41- بَاب فَسْخِ الْحَجِّ
۴۱- باب: حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کر نے کا بیان
2980- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ،حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بِالْحَجِّ خَالِصًا، لانَخْلِطُهُ بِعُمْرَةٍ، فَقَدِمْنَا مَكَّةَ لأَرْبَعِ لَيَالٍ خَلَوْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَلَمَّا طُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَسَعَيْنَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً، وَأَنْ نَحِلَّ إِلَى النِّسَائِ، فَقُلْنَا مَا بَيْنَنَا: لَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلا خَمْسٌ، فَنَخْرُجُ إِلَيْهَا وَمَذَاكِيرُنَا تَقْطُرُ مَنِيًّا ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنِّي لأَبَرُّكُمْ وَأَصْدَقُكُمْ، وَلَوْلا الْهَدْيُ لأَحْلَلْتُ"، فَقَالَ: سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ: أَمُتْعَتُنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا، أَمْ، لأَبَدٍ؟ فَقَالَ : " لا، بَلْ لأَبَدِ الأَبَدِ "۔
* تخريج: د/المناسک ۲۳ (۱۷۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۴۲۶)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۷ (۱۲۱۶)، ن/الحج ۷۷ (۲۸۰۷) (صحیح)
۲۹۸۰- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎ ، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزرچکی تھیں، جب ہم نے خانہء کعبہ کا طواف کیا، اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لئے حلال ہوجائیں ، ہم نے عر ض کیا: اب عرفہ میں صرف پا نچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عر فات کو اس حال میں نکلیں کہ شرم گا ہوں سے منی ٹپک رہی ہو ؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''میں تم میں سب سے زیادہ نیک اورسچا ہوں ۲؎ ، اگر میرے ساتھ ہدی (قربانی کا جانور ) نہ ہو تا تو میں بھی ( عمرہ کرکے ) حلال ہو جاتا ( یعنی احرام کھول ڈالتااور حج کو عمرہ میں تبدیل کر دیتا )۔
سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس وقت عرض کیا : حج میں یہ تمتع ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''نہیں، ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے'' ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حج افراد کا احرام باندھا ۔
وضاحت ۲؎ : یعنی جو کہہ رہا ہوں کسی پس و پیش کے بغیرانجام دو ،میری کو ئی بات تقویٰ وپر ہیز گا ری کے منا فی نہیں ہو سکتی۔
وضاحت ۳؎ : ہر ایک شخص کے لیے قیامت تک تمتع کرنا جائز ہے ، اس حدیث کے ظاہر سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی احرام باندھے لیکن ہدی کا جانور ساتھ نہ ہو تو وہ مکہ میں جاکر حج کی نیت فسخ کرسکتا ہے، اور عمرہ کر کے احرام کھول سکتا ہے ، پھر یوم الترویہ یعنی ذی الحجہ کی ۸ تاریخ کو حج کے لئے نیا احرام باندھے، اور اس تاریخ (آٹھ )تک سب کام کرسکتا ہے جو احرام کی حالت میں جائز نہ تھے، امام ابن القیم اعلام الموقعین میں کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو فسخ کر کے عمرہ بنادینے کا فتوی ٰ دیا ، پھر فتویٰ دیا کہ یہ امر مستحب ہے ضرور اس کام کو کرنا چاہئے، اور یہ حکم کسی دوسرے حکم سے منسوخ نہیں ہوا ،اور دین اللہ تعالی کا ہے ، بلکہ ہم کہتے ہیں کہ حج کو فسخ کرڈالنا اور عمرہ کردینا اگر کوئی ان احادیث کی روسے واجب کہے تو اس کا قول قوی ہوگا، بہ نسبت اس شخص کے قول کے جو اس سے منع کرتا ہے ...الی آخرہ۔
2981- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ لا نُرَى إِلا الْحَجَّ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا وَدَنَوْنَا، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ أَنْ يَحِلَّ، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ، إِلا مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ، دُخِلَ عَلَيْنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقِيلَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ أَزْوَاجِهِ۔
