قال الطبراني: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ» حَدَّثَنَا «سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ» حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي قَيْسٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ بِنْتُ خَلِيفَةَ الْخَثْعَمِيَّةُ عِنْدَ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَلَمَّا أُصِيبَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَبُويِعَ لِلْحَسَنِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِالْخِلَافَةِ، دَخَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: لِتُهْنِكَ الْخِلَافَةُ فَقَالَ لَهَا: أَتُظْهِرِينَ الشَّمَاتَةَ بِقَتْلِ عَلِيٍّ، انْطَلِقِي فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا. فَتَقَنَّعَتْ بِسَاجٍ لَهَا، وَجَلَسَتْ فِي نَاحِيَةِ الْبَيْتِ وَقَالَتْ: أَمَا وَاللهِ مَا أَرَدْتُ مَا ذَهَبْتَ إِلَيْهِ. فَأَقامَتْ حَتَّى انْقَضَتْ عِدَّتُهَا، ثُمَّ تَحَوَّلَتْ عَنْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا بِبَقِيَّةٍ بَقِيَتْ لَهَا مِنْ صَدَاقِهَا عَلَيْهِ، وبِمُتْعَةٍ عَشَرَةِ آلَافٍ، فَلَمَّا جَاءَهَا الرَّسُولُ بِذَلِكَ قَالَتْ: مَتَاعٌ قَلِيلٌ مِنْ حَبِيبٍ مَفَارِقٍ. فَلَمَّا رَجَعَ الرَّسُولُ إِلَى الْحَسَنِ فَأَخْبَرَهُ بِمَا قَالَتْ، بَكَى الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ جَدِّي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ جَدِّي أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا عِنْدَ الْأَقْرَاءِ، أَوْ طَلَّقَهَا ثَلَاثًا مُبْهَمَةً؛ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ» ؛ لَراجَعْتُهَا
ترجمہ: سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کے نکاح میں تھی جب علی رضی اللّٰہ عنہ شہید ہو گئے اور حسن رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت پر بیعت ہوئی تو اس نے کہا: اے امیر المومنین آپ کو خلافت مبارک ہو۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: علی رضی اللّٰہ عنہ شہید ہوئے ہیں اور تو خوشی کا اظہار کر رہی ہے، جا تجھے میری طرف سے تین طلاق۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس نے چادر اوڑھ لی اور عدت گزارنے تک بیٹھی رہی۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ نے اسے دس ہزار کی رقم اور اس کے مہر کی بقیہ رقم بھیجی تو اس نے کہا: یہ مال جدا ہونے والے محبوب سے کہیں کم حیثیت کا ہے۔ جب آپ کو اس کی یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے روتے ہوئے فرمایا: اگر میں نے اپنے نانا کو ( یا فرمایا کہ اپنے والد کو نانا کے حوالے سے) یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ جو شخص اپنی بیوی کو مبہم ( اکٹھی) یا الگ الگ تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی، یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے، تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔
۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٢٧٥٧) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ سنن الدارقطني (٣٩٧٢) (المتوفى: ٣٨٥ھ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٤٩٧١) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ الضعيفة (٣٧٧٦)؛ (ضعيف جداً)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ کوثری نے اپنے رسالے "الإشفاق" میں اس حدیث کو طبرانی اور بیہقی کی طرف منسوب کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے، حافظ ابن رجب نے اس حدیث کو اپنی کتاب "بيان مشكل الأحاديث الواردة في أن الطلاق الثلاث واحدة" میں بیان کرنے کے بعد اس پر کچھ بھی کلام نہیں کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ یہ سند صحیح تو دور حسن کہنے کے لائق بھی نہیں ہے۔
اس سند میں سلمہ بن فضل صدوق، کثیر الخطاء ہے۔ محمد بن حمید رازی ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التھذیب میں ہے بلکہ اس پر کئی محدیثین نے جھوٹ کا الزام لگایا ہے۔بعض نے اس کی جرح میں تساہل برتا ہے جیسا کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رواۃ میں ضعف ہے اور ان کی توثیق بھی کی گئی ہے(یہ تساہل ہے)۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ کوئی پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے کہ کیا یہ حدیث عمرو بن شمر کی روایت سے تقویت نہیں پاتی جس کو بیہقی رحمہ اللّٰہ نے تعلیقًا روایت کیا ہے؟ میں کہتا ہوں ہرگز نہیں، کیونکہ عمرو بن شمر کذاب ہے ثقہ راویوں سے موضوعات روایت کرتا ہے ایسے راوی سے استشہاد نہیں کیا جاتا۔
یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ "تجھے تین طلاق" یا طلاق، طلاق، طلاق " بولنے کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے اس لیے آپ کو "الإشفاق" میں کوثری کا کلام دھوکہ نہ دے کیونکہ وہ اپنے آپ پر مشفق نہیں تھے (یعنی خود اپنی بھلائی نہیں چاہتے تھے) اور سنت سے منحرف تھے۔صحیح مسلم کی ابن عباس رضی ﷲ عنہ کی حدیث کی تاویل یہ کی تھی کہ وہ حدیث "غیر مدخول بہا" عورت کے متعلق ہے۔
جو بھی اس مسئلے میں حق جاننا چاہتا ہے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ان کے شاگرد ابن قیم اور دوسرے ائمہ اہل سنت کی کتب کا مطالعہ کریں۔
ترجمہ: سوید بن غفلہ روایت کرتے ہیں کہ عائشہ بنت خلیفہ خثعمیہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کے نکاح میں تھی جب علی رضی اللّٰہ عنہ شہید ہو گئے اور حسن رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت پر بیعت ہوئی تو اس نے کہا: اے امیر المومنین آپ کو خلافت مبارک ہو۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: علی رضی اللّٰہ عنہ شہید ہوئے ہیں اور تو خوشی کا اظہار کر رہی ہے، جا تجھے میری طرف سے تین طلاق۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس نے چادر اوڑھ لی اور عدت گزارنے تک بیٹھی رہی۔ حسن رضی اللّٰہ عنہ نے اسے دس ہزار کی رقم اور اس کے مہر کی بقیہ رقم بھیجی تو اس نے کہا: یہ مال جدا ہونے والے محبوب سے کہیں کم حیثیت کا ہے۔ جب آپ کو اس کی یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے روتے ہوئے فرمایا: اگر میں نے اپنے نانا کو ( یا فرمایا کہ اپنے والد کو نانا کے حوالے سے) یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ جو شخص اپنی بیوی کو مبہم ( اکٹھی) یا الگ الگ تین طلاق دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں رہتی، یہاں تک کہ وہ کسی اور سے نکاح کرلے، تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔
۩تخريج: المعجم الكبير للطبراني (٢٧٥٧) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ سنن الدارقطني (٣٩٧٢) (المتوفى: ٣٨٥ھ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٤٩٧١) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ الضعيفة (٣٧٧٦)؛ (ضعيف جداً)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ کوثری نے اپنے رسالے "الإشفاق" میں اس حدیث کو طبرانی اور بیہقی کی طرف منسوب کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے، حافظ ابن رجب نے اس حدیث کو اپنی کتاب "بيان مشكل الأحاديث الواردة في أن الطلاق الثلاث واحدة" میں بیان کرنے کے بعد اس پر کچھ بھی کلام نہیں کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس حدیث کو صحیح سمجھتے تھے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ بہت عجیب بات ہے کیونکہ یہ سند صحیح تو دور حسن کہنے کے لائق بھی نہیں ہے۔
اس سند میں سلمہ بن فضل صدوق، کثیر الخطاء ہے۔ محمد بن حمید رازی ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التھذیب میں ہے بلکہ اس پر کئی محدیثین نے جھوٹ کا الزام لگایا ہے۔بعض نے اس کی جرح میں تساہل برتا ہے جیسا کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے رواۃ میں ضعف ہے اور ان کی توثیق بھی کی گئی ہے(یہ تساہل ہے)۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ کوئی پوچھنے والا پوچھ سکتا ہے کہ کیا یہ حدیث عمرو بن شمر کی روایت سے تقویت نہیں پاتی جس کو بیہقی رحمہ اللّٰہ نے تعلیقًا روایت کیا ہے؟ میں کہتا ہوں ہرگز نہیں، کیونکہ عمرو بن شمر کذاب ہے ثقہ راویوں سے موضوعات روایت کرتا ہے ایسے راوی سے استشہاد نہیں کیا جاتا۔
یہ بات اچھی طرح جان لینی چاہئے کہ "تجھے تین طلاق" یا طلاق، طلاق، طلاق " بولنے کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے اس لیے آپ کو "الإشفاق" میں کوثری کا کلام دھوکہ نہ دے کیونکہ وہ اپنے آپ پر مشفق نہیں تھے (یعنی خود اپنی بھلائی نہیں چاہتے تھے) اور سنت سے منحرف تھے۔صحیح مسلم کی ابن عباس رضی ﷲ عنہ کی حدیث کی تاویل یہ کی تھی کہ وہ حدیث "غیر مدخول بہا" عورت کے متعلق ہے۔
جو بھی اس مسئلے میں حق جاننا چاہتا ہے وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ان کے شاگرد ابن قیم اور دوسرے ائمہ اہل سنت کی کتب کا مطالعہ کریں۔