• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
77- بَاب زِيَارَةِ الْبَيْتِ
۷۷- باب: طواف زیارت کا بیان​


3059- حَدَّ ثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ طَارِقٍ عَنْ طَاوُسٍ وَأَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَاءِشَةَ وَابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ۔
* تخريج: حدیث ابن عباس أخرجہ: خ/ الحج ۱۲۹ (۱۷۳۲ تعلیقاً)، د/المناسک ۸۲ (۲۰۰۰)، ت/الحج ۸۰(۹۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۵۲، ۱۷۵۹۴)، حدیث عائشہ تقدم تخریجہ في حدیث ابن عباس، وحدیث طاوس تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۸۴۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۸۸) (شاذ)
(اس حدیث کی سند میں ابو الزبیر مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، ترمذی اور منذری نے اس حدیث کی تحسین کی ہے، اور ابن القیم نے اس کو وہم کہا ہے، اور البانی صاحب نے شاذ کا حکم لگایا ہے ، اس لیے کہ صحیح ترین احادیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارہ (افاضہ) زوال کے بعد کیا تھا، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۴/ ۳۶۴ - ۳۶۵ و ضعیف أبی داود : ۳۴۲ )
۳۰۵۹- ام المومنین عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت میں رات تک تاخیرفرمائی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دسویں تاریخ کے طواف کو طواف زیارت یا طواف افاضہ کہتے ہیں۔


3060- حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَائٍ،عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ، قَالَ عَطَائٌ: وَلارَمَلَ فِيهِ۔
* تخريج: د/المناسک ۸۳ (۲۰۰۱)، (تحفۃ الأشراف: ۵۹۱۷) (صحیح)
۳۰۶۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا ۱؎ ۔
عطا کہتے ہیں کہ طواف افاضہ میں رمل نہیں ہے ۔
وضاحت ۱؎ : رمل طواف قدوم میں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
78- بَاب الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ
۷۸- باب: زمزم کا پانی پینے کا بیان​


3061- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ ُثْمَانَ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ؛ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ جَالِسًا، فَجَائَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: مِنْ أَيْنَ جِئْتَ؟ قَالَ: مِنْ زَمْزَمَ، قَالَ: فَشَرِبْتَ مِنْهَا كَمَا يَنْبَغِي ؟ قَالَ: وَكَيْفَ ؟ قَالَ: إِذَا شَرِبْتَ مِنْهَا فَاسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ، وَاذْكُرِ اسْمَ اللَّهِ، وَتَنَفَّسْ ثَلاثًا، وَتَضَلَّعْ مِنْهَا، فَإِذَا فَرَغْتَ، فَاحْمَدِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ: قَالَ: " إِنَّ آيَةَ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُنَافِقِينَ، أَنَّهُمْ لا يَتَضَلَّعُونَ مِنْ زَمْزَمَ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۶۴۴۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۳) (ضعیف)
(سندمیں اختلاف کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، ملاحظہ ہو : الإروا ء : ۱۱۲۵)
۳۰۶۱- محمدبن عبدالرحمن بن ابی بکر کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا، تو انہوں نے پو چھا کہ تم کہاں سے آئے ہو؟اس نے کہا: زمزم کے پا س سے، پوچھا: تم نے اس سے پیا جیسا پینا چاہئے، اس نے پو چھا: کیسے پینا چاہیے؟ کہا: جب تم زمزم کا پانی پیو تو کعبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہو اور اللہ کا نام لو، اور تین سانس میں پیو، اور خوب آسودہ ہو کر پیو، پھر جب فارغ ہوجاؤ تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:'' ہمارے اور منافقوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ وہ سیر ہو کر زمزم کا پانی نہیں پیتے''۔


3062- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ؛ قَالَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ الْمُؤَمَّلِ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الزُّبَيْرِ يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِاللَّهِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: " مَائُ زَمْزَمَ لِمَا شُرِبَ لَهُ "۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۷۸۴، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۵۷، ۳۷۲) (صحیح)
(اس سند میں عبد اللہ بن مؤمل ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق کی وجہ سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو : الإرواء : ۱۱۲۳)۔
۳۰۶۲- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوے سنا : ''زمزم کا پانی اس مقصد اور فائدے کے لیے ہے جس کے لیے وہ پیا جائے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اگر آدمی زمزم کاپانی شفا کے لیے پئے تو شفا حاصل ہوگی ،اگر پیٹ بھر نے کے لئے تو کھانے کی احتیاج نہ ہوگی، اگر پیاس بجھا نے کے لیے پئے تو پیاس دور ہو جائے گی، بہرحال جس نیت سے پئے گا وہی فائدہ اللہ چاہے تو حاصل ہوگا ،خواہ دنیا کا فائدہ ہو یا آخرت کا ،صحیح کہا اور بہت سے ائمہ دین نے زمزم کو مختلف اغراض سے پیا ہے اور جو غرض تھی ، وہ حاصل ہوئی ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
79- بَاب دُخُولِ الْكَعْبَةِ
۷۹- باب: کعبہ کے اندر داخلے کا بیان​


3063- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ،حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْوَاحِدِ عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الْفَتْحِ الْكَعْبَةَ، وَمَعَهُ بِلالٌ وَعُثْمَانُ بْنُ شَيْبَةَ، فَأَغْلَقُوهَا عَلَيْهِمْ مِنْ دَاخِلٍ، فَلَمَّا خَرَجُوا سَأَلْتُ بِلالا: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ؟ فَأَخْبَرَنِي أَنَّهُ صَلَّى عَلَى وَجْهِهِ، حِينَ دَخَلَ بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ، عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ لُمْتُ نَفْسِي أَنْ لا أَكُونَ سَأَلْتُهُ: كَمْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ؟۔
* تخريج: خ/الصلاۃ ۳۰ (۳۹۷)،۸۱ (۴۸۶)، ۹۶ (۵۰۴)، التھجد ۲۵ (۱۱۶۷)، الحج ۵۱ (۱۵۹۸)، الجہاد ۱۲۷ (۲۶۸۸)، المغازي ۴۹ (۴۲۸۹)، ۷۷ (۴۴۰۰)، م/الحج ۶۸ (۱۳۲۹)، د/الحج ۹۳ (۲۰۲۳)، ت/الحج ۴۶ (۸۷۴)، ن/المساجد ۵ (۶۹۳)، القبلۃ ۶ (۷۵۰)، الحج ۱۲۶ (۲۹۰۸)، ۱۲۷ (۲۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۰۳۷)، وقد أخرجہ: ط/الحج ۶۳ (۱۹۳)، حم (۲/۳۳، ۵۵، ۱۱۳،۱۲۰، ۱۳۸، ۶/۱۲، ۱۳، ۱۴، ۱۵)، دي/المناسک ۴۳ (۱۹۰۸) (صحیح)
۳۰۶۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن کعبہ کے اند ر تشریف لے گئے، آپ کے ساتھ بلال اورعثمان بن شیبہ رضی اللہ عنہما بھی تھے، پھر ان لوگوں نے اندر سے دروازہ بند کرلیا، جب وہ لو گ باہر نکلے تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پو چھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں صلاۃ پڑھی ؟تو انہوں نے مجھے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منہ کے سامنے ہی صلاۃ پڑھی، جب دونوں ستو نوں کے درمیان تشریف لے گئے، پھر میں نے اپنے آپ پر اس بات پر ملامت کی کہ میں نے ان سے یہ کیوں نہ پو چھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھیں؟ ۔


