• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
27- بَاب اسْتِلامِ الْحَجَرِ
۲۷- باب: حجر اسود کے استلام( چومنے یا چھونے) کا بیان​


2943- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الأَحْوَلُ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ الأُصَيْلِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ وَيَقُولُ: إِنِّي لأُقَبِّلُكَ، وَإِنِّي لأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ لا تَضُرُّ وَلا تَنْفَعُ، وَلَوْلا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُقَبِّلُكَ، مَا قَبَّلْتُكَ۔
* تخريج: م/الحج ۴۱ (۱۲۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۴۸۶)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۵۰ (۱۵۹۷)، ۵۷ (۱۶۰۵)، ۶۰ (۱۶۱۰)، د/الحج ۴۷ (۱۸۷۳)، ت/الحج ۳۷ (۸۶۰)، ن/الحج ۱۴۷ (۲۹۴۰)، ط/الحج ۳۶(۱۱۵)، حم (۱/۲۱، ۲۶، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۴۶، ۵۱، ۵۳، ۵۴)، دي/المناسک ۴۲ (۱۹۰۶) (صحیح)
۲۹۴۳- عبداللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصیلع ۱؎ یعنی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ حجر اسود کو چوم رہے تھے، اور کہہ رہے تھے: میں تجھے چوم رہا ہوںحالانکہ مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، جو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ فائدہ، اور میں نے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چو متے نہ دیکھا ہو تا تو میں تجھے نہ چو متا ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اصیلع : اصلع کی تصغیر ہے جس کے سر کے اگلے حصے کے بال جھڑگئے ہوں اس کو اصلع کہتے ہیں۔
وضاحت ۲؎ : کیونکہ پتھر کا چومنا اسلامی شر یعت میں جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں کفار کی مشابہت ہے، کیونکہ وہ بتوں تصویروں اور پتھروں کو چومتے ہیں، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کے سبب سے حجراسود کا چومنا خاص کیا گیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ اگرمیں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تم کو نہ چومتا، تو پھردوسری قبروں اور مزاروں کا چومنا کیوں کر جائز ہوگا، عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اس لیے فرمایا کہ جاہلیت اور شرک کا زمانہ قریب گزر ا تھا ، ایسا نہ ہو کہ بعض کچے مسلمان حجر اسود کے چومنے سے دھو کہ کھائیں، اور حجر اسود کو یہ سمجھیں کہ اس میں کچھ قدرت یا اختیار ہے جیسے مشرک بتوں کے بارے میں خیال کرتے تھے، آپ نے بیان کردیا کہ حجر اسود ایک پتھر ہے اس میں کچھ اختیار اور قدرت نہیں اور اس کا چومنا محض رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدار اور پیروی کے لئے ہے، دوسری روایت میں ہے کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نہیں یہ پتھر نقصان اور نفع پہنچا ئے گا، کیو نکہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے سنا کہ قیامت کے دن یہ پتھر آئے گا ،اس کی دو زبانیں ہوں گی، اور وہ اپنے ہر ایک چومنے والے کے لیے گواہی دے گا، مگر علی رضی اللہ عنہ کی اس بات سے عمر رضی اللہ عنہ کیبات کی تردید نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے پتھر کی موجودہ حالت کی نسبت گفتگو کی یعنی دنیا میں وہ ایک پتھر ہے، اور پتھروں کی طرح اس میں نہ احساس ہے نہ عقل اور یہ صحیح ہے، اور آخرت میں اللہ کے حکم سے جب اس کی دو زبانیں ہوں گی ، تو اس وقت وہ پتھر نہ رہے گا ، بہرحال علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد اہل توحید اور متبعین سنت کی بڑی دلیل ہے، اور اس میں ان اہل بدعت کا رد وابطال ہے جو قبروں ،جھنڈوں ، شدوں، مزاروں کو بوسہ لیتے ہیں، یہ فعل بیشک بدعت ہے، اس لیے کہ نہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا منقول ہے نہ صحابہ سے اورنہسلف صالحین سے کہ انہوں نے کبھی کسی قبر کا بوسہ لیا ہو، اللہ تعالی مسلمانوں کو ان بدعات سے محفوظ رکھے۔ آمین۔


