• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قَالَ أَبُو بَكْرِ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ثنا شُعْبَةُ عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ قُرَّةَ أو قرة شكل أَبُو بَكْرٍ أَنَّهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ

«ثَلَاثٌ مِنْ نَعِيمِ الدُّنْيَا وَإِنْ كَانَ لَا نَعِيمَ لها مَرْكَبٌ وَطِئٌ وَالْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ وَالْمَنْزِلُ الْوَاسِعُ»

ترجمہ: دنیا کی تین چیزیں آرام دینے والی چیزوں میں سے ہیں حالانکہ دنیا میں کوئی آرام نہیں۔اچھی سواری، نیک بیوی، اور کشادہ گھر۔

۩تخريج: مصنف أبو بكر بن أبي شيبة (المتوفى: ٢٣٥هـ)؛ الضعيفة ( 7162)؛ (ضعيف)
( مترجم: مجھے یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ میں نہیں ملی)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ سند ضعیف ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اگر ابن ابی شیبہ نے اس حدیث کو معاوية بن قرة سے یاد رکھا ہے۔ مگر ابن ابی شیبہ نے معاوية بن قرة اور قرۃ میں شک کیا ہے۔ اگر معاوية بن قرة سے روایت کیا ہے تو یہ حدیث مرسل ہوگی اور اگر قرۃ سے روایت کیا ہے تو میں اسے نہیں جانتا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الخطيب: أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الْحَافِظُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ بْنُ حَيَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْمُؤَذِّنُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السَّابَاطِيُّ الْبَغْدَادِيُّ أَبُو الْعَبَّاسِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«أَمْرُ النِّسَاءِ إِلَى آبَائِهِنَّ، وَرِضَاؤُهُنَّ السُّكُوتُ»

ترجمہ: عورتوں کے (نکاح کا) معاملہ ان کے آباء کے ہاتھ میں ہے اور ان کی رضامندی انکی خاموشی ہے۔

۩تخريج: تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (١٤٤٠) (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الضعيفة ( 7058)؛ (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند ضعیف ہے، اس میں درج ذیل علتیں ہیں۔

1) اس حدیث کو خطیب بغدادی نے أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ السَّابَاطِيُّ کے حالات میں ذکر کیا ہے اور کوئی جرح و تعدیل بیان نہیں کی۔

2) عَلِيُّ بْنُ عَاصِم کے متعلق بہت زیادہ اختلاف ہے، لیکن راجح بات یہی ہے کہ وہ کمزور حافظے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اس کی متابعت کی گئی ہے۔

3) أبو إسحاق السبيعي مختلط مدلس راوی ہے اور اس کی متابعت محمد بن سالم نے کی ہے۔

(شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ حدیث طبرانی کی المعجم الکبیر میں اور ابن عدی کی الکامل میں بھی ہے)

طبرانی کی سند میں محمد بن سالم الهمداني ہے، امام ذہبی نے المغنی میں کہا ہے کہ محدیثین نے اسے بہت زیادہ ضعیف کہا ہے۔ اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں اسے متروک کہا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ المعجم الکبیر کے جس حصے میں ابو موسیٰ کی احادیث ہیں وہ حصہ مفقود ہے مطبوع نہیں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني في الأوسط: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، نَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَتْنِي أُمِّي حَبِيبَةُ بِنْتُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَتْنِي أُمُّ سُلَيْمَةَ بِنْتُ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَابِ، عَنْ أَبِيهَا، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«إِذَا تَطَيَّبْتِ الْمَرْأَةُ لِغَيْرِ زَوْجِهَا فَإِنَّمَا هُوَ نَارٌ فِي شَنَارٍ»

جب کوئی عورت اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لیے خوشبو لگاتی ہے تو وہ بدترین عیب میں آگ کی طرح ہے۔

تخريج: المعجم الأوسط للطبراني (7405)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الضعيفة (6043)؛ (ضعيف)

طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَاب سے صرف اسی سند سے روایت کیا گیا ہے اور صرف عَبْدُ الْقُدُّوسِ ہی نے روایت کیا ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ شُعَيْبِ بْنِ الْحَبْحَاب ضعیف ہے۔ حبيبة اور أم سليمة کا تعارف مجھے نہيں ملا۔ اور نہ ہی امام ذہبی نے میزان الاعتدال کے آخر میں (فصل النساء المجهولات) ان کا ذکر کیا ہے۔ اس لیے ہیثمی رحمہ اللّٰہ مجمع الزوائد میں کہتے ہیں کہ اس میں دو عورتیں ہیں جن کو میں نہیں جانتا اور بقیہ راوی ثقہ ہیں۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ مجھے اس حدیث کا ایک شاہد مستدرک حاکم (رقم: 8575) میں ملا لیکن وہ موقوف ہے اور کی سند بہت زیادہ ضعیف ہے۔

مستدرک حاکم کی سند درج ذیل ہے
قال الحاكم: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُؤَمَّلِ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الشَّعْرَانِيُّ، ثَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، ثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجَهْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا موقوفا.

