76- بَاب الْخُطْبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ
۷۶- باب: یو م النحر کے خطبہ کا بیان
3055- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ؛ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَلا أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ؟ " ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ، قَالَ: " فَإِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ " كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلا لا يَجْنِي جَانٍ إِلا عَلَى نَفْسِهِ، وَلا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ، وَلا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يُعْبَدَ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَبَدًا، وَلَكِنْ سَيَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَيَرْضَى بِهَا، أَلا وَكُلُّ دَمٍ مِنْ دِمَائِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ مَا أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ( كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ) " أَلا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، لَكُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ، أَلا يَا أُمَّتَاهُ ! هَلْ بَلَّغْتُ ؟ " ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ " ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
* تخريج: د/البیوع ۵ (۳۳۳۴)، ت/الفتن ۲ (۲۱۵۹)، تفسیر القرآن ۱۰(۱) (۳۰۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶، ۴۸۹) (صحیح)
۳۰۵۵- عمر وبن احو ص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا: '' لوگو! سنو،کو ن سادن زیادہ تقدیس کا ہے'' ؟آپ نے تین بار یہ فرمایا ، لوگوں نے کہا:حج اکبر ۱؎ کا دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی، اور تمہارے اس مہینے کی، اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے، جوکوئی جرم کرے گا، تو اس کا مو اخذہ اسی سے ہو گا، باپ کے جرم کا مواخذہ بیٹے سے، اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو!شیطان اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی عبادت کی جا ئے گی، لیکن عنقریب بعض کا موں میں جن کو تم معمولی جا نتے ہو، اس کی اطاعت ہو گی،وہ اسی سے خو ش رہے گا،سن لو! جاہلیت کے سارے خون معاف کردئیے گئے (اب اس کا مطالبہ و مواخذہ نہ ہو گا)اور میں حارث بن عبدالمطلب کا خو ن سب سے پہلے زمانۂ جاہلیت کے خون میں معاف کرتا ہوں، (جو قبیلہ ٔ بنی لیث میں دودھ پیاکرتے تھے اورقبیلہ ٔ ہذیل نے انہیں شیر خوارگی کی حالت میں قتل کر دیا تھا)سن لو ! جا ہلیت کے تمام سود معاف کر دئیے گئے، تم صرف اپنا اصل مال لے لو، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم ہو، آگا ہ رہو، اے میری امت کے لوگو!کیا میں نے اللہ کا حکم تمہیں پہنچا دیا ہے''؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا، لو گوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ نے فرمایا:'' اے اللہ !تو گواہ رہ '' اور اسے آپ نے تین بار دہرایا۔
وضاحت ۱؎ : ہرحج کو حج اکبر کہتے ہیں، اور عمرہ کو حج اصغر، رہی بات عوام الناس کی جو ان کے د رمیان مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں، جس میں عرفہ کا دن جمعہ کے دن آئے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔
3056- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاقَ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى، فَقَالَ: " نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلاثٌ لايُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ: إِخْلاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ،وَالنَّصِيحَةُ لِوُلاةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۸، ومصباح الزجاجۃ:۱۰۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۰) (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ۲۳۱) (صحیح)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالسلام ضعیف ہیں، لیکن متن صحیح ہے، بلکہ حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو : دراستہ حدیث نضر اللہ ۰۰۰ للشیخ عبد المحسن العباد )
۳۰۵۶- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہو ئے اور فرمایا:'' اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جو میری بات سنے، اور اسے لو گوں کو پہنچائے، کیونکہ بہت سے فقہ کی بات سننے والے خود فقیہ نہیں ہوتے، اور بعض ایسے ہیں جو فقہ کی بات سن کر ایسے لو گوں تک پہنچا تے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہو تے ہیں، تین باتیں ایسی ہیں جن میں کسی مومن کا دل خیانت نہیں کرتا، ایک اللہ کے لیے عمل خالص کرنے میں، دوسرے مسلمان حکمرانوں کی خیرخو اہی کرنے میں، اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنے میں، اس لیے کہ ان کی دعا انہیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شیطان کا مکر جماعت پر نہیں چلتا، اور جو جماعت سے الگ رہتا ہے شیطان اسے اچک لیتا ہے۔