2944- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحِيمِ الرَّازِيُّ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ؛ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لَيَأْتِيَنَّ هَذَا الْحَجَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ، يَشْهَدُ عَلَى مَنْ يَسْتَلِمُهُ بِحَقٍّ "۔
* تخريج: ت/الحج ۱۱۳ (۹۶۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۵۳۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۷، ۲۶۶، ۲۹۱، ۳۰۷، ۳۷۱)، دي/المناسک ۲۶ (۱۸۸۱) (صحیح)
۲۹۴۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''یہ پتھر قیامت کے دن آئے گا اس کی دوآنکھیں ہوں گی جن سے وہ دیکھ رہا ہو گا، ایک زبان ہو گی جس سے وہ بول رہا ہو گا، اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں جس نے حق کے ساتھ اسے چھوا ہو گا'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایمان کے ساتھ ،اس سے وہ مشرک نکل گئے جنہوں نے شرک کی حالت میں حجر اسود کو چوما ان کے لیے اس کا چومنا کچھ مفید نہ ہوگا اس لیے کہ کفر کے ساتھ کوئی بھی عبادت نفع بخش اورمفید نہیں ہوتی۔


2945- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا خَالِي يَعْلَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْحَجَرَ، ثُمَّ وَضَعَ شَفَتَيْهِ عَلَيْهِ يَبْكِي طَوِيلا، ثُمَّ الْتَفَتَ فَإِذَا هُوَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَبْكِي، فَقَالَ: " يَا عُمَرُ! هَاهُنَا تُسْكَبُ الْعَبَرَاتُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۸۴۴۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۳۶) (ضعیف جدا)
(سند میں محمد بن عون خراسانی ضعیف الحدیث ومنکر الحدیث ہے،نیز ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۱۱۱)
۲۹۴۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کی طرف رخ کیا، پھر اپنے دونوں ہو نٹ اس پر رکھ دئیے، اور دیر تک روتے رہے، پھر ایک طرف نظر اٹھا ئی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی رو رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' عمر! اس جگہ آنسو بہائے جاتے ہیں''۔


2946- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَلِمُ مِنْ أَرْكَانِ الْبَيْتِ إِلا الرُّكْنَ الأَسْوَدَ، وَالَّذِي يَلِيهِ مِنْ نَحْوِ دُورِالْجُمَحِيِّينَ۔
* تخريج: م/الحج ۴۰ (۱۲۶۸)، ن/الحج ۱۵۷ (۲۹۵۲)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۸۸)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۵۹ (۱۶۱۱)، د/الحج ۴۸ (۱۸۷۴)، حم (۲/۸۶، ۱۱۴، ۱۱۵)، دي/المناسک ۲۵ (۱۸۸۰) (صحیح)
۲۹۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بجز حجر اسود اور اس کے جو اس سے قریب ہے یعنی رکن یمانی جو بنی جمح کے محلے کی طرف ہے بیت اللہ کے کسی کونے کا استلام نہیں فرماتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : طواف کرنے والے کو اختیار ہے کہ تین باتوں میں سے جو ممکن ہو سکے کرے ہر ایک کافی ہے ، حجر اسود کا چومنا ،یا اس پر ہاتھ رکھ کر ہاتھ کو چومنا، یا لکڑی اورچھڑی سے اس کی طرف اشارہ کرنا، اور اگر بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے چومنا یا چھونا مشکل ہو تو صرف ہاتھ سے اشارہ کرنا ہی کافی ہے، اور ہر صورت میں لوگوں کو ایذاء دینا اورڈھکیلنا منع ہے جیسے کہ اس زمانے میں قوی اور طاقت ور لوگ کرتے ہیں، یا عورتوں کے درمیان گھسنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
28- بَاب مَنِ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ بِمِحْجَنِهِ
۲۸- باب: چھڑی سے حجر اسود کے استلام( چھونے ) ۱؎ کا بیان​
وضاحت ۱؎ : طوا ف کرنے والے کے لیے حجر اسو د کا بوسہ لینا مسنون ہے، اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو تو ہاتھ یا چھڑی سے حجر اسود چھو کر اسے بوسہ لینا کافی ہے ، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دورسے ہاتھ کا اشارہ کردینا ہی کافی ہے۔