اور شاہد الفاظ یہ ہیں۔
«َإِنْ تَطَيَّبَتْ لِغَيْرِ زَوْجِهَا كَانَ عَلَيْهَا نَارًا وَشَنَارًا»

حاكم نے اس حدیث کو مسلم کی شرط پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے حاکم کا تعقب کرتے ہوئے اس کو موضوع کہا ہے۔ اور کہا ہے کہ نُعَيْمُ بْنُ حَمَّاد غایت درجے کا منکر الحدیث راوی ہے اور امام بخاری نے بھی اس سے روایت لی ہے۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ امام ذہبی کا ایسا کہنا یہ وہم پیدا کرتا ہے کہ بخاری رحمہ اللّٰہ نے اس کی روایت کو دلیل بنایا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ بخاری رحمہ اللّٰہ اس کو دوسرے راوی کے ساتھ ملا کر روایت کرتے ہیں اور بہت کم روایت کیا ہے۔ جیسا کہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اور ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں کہا ہے اور ان دونوں کے علاوہ بھی متقدمین اور متاخرین میں دوسرے محدیثین نے ایسا ہی کہا ہے۔

حافظ ابن حجر نے فتح الباری کے مقدمے میں کہا ہے کہ اس سے بخاری رحمہ اللّٰہ کی ملاقات ہوئی ہے لیکن انہوں نے اس کی روایت کو سوائے ایک دو جگہ کے صحیح بخاری میں بیان نہیں کیا ہے۔ اور امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمے میں اس کی ایک روایت لی ہے۔

محدیثین کا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّاد کے متعلق اختلاف ہے بعض نے توثیق کی ہے بعض نے تضعیف اور بعض نے احادیث گھڑنے کی طرف منسوب کیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے تمام اقوال تہذیب التہذیب میں بیان کر دیئے ہیں اور تقریب التھذیب میں ان اقوال کا خلاصہ لکھا ہے کہ "صدوق يخطئ كثيراً" ( صدوق روای تھا اور بہت زیادہ غلطی کرتا تھا)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال ابن عدي: أَخْبَرَنَا أَبُو يَعْلَى، قَال: حَدَّثَنا عَمْرو بْنِ حُصَيْنٍ، حَدَّثَنا حَسَّانُ بْنُ سياه، حَدَّثَنا عاصم عن زِرٍّ عَنْ عَبد اللَّهِ، قَال: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

«ذَرُوا الْحَسْنَاءَ الْعَقِيمَ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّوْدَاءِ الْوَلُودِ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الأُمَمَ حَتَّى بِالسَّقْطِ حَبْنَطِيًّا عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ فَيُقَالُ لَهُ ادْخُلِ الْجَنَّةَ فَيَقُولُ حَتَّى يَدْخُلَ وَالِدَايَ مَعِي»

ترجمہ: حسین (مگر) بانجھ عورت کو چھوڑ دو (ان سے شادی مت کرو) اور بہت زیادہ بچے پیدا کرنے والی کالی عورت (ہی کیوں نہ ہو) کو لازم پکڑو ( اسی سے شادی کرو) اس لیے کہ میں دوسری امتوں سے تمہاری کثرت پر فخر کروں گا، یہاں تک کہ اسقاطِ حمل والا بچہ جنت کے دروازے سے چمٹا ہوا ہوگا۔ تو اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجا تو وہ کہے گا اس وقت تک نہیں جب تک میرے ساتھ میرے والدین نہ داخل ہوں۔

۩تخریج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: ٣٦٥‌ھ)؛الضعيفة (1413)؛ (موضوع)

[شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابن عدی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ سند کا ایک راوی حسان بن سياه کی احادیث کی متابعت نہیں کی جاتی اور اس کی روایات کا ضعف واضح ہے، ابن حبان کا حسان بن سیاہ پر کلام کرنا اس کے سخت ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ سند کا دوسرا راوی عَمْرو بْنِ حُصَيْن "متہم بالوضع" ہے( اس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے )]
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
عَبْدُ الرَّزَّاقِ: عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«دَعُوا الْحَسْنَاءَ الْعَاقِرَ، وَتَزَوَّجُوا السَّوْدَاءَ الْوَلُودَ، فَإِنِّي أُكَاثِرُ بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتَّى السِّقْطِ يَظَلُّ مُحْبَنْطِيًا، أَيْ مُتَغَضِّبًا، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: حَتَّى يَدْخُلَ أَبَوَايَ، فَيُقَالُ: ادْخُلْ أَنْتَ وَأَبَوَاكَ»

