- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
27- بَاب اسْتِلامِ الْحَجَرِ
۲۷- باب: حجر اسود کے استلام( چومنے یا چھونے) کا بیان
2943- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ الأُصَيْلِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ: إِنِّي لأُقَبِّلُكَ، وَإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لا تَضُرُّ وَلا تَنْفَعُ، وَلَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُقَبِّلُكَ، مَا قَبَّلْتُكَ۔
* تخريج: م/الحج ۴۱ (۱۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۸۶)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۵۰ (۱۵۹۷)، ۵۷ (۱۶۰۵)، ۶۰ (۱۶۱۰)، د/الحج ۴۷ (۱۸۷۳)، ت/الحج ۳۷ (۸۶۰)، ن/الحج ۱۴۷ (۲۹۴۰)، ط/الحج ۳۶(۱۱۵)، حم (۱/۲۱، ۲۶، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۴۶، ۵۱، ۵۳، ۵۴)، دي/المناسک ۴۲ (۱۹۰۶) (صحیح)
۲۹۴۳- عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصیلع ۱؎ یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوںحالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چو متے نہ دیکھا ہو تا تو میں تجھے نہ چو متا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اصیلع : اصلع کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑگئے ہوں اس کو اصلع کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شر یعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجراسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگرمیں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھردوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہوگا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزر ا تھا ، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھو کہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کردیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے، دوسری روایت میں ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں یہ پتھر نقصان اور نفع پہنچا ئے گا، کیو نکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے سنا کہ قیامت کے دن یہ پتھر آئے گا ،اس کی دو زبانیں ہوں گی، اور وہ اپنے ہر ایک چومنے والے کے لیے گواہی دے گا، مگر علی رضی اللہ عنہ کی اس بات سے عمر رضی اللہ عنہ کیبات کی تردید نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے پتھر کی موجودہ حالت کی نسبت گفتگو کی یعنی دنیا میں وہ ایک پتھر ہے، اور پتھروں کی طرح اس میں نہ احساس ہے نہ عقل اور یہ صحیح ہے، اور آخرت میں اللہ کے حکم سے جب اس کی دو زبانیں ہوں گی ، تو اس وقت وہ پتھر نہ رہے گا ، بہرحال علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اہل توحید اور متبعین سنت کی بڑی دلیل ہے، اور اس میں ان اہل بدعت کا رد وابطال ہے جو قبروں ،جھنڈوں ، شدوں، مزاروں کو بوسہ لیتے ہیں، یہ فعل بیشک بدعت ہے، اس لیے کہ نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول ہے نہ صحابہ سے اورنہسلف صالحین سے کہ انہوں نے کبھی کسی قبر کا بوسہ لیا ہو، اللہ تعالی مسلمانوں کو ان بدعات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
2944- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ الرَّازِيُّ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَيَأْتِيَنَّ هَذَا الْحَجَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ، يَشْهَدُ عَلَى مَنْ يَسْتَلِمُهُ بِحَقٍّ "۔
* تخريج: ت/الحج ۱۱۳ (۹۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۷، ۲۶۶، ۲۹۱، ۳۰۷، ۳۷۱)، دي/المناسک ۲۶ (۱۸۸۱) (صحیح)
۲۹۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''یہ پتھر قیامت کے دن آئے گا اس کی دوآنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ رہا ہو گا، ایک زبان ہو گی جس سے وہ بول رہا ہو گا، اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہو گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایمان کے ساتھ ،اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے شرک کی حالت میں حجر اسود کو چوما ان کے لیے اس کا چومنا کچھ مفید نہ ہوگا اس لیے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عبادت نفع بخش اورمفید نہیں ہوتی۔
2945- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَجَرَ، ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَيْهِ عَلَيْهِ يَبْكِي طَوِيلا، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَبْكِي، فَقَالَ: " يَا عُمَرُ! هَاهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۴۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۳۶) (ضعیف جدا)
(سند میں محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث ومنکر الحدیث ہے،نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۱۱۱)
۲۹۴۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی طرف رخ کیا، پھر اپنے دونوں ہو نٹ اس پر رکھ دئیے، اور دیر تک روتے رہے، پھر ایک طرف نظر اٹھا ئی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی رو رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' عمر! اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں''۔
2946- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَلِمُ مِنْ أَرْكَانِ الْبَيْتِ إِلا الرُّكْنَ الأَسْوَدَ، وَالَّذِي يَلِيهِ مِنْ نَحْوِ دُورِالْجُمَحِيِّينَ۔
* تخريج: م/الحج ۴۰ (۱۲۶۸)، ن/الحج ۱۵۷ (۲۹۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۸۸)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۵۹ (۱۶۱۱)، د/الحج ۴۸ (۱۸۷۴)، حم (۲/۸۶، ۱۱۴، ۱۱۵)، دي/المناسک ۲۵ (۱۸۸۰) (صحیح)
۲۹۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : طواف کرنے والے کو اختیار ہے کہ تین باتوں میں سے جو ممکن ہو سکے کرے ہر ایک کافی ہے ، حجر اسود کا چومنا ،یا اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو چومنا، یا لکڑی اورچھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرنا، اور اگر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے چومنا یا چھونا مشکل ہو تو صرف ہاتھ سے اشارہ کرنا ہی کافی ہے، اور ہر صورت میں لوگوں کو ایذاء دینا اورڈھکیلنا منع ہے جیسے کہ اس زمانے میں قوی اور طاقت ور لوگ کرتے ہیں، یا عورتوں کے درمیان گھسنا۔