• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
37- بَاب الإِفْرَادِ بِالْحَجّ
۳۷- باب: حجِ افراد کا بیان​


2964- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، وَأَبُو مُصْعَبٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ،حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاءِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ۔
* تخريج: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، د/الحج ۲۳ (۱۷۷۷)، ت/الحج ۱۰ (۸۲۰)، ن/الحج ۴۸ (۲۷۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۱۷)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۱۱ (۳۷)، حم (۶/۲۴۳)، دي/المناسک ۱۶ (۱۸۵۳) (صحیح)
۲۹۶۴- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افرادکیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اکثر علماء کے نزدیک حج قران افضل ہے، پھر تمتع، پھر افراد، اور بعضوں کے نزدیک افراد سب سے افضل ہے، پھر قران پھر تمتع، صحیح قول یہ ہے کہ تمتع سب سے افضل ہے، بلکہ علامہ البانی کے بقول تمتع کے سوا حج کی دونوں قسمیں منسوخ ہیں، کیوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا '' جو بات مجھے اب معلوم ہوئی ہے وہ اگر پہلے معلوم ہوتی تو میں بھی ہدی کے جانور لے کر نہیں آتا، (تاکہ میں بھی اپنے حج کو عمرہ میں بدل دیتا ) تو اب امت کے لیے یہ پیغام ملاکہ آئندہ کوئی ہدی لے کر آئے ہی نہیں، اس بناء پر حج تمتع سب سے افضل ہے ۔
حج کی تین قسمیں ہیں: افراد ، قران اورتمتع
افراد: یہ ہے کہ صرف حج کی نیت سے احرام باندھے۔
قران : یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے اور اس میں ید ی کا جانور ساتھ لے جائے۔
تمتع : یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے، پھر مکہ میں جاکر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے، اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو مکہ ہی سے نئے سرے سے حج کا احرام باندھے، حج تمتع اور قران میں ایک ایک قربانی (ہدی) واجب ہے ۔


2965- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَاءِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ۔
* تخريج: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۲)، المغازي ۷۸ (۴۴۰۸)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، د/المناسک ۲۳ (۱۷۷۹، ۱۷۸۰)، ن/المناسک ۴۸ (۲۷۱۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۶، ۱۰۴، ۱۰۷، ۲۴۳) (صحیح)
۲۹۶۵- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا۔


2966- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ الدَّرَاوَرْدِيُّ وَحَاتِمُ بْنُ إِسْماعِيلَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَفْرَدَ الْحَجَّ۔
* تخريج : تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۳۸، ومصباح الزجاجۃ : ۱۰۴۰) (صحیح)
(ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ثابت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم : ۳۷۱)
۲۹۶۶- جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : خلاصہء کلام علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ حج کی تینوں قسموں میں کون سا افضل ہے؟ بعض کے نزدیک قران،اور بعض کے نزدیک تمتع، اور بعض کے نزدیک افرادافضل ہے، علمائے محققین جیسے شیخ الإسلام ابن تیمیہ، ابن القیم ،شوکانی اور البانی وغیرہم نے تمتع کو افضل قرار دیاہے ،اور یہ بھی بیان کیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کیا تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اشارہ کیا کہ تمتع قران سے افضل ہے، اور اگر یہ اشارہ نہ ہوتا توقران سب قسموں میں افضل ہوتا کیونکہ اس میں دو عبادتوں میں جمع ہے۔
اس باب کی احادیث میں یہ مذکور ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا ، لیکن دوسری صحیح حدیثوں میں یہ تصریح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کا ایک ساتھ احرام باندھا یعنی قران کیا، (جیسا کہ اگلا باب اسی موضوع کی احادیث پر مشتمل ہے) اور صحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے اس میں اختلاف کیا ،حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حج ایک ہی تھا، اور علماء نے اس کی تحقیق میں مستقل رسالے لکھے ہیں، امام طحاوی نے اس مسئلہ میں ایک ہزارسے زیادہ اوراق سیا ہ کئے ہیں، اور طبرانی اور مہلب اور ابن عبدالبر وغیرہم نے بھی اس میں کلام کیا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے تینوں قسمیں جائز رکھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو مختلف روایتیں مروی ہیں ان میں یوں تطبیق دی ہے کہ مدینہ سے نکلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیت حج افرادکی تھی، پھر ذوالحلیفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کی نیت کی، اور لبیک بحجۃ وعمرۃ پکار ا، جب مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ مشرکین حج کے مہنیوں میں عمرہ کرنا برا جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انکار کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو عمرہ کر کے احرام کھو ل ڈالنے ، اور حج کا احرام فسخ کر دینے کا حکم دیا ،اور فرمایا: اگر پہلے سے میں جانتا جو بعدکو جانا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا ،اور لوگوں کے ساتھ احرام کھول ڈالتا یعنی میں بھی تمتع کرتا۔


2967- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْعُمَرِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ أَفْرَدُوا الْحَجَّ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۶۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۱) (ضعیف الإسناد)
(سند میں قاسم بن عبد اللہ متروک راوی ہے)
۲۹۶۷- جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ابوبکر،عمراور عثمان رضی اللہ عنہم نے حج افراد کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
38- بَاب مَنْ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ
۳۸- باب: حجِ قِران کا بیان​


