اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
ہمم۔ جزاک اللہ خیرانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسا ہی ہے۔
ہمم۔ جزاک اللہ خیرانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسا ہی ہے۔
صاحب الھدایہ کی اس عبارت کے ذیل میں علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،
تھوڑی سی وضاحت ہو جائے اسحاق بھائی۔اگر آپ متون فقہ کے قاری ہیں تو اس ہمیں ’’ صحیح ۔۔اور اصح ۔۔کے قرب و بعد کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ،
ا صل روایت ملاحظہ فرمائیں؛امام محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس کی روایت سے نبی کریم ﷺ کا سواری پر وتر پڑھنا ، اور جناب ابن عمر ؓ کا سواری سے اتر کر زمین پر وتر پڑھنا نقل کرکے لکھتے ہیں :
’’ جہاں تک ابن عمر ؓ کا رات کو نوافل سواری پر پڑھنا اور نماز وتر سواری سے اتر کر زمین پڑھنے نقل کیا گیا ہے ،تو اچھی طرح جان لیجیئے کہ اس روایت میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ابن عمر سواری پر وتر پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتے تھے ،اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک وتر دیگر فرض نمازوں کی طرح ایک فرض نماز ہے ،
بلکہ (ان روایات سے صرف یہ بات سامنے آتی ہے )کہ سواری سے اتر کر وتر ادا کرنا بھی جائز ہے ،
ان کا یہ عمل (وجوب وتر کیلئے نہیں ،بلکہ محض )
اپنےلئے اختیاری عمل تھا ۔اور اس سے مقصد فضل کا حصول تھا ،نہ کہ وہ اس صورت کو اپنے لئے واجب سمجھتے تھے جس کا ترک جائز نہ ہو ،
ہماری بیان کردہ یہ توجیہ تو اس صورت میں ہے جب ان سے سواری سے اتر کر وتر کی ادائیگی کے خلاف کچھ مروی نہ ہوتا ،
لیکن یہاں تو ان سے سواری پر نماز وتر کی ادائیگی کی مضبوط روایات موجود ہیں ،(جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ وہ سواری سے اتر کر وتر پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے تھے ) انتہی ؛
تو ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک دونوں طرح جائز اور صحیح ہے ، اور اس طرح ان کے عمل میں وجوب وتر کی کوئی دلیل نہیں ،
ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ (صحابہ کرام) سواریوں پر نمازڑھ لیتے تھے وہ جس طرف بھی رخ کرتیں سوائے فرض نماز اور وتر کے۔تهذيب الآثار للطبري - (ج 6 / ص 401)
2886 - حدثنا ابن بشار ، قال : حدثنا يحيى ، قال : حدثنا سفيان ، قال : حدثني منصور ، عن إبراهيم ، قال : « كانوا يصلون على ظهور رواحلهم أينما توجهت ، إلا الفريضة والوتر » وقال هذا ابن عمر وإبراهيم ينكران أن يصلى الوتر على ظهور الرواحل مع من قال في ذلك مثل قولهما من أهل العراق ، اعتلالا منهم بقول النبي صلى الله عليه وسلم : « إن الله زادكم صلاة ، وهي الوتر ، فأوتروا »
محترم اس کا میں کیا مطلب لوں؟ہمم۔ جزاک اللہ خیرا
نمازِ جنازہ فرض ہے مگر اس کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ عیدین کی نمازیں واجب ہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ نمازِ جمعہ کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی۔یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
اس کا مطلب یہ کہ میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں۔محترم اس کا میں کیا مطلب لوں؟
اور اسی لئے امام ابوحنیفہ کے دونوں اصحاب گرامی (امام محمد و ابو یوسف ) وتر کو واجب نہیں مانتے بلکہ سنت سمجھتے ہیں ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )
اور ’’ العنایہ شرح الھدایہ ‘‘ علامہ البابرتی لکھتے ہیں :
وروى نوح بن أبي مريم عنه أنها سنة، وبه أخذ أبو يوسف ومحمد والشافعي - رحمهم الله -
لیکن نوح بن ابی مریم کی روایت میں امام ابوحنیفہ کا مذہب وتر کی بابت یہ نقل کیا گیا کہ سنت ہے ، اوریہی قول ہے امام محمد و ابویوسف اور امام شافعی کا ‘‘
امام محمد اور قاضی ابو یوسف تو وتر کو لازمی ماننے کے منکر ہو گئے،وتر جب تک نفل رہے اس وقت تک اسے ہر طرح ادا کرلیا جاتا تھا۔ اس کی تعداد بھی متعین نہ تھی۔ بعد ازاں جب اس کی ادائیگی لازم قرار پاگئی
بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے، یعنی کہ آپ دنیا میں دیر سے آئیں ہیں، اگر صاحب ہدایہ مرغنیانی حنفی کو پا لیتے، تو آپ یہ انہیں سمجھا دیتے۔نمازِ جنازہ فرض ہے مگر اس کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ عیدین کی نمازیں واجب ہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت۔ نمازِ جمعہ کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی۔
دراصل جو نماز کسی دوسری نماز کی قائم مقام ہے اس کے لئے آذان بھی مشروع ہے اور اقامت بھی جیسے نمازِ جمعہ۔ کیوں کہ ایک دن میں یا تو جمعہ ادا کیا جائے گا یا ظہر یہ نہیں کہ جمعہ بھی پڑھے اور ظہر بھی۔ اور جو نمازیں کسی کی قائم مقام نہیں ان کے لئے نہ آذان مشروع ہے اور نہ ہی اقامت جیسے صلاۃ الوتر، عیدین کی نمازیں اور نمازِ جنازہ وغیرہ۔ واللہ اعلم بالصواب
@اشماریہ اور @ابن عثمان بھائی، فقہ حنفی میں صاحب ہدایہ مرغنیانی کی بات معتبر ہے یا بھٹی صاحب کی؟اور اسی لئے امام ابوحنیفہ کے دونوں اصحاب گرامی (امام محمد و ابو یوسف ) وتر کو واجب نہیں مانتے بلکہ سنت سمجھتے ہیں ، صاحب ھدایہ لکھتے ہیں :
باب صلاة الوتر
(الوتر واجب عند أبي حنيفة رحمه الله وقالا سنة) لظهور آثار السنن فيه حيث لا يكفر جاحده ولا يؤذن له. )
یعنی نماز وتر ابوحنیفہ کے نزدیک تو واجب ہے ،لیکن امام محمد و ابو یوسف کے نزدیک سنت ہے ، کیونکہ اس میں آثار سنن ظاہر ہیں ،اس کے منکر کی تکفیر نہیں کی جاتی ، اور اس کیلئے آذان نہیں دی جاتی ،(اور اگر فرض واجب ہوتے تو اس منکر کو کافر کہا جاتا ،اور اس کیلئے اذان بھی ہوتی )