• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البزار: حَدَّثنا سلمة بن شَبِيب، قَال: حَدَّثنا أَبُو الْمُغِيرَةِ عَبد الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَال: حَدَّثنا مُبَشِّرُ بْنُ عُبَيْد قال: سَمِعْتُ الزُّهْرِيّ يُحَدِّثُ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَة عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«الْإِحْصَانُ إحْصَانَانِ: إِحْصَانُ عَفَافٍ، وإحْصَانُ نِكَاحٍ»

ترجمہ: پاکدامنی دو طریقے سے حاصل ہوتی ہے ایک حرام کام سے رکنے کے ذریعے ، دوسرا نکاح کے ذریعے۔

تخريج: مسند البزار (7790) (المتوفى: ٢٩٢هـ)؛المعجم الأوسط للطبراني (20)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١هـ)؛ الضعيفة (797)؛(موضوع)

أبو بكر بزار رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ مُبَشِّرُ بْنُ عُبَيْدٍ لین الحدیث ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ امام ہیثمی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ وہ متروک ہے۔ اور امام احمد رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ مُبَشِّرُ بْنُ عُبَيْدٍ حدیثیں گھڑتا تھا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن ابي شيبة: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنِ ابْنِ سَخْبَرَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَة ًأَيْسَرُهُنَّ مُؤْنَةً»

ترجمہ: سب سے زیادہ برکت والی عورت وہ ہے جس کی شادی سب سے آسانی سے ہو۔

تخريج: الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار لأبي بكر بن أبي شيبة(16384) (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ مسند الإمام أحمد بن حنبل (25119)(المتوفى: ٢٤١هـ)؛ السنن الكبرى للنسائي(9229) (المتوفى: ٣٠٣هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (2732) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ موضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ مسند الشهاب القضاعي (123) (المتوفى: ٤٥٤هـ)؛ السنن الكبرى لأبي بكر البيهقي (14356) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الضعيفة (1117)؛(ضعيف)

مستدرك حاكم اور بیہقی کے الفاظ یہ ہیں «أَعْظَمُ النِّسَاءِ بَرَكَةً أَيْسَرُهُنَّ صَدَاقًا»
(سب سے برکت والی عورت وہ ہے جس کا مہر سب سے آسان ہو) حاکم رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور ذہبی نے انکی موافقت کی ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ ابْنِ سَخْبَرَة نہ مسلم رحمہ اللّٰہ کے رجال میں سے ہے اور نہ اصحاب ستہ میں سے کسی کے رجال میں سے ہے سوائے امام نسائی کے۔

امام ذہبی خود کہتے ہیں کہ میں ابْنِ سَخْبَرَة کو نہیں جانتا، اور کہتے ہیں کہ اس کا نام "عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ " ہے اور اسی طرح ابن حجر رحمہ اللّٰہ کی تقريب التهذيب اور تهذيب التهذيب میں بھی ہے۔

ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ، الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّد سے اور ان سے حَمَّادِ بْنِ سَلَمَة روایت کرتے ہیں۔ ابن ابی حاتم نے عِيسَى بْنُ مَيْمُون کو ابْنِ سَخْبَرَة بھی کہا ہے۔
ابن معین رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ عِيسَى بْنُ مَيْمُون "ليس بشيء" ( کچھ بھی نہیں ‌ہے)، ابو حاتم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ عِيسَى بْنُ مَيْمُون متروک الحدیث ہے۔ ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ ابْنِ سَخْبَرَة کا نام عِيسَى بْنُ مَيْمُون ہے اور وہ متروک ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ حاکم کی سند میں عمر بن طفيل بن سخبرة المدني ہے اور حاکم ہی کی سند سے بیہقی نے روایت کیا ہے لیکن عمر کی جگہ عمرو نام ہے۔ چاہے "عمر" ہو یا "عمرو" ہو مجھے اس کے حالات نہیں ملے۔ اس لیے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہنا وہم ہے۔

اگر ابْنِ سَخْبَرَة ہی عِيسَى بْنُ مَيْمُون ہو تو وہ بہت زیادہ ضعیف راوی ہے جیسا کہ ابن ابی حاتم نے کہا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حافظ عراقی نے جو إحياء علوم الدين کی تخریج میں اس حدیث کی سند کو جید کہا ہے وہ قول جید نہیں ہے۔