2968- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَحْيَى ابْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى مَكَّةَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " لَبَّيْكَ ! عُمْرَةً وَحَجَّةً "۔
* تخريج: م/الحج ۳۴ (۱۲۵۱)، د/الحج ۲۴ (۱۷۹۵)، ن/الحج ۴۹ (۲۷۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۳)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۱ (۸۲۱)، حم (۳/۹۹، ۲۸۲)، دي/المناسک ۷۸ (۱۹۶۵) (صحیح)
۲۹۶۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف نکلے ،میں نے آپ کو حج اور عمرہ کا ایک سا تھ تلبیہ پکا رتے ہوئے سنا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج قران کیا، اور جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا اور صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمتع کیا تھا، اور ہر ایک صحابی کی روایت اس معنی میں ٹھیک ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا لیکن کسی نے اس کو حج افراد سمجھا کسی نے تمتع اور قران میں چونکہ ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کا فی ہوتی ہے، تو تمیز مشکل تھی ، اور مکہ میں پہنچ کر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف اور سعی کی تو حج افراد والے یہ کہیں گے کہ طواف قدوم کا تھا، اور سعی حج کے لیے تھی، جب کہ قران اورتمتع والے یہ کہیں گے کہ یہ طواف اور سعی عمرہ کی تھی غرض صحابہ میں یہ اختلاف ا جتہاد رائے کی وجہ سے پیدا ہوا ۔


2969- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " لَبَّيْكَ ! بِعُمْرَةٍ وَحِجَّةٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۲۴ ) (صحیح)
۲۹۶۹- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا :''حاضر ہوں عمرہ اور حج کے ساتھ''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ نے عمرہ اور حج کا تلبیہ ایک سا تھ پکا را۔


2970- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، شَقِيقَ بْنَ سَلَمَةَ يَقُولُ : سَمِعْتُ الصُّبَيَّ بْنَ مَعْبَدٍ يَقُولُ: كُنْتُ رَجُلا نَصْرَانِيًّا، فَأَسْلَمْتُ، فَأَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَسَمِعَنِي سَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ وَأَنَا أُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا، بِالْقَادِسِيَّةِ، فَقَالا: لَهَذَا أَضَلُّ مِنْ بَعِيرِهِ، فَكَأَنَّمَا حَمَلا عَلَيَّ جَبَلا بِكَلِمَتِهِمَا، فَقَدِمْتُ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمَا فَلامَهُمَا، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ: هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ ﷺ، هُدِيتَ لِسُنَّةِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ: هِشَامٌ فِي حَدِيثِهِ : قَالَ شَقِيقٌ: فَكَثِيرًا مَا ذَهَبْتُ، أَنَا وَمَسْرُوقٌ، نَسْأَلُهُ عَنْهُ.
* تخريج: د/الحج ۲۴ (۱۷۹۸، ۱۷۹۹)، ن/الحج ۴۹ (۲۷۲۰، ۲۷۷۱، ۲۷۲۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴، ۲۵، ۳۴، ۳۷، ۵۳) (صحیح)
۲۹۷۰- صبی بن معبد کہتے ہیں کہ میں نصرانی تھا، پھر اسلام لے آیا اور حج و عمرہ دونوں کا ایک سا تھ احرام باندھا، سلمان بن ربیعہ اور زید بن صوحان نے مجھے قاد سیہ میں عمرہ اور حج دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکا رتے ہوئے سنا، تو دونوں نے کہا: یہ تو اپنے اونٹ سے بھی زیا دہ نا دان ہے، ان دونوں کے اس کہنے نے گویا میرے اوپر کو ئی پہاڑ لا ددیا، میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور ان سے اس کا ذکر کیا، وہ ان دونوں کی طرف متوجہ ہو ئے اور انہیں ملامت کی، پھر میری جانب متوجہ ہوئے اور فر ما یا: تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پایا ،تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پایا ۱؎ ۔
ہشام اپنی روایت میں کہتے ہیں کہ شقیق کہتے ہیں: میں اور مسروق دونوں صبی بن معبد کے پاس اس حدیث کے متعلق پوچھنے باربار گئے۔
وضاحت ۱؎ : عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا اس بنا پر تھا کہ سلمان اور زید رضی اللہ عنہما حج قران کومکروہ سمجھ رہے تھے جب کہ وہ سنت رسول ہے۔
2970/أ- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَخَالِي يَعْلَى قَالُوا: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ، عَنِ الصُّبَيِّ بْنِ مَعْبَدٍ، قَالَ: كُنْتُ حَدِيثَ عَهْدٍ بِنَصْرَانِيَّةٍ، فَأَسْلَمْتُ، فَلَمْ آلُ أَنْ أَجْتَهِدَ، فَأَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
۲۹۷۰/أ- صبی بن معبد نے کہا : مجھے نصرا نیت سے اسلام قبول کیے ہوئے تھوڑی ہی مدت گز ری تھی، میں نے عبادت کو بجا لا نے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی، میں نے حج اور عمرہ دونوں کا ایک ساتھ احرام باندھا، پھر انھوں نے یہ حدیث اسی طرح بیان کی ہے جیسے اوپر گزری ۔