2947- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ؛ قَالَتْ: لَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْفَتْحِ، طَافَ عَلَى بَعِيرٍ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ بِيَدِهِ، ثُمَّ دَخَلَ الْكَعْبَةَ فَوَجَدَ فِيهَا حَمَامَةَ عَيْدَانٍ فَكَسَرَهَا، ثُمَّ قَامَ عَلَى بَابِ الْكَعْبَةِ، فَرَمَى بِهَا،وَأَنَا أَنْظُرُهُ۔
* تخريج: د/الحج ۴۹ (۱۸۷۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۰۹) (حسن)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے کی ہے ، لیکن شواہد کی وجہ سے حسن ہے، ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ۱۶۴۱)
۲۹۴۷- صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب فتح مکہ کے سال اطمینان ہو ا تو آپ نے اپنے اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا ،آپ حجر اسود کا استلام ایک لکڑی سے کررہے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی، پھر کعبہ میں داخل ہو ئے تو دیکھا کہ اس میں لکڑی کی بنی ہوئی کبوتر کی مورت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے توڑ دیا، پھر کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور اسے پھینک دیا، اس وقت میں آپ کو دیکھ رہی تھی۔


2948- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ طَافَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى بَعِيرٍ، يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ۔
* تخريج: خ/الحج ۵۸ (۱۶۰۷)، ۶۱ (۱۶۱۲)، ۶۲ (۱۶۱۳)، ۷۴ (۱۶۳۲)، الطلاق ۲۴ (۵۲۹۳)، م/الحج ۴۲ (۱۲۷۲)، ن/المساجد ۲۱ (۷۱۴)، الحج ۱۵۹ (۲۹۵۷)، ۱۶۰ (۲۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۳۷)، وقد أخرجہ: د/الحج ۴۹ (۱۸۷۷)، ت/الحج ۴۰ (۸۶۵)، حم (۱/۲۱۴، ۲۳۷، ۲۴۸، ۳۰۴)، دي/المناسک ۲۶ (۱۸۸۱) (صحیح)
۲۹۴۸- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہوکر طواف کیا، اور آپ ایک چھڑی سے حجر اسود کا استلام کررہے تھے۔


2949- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، (ح) وحَدَّثَنَا هَدِيَّةُ بْنُ عَبْدِالْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى؛ قَالا: حَدَّثَنَا مَعْرُوفُ بْنُ خَرَّبُوذَ الْمَكِّيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ عَامِرَ بْنَ وَاثِلَةَ؛ قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عَلَى رَاحِلَتِهِ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنِهِ، وَيُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ۔
* تخريج: م/الحج ۳۹ (۱۲۶۵)، د/الحج ۴۹ (۱۸۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۵۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۵۴) (صحیح)
۲۹۴۹- ابو طفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری پر سوار ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا، آپ حجر اسود کا استلام چھڑی سے کررہے تھے، اور چھڑی کا بوسہ لے رہے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
29- بَاب الرَّمَلِ حَوْلَ الْبَيْتِ
۲۹- باب: بیت اللہ کے طواف میں رمل کرنے کا بیان​


2950- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، (ح) وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، كَانَ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ الطَّوَافَ الأَوَّلَ، رَمَلَ ثَلاثَةً، وَمَشَى أَرْبَعَةً، مِنَ الْحِجْرِ إِلَى الْحِجْرِ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۹۷، ۸۱۱۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۳۷)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۶۳ (۱۶۱۶)، م/الحج ۳۹ (۱۲۶۲)، د/الحج ۵۱ (۱۸۹۱)، ن/الحج ۱۵۰ (۲۹۴۳)، ط/الحج ۳۴ (۸۰)، حم (۳/۱۳)، دي/المناسک ۲۷ (۱۸۸۳، ۱۸۸۴) (صحیح)
۲۹۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف (طواف قدوم) کرتے تو تین چکروں میں رمل کرتے ( یعنی طواف میں قریب قریب قدم رکھ کے تیز چلتے) اور چار چکروں میں عام چال چلتے اور یہ چکر حجر اسود پر شروع کرکے حجر اسود پر ہی ختم کرتے ، ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رمل : ذرا دوڑ کر مونڈ ھے ہلاتے ہوئے چلنے کورمل کہتے ہیں جیسے بہادر اور زور آور سپاہی چلتے ہیں، یہ طواف کے ابتدائی تین پھیروں میں کرتے ہیں،اوراس کا سبب صحیحین کی روایت میں مذکور ہے کہ جب رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب مکہ میں آئے تو مشرکین نے کہا کہ یہ لوگ مدینہ کے بخارسے کمزور ہوگئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تین پھیروں میں رمل کرنے کا حکم دیا تاکہ مشرکین کو یہ معلوم کرائیں کہ مسلمان نا توان اور کمزور نہیں ہوئے بلکہ طاقتور ہیں ، پھر یہ سنت اسلام کی ترقی کے بعد بھی قائم رہی اور قیامت تک قائم رہے گی ، پس رمل کی مشروعیت اصل میں مشرکوں کو ڈرانے کے لیے ہوئی۔


