• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
67- بَاب تَأْخِيرِ رَمْيِ الْجِمَارِ مِنْ عُذْرٍ
۶۷- باب: عذر کی بناء پر کنکریاں مارنے میں دیر کرنے کا بیان​


3036- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَبْدِالْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَخَّصَ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا۔
* تخريج: د/الحج ۷۸ (۱۹۷۵ و ۱۹۷۶)، ت/الحج ۱۰۸ (۹۵۴، ۹۵۵)، ن/الحج ۲۲۵ (۳۰۷۰)، (تحفۃ الأشراف:۵۰۳۰)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۷۲ (۲۱۸)، حم (۵/۴۵۰)، دي/المناسک ۵۸ (۱۹۳۸) (صحیح)
۳۰۳۶- عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو اجا زت دی کہ وہ ایک دن رمی کریں، اور ایک دن کی رمی چھوڑدیں۔


3037- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، (ح) وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لِرِعَاءِ الإِبِلِ فِي الْبَيْتُوتَةِ، أَنْ يَرْمُوا يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ يَجْمَعُوا رَمْيَ يَوْمَيْنِ بَعْدَ النَّحْرِ، فَيَرْمُونَهُ فِي أَحَدِهِمَا.
( قَالَ مَالِكٌ : ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَالَ: فِي الأَوَّلِ مِنْهُمَا ) ثُمَّ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ۔
* تخريج: أنظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۰۳۰) (صحیح)
۳۰۳۷- عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چر واہوں کو رخصت دی کہ وہ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو رمی کر لیں، پھر یوم النحر کے بعد کے دو دنوں کی رمی ایک ساتھ جمع کرلیں، خواہ گیا رہویں ، با رہویں دونوں کی رمی بارہویں کو کریں، یا گیا رہویں کو با رہویں کی بھی رمی کر لیں ۱؎ ۔
مالک بن انس کہتے ہیں کہ میر اخیا ل ہے کہ انہوں نے کہا :پہلے دن رمی کریں پھرجس دن کو چ کر نے لگیں اس دن کرلیں۔
وضاحت ۱؎ : کیو نکہ وہ اونٹ چرانے کے لیے منیٰ سے دور چلے جاتے ہیں ، ان کو روزی روٹی کے لیے منیٰ میں آنا دشوار ہے، اس لیے دونوں کی رمی ایک دن آکر کر سکتے ہیں ، مثلاً یوم النحر کو رمی کر کے چلے جائیں پھر ۱۱/ ذی الحجہ کو نہ کریں ،۱۲/ کو آکر دونوں دن کی رمی ایک بار لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
68- بَاب الرَّمْيِ عَنِ الصِّبْيَانِ
۶۸- باب: بچوں کی طرف سے رمی کا بیان​


3038- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَمَعَنَا النِّسَائُ وَالصِّبْيَانُ، فَلَبَّيْنَا عَنِ الصِّبْيَانِ وَرَمَيْنَا عَنْهُمْ ۔
* تخريج: ت/الحج ۸۴ (۹۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۴) (ضعیف)
( أ شعث بن سوار ضعیف ہیں)
۳۰۳۸- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ، ہما رے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ،ہم نے بچوں کی طرف سے لبیک پکارا، اور ان کی طرف سے رمی کی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
69- بَاب مَتَى يَقْطَعُ الْحَاجُّ التَّلْبِيَةَ
۶۹- باب: حاجی لبیک پکا رنا کب بند کرے؟​


3039- حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَبَّى حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۴۴۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۷)، وقد أخرجہ: ن/الحج ۲۱۶ (۳۰۵۸)، حم (۱/۲۱۰، ۲۱۴)، دي/المناسک ۶۰ (۱۹۴۳)، وراجع الحدیث الآتي (صحیح)
۳۰۳۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرۂ عقبہ کی رمی تک لبیک پکا را ۔