2971- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو طَلْحَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۸۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۲)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۸،۲۹) (صحیح)
(سند میں حجاج بن أرطاہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ۱۵۷۵، ۱۵۷۶)
۲۹۷۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو ملایا یعنی قران کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
39- بَاب طَوَافِ الْقَارِنِ
۳۹- باب: قارِن کے طواف کا بیان​


2972- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى بْنِ حَارِثٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ غَيْلانَ بْنِ جَامِعٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَطَائٍ وَطَاوُسٍ وَمُجَاهِدٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَمْ يَطُفْ هُوَ وَأَصْحَابُهُ لِعُمْرَتِهِمْ وَحَجَّتِهِمْ حِينَ قَدِمُوا إِلا طَوَافًا وَاحِدًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۷۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۳) (صحیح)
(سند میں میں لیث بن أبی سلیم ضعیف اور مدلس ہیں ، لیکن آگے کی حدیثوں سے یہ صحیح ہے )
۲۹۷۲- جابر بن عبداللہ ،عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ جب مکہ آئے تو انہوں نے حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک ہی طواف کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہاں طواف سے مرادسعی ہے، متمتع پرصفاومروہ کی دوسعی واجب ہیں جب کہ قارن کے لیے صرف ایک سعی کافی ہے خواہ طواف قدوم (زیارت) کے بعد کرے یہی مسئلہ مفردحاجی کے لیے بھی ہے، واضح رہے کہ بعض حدیثوںمیں سعی کے لیے بھی طواف کا لفظ واردہواہے ۔


2973- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ طَافَ لِلْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ طَوَافًا وَاحِدًا۔
* تخريج: تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۸۷) (صحیح)
۲۹۷۳- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کے لیے ایک ہی طواف کیا۔


2974- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَدِمَ قَارِنًا، فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ قَالَ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۱۱۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۴) (صحیح)
۲۹۷۴- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ حج قران کا احرام باندھ کر آئے، اور خا نۂ کعبہ کے سات چکر لگائے، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی اور کہا: اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔


2975- حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ،عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، كَفَى لَهُمَا طَوَافٌ وَاحِدٌ، وَلَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَيَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "۔
* تخريج: ت/الحج ۱۰۲ (۹۴۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۶۷)، دي/النسک ۲۹ (۱۸۸۶) (صحیح)
۲۹۷۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' جس نے حج اور عمر ہ دونوں کا احرام باندھا تو ان دونوں کے لیے اسے ایک ہی سعی کا فی ہے، اور وہ احرام نہ کھولے جب تک حج کو پو را نہ کرلے، اور اس وقت ان دونوں سے ایک ساتھ احرام کھولے گا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہاں طواف سے مراد سعی ہے، اکثر علماء کا قول انہی حدیثوں کے موافق ہے کہ قر ا ن میں حج اور عمرہ دونوں کے واسطے ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی کافی ہے لیکن حنفیہ کے نزدیک دو طواف اور دوسعی لازم ہیں، الروضہ الندیہ میں ہے کہ اس کی کوئی دلیل نہیں ، اور حنفیہ کہتے ہیں کہ محمد بن حنفیہ نے اپنے والد علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ دو طواف اور دو سعی کی تھیں، اور علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا، (سنن نسائی)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
40-بَاب التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ
۴۰- باب: حجِ تمتع کا بیان​


2976- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، (ح) وحَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ (يَعْنِي دُحَيْمًا)، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالا: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي، عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ وَهُوَ بِالْعَقِيقِ: " أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ " وَاللَّفْظُ لِدُحَيْمٍ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۶ (۱۵۳۴)، د/الحج ۲۴ (۱۸۰۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۱۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴) صحیح)
۲۹۷۶- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی عقیق ۱؎ میں فرماتے سنا : ''میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا، اور اس نے کہا :اس مبا رک وادی میں صلاۃپڑھو اور کہو :یہ عمرہ ہے حج میں''۲؎ ( یہ الفاظ دحیم کے ہیں) ۔
وضاحت ۱؎ : عقیق : مسجد نبوی سے چارمیل (تقریباً ساڑھے چھ کلو ) کی دوری پر ایک وادی ہے اور اب شہر کا ایک حصہ ہے ۔
وضاحت ۲؎ : یہ جملہ '' وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ '' احادیث میں تین طرح سے واردہے، مسکین کی روایت میں جسے انہوں نے اوزاعی سے روایت کیا ہے '' قَالَ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ'' ماضی کے صیغے کے ساتھ ہے اور ولید بن مسلم اور عبدالواحد کی روایت میں :'' وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ '' امر کے صیغے کے ساتھ ہے اوربخاری کی روایت میں '' وَ قُلْ: عُمْرَةٌ وَ حَجَّةٍ '' ہے ''عُمْرَةٌ ''اور'' حَجَّةٍ ''کے درمیان واو عاطفہ کے ساتھ ۔