3064- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِسْماعِيلُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ عَنِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: خَرَجَ النَّبِيُّ ﷺ مِنْ عِنْدِي وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ، طَيِّبُ النَّفْسِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! خَرَجْتَ مِنْ عِنْدِي وَأَنْتَ قَرِيرُ الْعَيْنِ، وَرَجَعْتَ وَأَنْتَ حَزِينٌ ؟ فَقَالَ: " إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ، وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ، إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي "۔
* تخريج: د/المناسک ۹۵ (۲۰۲۹)، ت/الحج ۴۵ (۸۷۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۳۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۳۷) (ضعیف)
(سندمیں اسماعیل بن عبد الملک منکر راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو : الضعیفہ : ۳۳۴۶)۔
۳۰۶۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے نکلے، آپ بہت خوش اورہشاش بشاش تھے، پھر میرے پاس واپس آئے توآپ غمگین تھے، یہ دیکھا تو میں نے عرض کیا :اللہ کے رسول !کیا بات ہے، ابھی میرے پاس سے آپ نکلے تو آپ بہت خوش تھے، اور واپس آئے ہیں تو غمگین ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''میں کعبہ کے اندر گیا، پھر میرے جی میں آیا کہ کا ش میں نے ایسا نہ کیا ہو تا، میں ڈرتا ہو ں کہ اپنے بعد میں اپنی امت کو مشقت میں نہ ڈال دوں''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
80- بَاب الْبَيْتُوتَةِ بِمَكَّةَ لَيَالِي مِنًى
۸۰- باب: منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کا بیان​


3065- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ عَنْ نَافِعٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ أَيَّامَ مِنًى، مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، فَأَذِنَ لَهُ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۳۳ (۱۷۴۵)، م/الحج ۶۰ (۱۳۱۵)، د/المناسک ۷۵ (۱۹۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۷۹۳۹)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۲)، دي/المناسک ۹۱ (۱۹۸۶) (صحیح)
۳۰۶۵- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں کو مکہ میں گزارنے کی اجا زت ما نگی، کیونکہ زمزم کے پلا نے کا کام ان کے سپرد تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجا زت دیدی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : عذر کی وجہ سے ا جازت خاص طور پر تھی ورنہ ہر شخص کو منیٰ کی دنوں میں یہ ضروری ہے کہ رات منیٰ میں بسر کرے۔


3066- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ؛ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ إِسْماعِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَطَائٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: لَمْ يُرَخِّصِ النَّبِيُّ ﷺ لأَحَدٍ يَبِيتُ بِمَكَّةَ، إِلا لِلْعَبَّاسِ، مِنْ أَجْلِ السِّقَايَةِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۸۸۲، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۵) (ضعیف الإسناد)
(سند میں اسماعیل بن مسلم ضعیف راوی ہے )
۳۰۶۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (منیٰ کے دنوںمیں) کسی کو مکہ میں رات گزارنے کی اجازت نہیں دی سوائے عباس کے، کیونکہ حا جیوں کو پانی پلانے کا کام ان کے سپر د تھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
81- بَاب نُزُولِ الْمُحَصَّبِ
۸۱- باب: وادیء محصب میں اتر نے کا بیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : مکہ اور منیٰ کے درمیان ایک وادی ہے جسے محصب بھی کہا جاتا ہے۔


3067- حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، وَعَبْدَةُ، وَوَكِيعٌ، وَأَبُومُعَاوِيَةَ، (ح) و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، (ح) وحَدَّثَنَا أَبُوبَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، كُلُّهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: إِنَّ نُزُولَ الأَبْطَحِ لَيْسَ بِسُنَّةٍ، إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِيَكُونَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ۔
* تخريج: حدیث أبي بکر بن أبي شیبۃ أخرجہ: م/الحج ۵۹ (۱۳۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۷۸۸)، وباقی الإسناد وتفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۰۹۵، ۱۷۲۳۳، ۱۷۲۸۶، ۱۷۳۰۰)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۴۷ (۱۷۶۵)، د/المناسک ۸۷ (۲۰۰۸)، ت/الحج ۸۲ (۹۲۳) (صحیح)
۳۰۶۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ابطح میں اترنا سنت نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اس لیے اترے تھے کہ وہاں سے مدینہ کے لیے روانگی میں آسانی ہو۔


3068- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ عَمَّارِ بْنِ زُرَيْقٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتِ: ادَّلَجَ النَّبِيُّ ﷺ لَيْلَةَ النَّفْرِ مِنَ الْبَطْحَائِ ادِّلاجًا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۶۰، ومصباح الزجاجۃ : ۱۰۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۸) (صحیح)
۳۰۶۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روانگی کی رات بطحا ء کی طرف سے (مدینہ کے لیے) رات ہی کو چل پڑے ۔


3069- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا عُبَيْدُاللَّهِ عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ بِالأَبْطَحِ۔
* تخريج: خ/الحج ۱۴۸ (۱۷۶۸) مختصراً، م/الحج ۵۹ (۱۳۱۰)، ت/الحج ۸۱ (۹۲۱)، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۹) (صحیح)
۳۰۶۹- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم ابطح میں اترا کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
82- بَاب طَوَافِ الْوَدَاعِ
۸۲- باب: طوافِ وداع کا بیان​


3070- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ طَاوُسٍ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ؛ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ كُلَّ وَجْهٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " لا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ "۔
* تخريج: م/الحج ۶۷ (۱۳۲۷)، د/المناسک ۸۴ (۲۰۰۲)، (تحفۃ الأشراف: ۵۷۰۳)، وقد أخرجہ: خ/الحج ۱۴۴ (۱۷۵۵)، حم (۱/۲۲۲)، دي/المناسک ۸۵ (۱۹۷۴) (صحیح)
۳۰۷۰- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لو گ ہر طرف کوجارہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''کو ئی کو چ نہ کرے یہاں تک کہ اس کاآخری کام بیت اللہ کا طواف ہو''۔


