• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ» حَدَّثَنَا «سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ» حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ خَلِيفَةَ الْخَثْعَمِيَّةُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَلَمَّا أُصِيبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَبُويِعَ لِلْحَسَنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالْخِلَافَةِ، دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: لِتُهْنِكَ الْخِلَافَةُ فَقَالَ لَهَا: أَتُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ بِقَتْلِ عَلِيٍّ، انْطَلِقِي فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا. فَتَقَنَّعَتْ بِسَاجٍ لَهَا، وَجَلَسَتْ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ وَقَالَتْ: أَمَا وَاللهِ مَا أَرَدْتُ مَا ذَهَبْتَ إِلَيْهِ. فَأَقامَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، ثُمَّ تَحَوَّلَتْ عَنْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِبَقِيَّةٍ بَقِيَتْ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا عَلَيْهِ، وبِمُتْعَةٍ عَشَرَةِ آلَافٍ، فَلَمَّا جَاءَهَا الرَّسُولُ بِذَلِكَ قَالَتْ: مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مَفَارِقٍ. فَلَمَّا رَجَعَ الرَّسُولُ إِلَى الْحَسَنِ فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَتْ، بَكَى الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ جَدِّي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ جَدِّي أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا عِنْدَ الْأَقْرَاءِ، أَوْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا مُبْهَمَةً؛ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ؛ لَراجَعْتُهَا

ترجمہ: سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کے نکاح میں تھی جب علی رضی اللّٰہ عنہ شہید ہو گئے اور حسن رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت پر بیعت ہوئی تو اس نے کہا: اے امیر المومنین آپ کو خلافت مبارک ہو۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: علی رضی اللّٰہ عنہ شہید ہوئے ہیں اور تو خوشی کا اظہار کر رہی ہے، جا تجھے میری طرف سے تین طلاق۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس نے چادر اوڑھ لی اور عدت گزارنے تک بیٹھی رہی۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ نے اسے دس ہزار کی رقم اور اس کے مہر کی بقیہ رقم بھیجی تو اس نے کہا: یہ مال جدا ہونے والے محبوب سے کہیں کم حیثیت کا ہے۔ جب آپ کو اس کی یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے روتے ہوئے فرمایا: اگر میں نے اپنے نانا کو ( یا فرمایا کہ اپنے والد کو نانا کے حوالے سے) یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ جو شخص اپنی بیوی کو مبہم ( اکٹھی) یا الگ الگ تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی، یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے، تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٢٧٥٧) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ سنن الدارقطني (٣٩٧٢) (المتوفى: ٣٨٥ھ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٤٩٧١) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ الضعيفة (٣٧٧٦)؛ (ضعيف جداً)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ کوثری نے اپنے رسالے "الإشفاق" میں اس حدیث کو طبرانی اور بیہقی کی طرف منسوب کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے، حافظ ابن رجب نے اس حدیث کو اپنی کتاب "بيان مشكل الأحاديث الواردة في أن الطلاق الثلاث واحدة" میں بیان کرنے کے بعد اس پر کچھ بھی کلام نہیں کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ یہ سند صحیح تو دور حسن کہنے کے لائق بھی نہیں ہے۔
اس سند میں سلمہ بن فضل صدوق، کثیر الخطاء ہے۔ محمد بن حمید رازی ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التھذیب میں ہے بلکہ اس پر کئی محدیثین نے جھوٹ کا الزام لگایا ہے۔بعض نے اس کی جرح میں تساہل برتا ہے جیسا کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رواۃ میں ضعف ہے اور ان کی توثیق بھی کی گئی ہے(یہ تساہل ہے)۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ کوئی پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے کہ کیا یہ حدیث عمرو بن شمر کی روایت سے تقویت نہیں پاتی جس کو بیہقی رحمہ اللّٰہ نے تعلیقًا روایت کیا ہے؟ میں کہتا ہوں ہرگز نہیں، کیونکہ عمرو بن شمر کذاب ہے ثقہ راویوں سے موضوعات روایت کرتا ہے ایسے راوی سے استشہاد نہیں کیا جاتا۔

یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ "تجھے تین طلاق" یا طلاق، طلاق، طلاق " بولنے کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے اس لیے آپ کو "الإشفاق" میں کوثری کا کلام دھوکہ نہ دے کیونکہ وہ اپنے آپ پر مشفق نہیں تھے (یعنی خود اپنی بھلائی نہیں چاہتے تھے) اور سنت سے منحرف تھے۔صحیح مسلم کی ابن عباس رضی ﷲ عنہ کی حدیث کی تاویل یہ کی تھی کہ وہ حدیث "غیر مدخول بہا" عورت کے متعلق ہے۔

جو بھی اس مسئلے میں حق جاننا چاہتا ہے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ان کے شاگرد ابن قیم اور دوسرے ائمہ اہل سنت کی کتب کا مطالعہ کریں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا «أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ فَرْقَدٍ» حَدَّثَنَا أَبُو حُمَةَ مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللهُ عَنْهُما، قَالَ: «لَا طَلَاقَ إِلَّا بِعُدَّةٍ وَ لَا عِتْقَ إِلَّا لِوَجْهِ اللهِ تَعَالَى»

ترجمہ: عدت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی اور اللّٰہ تعالٰی کو راضی کرنے کے لیے ہی (غلام کو) آزاد کرنا چاہئے۔

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (١٠٩٤١) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الضعيفة (٤٨٠٧)؛ (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کو ناشر نے غلطی سے مرسلاً روایت کیا ہے کیوں کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو مجمع الزوائد میں مرفوعًا روایت کیا ہے۔اور کہا ہے کہ اس کو طبرانی رحمہ اللّٰہ نے روایت کیا ہے سند میں احمد بن سعید بن فرقد ضعیف ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ ذہبی رحمہ اللّٰہ نے اس پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا ہے۔
عبد الله بن محمد بن عبد الله بن زيد اور ان کے شیخ محمد بن عبد الله بن طاوس حافظ ابن حجر کے نزدیک مقبول ہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الدار قطني: نا عَلِيُّ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ طَاهِرٍ نا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبُوشَنْجِيُّ نا إِسْحَاقُ بْنُ زِيَادٍ الْأُبُلِّيُّ نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ نا حَرْبُ بْنُ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:

«لَيْسَ لِلْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا نَفَقَةٌ»

ترجمہ:ایسی حاملہ عورت جس کا شوہر فوت ہو گیا ہو اس کے لیے نفقہ نہیں ہے۔

۩تخريج:سنن الدارقطني (٣٩٥٠، ٣٩٥١) (المتوفى: ٣٨٥هـ)؛الضعيفة (٤٣٨٨)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ، مسلم کے رجال ہیں، لیکن أبا الزبير مدلس ہیں اس لیے ان کی حدیث اس وقت تک نہیں لی جاتی جب تک سماع کی صراحت موجود نہ ہو۔ یا ان سے ليث بن سعد روایت کرے اور یہ روایت ان میں سے نہیں ہے۔

عبد الحق الأشبيلي (المتوفى: ٥٨١هـ) الأحكام الشرعية الكبرى میں اس روایت کی یہی علت بتائی ہے، اور کہا کہ حَرْبُ بْنُ أَبِي الْعَالِيَةِ سے بھی دلیل نہیں لی جاتی۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ ذہبی رحمہ اللّٰہ "المغني" میں کہتے ہیں کہ حَرْبُ بْنُ أَبِي الْعَالِيَةِ بغیر کسی شک کے ضعیف ہے، اور حافظ ابن حجر کہتے ہیں "صدوق، يهم"۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني في الأوسط: حَدَّثَنَا «بَكْرُ بْنُ سَهْلٍ» قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا «ابْنُ لَهِيعَةَ» عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَمَّامِ، فَقَالَ:

«إِنَّهُ سَيَكُونُ بَعْدِي حَمَّامَاتٌ وَلَا خَيْرَ فِي الْحَمَّامَاتِ لِلنِّسَاءِ» . فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهَا تَدْخُلُهُ بِإِزَارٍ؟ فَقَالَ: «لَا، وَإِنْ دَخَلَتْهُ بِإِزَارٍ وَدِرْعٍ وَخِمَارٍ، وَمَا مِنَ امْرَأَةٍ تَنْزِعُ خِمَارَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا كَشَفَتِ السِّتْرَ فِيمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ رَبِّهَا»