ترجمہ: خوبصورت بانجھ عورت کو چھوڑ دو اور بچے پیدا کرنے والی کالی عورت سے نکاح کرو۔ کیونکہ میں دوسری امتوں سے تمہاری کثرت پر فخر کروں گا یہاں تک کہ (نامکمل) ساقط بچہ چمٹا ہوا ہوگا۔ اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجا تو وہ کہے گا اس وقت تک نہیں جب تک میرے والدین داخل نہیں ہوتے تو کہا جائے گا تو اور تیرے والدین داخل ہوجاؤ۔

۩تخریج: المصنف لأبي بكر عبد الرزاق الصنعاني (10343)(المتوفى: ٢١١ھ)؛ الضعيفة (5893)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن یہ حدیث مرسل ہے۔

اس حدیث کا شاہد المعجم الأوسط (رقم: 5746) میں ہے۔

قال الطبراني في الأوسط: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: نا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْعُقَيْلِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الْعَظِيمِ بْنُ حَبِيبٍ قَالَ: نا مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«تَزَوَّجُوا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ، وَإِنَّ السِّقْطَ لِيُرَى مُحْبَنْطَئًا بِبَابِ الْجَنَّةِ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلْ، فَيَقُولُ: حَتَّى يَدْخُلَ أَبَوَايَّ»

طبرانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف عَبْدُ الْعَظِيمِ بْنُ حَبِيبٍ ہی نے روایت کیا ہے
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ دار قطنی نے کہا کہ عَبْدُ الْعَظِيمِ بْنُ حَبِيبٍ (ليس بثقة) ثقہ نہیں ہے۔ اور مُوسَى بْنُ عُبَيْدَة بھی ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التھذیب میں ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال تمام: أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَلِيُّ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاكِرٍ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا أَبُو يَعْقُوبَ يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَرُوذِيُّ، [ثنا أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بْنُ دُرُسْتَ، ثنا عَلِيُّ بْنُ رَبِيعٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

«سَوْدَاءُ وَلُودٌ خَيْرٌ مِنْ حَسْنَاءَ لَا تَلِدُ، إِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ حَتَّى السِّقْطُ يَظَلُّ مُحْبَنْطِئًا عَلَى بَابِ الْجَنَّةِ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَنَا وَأَبَوَايَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَنَا وَأَبَوَايَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: أَنَا وَأَبَوَايَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلْ أَنْتَ وَأَبَوَاكَ»

بچے پیدا کرنے والی بدصورت عورت خوبصورت بانجھ عورت سے بہتر ہے میں دوسری امتوں سے تمہاری کثرت پر فخر کروں گا یہاں تک کہ ساقط بچہ جنت کے دروازے سے چمٹا ہوا ہوگا۔ تو اس کو کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجا وہ پوچھے گا کیا میں اور میرے والدین؟ تو اس سے کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجا وہ پھر پوچھے گا کیا میں اور میرے والدین؟ کہا جائے گا جنت میں داخل ہوجا، وہ پھر پوچھے گا کیا میں اور میرے والدین؟ تو اس سے کہا جائے گا تو اور تیرے والدین داخل ہوجاؤ۔

تخريج: الضعفاء الكبير للعقيلي (المتوفى: ٣٢٢ھ)؛ المعجم الكبير للطبراني (1004)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ كتاب الأمثال في الحديث النبوي لأبِي الشيخ الأصبهاني (58) (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ الفوائد لتمام (1463)(المتوفى: ٤١٤ھ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ الضعيفة (3268)؛ (ضعيف)

اس حدیث کی سند یہ ہے۔
عن يحيى بن درست عن عَلِيُّ بْنُ رَبِيعٍ (وقال بعضهم: عَلِيُّ بْنُ الْهَيْثَمِ ، وقال غيره: علي بن نافع) عن بهز ابن حكيم عن أبيه عن جده مرفوعاً.

عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ علی بن نافع مجہول ہے، اس کی حدیث محفوظ نہیں ہے۔ اور یہ متن اس سند کے علاوہ دوسری بہتر سند سے بھی مروی ہے۔

ابن حبان رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے علی بن ربیع منکر احادیث روایت کرتا ہے جب اس کی روایات میں منکر احادیث زیادہ ہو گی تو اسے دلیل بنانا باطل ہو گیا۔

شیخ البانی کہتے ہیں کہ اس حدیث کے پہلے حصے کا شاہد ابو نعیم کی تاریخ اصبہان میں ہے لیکن وہ کچھ بھی کام کا نہیں ہے۔ اس کی سند میں عبد الله بن محمد بن سنان (الروحي الواسطي) ہے ابن حبان اور أبو نعيم رحمہا اللّٰہ نے کہا ہے کہ وہ احادیث گھڑتا تھا۔