3040- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قَالَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ ﷺ، فَمَا زِلْتُ أَسْمَعُهُ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَلَمَّا رَمَاهَا قَطَعَ التَّلْبِيَةَ۔
* تخريج: ن/الحج ۲۱۶ (۳۰۵۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۵۶)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۲۲ (۱۵۴۳)، ۹۳ (۱۶۶۹)، ۱۰۱ (۱۶۸۵)، م/الحج ۴۵ (۱۲۸۰) (صحیح)
۳۰۴۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار تھا، تو میں برابر آپ کا تلبیہ سنتا رہا یہاں تک کہ آپ نے جمرۂ عقبہ کی رمی کی، جب آپ نے اس کی رمی کر لی تو لبیک کہنا ترک کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
70- بَاب مَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ
۷۰- باب: جمرۂ عقبہ کی رمی کے بعد آدمی کے لئے حلا ل ہو جا نے والی چیزوں کا بیان​


3041- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، (ح) وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَوَكِيعٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ؛ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: إِذَا رَمَيْتُمُ الْجَمْرَةَ فَقَدْ حَلَّ لَكُمْ كُلُّ شَيْئٍ، إِلا النِّسَائَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ! وَالطِّيبُ؟ فَقَالَ: أَمَّا أَنَا فَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُضَمِّخُ رَأْسَهُ بِالْمِسْكِ، أَفَطِيبٌ ذَلِكَ أَمْ لا ؟۔
* تخريج: ن/الحج ۲۳۱ (۳۰۸۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۳۹۷) (صحیح)
۳۰۴۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب تم رمی جمار کر چکتے ہو تو ہر چیز سوائے بیو ی کے حلا ل ہو جا تی ہے ، اس پر ایک شخص نے کہا :ابن عباس !اور خو شبو؟ تو انہوں نے کہا : میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سر میں مشک ملتے ہوئے دیکھا، کیا وہ خوشبو ہے یا نہیں؟ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی سے فراغت کے بعد پہلی حلت حاصل ہو جاتی ہے یعنی محرم کے لیے خوشبو لگانے، احرام کھولنے اور سلے کپڑے پہننے وغیرہ کی اجازت ہو جاتی ہے، وہ صر ف بیوی سے صحبت نہیں کرے یہاں تک کہ وہ طواف افاضہ سے فارغ ہو جائے ۔
طواف کے بعد یوم النحر کو جب رمی سے فارغ ہو تواگر قربانی اس پر واجب ہو تو قربانی کرے، پھر سرمنڈوائے یا بال کترواے ،اور غسل کرے، اور کپڑے بدلے اور خوشبو لگائے، اور مکہ میں جاکر بیت اللہ کا طواف کرے اس طواف کو طواف افاضہ اور طواف صدر اور طواف زیارہ کہتے ہیں، اور یہ حج کا ایک بڑا رکن ہے اور فرض ہے ، پھر منیٰ میں لوٹ آ ئے اور ظہر منیٰ میں آکر پڑھے ،ایساہی حدیث میں وارد ہے، اور اب سب چیزیں حلال ہوگئیں یہاں تک کہ عورتوں سے صحبت کرنا بھی، اور مستحب ہے کہ یہ طواف، رمی، نحر اور حلق کے بعد کیا جائے اگر کسی نے اس طواف کو یوم النحر کو ادا نہ کیا تو ۱۱،یا ۱۲ ؍ذی الحجہ کو کر لے اس پر دم نہ ہوگا، لیکن جب تک یہ طواف نہ کرے گا حج پورا نہ ہوگا، اور عورتیں حلال نہ ہوں گی۔