ترجمہ: عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے حمام ( میں نہانے ) کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: میرے بعد عنقریب بہت سارے حمام ہوں گے، ان حماموں میں عورتوں کے لیے کوئی بھلائی نہیں تو عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول ﷺ اگر عورت ازار پہن کر داخل ہو تو؟ نبی ﷺ نے فرمایا: چاہے وہ ازار، چادر اور اوڑھنی کے ساتھ ہی کیوں نہ داخل ہو ( تب بھی ان کے لیے کوئی بھلائی نہیں)، جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کہی اور اپنی اڑھنی اتارتی ہے وہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان کے پردے کو کھول دیتی ہے۔

۩تخريج: المعجم الأوسط للطبراني (٣٢٨٦) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٧٣٨٦) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛الضعيفة (٦٢١٦)؛ (منكر)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن لہیعہ ضعیف ہیں جیسا کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے اور منذری رحمہ اللّٰہ نے بھی "الترغيب" میں اس کی یہی علت بیان کی ہے۔ بکر بن سہل کو نسائی رحمہ اللّٰہ نے ضعیف کہا ہے۔


قال البيهقي: أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَصَمُّ حَدَّثَنَا بَحْرُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِي ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: لَا يَحِلُّ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَدْخُلَ الْحَمَّامَ إِلَّا بِمِنْدِيلٍ، وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِلَّا مِنْ سَقَمٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ:

«أَيُّمَا امْرَأَةٍ وَضَعَتْ خِمَارَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِهَا فَقَدْ هَتَكَتِ الْحِجَابَ فِيمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ رَبِّهَا»

شعب الإيمان للبيهقي (٧٣٨٦)

بیہقی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ سند منقطع ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ انقطاع عمر رضی اللّٰہ عنہ اور عبید اللّٰہ بن ابی جعفر کے درمیان ہے کیونکہ عبید اللّٰہ کی پیدائش عمر رضی اللّٰہ عنہ کی وفات کے کئی سال بعد ہوئی۔

قال ابن عدي: حَدَّثَنا عَبد اللَّه بْنُ مُحَمد بن عَبد العزيز، حَدَّثَنا مُحَمد بن حسان السمتي حَدَّثَنا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ «مُطَّرِحِ بْنِ يَزِيدَ» عَنْ «عُبَيد اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ» عَنْ «عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ» عَنِ الْقَاسِمِ عَن أَبِي أُمَامَةَ قَال: قَال عُمَر بْنُ الْخَطَّابِ رَحِمَهُ اللَّهُ لا يَحِلُّ لامْرَأَةٍ أَنْ تَدْخُلَ الْحَمَّامَ إلاَّ مِنْ سِقَمٍ فَإِنَّ عَائِشَة أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ حَدَّثَتْنِي قَالَتْ، حَدَّثني خَلِيلِي عَلَيْهِ السَّلامُ عَلَى مَفْرَشِي هَذَا قَال: إِذَا وَضَعَتِ الْمَرْأَةُ خِمَارَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا هَتَكَتْ سِتْرَهَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ (لَمْ يَثْنَاهَا دُونَ الْعَرْشِ).

ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ مُطَّرِحِ بْنِ يَزِيدَ کی عبید اللّٰہ بن زحر سے روایات عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں اور ان کی حدیث میں ضعف واضح ہے۔
امام ذہبی میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ مُطَّرِح کے ضعف پر اجماع ہے۔ اور مطرح کے اوپر کے دو راوی ( یعنی عبید اللّٰہ بن زحر اور علی بن یزید) مشہور ضعیف راوی ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث "خمارها" کی جگہ "ثيابها" کے لفظ کے ساتھ صحیح سند سے ثابت ہے حدیث یہ ہے:

قَالَ أَبُو دَاوُدَ الطيالسي: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي مَلِيحٍ الْهُذَلِيِّ، أَنَّ نِسَاءً مِنْ أَهْلِ حِمْصٍ أَوْ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ دَخَلْنَ عَلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: أَنْتُنَّ اللَّاتِي يَدْخُلْنَ نِسَاؤُكُنَّ الْحَمَّامَاتِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنِ امْرَأَةٍ تَضَعُ ثِيَابَهَا فِي غَيْرِ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا هَتَكَتِ السِّتْرَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ»