2951- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ الْعُكْلِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَمَلَ مِنَ الْحِجْرِ إِلَى الْحِجْرِ ثَلاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا۔
* تخريج: م/الحج ۳۹ (۱۶۶۳)، ت/الحج ۳۳ (۸۵۶)، ن/الحج ۱۵۴(۲۹۴۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۴)، وقد أخرجہ: د/الحج ۵۱ (۱۸۹۱)، حم (۳/۳۲۰، ۳۴۰، ۳۹۴)، دي/المناسک ۲۷ (۱۸۸۲) (صحیح)
۲۹۵۱- جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے شروع کرکے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار میں عام چال چلے ۔


2952- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: فِيمَ الرَّمَلانُ الآنَ ؟ وَقَدْ أَطَّأَ اللَّهُ الإِسْلامَ، وَنَفَى الْكُفْرَ وَأَهْلَهُ، وَايْمُ اللَّهِ ! مَا نَدَعُ شَيْئًا كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ۔
* تخريج: د/المناسک ۵۱ (۱۸۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۵) ( حسن صحیح)
۲۹۵۲- اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ اب دونوں رمل(ایک طواف کا، دوسرا سعی کا) کی کیا ضرورت ہے؟اب تو اللہ تعالی نے اسلام کو مضبوط کر دیا، اورکفر اوراہل کفر کا خاتمہ کردیاہے، لیکن قسم اللہ کی ! ہم تو کو ئی ایسی بات چھوڑنے والے نہیں جس پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زند گی میں عمل کیا کرتے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ شریعت کے جس حکم کی علت وحکمت سمجھ میں نہ آئے اس کو ویسے ہی چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ ایسی صورت میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ اللہ کے رسول کی ہو بہو تابعداری کی جائے ۔


2953- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لأَصْحَابِهِ، حِينَ أَرَادُوا دُخُولَ مَكَّةَ، فِي عُمْرَتِهِ بَعْدَ الْحُدَيْبِيَةِ: " إِنَّ قَوْمَكُمْ غَدًا سَيَرَوْنَكُمْ فَلَيَرَوُنَّكُمْ جُلْدًا "، فَلَمَّا دَخَلُوا الْمَسْجِدَ اسْتَلَمُوا الرُّكْنَ وَرَمَلُوا، وَالنَّبِيُّ ﷺ مَعَهُمْ، حَتَّى إِذَا بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الأَسْوَدِ، ثُمَّ رَمَلُوا حَتَّى بَلَغُوا الرُّكْنَ الْيَمَانِيَ، ثُمَّ مَشَوْا إِلَى الرُّكْنِ الأَسْوَدِ، فَفَعَلَ ذَلِكَ ثَلاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ مَشَى الأَرْبَعَ۔
* تخريج: د/المناسک ۵۱ (۱۸۹۰)، ت/الحج ۳۹ (۸۶۳)، ن/الحج ۱۷۶ (۲۹۸۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۷۷)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۸۰ (۱۶۴۹)، المغازي ۴۳ (۴۲۵۷)، م/الحج ۳۹ (۱۲۶۶)، حم (۱/۲۲۱، ۲۵۵، ۳۰۶، ۳۱۰، ۳۱۱، ۳۷۳) (صحیح)
۲۹۵۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صلح حدیبیہ کے بعد دوسرے سال عمرہ کی غرض سے مکہ میں داخل ہو نا چاہا،توا پنے صحابہ سے فرمایا:''کل تم کو تمہاری قوم کے لوگ دیکھیں گے لہٰذا چاہیے کہ وہ تمہیں توانا اور مضبوط دیکھیں، چنا نچہ جب یہ لو گ مسجد میں داخل ہوئے تو حجر اسودکا استلام کیا، اور رمل کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے یہاں تک کہ وہ رکن یمانی کے پاس پہنچے، تو وہاں سے حجر اسو د تک عام چال چلے، وہاں سے رکن یمانی تک پھر رمل کیا، اور پھر وہاں سے حجر اسود تک عام چال چلے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار کیا، پھر چار مرتبہ عام چال چلے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
30- بَاب الاضْطِبَاعِ
۳۰- باب: طواف کے دوران اضطباع کا بیان​


