• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
47- بَاب الْعُمْرَةِ فِي رَجَبٍ
۴۷- باب: ماہ رجب میں عمرہ کرنے کا بیان​


2998- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنِ الأَعْمَشِ،عَنْ حَبِيبٍ ( يَعْنِي ابْنَ أَبِي ثَابِتٍ )، عَنْ عُرْوَةَ؛ قَالَ : سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ: فِي أَيِّ شَهْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ؟ قَالَ: فِي رَجَبٍ، فَقَالَتْ عَاءِشَةُ: مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي رَجَبٍ قَطُّ وَمَا اعْتَمَرَ إِلا وَهُوَ مَعَهُ ( تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ )۔
* تخريج: حدیث ابن عمر أخرجہ: م/الحج ۳۵ (۱۲۵۵)، ت/الحج ۹۳ (۹۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۷۳۲۱)، حدیث عائشہ أخرجہ: ت/ الحج ۹۳ (۹۳۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۳۷۳)، وقد أخرجہ: خ/العمرۃ ۳ (۱۷۷۷)، د/الحج ۸۰ (۱۹۹۴)، حم (۱/۲۴۶) (صحیح)
۲۹۹۸- عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پو چھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس مہینہ میں عمرہ کیا؟ تو انہوں نے کہا: رجب میں،اس پر ام المومنین عائشہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی رجب میں عمرہ نہیں کیا، اور آپ کا کو ئی عمرہ ایسا نہیں جس میں وہ یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما آپ کے ساتھ نہ رہے ہوں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ بھول گئے ہیں اور غلطی سے رجب کہہ دیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
48- بَاب الْعُمْرَةِ مِنَ التَّنْعِيمِ
۴۸- باب: تنعیم سے عمرہ کا بیان​


2999- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَأَبُو إِسْحَاقَ الشَّافِعِيُّ، إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ شَافِعٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو ابْنُ أَوْسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُ أَنْ يُرْدِفَ عَاءِشَةَ، فَيُعْمِرَهَا مِنَ التَّنْعِيمِ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۶ (۱۷۸۴)، الجہاد ۱۲۵ (۲۹۸۵)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۲)، ت/الحج ۹۱ (۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۸۷)، وقد أخرجہ: د/الحج ۸۱ (۱۹۹۵)، حم (۱/۱۹۷)، دي/المناسک ۴۱ (۱۹۰۴) (صحیح)
۲۹۹۹- عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کواپنے ساتھ سوار کرکے لے جا ئیں، اور انہیں تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرائیں ۲ ؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تنعیم : مسجدحرام سے تین میل (۵ /کلومیٹر) کے فاصلہ پر ایک مقام ہے ،جہاں پر اس وقت مسجد عائشہ کے نام سے مسجد تعمیر ہے۔
وضاحت ۲؎ : محرم سے مراد شوہر ہے یا وہ شخص جس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہو مثلاً باپ دادا ، نانا، بیٹا،بھائی چچاماموں،بھتیجا ، دامادوغیرہ یا رضاعت سے ثابت ہو نے والے رشتہ دار، عمرے کا احرام حرم سے نکل کر باندھنا چاہئے ، یہ مقام بہ نسبت اور مقاموں کے قریب ہے، اس لئے آپ نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہیں سے عمر ہ کرانے کا حکم دیا۔