ترجمہ: اہل حمص یا اہل شام کی کچھ عورتیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئیں تو انہوں نے ان سے کہا: تم وہی ہو جن کی عورتیں غسل خانوں میں داخل ہوتی ہیں، پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سنو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو بھی عورت اپنے کپڑے اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ کہیں اور اتارتی ہے تو وہ اس پردے کو جو اس کے اور اللہ کے درمیان ہے پھاڑ دیتی ہے ۔

تخريج: مسند الطيالسي (١٦٢١) (المتوفى: ٢٠٤هـ)؛ مسند إسحاق بن راهويه (١٦٠٥) (المتوفى: ٢٣٨هـ)؛ مسند أحمد (٢٤١٤٠، ٢٥٤٠٧، ٢٥٤٠٨، ٢٥٦٢٧ ) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ سنن الدارمي (٢٦٩٤) (المتوفى: ٢٥٥هـ)؛ سنن ابن ماجه (٣٧٥٠) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ سنن أبي داود (٤٠١٠) (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ سنن الترمذي (٢٨٠٣) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ معجم ابن الأعرابي (٧٢٨‌) (المتوفى: ٣٤٠هـ)؛ المستدرك على الصحيحين (٧٧٨٠، ٧٧٨١ ) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ شرح السنة للبغوي (٣٢١٠) (المتوفى: ٥١٦هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث "ثيابها" کے لفظ کے ساتھ محفوظ ہے اور "خمارها" کے ساتھ منکر ہے یہی بیان کرنے کے لیے میں نے اس حدیث کی تخریج یہاں کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الأمام أحمد: حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا «ابْنُ لَهِيعَةَ» حَدَّثَنَا «دَرَّاجٌ(أَبُو السَّمْحِ)» عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«السِّبَاعُ حَرَامٌ»

ترجمہ: جماع کو فخر سے بیان کرنا حرام ہے۔

قَالَ ابْنُ لَهِيعَةَ: يَعْنِي بِهِ الَّذِي يَفْتَخِرُ بِالْجِمَاعِ (يَعْنِي الْمُفَاخَرَةَ بِالْجِمَاع)

۩تخريج: مسند أحمد (١١٢٣٥) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (١٣٩٦) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛الكنى والأسماء للدولابي (٢٠٢٠) (المتوفى: ٣١٠هـ)؛الضعفاء االكبير للعقيلي (المتوفى: ٣٢٢هـ) السنن الكبرى للبيهقي (١٤٠٩٩) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الضعيفة (٣٧٣٠)؛ (منكر)

عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث صرف دَرَّاجٌ کی سند سے ہی مروی ہے۔ اور احمد رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی احادیث منکر ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن لهيعة بھی ضعیف ہے لیکن ان کی متابعت الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نے مسند أبي يعلى میں، مَنْصُورُ بْنُ أَبِي الْأَسْوَد نے الكنى والأسماء للدولابي میں اور عَمْرِو بْنِ الْحَارِث نے السنن الكبرى میں دَرَّاجٌ سے روایت کر کے کی ہے۔

اس لیے اس حدیث کی علت صرف دَرَّاجٌ ہے۔

(تنبيہ ): الدولابي کی الكنى والأسماء میں لفظ السِّبَاعُ ہے اور باقی تمام کتب میں لفظ الشِّيَاعُ ہے۔

ابن الأثير (المتوفى: ٦٠٦هـ) "النهاية في غريب الحديث والأثر" میں کہتے ہیں کہ ابو عمر نے کہا ہے کہ الشِّيَاعُ صحیح نہیں ہے بلکہ السِّبَاعُ صحیح ہے، جس کا معنی ہے "فلعله من تسمية الزوجة شاعة"۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَارُونَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا «ابْنُ لَهِيعَة» عَنْ عَقِيلٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«لَا يَدَعْ أَحَدُكُمْ طَلَبَ الْوَلَدِ فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ وَلَيْسَ لَهُ وَلَدٌ انْقَطَع َاسْمُهُ»