3042- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا خَالِي مُحَمَّدٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ وَأَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ،عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لإِحْرَامِهِ حِينَ أَحْرَمَ، وَلإِحْلالِهِ حِينَ أَحَلَّ ۔
* تخريج: م/الحج ۷ (۱۱۸۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳۸)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۸ (۱۵۳۹)، ۱۴۳ (۱۷۵۴)، اللباس ۷۳ (۵۹۲۲۰)، ۷۴ (۵۹۲۳)، ۷۹ (۵۹۲۸)، ۸۱ (۵۹۳۰)، د/الحج ۱۱ (۱۷۴۵)، ت/الحج ۷۷ (۹۱۷)، ن/الحج ۴۱ (۲۶۸۵)، ط/الحج ۷ (۱۷)، حم (۶/۹۸، ۱۰۶، ۱۳، ۱۶۲، ۱۸۱، ۱۸۶، ۱۹۲، ۲۰۰، ۲۰۷، ۲۰۹، ۲۱۴، ۲۱۶، ۲۳۷، ۲۳۸، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۵۸)، دي/المناسک ۱۰ (۱۸۴۴) (صحیح)
۳۰۴۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام با ندھتے وقت، اور احرام کھولتے وقت خوشبو لگائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حلق یعنی سرمنڈانا اور تقصیر یعنی بال کترانا دونوں جائز ہیں، لیکن حلق افضل ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار حلق کرانے والوں کے لیے دعا کی، حج میں حلق ا فضل ہے، حلق اور تقصیر حج اور عمرہ کا ایک رکن ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
71- بَاب الْحَلْقِ
۷۱- باب: حلق(سر منڈانے ) کا بیان​


3043- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَالْمُقَصِّرِينَ ؟ قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ" ثَلاثًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَالْمُقَصِّرِينَ ؟ قَالَ: " وَالْمُقَصِّرِينَ "۔
* تخريج: خ/الحج ۱۲۷ (۱۷۲۸)، م/الحج ۵۵ (۱۳۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۰۴)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۳۱) (صحیح)
۳۰۴۳- ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اے اللہ! سر منڈانے والوں کو بخش دے''، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! اور بال کتر وانے والوں کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' اے اللہ! سر منڈانے والوں کو بخش دے''،آپ نے یہ تین بار فرمایا:تولو گوں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول! اور بال کتر وانے والوں کو؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اوربال کتر وانے والوں کو بھی'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : حدیث سے معلوم ہوا کہ سرمنڈانا کتروانے سے افضل ہے کیونکہ سر منڈوانے والوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دعا کی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار اور وہ بھی آخر میں ۔


3044- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ أَبِي الْحَوَارِيِّ الدِّمَشْقِيُّ؛ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ " قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ " قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ ! قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ " قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " وَالْمُقَصِّرِينَ "۔
* تخريج: م/الحج ۵۵ (۱۳۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۴۷)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۴۷ (۱۷۲۷)، د/الحج ۷۹ (۱۹۷۹)، ت/الحج ۷۴ (۹۱۳)، ط/الحج ۶۰ (۱۸۴)، حم (۲/۳۴، ۱۵۱)، دي/المناسک ۶۴ (۱۹۴۷) (صحیح)
۳۰۴۴- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اللہ تعالی سر منڈانے والوں پر رحم فرمائے''، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والو ںپر؟ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: '' اللہ تعالی سرمنڈانے والوں پر رحم فرمائے''، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر؟ اللہ کے رسول !آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''اللہ سرمنڈانے والوں پر رحم فرمائے'' ، لوگوں نے عرض کیا: اور بال کٹوانے والوں پر اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''اور بال کٹوانے والوںپربھی''۔


3045- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لِمَ ظَاهَرْتَ لِلْمُحَلِّقِينَ ثَلاثًا، وَلِلْمُقَصِّرِينَ وَاحِدَةً ؟ قَالَ: " إِنَّهُمْ لَمْ يَشُكُّوا "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۱۰، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۵۳) (حسن)
۳۰۴۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عر ض کیا گیاکہ اللہ کے رسول!آپ نے بال منڈوانے والوں کے لیے تین بار دعا فرمائی، اور بال کتروانے والوں کے لیے ایک بار، اس کی کیا وجہ ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''انہوں نے شک نہیں کیا '' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بلکہ جس حکم کو اللہ تعالیٰ نے پہلی بار بیان کیا اسی پر عمل کیا، قرآن شریف میں ہے : {مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ} (سورة الفتح : 27) تو پہلے حلق کو ذکرفرمایا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
72- بَاب مَنْ لَبَّدَ رَأْسَهُ
۷۲- باب: جس نے اپنے بالوں کو گوند وغیرہ سے جمالیااس کے حکم کابیان​