2977- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ؛ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ خَطِيبًا فِي هَذَا الْوَادِي، فَقَالَ: " أَلا إِنَّ الْعُمْرَةَ قَدْ دَخَلَتْ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۱۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۵)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۰۸)، حم (۴/۱۷۵) (صحیح)
۲۹۷۷- سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وادی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہو ئے اور فرمایا : ''آگاہ رہو، عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہوگیا''۔


2978- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْعَلائِ يَزِيدَ بْنِ الشِّخِّيرِ، عَنْ أَخِيهِ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ؛ قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ الْحُصَيْنِ: إِنِّي أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ بَعْدَ الْيَوْمِ، اعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدِ اعْتَمَرَ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِهِ فِي الْعَشْرِ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَلَمْ يَنْزِلْ نَسْخُهُ، قَالَ فِي ذَلِكَ بَعْدُ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَائَ أَنْ يَقُولَ۔
* تخريج: م/الحج ۲۳ (۱۲۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۸۵۶)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۳۶ (۱۵۷۱)، تفسیر البقرۃ ۳۳ (۴۵۱۸)، ن/الحج ۴۹ (۲۷۲۸)، حم (۴/۴۲۷، ۴۲۸، ۴۲۹، ۴۳۴، ۴۳۶، ۴۳۸)، دي/النسک ۱۸ (۱۸۵۵) (صحیح)
۲۹۷۸- مطرف بن عبداللہ بن شخّیر کہتے ہیں کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے آج کے بعد فا ئدہ پہنچائے، جا ن لو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے ایک جماعت نے ذی الحجہ کے دس دنوں میں عمرہ کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کومنع نہیں کیا، اور نہ قرآن مجید میں اس کا نسخ اترا، اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور سنن ترمذی میں ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے تمتع کے بارے میں پوچھا تو انہو ں نے کہا کہ وہ درست ہے، اس شخص نے کہا: آپ کے والد تو اس سے منع کرتے تھے، انہوں نے کہا: اگر میرے والد ایک بات سے منع کریں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیا ہو تو میرے والدکی پیروی کی جائے گی ، یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی؟! اس شخص نے کہا: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا : پس رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تمتع کیا۔


2979- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، (ح) و حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِي مُوسَى الأَشْعَرِيِّ؛ أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بَعْضَ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ،حَتَّى لَقِيتُهُ بَعْدُ فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ، وَلَكِنِّي كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا بِهِنَّ مُعْرِسِينَ تَحْتَ الأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُونَ بِالْحَجِّ تَقْطُرُ رُئُوسُهُمْ۔
* تخريج: م/الحج ۲۲ (۱۲۲۱)، ن/الحج ۵۰ (۲۷۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۸۴)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۹)، دي/النسک ۱۸ (۱۸۵۶) (صحیح)
۲۹۷۹- ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حج تمتع کے جواز کا فتویٰ دیتے تھے، ایک شخص نے ان سے کہا: آپ اپنے بعض فتوؤ ں سے دستبر دار ہو جا ئیں کیو نکہ آپ کے بعد امیر المومنین نے حج کے مسئلہ میں جو نئے احکام دئیے ہیں وہ آپ کو معلوم نہیں، ابو مو سیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا، اور ان سے پو چھا، تو آپ نے کہا : مجھے معلوم ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ایسا کیا ہے، لیکن مجھے یہ با ت اچھی نہیں لگی کہ لوگ پیلو کے درخت کے نیچے عو رتوں کے ساتھ رات گذاریں پھر حج کو جا ئیں، اور ان کے سروں سے پا نی ٹپک رہا ہو ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہ عمر رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے تھی جس کی حیثیت قول رسول کے سامنے کچھ بھی نہیں ، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تب تو ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں گے کہ ہماری شرم گاہوں سے منی ٹپک رہی ہوگی، پھر بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع نہیں کیا، عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کیا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
41- بَاب فَسْخِ الْحَجِّ
۴۱- باب: حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کر نے کا بیان​