خطیب بغدادی کی "موضح أوهام الجمع والتفريق" اور أبو مسعود أحمد بن الفرات کی سند میں ابْنِ سَخْبَرَة کا نام طُفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَةَ ہے۔ لیکن یہ واضح غلطی ہے کیونکہ طُفَيْلِ بْنِ سَخْبَرَة صحابی ہیں اور عائشہ رضی ﷲ عنہا کے بھائی ہیں۔

"موضح أوهام الجمع والتفريق" اور مسند شہاب میں "عِيسَى بْنُ مَيْمُونٍ " کی روایت سے یہ حدیث موجود ہے۔اس کی متابعت "مُوسَى بْنُ تَلِيدَانَ" ( مِنْ آلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ) نے کی ہے جو "الموضح" میں ہے۔ شیخ البانی کہتے ہیں کہ میں "مُوسَى بْنُ تَلِيدَانَ" کو نہیں جانتا۔

عائشہ رضی ﷲ عنہا کی ایک اور حدیث ہے جو اس حدیث سے بےنیاز کرتی ہے۔

"عورت کی برکت میں سے یہ (بھی) ہے کہ اس کی منگنی آسانی سے ہو، مہر آسان ہو اور اس کا رحم آسانی والا ہو(یعنی جلدی حاملہ ہونے والی ہو) [حسن: إرواء الغليل (1928) أحمد، ابن حبان (١٢٥٦) البيهقى؛ ] ۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الحارث بن أبي أسامة: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ، ثنا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَزْمٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّمَا النِّسَاءُ لُعَبٌ ، فَمَنِ اتَّخَذَ لُعْبَةً فَلْيُحْسِنْهَا أَوْ فَلْيَسْتَحْسِنْهَا»

ترجمہ: بے شک عورتیں کھیلونا ہیں، پس تم میں سے جو کوئی کھیلونا لے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔

۩تخريج: زوائد مسند الحارث: 491 (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛الضعيفة ( 462)؛( ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سند میں تین علتیں ہیں۔

1)ارسال: أبا بكر ( ابن محمد بن عمرو بن حزم الأنصاري) تابعی ہیں اور انکی موت 120 ھ میں ہوئی۔
2) زهير بن محمد الخراساني الشامي کا ضعف
3) أحمد بن يزيد کو میں نہیں جانتا اور ہو سکتا ہے کہ وہ ابن الورتنيس المصري ہو۔ " تهذيب الكمال " میں ان کی عيسى بن يونس سے روایت بیان کی ہے اگر وہ یہی ہے تو اس میں ضعف ہے۔ والله أعلم.
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال حرب الكرماني : حدثنا محمد بن يحيى القطيعي حدثنا بشر بن عمر حدثنا ابن لهيعة عن يونس بن يزيد عن الزهري قال:

«نهى النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم عَن نِكَاح الْجِنّ»

ترجمہ: نبی ﷺ نے جن سے نکاح کرنے سے روکا ہے۔

۩تخريج: مسائل حرب بن إسماعيل الكرماني عن أحمد و إسحاق (المتوفى: 280ھ )؛ الضعيفة (6559)؛ (منكر)

شيخ أبو عبد الله محمد بن عبد الله الشبلي نے اس حدیث کو "آكام المرجان في أحكام الجان" میں حرب بن إسماعيل کی سند سے ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے اور اس کی سند میں ابن لهيعة ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن لهيعة ضعیف ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ حدیث ان کی کتب جلنے کے بعد اختلاط کے زمانہ کی ہو۔ اس لیے کہ یہ حدیث اس کے علاوہ کسی دوسری کتاب اور کسی دوسری سند سے نہیں ہے۔ اس سند کے سارے راوی امام مسلم کے راوی ہیں، اور سند میں جو "القطيعي" ہے وہ طباعت کی غلطی ہے اصل میں "القُطَعي" ہے جیسا کہ تقریب التھذیب میں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البزار: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُمَارَةَ بْنِ صُبَيْحٍ، قَالَا: نا عُبَيْدُ بْنُ الصَّبَّاحٍ الْكُوفِيُّ، قَالَ: نا كَامِلُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنِ الْحَكَمِ يَعْنِي ابْنَ عُتَيْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ،

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ أَصْحَابُهُ إِذْ أَقْبَلَتِ امْرَأَةٌ عُرْيَانَةٌ ، فَقَامَ إِلَيْهَا رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَأَلْقَى عَلَيْهَا ثَوْبًا وَضَمَّهَا إِلَيْهِ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: أَحْسَبُهَا امْرَأَتَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَحْسَبُهَا غَيْرَى و

« إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كَتَبَ الْغَيْرَةَ عَلَى النِّسَاءِ، وَالْجِهَادَ عَلَى الرَّجُلِ، فَمَنْ صَبَرَ مِنْهُنَّ كَانَ لَهَا أَجْرُ شَهِيدٍ»

ترجمہ: عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا اور آپ کے ساتھ آپ کے صحابہ بھی تھے تب ایک ننگی عورت آئی تو قوم میں سے ایک آدمی اٹھا اور اس پر ایک کپڑا ڈال دیا۔ اور اس عورت کو خود سے قریب کر لیا تو نبی ﷺ کا چہرہ ( غصے کی وجہ سے) تبدیل ہو گیا۔ نبی ﷺ کے بعض صحابہ نے کہا کہ ہم نے اس عورت کو اس کی بیوی سمجھا۔ اور نبی ﷺ نے کہا کہ میں نے اس عورت کو غیر ( پرائی عورت) سمجھا ( ابن عدی کی روایت میں ہے کہ اس آدمی نے خود کہا کہ اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم یہ میری بیوی ہے) پھر نبی ﷺ فرمایا : «بے شک اللّٰہ تعالی نے شرم و حیا کو عورت پر اور جہاد کو مرد پر فرض کیا ہے پس جو عورت صبر کرے گی اس کے لیے شہید کا اجر و ثواب ہے»۔

تخريج: مسند البزار (1490) (المتوفى ٢٩٢ھ)؛ الكنى والأسماء للدولابي (1689)(المتوفى: ٣١٠ھ)؛ الضعفاء الكبير للعقيلي(المتوفى: ٣٢٢ھ)؛ العلل لابن أبي حاتم (المتوفى: ٣٢٧هـ)؛ معجم ابن الأعرابي (829) (المتوفى: ٣٤٠ھ)؛ المعجم الكبير للطبراني(10040) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي الجرجاني (المتوفى: ٣٦٥ھ)؛ مسند الشهاب القضاعي (1117) (المتوفى: ٤٥٤ھ)؛الضعيفة (813)؛ (منكر)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: مناوی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ بزار رحمہ اللّٰہ نے کہا کہ ہم اس حدیث کو صرف اسی طرح اور اسی سند سے جانتے ہیں۔ اور عُبَيْدُ بْنُ الصَّبَّاح میں کوئی خرابی نہیں ہے ( یعنی ثقہ ہے)۔

ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں عُبَيْدُ بْنُ الصَّبَّاح ہے ابو حاتم نے اسکی تضعیف اور بزار رحمہ اللّٰہ نے توثیق کی ہے۔اور باقی راوی ثقہ ہیں۔

ابن ابی حاتم نے اس حدیث کو العلل میں بیان کرنے کے بعد کہا ہے میں نے اپنے والد ( ابو حاتم رحمہ اللّٰہ) سے اس حدیث کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے ایک مرتبہ کہا منکر ہے اور ایک مرتبہ کہا کہ اس سند سے یہ حدیث موضوع ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ امام ذہبی نے عُبَيْدُ بْنُ الصَّبَّاح کے تعارف میں اس کی منکر روایات کا ذکر کیا ہے پھر شاید اس بات کو بھول گئے اور حاکم کی متابعت کرتے ہوئے اس کی ایک حدیث کو صحیح کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الدار قطني: نا أَبُو عُبَيْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ , نا الْقَاسِمُ بْنُ هَاشِمٍ السِّمْسَارُ , نا عُتْبَةُ بْنُ السَّكَنِ , نا الْأَوْزَاعِيُّ , أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ , حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ , حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ ,

عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ , أَنَّ امْرَأَةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأْ فِيَّ رَأْيَكَ , فَقَالَ: «مَنْ يَنْكِحُ هَذِهِ؟» , فَقَامَ رَجُلٌ عَلَيْهِ بُرْدَةٌ عَاقِدُهَا فِي عُنُقِهِ , فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ: «أَلَكَ مَالٌ؟» , قَالَ: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: «اجْلِسْ» , ثُمَّ جَاءَتْ مَرَّةً أُخْرَى , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأْ فِيَّ رَأْيَكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَنْكِحُ هَذِهِ؟» , فَقَامَ ذَلِكَ الرَّجُلُ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ: «أَلَكَ مَالٌ؟» , قَالَ: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ: «اجْلِسْ» , ثُمَّ جَاءَتِ الثَّالِثَةَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأْ فِيَّ رَأْيَكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يَنْكِحُ هَذِهِ؟» , فَقَامَ ذَلِكَ الرَّجُلُ فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ: «أَلَكَ مَالٌ؟» , قَالَ: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: «فَهَلْ تَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ شَيْئًا؟» , قَالَ: نَعَمْ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَسُورَةَ الْمُفَصَّلِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَد ْأَنْكَحْتُكَهَا عَلَى أَنْ تُقْرِئَهَا وَتُعَلِّمَهَا وَإِذَا رَزَقَكَ اللَّهُ تَعَالَى عَوَّضْتَهَا» فَتَزَوَّجَهَا الرَّجُلُ عَلَى ذَلِكَ.

عبداللہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی ﷺ کے پاس آئی اور کہا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی ﷺ نے پوچھا کون اس عورت سے نکاح کرے گا؟ ایک آدمی جس کی گردن میں چادر بندھی ہوئی تھی وہ اٹھا اور کہا میں نکاح کروں گا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تیرے پاس کچھ مال ہے۔ اس نے کہا نہیں ہے اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ تو نبی ﷺ نے اس سے کہا بیٹھ جاؤ۔ وہ عورت اور ایک مرتبہ آئی۔ اور کہا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی ﷺ نے پوچھا کون اس عورت سے نکاح کرے گا؟ پھر وہی آدمی اٹھا اور کہا میں نکاح کروں گا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تیرے پاس کچھ مال ہے۔ اس نے کہا نہیں ہے اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ تو نبی ﷺ نے اس سے کہا بیٹھ جاؤ۔وہ عورت تیسری مرتبہ آئی اور کہا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم میرے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ نبی ﷺ نے پوچھا کون اس عورت سے نکاح کرے گا؟ پھر وہی آدمی اٹھا اور کہا میں نکاح کروں گا اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔ تو نبی ﷺ نے اس سے پوچھا کیا تیرے پاس کچھ مال ہے۔ اس نے کہا نہیں ہے اے اللّٰہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ و سلم۔نبی ﷺ نے پوچھا کیا تجھے قرآن میں سے کچھ یاد ہے اس نے کہا ہاں، سورہ بقرہ اور مفصل سورت یاد ہے۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: میں تیرا نکاح اس عورت سے اس بات پر کرتا ہوں کہ تو یہ سورتیں اس کو پڑھائے گا اور سکھائے گا۔ اور جب اللّٰہ تعالٰی تجھے رزق دے گا تو تو اس کا بدلہ (مہر) دے گا۔ اس آدمی نے اس بات پر عورت سے نکاح کر لیا۔

۩تخريج: سنن الدارقطني (3613) (المتوفى: ٣٨٥هـ) ؛ ومن طريقه السنن الكبرى لأبي بكر البيهقي (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ الضعيفة ( 983)؛(منكر)

دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کو صرف عُتْبَةُ بْنُ السَّكَن ہی نے روایت کیا ہے اور وہ مَتْرُوكُ الْحَدِيث ہے۔ بیہقی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ عُتْبَةُ بْنُ السَّكَن کی طرف احادیث گھڑنے کی نسبت کی گئی ہے اور یہ حدیث باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ وَاللهُ أَعْلَمُ
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن ابي حاتم: حَدَّثَنَا أَبِي، ثنا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، ثنا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِنَّ النِّسَاءَ هُنَّ السُّفَهَاءُ إِلَّا الَّتِي أَطَاعَتْ قَيِّمَهَا».

ترجمہ: بے شک عورتیں ہی بےوقوف ہیں سوائے اس عورت کے جو اپنے قیم (شوہر) کی اطاعت کرے۔

