قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ السَّقَطِيُّ، [حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللهِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُزَوِّجَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ يَأْتِيهَا مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ، فَيَقُولَ لَهَا: «يَا بُنَيَّةُ، إِنَّ فُلَانًا قَدْ خَطَبَكِ، فَإِنْ كَرِهْتِهِ فَقُولِي لَا، فَإِنَّهُ لَا يَسْتَحِي أَحَدٌ أَنْ يَقُولَ لَا، وَإِنْ أَحْبَبْتِ فَإِنَّ سُكُوتَكِ إِقْرَارٌ»
ترجمہ: نبی ﷺ جب اپنےگھر کی عورتوں (بیٹیوں) میں سے کسی کا نکاح کرانا چاہتے تو پردے کے پیچھے سے اس کے پاس آ کر کہتے: اے میری بیٹی! فلاں آدمی نے تجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے اگر تو اسے ناپسند کرتی ہے تو مجھے نہ کھ دے، اس لیے کہ کوئی بھی نہ کہنے کے لیے نہیں شرماتا، اور اگر تو اس کو پسند کرتی ہے تو تیری خاموشی ہی تیرا اقرار ہے ۔
۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٨٨) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في الضعفاء الرجال لابن عدي(في ترجمة ٢١٦٢- يزيد بن عَبد الملك بن المغيرة أبو نوفل النوفلي مديني) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الضعيفة (٤١٦٦)؛ (ضعيف)
شیخ البانی: یہ سند "يزيد النوفلي" کی وجہ سے اور حافظ ابن حجر نے اسے "لين الحديث" کہا ہے۔
اس حدیث کو ابن أبي شيبة نے مصنف میں اور حفص نے عطاء سے مرسلًا روایت کیا ہے، اور مصنف عبدالرزاق میں اس کی سند معضل ہے۔
ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس سند سے روایت کیا ہے ۔
رواه ابن عساكر (٤/ ٢٨٩/ ١) عن بقية بن الوليد: أخبرنا إبراهيم - يعني: ابن أدهم -: حدثني أبي أدهم بن منصور، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس به دون قوله: "فإن كرهتيه ... ".
شیخ البانی کہتے ہیں کہ أدهم بن منصور کا تعارف مجھے نہيں مل سکا، اور سند کے باقی تمام رواۃ ثقہ ہیں ۔
اس حدیث کو عبدالرزاق اور بیہقی رحمہ اللّٰہ نے يحيى ابن أبي كثير کی سند سے "المهاجر بن عكرمة المخزومي" سے روایت کیا ہے، شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ مرسل ہے کیونکہ یہ المھاجر مجہول الحال تابعی ہیں ۔
أبو الأسباط نے دو سندوں سے اس حدیث کو مرفوعًا روایت کیا ہے:
عَنْ أَبِي الْأَسْبَاطِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَعَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَا: فذكره نحوه.
اس کو بیہقی رحمہ اللّٰہ نے السنن الکبری میں (حدیث: ١٣٧٠٧) روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یحییٰ کی حدیث مرسل ہی محفوظ ہے ۔
شیخ البانی: ان تمام روایات میں "فإن كرهتيه فقولي: لا ... " إلخ نہیں ہے اس لیے یہ اس کے منکر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اور ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ کی حدیث اس سے اچھی سند سے مروی ہے اس لیے میں نے "الصحيحة" (٢٩٧٣) میں اس کو لایا ہے ۔
ترجمہ: نبی ﷺ جب اپنےگھر کی عورتوں (بیٹیوں) میں سے کسی کا نکاح کرانا چاہتے تو پردے کے پیچھے سے اس کے پاس آ کر کہتے: اے میری بیٹی! فلاں آدمی نے تجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے اگر تو اسے ناپسند کرتی ہے تو مجھے نہ کھ دے، اس لیے کہ کوئی بھی نہ کہنے کے لیے نہیں شرماتا، اور اگر تو اس کو پسند کرتی ہے تو تیری خاموشی ہی تیرا اقرار ہے ۔
۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٨٨) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في الضعفاء الرجال لابن عدي(في ترجمة ٢١٦٢- يزيد بن عَبد الملك بن المغيرة أبو نوفل النوفلي مديني) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الضعيفة (٤١٦٦)؛ (ضعيف)
شیخ البانی: یہ سند "يزيد النوفلي" کی وجہ سے اور حافظ ابن حجر نے اسے "لين الحديث" کہا ہے۔
اس حدیث کو ابن أبي شيبة نے مصنف میں اور حفص نے عطاء سے مرسلًا روایت کیا ہے، اور مصنف عبدالرزاق میں اس کی سند معضل ہے۔
ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس سند سے روایت کیا ہے ۔
رواه ابن عساكر (٤/ ٢٨٩/ ١) عن بقية بن الوليد: أخبرنا إبراهيم - يعني: ابن أدهم -: حدثني أبي أدهم بن منصور، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس به دون قوله: "فإن كرهتيه ... ".
شیخ البانی کہتے ہیں کہ أدهم بن منصور کا تعارف مجھے نہيں مل سکا، اور سند کے باقی تمام رواۃ ثقہ ہیں ۔
اس حدیث کو عبدالرزاق اور بیہقی رحمہ اللّٰہ نے يحيى ابن أبي كثير کی سند سے "المهاجر بن عكرمة المخزومي" سے روایت کیا ہے، شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ مرسل ہے کیونکہ یہ المھاجر مجہول الحال تابعی ہیں ۔
أبو الأسباط نے دو سندوں سے اس حدیث کو مرفوعًا روایت کیا ہے:
عَنْ أَبِي الْأَسْبَاطِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَعَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَا: فذكره نحوه.
اس کو بیہقی رحمہ اللّٰہ نے السنن الکبری میں (حدیث: ١٣٧٠٧) روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یحییٰ کی حدیث مرسل ہی محفوظ ہے ۔
شیخ البانی: ان تمام روایات میں "فإن كرهتيه فقولي: لا ... " إلخ نہیں ہے اس لیے یہ اس کے منکر ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ اور ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ کی حدیث اس سے اچھی سند سے مروی ہے اس لیے میں نے "الصحيحة" (٢٩٧٣) میں اس کو لایا ہے ۔