* تخريج: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۱)، ۱۱۵ (۱۷۰۹)، ۱۲۴ (۱۷۲۰)، الجہاد ۱۰۵ (۲۹۵۲)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، ن/الحج ۱۶ (۲۶۵۱)، ۷۷ (۲۸۰۵، ۲۸۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۳۳)، وقد أخرجہ: د/الحج ۲۳ (۱۷۸۱)، ط/الحج ۵۸ (۱۷۹)، حم (۶/۱۲۲، ۲۶۶، ۲۷۳) (صحیح)
۲۹۸۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ذی قعدہ کے پانچ دن باقی تھے تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، جب ہم مکہ پہنچے یا اس سے قریب ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو جن لوگوں کے پاس ہدی( قربانی) کا جانورنہیں تھا احرام کھول دینے کا حکم دیا، تو سارے لوگوں نے احرام کھول دیا، سوائے ان لوگوں کے جن کے پاس ہدی (قربانی) کے جانور تھے ،پھر جب نحر کا دن (ذی الحجہ کا دسواںدن) ہو ا تو ہما رے پاس گائے کا گوشت لایا گیا، لوگو ں نے کہا: یہ گائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ذبح کی ہے۔
2982- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ؛ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَصْحَابُهُ، فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ قَالَ: " اجْعَلُوا حِجَّتَكُمْ عُمْرَةً " فَقَالَ النَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ، فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً، قَالَ: " انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَافْعَلُوا " فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ، فَغَضِبَ، فَانْطَلَقَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى عَاءِشَةَ غَضْبَانَ، فَرَأَتِ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَتْ: مَنْ أَغْضَبَكَ ؟ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ! قَالَ: " وَمَا لِي لا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ أَمْرًا فَلا أُتْبَعُ ؟ " ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، ( تحفۃ الأشراف: ۱۹۰۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۴۶)، وقد أخرجہ: (۴/۲۸۶) (ضعیف)
(ابو بکربن عیاش بڑھاپے کی وجہ سے سئی الحفظ(حافظہ کے کمزور) ہو گئے تھے، اور ابو اسحاق اختلاط کا شکار تھے،نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۴۷۵۳)۔
۲۹۸۲- براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نکلے، ہم نے حج کا احرام با ندھا، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اپنے حج کو عمرہ کردو''،لوگوں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول !ہم نے حج کا احرام باندھا ہے ہم اس کو عمرہ کیسے کر لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''دیکھو جس کا میں تم کو حکم دیتا ہوں اس پر عمل کرو''، لو گوں نے پھر وہی بات دہرائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو کر چل دئیے اور غصہ کی ہی حالت میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے ، انہوں نے آپ کے چہرے پر غصہ کے آثار دیکھے تو بولیں:کس نے آپ کو ناراض کیا ہے؟اللہ اسے نا راض کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''میں کیوں کر غصہ نہ کروں جب کہ میں ایک کام کا حکم دیتا ہوں اور میری بات نہیں ما نی جا تی '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سن کر اس پر عمل کرنے میں صرف اس خیال سے دیر کرے کہ یہ حدیث اس کے ملک کے رسم و رواج کے خلاف ہے ، یا اس کے ملک یا قوم کے یا مذہب کے عالموں اور درویشوں یا اگلے بزرگوں نے اس پرعمل نہیں کیا، تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلاتا اورآپ کو ناراض کرتا ہے، اور جو اللہ تعالی کے رسول کو غصہ دلائے اور اس کو ناراض کرے اس کا ٹھکا نا کہیں نہیں ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ''مومن کا کام یہ ہے کہ اس کو سنتے ہی جان و دل سے قبول کرے، اور فوراً اس پر عمل کرے ''،اگر چہ تمام جہاں کے مولوی، ملا، درویش، پیر ،مرشد ،عالم اور مجتہد اس کے خلاف ہوں، اور یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر عمل کرنے میں دل نہایت خوش اور ہشاش بشاش ہو اور ذرا بھی کدو رت اورتنگی نہ ہو بلکہ اپنے کو بڑا خوش قسمت سمجھے کہ اس کو حدیث رسول پر عمل کر نے کی توفیق ہوئی ۔