2980- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ خَالِصًا، لانَخْلِطُهُ بِعُمْرَةٍ، فَقَدِمْنَا مَكَّةَ لأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا طُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَسَعَيْنَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً، وَأَنْ نَحِلَّ إِلَى النِّسَائِ، فَقُلْنَا مَا بَيْنَنَا: لَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلا خَمْسٌ، فَنَخْرُجُ إِلَيْهَا وَمَذَاكِيرُنَا تَقْطُرُ مَنِيًّا ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنِّي لأَبَرُّكُمْ وَأَصْدَقُكُمْ، وَلَوْلا الْهَدْيُ لأَحْلَلْتُ"، فَقَالَ: سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ: أَمُتْعَتُنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا، أَمْ، لأَبَدٍ؟ فَقَالَ : " لا، بَلْ لأَبَدِ الأَبَدِ "۔
* تخريج: د/المناسک ۲۳ (۱۷۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۶)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۶)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۰۷) (صحیح)
۲۹۸۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎ ، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزرچکی تھیں، جب ہم نے خانہء کعبہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لئے حلال ہوجائیں ، ہم نے عر ض کیا: اب عرفہ میں صرف پا نچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عر فات کو اس حال میں نکلیں کہ شرم گا ہوں سے منی ٹپک رہی ہو ؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''میں تم میں سب سے زیادہ نیک اورسچا ہوں ۲؎ ، اگر میرے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور ) نہ ہو تا تو میں بھی ( عمرہ کرکے ) حلال ہو جاتا ( یعنی احرام کھول ڈالتااور حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیتا )۔
سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس وقت عرض کیا : حج میں یہ تمتع ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں، ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے'' ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حج افراد کا احرام باندھا ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جو کہہ رہا ہوں کسی پس و پیش کے بغیرانجام دو ،میری کو ئی بات تقویٰ وپر ہیز گا ری کے منا فی نہیں ہو سکتی۔
وضاحت ۳؎ : ہر ایک شخص کے لیے قیامت تک تمتع کرنا جائز ہے ، اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام باندھے لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہ ہو تو وہ مکہ میں جاکر حج کی نیت فسخ کرسکتا ہے، اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے ، پھر یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی ۸ تاریخ کو حج کے لئے نیا احرام باندھے، اور اس تاریخ (آٹھ )تک سب کام کرسکتا ہے جو احرام کی حالت میں جائز نہ تھے، امام ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنادینے کا فتوی ٰ دیا ، پھر فتویٰ دیا کہ یہ امر مستحب ہے ضرور اس کام کو کرنا چاہئے، اور یہ حکم کسی دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہوا ،اور دین اللہ تعالی کا ہے ، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حج کو فسخ کرڈالنا اور عمرہ کردینا اگر کوئی ان احادیث کی روسے واجب کہے تو اس کا قول قوی ہوگا، بہ نسبت اس شخص کے قول کے جو اس سے منع کرتا ہے ...الی آخرہ۔


2981- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ لا نُرَى إِلا الْحَجَّ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا وَدَنَوْنَا، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ أَنْ يَحِلَّ، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ، إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ، دُخِلَ عَلَيْنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقِيلَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَزْوَاجِهِ۔
* تخريج: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۱)، ۱۱۵ (۱۷۰۹)، ۱۲۴ (۱۷۲۰)، الجہاد ۱۰۵ (۲۹۵۲)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/الحج ۱۶ (۲۶۵۱)، ۷۷ (۲۸۰۵، ۲۸۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳۳)، وقد أخرجہ: د/الحج ۲۳ (۱۷۸۱)، ط/الحج ۵۸ (۱۷۹)، حم (۶/۱۲۲، ۲۶۶، ۲۷۳) (صحیح)
۲۹۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ پہنچے یا اس سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جن لوگوں کے پاس ہدی( قربانی) کا جانورنہیں تھا احرام کھول دینے کا حکم دیا، تو سارے لوگوں نے احرام کھول دیا، سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس ہدی (قربانی) کے جانور تھے ،پھر جب نحر کا دن (ذی الحجہ کا دسواںدن) ہو ا تو ہما رے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، لوگو ں نے کہا: یہ گائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ذبح کی ہے۔


2982- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ، فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ: " اجْعَلُوا حِجَّتَكُمْ عُمْرَةً " فَقَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً، قَالَ: " انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَافْعَلُوا " فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ، فَغَضِبَ، فَانْطَلَقَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى عَاءِشَةَ غَضْبَانَ، فَرَأَتِ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَتْ: مَنْ أَغْضَبَكَ ؟ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ! قَالَ: " وَمَا لِي لا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ أَمْرًا فَلا أُتْبَعُ ؟ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۶)، وقد أخرجہ: (۴/۲۸۶) (ضعیف)
(ابو بکربن عیاش بڑھاپے کی وجہ سے سئی الحفظ(حافظہ کے کمزور) ہو گئے تھے، اور ابو اسحاق اختلاط کا شکار تھے،نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۴۷۵۳)۔
۲۹۸۲- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام با ندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اپنے حج کو عمرہ کردو''،لوگوں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول !ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو''، لو گوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، انہوں نے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے تو بولیں:کس نے آپ کو ناراض کیا ہے؟اللہ اسے نا راض کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''میں کیوں کر غصہ نہ کروں جب کہ میں ایک کام کا حکم دیتا ہوں اور میری بات نہیں ما نی جا تی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے ، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پرعمل نہیں کیا، تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلاتا اورآپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکا نا کہیں نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ''مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے ''،اگر چہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر ،مرشد ،عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدو رت اورتنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کر نے کی توفیق ہوئی ۔
اگرایسانہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اورمولوی اس کے خلاف ہیں، آخران لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے ، اورکچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہوگا ؟ تو جان لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض ہیں ، اوران کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ناراض ہوگئے اوربالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے ،وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا،ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پارہے ، یااللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اورآل واصحاب رسول سے ملادے ، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے ، عالم برزخ اورآخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اورکا ساتھ چاہئے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ صحابہ معصوم نہ تھے ، اوربعض صحابہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کبھی بعض کام صادرہوتے تھے ، لیکن اس کے بعد وہ توبہ کرتے تھے ، اوراللہ تعالیٰ ان کی خطاکو معاف کردیتاتھا، غفراللہ لنا ولہم ، اگرجنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو ۔
مسلک سنت پہ سالک توچلا چل بے ڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک


2983- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُحْرِمِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُقِمْ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيَحْلِلْ " قَالَتْ: وَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ فَأَحْلَلْتُ، وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ هَدْيٌ، فَلَمْ يَحِلَّ، فَلَبِسْتُ ثِيَابِي وَجِئْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ فَقَالَ: قُومِي عَنِّي، فَقُلْتُ : أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ؟۔
* تخريج: م/الحج ۲۹ (۱۲۳۶)، ن/الحج ۱۸۶ (۲۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۵۱) (صحیح)
۲۹۸۳- اسما ء بنت ابی بکررضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص کے سا تھ ہدی (قربانی کا جانور) ہو، وہ اپنے احرام پر قائم رہے، اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھو ل کر حلال ہو جا ئے'' اور میرے ساتھ ہدی کا جا نور نہیں تھا چنانچہ میں نے احرام کھو ل دیا، اور زبیر رضی اللہ عنہ کے سا تھ ہدی کا جا نور تھا تو انہوں نے احرام نہیں کھو لا، میں نے اپنا کپڑا پہن لیا، اور زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو انہوں نے کہا: میرے پاس سے چلی جاؤ، میں نے کہا :کیا آپ ڈرتے ہیں کہ میں آپ پر کو د پڑ وں گی ؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں صرف آپ کے پاس آئی ہوں، کچھ آپ سے لپٹتی نہیں کہ آپ کو ڈرپیدا ہو، ان حدیثوں سے صاف معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے احرام کو فسخ کرایا، اور صحابہ کرام کو اس کی تاکید کی بلکہ جب انہوں نے احرام کھو لنے میں دیر کی تو غصہ ہوئے ،اس لیے امام ابن القیم کہتے ہیں کہ اگر اسے کوئی واجب کہے تو ہوسکتا ہے، یہ حدیثیں بہت ا علیٰ درجہ کی ہیں ، اور ان کے راوی تمام ائمہ اور ثقات ہیں، اور ان میں یہ تصریح ہے کہ یہ حکم دائمی اور عام ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ایسا منقول ہو ا، اور جن حدیثوں میں یہ ہے کہ یہ حکم خاص تھا ان لوگوں سے ان کی سند ا علیٰ درجہ کی نہیں ہے، اور بعض حدیثوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں سے خود نہیں فرمایا کہ یہ حکم خاص ہے، بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے ذہن سے ایسا خیال کیا جو حدیث کے خلاف کسی طرح دلیل نہیں بن سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
42- بَاب مَنْ قَالَ :كَانَ فَسْخُ الْحَجِّ لَهُمْ خَاصَّةً
۴۲- باب: جو لو گ کہتے ہیں کہ حج کا فسخ یعنی اس کوعمرہ میں تبدیل کردینے کا حکم صحابہ کے لیے خا ص تھاان کی دلیل​


2984- حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ،حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنِ الْحَارِثِ ابْنِ بِلالِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرَأَيْتَ فَسْخَ الْحَجِّ فِي الْعُمْرَةِ لَنَا خَاصَّةً ؟ أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "بَلْ لَنَا خَاصَّةً "۔
* تخريج: د/الحج ۲۵ (۱۸۰۸)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۰)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۶۹)، دي/المناسک ۳۷ (۱۸۹۷) (ضعیف)
(حارث لین الحدیث ہیں، اور ان کی یہ روایت صحیح روایات کے خلاف ہے، اس لیے منکر ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ۱۵۸۶)
۲۹۸۴- بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عر ض کیا :اللہ کے رسول !حج کو فسخ کر کے عمرہ کر لینا صرف ہمیں لو گوں کے لیے خا ص ہے یا سارے لوگوں کے لیے عام ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''(نہیں )بلکہ صرف ہمیں لوگوں کے لیے خاص ہے''۔


2985- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ؛ قَالَ: كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي الْحَجِّ لأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ﷺ خَاصَّةً۔
* تخريج: م/الحج ۲۳ (۱۲۲۴)، موقوفاً، ن/الحج ۷۷ (۲۸۱۱، ۲۸۱۲، ۲۸۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۹۹۵) (صحیح)
( موقوف صحیح ہے، لیکن سابقہ حج کو فسخ کر کے عمرہ میں بدل (دینے والی احادیث کے خلاف ہے)
۲۹۸۵- ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حج تمتع اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خا ص تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
43- بَاب السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ
۴۳- باب: صفا اور مر وہ کے درمیان سعی کا بیان​