3071- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ طَاوُسٍ،عَنِ ابْنِ عُمَرَ؛ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَنْ يَنْفِرَ الرَّجُلُ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۱۰۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۷) (صحیح)
(سند میں ابراہیم بن یزید الخوزی المکی منکر الحدیث راوی ہیں، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پاکریہ صحیح ہے )
۳۰۷۱- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ آدمی کو چ کرے یہاں تک کہ اس کاآخری کام خانہ ٔ کعبہ کا طواف ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
83- بَاب الْحَائِضِ تَنْفِرُ قَبْلَ أَنْ تُوَدِّعَ
۸۳- باب: حا ئضہ طوافِ وداع سے پہلے جاسکتی ہے​


3072- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ،عَنْ عَاءِشَةَ، (ح) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَعُرْوَةَ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: حَاضَتْ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ، قَالَتْ عَاءِشَةُ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: " أَحَابِسَتُنَا هِيَ ؟ " فَقُلْتُ: إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ ثُمَّ حَاضَتْ بَعْدَ ذَلِكَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " فَلْتَنْفِرْ "۔
* تخريج: حدیث أبيبکر بن أبيشیبۃ تفردبہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف:۱۶۴۵۰)، وحدیث أبي سلمۃ أخرجہ:خ/الحیض ۲۷ (۳۲۸)، م/الحج ۶۷ (۱۲۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۷۶۸) وحدیث عروۃ أخرجہ: م/الحج ۶۷ (۱۲۱۱)،(تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۷)، وقد أخرجہ: د/المناسک ۸۵ (۲۰۰۳)، ت/الحیض ۹۹ (۳۹۱)، ن/الحیض ۲۳ (۳۹۱)، ط/الحج ۷۵ (۲۲۵)، حم (۶/۳۸، ۳۹، ۸۲، ۹۹، ۱۲۲، ۱۶۴، ۱۷۵، ۱۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷، ۲۱۳، ۲۲۴)، دي/المناسک ۷۳ (۱۹۵۸) (صحیح)
۳۰۷۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المومنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہوگئیں ، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''کیا وہ ہمیں روک لے گی'' ؟ میں نے کہا: وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں اس کے بعد حا ئضہ ہو ئی ہیں، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''تو پھر چلو روانہ ہو ''۔


3073- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ؛ قَالا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَفِيَّةَ فَقُلْنَا: قَدْ حَاضَتْ فَقَالَ: " عَقْرَى ! حَلْقَى ! مَا أُرَاهَا إِلا حَابِسَتَنَا " فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهَا قَدْ طَافَتْ يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: " فَلا، إِذَنْ، مُرُوهَا فَلْتَنْفِرْ "۔
* تخريج: خ/الحج ۱۵۱ (۱۷۷۱)، م/۱۷ (۱۲۱۱)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۴۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۲۴، دي/المناسک ۷۳ (۱۹۵۸) (صحیح)
۳۰۷۳- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو ہم نے کہا: انہیں حیض آگیاہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''بانجھ ،سر منڈ ی! میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ سے ہمیں رکنا پڑے گا''،میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ دسویں کو طواف افاضہ کر چکی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' تب تو پھر ہمیں رکنے کی ضرورت نہیں،اس سے کہوکہ وہ روا نہ ہو'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : جب حائضہ طواف افاضہ کر چکی ہو تو طواف وداع اس پر لازم نہیں ہے، اور ہم نے عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ، اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے یہ ر وایت کیا ہے کہ انہوں نے طواف وداع کے لیے حائضہ کو ٹھہرنے کا حکم کیا ہے گویا انہوں نے اس کو طواف افاضہ کی طرح و اجب سمجھا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
84- بَاب حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۸۴- باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان​


