• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال العقيلي: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا «زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى الْخَزَّارُ» قَالَ: حَدَّثَنَا «إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبَّادٍ» قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ مِنَ النِّسَاءِ عِيٌّ وَعَوْرَةٌ، فَكُفُّوا عِيَّهُنَّ بِالسُّكُوتِ، وَوَارُوا عَوْرَتَهُنَّ بِالْبُيُوتِ»

ترجمہ: عورت میں جہالت بھی ہوتی ہے اور بے پردگی بھی، پس تم ان کی جہالت کو خاموشی کے ذریعے روکو اور ان کی بے پردگی کو گھروں میں چھپاؤ۔

۩تخريج: الضعفاء الكبير للعقيلي (في ترجمة ٩٦ - إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبَّادٍ بَصْرِيٌ)(المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (في ترجمة ٤٠ - إِسْمَاعِيل بْن عباد أَبُو مُحَمَّد و في ترجمة ٣٦ - إِسْمَاعِيل بْن مُسْلِم الْمَكِّيّ أَبُو ربيعَة) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ الأمالي للشجري (٢٠١) (المتوفى: ٤٩٩هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية الجوزي (١٠٤٣، ١٠٤٤) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ الضعيفة (٢٣٨٩)؛ (ضعيف جدا)

عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اسماعیل بن عباد بصری کی احادیث محفوظ نہیں ہیں۔ میزان الاعتدال میں دار قطنی رحمہ اللّٰہ کا قول ہے کہ اسماعیل متروک ہے۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اسماعیل کی متابعت کوئی نہیں کرتا اور وہ ثقہ راویوں کی روایات کو الٹ پلٹ کر روایت کرتا ہے اس سے کسی بھی حال میں روایت کرنا جائز نہیں ہے، ہم نے اس سے ایک نسخہ لکھا ہے جو مقلوب اور موضوع احادیث سے بھرا ہوا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ زکریا بن یحییٰ خزاز بخاری کے راویوں میں سے ہے لیکن تقریب التہذیب میں ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے ان کے متعلق کہا ہے "صدوق له أوهام، اس لیے دار قطنی نے انہیں لین الحدیث کہا ہے"

ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو ضعفاء میں اسماعیل بن مسلم کی سند سے تعلیقًا ٹھیک اسی طرح روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اسماعیل بن مسلم ضعیف ہے ابن مبارک رحمہ اللّٰہ نے اسے ضعیف کہا ہے اور یحییٰ قطان اور ابن معین نے اسے ترک کیا ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے " العلل المتناهية " میں اس حدیث کو اوپر کی دونوں سندوں سے روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے پھر دونوں اسماعیل ( اسماعیل بن عباد اور اسماعیل بن مسلم) کو ضعیف کہا ہے۔

شجری رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو حسن بن علی رضی اللّٰہ عنہ سے مظلم سند سے مرفوع روایت کیا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عدي: حَدَّثَنَا «مُحَمَّدٌ بْنُ مُحَمَّدٌ بْنُ الأَشْعَثُ» حَدَّثَنِي مُوْسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمد حَدَّثني أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مِنْ يُمْنِ الْمَرْأَةِ أَنْ يَكُونَ بِكْرُهَا جَارِيَةً»

ترجمہ: عورت کی برکت میں سے ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو۔

۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥ھ)؛ الضعيفة (٤١٣٦)؛ (موضوع)

شیخ البانی: یہ حدیث موضوع ہے، مُحَمد بن مُحَمد بن الأشعث متہم بالوضع ہے، ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے اس راوی کی اس علوی سند کی ہزار احادیث میں سے تقریبًا پچیس (۲۵) احادیث لائی ہیں اور کہا ہے کہ عام طور پر یہ احادیث منکر ہیں اور وہ متہم بالوضع ہے۔

دار قطنی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس نے یہ کتاب " العلويات" گھڑی ہے۔ اور ذہبی رحمہ اللّٰہ میزان الاعتدال میں کہتے ہیں کہ ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے اسکی موضوع احادیث نقل کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عدي: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى بْنِ فَضَالَةَ أَخْبَرنا بُنْدَار حَدَّثَنا «مُحَمد بن الحارث» حَدَّثَنا «مُحَمد بْنُ عَبد الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيُّ» عَنْ أَبِيهِ عنِ ابْنِ عُمَر قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

«احْمِلُوا النِّسَاءَ عَلَى أَهْوَائِهِنَّ»

ترجمہ: عورتوں کو ان کی خواہشات کے مطابق سنبھالو۔ (مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ان کا نکاح انکی پسند کے مطابق کرو تاکہ زوجین میں محبت پیدا ہو یا یہ مطلب ہے کہ عورتوں کی نادان خواہشات کے باوجود انہیں برداشت کرو)۔

۩تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٦٦٠- مُحَمد بْن الحارث بْن زياد بْن الربيع الحارثي البصري) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الضعيفة (٢٠٦٨)؛ (موضوع)