ترجمہ: تم میں سے کوئی بھی اولاد طلب کرنا نہ چھوڑے کیونکہ جب آدمی مر جاتا ہے اور اس کی کوئی اولاد نہیں ہوتی تو اس کا نام ختم ہو جاتا ہے۔

۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٣٦٩) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الضعيفة (٦٠٦٩)؛ (منكر)
ابن لہیعہ ضعیف ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال النسائي: أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ ابْنِ عَيَّاشٍ -وَهُوَ أَبُو بَكْرٍ - عَنْ «صَدَقَةَ بْنِ سَعِيدٍ» ثُمَّ ذَكَرَ كَلِمَةً مَعْنَاهَا: حَدَّثنَا «جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ» قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ مَعَ أُمِّي وَخَالَتِي، فَسَأَلَتَاهَا: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا حَاضَتْ إِحْدَاكُنَّ؟ قَالَتْ: كَانَ يَأْمُرُنَا إِذَا حَاضَتْ إِحْدَانَا أَنْ تَتَّزِرَ بِإِزَارٍ وَاسِعٍ، ثُمَّ يَلْتَزِمُ صَدْرَهَا وَثَدْيَيْهَا۔

ترجمہ: جمیع بن عمیر کہتے ہیں: میں اپنی ماں اور خالہ کے ساتھ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا، تو ان دونوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: جب آپ میں سے کوئی حائضہ ہو جاتی تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کیا کرتے تھے؟ عائشہ رضی ﷲ عنہا نے کہا: جب ہم میں سے کوئی حائضہ ہو جاتی تو آپ ہمیں کشادہ تہبند باندھنے کا حکم دیتے، پھر آپ اس کے سینہ اور چھاتی سے چمٹتے۔

۩تخريج: مسند أحمد( ٢٤٩٢٣) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ السنن الصغرى للنسائي (٣٧٥)(المتوفى: ٣٠٣هـ)؛ مسند أبي يعلى الموصلي (٤٨٦٥) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ الضعيفة (٥٧٠٥)؛ (منکر)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کی تین علتیں ہیں۔

1) جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْر( التيمي الكوفي) مختلف فیہ راوی ہے۔ ذہبی الضعفاء میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس سے روایت کی ہے بعض نے سچا سمجھا اور بعض نے جھوٹ کا الزام لگایا ہے۔ اللّٰہ اعلم
اور الکاشف میں ذہبی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ "واہ " (بہت زیادہ ضعیف ہے)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ تقریب التھذیب میں کہتے ہیں کہ صدوق راوی ہے، غلطی کرتا ہے اور اس میں تشیع بھی تھا " صدوق يخطئ ويتشيع "

2) صَدَقَةَ بْنِ سَعِيد بھی مختلف فیہ راوی ہے۔ بخاری رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کی احادیث عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ ابن وضاح نے ضعیف کہا ہے، ساجی کہتے ہیں " ليس بشيء "۔
ابو حاتم کہتے ہیں شیخ ہے، ابن حبان نے "الثقات" میں ذکر کیا ہے، ذہبی الکاشف میں کہتے ہیں صدوق راوی ہے، حافظ ابن حجر تقریب التھذیب میں کہتے ہیں مقبول راوی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ زیادہ راجح بات ہے کہ اس کی حدیث متابعت کےلیے مقبول ہے اور اگر کسی راوی کی مخالفت میں منفرد ہوتو ضعیف ہے۔اور یہ حدیث اسی طرح کی ہے۔

3) حدیث کے متن میں اضطراب ہے، ابو بکر بن عیاش کی روایت کا یہی متن ہے۔ اس کی مخالفت عبد الواحد بن زياد نے کی ہے ان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں " كَانَ إِذَا كَانَ ذَلِكَ مِنْ إِحْدَانَا ائْتَزَرَتْ بِالْإِزَارِ الْوَاسِعِ، ثُمَّ الْتَزَمَتْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهَا وَنَحْرِهَا " (أخرجه أحمد)

اگر یہ حدیث ثابت ہوتی تو عبد الواحد بن زياد کی روایت کے الفاظ زیادہ صحیح ہوتے کیونکہ وہ ابو بکر بن عیاش سے زیادہ ثقہ راوی ہیں۔