2954- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ وَقَبِيصَةُ؛ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِالْحَمِيدِ، عَنِ ابْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ يَعْلَى أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ طَافَ مُضْطَبِعًا، قَالَ قَبِيصَةُ: وَعَلَيْهِ بُرْدٌ۔
* تخريج: د/المناسک ۵۰ (۱۸۸۳)، ت/الحج ۳۶ (۸۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۸۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴)، دي/المناسک ۲۸ (۱۸۸۵) (حسن)
۲۹۵۴- یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع ۱؎ کرکے طواف کیا، قبیصہ کے الفاظ اس طرح ہیں:''وَعَلَيْهِ بُرْدٌ '' اور آپ کے جسم پر چادر تھی۔
وضاحت ۱؎ : اضطباع : اس کی شکل یہ ہے کہ محرم چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے پر ڈال دے اور دایاں کندھا کھلا رکھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
31- بَاب الطَّوَافِ بِالْحِجْرِ
۳۱- باب: طوافِ کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان​


2955- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَائِ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنِ الْحِجْرِ، فَقَالَ: " هُوَ مِنَ الْبَيْتِ " قُلْتُ: مَا مَنَعَهُمْ أَنْ يُدْخِلُوهُ فِيهِ ؟ قَالَ: "عَجَزَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ" قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا، لا يُصْعَدُ إِلَيْهِ إِلا بِسُلَّمٍ ؟ قَالَ: "ذَلِكَ فِعْلُ قَوْمِكِ، لِيُدْخِلُوهُ مَنْ شَائُوا وَيَمْنَعُوهُ مَنْ شَائُوا، وَلَوْلا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، مَخَافَةَ أَنْ تَنْفِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ هَلْ أُغَيِّرُهُ، فَأُدْخِلَ فِيهِ مَا انْتَقَصَ مِنْهُ، وَجَعَلْتُ بَابَهُ بِالأَرْضِ "۔
* تخريج: خ/الحج ۴۲ (۱۵۸۴)، أحادیث الأنبیاء ۱۰ (۳۳۶۸)، تفسیر البقرۃ ۱۰ (۴۴۸۴)، م/الحج ۶۹ (۱۳۳۳)، ن/الحج ۱۲۸(۲۹۱۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۰۰۵)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۳۳ (۱۰۴)، دي/المناسک ۴۴ (۱۹۱۱) (صحیح)
۲۹۵۵- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم ۱؎ کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :''وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے'' میں نے پوچھا: پھر لو گوں (کفار) نے اس کودا خل کیوں نہیں کیا ؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا '' میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا: ''ایسا تمہاری قوم کے لو گوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چا ہیں اندر جا نے دیں اور جس کو چا ہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفرسے قریب نہ گزرا ہو تا اور(اسلام سے ) ان کے دلوں کے متنفر ہو نے کا اندیشہ نہ ہوتا، تومیں سوچتا کہ میں اس کو بدل دوں، جو حصہ رہ گیا ہے اس کو اس میں داخل کردوں، اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کردوں'' ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حطیم کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہواحصہ ہے جوگول دائرے میں دیوارسے گھیردیاگیاہے یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہرسے کرناچاہئے اگرکوئی طواف میں حطیم کوچھوڑدے توطواف درست نہ ہوگا۔
وضاحت ۲ ؎ : یعنی نیچا کردوں کہ جس کا جی چاہے بغیر سیڑھی کے اندر چلا جا ئے دوسری روایت میں ہے کہ میں اس کے دو دروازے کرتا ایک ایک پورب ایک پچھم ،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض کام مصلحت کے ہوتے ہیں ، لیکن اس میں فتنہ کا خوف ہو تو اس کو ترک کرنا جائز ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کے عہد میں کعبہ ایسا ہی رہا اور جیسا آپ چاہتے تھے ویسا بنانے کی فرصت نہیں ہوئی، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے عہد میں کعبہ کواسی طرح بنایا جیسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانا چاہا تھا ، لیکن حجاج نے جب عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کوقتل کیا تو ضد سے پھر کعبہ کو توڑ کر و یسا ہی کر دیا جیسا جاہلیت کے زمانے میں تھا، خیر پھر اس کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے اپنی خلافت میں امام مالک سے سوال کیا کہ اگر آپ کہئے تو میں کعبہ کو پھر تو ڑ کر جیسا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بنایا تھا ، ویسا ہی کردوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اب کعبہ کو ہاتھ نہ لگائیں و رنہ اس کی وقعت لوگوں کے دلوں سے جاتی رہے گی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
32- بَاب فَضْلِ الطَّوَافِ
۳۲- باب: طوافِ کعبہ کی فضیلت کا بیان​