3046 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ حَفْصَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا شَأْنُ النَّاسِ،حَلُّوا وَلَمْ تَحِلَّ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِكَ ؟ قَالَ: " إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ "۔
* تخريج: خ/الحج ۳۴ (۱۵۶۶)، ۱۰۷ (۱۶۹۷)، ۱۲۶ (۱۷۲۵)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۸)، اللباس ۶۹ (۵۹۱۶)، م/الحج ۲۵ (۱۲۲۹)، د/الحج ۲۴ (۱۸۰۶)، ن/الحج ۴۰ (۲۶۸۳)، (تحفۃ الأشراف:۱۵۸۰۰)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۵۸ (۱۸۰)، حم (۶/۲۸۳، ۲۸۴، ۲۸۵) (صحیح)
۳۰۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول!کیا بات ہے لوگوں نے اپنے عمرے سے احرام کھول دیا، اور آپ نے نہیں کھولا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میں نے اپنے سر کی تلبید ۱؎ کی تھی ، اور ہد ی (کے جانور) کو قلادہ پہنایا تھا ۲؎ اس لیے جب تک میں قربانی نہ کر لوںحلا ل نہیں ہو سکتا ۳؎ ۔
وضاحت ۱؎ : تلبید کہتے ہیں بالوں کو گوند وغیرہ سے جمالینا تاکہ پریشان نہ ہوں، اور احرام کے وقت گر دو غبار سے سر محفوظ رہے ۔
وضاحت ۲؎ : ہدی کے جانور کو قلادہ پہنانے کو تقلید کہتے ہیں، تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ قربانی کا جانور ہے۔
وضاحت ۳؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تلبید جائز ہی نہیں بلکہ مسنون ہے۔


3047- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يُهِلُّ مُلَبِّدًا۔
* تخريج: خ/الحج ۱۹ (۱۵۴۰)، اللباس ۶۹ (۵۹۱۵)، م/الحج ۳ (۱۱۸۴)، د/الحج ۱۲ (۱۷۴۷)، ن/الحج ۴۰ (۲۶۸۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۷۶)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۲۱، ۱۳۱) (صحیح)
۳۰۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک پکا رتے ہوے سنا، اس حال میں کہ آپ سر کی تلبیدکیے ہو ئے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
73- بَاب الذَّبْحِ
۷۳- باب: ذبح کرنے کا بیان​


3048- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَعَمْرُو بْنُ عَبْدِاللَّهِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَطَائٍ، عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، وَكُلُّ فِجَاجِ مَكَّةَ طَرِيقٌ وَمَنْحَرٌ، وَكُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَكُلُّ الْمُزْدَلِفَةِ مَوْقِفٌ "۔
* تخريج: د/المناسک ۶۵ (۱۹۳۷)، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۶)، دي/المناسک ۵۰ (۱۹۲۱) (حسن صحیح)
۳۰۴۸- جا بر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''پورامنیٰ قربانی کی جگہ ہے، اور مکہ کی سب گلیاں راستے، قربانی کی جگہیں ہیں، پورا عرفات اور پو را مز دلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے'' ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
74- بَاب مَنْ قَدَّمَ نُسُكًا قَبْلَ نُسُكٍ
۷۴- باب: مناسکِ حج کی تقدیم و تاخیر کا بیان​


3049- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَمَّنْ قَدَّمَ شَيْئًا قَبْلَ شَيْئٍ إِلا يُلْقِي بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا " لا حَرَجَ "۔
* تخريج: خ/العلم ۲۴ (۸۴)، الحج ۱۲۵ (۱۷۲۳)، ۱۳۰ (۱۷۳۵)، الأیمان ۱۵ (۶۶۶۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۹۹)، وقد أخرجہ: م/الحج ۵۷ (۱۳۰۷)، د/الحج ۷۹ (۱۹۸۳)، ن/الحج ۲۲۴ (۳۰۶۹)، حم (۱/۲۱۶، ۲۶۹، ۲۹۱، ۳۰۰، ۳۱۱، ۳۲۸) (صحیح)
۳۰۴۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب بھی اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے حج کے کسی عمل کودوسرے پرمقدم کر دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہا تھوں سے یہی اشارہ کیاکہ'' کو ئی حرج نہیں ''۔