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ محمد بن حارث کی روایات عمومًا محفوظ نہیں ہوتی اور محمد بن حارث کے شیخ ابن بیلمانی کے تعارف میں کہا ہے کہ جب اس سے محمد بن حارث روایت کرے تو وہ دونوں ضعیف ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن بیلمانی اپنے والد سے موضوع احادیث کا ایک نسخہ روایت کرتا ہے جیسا کہ ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
رواه الديلمي: عن علي بن محمد بن مهرويه: حدثنا «السليل بن موسى عن أبيه موسى بن السليل الصنعاني عن أبيه» عن «بشر ابن رافع» عن يحيى بن أبي كثير عن أبي سلمة عن أبي هريرة مرفوعًا

«الْخُلُقُ الْحَسَنُ لَا يَنْزِعُ إِلَّا مِنْ وَلَدِ حَيْضَةٍ أَوْ وَلَدِ زِنْيَةٍ»

ترجمہ: اچھے اخلاق صرف حائضہ یا زانیہ عورت کی اولاد سے ہی ختم ہوتے ہیں( یعنی ان میں اچھے اخلاق نہیں ہوتے)۔

۩تخريج: الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٢٩٩٢) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛الضعيفة (٣٥٨٩) (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بشر بن رافع کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے اور میں سلیل بن موسیٰ ان کے والد اور دادا کسی کو نہیں جانتا۔

علی بن محمد بن مہرویہ کے متعلق حافظ ابن حجر لسان المیزان میں صالح بن احمد رحمہ اللّٰہ کا قول "طبقات أهل همذان" سے نقل کرتے ہیں کہ " محدیثین نے ان پر کلام کیا ہے اور وہ ہمارے نزدیک سچے ہیں"۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
كتاب الزهد
⑴ قال الحاكم: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْخَلَدِيُّ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْقَطَّانُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ الْعَطَّارِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنِ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَنْ أَصْبَحَ وَالدُّنْيَا أَكْبَرُ هَمِّهِ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَتَّقِ اللَّهَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَ مَنْ لَمْ يَهْتَمَّ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً فَلَيْسَ مِنْهُمْ»

ترجمہ: جس کی صبح اس حال میں ہو کہ اس کا سب سے بڑا غم دنیا ہو تو اللّٰہ تعالٰی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو اللّٰہ تعالی سے نہ ڈرے اللّٰہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں، جو مسلمانوں کی پروا نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔

۩تخريج: المستدرك على الصحيحين للحاكم (٧٨٨٩) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الضعيفة (٣٠٩)؛ (موضوع)

یہ حدیث حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ ہی سے اور دو سندوں سے بھی مروی ہے:

پہلی سند: عن أبان عن أبي العالية عن حذيفة، شاید یہ خطیب بغدادی کی روایت کی طرح مرفوع ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس طرح کی سندوں سے دلیل نہیں لی جاتی کیونکہ ابان بن ابی عیاش کو شعبہ وغیرہ نے کذاب کہا ہے لیکن اس کی متابعت موجود ہے جیسا کہ دو احادیث کے بعد آ رہا ہے۔

دوسری سند: عن عبد الله بن سلمة بن أسلم عن عقبة بن شداد الجمحي عن حذيفة رفعه.

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے عبداللہ بن سلمہ کو دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے ضعیف کہا ہے اور ابو نعیم رحمہ اللّٰہ نے متروک کہا ہے اور عقبہ کو ہم نہیں جانتے جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے اور اس سند میں راویوں کی ایک جماعت ہے جن کو میں نہیں جانتا۔

اس حدیث کے شواہد ابن مسعود، انس اور ابو ذر رضی اللّٰہ عنہم کی روایات ہیں اور وہ سب صحیح نہیں ہیں جیسا کہ میں نے اس کے بعد کی احادیث میں بیان کیا ہے۔



⑵ قال الطبراني: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا «يَزِيدُ بْنُ رَبِيعَة»َ عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ أَصْبَحَ وَهَمُّهُ الدُّنْيَا فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَهْتَمَّ بِالْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَمَنْ أَعْطَى الذُّلَّ مِنْ نَفْسِهِ طَائِعًا غَيْرَ مُكْرَهٍ فَلَيْسَ مِنَّا»

ترجمہ: جس نے اس حال میں صبح کی ہو کہ اس کا غم دنیا ہو تو اللّٰہ تعالٰی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو مسلمانوں کی پروا نہ کرے وہ ان میں سے نہیں، اور جو اپنے آپ کو جان بوجھ کر بغیر کسی زبردستی کے ذلیل کرے وہ ہم میں سے نہیں۔

۩تخريج: المعجم الأوسط للطبراني (٤٧١) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الضعيفة (٣١٠) (ضعيف جدا)

طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف یزید بن ربیعہ نے ہی روایت کیا ہے، ہیثمی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یزید بن ربیعہ رحبی متروک ہے، منذری رحمہ اللّٰہ نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابو حاتم رحمہ اللّٰہ نے یزید بن ربیعہ کی ابو اشعث سے روایت کردہ احادیث کو منکر کہا ہے جیسا کہ "الجرح والتعديل" میں ہے اور یہ حدیث ان ہی روایات میں سے ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔جوزجانی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ مجھے یہ لگتا ہے کہ اس کی احادیث موضوع ہیں۔


