• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنت طریقہ نماز (مقتدی کی قراءت)

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
اللہ تعالیٰ کے فرمان ”وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (204)“ میں لفظ ”وَإِذَا قُرِئَ“ متقاضی ہے کسی پڑھنے والے کے وجود کا۔ اور ”فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا“ متقاضی ہے کسی سننے والے کے وجود کا۔ پڑھنے والا پڑھے گا سننے والا سنے گا۔
اب اس سے اگلی آیت ”وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآَصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ (205)“ میں حکم الٰہی ہے کہ ”وَاذْكُرْ رَبَّكَ“ اور اسی کو حکم ہے ”فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ“۔
جس کو پڑھنے کا حکم ہؤا اسی کو یہ بھی کہا گیا کہ دل میں بغیر آواز بلند کیئے پڑھ۔ یہ حکم قاری (امام) کو ہو نہیں سکتا کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت محال ہیں اور سامع (مقتدی) بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کو پڑھنے کا حکم ہؤاہی نہیں ۔ لہٰذا لازم آیا کہ یہ حکم نماز سے متعلق ہے ہی نہیں اور کسی صحابی نے اس آیت کو نماز سے متعلق نہیں کہا۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ (متفق علیہ)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔
اس حدیث کا مصداق، اہلِ حدیث کہلانے والے،مقتدی کو بھی کرتے ہیں کہ اس حدیث میں لفظ ’’
لمن‘‘ آیا ہے جس کی وجہ سے اس حدیث سے لازم ہؤا کہ نماز میں ہر کوئی قراءت کرے خواہ وہ منفرد ہو امام ہو یا مقتدی ۔ اگر مقتدی سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کرتا تو اس کی نماز نہیں ہوگی اور نماز نہ ہونے کی دلیل اس حدیث کے الفاظ ’’لا صلاۃ‘‘ سے لیتے ہیں۔
جواب:
ان مذکورہ الفاظ کے بموجب مقتدی کو اس حکم میں شامل کرنا صحیح نہیں کیونکہ
سنن ابوداؤد: کتاب الصلاۃ: بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ: میں فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛
عبادة بن الصامت يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب فصاعدا (قال البانی صحیح)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ اور اس سے زیادہ قراءت نہ کی۔
اس حدیث میں لفظ ’’لمن‘‘بھی ہے اور ’’لا صلاۃ‘‘ بھی۔اب اگر اس میں مقتدی کو بھی شامل کیا جائے تو مقتدی امام کی اقتدا میں نہ صرف سورہ فاتحہ کی قراءت کرے گا بلکہ اس کے ساتھ کسی دوسری سورہ کی بھی وگرنہ اہلِ حدیث کہلانے والوںکی دلیل کے مطابق اس کی بھی نماز نہیں ہوگی۔
اگر مقتدی سورہ فاتحہ کے ساتھ دوسری کسی سورہ کی قراءت کرے تو اہلِ حدیث کہلانے والوں کے ہاں بھی اس صورت میں قرآن کی مخالفت لازماً ہوگی۔ لہٰذا اہلِ حدیث کہلانے والوں کے اوپر مذکور دلیل کے مطابق اگر مقتدی دیگر سورہ کی قراءت کرے یا ترک کرے دونوں صورتوں میں اس کی نماز نہ ہو گی اور یہ محال ہے۔
لہٰذا لازم آئے گا کہ ’’
لمن‘‘ میں مقتدی شامل نہ ہو بلکہ منفرداور امام شامل ہوں جیسا کہ اوپر مذکورہ حدیث کے راوی ’سفیان رحمۃ اللہ علیہ ‘نے فرمایا کہ یہ حکم (امام اور) اکیلے کی نماز کے لئے ہے۔
لہٰذا اس حدیث کو قراءت خلف الامام کے ضمن میں لا کر مقتدی کو اس میں شامل کرنا صحیح نہیں۔


لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب کے الفاظ جز القرات اور صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہیں جس میں من نہیں ہے اور فصاعدا کی بھی تفصیل ہے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
ان کی دلیل نمبر دو:
أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيّ ِصَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَكُونُ وَرَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ ـــــ الحدیث (صحیح مسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن (سورہ فاتحہ) نہ پڑھی تو وہ ناقص ہے، تین دفعہ فرمایا، پوری نہیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا کہ جب ہم امام کی اقتدا میں ہوں (تب) ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اسے اپنے دل میں پڑھ لو ـــــــ الحدیث۔
جواب:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’
غَيْرُ تَمَامٍ ‘‘ (پوری نہیں) تک ہے۔ راوی کے استفسار کے جواب میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ فرمایا وہ ان کا اپنا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جواب میں یہ نہیں فرما رہے کہ ’’
اقْرَأْ بِهَا‘‘ (یعنی سورہ فاتحہ کو پڑھ) اتنا کہہ دینے سے بات پوری ہوجاتی، یا یہ کہتے ’’اقْرَأْ بِهَا سرا‘‘ (یعنی سورہ فاتحہ کو بغیر آواز بلند کیئے پڑھ) ، بلکہ وہ فرماتے ہیں ’’اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِكَ‘‘ (یعنی سورہ فاتحہ کو اپنے دل میں پڑھ) اور دل میں کی جانے والی قراءت سری قراءت نہیں کہلاتی ۔
لہٰذا اس حدیث کو مقتدی کی قراءت خلف الامام کے لئے پیش کرنا صحیح نہیں اور دل میں پڑھنے کی ممناعت کہیں نہیں۔

والمراد بقوله " اقرأ بها في نفسك " أن يتلفظ بها سرا ، دون الجهر بها ، ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ، لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة ، ولإجماع أهل العلم على أن ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ليس بشرط ولا مسنون ، فلا يجوز حمل الخبر على ما لا يقول به أحد ، ولا يساعده لسان العرب ، وبالله التوفيق

القراءة خلف الإمام للبيهقي ٤١
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
جواب:
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’
غَيْرُ تَمَامٍ ‘‘ (پوری نہیں) تک ہے۔ راوی کے استفسار کے جواب میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ فرمایا وہ ان کا اپنا بیان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں

وإن لم تزد على أم القرآن أجزأت وإن زدت فهو خير
البخاري ( 772 ) ومسلم ( 396 )
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : " من صلى صلاة ، لم يقرأ فيها بأم القرآن ، فهي خداج ، ثلاثا غير تمام ، فقيل لأبي هريرة : إنا نكون وراء الإمام ، فقال : اقرأ بها في نفسك ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : قال الله تعالى : قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ، ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد : الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ، وإذا قال : الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 ، قال الله تعالى : أثنى علي عبدي ، وإذا قال : مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 ، قال : مجدني عبدي ، وقال : مرة فوض إلي عبدي ، فإذا قال : إياك نعبد وإياك نستعين سورة الفاتحة آية 5 ، قال : هذا بيني وبين عبدي ، ولعبدي ما سأل ، فإذا قال : اهدنا الصراط المستقيم { 6 } صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين { 7 } سورة الفاتحة آية 6-7 ، قال : هذا لعبدي ولعبدي ما سأل
رقم الحديث: 603
صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب کے الفاظ جز القرات اور صحیح ابن خزیمہ میں موجود ہیں جس میں من نہیں ہے اور فصاعدا کی بھی تفصیل ہے
اس مضمون کی کوئی روایت مجھے صحیح ابن خزیمہ میں نہیں ملی (جزء القراءۃ میرے پاس نہیں ہے) ۔ اس کا عربی متن مہیا فرمادیں۔ شکریہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
والمراد بقوله " اقرأ بها في نفسك " أن يتلفظ بها سرا ، دون الجهر بها ، ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ، لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة ، ولإجماع أهل العلم على أن ذكرها بقلبه دون التلفظ بها ليس بشرط ولا مسنون ، فلا يجوز حمل الخبر على ما لا يقول به أحد ، ولا يساعده لسان العرب ، وبالله التوفيق
القراءة خلف الإمام للبيهقي ٤١
تفسير ابن كثير
وقال عبد الله بن المبارك، عن يونس عن الزهري قال: لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته، ولكنهم يقرءون فيما لا يجهر به سرًا في أنفسهم، ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرًا ولا علانية، فإن الله تعالى قال: { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ }
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
وإن لم تزد على أم القرآن أجزأت وإن زدت فهو خير
البخاري ( 772 ) ومسلم ( 396 )
سب سے پہلی باتر یہ کہ کیا یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؟
دوسرے یہ کہ کیا یہ مقتدی کے لئے کہا گیا ہے؟
وضاحت فرما دیں۔ شکریہ
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : " من صلى صلاة ، لم يقرأ فيها بأم القرآن ، فهي خداج ، ثلاثا غير تمام ، فقيل لأبي هريرة : إنا نكون وراء الإمام ، فقال : اقرأ بها في نفسك ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : قال الله تعالى : قسمت الصلاة بيني وبين عبدي نصفين ، ولعبدي ما سأل ، فإذا قال العبد : الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 ، قال الله تعالى : حمدني عبدي ، وإذا قال : الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 ، قال الله تعالى : أثنى علي عبدي ، وإذا قال : مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 ، قال : مجدني عبدي ، وقال : مرة فوض إلي عبدي ، فإذا قال : إياك نعبد وإياك نستعين سورة الفاتحة آية 5 ، قال : هذا بيني وبين عبدي ، ولعبدي ما سأل ، فإذا قال : اهدنا الصراط المستقيم { 6 } صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين { 7 } سورة الفاتحة آية 6-7 ، قال : هذا لعبدي ولعبدي ما سأل
رقم الحديث: 603
صحيح مسلم كِتَاب الصَّلَاةِ بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ
مذکورہ حدیث دواجزاء پر مشتمل ہے۔ جن میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مشتمل ہیں اور دوسرا فرمانِ صحابی پر۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان (من صلى صلاة ، لم يقرأ فيها بأم القرآن ، فهي خداج ، ثلاثا غير تمام)سے مقتدی کے لئے کوئی مخصوص حکم ثابت نہیں۔ جبکہ مقتدی کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے کہ امام کی قراءت مقتدی کو کفایت کرتی ہے (مؤطا امام مالک، نسائی، ابن ماجہ)۔
دوسرا حصہ فرمانِ صحابی (فقيل لأبي هريرة : إنا نكون وراء الإمام ، فقال : اقرأ بها في نفسك) ہے۔اس میں دو اہم اجزاء ہیں۔ ایک یہ کہ جب ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہ حدیث سنائی تو سامعین میں سے کسی نے سوال کیا کہ جب ہم امام کی اقتداء میں ہوں تب؟ سوال کرنے والا صحابی بھی ہوسکتا ہے اور اگر تابعی ہے تو یہ تابعی بڑی عمر کا ہوگا۔ خیر جو بھی ہو جن اس کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پڑھا گیا ہے تو اس کو مقتدی کی تخصیص کی کیوں سوجھی؟ اس کا مطلب کہ سوال کرنے والے کو بھی اور ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی معلوم تھا کہ مقتدی کے لئے قراءت نہیں۔ دوسرا جز یہ کہ جواب میں ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نہیں کہا کہ میں نے تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کردی ہے۔ اور نہ ہی یہ کہا کہ مقتدی پڑھے بلکہ فرمایا کہ دل میں پڑھے۔ یہ بات فرمانِ باری تعالیٰ اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مطابق ہے کہ جب امام قراءت کرے تو خاموش رہ کر اسے توجہ سے سنے۔ جیسے ہی امام کہے گا ”الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَمقتدی ان الفاظ پر غورو خوض کرے گا اور مطلوبہ اجر کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح ساری سورت کی قراءت پر ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
 
Top