2986- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ؛ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: قُلْتُ لِعَاءِشَةَ: مَا أَرَى عَلَيَّ جُنَاحًا أَنْ لا أَطَّوَّفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاءِرِ اللَّهِ، فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا} وَلَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ: لَكَانَ {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لايَطَّوَّفَ بِهِمَا} إِنَّمَا أُنْزِلَ هَذَا فِي نَاسٍ مِنَ الأَنْصَارِ، كَانُوا إِذَا أَهَلُّوا، أَهَلُّوا لِمَنَاةَ، فَلا يَحِلُّ لَهُمْ أَنْ يَطَّوَّفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا قَدِمُوا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي الْحَجِّ، ذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَأَنْزَلَهَا اللَّهُ، فَلَعَمْرِي! مَا أَتَمَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَجَّ مَنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفۃ الأشراف: ۱۶۸۲۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۷۹ (۱۶۴۳)، العمرۃ ۱۰ (۱۷۹۰)، تفسیر البقرۃ ۲۱ (۴۴۹۵)، تفسیر النجم ۳ (۴۸۶۱)، م/الحج ۴۳ (۱۲۷۷)، د/الحج ۵۶ (۱۹۰۱)، ت/تفسیر البقرۃ (۲۹۶۹)، ن/الحج ۱۶۸ (۲۹۷۰)، ط/الحج ۴۲ (۱۲۹)، حم (۳/۱۴۴، ۱۶۲، ۲۲۷) (صحیح)
۲۹۸۶- عروہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کرنے میں اپنے اوپر میں کو ئی حرج محسوس نہیں کرتا، آپ نے کہا: اللہ تعالی تو فرماتا ہے :{ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ ... إلخ} ( صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں، اور جو حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پرگناہ نہیں،ان دونوں کی سعی کر نے میں) اگربات ویسی ہوتی جو تم کہتے ہو تو اللہ تعا لی یوں فرماتا: { فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لا يَطَّوَّفَ بِهِمَا } اگر سعی نہ کرے تو (اس پر گناہ نہیں ہے ) بات یہ ہے کہ یہ آیت انصار کے کچھ لوگوں کے با رے میں اتری ہے، وہ جب لبیک پکارتے تومنات (جو عربوں کا مشہور بت تھا)کے نام سے پکارتے، ان (کے اپنے اعتقاد کے مطابق ان کے) کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی کر نا حلال نہ تھا تو جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے آئے تو انہوں نے آپ سے اس کا ذکر کیا، تب اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری :'' إن الصفا والمروة...... ''(صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیا ں ہیں، ان کے درمیان سعی کرنا گنا ہ نہیں( جیسا کہ تم اسلام سے پہلے سمجھتے تھے) اور قسم ہے کہ جس نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہ کی، اللہ تعالی نے اس کا حج پورا نہیں کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : توسعی واجب ہے اور ارکان حج میں سے ہے ، مالک ، احمد ، اسحاق ،ابو ثور اور اہل حدیث وغیرہ کا یہی قول ہے۔


2987- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ أُمِّ وَلَدٍ لِشَيْبَةَ؛ قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَهُوَ يَقُولُ: " لا يُقْطَعُ الأَبْطَحُ إِلا شَدًّا "۔
* تخريج: ن/الحج ۱۷۷ (۲۹۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۳۸۲)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۰۴، ۴۰۵) (صحیح)
۲۹۸۷- شیبہ کی ام ولد ۱؎ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے دیکھا،آپ فرما رہے تھے: ''ابطح ۲؎ کو دوڑ ہی کر طے کیا جا ئے'' ۔
وضاحت ۱؎ : ام ولد : ایسی لونڈی جس نے اپنے مالک کے بچہ کو جناہو۔
وضاحت ۲؎ : ابطح : صفا اور مروہ کے درمیان ایک مقام ہے ،اب وہاں دو ہرے نشان بنادئے گئے ہیں، وہاں دوڑکر سعی کرنی چاہئے یہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت ہے ، وہ پانی کی تلاش میں یہاں سات بار دوڑی تھیں۔


2988- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: إِنْ أَسْعَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَسْعَى، وَإِنْ أَمْشِ فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَمْشِي، وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ۔
* تخريج: د/الحج ۵۶ (۱۹۰۴)، ت/الحج ۳۹ (۸۶۴)، ن/الحج ۱۷۴ (۲۹۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۷۹)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۳۴ (۱۳۰)، حم (۲/۵۳، ۶۰، ۶۱، ۱۲۰)، دي/المناسک ۲۵ (۱۸۸۰) (صحیح)
۲۹۸۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اگرمیں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوڑتے ہوئے دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے آپ کو ایسا بھی چلتے دیکھا ہے، اور میں بہت بوڑھا ہوں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کا یہ مطلب ہے کہ دوڑ نا اورمعمولی چال سے چلنا دونوں طرح سنت ہے، ا ور اگر چلنا سنت بھی ہو تب بھی چلنے میں میرے لیے حرج نہیں ،اس لیے کہ میں نا تواں بوڑھا ہوں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
44- بَاب الْعُمْرَةِ
۴۴- باب: عمرہ کا بیان​