تخريج: تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم (4785) (المتوفى: ٣٢٧هـ)؛ الضعيفة (6961)؛ (منكر)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: اس کی سند ضعیف ہے، علي بن يزيد الألهاني کے متعلق ذہبی المغنی میں کہتے ہیں کہ محدیثین نے اسے ضعیف کہا ہے اور دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے اس سے روایت کرنا چھوڑ دیا تھا۔
اور اسی کی طرح عُثْمَانُ بْنُ أَبِي الْعَاتِكَةِ بھی ہے، ذہبی کہتے ہیں کہ اس کی توثیق کی گئی ہے اور نسائی وغیرہ نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ حافظ ابن حجر نے اس کو تقريب التهذيب اسے صدوق کہا ہے اور محدیثین نے اسے علي بن يزيد الألهاني سے روایت کرنے میں ضعیف کہا ہے۔
اس حدیث کو ابن کثیر رحمہ اللّٰہ نے سورہ نساء کی تفسیر کے شروع میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کو ابن مردويه نے لمبی روایت کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الحارث: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ أَبِي مَهْدِيٍّ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:

«ثَلَاثٌ قَاصِمَاتٌ الظَّهْرَ: فَقْرٌ دَاخِلٌ لَا يَجِدُ صَاحِبُهُ مَتْلَدًا , وَزَوْجَةٌ يَأْمَنُهَا صَاحِبُهَا وَتَخُونُهُ , وَإِمَامٌ أَسْخَطَ اللَّهَ وَأَرْضَى النَّاسَ , وَإِنَّ بِرَّ الْمُؤْمِنَةِ كَمَثَلِ سَبْعِينَ صِدِّيقَةً , وَإِنَّ فُجُورَ الْفَاجِرَةِ كَفُجُورِ أَلْفِ ( فَاجِرٍ) فَاجِرَةٍ»

تین چیزیں پیٹھ توڑنے والی ہیں۔فقر و فاقہ جس میں آدمی کو موروثی مال نہ ملے، بیوی جس پر اس کا شوہر بھروسہ کرتا ہے اور وہ اس کا بھروسہ توڑ دیتی ہے ( خیانت کرتی ہے)، ایسا امام ( خلیفہ، بادشاہ، صدر) جو اللّٰہ کو ناراض کرتا ہے اور لوگوں کو خوش کرتا ہے۔ مومنہ عورت کی ایک نیکی ستر (70) صدیقہ کے برابر ہے اور فاجرہ کے گناہ سو (100) فاجروں کے گناہوں کے برابر ہے۔

تخريج: بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث(490) (المتوفى: ٢٨٢هـ)؛ الضعيفة (6468)؛ (موضوع)

(سلسلة الأحاديث الضعيفة میں مَتْلَدًا کی جگہ مَتْلَذَّذاً اور فَاجِرَةٍ کی جگہ فَاجِرٍ ہے اور کشف الأستار میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہے " ثَلاثٌ قَاصِمَاتُ الظَّهْرِ: زَوْجُ سُوءٍ يَأْمَنُهَا صَاحِبُهَا وَتَخُونُهُ، وَإِمَامٌ يُسْخِطُ اللَّهَ وَيُرْضِي النَّاسَ، وَإِنَّ مَثَلَ عَمَلِ الْمَرْأَةِ الْمُؤْمِنَةِ كَمَثَلِ عَمَلِ سَبْعِينَ صِدِّيقًا، وَإِنَّ عَمَلَ الْمَرْأَةِ الْفَاجِرَةِ كَفُجُورِ أَلْفِ فَاجِرَةٍ " )

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس کی سند بہت زیادہ ضعیف بلکہ موضوع ہے أبو مهدي کا نام سعيد بن سنان ہے دار قطنی وغیرہ نے کہا ہے کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔

سیوطی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو الجامع الکبیر میں ابن زنجويه کی طرف منسوب کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، شیخ البانی کہتے ہیں کہ اگر یہ حدیث مسند حارث ہی کی سند سے ہے جیسا کہ میرا گمان ہے تو سیوطی رحمہ اللّٰہ کا اس کو ضعیف کہا ان کا تساہل ہے کیونکہ ابو مہدی حدیثیں گھڑتا تھا۔
اس حدیث کو بزار رحمہ اللّٰہ نے مسند میں روایت کیا ہے (كشف الأستار-1414) ، اس میں انہوں نے دو چیزوں کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ ایک چیز مجھ سے چھوٹ گئی۔اور کہا کہ اس کی علت سَعِيدُ بْنُ سِنَان ہے۔

ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ سَعِيدُ بْنُ سِنَان متروک ہے۔