3000- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، نُوَافِي هِلالَ ذِي الْحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، فَلْيُهْلِلْ، فَلَوْلا أَنِّي أَهْدَيْتُ لأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ "، قَالَتْ: فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: " دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا، أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَحْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلا صَدَقَةٌ وَلا صَوْمٌ۔
* تخريج: خ/العمرۃ ۵ (۱۷۸۳)، م/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۴۸) (صحیح)
۳۰۰۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حجۃ الو داع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مدینہ سے) اس حال میں نکلے کہ ہم ذی الحجہ کے چاند کا استقبا ل کرنے والے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تم میں سے جو عمرہ کا تلبیہ پکارنا چاہے، پکارے، اور اگر میں ہدی نہ لا تا تو میں بھی عمرہ کاتلبیہ پکارتا''، تو لوگوں میں کچھ ایسے تھے جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، اور کچھ ایسے جنہوں نے حج کا، اور میں ان لو گو ں میں سے تھی جنہوں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، ہم نکلے یہاں تک کہ مکہ آئے، اور اتفاق ایسا ہو ا کہ عرفہ کا دن آگیا، اورمیں حیض سے تھی ، عمرہ سے ابھی حلا ل نہیں ہو ئی تھی،میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکا یت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' اپنا عمرہ چھو ڑ دو، اور اپنا سر کھول لو، اور بالوں میں کنگھا کرلو، اور نئے سرے سے حج کا تلبیہ پکارو''، چنا نچہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب محصب کی رات (با رہویں ذی الحجہ کی رات) ہو ئی اور اللہ تعالی نے ہما را حج پو را کرا دیا،تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا، وہ مجھے اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھا کر تنعیم لے گئے، اور وہاں سے میں نے عمرہ کا تلبیہ پکارا(اور آکر اس عمرے کے قضا کی جو حیض کی وجہ سے چھو ٹ گیا تھا)اس طرح اللہ تعالی نے ہما رے حج اور عمرہ دونوں کو پو راکرا دیا،ہم پر نہ یدی( قربانی) لازم ہو ئی، نہ صدقہ دینا پڑا، اور نہ صوم رکھنے پڑے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : کیونکہ ہدی حج تمتع کرنے والے پر واجب ہوتی ہے ، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج حج افراد تھا کیونکہ حیض آجانے کی وجہ سے انہیں عمرہ چھوڑ دینا پڑا تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
49- بَاب مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
۴۹- باب: جس نے بیت المقدس سے عمرے کا تلبیہ پکارا اس کی دلیل کا بیان​


3001- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ عَبْدِالأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُحَيْمٍ عَنْ أُمِّ حَكِيمٍ بِنْتِ أُمَيَّةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ،غُفِرَ لَهُ "۔
* تخريج: د/الحج ۹ (۱۷۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۵۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۹۹) (ضعیف)
( سند میں ام حکیم کی تو ثیق صرف ابن حبان نے کی ہے ، جو مجاہیل کی تو ثیق کرتے ہیں، اور یہ مشہور نہیں ہیں،نیزملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۲۱۱)
۳۰۰۱- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:''جس نے بیت المقدس سے عمرہ کا تلبیہ پکارا اس کو بخش دیا جا ئے گا'' ۔


3002- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ حَكِيمٍ بِنْتِ أُمَيَّةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ ﷺ؛ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، كَانَتْ لَهُ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهَا مِنَ الذُّنُوبِ ". قَالَتْ : فَخَرَجْتُ ( أَيْ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ ) بِعُمْرَةٍ ۔
* تخريج: أنظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۰۰۲- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا:'' جس نے بیت المقدس سے عمرہ کا تلبیہ پکارایہ اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ ہوگا''،تو میں بیت المقدس سے عمرہ کے لیے نکلی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
50- بَاب كَمِ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ ؟
۵۰- باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟​


3003- حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّافِعِيُّ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الْقَضَائِ مِنْ قَابِلٍ، وَالثَّالِثَةَ مِنَ الْجِعْرَانَةِ، وَالرَّابِعَةَ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ۔
* تخريج: د/المناسک ۸۰ (۱۹۹۳)، ت/الحج ۷ (۸۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۱۶۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۶، ۳۲۱)، دي/المناسک ۳۹ (۱۹۰۰) (صحیح)
۳۰۰۳- عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے :عمرۂ حدیبیہ ،عمرۂ قضا جو دوسرے سال کیا،تیسراعمرہ جعرانہ سے، اور چو تھا جو حج کے ساتھ کیا ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پور ی زندگی میں ایک حج اور تین عمرے اداکئے، اس لیے کہ حدیبیہ کا عمرہ پورا نہیں ہواتھا، چنانچہ دوسرے سال آپ نے اسی عمرے کی قضا کی تھی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
51- بَاب الْخُرُوجِ إِلَى مِنًى
۵۱- باب: (آٹھویں ذی الحجہ کو) منیٰ جانے کا بیان​