3074- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ،حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ ؛ قَالَ : دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهِ سَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ ، حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ ، فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَحَلَّ زِرِّي الأَعْلَى، ثُمَّ حَلَّ زِرِّي الأَسْفَلَ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلامٌ شَابٌّ ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِكَ ، سَلْ عَمَّا شِئْتَ ، فَسَأَلْتُهُ ، وَهُوَ أَعْمَى، فَجَائَ وَقْتُ الصَّلاةِ ، فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا، كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبَيْهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ ، مِنْ صِغَرِهَا ، وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَانِبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ ، فَصَلَّى بِنَا، فَقُلْتُ : أَخْبِرْنَا عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِيَدِهِ ، فَعَقَدَ تِسْعًا وَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ، فَأَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي لْعَاشِرَةِ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حَاجٌّ ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ، كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَيَعْمَلَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ ، فَأَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ، فَوَلَدَتْ أَسْمَاء بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ: كَيْفَ أَصْنَعُ ؟ قَالَ : " اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي "، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَائَ ، حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَائِ (قَالَ جَابِرٌ:) نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ ، بَيْنَ رَاكِبٍ وَمَاشٍ ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلُ ذَلِك ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلُ ذَلِكَ ، وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ، وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ، مَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْئٍ عَمِلْنَا بِهِ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ! لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ،إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لاشَرِيكَ لَكَ "، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ تَلْبِيَتَهُ، قَالَ جَابِرٌ : لَسْنَا نَنْوِي إِلا الْحَجَّ ، لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ ، فَرَمَلَ ثَلاثًا ، وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ قَامَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ ، فَقَالَ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى}، فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: (وَلا أَعْلَمُهُ إِلا ذَكَرَهُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ) إِنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ : {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ} وَ {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْبَيْتِ فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا ، حَتَّى إِذَا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاءِرِ اللَّهِ}، نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ ، فَكَبَّرَ اللَّهَ وَهَلَّلَهُ وَحَمِدَهُ ، وَقَالَ : " لاإِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ " ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ وَقَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ فَمَشَى حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ ، رَمَلَ فِي بَطْنِ الْوَادِي ، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا (يَعْنِي قَدَمَاهُ) مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ ، فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، فَلَمَّا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ قَالَ : " لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقِ الْهَدْيَ ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً " ، فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلا النَّبِيَّ ﷺ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لأَبَدِ الأَبَدِ؟ قَالَ : فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَصَابِعَهُ فِي الأُخْرَى وَقَالَ : " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ هَكَذَا " مَرَّتَيْنِ " لا، بَلْ لأَبَدِ الأَبَدِ " قَالَ: وَقَدِمَ عَلِيٌّ بِبُدْنِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ مِمَّنْ حَلَّ، وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا ، وَاكْتَحَلَتْ ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا عَلِيٌّ ، فَقَالَتْ : أَمَرَنِي أَبِي بِهَذَا ، فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ : فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ فِي الَّذِي صَنَعَتْهُ مُسْتَفْتِيًا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي الَّذِي ذَكَرَتْ عَنْهُ ، وَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَ : "صَدَقَتْ، صَدَقَتْ، مَاذَا قُلْتُ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ ؟ " قَالَ : قُلْتُ : اللَّهُمَّ ! إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ ﷺ، قَالَ : " فَإِنَّ مَعِي الْهَدْيَ ، فَلا تَحِلَّ "، قَالَ : فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي جَائَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ ﷺ مِنَ الْمَدِينَةِ مِائَةً، ثُمَّ حَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلا النَّبِيَّ ﷺ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَتَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى، أَهَلُّوا بِالْحَجِّ فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى بِمِنًى، الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ وَالصُّبْحَ ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ فَضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، لا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ أَوِ الْمُزْدَلِفَةِ ، كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ ، فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَنَزَلَ بِهَا، حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ ، أَمَرَ بِالْقَصْوَائِ فَرُحِلَتْ لَهُ، فَرَكِبَ حَتَّى أَتَى بَطْنَ الْوَادِي، فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ : " إِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا ، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا ، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا ، أَلا وَإِنَّ كُلَّ شَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ تَحْتَ قَدَمَيَّ هَاتَيْنِ ، وَدِمَائُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعُهُ دَمُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ ،(كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ)، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُهُ رِبَانَا، رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَائِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانَةِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ لَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَمْ تَضِلُّوا إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ: كِتَابَ اللَّهِ، وَأَنْتُمْ مَسْئُولُونَ عَنِّي، فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ ؟ "، قَالُوا : نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ إِلَى السَّمَائِ وَيَنْكُبُهَا إِلَى النَّاسِ : " اللَّهُمَّ ! اشْهَدِ، اللَّهُمَّ ! اشْهَدْ " ، ثَلاثَ مَرَّاتٍ ، ثُمَّ أَذَّنَ بِلالٌ ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ إِلَى الصَّخَرَاتِ ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلا، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ خَلْفَهُ ، فَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ شَنَقَ الْقَصْوَائَ بِالزِّمَامِ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى : " أَيُّهَا النَّاسُ ! السَّكِينَةَ، السَّكِينَةَ "، كُلَّمَا أَتَى حَبْلا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلا حَتَّى تَصْعَدَ ، ثُمَّ أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَائَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ ، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، فَصَلَّى الْفَجْرَ، حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَائَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ ، فَرَقِيَ عَلَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا، ثُمَّ دَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ الْعَبَّاسِ، وَكَانَ رَجُلا حَسَنَ الشَّعَرِ، أَبْيَضَ وَسِيمًا، فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مَرَّ الظُّعُنُ يَجْرِينَ ، فَطَفِقَ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الآخَرِ، فَصَرَفَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الآخَرِ يَنْظُرُ، حَتَّى أَتَى مُحَسِّرًا حَرَّكَ قَلِيلا، ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تُخْرِجُكَ إِلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى، حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ ، فَرَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ، وَرَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ، فَنَحَرَ ثَلاثًا وَسِتِّينَ بَدَنَةً بِيَدِهِ، وَأَعْطَى عَلِيًّا، فَنَحَرَ مَا غَبَرَ، وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ، فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ، فَطُبِخَتْ فَأَكَلا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، ثُمَّ أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى الْبَيْتِ ، فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ وَهُمْ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ ، فَقَالَ: " انْزَعُوا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ ! لَوْلا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ "، فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ۔
* تخريج: م/الحج ۱۹ (۱۲۱۸) بلفظ: ''ابدا'' وھوالصواب، د/الحج ۵۷ (۱۹۰۵، ۱۹۰۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۵۹۳)، وقد أخرجہ: ن/الحج ۴۶ (۲۷۱۳)، ۵۱ (۲۷۴۱)، ۵۲ (۲۷۴۴)، ۷۳ (۲۸۰۰)، حم (۳/۳۲۰، ۳۳۱، ۳۳۳، ۳۴۰، ۳۷۳، ۳۸۸، ۳۹۴، ۳۹۷)، دي/المناسک ۱۱ (۱۸۴۶) (صحیح)
۳۰۷۴- جعفر الصادق اپنے والد محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں پو چھا کہ کون لوگ ہیں، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے پوچھا،میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہا تھ میرے سر کی طرف بڑھا یا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی کھولی پھر اپنی ہتھیلی میری دونوں چھا تیوں کے درمیان رکھی، میں ان دنوں نو جوان لڑکا تھا، اور کہا: تمہیں خو ش آمدید، تم جو چاہو پوچھو،میں نے ان سے (کچھ باتیں ) پوچھیں، وہ نابینا تھے ۱؎ اتنے میں صلاۃ کا وقت ہوگیا ،وہ ایک بنی ہو ئی چادر جسے جسم پر لپیٹے ہوئے تھے اوڑھ کر کھڑے ہو ئے، جب اس کے دونوں کنارے اپنے کندھوں پر ڈالتے تو اس کے دونوں کنارے ان کی جا نب واپس آجا تے ( کیونکہ چادر چھو ٹی تھی)اور ان کی بڑی چادر ان کے پاس ہی میز پر رکھی ہو ئی تھی، انہوں نے ہمیں صلاۃ پڑھائی، پھر میں نے ان سے کہا: آپ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا حال بتا ئیے، تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو(۹) کی گرہ بنائی (یعنی خنصر ، بنصرادر وسطی کا سرا ہتھیلی سے لگا لیا )اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں )ٹھہرے رہے، آپ نے حج نہیں کیا، پھر( ہجرت )کے دسویں سال لو گوں میں اعلان کیا کہ اس سال آپ حج کو جائیں گے، تو مدینہ میں (اطراف سے) بہت سے لو گ (آپ کے ساتھ حج میں شریک ہو نے کے لیے ) آگئے، سب کی یہ خواہش تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں، اور جو کام آپ کریں وہی وہ بھی کریں، خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ نکلے، ہم ذو الحلیفہ پہنچے تو اسما ء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے یہاں محمدبن ابی بکر کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھو ایا کہ میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''غسل کرلواور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام کی نیت کرلو''، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالحلیفہ )مسجد میں صلاۃ ادا کی، پھر قصواء نامی اونٹنی پر سوار ہو گئے، یہاں تک کہ جب وہ آپ کو لے کر مقام بیداء میں سیدھی کھڑی ہوئی تو جہا ں تک میری نگاہ گئی میں نے آپ کے سامنے سوار اور پاپیادہ لوگوں کو ہی دیکھا،اور دائیں بائیں اور پیچھے بھی ایسے ہی لو گ نظر آرہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہما رے درمیان تھے ۲؎ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتر تا تھا، آپ اس کے معانی کو سمجھتے تھے، آپ جو کام کرتے تھے ہم بھی وہی کرتے تھے، آپ نے توحیدپر مشتمل تلبیہ پکارا '' لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ . لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ . إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ ، وَالْمُلْكَ لا شَرِيكَ لَكَ '' (حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، حمد وثناء، نعمتیں اور فرماںروائی تیری ہی ہے، تیرا ان میں کوئی شریک نہیں) تو لوگوں نے بھی انہیں الفاظ میں تلبیہ پکارا جن میں آپ پکا ررہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے کسی الفاظ کی تبدیلی نہیں فرمائی۳؎، آپ یہی تلبیہ پکا رتے رہے، ہمارے پیش نظر صرف حج تھا، ہم عمرہ جا نتے بھی نہ تھے ۴ ؎ (یعنی اس کا سرے سے کو ئی خیال ہی نہیں تھا)یہا ں تک کہ جب ہم خا نہ کعبہ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا، اور طواف میں تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس جا کر کھڑے ہوئے، اور آیت کریمہ : {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} (تم مقام ابراہیم کو جائے صلاۃ مقرر کرلو) پڑھی ۵؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کو اپنے اورخا نہ کعبہ کے درمیان کیا۔
جعفرکہتے ہیں کہ میرے والد کہتے تھے اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے : آپ (طواف کی)دونوں رکعتوں میں: {قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ } { وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ } ( آپ کہہ دیجئے اے کافرو!) ( آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالی ایک ہی ہے ) پڑھ رہے تھے ۶؎ ۔
پھر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) لوٹ کر خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور حجر اسود کا استلام کیا، پھرباب صفا سے صفا پہاڑی کی طرف نکلے یہاں تک کہ جب صفا کے قریب ہو ئے تو : {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَاءِرِ اللَّهِ} (صفا اور مروہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں) پڑھی اور فرمایا: ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالی نے شروع کیا ہے، چنا نچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سعی) صفا سے شروع کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبل صفا چڑھے یہاں تک کہ خانہ کعبہ نظر آنے لگا تو ''الله أكبر لا إله إلا الله اورالحمد لله'' پڑھا، اور فرمایا:'' لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ ، لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ لاشَرِيكَ لَهُ ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ '' (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی ساجھی نہیں، ساری بادشاہت اسی کے لیے ہے، اور تمام قسم کی تعریفیں اسی کے لیے سزاوار ہیں، وہی زندگی عطا کرتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے، اللہ تعالی کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اور اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا بہت سی جماعتوں کو شکست دی)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے درمیان دعا فرما ئی اوریہ کلمات تین بار دہرائے، پھر آپ (صفا سے ) اتر کر مروہ کی طرف چلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا ئوں وادی کے نشیب میں اترنے لگے تو آپ نے رمل کیا (یعنی مونڈھے ہلاتے ہو ئے دوڑ کر چلے)، پھر جب چڑھا ئی پر پہنچے تو عام چال چل کر مروہ تک آئے، اور مروہ پر بھی آپ نے ویسے ہی کیا جیسے صفا پر کیا تھا، پھر جب آپ کا آخری پھیرا مروہ پرختم ہو ا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' اگر مجھے وہ بات پہلے معلوم ہو گئی ہو تی جو بعد میں معلوم ہو ئی تو میں ہدی اپنے ساتھ نہ لا تا، اور حج کو عمرہ میں بدل دیتا، لہٰذا تم میں سے جس آدمی کے ساتھ ہدی (کے جانور) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے، اور اس کو عمرہ میں تبدیل کر لے''، یہ سن کر لو گوں نے احرام کھو ل دیا، اور بال کتروا لیے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔
پھر سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ حکم ہمارے لیے صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہا تھ کی انگلیوں میں داخل کیں اور دوبار فرمایا:'' عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہو گیا ہے''، اور فرمایا:'' صرف اس سال کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے''۔
علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے اونٹ(یمن ) سے لے کر آئے تو انہوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان لوگوں میں سے پا یا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑا پہنے ہو ئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، تو اس پر انہوں نے نا گواری کا اظہار کیا ،تو فاطمہ رضی اللہ عنہا بولیں: میرے والد نے مجھے اس کا حکم دیا ہے۔
چنا نچہ علی رضی اللہ عنہ (اپنے ایام خلافت میں)عراق میں فرما رہے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فا طمہ رضی اللہ عنہا نے کر رکھا تھا، غصہ میں بھرا ہو ا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس چیز کے متعلق پو چھنے کے لیے آیا جو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے متعلق بتا ئی تھی، اور جس پرمیں نے نا گواری کا اظہار کیا تھا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' ہاں، وہ سچ کہتی ہے، ہاں، وہ سچ کہتی ہے''، اور'' جب تم نے حج کی نیت کی تھی توتم نے کیا کہا تھا'' ؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے یوں کہا تھا: اے اللہ! میں وہی تلبیہ پکارتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:'' میرے ساتھ تو ہدی ہے تو اب تم حلال نہ ہو''۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو قربانی کے وہ اونٹ جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے تھے، اور وہ اونٹ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو تھے، پھر سارے لوگ حلال ہوگئے، اورانہوں نے بال کترو ا لیے سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لو گوں کے جن کے ساتھ ہدی کے جانور تھے۔
پھر جب یوم الترویہ (ذی الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو حج کا تلبیہ پکار کر لو گ منیٰ کی طرف چلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر وہاں ظہر ،عصر، مغرب ،عشاء اور فجر کی صلاۃ ادا کیں، ( نوویں ذی الحجہ کو فجر کے بعد) تھوڑی دیر رکے رہے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، اوربال کے خیمے کے متعلق حکم دیا کہ اسے نمرہ میں لگا یا جا ئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور قریش کو اس میں شک نہیں تھاکہ آپ مشعر حرام ۷؎ یا مزدلفہ کے پاس ٹھہریں گے، جیسا کہ قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے ۸؎، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پا ر کر کے عرفات میں جا پہنچے، دیکھا توخیمہ نمرہ میں لگا ہو اہے، آپ وہیں اتر پڑے، جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء (اونٹنی ) پر کجا وہ کسے جانے کا حکم دیا، آپ اس پر سوار ہو کر وادی کے نشیب میں آئے، اور خطبہ دیا،اس میں فرمایا: ''تمہا رے خون، تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارایہ دن تمہارے اس مہینے اور تمہارے اس شہر میں، سن لو !جا ہلیت کی ہر چیز میرے ان دونوںپائوں کے تلے رکھ کر رونددی گئی، اور جا ہلیت کے سارے خون معاف کر دئیے گئے، اور سب سے پہلا خون جس کو میں معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کا خون ہے، وہ بنی سعد میں دودھ پی رہے تھے کہ شیر خوارگی ہی کی حالت میں ہذیل نے انہیں قتل کر دیا تھا، اور جا ہلیت کے سارے سود بھی معاف کر دئیے گئے اور اپنے سودوں میں سے پہلا سود جس کو میں معاف کر تا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے، وہ سب معاف ہے۔
اور عورتوں کے سلسلہ میں تم اللہ تعالی سے ڈرو، تم نے انہیں اللہ تعالی کے امان اور عہد سے اپنے عقد میں لیا ہے، اور تم نے ان کی شرمگا ہوں کو اللہ کے کلام سے حلال کیا ہے، لہٰذا تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستراس شخص کو روندنے نہ دیں جن کو تم برا جانتے ہو ۹؎ ،اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن ایسی سخت مار نہیں کہ جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جا ئے ،ان کا حق تمہارے اوپر یہ ہے کہ تم ان کو دستور وعرف کے مطابق روٹی اور کپڑا دو، میں تم میں وہ چیز چھوڑے جارہا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو گمراہ نہ ہو گے، اور وہ اللہ کی کتاب (قرآن) ہے، اور تم سے میرے بارے میں پو چھا جائے گا تو بتائو، تم کیا کہوگے؟ لوگوں نے کہا :ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا حکم پہنچا دیا اور ذمہ داری ادا کردی! اور آپ نے ہماری خیر خواہی کی، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت والی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیاپھر آپ اسے لوگوں کی طرف جھکا رہے تھے اور فرما تے جاتے تھے: ''اے اللہ!گواہ رہ، اے اللہ! گواہ رہ''، تین بار آپ نے یہ کلمات دہرائے۔
اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر تکبیر کہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر تکبیر کہی تو عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان آپ نے کو ئی اور صلاۃ نہیں پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور اس مقام پر آئے جہاں عرفات میں وقوف کرتے ہیں، اور اپنی اونٹنی کا پیٹ جبل رحمت کی طرف کیا اور جبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ کھڑے ہوئے، اور سورج ڈو بنے تک مسلسل کھڑے رہے یہاں تک کہ تھوڑی زردی بھی جا تی رہی، جب سورج ڈوب گیا تو اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سواری پر بٹھا یا، پھر آپ عرفات سے چلے، اور قصواء کی نکیل کو کھینچے رکھا یہاں تک کہ اس کا سر کجا وے کی پچھلی لکڑی سے لگ جا یا کرتا تھا، اور اپنے داہنے ہاتھ کے اشارے سے فرما رہے تھے:'' لوگو! اطمینان اور آہستگی سے چلو'' ،جب آپ کسی ریت کے ٹیلے پر آتے تو قصواء کی نکیل تھوڑی ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ وہ چڑھ جا تی، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لا ئے، اور وہاں ایک اذان اور دو اقامت سے مغرب اور عشاء پڑھی اور ان کے درمیان کو ئی اور صلاۃ نہیں پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی، تو آپ نے فجر پڑھی جس وقت صبح پوری طرح واضح ہوگئی، پھر آپ قصواء پر سوار ہو ے، اور مشعر حرام (مزدلفہ میں ایک پہاڑ ہے)کے پاس آئے، اور اس پر چڑھے اور اللہ کی تحمید ، تکبیر اور تہلیل کرتے رہے، اور وہیںٹھہرے رہے یہاں تک کہ خو ب روشنی ہو گئی، پھر وہاں سے سورج نکلنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے، اور سواری پر فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، و ہ بہت بہترین بال والے گورے اور خوبصورت شخص تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور اونٹوں پر سوارعورتیں گزرنے لگیں، تو فضل انہیں دیکھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری طرف سے اپنے ہا تھ کا آڑ کر لیا تو فضل اپنا چہرہ پھیر کر دوسری طرف سے انہیں دیکھنے لگے، یہاں تک کہ آپ وادی محسر میں آئے، وہاں آپ نے سواری کو ذراتیز کیا، پھر آپ اس کے درمیان والے راستہ پر سے چلے جو تمہیں جمرہ عقبہ کی جا نب نکالتا ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے، (یعنی جمرہ عقبہ پر) اور سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پرآپ تکبیر کہتے تھے، اور کنکریاں ایسی تھی جو دونوں انگلیوں کے سروں کے درمیان آسکیں، وادی کے نشیب سے آپ نے کنکریاں ماریں، پھر آپ نحر کے مقام پر آئے، اور ۶۳اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر(ذبح) کیے ، اور پھر علی رضی اللہ عنہ کو دیا، اور باقی اونٹوں کا نحر انہوں نے کیا، انہیں بھی آپ نے اپنی ہدی میں شریک کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارے اونٹوں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لا نے کے لیے کہا، چنانچہ لا کر اسے ایک ہانڈی میں رکھ کر پکا یا گیا، پھر دونوں نے وہ گوشت کھا یا اور اس کا شوربہ پیا، پھر وہاں سے لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس آئے، اور مکہ میں صلاۃ پڑھی ۱۰؎ ، پھر خاندان بنی عبدالمطلب میں آئے، دیکھا تو یہ لو گ حا جیوں کو زمزم کا پا نی پلا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''عبدالمطلب کے بیٹو !نکا لو اور پلا ئو ۱۱؎، اگر یہ ڈر نہ ہو تا کہ تمہارے اس پلانے کے کام میں لوگ تم پر غالب آجائیں گے تو تمہارے ساتھ میں بھی نکالتا'' پھر لو گوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ڈول دیا آپ نے بھی اس میں سے پیا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی بڑھاپے کی وجہ سے آنکھ کی روشنی ختم ہو چکی تھی۔
وضاحت ۲؎ : بعض لوگوں نے یہ تعداد ۹۰ ہزار لکھی ہے اور بعض نے ایک لاکھ تیس ہزار کہا ہے۔
وضاحت ۳؎ : زمانہ جاہلیت میں تلبیہ " لبيك اللهم لبيك لا شريك لك" کے بعد "إلا شريكاً لك تملكه"بڑھا کر کہا جانا تھا۔
وضاحت ۴؎ : یعنی عمرہ کا ارادہ بالکل نہیں تھا یا عمرہ کو حج کے مہینوں میں جائز ہی نہیں سمجھتے تھے۔
وضاحت ۵؎ : اور مقام ابراہیم کو مصلی بنالو (سورۃ البقرہ: ۱۲۵)
وضاحت ۶؎ : پہلی رکعت میں " قل يا أيها الكافرون " پڑھی اور دوسری رکعت میں " قل هو الله أحد ".
وضاحت ۷؎ : ''مشعر حرام'' مزدلفہ میں ایک مشہور پہاڑی کا نام ہے اسے ''قزح'' بھی کہتے ہیں۔
وضاحت ۸؎ : زمانہ جاہلیت میں قریش مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے، عرفات نہیں جاتے تھے، اور باقی لوگ عرفات جاتے تھے، ان کا خیال تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش کی اتباع کریں گے لیکن آپ وہاں نہیں ٹھہرے اور عرفات چل دیئے۔
وضاحت ۹؎ : یعنی بغیر تمہاری اجازت کے کسی کو اپنے گھر میں آنے نہ دیں اور اس سے میل جو ل نہ رکھیں ۔
وضاحت ۱۰؎ : یہی راجح قول ہے اس کے برخلاف ایک روایت آتی ہے جس میں ظہر منیٰ میں پڑھنے کا ذکر ہے، علماء نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال سے پہلے طواف افاضہ کیا پھر مکہ میں اول وقت میں صلاۃ پڑھی پھر منیٰ واپس آئے تو وہاں صحابہ کرام fکے ساتھ ظہر پڑھی اور بعد والیصلاۃ آپ کی نفل ہوگئی۔
وضاحت ۱۱؎ : کیونکہ میں بھی عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں ،آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں بھی پانی نکا لنے میں لگ جاؤں تو لوگ اس کو بھی حج کا ایک رکن سمجھ لیں گے، اور اس کے لیے بھیڑلگادیں گے، اور ہر شخص پا نی نکا لنا چاہے گا، اور بھیڑ بھاڑکے ڈر سے تم اس خدمت سے علا حدہ ہو جا ئو گے، کیونکہ تم لوگوں سے لڑ نہیں سکوگے، اوروہ تم پر غالب آجائیں گے۔


