «إِنَّ نِكَاحَ الْأَمَةِ خَيْرٌ مِنْ هَذَا، وَهَذَا خَيْرٌ مِنَ الزِّنَا»
ترجمہ: ابو یحییٰ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی ﷲ عنہ سے سوال کیا گیا کہ اس آدمی کا کیا حکم ہے جو اپنی شرم گاہ کو اس وقت تک رگڑتا ہے جب تک انزال نہ ہو جائے؟ تو ابن عباس رضی ﷲ عنہ نے کہا: بےشک لونڈی سے نکاح کرنا اس سے اچھا ہے اور یہ زنا کرنے سے بہتر ہے۔

اس سند کی علت ابو یحییٰ ہے جس کا نام مصدع المعرقب ہے( شیخ البانی نے الصحيحة (٣٢٠٩) میں مصدع کو حسن کہا ہے اور وہ متابعت کے لیے امام مسلم کے رجال میں سے ہے-الضعيفة کے ناشر ) ۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ "الضعفاء" میں کہتے ہیں کہ وہ روایات میں ثقہ راویوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اور ثقہ راویوں سے زائد الفاظ کے ساتھ اکیلا ہی (منفرد) روایت کرتا ہے اور اس کی روایات کے زائد الفاظ کو ترک کردینا واجب ہے اور اس پر ثقات کی موافقت میں اعتبار کیا جائے گا۔ اور سند کے باقی تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
بیہقی کی روایت میں بعض رواۃ ساقط ہیں اس لیے اس پر بیہقی رحمہ اللّٰہ نے انقطاع کا حکم لگایا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل اور موقوف ہے۔

اسی طرح سنن کبری بیہقی (حديث نمبر: ١٤١٣٣) کی اگلی روایت ہے

قال البيهقي: أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُزَكِّي، أنبأ أَبُو عَبْدِ اللهِ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، أنبأ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، أنبأ الْأَجْلَحُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ غُلَامًا أَتَاهُ فَجَعَلَ الْقَوْمُ يَقُومُونَ وَالْغُلَامُ جَالِسٌ , فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ: قُمْ يَا غُلَامُ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: دَعُوهُ شَيْءٌ مَا أَجْلَسَهُ، فَلَمَّا خَلَا قَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ إِنِّي غُلَامٌ شَابٌّ أَجِدُ غِلْمَةً شَدِيدَةً فَأَدْلُكُ ذَكَرِي حَتَّى أُنْزِلَ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " خَيْرٌ مِنَ الزِّنَا , وَنِكَاحُ الْأَمَةِ خَيْرٌ مِنْهُ "

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابو زبیر مدلس ہے اور روایت عنعنہ سے کی ہے اور اجلح مختلف فیہ راوی ہے۔

اور ایک روایت مصنف عبدالرزاق (حدیث نمبر: ١٣٥٩٢) میں یہ ہے۔

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: «وَمَا هُوَ إِلَّا أَن ْيَعْرُكَ أَحَدُكُمْ زُبَّهُ حَتَّى يُنْزِلَ مَاءً»

ترجمہ: ابن عباس رضی ﷲ عنہ نے کہا کہ وہ صرف یہ ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی شرمگاہ کو رگڑے یہاں تک کہ انزال ہو جائے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ بھی ضعیف ہے اس کا ضعف ظاہر ہے کیونکہ ایک راوی کا نام نہیں بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي بَكْر کا حال بھی ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ مستور ہے

یہ جان لینا چاہیے کہ اگر ابن عباس رضی ﷲ عنہ کا قول صحیح بھی ثابت ہو جائے تو اس سے شہوت کے غلبے کے وقت زنا کے ڈر کی وجہ سے مشت زنی کا صرف جواز ثابت ہوگا
اور میں ان نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں جو اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ وہ اپنا علاج روزے کے ذریعے کریں جیسا کہ نبی ﷺ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ أَهْلَ الْبَيْتِ الْخِصْبِ»

ترجمہ: اللّٰہ عزوجل سرسبز گھر والوں سے محبت کرتا ہے۔

تخريج: قرى الضيف لابن أبي الدنيا(٤٧)(المتوفى: ٢٨١هـ)؛الترغيب والترهيب لقوام السنة إسماعيل الأصبهاني ( ٢٠٤٣) (المتوفى: ٥٣٥هـ)؛ الضعيفة (٥٤٧١)؛ (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند معضل کے ساتھ ضعیف بھی ہے اس لیے کہ ابن جریج کا نام عبد الملك ابن عبد العزيز بن جريج ہے اور اس کی کسی صحابی سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ اور محمد بن قدامة الجوهري لین الحدیث ہے جیسا کہ تقریب التھذیب میں ہے۔ اور سیوطی نے "الجامع الصغير" میں اس کی علت صرف معضل ہونا بتائی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
عَبْدُ الرَّزَّاق عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ تَبَتَّلَ فَلَيْسَ مِنَّا»