3004- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَطَائٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ صَلَّى بِمِنًى يَوْمَ التَّرْوِيَةِ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ وَالْفَجْرَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَةَ۔
* تخريج: ت/الحج ۵۰ (۸۷۹)، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۱) (صحیح)
۳۰۰۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یو م الترویہ (آٹھویں ذی الحجہ ) کو منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی صلاتیں پڑھیں، پھر نویں (ذی الحجہ) کی صبح کو عرفات تشریف لے گئے۔


3005- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ بِمِنًى، ثُمَّ يُخْبِرُهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۷۳۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۱)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۶۴(۱۹۵) (حسن )
(سند میں عبد اللہ بن عمر ضعیف راوی ہیں، لیکن سابقہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے )
۳۰۰۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ پا نچ وقت کی صلاۃ منیٰ میں پڑھتے تھے، پھر انہیں بتا تے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کر تے تھے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آٹھویں ذی الحجہ کی ظہر، عصرمغرب اورعشاء اورنویں ذی الحجہ کی فجر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
52- بَاب النُّزُولِ بِمِنًى
۵۲- باب: منیٰ میں قیام کا بیان​


3006- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلا نَبْنِي لَكَ بِمِنًى بَيْتًا؟ قَالَ: " لا، مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ "۔
* تخريج: د/المناسک ۸۹ (۲۰۱۹)، ت/الحج ۵۱ (۸۸۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۹۶۳)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸۷ٕ ۲۰۶)، دي/المناسک ۸۷ (۱۹۸۰) (ضعیف)
(ام یوسف مسیکہ مجہول العین ہیں، نیزملاحظہ ہو : ضعیف أبی داود : ۳۴۵)۔
۳۰۰۶- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !کیا ہم آپ کے لیے منیٰ میں گھر نہ بنا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''نہیں، منیٰ اس کی جا ئے قیام ہے جوپہلے پہنچ جائے''۔


3007- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أُمِّهِ مُسَيْكَةَ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَلا نَبْنِي لَكَ بِمِنًى بَيْتًا يُظِلُّكَ؟ قَالَ: " لا، مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ "۔
* تخريج: أنظر ما قبلہ (ضعیف)
۳۰۰۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم منیٰ میں آپ کے لیے ایک گھر نہ بنا دیں جو آپ کو سایہ دے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''نہیں، منیٰ اس کی جائے قیام ۱؎ ہے جو پہلے پہنچ جا ئے''۔
وضاحت ۱؎ : یعنی منیٰ کا میدان حاجیوں کے لئے وقف ہے ،وہ کسی کی خاص ملکیت نہیں ہے، اگر کوئی وہاں پہلے پہنچے اور کسی جگہ اترجائے ، تو دوسرا اس کواٹھانہیں سکتا چونکہ گھر بنانے میں ایک جگہ پر اپنا قبضہ اور حق جمالینا ہے ، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
53- بَاب الْغُدُوِّ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ
۵۳- باب: (نویں ذی الحجہ کی ) صبح سویرے منیٰ سے عرفات جانے کا بیان​