3050- حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّائِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُسْأَلُ يَوْمَ مِنًى فَيَقُولُ: "لاحَرَجَ، لاحَرَجَ "، فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ: " لا حَرَجَ " قَالَ: رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ، قَالَ " لا حَرَجَ "۔
* تخريج: خ/الحج ۱۲۵ (۱۷۲۳)، ۱۳۰ (۱۷۳۵)، د/المناسک ۷۹ (۱۹۸۳)، ن/مناسک الحج ۲۲۴ (۳۰۶۹)، (تحفۃ الأشراف: ۶۰۴۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۱۶، ۲۵۸، ۲۶۹، ۲۹۱، ۳۰۰، ۳۱۱، ۳۸۲) (صحیح)
۳۰۵۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھا جا تا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے : ''کو ئی حرج نہیں، کو ئی حرج نہیں''، ایک شخص نے آکر کہا: میں نے قربانی سے پہلے حلق کر لیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''کوئی با ت نہیں''،دوسرا بولا: میں نے رمی شام کوکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کو ئی با ت نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جمرہ کبری کو کنکری مارنا، ہدی کا جانور ذبح کرنا، بالوں کا حلق (منڈوانا) یا قصر (کٹوانا) پھر طواف افاضہ (طواف زیارت) (یعنی کعبۃ اللہ کا طواف اور صفا ومروہ کی سعی) میں ترتیب افضل ہے مگر باب کی روشنی میں رمی، ذبح حلق اور طواف میں ترتیب باقی نہ رہ جائے تو دم لازم نہیں ہوگا، اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہوگا۔


3051- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ عَمَّنْ ذَبَحَ، قَبْلَ أَنْ يَحْلِقَ أَوْ حَلَقَ قَبْلَ أَنْ يَذْبَحَ قَالَ: " لا حَرَجَ "۔
* تخريج: خ/العلم ۲۳ (۸۳)، الحج ۱۳۱ (۱۷۳۶، ۱۷۳۷)، م/الحج ۵۷ (۱۳۰۶)، د/الحج ۸۸ (۲۰۱۴)، ت/الحج ۷۶ (۹۱۶)، (تحفۃ الأشراف: ۸۹۰۶)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۸۱ (۲۴۲)، حم (۲/۱۵۹، ۱۶۰، ۱۹۲، ۲۰۲، ۲۱۰، ۲۱۷)، دي/المناسک ۶۵ (۱۹۴۸) (صحیح)
۳۰۵۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پو چھا گیا جس نے سرمنڈانے سے پہلے قربانی کر لی، یا قربانی سے پہلے سرمنڈا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کو ئی حرج نہیں''۔


3052- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْمِصْرِيُّ،حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي عَطَائُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ؛ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: قَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِمِنًى يَوْمَ النَّحْرِ لِلنَّاسِ، فَجَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، قَالَ: " لاحَرَجَ " ثُمَّ جَائَهُ آخَرُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! إِنِّي نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " لا حَرَجَ " فَمَا سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْئٍ قُدِّمَ قَبْلَ شَيْئٍ إِلا قَالَ: " لا حَرَجَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۹۸، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۲۶) (حسن صحیح)
۳۰۵۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو منیٰ میں لو گوں (کوحج کے احکام بتانے)کے لیے بیٹھے، توایک شخص آپ کے پاس آیا، اوراس نے عرض کیا: اللہ کے رسول !میں نے ذبح کرنے سے پہلے سرمنڈوالیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''کو ئی حرج نہیں''،پھر دوسرا شخص آیا، اور اس نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' کو ئی حرج نہیں ''،آپ سے اس دن جس چیز کے بارے میں بھی پو چھا گیا جسے کسی چیز سے پہلے کر لیا گیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا: '' کوئی حرج نہیں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : صحیحین میں ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ کے پاس کھڑے تھے، ایک شخص نے آکر کہا: میں نے رمی سے پہلے بال منڈادیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''رمی کر لو کچھ حرج نہیں '' دوسرے نے کہا: میں نے رمی سے پہلے ذبح کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' رمی کر لو کچھ نہیں ہے''، تیسرے نے کہا: میں نے رمی سے پہلے طواف افاضہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''رمی کرلو کچھ حرج نہیں ہے'' ، غرض جس چیز کے متعلق اس دن سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''اب کرلو کچھ حرج نہیں'' اور اہل حدیث کا عمل انہی حدیثوں پر ہے، ان اعمال کی اگر تقدیم و تاخیر سہو سے ہو جائے تو کچھ نقصان نہیں، نہ دم لازم آئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
75- بَاب رَمْيِ الْجِمَارِ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ
۷۵- باب: ایامِ تشریق میں رمی جمار کا بیان​