3075- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، عَنْ عَاءِشَةَ؛ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لِلْحَجِّ عَلَى أَنْوَاعٍ ثَلاثَةٍ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ مَعًا، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مُفْرَدَةٍ، فَمَنْ كَانَ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ مَعًا، لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْئٍ مِمَّا حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ مَنَاسِكَ الْحَجِّ، وَمَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْئٍ مِمَّا حَرُمَ مِنْهُ، حَتَّى يَقْضِيَ مَنَاسِكَ الْحَجِّ، وَمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ مُفْرَدَةٍ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، حَلَّ مَا حَرُمَ عَنْهُ حَتَّى يَسْتَقْبِلَ حَجًّا۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۶۸۴)، وقد أخرجہ: (۶/۱۴۱) (حسن)
۳۰۷۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے تین صورتوں میں نکلے، ہم میں تین قسم کے لوگ تھے، کچھ لو گوں نے آپ کے ساتھ حج اور عمرہ دونوں کاتلبیہ پکارا، اور کچھ لو گوں نے حج افراد کا، اور کچھ لوگوں نے صرف عمرہ کا، جنہوں نے حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا تھا (یعنی قران کیا تھا) وہ حج کے سارے منا سک پورے کرلینے کے بعد حلال ہوئے، اور جس نے حج افراد کا تلبیہ پکارا تھا اس کا بھی یہی حال رہا، وہ بھی اس وقت تک حلا ل نہیں ہوا جب تک حج کے سارے مناسک پو رے نہ کر لیے، اور جس نے صرف عمرہ کا تلبیہ پکارا تھا وہ خانہ کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرکے حلا ل ہو گیا ، یہاں تک کہ (یوم الترویہ کو) نئے سرے سے حج کا احرام باندھا۔