حافظ ابن حجر نے عبد الواحد بن زياد کے متعلق کہا ہے کہ وہ ثقہ ہے، ان کی روایات میں صرف ان روایات پر کلام ہے جو انہوں نے اعمش سے روایت کی ہیں، اور ان کی روایات شیخین نے صحیحین میں روایت کی ہیں۔

اور ابو بکر بن عیاش کے متعلق کہا ہے کہ ثقہ عابد ہے مگر جب ان کی عمر زیادہ ہو گی تو حافظہ کمزور ہوگیا اور ان کی لکھی ہوئی احادیث صحیح ہے۔ ان کی روایات بخاری رحمہ اللّٰہ نے اپنی صحیح میں بیان کی ہے امام مسلم نے نہیں۔

یہ حدیث صحیحین وغیرہما میں ام المومنین عائشہ، میمونہ اور ام حبیبہ رضی اللّٰہ عنہم کی روایت سے بھی موجود ہے لیکن ان میں آخیر کا جملہ نہیں ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ آخیر کا اضافی جملہ میرے نزدیک سند اور متن دونوں لحاظ سے منکر ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قَالَ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ «حَجَّاجٍ» عَنِ «الْحَكَمِ» عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ وَطِئَ حُبْلَى»

قَالَ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ «حَجَّاجٍ» عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ وَطِئَ حُبْلَى»

ترجمہ: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو کسی حاملہ عورت سے ہم بستری کرے۔

۩تخريج: المصنف لابن أبي شيبة (١٧٤٥٨، ١٧٤٥٩) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ مسند أحمد (٢٣١٨) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ مسند أبي يعلى (٢٥٢٢) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ شرح مشكل الآثار للطحاوي (١٣٤٨) (المتوفى: ٣٢١هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (١٢٠٩٠)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الضعيفة (٤٣٩٤/ م )؛ (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند ضعیف ہے اس کی دو علتیں ہیں۔

پہلی: حکم بن عتیبہ کندی نے مقسم سے صرف پانچ احادیث سنی ہیں اور یہ حدیث ان میں سے نہیں ہے۔

دوسری: حجاج بن ارطاۃ کا عنعنہ، کیونکہ وہ مدلس ہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن سعد: أَخْبَرَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ» حَدَّثَنِي الثَّوْرِيُّ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم قَالَ:

«إِذَا جَامَعَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَتِرْ وَلَا يَتَجَرَّدَا تَجَرُّدَ الْعِيرَيْنِ»

ترجمہ: جب تم میں سے کوئی جماع کرے تو ستر کو ڈھاکے اور جنگلی گدھوں کی طرح ننگے نہ ہوں۔

۩تخريج: الطبقات الكبرى لابن سعد (المتوفى: ٢٣٠ھ)؛ الضعيفة (٥٩٧٨)؛ (موضوع)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند مرسل موضوع ہے کیونکہ محمد بن عمر واقدی کذاب ہے

یہ حدیث درج ذیل اسناد اور الفاظ سے بھی مروی ہے:

① قال البزار: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْأَهْوَازِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا «مِنْدَلُ بْنُ عَلِي»ٍّ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلْيَسْتَتِرْ وَلَا يَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعَيْرَيْنِ»

مسند البزار (١٧٠١) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ الضعفاء الكبير للعقيلي (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المسند الشاشي (٥٩٣) (المتوفى: ٣٣٥هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (١٠٤٤٣)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ السنن الكبرى (١٤٠٩٥) و شعب الإيمان (٧٤٠٤، ٧٤٠٥) للبيهقي (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ مندل بن علی ضعیف ہے۔

② قال النسائي: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحِيمِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ «صَدَقَةَ بْنِ عَبْدِ اللهِ» عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ سَرْجِسَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلْيَلْقِ عَلَى عَجُزِهِ وَعَجُزِهَا شَيْئًا، وَلَا يَتَجَرَّدَا تَجَرُّدَ الْعَيْرَيْنِ»

السنن الكبرى للنسائي (٨٩٨٠) (المتوفى: ٣٠٣هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)

امام نسائی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث منکر ہے اور صدقہ بن عبداللہ ضعیف ہے۔

