⑴ قال الحاكم: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْخَلَدِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَطَّارِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«مَنْ أَصْبَحَ وَالدُّنْيَا أَكْبَرُ هَمِّهِ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَتَّقِ اللَّهَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَ مَنْ لَمْ يَهْتَمَّ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً فَلَيْسَ مِنْهُمْ»
ترجمہ: جس کی صبح اس حال میں ہو کہ اس کا سب سے بڑا غم دنیا ہو تو اللّٰہ تعالٰی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو اللّٰہ تعالی سے نہ ڈرے اللّٰہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں، جو مسلمانوں کی پروا نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔
۩تخريج: المستدرك على الصحيحين للحاكم (٧٨٨٩) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الضعيفة (٣٠٩)؛ (موضوع)
یہ حدیث حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ ہی سے اور دو سندوں سے بھی مروی ہے:
پہلی سند: عن أبان عن أبي العالية عن حذيفة، شاید یہ خطیب بغدادی کی روایت کی طرح مرفوع ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس طرح کی سندوں سے دلیل نہیں لی جاتی کیونکہ ابان بن ابی عیاش کو شعبہ وغیرہ نے کذاب کہا ہے لیکن اس کی متابعت موجود ہے جیسا کہ دو احادیث کے بعد آ رہا ہے۔
دوسری سند: عن عبد الله بن سلمة بن أسلم عن عقبة بن شداد الجمحي عن حذيفة رفعه.
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے عبداللہ بن سلمہ کو دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے ضعیف کہا ہے اور ابو نعیم رحمہ اللّٰہ نے متروک کہا ہے اور عقبہ کو ہم نہیں جانتے جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے اور اس سند میں راویوں کی ایک جماعت ہے جن کو میں نہیں جانتا۔
اس حدیث کے شواہد ابن مسعود، انس اور ابو ذر رضی اللّٰہ عنہم کی روایات ہیں اور وہ سب صحیح نہیں ہیں جیسا کہ میں نے اس کے بعد کی احادیث میں بیان کیا ہے۔
⑵ قال الطبراني: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا «يَزِيدُ بْنُ رَبِيعَة»َ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«مَنْ أَصْبَحَ وَهَمُّهُ الدُّنْيَا فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَهْتَمَّ بِالْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَمَنْ أَعْطَى الذُّلَّ مِنْ نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَلَيْسَ مِنَّا»
ترجمہ: جس نے اس حال میں صبح کی ہو کہ اس کا غم دنیا ہو تو اللّٰہ تعالٰی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو مسلمانوں کی پروا نہ کرے وہ ان میں سے نہیں، اور جو اپنے آپ کو جان بوجھ کر بغیر کسی زبردستی کے ذلیل کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
۩تخريج: المعجم الأوسط للطبراني (٤٧١) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الضعيفة (٣١٠) (ضعيف جدا)
طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف یزید بن ربیعہ نے ہی روایت کیا ہے، ہیثمی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یزید بن ربیعہ رحبی متروک ہے، منذری رحمہ اللّٰہ نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابو حاتم رحمہ اللّٰہ نے یزید بن ربیعہ کی ابو اشعث سے روایت کردہ احادیث کو منکر کہا ہے جیسا کہ "الجرح والتعديل" میں ہے اور یہ حدیث ان ہی روایات میں سے ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔جوزجانی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ مجھے یہ لگتا ہے کہ اس کی احادیث موضوع ہیں۔
⑶ قال المخَلِّص: حَدَّثَنَا محمدُ بنُ هارونَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا «وَهْبُ بْنُ رَاشِد»ٍ عَنْ «فَرْقَدٍ» عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«مَنْ أَصْبَحَ وَهَمُّهُ غَيْرُ اللهِ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ، وَمَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِالْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ»
ترجمہ: جو اس حال میں صبح کرے کہ اس کی فکر غیر اللّٰہ ہو تو اللّٰہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو مسلمانوں کی فکر نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔
ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو انس رضی اللّٰہ عنہ سے صرف فرقد نے ہی روایت کیا ہے اور اس سے صرف وہب بن راشد نے ہی روایت کیا ہے اور ان دونوں کی روایت سے اور وہ بھی ایسی روایت جس کو روایت کرنے میں وہ منفرد ہوں، استدلال نہیں کیا جاتا۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ فرقد کمزور حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے اور وہب بن راشد کے متعلق ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ " الجرح والتعديل " میں کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ منکر الحدیث ہے اور باطل احادیث روایت کرتا ہے اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سے کسی بھی حال میں روایت کرنا جائز نہیں ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی صحت و ضعف کا دارومدار وہب بن راشد پر ہی ہے اور اس سے روایت کرنے والے سلیمان بن عمر رقی کا ذکر ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ نے کیا ہے لیکن اس میں جرح و تعدیل بیان نہیں کی، اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کی توثیق کی ہے۔
