قال أحمد: حَدَّثَنَا حَسَنٌ قَالَ حَدَّثَنَا «ابْنُ لَهِيعَةَ» قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِذَا أُعْتِقَتْ الْأَمَةُ وَهِيَ تَحْتَ الْعَبْدِ فَأَمْرُهَا بِيَدِهَا فَإِنْ هِيَ أَقَرَّتْ حَتَّى يَطَأَهَا فَهِيَ امْرَأَتُهُ لَا تَسْتَطِيعُ فِرَاقَهُ»
ترجمہ: چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی باندی کو آزاد کیا جائے جبکہ وہ کسی غلام کی زوجیت میں ہو تو اسے اختیار مل جاتا ہے، بشرطیکہ اس نے اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو کہ اگر چاہے تو اپنے شوہر سے جدائی اختیار کر لے، اور اگر وہ اس سے ہمبستری کر چکا ہو تو پھر اسے یہ اختیار نہیں رہتا اور وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔
۩تخريج: مسند أحمد (١٦٦١٩، ١٦٦٢٠) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ شرح مشكل الآثار لأبي جعفر الطحاوي (٤٣٨٢،٤٣٨٣) (المتوفى: ٣٢١هـ)؛ الضعيفة (٢٣٣٥)؛ (ضعيف)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ وہ کمزور حافظے والے ہیں۔
«إِذَا أُعْتِقَتْ الْأَمَةُ وَهِيَ تَحْتَ الْعَبْدِ فَأَمْرُهَا بِيَدِهَا فَإِنْ هِيَ أَقَرَّتْ حَتَّى يَطَأَهَا فَهِيَ امْرَأَتُهُ لَا تَسْتَطِيعُ فِرَاقَهُ»
ترجمہ: چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب کسی باندی کو آزاد کیا جائے جبکہ وہ کسی غلام کی زوجیت میں ہو تو اسے اختیار مل جاتا ہے، بشرطیکہ اس نے اس کے ساتھ ہمبستری نہ کی ہو کہ اگر چاہے تو اپنے شوہر سے جدائی اختیار کر لے، اور اگر وہ اس سے ہمبستری کر چکا ہو تو پھر اسے یہ اختیار نہیں رہتا اور وہ اس سے جدا نہیں ہو سکتی۔
۩تخريج: مسند أحمد (١٦٦١٩، ١٦٦٢٠) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ شرح مشكل الآثار لأبي جعفر الطحاوي (٤٣٨٢،٤٣٨٣) (المتوفى: ٣٢١هـ)؛ الضعيفة (٢٣٣٥)؛ (ضعيف)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ وہ کمزور حافظے والے ہیں۔