3076- حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ،حَدَّثَنَا سُفْيَانُ؛ قَالَ: حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ثَلاثَ حَجَّاتٍ: حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ، وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَقَرَنَ مَعَ حَجَّتِهِ عُمْرَةً، وَاجْتَمَعَ مَا جَائَ بِهِ النَّبِيُّ ﷺ وَمَا جَائَ بِهِ عَلِيٌّ مِائَةَ بَدَنَةٍ، مِنْهَا جَمَلٌ لأَبِي جَهْلٍ، فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ، فَنَحَرَ النَّبِيُّ ﷺ، بِيَدِهِ ثَلاثًا وَسِتِّينَ، وَنَحَرَ عَلِيٌّ مَا غَبَرَ، قِيلَ لَهُ: مَنْ ذَكَرَهُ ؟ قَالَ: جَعْفَرٌ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔
* تخريج: حدیث جابر أخرجہ: ت/الحج ۶ (۸۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۲۶۰۶)، وحدیث ابن عباس تفرد بہ ابن ماجہ، تحفۃ الأشراف: ۶۴۸۵، ومصباح الزجاجۃ: ۱۰۶۸) (صحیح)
۳۰۷۶- سفیان ثوری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کئے ۱؎ ، دو حج ہجرت سے پہلے، اور ایک حج ہجرت کے بعد مدینہ سے آکر کیا، اس حج کے ساتھ آپ نے عمرہ کو بھی ملایا (یعنی قران کیا) اس حج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ جو اونٹ لے کر آئے تھے، اور جو علی رضی اللہ عنہ (یمن سے) لے کر آئے تھے سب ملا کر کل سو اونٹ تھے، جن میں سے ایک اونٹ ابو جہل کا بھی تھا، اس کی ناک میں چاندی کا ایک چھلہ تھا، ان میں سے ۶۳ اونٹوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے نحر کیا، اور جو باقی رہ گئے انہیں علی رضی اللہ عنہ نے نحر کیا،سفیان سے پو چھا گیا کہ یہ حدیث کس نے روایت کی ہے تو انہو ں نے کہا : جعفر صادق نے اپنے والد سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اور ابن ابی لیلیٰ نے حکم سے، حکم نے مقسم سے او ر مقسم نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس سے مقصد عمرہ ہے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ایک بارہی ادا کیا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
85- بَاب الْمُحْصَرِ
۸۵- باب: معذور حاجی (جو مناسکِ حج ادا نہ کرسکے ) کا بیان​