كشف الأستار کی تعلیق میں حبیب الرحمن اعظمی کا کہنا کہ ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے سَعِيدُ بْنُ سِنَان کو ضعیف کہا ہے اعظمی کا وہم ہے یا طباعت کی غلطی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال البزار: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ فَرُّوخٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ سَلْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«إِذَا تَزَوَّجَ أَحَدُكُمُ امْرَأَةً فَكَانَ لَيْلَةَ الْبِنَاءِ فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ وَلْيَأْمُرْهَا فَلْتُصَلِّ خَلْفَهُ رَكْعَتَيْنِ فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي الْبَيْتِ خَيْرًا»

ترجمہ: جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے نکاح کرے تو سہاگ رات کو دو رکعت صلاۃ ادا کرنا چاہئے اور عورت کو بھی حکم دینا چاہئے کہ وہ اس کے پیچھے صلاۃ ادا کرے، اس لیے کہ اللّٰہ تعالٰی گھر میں خیر و بھلائی دینے والا ہے۔

۩تخريج: مسند البزار (2530)(المتوفى: ٢٩٢هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي الجرجاني (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ الضعيفة ( 6470)؛ (منكر)

بزار رحمہ اللّٰہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ یہ حدیث بہت زیادہ منکر ہے اور کہتے ہیں کہ ابن معین رحمہ اللّٰہ نے الْحَجَّاجُ بْنُ فَرُّوخ کے متعلق کہا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اور نسائی رحمہ اللّٰہ نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو بزار رحمہ اللّٰہ ہی کی سند سے ابن عدی نے الکامل میں اور ابو نعیم نے "أخبار أصبهان" میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس کو ابن جریج سے صرف الْحَجَّاجُ بْنُ فَرُّوخ ہی نے روایت کیا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ ابن جریج مدلس ہے اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن اس حدیث پر بعض صحابہ کا عمل ثابت ہے، تو ہم سمجھتے ہیں کہ صحابہ کی اتباع اور اقتداء کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

اور ایسی ہی احادیث کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اس حدیث پر فضائل اعمال میں عمل کیا جاسکتا ہے، نہ کہ دوسری ضعیف احادیث پر جس میں اعمال اور عبادات میں شریعت سازی ہوتی ہے اور سلف رضی اللّٰہ عنہم سے ان پر عمل ثابت بھی نہیں ہوتا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني في الكبير: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، [حَدَّثَتْنَا عَلِيلَةُ بِنْتُ الْكُمَيْتِ، عَنْ أُمِّهَا أُمَيْنَةَ، عَنْ أَمَةِ اللهِ بِنْتِ رُزَيْنَةَ، عَنْ أُمِّهَا رُزَيْنَةَ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ قُرَيْظَةَ، وَالنَّضِيرِ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ وذِرَاعُها فِي يَدِهِ، فَلَمَّا رَأَتِ السَّبْيَ ( وفي " أبي يعلى ": النساء) قَالَتْ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّكَ رَسُولُ اللهِ: «فَأَرْسَلَ ذِرَاعَهَا مِنْ يَدِهِ، وَأَعْتَقَهَا، وَخَطَبَها، وَتَزَوَّجَهَا، وَأَمْهَرَهَا رُزَيْنَةَ»

ترجمہ: رُزینہ کہتی ہے کہ قریظہ اور نضیر کے دن نبی ﷺ صفیہ بنت حُيَي کے پاس آئے اور صفیہ (رضی اللّٰہ عنہا) کا ذراع نبی ﷺ کے ہاتھ میں تھا جب صفیہ (رضی اللّٰہ عنہا) نے قیدی کو دیکھا ( ابو یعلی کی روایت میں ہے: جب عورتوں کو دیکھا) تو کہا کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللّٰہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے اور آپ اللّٰہ کے رسول ہیں۔ تو آپ نے ان کی ذراع اس کے ہاتھ سے واپس لوٹا دی اور صفیہ کو آزاد کیا، نکاح کا پیغام بھیجا، ان سے نکاح کیا اور انہیں مہر میں رزینہ ( لونڈی) دی۔

۩تخريج: مسند أبي يعلى الموصلي (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الضعيفة (6750)؛ (منكر)

(مختصرا) عَلِيلَةُ بِنْتُ الْكُمَيْتِ، اس کی ماں أُمَيْنَةَ، اور أَمَةِ اللهِ بِنْتِ رُزَيْنَة تینوں مجہول ہیں اور یہ حدیث انس رضی اللّٰہ عنہ کی صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ نے صفیہ رضی ﷲ عنہا کی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ اور ان کے استاد ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔اور حافظ ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے۔
 
Top