⑶ قال المخَلِّص: حَدَّثَنَا محمدُ بنُ هارونَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا «وَهْبُ بْنُ رَاشِد»ٍ عَنْ «فَرْقَدٍ» عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ أَصْبَحَ وَهَمُّهُ غَيْرُ اللهِ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ، وَمَنْ أَصْبَحَ لَا يَهْتَمُّ بِالْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ»

ترجمہ: جو اس حال میں صبح کرے کہ اس کی فکر غیر اللّٰہ ہو تو اللّٰہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو مسلمانوں کی فکر نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔

ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو انس رضی اللّٰہ عنہ سے صرف فرقد نے ہی روایت کیا ہے اور اس سے صرف وہب بن راشد نے ہی روایت کیا ہے اور ان دونوں کی روایت سے اور وہ بھی ایسی روایت جس کو روایت کرنے میں وہ منفرد ہوں، استدلال نہیں کیا جاتا۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ فرقد کمزور حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے اور وہب بن راشد کے متعلق ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ " الجرح والتعديل " میں کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا: وہ منکر الحدیث ہے اور باطل احادیث روایت کرتا ہے اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سے کسی بھی حال میں روایت کرنا جائز نہیں ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی صحت و ضعف کا دارومدار وہب بن راشد پر ہی ہے اور اس سے روایت کرنے والے سلیمان بن عمر رقی کا ذکر ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ نے کیا ہے لیکن اس میں جرح و تعدیل بیان نہیں کی، اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کی توثیق کی ہے۔

قال الحاكم: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْبَاقِي بْنُ قَانِعٍ الْحَافِظُ بِبَغْدَادَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، حَدَّثَنَا «إِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ» حَدَّثَنَا «مُقَاتِلُ بْنُ سُلَيْمَانَ» عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَنْ أَصْبَحَ وَهَمُّهُ غَيْرُ اللَّهِ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ وَمَنْ لَمْ يَهْتَمَّ لِلْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ»

ترجمہ: جو اس حال میں صبح کرے کہ اس کی فکر غیر اللّٰہ ہو تو اللّٰہ تعالی کو اس کی کوئی پروا نہیں اور جو مسلمانوں کی فکر نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔

۩تخريج: حديث أنس رَضِيَ اللَّهُ عَنْه: حديث أبي حامد الحضرمي (المتوفى: ٣٢١ھ)؛ (الفوائد المنتقاة) المخلصيات لأبي طاهر المخَلِّص (المتوفى: ٣٩٣ھ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)

حديث ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه: المستدرك على الصحيحين للحاكم (٧٩٠٢) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ أمالي ابن بشران (٣٩٥، ٥٤٥) (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ الضعيفة (٣١١) (موضوع)

اس حدیث پر حاکم رحمہ اللّٰہ نے سکوت اختیار کیا ہے اور ابن بشران رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس کو صرف اسحاق بن بشر نے ہی روایت کیا ہے اور ذہبی رحمہ اللّٰہ نے " تلخيص المستدرك " میں کہا ہے کہ اسحاق اور مقاتل دونوں ثقہ نہیں ہیں اور نہ ہی سچے ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں اسحاق بن بشر ابو حذیفہ بخاری کو ابن مدینی اور دار قطنی رحمہما اللّٰہ نے کذاب کہا ہے جیسا کہ میزان الاعتدال میں ہے اور یہ حدیث بیان کی ہے اور پھر کہا ہے کہ مقاتل بھی حدیث گڑھتا تھا۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ مقاتل بن سلیمان بلخی کو وکیع رحمہ اللّٰہ نے کذاب کہا ہے۔

اس حدیث کو ابن نجار نے اپنی سند سے (عن عبد الله بن زبيد الأيامي عن أبان عن أنس مرفوعا) روایت کیا ہے جس کو سیوطی نے " اللآليء المصنوعة " میں حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث کی شاہد کے طور پر پیش کیا ہے اور اس کی سند پر کچھ بھی کلام نہیں کیا اور یہ انہوں نے ٹھیک نہیں کیا کیونکہ عبداللہ بن زبید عدالت میں غیر معروف ہے، ابن ابی حاتم نے ان کا ذکر " الجرح والتعديل " میں کیا ہے لیکن اس میں جرح و تعدیل بیان نہیں کی اور ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کے شیخ ابان بن ابی عیاش کو شعبہ وغیرہ نے کذاب کہا ہے اور ایسے راویوں سے دلیل نہیں لی جاتی۔

یہ حدیث ایک اور سند سے انس رضی اللّٰہ عنہ سے ابن ابی الدنیا کی " ذم الدنيا" میں مختصرا مروی ہے:

أخرجه ابن أبي الدنيا في " ذم الدنيا": عن «الحارث بن مسلم الرازي» وكانوا يرونه من الأبدال عن «زياد» عنه: بلفظ:

«مَنْ أَصْبَحَ وَ أَكْبَرُ هَمِّهِ الدُّنْيَا فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل»

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے زیاد اگر (ابن میمون ثقفی) ہے تو وہ کذاب ہے اور اگر نمیری ہے تو ضعیف ہے، مزید آپ حدیث نمبر: (٢٩٦) کی تخریج دیکھیں۔
اور حارث بن مسلم رازی کے متعلق سلیمانی نے کہا ہے "فيه نظر"
(مجھے یہ حدیث ابن ابی الدنیا کی ذم الدنیا میں نہیں ملی -مترجم)

اس روایت کی شاہد علی رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث ہے جس کو ابو بکر شافعی نے مسند موسی بن جعفر ہاشمی میں روایت کیا ہے اس روایت میں موسیٰ بن ابراہیم مروزی کو یحییٰ بن معین نے کذاب کہا ہے۔

یہ حدیث حذیفہ، ابو ذر اور ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہم سے بھی مروی ہے۔


⑷ قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ الْأَصْبَهَانِيُّ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الزَّمْعِيُّ حَدَّثَنَا «عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ» عَنْ «أَبِيهِ» عَنِ الرَّبِيعِ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ لَا يَهْتَمُّ بِأَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَمَنْ لَا يُصْبِحُ وَيُمْسِي نَاصِحًا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِإِمَامِهِ وَلِعَامَّةِ الْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ»

ترجمہ: جو مسلمانوں کے مسائل کی پروا نہ کرے وہ ان میں سے نہیں، اور جو اللّٰہ، اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، اس کی کتاب، اس کے امام اور عام مسلمانوں کے خیرخواہ کے طور پر صبح اور شام نہ کرے وہ ان میں سے نہیں۔

۩تخريج: المعجم الصغير (٩٠٧) و الأوسط (٧٤٧٣) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الضعيفة (٣١٢) (ضعيف)

طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ سے صرف اسی سند روایت کیا گیا ہے اور اس حدیث کو صرف ابی جعفر رازی نے ہی روایت کیا ہے اور ان سے صرف ان کے بیٹے نے ہی روایت کیا ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند عبداللہ بن ابی جعفر اور اس کے والد کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ وہ دونوں ضعیف ہیں، ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں صرف بیٹے کو ضعیف کہنے پر اکتفاء کیا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ باپ بیٹے سے زیادہ ضعیف ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عدي: حَدَّثَنَا عَبد اللَّهِ بْنُ مُحَمد بْنِ سَلَمٍ حَدَّثَنا حميد بن زَنْجَوَيْهِ حَدَّثَنا أبو أيوب الدمشقي حَدَّثَنا عَبد الملك بْن مهران الرفاعي حَدَّثَنا مَعْنُ بْنُ عَبد الرَّحْمَنِ عَنِ الْحَسَنِ عَن أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

«مَنْ زَهِدَ فِي الدُّنْيَا أَرْبَعِينَ يَوْمًا وَأَخْلَصَ فِيهَا الْعِبَادَةَ أَخْرَجَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى لِسَانِهِ يَنَابِيعَ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ»


ترجمہ: اگر کوئی چالس دن دنیا سے بے رغبتی اختیار کرے اور اس میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرے تو اللّٰہ تعالی اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری کرے گا۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ متن منکر ہے اور عبدالملک بن مہران مجہول ہے معروف نہیں ہے۔

قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ يُوسُفَ الشِّكْلِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَسَارٍ السَّيَّارِيُّ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ» حَدَّثَنَا «أَبُو خَالِدٍ يَزِيدُ الْوَاسِطِي»ُّ أَنْبَأَنَا «الْحَجَّاج»ُ عَنْ «مَكْحُولٍ» عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ أَخْلُصَ ل‍ِلَّهِ تَعَالَى أَرْبَعِينَ يَوْمًا ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ عَلَى لِسَانِهِ»


ترجمہ: اگر کوئی شخص چالس دن اللّٰہ تعالی کے لیے خاص کرے تو حکمت کے چشمے اس کی زبان سے ظاہر ہوتے ہیں۔

ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مکحول کا ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے، حجاج مجروح ہے، «أَبُو خَالِدٍ يَزِيدُ الْوَاسِطِي» کثیر الخطا ہے، محمد بن اسماعیل مجہول ہے۔


قال القضاعي: أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ يَحْيَى بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْأَذَنِيُّ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ الْأَذَنِيُّ قَالَ: قَالَ الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ فِيلٍ الْإِمَامُ بِأَنْطَاكِيَةَ حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ سَيَّارٍ حَدَّثَنَا «سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ» عَنْ ثَابِتٍ عَنْ مِقْسَمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ أَخْلَصَ لِلَّهِ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِ»


اس سند میں «سَوَّارُ بْنُ مُصْعَبٍ» متروک ہے جیسا کہ نسائی رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے۔

قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلَوِيَّةَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُعَاذٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ مَكْحُولٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَا مِنْ عَبْدٍ يُخْلِصُ الْعِبَادَةَ لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِلَّا ظَهَرَتْ يَنَابِيعُ الْحِكْمَةِ مِنْ قَلْبِهِ عَلَى لِسَانِهِ»


شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند مرسل ہونے کہ ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے کیونکہ حجاج بن ارطاۃ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے۔


۩تخريج:حديث أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِي: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ حديث أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِي: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ حديث ابْنِ عَبَّاس: مسند الشهاب (٤٦٦) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛

حديث مَكْحُولٍ: مصنف بن أبي شيبة (٣٤٣٤٤) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ الزهد لهَنَّاد بن السَّرِي (رقم ٦٧٨) (المتوفى: ٢٤٣هـ)؛ زوائد الزهد والرقائق للحسين المروزي (١٠١٤) (المتوفى: ٢٤٦ /٢٩٠‌ ھ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ الضعيفة (٣٨) (ضعيف)
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
رواه الديلمي: من طريق أَبِي نُعَيْمٍ عَنْ هِلَالٍ بْنِ العَلَاءِ حَدَّثْنَا «أَبِي» حَدَّثْنَا «أَبُو إِسْحَاقٍ» شَيْخٌ كَانَ مَعَنَا فِي السَّفِيْنَةِ عَنْ شُعْبَة عَنْ إِسْمَاعِيْل بن أبي خالد عن قيس بن أبي حازم عن زيد بن أرقم مرفوعاً

«خَمْسٌ مَنْ اُوْتِيَهُنَّ لَمْ يعذر عَلَى تَرْكِ عَمَلِ الْآخِرَةِ: زَوْجَةٌ صَالِحَةٌ وَ بَنُوْنَ أَبْرَارٌ وَحُسْنُ مُخَالِطَةِ النَّاسِ وَ مَعِيْشَةٌ فِيْ بَلَدِهِ وَحُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ»


ترجمہ: جس کو یہ پانچ چیزیں دی گئی وہ آخرت کے لیے عمل کو چھوڑنے پر عذر پیش نہیں کر سکتا: صالح بیوی، نیک اولاد، لوگوں سے اچھا میل میلاپ، اپنے شہر میں روزی اور آل محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی محبت۔

۩تخريج: الفردوس للديلمي (٢٩٧٤) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الضعيفة (٣٥٥٣) (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند علاء بن ہلال بن عمر باہلی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے، ابو حاتم رحمہ اللّٰہ نے اس کو منکر الحدیث اور ضعیف الحدیث کہا ہے ۔اور میں اس کے شیخ ابو اسحاق کو نہیں جانتا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْفَقِيهُ الْوَاسِطِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا «عَبْدُ اللهِ بْنُ سَعْدٍ الرَّقِّيُّ» حَدَّثَتْنِي وَالِدَتِي مَرْوَةُ بِنْتُ مَرْوَانَ قَالَتْ حَدَّثَتْنِي وَالِدَتِي عَاتِكَةُ بِنْتُ بَكَّارٍ عَنْ «أَبِيهَا» قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«مَا تَرَكَ عَبْدٌ شَيْئًا لِلَّهِ لَا يَتْرُكُهُ إِلَّا لَهُ إِلَّا عَوَّضَهُ اللهُ مِنْهُ مَا هُوَ خَيْرٌ لَهُ فِي دِينِهِ وَدُنْيَاهُ»


ترجمہ: اگر کوئی بندہ کسی چیز کو صرف اللّٰہ ہی کے لیے ترک کرتا ہے تو اللّٰہ اسے اس کے بدلے وہ چیز دے گا جو اس کے لیے دنیا اور آخرت میں بہتر ہو گی۔

۩تخريج: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠‌ھ)؛ الطيوريات لأبي الحسين الطيوري (٩٧١) (المتوفى: ٥٠٠‌ھ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٦٢٠٦) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ) (في ترجمة ٩٤٤ - بكار بن محمد بن بكر، و في ٦١٣٦ - محمد بن بكار)؛ الضعيفة (٥) (موضوع بهذا اللفظ)

ابو نعیم اس حدیث کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند موضوع ہے کیونکہ زہری کے علاوہ کسی کا ذکر کتب حدیث میں نہیں ہے، اور عبداللہ بن سعد رقی جھوٹ بولنے میں معروف ہے۔
امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے لسان المیزان میں کہا ہے کہ دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے عبداللہ بن سعد رقی کو جھوٹا کہا ہے اور کہا ہے کہ وہ احادیث گھڑتا تھا اور احمد بن عبدان نے اسے واہیات( بہت زیادہ ضعیف) کہا ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی دوسری علت بکار بن محمد کا مجہول ہونا ہے ابن عساکر رحمہ اللّٰہ نے اس کے تعارف میں اس حدیث کو بیان کیا ہے لیکن کوئی جرح و تعدیل بیان نہیں کی۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث «فِي دِينِهِ وَدُنْيَاهُ» کے بغیر صحیح ہے جیسا کہ نیچے کی حدیث سے واضح ہوتا ہے:

قَالَ وَكِيعٌ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ الْعَدَوِيِّ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَأَبِي الدَّهْمَاءِ قَالَا: أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ فَقُلْنَا لَهُ: هَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:

«إِنَّكَ لَمْ تَدَعْ شَيْئًا لِلَّهِ إِلَّا أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ»


ترجمہ: ابو قتادہ اور ابو دہماء رحمہما اللّٰہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دیہاتی صحابی کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کیا آپ نے نبی ﷺ سے کچھ سنا ہے تو انہوں نے کہا: ہاں، میں نے نبی ﷺ کو کہتے سنا کہ: اگر تم کسی چیز کو صرف اللّٰہ ہی کے لیے ترک کرو گے تو اللّٰہ تم کو اس کے بدلے اس سے بہتر چیز دے گا۔

۩تخريج: الزهد لوكيع (٣٥٦) (المتوفى: ١٩٧هـ)؛ مسند أحمد ( ٢٠٧٣٩، ٢٣٠٧٤) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ الزهد لهَنَّاد بن السَّرِي (المتوفى: ٢٤٣هـ)؛ بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث (رقم: ١١٠١) (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛ مسند الشهاب (رقم: ١١٣٥) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٠٨٢١) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ المتفق والمفترق للخطيب البغدادي (٦٦) (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الترغيب والترهيب لإسماعيل الأصبهاني (٧٠٥) (المتوفى: ٥٣٥هـ)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند مسلم کی شرط پر صحیح ہے، اسماعیل اصبہانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کی شاہد ابی بن کعب رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث پیش کی ہے جس کو شاہد کے طور پر پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن حبان: قَالَ أَبُو حَاتِم: «حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِيُّ» هُوَ الَّذِي رَوَى عَنْ «عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو الْمَلَطِيِّ» عَنْ «أَبِيهِ» عَنْ «يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ» عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

«مَنْ حَمَلَ طُرْفَةً مِنَ السُّوقِ إِلَى وَلَدِهِ كَانَ كَحَامِلِ صَدَقَةٍ حَتَّى يَضَعَهَا فِيهِمْ وَلْيَبْدَأْ بِالإِنَاثِ قَبْلَ الذُّكُورِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ رَقَّ لِلإِنَاثِ وَمَنْ رَقَّ لأُنْثَى كَانَ كَمَنْ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَمَنْ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ غُفِرَ لَهُ وَمَنْ فَرَّحَ أُنْثَى فَرَّحَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْحزن»


ترجمہ: جو شخص بازار سے اپنی اولاد کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان کو دے دینے تک صدقے کے حامل کی طرح ہے اور اس کو چاہیے کہ وہ لڑکوں سے پہلے لڑکیوں کو دے اس لیے کہ اللّٰہ تعالٰی لڑکیوں پر ترس کھاتا ہے اور جو شخص لڑکیوں پر ترس کھاتا ہے وہ اللّٰہ کے خوف سے رونے والے کی طرح ہے اور جو اللّٰہ کے خوف سے روتا ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے اور جو لڑکی کو خوش کرتا ہے اللّٰہ تعالٰی اس کو غم کے دن (یعنی قیامت کے دن ) خوش کر دے گا۔

۩تخريج: المجروحين لابن حبان (٢٤٠)(المتوفي ٣٥٤ھ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥ھ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧ھ)؛ الضعيفة (٦٥١٧) (موضوع)

ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِي کی کنیت أَبُو إِسْمَاعِيل ہے اور وہ ثقہ راویوں پر حدیثیں گھڑتا ہے۔ اس کی احادیث لکھنا جائز نہیں ہے صرف تعجب کے لیے لکھی جا سکتی ہیں۔ يَحْيَى بْنِ مَعِين کہتے ہیں "لَيْسَ بِشْيَء"۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں، اس کی سند میں چار ضعیف راوی ہیں۔ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ضِرَارٍ، اس کے باپ، حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو اور َيزِيد الرقاشِي۔

ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین نے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو الْمَلَطِي کے متعلق کہا ليس بشَيْء،اور کہا اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل علت حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِي ہے عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضِرَار نہیں، کیونکہ سلف نے اس کو حدیث گھڑنے والوں میں شمار کیا ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث نبی ﷺ پر گھڑی گئی ہے، اس میں ضعیف راویوں کی ایک جماعت ہے جن میں يَزِيد الرقاشِي بھی ہے اس میں دین سے لگاؤ تھا لیکن وہ حدیث میں غلطی کرتا تھا۔ اور کبھی حسن بصری کے کلام کو انس رضی ﷲ عنہ سے مرفوعًا روایت کرتا تھا اور اسے اپنی غلطی معلوم بھی نہیں ہوتی۔
ان ہی ضعیف راویوں میں سے ضرار بْن عَمْرو بھی ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل علت حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِي ہی ہے۔