ساقط بچہ کی فضیلت اور اس کا اپنے والدین کو جنت میں داخل کرنے کے متعلق ابن ماجہ میں دو احادیث ہیں ایک علی رضی اللّٰہ عنہ سے مروی اور ایک معاذ رضی اللّٰہ عنہ سے مروی، دونوں کی سند ضعیف ہے۔ لیکن معاذ رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث عبادہ بن صامت رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث سے تقویت پا کر صحیح ہے ( صحیح ابن ماجہ، حدیث نمبر 1315)۔
 

جوش

مشہور رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
621
ری ایکشن اسکور
320
پوائنٹ
127
عبدالمنان صاحب آپکی کوشش قابل صد مبارکباد ۔ میری ایک راے یہ ہے کہ علل کی تفصیل کے بجاے اسکے حوالے پر اکتفاء کریں تو بھتر ہے البتہ اسکی جگہ موضوع اور ضعیف روایتوں کاخطرناک اثرمسلم افکاروخیالات اور مسلم سماج پرکس قدر ہے اسکو بیان کریں تو اس کا اچھا اثر ہوگا اس سلسلے میں ڈاکٹر عابدی کی کتاب ۔موضوع و منکر روایات۔ کا مطالعہ کریں تو بہت فائدہ ہوگا ویسے محاولہ اچھا ہے فجزاک اللہ خیرالجزاء۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته

آپ کے قیمتی مشورے کے لیے جزاک اللّٰہ خیرا، دو بھائیوں نے کہا ہے کہ تفصیل میں فائدہ ہے۔ اور میں شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے جو علل بیان کی ہے اس کا بیان ضروری سمجھ رہا تھا تاکہ لوگوں پر واضح ہوجائے کہ شیخ البانی نے کس لیے کسی حدیث کو ضعیف یا موضوع کہا ہے۔ ان شاء الله ان ضعیف اور موضوع احادیث کا برا اثر بیان کرنے کی بھی کوشش کروں گا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الطبراني في الكبير: حَدَّثَنَا عُبَيْدٌ الْعِجْلُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:

«لَا تَأْذَنُ امْرَأَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا إِلَّا بِإِذْنِهِ، وَلَا تَقُومُ مِنْ فِرَاشِهَا فَتُصَلِّيَ تَطَوُّعًا إِلَّا بِإِذْنِهِ»

ترجمہ: کوئی عورت کسی کو اپنے شوہر کے گھر میں شوہر کی اجازت کے بغیر آنے کی اجازت نہ دے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر بستر سے اٹھ کر نفل صلاۃ ادا کرے۔

تخريج: المعجم الكبير للطبراني (12144)(المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الضعيفة (4771)؛ (ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ یہ سند ضعیف ہے يزيد بن أبي زياد ضعیف ہے۔ لیکن پہلا جملہ صحیح ہے اس کا شاہد ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ کی مرفوع حدیث ہے جو بخاری، مسلم وغیرہما میں ہے اور صحیح ابو داود حدیث نمبر 2121 میں بھی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
قال الحاكم: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ الْأَزْهَرِيُّ، ثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثَنَا أَزْهَرُ بْنُ نُوحٍ، [ثَنَا عَمْرُو بْنُ الْوَلِيدِ، قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ يَحْيَى الصَّدَفِيُّ، يَقُولُ: ثَنَا يَحْيَى بْنُ جَابِرٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ غَنْمٍ قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ:

«يَا عِيَاضُ لَا تَزَّوَّجَنَّ عَجُوزًا، وَلَا عَاقِرًا، فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمْ»

ترجمہ: عِيَاضِ بْنِ غَنْمٍ کہتے ہیں کہ ایک دن مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا: اے عیاض تم نہ بڑھیا سے نکاح کرنا اور نہ بانجھ عورت سے نکاح کرنا اس لیے کہ میں تمہاری کثرت پر فخر کروں گا۔

۩تخريج: غريب الحديث لإبراهيم الحربي(المتوفى: ٢٨٥ھ)؛المستدرك على الصحيحين للحاكم (5270) (المتوفى: ٤٠٥ھ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣ھ)؛ الوسيط في تفسير القرآن المجيد الواحدي (المتوفى: ٤٦٨ھ)؛الضعيفة (4775)؛(ضعيف)

شیخ البانی کہتے ہیں کہ معاوية بن يحيى نام کے دو راوی ہیں اور دونوں دمشقی ہیں ایک کی کنیت أبو روح الصدفي اور دوسرے کی أبو مطيع الطرابلسي ہے اور دونوں ضعیف ہیں۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ أبو روح الصدفي ہے جیسا کہ مستدرک حاکم کی روایت میں صراحت موجود ہے۔ اور حاکم رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن امام ذہبی نے اس کی یہ کہتے ہوئے تردید کی ہے کہ مُعَاوِيَةَ بْنَ يَحْيَى الصَّدَفِي ضعیف ہے۔
 
Top