3057- حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْمُخَضْرَمَةِ بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا، وَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا، وَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا ؟ قَالُوا: هَذَا بَلَدٌ حَرَامٌ، وَشَهْرٌحَرَامٌ، وَيَوْمٌ حَرَامٌ "، قَالَ: " أَلا وَإِنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَائَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، أَلا وَإِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الأُمَمَ ، فَلا تُسَوِّدُوا وَجْهِي، أَلا وَإِنِّي مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّي أُنَاسٌ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ ! أُصَيْحَابِي ؟ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لاتَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۱) (صحیح)
۳۰۵۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اور اس وقت آپ عرفات میں اپنی کنکٹی اونٹنی پر سوار تھے: ''کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے، اورکون سا مہینہ ہے، اور کو ن سا شہر ہے'' ؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ حرمت والا شہر،حرمت والا مہینہ، اور حرمت والا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''سنو!تمہا رے مال اور تمہارے خون بھی ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ مہینہ تمہا رے اس شہر میں اور تمہا رے اس دن میں، سنو! میں حوض پر تمہا را پیش رو ہوں گا، اور تمہا ری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کروں گا،توتم مجھے رو سیاہ مت کرنا، سنو!کچھ لو گوں کو میں( عذاب کے فرشتوں یا جہنم سے) نجات دلاؤں گا، اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جا ئیں گے (فرشتے مجھ سے چھین کر انہیں جہنم میں لے جائیں گے)، میں کہوں گا: یا رب! یہ میرے صحابہ ہیں وہ فرمائے گا:آپ نہیں جا نتے جو انہوں نے آپ کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھر گئے، مسلمانوں کو مارا ،اور اصحاب سے مراد یہ ہے کہ میری امت کے لوگ ہیں۔
3058- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَقَفَ يَوْمَ النَّحْرِ بَيْنَ الْجَمَرَاتِ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي حَجَّ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ " قَالُوا: يَوْمُ النَّحْرِ، قَالَ: " فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟ " قَالُوا: هَذَا بَلَدُ اللَّهِ الْحَرَامُ، قَالَ: " فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا ؟ " قَالُوا: شَهْرُ اللَّهِ الْحَرَامُ، قَالَ: " هَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ، وَدِمَاؤُكُمْ وَأَمْوَالُكُمْ وَأَعْرَاضُكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ هَذَا الْبَلَدِ، فِي هَذَا الشَّهْرِ فِي هَذَا الْيَوْمِ " ثُمَّ قَالَ: " هَلْ بَلَّغْتُ ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ " ثُمَّ وَدَّعَ النَّاسَ، فَقَالُوا: هَذِهِ حَجَّةُ الْوَدَاعِ ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۳۲(۱۷۴۲ تعلیقاً)، د/المناسک ۶۷ (۱۹۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۱۴) (صحیح)
۳۰۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیادسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا:''آج کون سا دن ہے''؟لو گوں نے عرض کیا :یہ یوم النحر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''یہ کون سا شہر ہے'' ؟ لوگوں نے عرض کیا :یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ کون سا مہینہ ہے'' ؟ لو گوں نے عرض کیا:یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خو ن ،تمہا رے مال، تمہا ری عزت وآبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہرکی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے''، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو ) پہنچا دئیے ہیں'' ؟ لو گوں نے عرض کیا: ہا ں، (آپ نے پہنچا دئیے )پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے: ''اے اللہ! تو گواہ رہ''، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا ،تو لوگوں نے کہا :یہ حجۃ الووداع یعنی الوداعی حج ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ کا آخری حج ہے، اس کے بعد آپ ہمیں جدائی کا داغ دے جائیں گے، نیز اس حج کے تھوڑے دنوں کے بعد آپ کی وفات ہوئی اس واسطے اس کو حجۃ الوواع کہتے ہیں۔