قال الحاكم: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْبَاقِي بْنُ قَانِعٍ الْحَافِظُ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا «إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ» حَدَّثَنَا «مُقَاتِلُ بْنُ سُلَيْمَانَ» عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«مَنْ أَصْبَحَ وَهَمُّهُ غَيْرُ اللَّهِ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَهْتَمَّ لِلْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ»
ترجمہ: جو اس حال میں صبح کرے کہ اس کی فکر غیر اللّٰہ ہو تو اللّٰہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو مسلمانوں کی فکر نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔
۩تخريج: حديث أنس رَضِيَ اللَّهُ عَنْه: حديث أبي حامد الحضرمي (المتوفى: ٣٢١ھ)؛ (الفوائد المنتقاة) المخلصيات لأبي طاهر المخَلِّص (المتوفى: ٣٩٣ھ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)
حديث ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه: المستدرك على الصحيحين للحاكم (٧٩٠٢) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ أمالي ابن بشران (٣٩٥، ٥٤٥) (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ الضعيفة (٣١١) (موضوع)
اس حدیث پر حاکم رحمہ اللّٰہ نے سکوت اختیار کیا ہے اور ابن بشران رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس کو صرف اسحاق بن بشر نے ہی روایت کیا ہے اور ذہبی رحمہ اللّٰہ نے " تلخيص المستدرك " میں کہا ہے کہ اسحاق اور مقاتل دونوں ثقہ نہیں ہیں اور نہ ہی سچے ہیں۔
شیخ البانی کہتے ہیں اسحاق بن بشر ابو حذیفہ بخاری کو ابن مدینی اور دار قطنی رحمہما اللّٰہ نے کذاب کہا ہے جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے اور یہ حدیث بیان کی ہے اور پھر کہا ہے کہ مقاتل بھی حدیث گڑھتا تھا۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ مقاتل بن سلیمان بلخی کو وکیع رحمہ اللّٰہ نے کذاب کہا ہے۔
اس حدیث کو ابن نجار نے اپنی سند سے (عن عبد الله بن زبيد الأيامي عن أبان عن أنس مرفوعا) روایت کیا ہے جس کو سیوطی نے " اللآليء المصنوعة " میں حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث کی شاہد کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کی سند پر کچھ بھی کلام نہیں کیا اور یہ انہوں نے ٹھیک نہیں کیا کیونکہ عبداللہ بن زبید عدالت میں غیر معروف ہے، ابن ابی حاتم نے ان کا ذکر " الجرح والتعديل " میں کیا ہے لیکن اس میں جرح و تعدیل بیان نہیں کی اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کے شیخ ابان بن ابی عیاش کو شعبہ وغیرہ نے کذاب کہا ہے اور ایسے راویوں سے دلیل نہیں لی جاتی۔
یہ حدیث ایک اور سند سے انس رضی اللّٰہ عنہ سے ابن ابی الدنیا کی " ذم الدنيا" میں مختصرا مروی ہے:
أخرجه ابن أبي الدنيا في " ذم الدنيا": عن «الحارث بن مسلم الرازي» وكانوا يرونه من الأبدال عن «زياد» عنه: بلفظ:
«مَنْ أَصْبَحَ وَ أَكْبَرُ هَمِّهِ الدُّنْيَا فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل»
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے زیاد اگر (ابن میمون ثقفی) ہے تو وہ کذاب ہے اور اگر نمیری ہے تو ضعیف ہے، مزید آپ حدیث نمبر: (٢٩٦) کی تخریج دیکھیں۔
اور حارث بن مسلم رازی کے متعلق سلیمانی نے کہا ہے "فيه نظر"
(مجھے یہ حدیث ابن ابی الدنیا کی ذم الدنیا میں نہیں ملی -مترجم)
اس روایت کی شاہد علی رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث ہے جس کو ابو بکر شافعی نے مسند موسی بن جعفر ہاشمی میں روایت کیا ہے اس روایت میں موسیٰ بن ابراہیم مروزی کو یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے۔
یہ حدیث حذیفہ، ابو ذر اور ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
⑷ قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ الْأَصْبَهَانِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الزَّمْعِيُّ حَدَّثَنَا «عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ» عَنْ «أَبِيهِ» عَنِ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:
«مَنْ لَا يَهْتَمُّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَمَنْ لَا يُصْبِحُ وَيُمْسِي نَاصِحًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِإِمَامِهِ وَلِعَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ»
ترجمہ: جو مسلمانوں کے مسائل کی پروا نہ کرے وہ ان میں سے نہیں، اور جو اللّٰہ، اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، اس کی کتاب، اس کے امام اور عام مسلمانوں کے خیرخواہ کے طور پر صبح اور شام نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔
۩تخريج: المعجم الصغير (٩٠٧) و الأوسط (٧٤٧٣) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الضعيفة (٣١٢) (ضعيف)
طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ سے صرف اسی سند روایت کیا گیا ہے اور اس حدیث کو صرف ابی جعفر رازی نے ہی روایت کیا ہے اور ان سے صرف ان کے بیٹے نے ہی روایت کیا ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند عبداللہ بن ابی جعفر اور اس کے والد کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ وہ دونوں ضعیف ہیں، ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں صرف بیٹے کو ضعیف کہنے پر اکتفاء کیا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ باپ بیٹے سے زیادہ ضعیف ہے۔