3008- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ،عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسٍ؛ قَالَ: غَدَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي هَذَا الْيَوْمِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ، فَمِنَّا مَنْ يُكَبِّرُ، وَمِنَّا مَنْ يُهِلُّ، فَلَمْ يَعِبْ هَذَا عَلَى هَذَا، وَلا هَذَا عَلَى هَذَا، ( وَرُبَّمَا قَالَ: هَؤُلائِ عَلَى هَؤُلائِ، وَلا هَؤُلائِ عَلَى هَؤُلائِ )۔
* تخريج: خ/العیدین ۱۲ (۹۷۰)، الحج ۸۶ (۱۶۵۹)، م/الحج ۴۶ (۱۲۸۵) ن/الحج ۱۹۲ (۳۰۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۵۲)، وقد أخرجہ: د/الحج ۲۸ (۱۸۱۶)، ط/الحج ۱۳ (۴۳)، حم (۳/۱۱۰، ۲۴۰)، دي/المناسک ۴۸ (۱۹۱۹) (صحیح)
۳۰۰۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ سے عرفات کے لیے چلے، توہم میں سے کچھ لوگ اللہ اکبر کہتے تھے اور کچھ لو گ لبیک پکا رتے تھے، تواس نے نہ اس پر عیب لگا یا اور نہ اس نے اس پر، اور بسااوقات انہوں نے یوں کہا: نہ انہوں نے ان لو گوں پر عیب لگا یا، اور نہ ان لو گوں نے ان پر ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
54 - بَاب الْمَنْزِلِ بِعَرَفَةَ
۵۴- باب: عر فات میں کہاں اترے ؟​


3009- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، أَنْبَأَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ الْجُمَحِيُّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَنْزِلُ بِعَرَفَةَ فِي وَادِي نَمِرَةَ، قَالَ: فَلَمَّا قَتَلَ الْحَجَّاجُ ابْنَ الزُّبَيْرِ، أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ عُمَرَ: أَيَّ سَاعَةٍ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَرُوحُ فِي هَذَا الْيَوْمِ ؟ قَالَ: إِذَا كَانَ ذَلِكَ رُحْنَا، فَأَرْسَلَ الْحَجَّاجُ رَجُلا يَنْظُرُ أَيَّ سَاعَةٍ يَرْتَحِلُ، فَلَمَّا أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ أَنْ يَرْتَحِلَ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ ؟ قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ ؟ قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟ قَالُوا: لَمْ تَزِغْ بَعْدُ، فَجَلَسَ، ثُمَّ قَالَ: أَزَاغَتِ الشَّمْسُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، فَلَمَّا قَالُوا: قَدْ زَاغَتِ، ارْتَحَلَ،قَالَ وَكِيعٌ : يَعْنِي رَاحَ ۔
* تخريج: د/المناسک ۶۱ (۱۹۱۴)، (تحفۃ الأشراف : ۷۰۷۳)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۸۷ (۱۶۶۰)، ط/الحج ۶۴(۱۹۵)، حم (۲/۲۵) (حسن)
۳۰۰۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات کی وادی نمرہ میں ٹھہرتے ،راوی کہتے ہیں :جب حجا ج نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا، تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس یہ پو چھنے کے لیے آدمی بھیجا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آج کے دن کس وقت (صلاۃ اور خطبہ کے لیے )نکلتے تھے ؟ انہوں نے کہا:جب یہ وقت آئے گا تو ہم خو د چلیں گے، حجاج نے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ دیکھتا رہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کب نکلتے ہیں؟ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے چلنے کا ارادہ کیا، تو پو چھا: کیا سورج ڈھل گیا ؟لو گوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، تووہ بیٹھ گئے، پھر پو چھا: کیا اب ڈھل گیا ؟لو گوں نے کہا: ابھی نہیں ڈھلا ہے، پھر آپ بیٹھ گئے، پھر آپ نے کہا : کیا اب ڈھل گیا؟ لو گوں نے کہا: ہاں ،تو جب لوگوں نے کہا: ہاں، تو وہ چلے۔
وکیع نے '' ارْتَحَلَ '' کا معنی '' رَاحَ '' (چلے)بتایا ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
55- بَاب الْمَوْقِفِ بِعَرَفَاتٍ
۵۵- باب: عرفات میں کہاں ٹھہرے؟​