3077- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ عُلَيَّةَ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ أَبِي عُثْمَانَ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ، حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو الأَنْصَارِيُّ؛ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: " مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرَجَ فَقَدْ حَلَّ، وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَى فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ فَقَالا صَدَقَ "۔
* تخريج: د/الحج ۴۴ (۱۸۶۲، ۱۸۶۳)، ت/الحج ۹۶ (۹۴۰)، ن/الحج ۱۰۲ (۲۸۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۴، ۶۲۴۱، ۱۴۲۵۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵۰)، دي/المناسک ۵۷ (۱۹۳۶) (صحیح)
۳۰۷۷- حجاج بن عمر و انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:'' جس حاجی کی ہڈی ٹو ٹ جا ئے، یا لنگڑ ا ہو جا ئے، تو وہ حلال ہوجائے (احرام کھول ڈالے) اب اس پر دوسرا حج ہے'' ۱؎ ۔
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو ان دونوں نے کہا: حجا ج نے سچ کہا ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج وعمرہ کی نیت سے گھر سے نکلنے والے کو اگراچانک کوئی مرض لاحق ہوجائے تو وہ وہیں پر حلال ہوجائے گا لیکن اگریہ حج فرض ہوتو آئندہ سال اس کو حج کرنا ہوگا ۔