3053- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ،عَنْ جَابِرٍ؛ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ۔
* تخريج: م/الحج ۵۳ (۱۲۹۹)، د/الحج ۷۸ (۱۹۷۱)، ت/الحج ۵۹ (۸۹۴)، ن/الحج ۲۲۱ (۳۰۶۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۹۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۱۲، ۳۱۹، ۴۰۰)، دي/المناسک ۵۸ (۱۹۳۷) (صحیح)
۳۰۵۳- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومیں نے دیکھا کہ آپ نے جمرۂ عقبہ کی رمی چاشت کے وقت کی، اور اس کے بعد جو رمی کی (یعنی ۱۱،۱۲ اور۱۳ ذی الحجہ) کوتو وہ زوال (سورج ڈھلنے) کے بعدکی۔


3054- حَدَّثَنَا جُبَارَةُ بْنُ الْمُغَلِّسِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، أَبُوشَيْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَرْمِي الْجِمَارَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ ، قَدْرَ مَا إِذَا فَرَغَ مِنْ رَمْيِهِ صَلَّى الظُّهْرَ۔
* تخريج: ت/الحج ۶۲ (۸۹۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۴۸،۲۹۰، ۳۲۸) (ضعیف الإسناد جدّاً)
(سند میں جبارہ ضعیف اورابراہیم بن عثمان متروک الحدیث راوی ہے)
۳۰۵۴- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دسویں ذی الحجہ کے بعد والے دنوںمیں) رمی جمار سورج ڈھلنے کے بعد اس حساب سے کر تے تھے کہ جب آپ اپنی رمی سے فارغ ہوتے، تو ظہر پڑھتے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
76- بَاب الْخُطْبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ
۷۶- باب: یو م النحر کے خطبہ کا بیان​