سیوطی رحمہ اللّٰہ نے "اللآلي" میں الخرائطي کی "مكارم الأخلاق" سے اس حدیث کی متابعت بیان کی ہے۔

قال الخرائطي : حَدَّثَنَا سَعْدَانُ بْنُ يَزِيدَ الْبَزَّارُ، حَدَّثَنَا صَاحِبٌ لَنَا يُقَالُ لَهُ «عُبَيْدُ اللَّهِ» عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضِرَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ حَمَلَ طُرْفَةً مِنَ السُّوقِ إِلَى عِيَالِهِ فَكَأَنَّمَا حَمَلَ إِلَيْهِمْ صَدَقَةً، حَتَّى يَضَعَهَا فِيهِمْ، وَلْيَبْدَأْ بِالْإِنَاثِ قَبْلَ الذُّكُورِ؛ فَإِنَّهُ مَنْ فَرَّحَ أُنْثَى فَكَأَنَّمَا بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ، وَمَنْ بَكَى مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ؛ حَرَّمَ اللَّهُ بَدَنَهُ عَلَى النَّارِ»


ترجمہ: جو شخص بازار سے اپنے اہل و عیال کے لیے کوئی نئی چیز لے جاتا ہے گویا وہ ان کے لیے صدقہ لے جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ان کو دے دے، اس کو چاہیے کہ لڑکوں سے پہلے لڑکیوں کو دے اس لیے کہ جو لڑکی کو خوش کرتا ہے وہ اللّٰہ کے خوف سے رونے والے کی طرح ہے اور جو اللّٰہ کے خوف سے روتا ہے اللّٰہ تعالٰی نے اس کے جسم کو جہنم پر حرام کر دیا ہے۔

۩تخريج: مكارم الأخلاق ومعاليها ومحمود طرائقها للخرائطي(٦٤٤) (المتوفى: ٣٢٧ھ)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس متابعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں عُبَيْدُ اللَّه مجہول ہے، اور ممکن ہے کہ اس نے یہ حدیث حَمَّادُ بْنُ عَمْرٍو النَّصِيبِي سے چوری کی ہو۔ اور اگر یہ حدیث عُبَيْدُ اللَّه کی علت سے بھی بچ جائے تو اس کے اوپر کے راویوں سے نہیں بچ سکتی (کیونکہ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ضِرَارٍ اور اس کا باپ ضعیف، اور أَبَانَ بْنِ أَبِي عَيَّاش متروک الحدیث ہے) ۔

عراقی رحمہ اللّٰہ "تخريج أحاديث الإحياء" میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو خرائطی نے بہت زیادہ ضعیف سند سے روایت کیا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ خرائطی نے ایک اور سند سے اس حدیث کو مختصرًا روایت کیا ہے، اس میں أبو جعفر الراسبي ہے اس کا ذکر محدیثین نے نہ کنیتوں ( الكنى) میں کیا ہے نہ انساب( الأنساب) میں، تو وہ بھی مجہول ہی ہوا۔

سیوطی رحمہ اللّٰہ نے دیلمی کی روایت سے ابن عباس رضی ﷲ عنہ کی مرفوع حدیث شاہد کے طور پر پیش کی ہے اور اس کی سند پر کچھ بھی کلام نہیں کیا۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند میں علي بن حاتم المكفوف ہے میں اس کو نہیں جانتا، ميزان الاعتدال اور لسان الميزان میں ہے کہ "علي بن حاتم أبو معاوية" کی حدیث منکر ہوتی ہے۔پھر اس کی سند سے مجاہد رحمہ اللّٰہ کا قول ایک آیت کی تفسیر میں لایا ہے کہ مجاہد رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ {وقفوهم إنهم مسؤولون} آیت علی رضی ﷲ عنہ کی ولایت کے متعلق نازل ہوئی ہے

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ظاہر یہی ہے کہ "علي بن حاتم أبو معاوية" علي بن حاتم المكفوف ہی ہو کیونکہ وہ اسی طبقے کا ہے۔ ابن عراق "تنزيه الشريعة" میں علی بن حاتم کے متعلق شک و تردد کا شکار ہوئے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی چوری کی ہوئی حدیث ہے اور یہ کوئی بعید بات نہیں ہے کیونکہ اس نے جلیل القدر تابعی مجاہد رحمہ اللّٰہ پر جھوٹ بولتے ہوئے آیت کی باطل تفسیر ان کی طرف منسوب کی ہے۔ حالانکہ مجاہد رحمہ اللّٰہ اس تفسیر سے اسی طرح بَری ہیں جیسا کہ بھڑیا ابن یعقوب ( یوسف علیہ السلام) کے خون سے بری تھا۔