2956- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ عَنِ الْعَلائِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ عَطَائٍ ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۳۱، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۳۹)، وقد أخرجہ: ت/الحج ۱۱۱ (۹۵۹)، ن/الحج ۱۳۴ (۲۹۲۲)، حم (۲/۳، ۱۱، ۹۵) (صحیح)
۲۹۵۶- عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ما تے سنا :''جوکوئی بیت اللہ کاطواف کرے، اور دورکعتیں پڑ ھے تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے مانند ہے''۔


2957- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي سَوِيَّةَ؛ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ هِشَامٍ يَسْأَلُ عَطَائَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ عَنِ الرُّكْنِ الْيَمَانِي، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَقَالَ عَطَائٌ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: " وُكِلَ بِهِ سَبْعُونَ مَلَكًا، فَمَنْ قَالَ: اللَّهُمَّ ! إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ، {رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} قَالُوا: آمِينَ "، فَلَمَّا بَلَغَ الرُّكْنَ الأَسْوَدَ قَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ! مَا بَلَغَكَ فِي هَذَا الرُّكْنِ الأَسْوَدِ ؟ فَقَالَ عَطَائٌ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ فَاوَضَهُ فَإِنَّمَا يُفَاوِضُ يَدَ الرَّحْمَنِ " قَالَ لَهُ ابْنُ هِشَامٍ : يَا أَبَا مُحَمَّدٍ ! فَالطَّوَافُ ؟ قَالَ عَطَائٌ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَلا يَتَكَلَّمُ إِلا بِسُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ، مُحِيَتْ عَنْهُ عَشْرُ سَيِّئَاتٍ، وَكُتِبَتْ لَهُ عَشْرُ حَسَنَاتٍ، وَرُفِعَ لَهُ بِهَا عَشْرَةُ دَرَجَاتٍ، وَمَنْ طَافَ فَتَكَلَّمَ وَهُوَ فِي تِلْكَ الْحَالِ، خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ بِرِجْلَيْهِ، كَخَائِضِ الْمَائِ بِرِجْلَيْهِ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۷۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۳۸) (ضعیف)
(سند میں حمید مجہول ، اور اسماعیل بن عیاش غیر شامی رواۃ سے روایت میں ضعیف ہیں،نیز ملاحظہ ہو : المشکاۃ : ۲۵۹۰)
۲۹۵۷- حمید بن ابی سویہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن ہشام کو عطاء بن ابی رباح سے رکن یمانی کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا، اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ، تو عطاء نے کہا :مجھ سے ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''رکن یمانی پر ستر فر شتے متعین ہیں جو کو ئی '' اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ ، رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ'' (اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میںمغفرت اور عافیت طلب کر تا ہوں، اے ہمارے رب! ہمیں دنیا اور آخرت میں بھلائی سے نواز، اور ہمیں جہنم کے عذ اب سے بچا)کہتا ہے توفرشتے آمین کہتے ہیں، پھر جب عطا ء حجر اسودکے پاس پہنچے تو ابن ہشام نے کہا: ابو محمد!اس حجراسو د کے بارے میں آپ کو کیا بات پہنچی ہے؟ عطا ء نے کہا:مجھ سے ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے سنا: ''جو اس کو چھو تا ہے وہ گو یا رحمن کا ہا تھ چھو رہا ہے''۔
ابن ہشام نے ان سے کہا: ابو محمد !طواف یعنی اس کے متعلق آپ کو کیا معلوم ہے؟عطا ء نے کہا : مجھ سے ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فر ماتے سنا ہے: جو خانۂ کعبہ کے سات چکر لگا ئے اور'' سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ'' کے علاوہ کو ئی بات نہ کرے، تو اس کی دس برا ئیاں مٹا دی جا ئیں گی، اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں گی، اور اس کے دس درجے بڑھا دئیے جا ئیں گے، اور جوطواف کرے اور با ت کرے تو اس کے پا ئوں رحمت میں ڈو بے ہوئے ہوں گے، جیسے پا نی میں دا خل ہو نے والے کے پاؤں پا نی میں ڈوبے رہتے ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
33- بَاب الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الطَّوَافِ
۳۳- باب: طو اف کے بعد کی دورکعت کا بیان​