3078- حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ؛ قَالَ: سَأَلْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ عَمْرٍو عَنْ حَبْسِ الْمُحْرِمِ؟ فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: " مَنْ كُسِرَ أَوْ مَرِضَ أَوْ عَرَجَ، فَقَدْ حَلَّ، وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ "، قَالَ عِكْرِمَةُ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ عَبَّاسٍ وَأَبَا هُرَيْرَةَ فَقَالا: صَدَقَ، قَالَ عَبْدُالرَّزَّاقِ: فَوَجَدْتُهُ فِي جُزْئِ هِشَامٍ صَاحِبِ الدَّسْتُوَائِيِّ، فَأَتَيْتُ بِهِ مَعْمَرًا، فَقَرَأَ عَلَيَّ أَوْ قَرَأْتُ عَلَيْهِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۳۲۹۴، ۶۲۴۱، ۱۴۲۵۴) (صحیح)
۳۰۷۸- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ بن رافع کہتے ہیں کہ میں نے حجا ج بن عمرو رضی اللہ عنہ سے محرم کے رک جا نے کے متعلق پو چھا تو انہوں نے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے:'' جس شخص کی ہڈی ٹوٹ گئی، یا بیما ر ہو گیا، یا لنگڑا ہو گیا تو وہ حلا ل ہوگیا اور اس پر آئندہ سال حج ہے'' ۱؎ ۔
عکرمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث ابن عباس اور ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہم سے بیان کی تو انہوں نے کہا : حجاج نے سچ کہا۔
عبدالرزاق کہتے ہیں کہ مجھے یہ حدیث ہشام صاحب دستوائی کی کتاب میں ملی، تو اسے لے کر میں معمر کے پاس آیا، تو انہوں نے یہ حدیث مجھے پڑھ کر سنائی یا میں نے ا نہیں پڑ ھ کر سنائی۔
وضاحت ۱؎ : حدیث کا سماع دونوں طرح سے جائز ہے کہ استاد پڑھے ، اورشاگرد سنے یا شاگرد پڑھے اورا ستاد سنے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
86- بَاب فِدْيَةِ الْمُحْصَرِ
۸۶- باب: محصور کے فدیہ کا بیان​


3079- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ؛ قَالا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ؛ قَالَ : قَعَدْتُ إِلَى كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ {فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ}؛ قَالَ كَعْبٌ : فِيَّ أُنْزِلَتْ، كَانَ بِي أَذًى مِنْ رَأْسِي، فَحُمِلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: " مَا كُنْتُ أُرَى الْجُهْدَ بَلَغَ بِكَ مَا أَرَى، أَتَجِدُ شَاةً ؟ " قُلْتُ: لا، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ {فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ}، قَالَ: فَالصَّوْمُ ثَلاثَةُ أَيَّامٍ، وَالصَّدَقَةُ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينَ ، لِكُلِّ مِسْكِينٍ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ طَعَامٍ، وَالنُّسُكُ شَاةٌ۔
* تخريج: خ/المحصر ۵ (۱۸۱۴)، ۶ (۱۸۱۵)، ۷ (۱۸۱۶)، ۸ (۱۸۱۷)، المغازي ۳۵ (۴۱۵۹)، تفسیر البقرۃ ۳۲ (۴۵۱۷)، المرضیٰ ۱۶ (۵۶۶۵)، الطب ۱۶ (۵۷۰۳)، الکفارات ۱ (۶۸۰۸)، م/الحج ۱۰ (۱۲۰۱)، ت/الحج ۱۰۷ (۹۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۲)، وقد أخرجہ: د/الحج ۴۳ (۱۸۵۶)، ن/الحج ۹۶ (۲۸۵۴)، ط/الحج ۷۸ (۲۳۷)، حم (۴/۲۴۲، ۲۴۳) (صحیح)
۳۰۷۹- عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ میں مسجد میں کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تو میں نے ان سے آیت کریمہ : {فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ} (سورۃ البقرۃ : ۱۹۶) کے متعلق پو چھا تو آپ نے کہا کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے، میرے سر میں تکلیف تھی تومجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس حال میں لا یا گیاکہ جوئیں (میرے سر میں اتنی کثرت سے تھیں کہ) میرے منہ پر گر رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :'' میں نہیں سمجھتا تھا کہ تمہیں اس قدر تکلیف ہو گی، کیا ایک بکری تمہیں مل سکتی ہے '' ؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تب یہ آیت اتری: {فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ} یعنی فدیہ ہے صوم کا یا صدقہ کا یا قربانی کا، تو صوم تین دن کا ہے، اور صدقہ چھ مسکینوں کو کھانا دینا ہے، ہر مسکین کو آدھا صاع، اور قربانی ایک بکری کی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : محرم جب کو ئی غلطی کر بیٹھے تو ان تینوں کفارات میں سے جو ادا کر سکے کرے۔


3080- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ نَافِعٍ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ؛ قَالَ: أَمَرَنِي النَّبِيُّ ﷺ حِينَ آذَانِي الْقَمْلُ أَنْ أَحْلِقَ رَأْسِي، وَأَصُومَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أُطْعِمَ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، وَقَدْ عَلِمَ أَنْ لَيْسَ عِنْدِي مَا أَنْسُكُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۱۸) (حسن)
۳۰۸۰- کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس وقت جو ئوں نے مجھے پریشان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنا سرمنڈوا ڈالوں، اور تین دن صوم رکھوں، یا چھ مسکینوں کو کھا نا کھلاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جا نتے تھے کہ میرے پاس قربانی کے لیے کچھ نہیں ہے۔
 
Top