بہرحال، اس حدیث کے کوئی بھی متابعات اور شواہد نہیں ہیں جو اس کو تقویت دیں۔اور ہو بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ اس پر گھڑنے کے علامات واضح ہیں۔ اور اس میں رقّت (نرم دلی) کی صفت کی نسبت اللّٰہ کی طرف کی گئی ہے جو کہ صحیح احادیث میں وارد نہیں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رُسْتَهْ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَلْمِ بْنِ رُشَيْدٍ حَدَّثَنَا «عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِي» حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ كُنَّ لَهُ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ أَوْ عَمَّتَانِ أَوْ خالَتَانِ فَعَالَهُنَّ فُتِحَتْ لَهُ الثَّمَانِيَةُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، يَا عِبَادَ اللَّهِ أَغِيثُوهُ، يَا عِبَادَ اللَّهِ أَعْطُوهُ، يَا عِبَادَ اللَّهِ أَقْرِضُوهُ»


ترجمہ: جس کسی کی دو بیٹیاں یا دو بہنیں یا دو چاچیاں یا دو خالہ ہوں اور وہ ان کی دیکھ بھال کرے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جائیں گے، (اور کہا جاتا ہے) اے اللّٰہ کے بندوں اس کی مدد کرو، اے اللّٰہ کے بندوں اس کو دو، اے اللّٰہ کے بندوں اس کو قرض دو۔

۩تخريج: المعجم الأوسط الطبراني (٧٥١٨)؛ الضعيفة (٦٨٦٢)؛ (منكر جداً)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مزی رحمہ اللّٰہ نے "الرواۃ " میں (عمر بن حبيب العدوي البصري القاضي) کی سند سے روایت کیا ہے۔ مگر اس میں سلم کی جگہ سلیم ہے۔ مجھے اس کے حالات نہیں ملے۔لیکن اس سند کی علت إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَلْمِ کے شیخ عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِي ہیں اور یہ (عمر بن حبيب المكي القاضي اليمني- ثقہ راوی) نہیں ہے بلکہ یہ بصرہ کے قاضی ہے جو کہ ضعیف ہے( مکہ کے قاضی ثقہ ہیں اور بصرہ کے قاضی ضعیف ہیں، اس سند میں بصرہ کے قاضی ہیں) جیسا کہ ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے الثقات میں کہا ہے۔ بلکہ وہ اور زیادہ برا راوی ہے، ابن معین رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ عُمَرُ بْنُ حَبِيبٍ الْقَاضِي جھوٹ بولتا تھا۔ امام بخاری نے التاريخ الكبير میں کہا ہے کہ محدیثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ ابن حبان رحمہ اللّٰہ نے " الضعفاء " میں کہا ہے کہ وہ ان راویوں میں سے تھا جو ثقہ راویوں سے مقلوب احادیث روایت کرنے میں منفرد ہوتے ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اسی طرح کی ایک حدیث طبرانی کی المعجم الکبیر (رقم:٩٥٩) میں بھی ہے:

قال الطبراني في المعجم الکبیر: حَدَّثَنَا أَبُو حُصَيْنٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْقَاضِي ثنا «يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِيُّ» ثنا مُبَارَكُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخُو سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ الثَّوْرِيِّ قَالَ: ثنا خُلَيْدُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْمُجَبِّرِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«مَنْ عَالَ ابْنَتَيْنِ أَوْ أُخْتَيْنِ أَوْ خَالَتَيْنِ أَوْ عَمَّتَيْنِ أَوْ جَدَّتَيْنِ فَهُوَ مَعِي فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ وَضَمَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِصْبَعَهُ السَّبَّابَةَ وَالَّتِي إِلَى جَنْبِهَا، فَإِنْ كُنَّ ثَلَاثًا فَهُوَ مُفَرَّحٌ، وَإِنْ كُنَّ أَرْبَعًا أَوْ خَمْسًا فَيَا عِبَادَ اللهِ أَدْرِكُوهُ أَقْرِضُوهُ أَقْرِضُوهُ ضَارِبُوهُ ضَارِبُوهُ»


ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ سند میں يَحْيَى بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ الْحِمَّانِي ضعیف ہے۔

اسی طرح کی ایک حدیث ابن ابی الدنیا نے "العیال " (رقم: ٩٤) میں بہت زیادہ مختصر روایت کی ہے۔

قال ابن ابي الدنيا: حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْأَشْرَسِ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْعَمِّيِّ، رَفَعَهُ قَالَ: يَسْأَلُ عَنِ الرَّجُلِ لَهُ ابْنَةٌ قَالَ: «مُثْقَلٌ» قَالَ الرَّجُلُ: الرَّجُلُ لَهُ ابْنَتَانِ؟ قَالَ: «كَالدَّابَّةِ الدَّالِجَةِ» قِيلَ: فَالرَّجُلُ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ؟ قَالَ: «يَا عِبَادَ اللَّهِ، أَغِيثُوا أَخَاكُمْ»


شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند مرسل اور مظلم ہے۔ سند میں بقية بن ولید کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتا، اور بقية مدلس ہے، مجہول راویوں سے بہت زیادہ روایت کرتا ہے۔ اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ أَبو سِنَان ان ہی میں سے ہے جن کا نام بقية چھپاتا ( تدلیس کرتا) ہے۔
 
Top