ترجمہ: جس نے بغیر نکاح کے ( مجرد) زندگی گزاری وہ ہم میں سے نہیں۔

۩تخريج: المصنف لأبي بكر عبد الرزاق الصنعاني (١٢٥٩٢) (المتوفى: ٢١١هـ)؛ الضعيفة (٤٥٧١)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل صحيح الإسناد ہے اور مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البزار: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ غُرَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُلْثُومٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«مَنِ اتَّخَذَ مِنَ الْخَدَمِ غَيْرَ مَا يَنْكِح ُ ثُمَّ بَغَيْنَ فَعَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْتَقِصَ مِنْ آثَامِهِنَّ شَيْئًا»

جس شخص نے غیر شادی شدہ خادم رکھا پھر عورتوں نے اس سے زنا کرلیا تو خادم پر وہی گناہ ہوگا جو عورتوں پر ہوگا اور عورتوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

۩مسند البزار (٢٥٣٦) (المتوفى: ٢٩٢ھ)؛ بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام ابن القطان الفاسي(٢٣٣٢) (المتوفى: ٦٢٨ھ)؛الضعيفة (٤٥٣٣)؛(ضعيف)

ابن القطان الفاسي: عَطَاءِ بْنِ يَسَار کا سلمان رضی اللّٰہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے اور اگر سماع ثابت بھی ہو تو یہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ سَعِيدِ بْنِ الْحُر کی اس کے علاوہ کوئی روایت نہیں ہے۔ اور ابو حاتم رحمہ اللّٰہ سَلَمَةَ بْنِ كُلْثُوم کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے کئی لوگوں سے روایت کرنے اور اس سے کئی لوگوں کے روایت کرنے کے بوجود وہ میرے نزدیک مجہول الحال ہے۔

ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بزار رحمہ اللّٰہ نے "عن عطاء بن يسار عن سلمان" کی سند سے روایت کیا ہے اور عطاء بن يسار نے سلمان رضی اللّٰہ عنہ کو نہیں پایا (یعنی ملاقات ثابت نہیں ہے)، اور اس سند میں بعض رواۃ کو میں نہیں جانتا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی سند میں عَطَاءِ بْنِ يَسَار اور سلمان رضی اللّٰہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے اور اس سند میں دو مجہول راوی بھی ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ عَلِيُّ بْنُ غُرَاب مختلف فیہ راوی ہے اور تقریب التھذیب میں ہے "صدوق، وكان يدلس ويتشيع، وأفرط ابن حبان في تضعيفه"( صدوق راوی ہے، تدلیس کرتا تھا اور تشیع کرتا تھا، اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کی تضعیف میں افراط سے کام لیا ہے)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال بن حبَان: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَارِثُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّد الْبَلْخِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَنْ زَوَّجَ كَرِيمَتَه ُمِنْ فَاسِقٍ فَقَدْ قَطَعَ رَحِمَهَا»

ترجمہ: جس نے اپنی شریف لڑکی کا نکاح کسی فاسق سے کرایا اس نے اس عورت سے اپنا رشتہ توڑ لیا۔

۩تخريج: المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (214) (المتوفى: ٣٥٤ھ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧ھ)؛الضعيفة (5084)؛(موضوع).

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن حبان اور ابن جوزی نے کہا: یہ حدیث باطل ہے، اور یہ شعبی رحمہ اللّٰہ کے کلام میں سے ہے۔ الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّد الْبَلْخِيُّ ثقہ راویوں سے موضوع اور مقلوب احادیث روایت کرتا ہے اس سے دلیل لینا جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی بھی حال میں اس سے روایت کرنا جائز ہے۔ اسی طرح ذہبی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے اور سیوطی نے "اللآلي" میں ان کی متابعت کی ہے۔
حسن بن محمد بلخی کی ایک اور روایت (حدیث نمبر: ۸۳۰) گزر چکی ہے اور ایک اس کے بعد آنے والی ہے۔
 
Top