اگرایسانہ کرے یعنی عمل ہی نہ کرے یا عمل تو کرے مگر ذرا لیت ولعل یا اداسی کے ساتھ اس خیال سے کہ درویش اورمولوی اس کے خلاف ہیں، آخران لوگوں کا بھی کچھ درجہ اور مقام ہے ، اورکچھ سمجھ کر ہی ان لوگوں نے حدیث کے خلاف کیا ہوگا ؟ تو جان لینا چاہئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ناراض ہیں ، اوران کا کوئی ٹھکانہ نہیں جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ناراض ہوگئے اوربالفرض سارے زمانے کے مولوی یا درویش ہم سے خوش بھی ہوئے تو ہم ان کی خوشی کو کیا کریں گے ،وہ خوش ہوں یا ناخوش ہوں ہمارے آقا،ہمارے مولیٰ ہمارے رسول ہم سے خوش رہیں تو ہمارا بیڑا پارہے ، یااللہ مرتے ہی ہمیں ہمارے رسول اورآل واصحاب رسول سے ملادے ، ہم دنیا میں بھی ان ہی کے پیرو تھے ، عالم برزخ اورآخرت میں بھی ان ہی کی جوتیوں کے پاس رہنا چاہتے ہیں، نہ دنیا میں ہم کو کسی سے مطلب تھا، نہ عقبیٰ (آخرت) میں ہمیں کسی اورکا ساتھ چاہئے۔
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ صحابہ معصوم نہ تھے ، اوربعض صحابہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی کے خلاف کبھی بعض کام صادرہوتے تھے ، لیکن اس کے بعد وہ توبہ کرتے تھے ، اوراللہ تعالیٰ ان کی خطاکو معاف کردیتاتھا،
غفراللہ لنا ولہم ، اگرجنت میں جانے کا ارادہ ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا پٹہ گردن میں پہن لو ۔
مسلک سنت پہ سالک توچلا چل بے ڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
2983- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ، عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُحْرِمِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُقِمْ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلْيَحْلِلْ " قَالَتْ: وَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ فَأَحْلَلْتُ، وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ هَدْيٌ، فَلَمْ يَحِلَّ، فَلَبِسْتُ ثِيَابِي وَجِئْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ فَقَالَ: قُومِي عَنِّي، فَقُلْتُ : أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ؟۔
* تخريج: م/الحج ۲۹ (۱۲۳۶)، ن/الحج ۱۸۶ (۲۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۵۱) (صحیح)
۲۹۸۳- اسما ء بنت ابی بکررضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جس شخص کے سا تھ ہدی (قربانی کا جانور) ہو، وہ اپنے احرام پر قائم رہے، اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھو ل کر حلال ہو جا ئے'' اور میرے ساتھ ہدی کا جا نور نہیں تھا چنانچہ میں نے احرام کھو ل دیا، اور زبیر رضی اللہ عنہ کے سا تھ ہدی کا جا نور تھا تو انہوں نے احرام نہیں کھو لا، میں نے اپنا کپڑا پہن لیا، اور زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو انہوں نے کہا: میرے پاس سے چلی جاؤ، میں نے کہا :کیا آپ ڈرتے ہیں کہ میں آپ پر کو د پڑ وں گی ؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی میں صرف آپ کے پاس آئی ہوں، کچھ آپ سے لپٹتی نہیں کہ آپ کو ڈرپیدا ہو، ان حدیثوں سے صاف معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے احرام کو فسخ کرایا، اور صحابہ کرام کو اس کی تاکید کی بلکہ جب انہوں نے احرام کھو لنے میں دیر کی تو غصہ ہوئے ،اس لیے امام ابن القیم کہتے ہیں کہ اگر اسے کوئی واجب کہے تو ہوسکتا ہے، یہ حدیثیں بہت ا علیٰ درجہ کی ہیں ، اور ان کے راوی تمام ائمہ اور ثقات ہیں، اور ان میں یہ تصریح ہے کہ یہ حکم دائمی اور عام ہے، خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سے ایسا منقول ہو ا، اور جن حدیثوں میں یہ ہے کہ یہ حکم خاص تھا ان لوگوں سے ان کی سند ا علیٰ درجہ کی نہیں ہے، اور بعض حدیثوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں سے خود نہیں فرمایا کہ یہ حکم خاص ہے، بلکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے ذہن سے ایسا خیال کیا جو حدیث کے خلاف کسی طرح دلیل نہیں بن سکتا۔