3055- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ؛ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُوالأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ! أَلا أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ ؟ " ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا: يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ، قَالَ: " فَإِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ " كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلا لا يَجْنِي جَانٍ إِلا عَلَى نَفْسِهِ، وَلا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ، وَلا مَوْلُودٌ عَلَى وَالِدِهِ، أَلا إِنَّ الشَّيْطَانَ قَدْ أَيِسَ أَنْ يُعْبَدَ فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَبَدًا، وَلَكِنْ سَيَكُونُ لَهُ طَاعَةٌ فِي بَعْضِ مَا تَحْتَقِرُونَ مِنْ أَعْمَالِكُمْ، فَيَرْضَى بِهَا، أَلا وَكُلُّ دَمٍ مِنْ دِمَائِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ مَا أَضَعُ مِنْهَا دَمُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ ( كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي لَيْثٍ، فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ) " أَلا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، لَكُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِكُمْ، لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ، أَلا يَا أُمَّتَاهُ ! هَلْ بَلَّغْتُ ؟ " ثَلاثَ مَرَّاتٍ، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ " ثَلاثَ مَرَّاتٍ۔
* تخريج: د/البیوع ۵ (۳۳۳۴)، ت/الفتن ۲ (۲۱۵۹)، تفسیر القرآن ۱۰(۱) (۳۰۸۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۶۹۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۲۶، ۴۸۹) (صحیح)
۳۰۵۵- عمر وبن احو ص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا: '' لوگو! سنو،کو ن سادن زیادہ تقدیس کا ہے'' ؟آپ نے تین بار یہ فرمایا ، لوگوں نے کہا:حج اکبر ۱؎ کا دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزت و آبرو ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن کی، اور تمہارے اس مہینے کی، اور تمہارے اس شہر کی حرمت ہے، جوکوئی جرم کرے گا، تو اس کا مو اخذہ اسی سے ہو گا، باپ کے جرم کا مواخذہ بیٹے سے، اور بیٹے کے جرم کا مواخذہ باپ سے نہ ہو گا، سن لو!شیطان اس بات سے نا امید ہو گیا ہے کہ اب تمہارے اس شہر میں کبھی اس کی عبادت کی جا ئے گی، لیکن عنقریب بعض کا موں میں جن کو تم معمولی جا نتے ہو، اس کی اطاعت ہو گی،وہ اسی سے خو ش رہے گا،سن لو! جاہلیت کے سارے خون معاف کردئیے گئے (اب اس کا مطالبہ و مواخذہ نہ ہو گا)اور میں حارث بن عبدالمطلب کا خو ن سب سے پہلے زمانۂ جاہلیت کے خون میں معاف کرتا ہوں، (جو قبیلہ ٔ بنی لیث میں دودھ پیاکرتے تھے اورقبیلہ ٔ ہذیل نے انہیں شیر خوارگی کی حالت میں قتل کر دیا تھا)سن لو ! جا ہلیت کے تمام سود معاف کر دئیے گئے، تم صرف اپنا اصل مال لے لو، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم ہو، آگا ہ رہو، اے میری امت کے لوگو!کیا میں نے اللہ کا حکم تمہیں پہنچا دیا ہے''؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا، لو گوں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے پہنچا دیا، آپ نے فرمایا:'' اے اللہ !تو گواہ رہ '' اور اسے آپ نے تین بار دہرایا۔
وضاحت ۱؎ : ہرحج کو حج اکبر کہتے ہیں، اور عمرہ کو حج اصغر، رہی بات عوام الناس کی جو ان کے د رمیان مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں، جس میں عرفہ کا دن جمعہ کے دن آئے اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔


3056- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحاقَ، عَنْ عَبْدِالسَّلامِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ؛ قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالْخَيْفِ مِنْ مِنًى، فَقَالَ: " نَضَّرَ اللَّهُ امْرَأً سَمِعَ مَقَالَتِي فَبَلَّغَهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، ثَلاثٌ لايُغِلُّ عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُؤْمِنٍ: إِخْلاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ،وَالنَّصِيحَةُ لِوُلاةِ الْمُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ، فَإِنَّ دَعْوَتَهُمْ تُحِيطُ مِنْ وَرَائِهِمْ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۱۹۸، ومصباح الزجاجۃ:۱۰۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۰) (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے : ۲۳۱) (صحیح)
(سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اور عبدالسلام ضعیف ہیں، لیکن متن صحیح ہے، بلکہ حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو : دراستہ حدیث نضر اللہ ۰۰۰ للشیخ عبد المحسن العباد )
۳۰۵۶- جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں مسجد خیف میں کھڑے ہو ئے اور فرمایا:'' اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جو میری بات سنے، اور اسے لو گوں کو پہنچائے، کیونکہ بہت سے فقہ کی بات سننے والے خود فقیہ نہیں ہوتے، اور بعض ایسے ہیں جو فقہ کی بات سن کر ایسے لو گوں تک پہنچا تے ہیں جو ان سے زیادہ فقیہ ہو تے ہیں، تین باتیں ایسی ہیں جن میں کسی مومن کا دل خیانت نہیں کرتا، ایک اللہ کے لیے عمل خالص کرنے میں، دوسرے مسلمان حکمرانوں کی خیرخو اہی کرنے میں، اور تیسرے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ ملے رہنے میں، اس لیے کہ ان کی دعا انہیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : شیطان کا مکر جماعت پر نہیں چلتا، اور جو جماعت سے الگ رہتا ہے شیطان اسے اچک لیتا ہے۔