2989- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى الْخُشَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ، أَخْبَرَنِي طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عَمِّهِ إِسْحاقَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " الْحَجُّ جِهَادٌ وَالْعُمْرَةُ تَطَوُّعٌ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۹۹۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۷) (ضعیف)
(عمربن قیس اور حسن بن یحییٰ ضعیف ہیں، نیزملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۲۰۰)
۲۹۸۹- طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا :''حج جہا د ہے، اور عمرہ نفل ہے''۔


2990- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَاللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حِينَ اعْتَمَرَ، فَطَافَ وَطُفْنَا مَعَهُ، وَصَلَّى وَصَلَّيْنَا مَعَهُ ، وَكُنَّا نَسْتُرُهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، لا يُصِيبُهُ أَحَدٌ بِشَيْئٍ۔
* تخريج: خ/الحج ۵۳ (۱۶۰۰)، د/الحج ۵۶ (۱۹۰۲)، (تحفۃ الأشراف (۵۱۵۵)، وقد أخرجہ: م/الحج ۶۸ (۱۳۳۲)، حم (۴/ ۳۵۳، ۳۵۵، ۳۸۱)، دي/المناسک ۷۷ (۱۹۶۳) (صحیح)
۲۹۹۰- عبداللہ بن ابی او فی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا ہم آپ کے ساتھ تھے، آپ نے طواف کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، آپ نے صلاۃ پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ صلاۃ پڑھی، اور ہم مکہ والوں سے آپ کو آڑ میں کیے رہتے تھے کہ وہ آپ کو کو ئی اذیت نہ پہنچا دیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
45- بَاب الْعُمْرَةِ فِي رَمَضَانَ
۴۵- باب: ماہ رمضان میں عمرہ کرنے کی فضیلت کابیان​


2991- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ بَيَانٍ، وَجَابِرٌ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُول اللَّه ﷺ: " عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۹۷، ومصباح الزجاجۃ : ۱۰۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰۸، ۳/۳۵۳، ۴/۱۷۷، ۱۸۶) (صحیح)
۲۹۹۱- وہب بن خنبش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:'' رمضا ن میں عمرہ، (ثواب میں) حج کے برابر ہے''۔


2992- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، جَمِيعًا عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ هَرِمِ بْنِ خَنْبَشٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۱۷۲۸،مصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۹)، وقدأخرجہ: حم (۴/۱۷۷، ۱۸۶) (صحیح)
(پہلی سند سے صحیح ہے، دوسری سند میں دادو بن یزید ضعیف راوی ہے)
۲۹۹۲- ہرم بن خنبش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''رمضا ن میں عمرہ (کا ثواب) حج کے برابر ہے''۔


2993- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي مَعْقِلٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً "۔
* تخريج:ت/الحج ۹۵ (۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۸۳۶۰)، وقد أخرجہ: د/الحج ۸۰ (۱۹۸۸)، حم (۶/۴۰۵، ۴۰۶) (صحیح)
(ملاحظہ ہو : الإرواء : ۸۶۹)
۲۹۹۳- ابو معقل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' رمضا ن میں عمرہ حج کے برابر ہے''۔


2994- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۵۸۹۰)، وقد أخرجہ: خ/العمرۃ ۴ (۱۷۸۲)، جزاء الصید ۲۶ (۱۸۶۳)، م/الحج ۳۶ (۱۲۵۶)، ن/الصیام ۴ (۲۱۱۲)، حم (۱/۲۲۹، ۳۰۸)، دي/المناسک ۴۰ (۱۹۰۱، ۱۹۰۲) (صحیح)
۲۹۹۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''رمضا ن میں عمرہ (کاثواب) حج کے برابر ہے''۔


2995- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِالْكَرِيمِ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ؛ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً "۔
* تخريج: خ/جزاء الصید ۲۶ (۱۸۶۰تعلیقاً)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۰۸، ۳۵۲، ۳۶۱، ۳۹۷) (صحیح)
۲۹۹۵- جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:'' رمضا ن میں عمرہ ( کا ثواب) حج کے برابر ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
46- بَاب الْعُمْرَةِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ
۴۶- باب: ماہ ذی قعدہ میں عمرہ کا بیان​


2996- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؛ قَالَ: لَمْ يَعْتَمِرْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلا فِي ذِي الْقَعْدَةِ۔
* تخريج:تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۵۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۰)، و قد أخرجہ: ت/الحج ۷ (۸۱۶)، حم (۱/۲۴۶) (صحیح)
(اس سند میں محمد بن عبد ا لرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن دوسرے شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ۱۷۳۹)
۲۹۹۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے عمرے کیے ہیں،ماہ ذی قعدہ ہی میں کیے ہیں۔


2997- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ،عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: لَمْ يَعْتَمِرْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عُمْرَةً إِلا فِي ذِي الْقَعْدَةِ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۵)، المغازي ۴۴ (۴۲۵۳)، م/الحج ۳۵ (۱۲۵۵)، د/المناسک ۸۰ (۱۹۹۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۷۴)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲۸، ۷۰، ۱۲۹، ۱۳۹، ۱۴۳، ۱۵۵) (صحیح)
۲۹۹۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے عمرے کیے ہیں ماہ ذی قعدہ ہی میں کیے ہیں۔
 
Top