3010- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ،عَنْ عَلِيٍّ؛ قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ: " هَذَا الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ "۔
* تخريج: د/المناسک ۶۴ (۱۹۳۵، ۱۹۳۶)، ت/الحج ۵۴ (۸۸۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۲۲۹) (صحیح)
۳۰۱۰- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عر فات میں وقو ف کیا، اور فرمایا :''یہ جگہ اور سارا عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے''۔


3011- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ؛ قَالَ: كُنَّا وُقُوفًا فِي مَكَانٍ تُبَاعِدُهُ مِنَ الْمَوْقِفِ، فَأَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ فَقَالَ: إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَيْكُمْ، يَقُولُ: " كُونُوا عَلَى مَشَاعِرِكُمْ، فَإِنَّكُمُ الْيَوْمَ عَلَى إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ إِبْرَاهِيمَ "۔
* تخريج: د/المناسک ۶۲ (۱۹۱۹)، ت/الحج ۵۳ (۸۸۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۱۳۷) (صحیح)
۳۰۱۱- یزید بن شیبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہہم عرفات میں ایک جگہ ٹھہرے ہو ئے تھے،جس کو ہم موقف (ٹھہر نے کی جگہ) سے دور سمجھ رہے تھے، اتنے میں ہمارے پاس ابن مربع آئے اور کہنے لگے: میں تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصدبن کرآیا ہوں، آپ فرما رہے ہیں :'' تم لو گ اپنی اپنی جگہوں پر رہو، کیونکہ تم آج ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اس روز عرفات میں کہیں بھی ٹھہر نے سے سنت ادا ہوجائے گی ، گرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھہرنے کی جگہ سے دور ہی کیوں نہ ہو، ینز ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان جگہوں پر ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ ہی سے بطور وراثت وقوف چلا آرہا ہے، لہذا تم سب کا وہاں وقوف (یعنی مجھ سے دور) صحیح ہے اور وارث ہونے کے ہم معنی ہے۔


3012- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْعُمَرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ عَرَفَةَ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ مُحَسِّرٍ، وَكُلُّ مِنًى مَنْحَرٌ، إِلا مَا وَرَائَ الْعَقَبَةِ "۔
* تخريج:تفرد ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۶۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۲)، وقد أخرجہ: د/المناسک ۶۵ (۱۹۳۶)، دي/المناسک ۵۰ (۱۹۲۱) (صحیح)
(سند میں قاسم بن عبد اللہ العمری متروک راوی ہے، اس لئے '' إلا ما وراء العقبۃ '' کے لفظ کے ساتھ یہ صحیح نہیں ہے، اصل حدیث کثرت طرق اور شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو : صحیح أبی داود : ۱۶۶۵ - ۶۹۲ ۱ - ۱۶۹۳)
۳۰۱۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''پو را عرفات جا ئے وقوف ہے، اور بطن عرفہ ۱؎ سے اٹھ جا ئو یعنی وہاں نہ ٹھہرو ،اور پورا (مزد لفہ) ٹھہرنے کی جگہ ہے، اور بطن محسر ۲؎ سے اٹھ جا ئو یعنی وہا ں نہ ٹھہرو ، اور پو رامنٰی منحر (مذبح) ہے، سوائے جمرہ عقبہ کے پیچھے کے۔
وضاحت ۱؎ : اس لئے کہ وہ میدان عرات کی حد سے باہر ہے۔
وضاحت ۲ ؎ : اس لئے کہ وہاں منیٰ کی حد ختم ہو جا تی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
56- بَاب الدُّعَاءِ بِعَرَفَةَ
۵۶- باب: عرفات میں دعا کا بیان​