2958- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ إِذَا فَرَغَ مِنْ سَبْعِهِ جَائَ حَتَّى يُحَاذِيَ بِالرُّكْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي حَاشِيَةِ الْمَطَافِ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ.
قَالَ ابْن مَاجَةَ: هَذَا بِمَكَّةَ خَاصَّةً۔
* تخريج: د/الحج ۸۹ (۲۰۱۶)، ن/القبلۃ ۹ (۷۵۹)، الحج ۱۶۲ (۲۹۶۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۲۸۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۹۹) (ضعیف)
(سند میں کثیر بن مطلب مجہول راوی ہیں، نیز سند میں بھی اختلاف ہے،ملاحظہ ہو: الضعیفہ : ۹۲۸)
۲۹۵۸- مطلب بن ابی وداعہ سہمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ اپنے سا توں پھیروں سے فا رغ ہو ئے حجر اسود کے با لمقا بل آکر کھڑے ہو ئے، پھر مطاف کے کنارے میں دو رکعتیں پڑھیں اور آپ کے اورطواف کرنے والوں کے بیچ میں کو ئی آڑ نہ تھی۔
ابن ما جہ کہتے ہیں: یہ(بغیر سترہ کے صلاۃ پڑھنا ) مکہ کے سا تھ خا ص ہے۔


2959- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ ثَابِتٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدِمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ( قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي عِنْدَ الْمَقَامِ ) ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا۔
* تخريج: خ/الحج ۱۰۴ (۱۶۹۱)، م/الحج ۲۸ (۱۲۳۴)، ن/الحج ۱۴۲ (۲۹۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۵۲)، وقد أخرجہ: د/الحج ۲۴ (۱۸۰۵)، ط/الحج ۳۷ (۱۱۶)، حم (۲/۱۵، ۸۵، ۱۵۲، ۳/۳۰۹)، دي/المناسک ۸۴ (۱۹۷۲) (صحیح)
۲۹۵۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر بیت اللہ کا سا ت بار طواف کیا، پھر طواف کی دونوں رکعتیں پڑ ھیں۔
وکیع کہتے ہیں : یعنی مقا م ابراہیم کے پاس ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑی کی طرف نکلے۔


2960- حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ طَوَافِ الْبَيْتِ، أَتَى مَقَامَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! هَذَا مَقَامُ أَبِينَا إِبْرَاهِيمَ الَّذِي قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى}،قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِمَالِكٍ: هَكَذَا قَرَأَهَا: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} قَالَ: نَعَمْ ۔
* تخريج: د/الحروف ۱ (۳۹۶۹)، ت/الحج ۳۸ (۸۵۶)، ن/الحج ۱۶۳ (۲۹۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۵)، وقد أخرجہ: م/الحج ۱۵ (۱۲۶۳)، دي/المناسک ۳۴ (۱۸۹۲) (صحیح)
( یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: ۱۰۰۸)
۲۹۶۰- جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے طو اف سے فا رغ ہو ئے تو مقام ابراہیم کے پاس آئے ،عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسو ل ! یہ ہما رے باپ ابراہیم کی جگہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالی نے فر ما یا ہے :{وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّىْ}(مقام ابراھیم کوصلاۃ کی جگہ بنا ؤ )، ولید کہتے ہیں کہ میں نے مالک سے کہا: کیا اس کو اسی طرح (بکسرخاء)صیغہ ٔ امر کے سا تھ پڑ ھا؟ انھوں نے کہا :ہاں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یہی قراء ت مشہور ہے ، اور بعضوں نے'' واتخَذوا '' خاء کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے، یہ صیغہ ماضی یعنی انہوں نے مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
34- بَاب الْمَرِيضِ يَطُوفُ رَاكِبًا
۳۴- باب: بیمار کے سوار ی پر طواف کرنے کا بیان​