3057- حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْمُخَضْرَمَةِ بِعَرَفَاتٍ، فَقَالَ: " أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا، وَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا، وَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا ؟ قَالُوا: هَذَا بَلَدٌ حَرَامٌ، وَشَهْرٌحَرَامٌ، وَيَوْمٌ حَرَامٌ "، قَالَ: " أَلا وَإِنَّ أَمْوَالَكُمْ وَدِمَائَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، أَلا وَإِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الأُمَمَ ، فَلا تُسَوِّدُوا وَجْهِي، أَلا وَإِنِّي مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّي أُنَاسٌ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ ! أُصَيْحَابِي ؟ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لاتَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۱) (صحیح)
۳۰۵۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اور اس وقت آپ عرفات میں اپنی کنکٹی اونٹنی پر سوار تھے: ''کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے، اورکون سا مہینہ ہے، اور کو ن سا شہر ہے'' ؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ حرمت والا شہر،حرمت والا مہینہ، اور حرمت والا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''سنو!تمہا رے مال اور تمہارے خون بھی ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارا یہ مہینہ تمہا رے اس شہر میں اور تمہا رے اس دن میں، سنو! میں حوض پر تمہا را پیش رو ہوں گا، اور تمہا ری کثرت کے سبب دوسری امتوں پر فخر کروں گا،توتم مجھے رو سیاہ مت کرنا، سنو!کچھ لو گوں کو میں( عذاب کے فرشتوں یا جہنم سے) نجات دلاؤں گا، اور کچھ لوگ مجھ سے چھڑائے جا ئیں گے (فرشتے مجھ سے چھین کر انہیں جہنم میں لے جائیں گے)، میں کہوں گا: یا رب! یہ میرے صحابہ ہیں وہ فرمائے گا:آپ نہیں جا نتے جو انہوں نے آپ کے بعد بدعتیں ایجاد کی ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : آپ کی وفات کے بعد اسلام سے پھر گئے، مسلمانوں کو مارا ،اور اصحاب سے مراد یہ ہے کہ میری امت کے لوگ ہیں۔


3058- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ الْغَازِ؛ قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ وَقَفَ يَوْمَ النَّحْرِ بَيْنَ الْجَمَرَاتِ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي حَجَّ فِيهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ " قَالُوا: يَوْمُ النَّحْرِ، قَالَ: " فَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟ " قَالُوا: هَذَا بَلَدُ اللَّهِ الْحَرَامُ، قَالَ: " فَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا ؟ " قَالُوا: شَهْرُ اللَّهِ الْحَرَامُ، قَالَ: " هَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ، وَدِمَاؤُكُمْ وَأَمْوَالُكُمْ وَأَعْرَاضُكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ هَذَا الْبَلَدِ، فِي هَذَا الشَّهْرِ فِي هَذَا الْيَوْمِ " ثُمَّ قَالَ: " هَلْ بَلَّغْتُ ؟ " قَالُوا: نَعَمْ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اشْهَدْ " ثُمَّ وَدَّعَ النَّاسَ، فَقَالُوا: هَذِهِ حَجَّةُ الْوَدَاعِ ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۳۲(۱۷۴۲ تعلیقاً)، د/المناسک ۶۷ (۱۹۴۵)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۱۴) (صحیح)
۳۰۵۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیادسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا:''آج کون سا دن ہے''؟لو گوں نے عرض کیا :یہ یوم النحر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''یہ کون سا شہر ہے'' ؟ لوگوں نے عرض کیا :یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' یہ کون سا مہینہ ہے'' ؟ لو گوں نے عرض کیا:یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خو ن ،تمہا رے مال، تمہا ری عزت وآبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہرکی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے''، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو ) پہنچا دئیے ہیں'' ؟ لو گوں نے عرض کیا: ہا ں، (آپ نے پہنچا دئیے )پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے: ''اے اللہ! تو گواہ رہ''، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا ،تو لوگوں نے کہا :یہ حجۃ الووداع یعنی الوداعی حج ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ کا آخری حج ہے، اس کے بعد آپ ہمیں جدائی کا داغ دے جائیں گے، نیز اس حج کے تھوڑے دنوں کے بعد آپ کی وفات ہوئی اس واسطے اس کو حجۃ الوواع کہتے ہیں۔
 
Top