③ قال ابن ماجه : حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ وَهْبٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ الْقَاسِمِ الْهَمْدَانِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا «الْأَحْوَصُ بْنُ حَكِيمٍ» عَنْ أَبِيهِ وَرَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ وَعَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَدِيٍّ عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلْيَسْتَتِرْ وَلَا يَتَجَرَّدْ تَجَرُّدَ الْعَيْرَيْنِ»

سنن ابن ماجه (١٩٢١) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (٣١٥)(المتوفى: ٣٦٠هـ)

بوصیری رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ احوص بن حکیم عنسی حمصی ضعیف ہیں۔

④ قال الطبراني في الكبير (رقم: ٧٦٨٣): حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ نَجْدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ حَدَّثَنَا «عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ» عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمْ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلْيَسْتُرْ عَلَيْهِ وَعَلَى أَهْلِهِ» قَالَ: «وَلَا يَتَعَرَّيَانِ تَعَرِّي الْحَمِيرِ»

اس سند میں عفیر بن معدان ضعیف ہے۔

⑤ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ (عَاصِم)ٍ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلْيَسْتَتَرْ، وَلَا يَتَجَرَّدَانِ تَجَرُّدَ الْعَيْرَيْنِ»

مصنف عبد الرزاق (١٠٤٦٩) (المتوفى: ٢١١هـ)؛ مصنف ابن أبي شيبة (١٧٦٢٥) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛

⑥ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ (أَيُّوبَ) عَنْ أَبِي قِلَابَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ فَلْيَسْتَتَرْ، وَلَا يَتَجَرَّدَانِ تَجَرُّدَ الْعَيْرَيْنِ»

مصنف عبد الرزاق (١٠٤٧٠) (المتوفى: ٢١١هـ)
مصنف عبدالرزاق کی دونوں سندیں مرسل ہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أبو نعيم: أخبرنا أحمد في كتابه حَدَّثَنا أبو عروبة حَدَّثَنا محمد بن مصفى حَدَّثَنَا «بَقِيَّةَ بْنِ الوَلِيْدُ» حَدَّثَنَا «يَزِيْدُ بْنُ سِنَانٍ» عَنْ بُكَيْرِ بْنِ فَيْرُوزَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«أَيَعْجِزُ أَحَدُكُمْ أَنْ يُجَامِعَ أَهْلَهُ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ فَإِنَّ لَهُ أَجْرَيْنِ أَجْرُ غُسْلِهِ وَأَجْرُ غُسْلِ امْرَأَتِهِ»

ترجمہ: کیا تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ہر جمعہ (یعنی ہفتے میں ایک مرتبہ) جماع کرنے سے عاجز ہے؟ کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے لیے دو اجر ہیں: ایک اس کے غسل کا اجر، دوسرا اس کی بیوی کے غسل کا اجر۔

۩تخريج: الطب النبوي لأبي نعيم الأصبهاني (٤٥٤) (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٢٧٣١) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (١٥٩٨) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ الضعيفة (٦١٩٤)؛ (منكر)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، اس میں درج ذیل علتیں ہیں:

پہلی: بکیر بن فیروز رہاوی، ان کو حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں مقبول کہا ہے یعنی وہ متابعت کے وقت مقبول ہیں، لیکن ان کی متابعت کسی نے نہیں کی ہے۔لیکن میں کہتا ہوں کہ ان کو اس حدیث کی علت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان سے بہت سارے ثقہ راویوں نے روایت کیا ہے جیسے زید بن ابی انیسہ، ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود، نافع مولی ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ وغیرہم۔ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے ان کی توثیق کی ہے اور ترمذی رحمہ اللّٰہ نے ان کی حدیث کو حس کہا ہے، وہ صدوق راوی ہیں۔( صحیحہ، حدیث نمبر: ۲۳۳۵‌ دیکھیں)۔

دوسری علت: یزید بن سنان جزری ابو فروہ رہاوی کو نسائی رحمہ اللّٰہ نے متروک الحدیث کہا ہے، ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ عام طور پر اس کی احادیث محفوظ نہیں ہوتی

تیسری علت: بقیہ بن ولید مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے

اس سند کی اصل علت یزید بن سنان ہی ہے کیونکہ وہ بقیہ بن ولید سے زیادہ ضعیف ہے۔
 
Top