2961- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، (ح) وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ؛ قَالا: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّهَا مَرِضَتْ، فَأَمَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ تَطُوفَ مِنْ وَرَائِ النَّاسِ، وَهِيَ رَاكِبَةٌ، قَالَتْ: فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُصَلِّي إِلَى الْبَيْتِ وَهُوَ يَقْرَأُ {وَالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ}.
قَالَ ابْن مَاجَه: هَذَا حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۷۸ (۴۶۴)، الحج ۶۴ (۱۶۱۹)، ۷۱ (۱۶۲۶)، ۷۴ (۱۶۳۳)، تفسیرالطور ۱ (۴۸۵۳)، م/الحج ۴۲ (۱۲۷۶)، د/الحج ۴۹ (۱۸۸۲)، ن/الحج ۱۳۸ (۲۹۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۶۲)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۴۰ (۱۲۳)، حم (۶/۲۹۰، ۳۱۹) (صحیح)
۲۹۶۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ بیمار ہوئیں تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لو گوں کے پیچھے سوار ہوکر طواف کرنے کا حکم دیا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبیت اللہ کی طرف منہ کرکے صلاۃ پڑھتے دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہ : { وَالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ}[سورة الطور:1-2] کی قر أت فرما رہے تھے۔
ابن ما جہ کہتے ہیں: یہ ابو بکر بن ابی شیبہ کی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ بیماری اورکمزوری کی حالت میں سوارہوکرطواف کرنا درست ہے،آج کل بھیڑبھاڑکی وجہ سے سواری پرطواف کرنا بڑا مشکل بلکہ ناممکن ہے، اس لیے اس کی جگہ پرمخصوص لوگ حجاج کوچارپائی پربٹھاکرطواف کراتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
35- بَاب الْمُلْتَزِمِ
۳۵- باب: ملتزم کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : ملتزم : کعبہ کا وہ حصہ ہے جو حجر اسود اور کعبہ کے دروازے کے درمیان واقع ہے ، لوگ اس سے چمٹ کر دعائیں مانگتے ہیں۔


2962- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ الْمُثَنَّى بْنَ الصَّبَّاحِ يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: طُفْتُ مَعَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنَ السَّبْعِ رَكَعْنَا فِي دُبُرِ الْكَعْبَةِ، فَقُلْتُ: أَلا نَتَعَوَّذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ! قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ : ثُمَّ مَضَى فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ، ثُمَّ قَامَ بَيْنَ الْحَجَرِ وَالْبَابِ، فَأَلْصَقَ صَدْرَهُ وَيَدَيْهِ وَخَدَّهُ إِلَيْهِ،ثُمَّ قَالَ : هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَفْعَلُ۔
* تخريج: د/المناسک ۵۵ (۱۸۹۹)، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۷۶) (حسن )
(سند میں مثنی بن الصباح ضعیف ہیں، لیکن متابعت اور شواہد کی وجہ سے یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو : الصحیحہ : ۲۱۳۸)
۲۹۶۲- شعیب کہتے ہیں کہ میں نے (اپنے دادا) عبدا للہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ طواف کیا، جب ہم سات پھیروں سے فارغ ہوئے، تو ہم نے کعبہ کے پیچھے طو اف کی دو رکعتیں ادا کیں، میں نے کہا: کیا ہم جہنم سے اللہ تعالی کی پناہ نہ چاہیں؟ انہوں نے کہا: میں جہنم سے اللہ کی پناہ چا ہتا ہوں،شعیب کہتے ہیں: پھر عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے چل کر حجر اسود کا استلام کیا، پھر حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہوئے، اور اپنا سینہ، دونوں ہاتھ اور چہرے کو اس سے چمٹادیا، پھرکہا: میں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی کرتے دیکھا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
36- بَاب الْحَائِضِ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ إِلا الطَّوَافَ
۳۶- باب: حائضہ سوائے طواف کے حج کے سارے مناسک ادا کرے​


2963- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لا نَرَى إِلا الْحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ أَوْ قَرِيبًا مِنْ سَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا لَكِ ؟ أَنَفِسْتِ ؟ " قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا، غَيْرَ أَنْ لا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ " قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ۔
* تخريج: خ/الحیض ۱ (۲۹۴)، الأضاحي ۳ (۵۵۴۸)، ۱۰ (۵۵۵۹)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، د/الحج ۲۳ (۱۷۷۸)، ن/الحج ۵۸ (۲۷۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۸۲)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۷۴ (۲۲۳)، حم (۳/۳۹۴)، دي/المناسک ۶۲ (۱۹۴۵) (صحیح)
[/ arb]۲۹۶۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ نکلے، ہمارے پیش نظر صرف حج کر نا تھا، جب ہم مقام سرف میں تھے یاسرف کے قریب پہنچے تو مجھے حیض آگیا، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے، میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا : تمہیں کیا ہوا؟کیا حیض آگیا ہے ؟میں نے کہا : ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا :'' یہ تو ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالی نے آدم زادیوں پر لکھ دیا ہے، تم حج کیس بھی کا م انجام دو، البتہ خا نہ کعبہ کا طواف نہ کرنا''اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قر بانی کی۔
 
Top