3013- حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْهَاشِمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْقَاهِرِ بْنُ السَّرِيِّ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ كِنَانَةَ بْنِ عَبَّاسِ بْنِ مِرْدَاسٍ السُّلَمِيُّ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ،عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّﷺ دَعَا لأُمَّتِهِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ بِالْمَغْفِرَةِ، فَأُجِيبَ: إِنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، مَا خَلا الظَّالِمَ، فَإِنِّي آخُذُ لِلْمَظْلُومِ مِنْهُ، قَالَ: " أَيْ رَبِّ ! إِنْ شِئْتَ أَعْطَيْتَ الْمَظْلُومَ مِنَ الْجَنَّةِ! وَغَفَرْتَ لِلظَّالِمِ"، فَلَمْ يُجَبْ عَشِيَّتَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ أَعَادَ الدُّعَائَ، فَأُجِيبَ إِلَى مَا سَأَلَ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ -أَوْ قَالَ: تَبَسَّمَ- فَقَالَ لَهُ أَبُوبَكْرٍ وَعُمَرُ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي ! إِنَّ هَذِهِ لَسَاعَةٌ مَا كُنْتَ تَضْحَكُ فِيهَا، فَمَا الَّذِي أَضْحَكَكَ؟ أَضْحَكَ اللَّهُ سِنَّكَ ! قَالَ : " إِنَّ عَدُوَّ اللَّهِ إِبْلِيسَ، لَمَّا عَلِمَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ اسْتَجَابَ دُعَاءِي، وَغَفَرَ لأُمَّتِي، أَخَذَ التُّرَابَ فَجَعَلَ يَحْثُوهُ عَلَى رَأْسِهِ، وَيَدْعُو بِالْوَيْلِ وَالثُّبُورِ، فَأَضْحَكَنِي مَا رَأَيْتُ مِنْ جَزَعِهِ"۔
* تخريج:تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۵۱۴۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۳)، وقد أخرجہ: د/الأدب ۱۶۸ (۵۲۳۴)، حم (۴/۱۴) (ضعیف)
(عبد اللہ بن کنانہ مجہول ہیں، اور ان کی حدیث صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو : المشکاۃ : ۲۶۰۳)
۳۰۱۳- عباس بن مرداس سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کی مغفرت کی دعا کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اب ملا کہ میں نے انہیں بخش دیا، سوائے ان کے جو ظالم ہوں، اس لیے کہ میں اس سے مظلوم کا بدلہ ضرور لوںگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اے رب! اگر تو چا ہے تو مظلوم کو جنت دے اور ظالم کو بخش دے''، لیکن اس شام کو آپ کو جو اب نہیں ملا، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں صبح کی تو پھر یہی دعا ما نگی، آپ کی درخواست قبو ل کر لی گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یا مسکرائے، پھر آپ سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کیا:ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، یہ ایسا وقت ہے کہ آپ اس میں ہنستے نہیں تھے تو آپ کوکس چیز نے ہنسایا؟اللہ آپ کو ہنساتا ہی رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اللہ کے دشمن ابلیس کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری دعا قبول فرمالی ہے، اور میری امت کو بخش دیا ہے، تو وہ مٹی لے کر اپنے سرپر ڈالنے لگا اور کہنے لگا: ہا ئے خرابی، ہائے تباہی! جب میں نے اس کایہ تڑپنا دیکھا تو مجھے ہنسی آگئی '' ۔


3014- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ أَبُو جَعْفَرٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ يُوسُفَ يَقُولُ عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ؛ قَالَ: قَالَتْ عَاءِشَةُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: " مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلائِكَةَ فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلائِ؟ "۔
* تخريج: م/الحج ۷۹ (۱۳۴۸)، ن/الحج ۱۹۴ (۳۰۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۱۳۱) (صحیح)
۳۰۱۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اللہ تعالی جتنا عرفہ کے دن اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد کر تا ہے اتنا کسی اوردن نہیں،اللہ تعالی قریب ہو جا تا ہے، اور ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے، اور فرماتا ہے:میرے ان بندوں نے کیا چا ہا ؟'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی کس چیز کی خواہش اور طلب میں اس قدرلوگ اس میدان میں جمع ہیں ؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: تیری مغفرت چاہتے ہیں، اور تیرے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں، ارشاد ہوتا ہے میں نے ان کو بخش دیا۔
 
Top